مجھے یاد نہیں کہ محمود غازی کو میں نے پہلی بار کہاں دیکھا، کہاں سنا، لیکن اتنا یاد ہے کہ علوم الاسلامیہ کے ایک ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے میں نے بر صغیر پاک وہھند کی جن علمی شخصیات کی تصنیفات و تالیفات سے سب سے زیادہ استفادہ کیا، ان میں محمود غازی صاحب کا اسم گرامی سر فہرست ہے۔ ان کے جاری کردہ سر چشمہ علم سے فیض یاب ہونے کی بنا پر میری شدید خواہش تھی کہ اپنے ان دیکھے روحانی استاد کی زیارت سے آنکھیں ٹھنڈی کرنے کا موقع جلد سے جلد حاصل کرلوں۔ آخر وہ دن آہی گیا۔ میں اس وقت شیخ زاید اسلامک سنٹر پشاور یونیورسٹی میں لیکچرر تھا اور میرے استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر سعید اللہ قاضی نے مجھے نصیحت کے طور پر فرمایا تھا کہ علما اور اسکالرز کے لیکچرز اور سیمینارز وغیرہ سے جب اور جہاں موقع ملے، خوب خوب استفادہ کیا کرو کہ سیمینارز کے محاضرات میں علما و فضلا کئی کتب کا نچوڑ بہت مختصر وقت میں پیش کرتے ہیں۔ اس جذبے اور تڑپ کو دل میں سمائے ہوئے میری کوشش ہوتی تھی کہ پشاور شہر میں کہیں بھی کسی عالم فاضل شخصیت کا ورود سعید ہو تو میں پہنچ جاؤں۔
ایک دن میرے ایک عزیز دوست نے مجھے وہ خوشخبری سنائی جس کے لیے میں ایک مدت سے انتظار میں تھا۔ محمود غازی کو جامعہ پشاور کی تنظیم اساتذہ کے منتظمین نے لیکچر کے لیے مدعو کیا تھا۔ میں مقررہ جگہ پر پہلی فرصت میں پہنچ کر یہ سوچتا رہا کہ وفور شوق ملاقات کا تقاضا ہے کہ محمود غازی کی آمد پر میرا دل زور سے دھڑکے اور وہی ہوا۔ جونہی اسٹیج سیکرٹری نے اعلان کیا کہ ہمارے مہمان گرامی پہنچ چکے ہیں، میں نے ہال کے گیٹ کی طرف نگاہ اٹھائی۔ میانے قدو قامت کی ایک شخصیت سفید اجلے کپڑوں اور سیا ہ شیروانی میں ملبوس سر پر ملائی (ملائشیا) طرز کی سیاہ ٹوپی پہنے تین چار پروفیسروں کے جھرمٹ میں ہال میں داخل ہو رہی تھی۔ غازی صاحب جب اسٹیج پر تشریف فرما ہوئے تو بلا مبالغہ میں کافی دیر تک آپ کے سراپے کا جائزہ لے لے کر آپ کی پڑھی ہوئی تحریروں میں آپ کو دیکھتا، تولتا اور جانچتا رہا۔ میں یہاں اس بات کا بھی ذکر کرتا چلوں کہ عام طور پر یہ کہاجاتا ہے کہ جن کی تحریروں سے کوئی متاثر ہوجائے، ان سے ملاقات کی کوشش نہ کی جائے تو بہتر ہوتا ہے۔ یہ خوف دل میں رکھتے ہوئے لیکچر کے بعد غازی صاحب سے مصافحہ کے لیے احباب آگے بڑھے تو میری باری بھی آگئی۔ میں نے معانقہ کے لیے ہاتھ پھیلائے تو آپ نے اسی گرم جوشی کے ساتھ بزرگانہ شفقت فرمائی۔اس واقعہ کو کئی عشرے گزر چکے ہیں، لیکن جب بھی ان کی یادیں میرے قلب وذہن کا احاطہ کرتی ہیں تو آپ کا وہی اجلا سراپا میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور لاشعور سے ایک آواز سی اٹھتی محسوس ہوتی ہے کہ ’’رفتید ولے نہ از دل ما‘‘۔
فیض کے اس آفاقی شعر کا پہلا مصرعہ : ’’اے ہم نفسانِ محفل ما‘‘ اس لیے نہ لکھ سکا کہ ہم اتنے خوش قسمت کہاں ٹھہرے کہ محمود غازی کی محفل کے ہم نفس ہونے کا دعویٰ کریں۔ بہرحال اس پہلی ملاقات کے بعد محمود غازی صاحب جب بھی پشاور آتے، ملاقات کی سعادت حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتا، لیکن چونکہ آپ ایک مصروف ترین عالمی علمی شخصیت تھے، لہٰذا ملاقات عموماً برسوں بعد ہوتی۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ کم ملاقاتوں کے باوجود ان کے ذہن کی لوح پر ایک کونے میں مجھ جیسے غریب العلم کا نام بھی کندہ ہو گیا تھا اور یہ یقیناًان کی عظمت تھی۔
