۲۶ ستمبر کو دنیا بھر میں عارضہ قلب کا عالمی دن منایا جا رہا تھا۔ ملک بھرمیں اس بیماری کے علاج اور تدارک کے لیے عوام میں شعور بیدا ر کرنے کی مہم جاری تھی اور ٹیلی ویژن کے چینلز پر رپورٹرز بیماری سے متاثرہ افراد کی زندگیوں پر اور ڈاکٹرز کی ہدایات پر رپورٹس پیش کر رہے تھے۔ میں بھی جیو نیوز پر عارضہ قلب کے حوالے سے ایک رپورٹ دیکھنے میں مصروف تھا کہ اچانک موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ ایک میسج پڑھا توپاؤں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے سابق صدر اور معروف مذہبی اسکالر ڈاکٹر محمود احمد غازی حرکت قلب بندہونے کی وجہ سے انتقال کر گئے ہیں۔ ان کی نماز جنازہ دو پہر دو بجے ایچ الیون قبرستان میں ادا کی جائے گی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ میں نے اس خبر کی تصدیق کے لیے دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ڈائریکٹر اور فیصل مسجد اسلام آباد کے خطیب پروفیسر ڈاکٹر صاحبزادہ ساجد الرحمن صاحب کو فون کیا تو انہوں نے انتہائی دکھی انداز میں اس خبر کی تصدیق کی۔ میں نے کئی لوگوں کو اس افسوسناک خبر کے پیغامات بھیجے۔ شیخ زایداسلامک سنٹر جامعہ پشاور کے ڈائریکٹر اور میر ے استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد خان صاحب نے فون پر کیا خوب بات کہی کہ ان کی سمجھ میں آ گیا ہے کہ عالم کی موت پورے جہاں کی موت کیسے ہوتی ہے! ان کا کہنا تھا کہ ان کی گزشتہ ہفتہ ڈاکٹر غازی صاحب سے فون پر بات ہوئی جس میں انہیں شیخ زاید اسلامک سنٹر میں ’’خطبات خیبر‘‘ کے نام سے دس روزہ لیکچر دینے کی دعوت دی گئی جو انہوں نے قبول کرلی تھی۔
ان کی گفتگو مجمع کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی تھی۔ ان کی فکر قرآن کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی اور ان کی سیرت میں اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جھلکتا تھا۔ کتب احادیث ، تاریخ اور فقہ کے حوالے انہیں ازبر تھے۔ جن لوگوں نے انہیں سنا ہے، وہ جانتے ہیں کہ وہ گفتگو کے اسلوب وہنر اور زبان وبیان کی خوبیوں سے بدرجہ کمال آشنا تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد غازی ۱۸؍ستمبر ۱۹۵۰ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدین کا تعلق حضرت اشرف علی تھانویؒ کے گاؤں تھانہ بھون ہندوستان سے تھا۔ آپ کے والد محمد احمد دفتر خارجہ میں ملازمت کرتے تھے۔ تقسیم کے بعد کراچی آئے، تاہم ملازمت کے سلسلے میں انہیں اسلام آباد منتقل ہونا پڑا۔ کراچی میں ڈاکٹر محموداحمد غازی مدرسہ عربیہ بنوری ٹاؤن کراچی میں درجہ خامسہ تک مولانا یوسف بنوریؒ کے شاگرد رہے، تاہم والد کے اسلام آباد منتقل ہوجانے کے بعد وہ راولپنڈی میں شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان کے قائم کردہ ادارے تعلیم القرآن راجہ بازار راولپنڈی میں داخل ہو گئے اور یہیں سے دورہ حدیث کیا۔ دینی علوم کے بعد آپ نے عصری تعلیم کا رخ کیا۔ انہوں نے باقاعدہ اسکول نہیں پڑھا۔ میٹرک، ایف اے، بی اے، ایم اے کے امتحانات پرائیویٹ دیے۔ ڈاکٹر غازی بچپن سے ہی کتابیں پڑھنے اور تعلیم کے حصول میں مگن رہے۔ آپ کے بھائی ڈاکٹر محمد الغزالی نے بتایا کہ انہیں کھیل کود سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی اور عمر بھر پڑھنے لکھنے کی دھن میں مگن رہے۔ آپ نے شاہ ولی اللہ کی معاشی تعلیمات اور فلسفے کی نشاۃ ثا نیہ پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا۔ آپ عربی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی، جرمن اور اردو پر عبور رکھتے تھے۔
آپ کی عربی زبان میں مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ ’’مجمع اللغۃ العربیۃ‘‘ کے تاحیات رکن رہے۔ اس سے قبل یہ اعزاز بھارتی عالم اورندوۃ العلماء کے سابق مہتمم سید ابوالحسن ندویؒ کے پاس رہا۔ امام کعبہ ۱۹۷۵ء میں پاکستان تشریف لائے تو ۲۵ سالہ ڈاکٹر غازی ان کے مترجم تھے ۔ امام کعبہ نے کہا کہ میری بات کو جتنی بہتر انداز میں محمود غازی بیان کر رہے ہیں، اتنا میں خود بھی نہیں کر پاتا۔ آپ نے اسی سال لیبیا میں ہونے والی عالمی سربراہی کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔
ڈاکٹر غازی نے علامہ اقبالؒ کی شاعری کا عربی میں ترجمہ کیا اور ’’ پس چہ باید کرد،اے اقوام شرق‘‘ کے نام سے کتابیں لکھ کر فکر اقبالؒ کو عام فہم بنایا۔ آپ نے ۲۵ سے زائد کتابیں لکھیں۔ محاضرات قرآن، محاضرات حدیث، محاضرات سیرت، محاضرات فقہ، محاضرات معیشت وتجارت سمیت کئی موضوعات پر خصوصی لیکچر دیے جو کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں۔ آخری ایام میں وہ شیخ زاید اسلامک سنٹر جامعہ پشاو رکی دعوت پر ’’خطبات خیبر‘‘ کے نام سے لیکچرز دینے کی تیاری کر رہے تھے۔ میں نے انہیں عالمگیریت ، اسلامی معیشت وتجارت سمیت کئی موضوعات پر سنا۔ وہ گھنٹوں گفتگو کرتے اور سننے والے سنتے رہتے۔ اسلام آباد میں قائم مسلم تھنکرز فورم کے وہ مستقل خطیب اور سرپرست تھے اور ہمیشہ کلیدی خطاب انہی کا ہوتا تھا۔ وہ مختصر وقت میں گفتگو کا حق ادا کر دیتے تھے۔ ڈاکٹر صاحبزادہ ساجدالرحمن کے مطابق پاکستان میں عہد حاضر کی وہ غیر متنازعہ شخصیت تھی جوتمام مسالک و مکاتب فکر میں یکساں مقبول اور قابل احترام سمجھی جاتی تھی۔ ان کی وفات سے پاکستان کا نہیں، عالم اسلام کا نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے زندگی بھر کبھی تعصب کا مظاہرہ نہیں کیا۔ صاحبزادہ ساجدالرحمن صاحب کہتے ہیں کہ وہ بگھار شریف کہوٹہ کئی مرتبہ آئے اور عرس کی تقریب سے خطاب بھی کیا۔ وہ مکتب دیوبند سے وابستہ تھے، لیکن تمام مکاتب فکر کا احترام کرتے اور اپنے تلامذہ کو بھی ادب واحترام کا درس دیتے۔ بھیرہ شریف کے جسٹس پیر کرم شاہ الازہریؒ کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے۔ پیر صاحب جب اسلام آباد آتے ، غازی صاحب سے ضرور ملتے۔ کئی مرتبہ غازی صاحب بھیرہ شریف گئے اور عرس کی تقریب سے خطاب بھی کیا۔ وہ اعتدال پسند انسان تھے ،ان میں جدت بھی تھی اور روایت پسندی بھی ۔ چہرے پر چھوٹی چھوٹی داڑھی، خوبصورت چشمہ، پینٹ کوٹ اورشرٹ سے ملتے رنگ کی نکٹائی، وہ وجیہ بھی تھے اور نفیس بھی۔ وہ صدی کے انسان تھے جنہیں صدیوں یاد رکھا جائے گا۔
ڈاکٹر غازی صاحب فیصل مسجد اسلام آباد کے خطیب رہے ، ادارہ تحقیقات اسلامی میں پروفیسر اور دعوہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر بھی رہے۔ اس کے علاوہ اپنے ادبی ذوق کی بنا پر کئی مجلوں کے ایڈیٹر بھی رہے۔ دنیا بھر میں کئی تحقیقی مجلات میں ان کے مضامین کو نمایاں طور پر شائع کیا جاتا ۔ اخبارات اورعلمی جرائد اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ڈاکٹر غازی نے ان کے لیے خصوصی طور پر کوئی مضمون لکھا ہے۔ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر رہے، سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے جج رہے۔ جب صدر مشرف کی پہلی کابینہ میں انہیں اصرار کے ساتھ وفاقی وزارت مذہبی امور کا منصب سونپا گیا توان کے بھائی کا کہنا تھا کہ قوم آج ایک اچھے استاد سے محروم ہو گئی۔ صدر مشرف نے جب پاکستان میں ہوائی اڈے امریکی فوج کو دینے کی کوشش کی تو آپ نے اس فیصلے کی بھرپور مخالفت کی اور کہا کہ یہ غلط فیصلہ ہوگا جس کے نتائج خطرناک ہوں گے۔ وہ آمرانہ مزاج سے ہم آہنگ نہ ہو سکے اور مشرف کی کابینہ سے مستعفی ہوگئے۔ وہ دینی مدارس کے نصاب میں تبدیلی کے خواہاں تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ نصاب وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں، اس لیے وہ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے قیام کے لیے متحرک ہو گئے تاہم ان کی وزارت سے علیحدگی کے بعد ان کا یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر اور بعد میں چیئرمین بھی رہے۔ عہدے ان کے پیچھے دوڑتے رہے اور وہ علم وعمل کے پیچھے دوڑتے رہے۔ وہ کئی بینکوں کے شرعی بینکاری بورڈ کے ڈائریکٹر اور ایڈوائزر بھی رہے۔
