(۳ اکتوبر ۲۰۱۰ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں اور ۱۹؍ دسمبر ۲۰۱۰ء کو جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد میں ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کی یاد میں منعقد کی جانے والی تعزیتی نشستوں میں جو گفتگو کی گئی، انھیں یکجا کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ مدیر)
بسم اللہ الرحمان الرحیم۔ نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم اما بعد!
آج کی نشست، جیسا کہ آپ حضرات کو معلوم ہے، دینی علوم کے ماہر، محقق، اسکالر اور دانشور ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یادمیں منعقد کی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اپنی حکمتوں کے مطابق اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔ یہ نشست ہمارے پروگرام کے مطابق ڈاکٹر محمود احمد غازی کے افکار اور نتائج فکر سے مستفید ہونے کے لیے منعقد کی جانی تھی۔ اس سے پہلے جنوری ۲۰۰۵ء میں ڈاکٹر صاحب یہاں تشریف لائے تھے اور اہل علم کی ایک نشست میں نہایت ہی پرمغز گفتگو فرمائی تھی۔ اس کے بعد پھر کوئی ایسا موقع نہ بن سکا کہ وہ تشریف لاتے۔ رمضان المبارک میں ہم نے ڈاکٹر صاحب ؒ سے گزارش کی کہ وہ ’’دینی مدارس میں قرآن مجید کی تدریس کے تقاضے ‘‘ کے حوالے سے مجوزہ سیمینار میں اپنے نتائج فکر سے حاضرین کو مستفید کرنے کے لیے تشریف لائیں تو کمال عنایت سے انہوں نے یہ دعوت قبول کر لی اور اپنی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے اتوار کا دن مقرر کیا، لیکن اللہ تعالیٰ کے اپنے قضا وقدر کے فیصلے ہوتے ہیں۔ آج کی نشست میں ان سے مستفید ہونا مقدر میں نہیں تھا۔ چنانچہ ہم نے اس نشست کو ڈاکٹر صاحب ؒ کی یاد میں ایک تعزیتی نشست میں تبدیل کر دیا۔ اس سلسلہ میں جناب مولانا مفتی محمد زاہد صاحب نے پہلے ہی تشریف لانا تھا۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر شہزاد اقبال شام صاحب سے گزارش کی گئی جن کی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کافی عرصہ سے رفاقت رہی ہے۔ وہ بھی تشریف لائے ہیں۔ میں ان کا اور اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے تشریف لانے والے دوسرے مہمانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی شخصیت، تعلیم وتحقیق میں ان کے مقام و مرتبہ اور ان کی خدمات کے تنوع اور وسعت پر تفصیل کے ساتھ ہمارے مہمانان گرامی گفتگو کریں گے۔ ویسے بھی مجھے ذاتی طورپر ڈاکٹر صاحب کو زیادہ قریب سے دیکھنے یا ان سے استفادہ کرنے کا موقع نہیں ملا، البتہ چند تاثرات کا اظہار میں ضرور کرنا چاہوں گا۔
چند سال قبل دعوہ اکیڈمی اسلام آباد میں ڈاکٹر صاحب کی سادگی اور تواضع کا ایک نمونہ دیکھنے کو ملا۔ دعوہ اکیڈمی نے ’’دینی صحافت‘‘ کے حوالے سے ایک ورک شاپ میں مختلف دانشوروں اور علماء کرام کو بلایا۔ والد صاحب کے ہمراہ میں بھی گیا ہوا تھا۔ پروگرام کے بعد کھانے کی میز پر والد گرامی کھانا کھا رہے تھے کہ اس دوران میں انھیں پانی کی ضرورت محسوس ہوئی لیکن پانی میز پر نہیں تھا۔ ڈاکٹر صاحبؒ نے محسوس کر لیا کہ وہ پانی پینا چاہتے ہیں مگر میز پر پانی نہیں ہے۔ اسی وقت فوراً لپک کر گئے اور پانی کا گلاس بھر کر مودبانہ طریقہ سے ان کے سامنے رکھ دیا۔