میں عمداَ محمود غازی کے علمی کارناموں کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، اس لیے کہ مجھے معلوم ہے کہ پاکستان بھر کی علمی شخصیات نے اس کام کو بطریقہ احسن پایہ تکمیل تک پہنچایا ہوگا، لیکن اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ آپ نے اپنی حیات مستعار و مختصر میں کچھ کام ایسے انداز میں کیے کہ شاید ہی کوئی دوسرا آپ کے بعد کر سکے۔ عالم اسلام میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے بعد اپنے لیکچرز وخطبات کے ذریعے جس شخصیت نے عالم اسلام کے طالبان علم کو اپنی طرف کھینچا، وہ محمود غازی ہی تھے۔ آپ نے ’’محاضرات‘‘ کے نام سے سیرت، معاشیات، فقہ اور حدیث پر جو علمی ذخیرہ امت مسلمہ کے لیے چھوڑا ہے، وہ یقیناًخیر کثیر اور آپ کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ آپ کا دوسرا کارنامہ یہ کہ آپ صدر پرویز مشرف جیسی Persona non grata کی کابینہ کے ان ایام میں حصہ بنے جب یہ کام ’’آبیل مجھے مار‘‘ کے مصداق تھا۔ سنجیدہ علمی حلقوں میں آپ کے اس فیصلے پر تنقید بھی ہوئی اور اسے حب جا ہ و اقتدار سے بھی تعبیر کیا گیا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پرویز مشرف کے دور میں عالمی طاقتوں کی طرف سے جتنا دباؤ منبر و محراب اور مدارس و اسلامی شعائر پر تھا، اس کا حکمت کے ساتھ مقابلہ کرنے، تدبیر و تدبر کے ساتھ اسے ناکام کرنے اور مدارس کی حفاظت کے لیے محمود غازی نے جو کردار ادا کیا، اس کا اندازہ مستقبل کا غیر جانب دار مورخ صحیح طور پر کر سکے گا۔ اس کا ثبو ت یہ بھی ہے کہ جونہی وہ سخت مرحلہ گزر گیا، آپ نے خود ہی استعفا پیش کر دیا۔ پاکستان کے بعض جید علماء کو اس کا احساس بھی تھا اور اندازہ بھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب غازی صاحب نے وزارت سے استعفا دیا تو محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب نے آپ کو اپنے مشن کی بخوبی تکمیل پر مبارک باد پیش کی جس کے جواب میں محمود غازی نے فرمایا کہ لوگ تو مجھ پر تنقید کررہے ہیں اور آپ مبارک باد دے رہے ہیں۔ مولانا صاحب نے فرمایا، جو آپ کے مشن سے واقف ہیں، وہی مبارک باد دے سکتے ہیں۔
تیسر ا بڑا کام یہ کہ آپ کا دل امت کی معاشی زبوں حالی پر تڑپتا تھا۔ آپ نے امت مسلمہ کو بالعموم اور مملکت خداداد کو بالخصوص سودی معیشت سے نجات دلانے کے لیے محاضرات معیشت پیش کرنے کے علاوہ اسلامی بینکاری کے فروغ سے متعلق اہم کردار ادا کیا۔ آپ نے جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں اس کے لیے قانون سازی سے لے کر عملی نفاذ تک دن رات محنت کی، لیکن اس کے باوجود جب ۱۹۸۵ء کے الیکشن کے بعد اس اہم کام کی طرف دین دار طبقے نے بھی توجہ نہیں کی تو محمود غازی صاحب اس کا ذکر ادب کا دامن ہاتھ میں تھامے، لیکن بہت ترش روئی کے ساتھ اور تیکھے انداز میں کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر جناب صبغت اللہ صاحب کے دستخط سے ۱۰ جون ۱۹۸۴ء کو ایک سر کیولر جاری ہوا جس کے مطابق یکم جولائی ۱۹۸۴ء سے تمام بینک اپنے کاروبار کو اسلامی بینکنگ میں تبدیل کرنا شروع کردیں گے اور یکم جولائی ۱۹۸۵ء سے مکمل طور پر اسلامی بینکاری شروع ہو جائے گی۔ پھر کسی کو غیر اسلامی بینکاری کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن اس نئے نظام پر مکمل عمل درآمد کا آغاز ہونے سے پہلے مارچ ۱۹۸۵ء میں انتخابات ہوگئے اور جمہوریت کی نیلم پری آگئی اور لوگ اس سے بغل گیر ہو گئے۔ ہمارے علماء کرام اور اسلامی اور دینی جماعتوں کے ارکان بھی جمہوریت کی اس نیلم پری کے استقبال میں مگن ہوگئے۔ سب اہل دین، اہل جبہ و دستار اور احیاے اسلام کے علم بردار بھی، تجدید کے علم بردار بھی سب اس اصلی کام کو بھول گئے اور جمہوریت کے احیا میں تن من دھن سے مصروف ہوگئے۔ غالب نے کہا ہے نا آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے ۔ جب میں اس داستان کو بیان کرتاہوں تو میرے دل میں بھی درد سوا ہوجاتا ہے، اس لیے میری زبان میں تھوڑی سی تلخی آجاتی ہے۔‘‘