۲۶؍ ستمبر کی شب ۱۱ بجے انہیں دل کی تکلیف ہوئی تو انہیں پمز ہسپتال لے جایا گیا۔ نماز فجر کے وقت جب ان کی طبیعت سنبھلی تو انہوں نے وضو کیا اور نماز فجر ادا کی۔ زندگی کا آخری سجدہ ادا کرنے کے بعد انہوں نے اپنے ہاتھ خدا کے حضور دارز کیے۔ آٹھ بج رہے تھے کہ انہوں نے پاکیزہ لبوں پر کلمہ شہادت سجایا، نم آنکھوں کے ساتھ خدا کے حضور جبین جھکائی اور ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد اپنی جان، جان کے خالق کے ہاتھ میں دے دی۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ انہوں نے اپنے پسماندگان میں ۵ بیٹیاں اور ایک بیوہ چھوڑی۔ اللہ ان کے خاندان پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل کرے اور انہیں صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین۔
صدر آصف علی زرداری ، وزیر اعظم سید یوسف گیلانی ، اسپیکر ، ڈپٹی اسپیکر، آرمی چیف سب نے ان کے انتقال پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا اور ان کی خدمات کو شاندار الفاظ میں سراہا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ، اور وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس آغا رفیق نے ڈاکٹر غازی کی وفات کوعلمی، ادبی، فکری اور تحقیقی حلقوں کے لیے بہت بڑا نقصان قرار دیتے ہوئے ان کی روح اور درجات کی بلندی کے لیے ان کے گھر آکر دعا کی۔
ڈاکٹر غازی کی نماز جنازہ میں ملک بھر سے مختلف مسالک کے جید علماء کرام، صاحبان علم ودانش، صوفیا، علما، طلبہ وطالبات ، پارلیمان کے اراکین ،سرکاری عمال الغرض سبھی شریک تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے راجہ ظفر الحق ، سینیٹر پروفیسر خورشید احمد، سینیٹر محمدخان شیرانی سمیت سابق اراکین پارلیمنٹ ، سپریم کورٹ ، ہائی کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے ججوں ،اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران، کئی ممالک کے طلبہ اور علما، مصر اور سعودی سفارت خانے کے اہل کاروں کے علاوہ دینی رہنماؤں اور کئی جامعات کے وائس چانسلرز نے بھی ان کے جنازہ ، تدفین اور دعا میں شرکت کی۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے صدر، ڈاکٹرانوار حسین صدیقی نے شدید علالت کے باوجود جنازے اور تدفین کے عمل میں شرکت کی۔ ڈاکٹر ذاکر اے نائیک، مفتی محمد تقی عثمانی، مفتی رفیع عثمانی، سید عدنان کاکاخیل، مولانا محمد زاہد، مفتی محمد نعیم، مولانا فضل الرحمان، مولانا سمیع الحق، مولانا محمد احمد لدھیانوی، ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں، ڈاکٹر ایس ایم زمان، سجاد افضل چیمہ، میاں نواز شریف، احسن اقبال، جسٹس فدا محمد، صدیق الفاروق سمیت دنیا بھر کے کئی اہم شخصیات نے ان کی وفات پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا اورانہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ مسلم ہینڈز پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر سید ضیاء النور شاہ کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر غازی کے وجود سے انسانیت کی خوشبو آتی تھی۔ ہر طرف سے نفرت وتعصب کی آوازیں بلند ہوتی تھی، لیکن ڈاکٹر غازی نے سب کو جوڑ کر رکھا ہوا تھا۔ پیر سید امین الحسنات شاہ صاحب نے کہاکہ ان کی و جہ سے لوگ جڑے ہوئے تھے اور نفرتوں کی دیواریں بلند نہیں ہوپاتی تھی۔ ڈاکٹر غازی کے انتقال سے عالم اسلام ایک جلیل القدر علمی اور تحقیقی شخصیت سے محروم ہو گیا ہے۔ ان کے علمی کمال کی خوشبو انسانوں کے ذہنوں اور دماغوں کو معطر ومنور رکھے گی۔ ان کی قبر پر کھڑے اچانک میں نے سامنے دیکھا تو مجھے فیصل مسجد نظر آئی اور دائیں طرف دیکھا تو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کی عمارت تھی۔ یہ وہ مقامات ہیں جنہیں ڈاکٹر غازی نے اپنے خون پسینے کی محنت سے سینچا تھا اور آج یہ گلشن مہک رہے ہیں۔
(بشکریہ ’’قیام‘‘ اسلام آباد، نومبر / دسمبر)