علمی حوالے سے آپ دیکھیں تو اگر ان کے مقالات، محاضرات اور مضامین کو جمع کیا جائے تو وہ سیکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ ان کی کتابوں کی اشاعت کرنے والے حضرات بتاتے ہیں کہ کبھی بھی ڈاکٹر صاحبؒ نے اپنی لکھی ہوئی تحریروں کو جمع کر کے چھاپنے اور منظر عام پر لانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ غالباً وہ اپنی تحریریں اپنے پاس محفوظ رکھنے کا بھی کوئی خاص اہتمام نہیں کرتے تھے۔ جب وفاقی شرعی عدالت میں حدود کے مقدمات میں خواتین کی گواہی کا مسئلہ زیر بحث تھا تو ڈاکٹرصاحب ؒ نے بھی اپنا نقطہ نظر لکھ کر عدالت میں پیش کیا کہ حدود کے مقدمات میں خواتین کی گواہی قبول کی جا سکتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، میں نے ڈاکٹر صاحبؒ سے رابطہ کیا اور گزارش کی کہ مجھے آپ کا لکھا ہوا نقطہ نظر چاہیے، کیونکہ میں ایک بحث میں اس کا حوالہ دینا چاہتا تھا، لیکن وہ تحریر مجھے ڈاکٹر صاحب سے نہیں ملی۔ انھوں نے ’’فکر ونظر‘‘ کے دفتر میں کسی کے ذمے لگایا اور انھوں نے متعلقہ شمارہ تلاش کر کے مجھے بھجوایا۔ اس سے ڈاکٹر صاحبؒ کی علمی تواضع واضح ہوتی ہے۔
اگرچہ ڈاکٹر صاحب ؒ کی دینی تعلیم دیوبندی پس منظر ہوئی اور پھر وہ یونیورسٹی میں چلے گئے، لیکن میرے خیال میں جتنے بھی دینی کام کرنے والے ادارے اور حلقے ہیں، سب ڈاکٹر صاحبؒ کو اپنا اثاثہ سمجھتے تھے۔ ان کی دلچسپی اور مشاغل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر حلقے کے ساتھ وابستگی رکھتے تھے۔ اپنی تحقیق و تنقید میں کسی خاص مکتبہ فکر کی طرف جھکے ہوئے نہیں تھے اور آزادی سے مسائل پر غور وفکر کر کے رائے قائم کرتے تھے۔ مجھے ڈاکٹر صاحبؒ کے جنازہ پر جانے کا موقع نہیں مل سکا۔ اسلامی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر صاحب نے، جو جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں، بتایا کہ ڈاکٹر صاحب ؒ کے جنازہ پر مجھے ایک بات پر بہت دکھ ہوا۔ جو بزرگ جنازہ پڑھانے کے لیے تشریف لائے تھے، غالباً مولانا مشرف علی تھانوی صاحب تھے، وہ بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب ؒ کی وفات سے علماء دیوبند کا بہت نقصان ہوا ہے۔ ہمیں بہت دکھ ہو رہا تھا کہ یہ ڈاکٹر صاحب ؒ کو محدود کیوں کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ؒ صرف مسلک علماء دیوبند کا اثاثہ نہیں تھے بلکہ دوسرے مکاتب فکر کے حضرات بھی انھیں اپنا ہی سمجھتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کے خیال میں جو ادارے اور شخصیات کسی بھی نوعیت کی دینی وعلمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کام کر رہے تھے، وہ ان کی حوصلہ افزائی فرماتے رہتے تھے۔ یہی معاملہ ہمارے ساتھ بھی تھا۔ چنانچہ جنوری ۲۰۰۵ء کی بات ہے۔ وہ ہمارے ہاں تشریف لائے اور گفتگو فرمائی تو مجھے اس وقت بھی ان کے ایک جملے پر حیرت ہوئی اور اب بھی حیرت ہوتی ہے۔ کہنے لگے کہ الشریعہ اکادمی جس نوعیت کا کام کر نا چاہ رہی ہے، وہ میرے خیال میں دارالعلوم دیوبند سے بھی زیادہ اہم ہے۔ انہوں نے کس ذہنی تناظر میں یہ بات کہی، یہ الگ بات ہے۔ میرے خیال میں یہ بات انہوں نے حوصلہ افزائی کے لیے کی کہ اس کام کو معمولی سمجھ کر چھوڑ نہ دیں۔ ظاہر ہے کہ اس کام کو معیار اور مقدار کے حوالے سے دارالعلوم دیوبند سے کوئی نسبت نہیں ہے۔ یہ صرف حوصلہ افزائی تھی۔
ڈاکٹر صاحب ؒ بڑی پابندی، اہتمام اور دلچسپی کے ساتھ الشریعہ اکادمی اور اس کی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہ رہتے تھے اور گاہے گاہے پیغامات اور خطوط کے ذریعے سے ہماری حوصلہ افزائی بھی فرماتے رہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب ؒ کے مضامین بھی ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ میں چھپتے رہے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ایک دوست نے ان کے ایک خط کی فوٹو کاپی بھیجی ہے۔ انہوں نے سیرت کے موضوع پر ڈاکٹر صاحب کے محاضرات کی تلخیص اور تخریج کا پروگرام بنایا اور نمونے کے طور پر ایک محاضرے کی تلخیص ڈاکٹر صاحب کو بھیجی تو ڈاکٹر صاحب نے انہیں مشورہ دیا کہ اس کو کتابی شکل میں شائع کرنے سے پہلے کسی مجلہ میں شائع کرا دیں اور خود ہی ماہنامہ الشریعہ کا نام بھی تجویز فرمایا کہ اس مقصد کے لیے وہ بہتر رہے گا۔
ایک طالب علم کی حیثیت سے مجھے ڈاکٹر صاحب کے علمی افادات اور خاص طورپر ان کے سلسلہ محاضرات کا مطالعہ دلچسپی سے کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس سلسلہ محاضرات میں ڈاکٹر صاحب نے جن موضوعات کے حوالے سے امت کی راہ نمائی کی ذمہ داری انجام دی ہے، واقعہ یہ ہے کہ اس خاص دائرے میں اس کی اہلیت رکھنے والے حضرات کو انگلیوں پر شمار کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب قدیم وجدید علوم پر گہری نظر رکھتے تھے، دور جدید کے فکری وتہذیبی مزاج اور نفسیات سے پوری طرح باخبر تھے اور آج کے دور میں اسلام اور مسلمانوں کو فکر وفلسفہ، تہذیب ومعاشرت، علم وتحقیق اور نظام وقانون کے دائروں میں جن مسائل کا سامنا ہے، وہ وسعت نظر، گہرائی اور بصیرت کے ساتھ ان کا تجزیہ کر سکتے تھے۔ آخری سالوں میں اللہ تعالیٰ نے انھیں مختلف موضوعات پر جس مقبول عام سلسلہ محاضرات کی توفیق ارزانی فرمائی، وہ ان کے غیر معمولی فہم وادراک اور علم وبصیرت کا ایک مظہر ہے۔
اس سلسلہ محاضرات کی پہلی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ان سے ایک جامع اور فکری اعتبار سے مربوط ورلڈ ویو سامنے آتا ہے۔ صاحب محاضرات کو اسلام کی فکری ونظریاتی اساسات، اس کے تاریخی کردار اور دنیا کی دوسری نظریاتی اور سیاسی طاقتوں کے ساتھ اسلام کی آویزش کے مختلف مراحل سے بخوبی واقفیت ہے اور وہ اس تاریخی ونظریاتی تناظر میں موجودہ دور میں امت مسلمہ کی صورت حال، اس کو درپیش مسائل ومشکلات اور اقوام عالم کے درمیان اس کے کردار کے مختلف پہلووں پر گہری نظر رکھتا ہے۔ اپنی منصبی ذمہ داری کے لحاظ سے امت مسلمہ پر فکر وفلسفہ، معاشرت، سیاست اور تہذیب وتمدن کی داخلی تشکیل کے حوالے سے کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور اقوام عالم کے ساتھ تعامل اور تفاعل کے زاویے سے معروضی صورت حال کے تقاضے اس سے کیا ہیں، یہ سب پہلو اس ورلڈ ویو میں ملحوظ ہیں اور اس بحث کے اہم گوشوں پر تفصیلی بحث کے ساتھ ساتھ بہت سے جزوی امور پر بھی ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ صاحب محاضرات نے جن موضوعات پر گفتگو کی ہے، وہ اس کے ذہن میں موجود ایک مربوط فکری اسکیم کا حصہ ہیں۔
دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ ان محاضرات میں گفتگو کا تناظر کتابی نہیں بلکہ واقعی ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ معاصر فکری تناظر سے کٹا ہوا نہیں، بلکہ اس سے جڑا ہوا ہے۔ قرآن، حدیث، شریعت، سیرت اور فقہ جیسے خالص علمی اور اکیڈمک نوعیت کے موضوعات میں بھی کلاسیکی اور روایتی علمی بحثیں گفتگو کے پس منظر میں تو دکھائی دیتی ہیں، لیکن مسائل وموضوعات اور نکات بحث کا انتخاب خالصتاً معاصر علمی وفکری اور واقعاتی تناظرمیں ہوا ہے اور صاحب محاضرات نے جدید ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات اور اشکالات کے اہم گوشوں پر اپنا تجزیہ تفصیلاً پیش کرنے کے علاوہ بہت سے ذیلی اور جزوی امور پر ایسے اشارا ت بھی بیان کیے ہیں جنھیں بوقت ضرورت اجمال سے تفصیل میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ محاضرات کی یہ خصوصیت اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ صاحب محاضرات کا مطمح نظر درحقیقت نظری علمی بحثوں کے حوالے سے اپنی ترجیحات کا بیان یا نبوغ علمی کا اظہار نہیں، بلکہ اس ہمہ گیر فکری کنفیوژن سے نکلنے میں مدد دینا ہے جس سے اس وقت امت دوچار ہے۔
تیسری اہم خصوصیت مطالعہ اور معلومات کی وہ وسعت ہے جس سے کوئی بھی قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور جو خاص طورپر اس پہلو سے زیادہ قابل رشک اور موجب حیرت ہے کہ یہ خطبات مختصر نوٹس کی مدد سے زیادہ تر حافظے اور یادداشت کی بنیاد پر دیے گئے۔ علمی مآخذ کے حوالہ جات بہت زیادہ نہ ہونے کے باوجود بحثوں کی نوعیت اور تجزیے کے دروبست سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ صاحب محاضرات نے اس موضوع پر قدیم وجدید لٹریچر کا وسیع مطالعہ کیا ہے اور مختلف علمی دائروں میں نشو ونما پانے والی بظاہر الگ الگ بحثوں کا باہمی ربط متعین کرنے کے ضمن میں اس کے ہاں ایک طویل ذہنی عمل ہوا ہے۔ محاضرات سے کلاسیکی علمی ورثے سے عالمانہ واقفیت اور معاصر اہل علم کی ذہنی وفکری کاوشوں اور علمی رجحانات پر گہری نظر، دونوں کی غمازی ہوتی ہے اور اسلامی علوم کے طلبہ اگر مطالعہ اسلام کی وسیع الاطراف علمی روایت کا ایک عمومی تعارف حاصل کرنا چاہیں تو یہ سلسلہ محاضرات اس کے لیے ایک راہ نما ثابت ہو سکتا ہے۔
چوتھی اہم خصوصیت یہ ہے کہ ان محاضرات میں مغربی فکر، اس کی اساسات اور اس کے تہذیبی مزاج پر بھی ایک بھرپور تبصرہ آ گیا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ فکر اسلامی کے مختلف شعبوں کا مطالعہ دراصل مغربی زاویہ فکر کے ساتھ تقابل کے انداز میں ہو ا ہے اور دونوں فکری نظاموں کی اساسات، امتیازی خصائص اور باہمی تناقضات کی تعیین وتنقیح کا رنگ اس پورے سلسلہ محاضرات پر غالب ہے۔ اس تجزیے میں اعتدال اور توازن پایا جاتا ہے، چنانچہ نہ تو مغرب کے تہذیبی استیلا پر فرسٹریشن اور جھنجھلاہٹ کا اظہار کرتے ہوئے اہل مغرب کی ہر بات کی نفی کا رویہ اپنایا گیا ہے اور نہ اس کی تہذیبی چکاچوند اور اقتصادی ترقی سے مرعوب ہو کر اسلام اور امت مسلمہ کے تہذیبی ومزاجی خصوصیات سے دست برداری کا سبق دیا گیا ہے۔ اس گفتگو میں سیاسی اور صحافتی انداز کے سطحی تجزیے اور تبصرے بھی نہیں کیے گئے اور عمرانی علوم، قوموں کی اجتماعی نفسیات اور تہذیبی مطالعے کے معروضی اصولوں کی روشنی میں صورت حال کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہاں ضمناً ایک نقطہ نظر پر تبصرہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک خاص حلقہ فکر کی طرف سے یہ بات بڑے زور وشور سے اٹھائی گئی ہے کہ عالم اسلام کے طول وعرض میں اور خاص طور پر برصغیر میں جن اصحاب علم ودانش نے اسلام اور جدید مغربی فکر وتہذیب کے باہمی تعلق کے حوالے سے اپنے خیالات پیش کیے، وہ مغربی فکر سے مناسب واقفیت نہیں رکھتے اور اگرچہ اسلام اور اسلامی شریعت وفقہ پر انھیں عبور حاصل ہے، لیکن مغربی فکر وفلسفہ سے کماحقہ واقف نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے معاشرتی، معاشی اور سیاسی اجتہادات میں گمراہی کا شکار ہو گئے ہیں۔
میری طالب علمانہ رائے میں اس زاویہ نظر میں دو چیزوں کو گڈ مڈ کر دیا گیا ہے۔ ایک چیز ہے وہ خاص ذہنی رو اور وہ مخصوص احساس اور رجحان جو ایک اخلاقی قدر کی صورت اختیار کر کے کسی تہذیب کے رگ وپے میں سرایت کر جاتا، ا س کے ظاہر وباطن کا عنوان بن جاتا اور اس کے پورے وجود کا احاطہ کر لیتا ہے، جبکہ دوسری چیز ہے اس رجحان اور احساس کی تعبیر وتشریح اور اس کو فکر وفلسفہ کی صورت دینے کے لیے کی جانے والی ذہنی کاوشیں۔ یہ دوسری چیز ظاہر ہے کہ پہلی چیز کے تابع اور اس کی خادم ہے، کیونکہ فلسفیانہ اور نظری بحثیں زیادہ تر یا تو اس مخصوص تہذیبی مزاج کو، جو اس کے مخدوم کا درجہ رکھتا ہے، نفسیاتی سہارا اور مابعد الطبیعیاتی واخلاقی جواز فراہم کرنے کے لیے ہوتی ہیں یا اس کی کچھ فکری الجھنوں کو سلجھانے کے لیے اور یا اس تہذیب کی فکری بلند نظری اور تفوق کا تاثر قائم رکھنے کے لیے۔ ان بحثوں کا گہرائی اور باریک بینی سے مطالعہ کرنا یقیناًاس تہذیبی مزاج کے گہرے علمی تجزیے میں بہت مدد دیتا ہے، لیکن جہاں تک اس تہذیب کے بنیادی ذہنی رویے، پیغام اور عملی ترجیحات کا تعلق ہے تو اسے سمجھنے کے لیے اکیڈمک معنوں میں کوئی فلسفی ہونا ضروری نہیں۔ یہ خاص ذہنی رو اپنے سارے مظاہر اورمضمرات کے ساتھ مغرب کی پوری تہذیب کی صورت میں ہمارے سامنے جلوہ گر ہے اور انفرادی اخلاقیات سے لے کر سیاست، معیشت، قانون، تہذیب وتمدن اور بین الاقوامی تعلقات تک ہر دائرے میں اس کی ترجیحات سے ہر صاحب نظر واقف ہے۔ گزشتہ دو صدیوں میں مغرب میں فلسفیانہ فکری نظام چاہے کتنے ہی سامنے آئے ہوں، مغربی تہذیب کا جو رخ اور مزاج متعین ہوا ہے، وہ ایک ہی ہے اور اس کے اور اسلام کے مابین پائے جانے والے کسی تضاد کو سمجھنے کی وجدانی صلاحیت اقبال جیسے فلسفی اور کسی دور افتادہ گاؤں میں رہنے والے ایک سادہ صاحب ایمان کو یکساں حاصل ہے۔
پھر یہ بات کہ علماے اسلام کی اجتہادی گمراہیوں کی وجہ اسلام سے ناواقف ہونا نہیں بلکہ مغربی فکر سے ناواقف ہونا ہے، اپنے اندر ایک داخلی تضاد رکھتی ہے۔ متضاد چیزوں کی پہچان کا اصول یہ ہے کہ آدمی ایک چیز سے جتنی گہری واقفیت رکھتا ہوگا، اس کی ضد کو پہچاننے کی صلاحیت بھی اسے اتنی ہی حاصل ہوگی۔ اگر ایک صاحب علم اسلام سے اور اس کی فکری عملی ترجیحات سے فی الواقع کماحقہ واقف ہے تو اس کی مخالف سمت میں جانے والے کسی رجحان سے دھوکہ نہیں کھا سکتا، اس لیے علماے اسلام نے اگر دور جدید کی کچھ غیر اسلامی چیزوں کو سند جواز دیا ہے تو ان کا جرم دراصل مغربی فکر سے ناواقفیت نہیں بلکہ خود اسلام اور اس کے مزاج سے ناواقفیت قرار پانا چاہیے اور صاف لفظوں میں یہ کہنا چاہیے کہ انھوں نے مغرب کے فکری اثرات کے تحت خود اسلام کی ترجیحات کو بدل دینے کی جسارت کی ہے۔
بہرحال ڈاکٹر محمود احمد غازی کے محاضرات دور حاضر میں اسلامی دانش کا ایک بلند پایہ اظہار ہیں اور انھیں اردو زبان کے اعلیٰ اسلامی لٹریچر میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی نے وفا نہیں کی، ورنہ خواہش ہوتی ہے کہ محاضرات کا یہ سلسلہ اسی نوعیت کے بعض دوسرے اہم موضوعات تک بھی وسیع ہوتا۔ تعلیم سے متعلق ایک مستقل سلسلہ محاضرات کا وہ ارادہ رکھتے تھے اور شاید تزکیہ نفس اور اخلاقی تربیت کا موضوع بھی ان کے ذہن میں ہو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کے علم وبصیرت سے استفادہ کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر کر دے اور اسے ان کے درجات میں بلندی کا ذریعہ بنا دے۔ آمین