عالم اسلام کے امیر ممالک کی دولت کے انبار کو نالیوں میں بہتے اور امریکی تجوریوں میں منتقل ہوتے دیکھ کر اور اوپر سے ۱۹۸۲ء میں بنائے جانے والے ایک امریکی قانون کا حوالہ دیتے ہوئے جس کے مطابق اگر کسی غیر ملکی کی امریکی بینکوں میں دس ملین ڈالر سے زیادہ رقم جمع ہو تو وہ اس سے سال میں دو فیصد سے زیادہ نہیں نکال سکتا، غازی صاحب پر کیا گزرتی ہے۔ ذرا ملاحظہ کیجیے:
’’اس امریکی قانون کو پڑھ کر مجھے فوراً ایک دھچکا سا لگا کہ یہ تو میرے مسلمان بھائیوں کی دولت کھا جانے کا اور لوٹنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے مجھے بڑا صدمہ ہوا۔ میں نے اس قانون کا متن بہت تگ و دو کر کے حاصل کیا۔ اس کا عربی ترجمہ کیا، ایک مذکرہ تیار کیا اور ایک یادداشت اس موضوع پر لکھی۔ اس میں ان حضرات سے گزارش کی (ان حضرات سے جن کے ملکوں کی دولت وہاں جمع ہے) کہ آپ کی جتنی بھی دولت اس وقت وہاں جمع ہے، اس سے دو فیصد سے زیادہ تو آپ کبھی بھی نکال نہیں سکتے۔ اگر نکالیں گے تو آپ کی ساری دولت قانون کے مطابق منجمد ہوکر ضائع ہو جائے گی۔ کم از کم آپ اتنا تو کرسکتے ہیں کہ آئندہ آپ اپنی دولت وہاں جمع نہ کروائیں اور جو جمع ہے، اس کو کم از کم ڈیڑھ پونے دو فیصد سالانہ کے حساب سے نکالتے رہیں۔ اس طرح ساٹھ پینسٹھ سال کے عرصے میں امید ہے کہ آپ اپنی دولت واپس لے سکیں گے۔ یہ سب کچھ میں نے بڑی محنت سے لکھا۔ اس زمانے میں نہ کمپیوٹر ہوتے تھے، نہ فوٹو سٹیٹ مشینیں آسانی سے دستیاب ہوتی تھیں۔ بہت بھاگ دوڑ کرکے، بڑی محنت سے اس یاد داشت کو بہت خوبصور ت ٹائپ کرایا اور پھر سات آٹھ ملکوں کے سفارت خانوں کو ان کے ذریعے وہاں کے حکمرانوں کو بھیجا، لیکن کسی ایک نے بھی جواب نہ دیا۔ کہیں سے یہ رسید بھی نہیں آئی کہ تمھارا خط مل گیا ہے۔ کسی کے سیکرٹری یا چپڑاسی کی طرف سے بھی یہ اشارہ تک نہیں ملا کہ آپ کا خط مل گیا ہے، شکریہ! ‘‘
اس مثال سے آپ اندازہ لگائیے کہ ہمارے بھائیوں کی کتنی دولت وہاں جمع ہے اور مغربی بینکوں کا نظام کیسے چل رہا ہے اور اس بارے میں ان ممالک کے حکمرانوں کے سوچنے کا انداز کیا ہے اور امت مسلمہ کے مستقبل سے ان کی کس قدر ذہنی و فکری وابستگی ہے۔ میرے ساتھ ان کی آخری ملاقات پشار کے موضع حسن گڑھی میں ان کے ایک قریبی رشتہ دار کے جنازے پر ہوئی۔ ظہر کے نماز میں مجھے ان کے ساتھ قیام و قعدے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس ملاقات میں میرے ساتھ سال ڈیڑھ سے کیے ہوئے وعدے کی تجدید بھی ہوئی۔ میری شدید خواہش تھی کہ شیخ زاید اسلامک سنٹر پشاور یونیورسٹی کے آڈیٹورم میں ’’جہاد و دہشت گردی میں فرق عصر حاضر کے تناظر میں‘‘ کے عنوان پر آپ سے ’’خطبات خیبر‘‘ دلوا کر امت کی راہنمائی کا وسیلہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ خطبات الہ باد، خطبات مدراس اور خطبات بہاول پور کی فہرست میں شامل ہوا جائے۔ یہ اہم کام مارچ ۲۰۱۱ء میں شروع ہونا تھا، لیکن اللہ کو منظور نہ تھا۔ اب یہ استدعامولانا زاہد الراشدی صاحب سے کرچکا ہوں۔ اللہ کرے کہ جلد پایہ تکمیل کو پہنچے۔ آخری بات یہ کہ عقیدۂ ختم نبوت کے سلسلے میں آپ کی مساعی اہل علم سے پوشیدہ نہیں۔ آپ کے اس اہم ترین کام کے آثار جنوبی افریقہ تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ سب کچھ آپ کی مغفرت کے لیے قبول فرمائے ۔ آمین ثم آمین۔
برتر از اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی