ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی کتاب ’’مسلمانوں کا دینی وعصری نظام تعلیم‘‘ پڑھتے ہوئے اسلام کی نشاۃ ثانیہ، برصغیر میں اسلامی فکری تحریکوں کے احیا اور عظمت رفتہ کے حصول کے لیے مصنف کا مبنی بر اخلاص جذبہ دیکھ کر بے اختیار علامہ اقبالؒ کا یہ شعر مسلسل ذہن وفکر میں گونجتا رہا:
میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ
میری تمام جستجو، کھوئے ہوؤں کی آرزو
فاضل مصنف نے تاریخ، شعور، حقائق، جذبات اور احساسات کی روشنی میں گم شدہ عظمتوں کے احیا کا سراغ لگانے کے لیے معروضی صورت حال سے آگاہی کے بعد جس ژرف نگاہی سے مسائل کی نشان دہی کی ہے، اس سے ماہر معالج کی حذاقت یاد آجاتی ہے ، بقول اقبال :
مردان کار ڈھونڈھ کے اسباب حادثات
کرتے ہیں چارۂ ستم چرخ لاجورد
اصل میں مصنف کے ذہن وفکرکا قابل رشک پہلو یہ ہے کہ وہ دین اسلام اور اس کے تہذیبی وتمدنی اور سیاسی تفوق پر جس خود اعتمادی سے اظہار خیال کرتے ہیں، ایسی خود اعتمادی بہت کم اہل نظر کے ہاں دیکھنے میں آتی ہے۔ آج اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں یہ تلخ حقیقت نظر آ رہی ہے کہ علوم جدید کے حامل مسلمان چند ایک استثنائی صورتوں کے علاوہ، نہ صرف یورپ سے فکری طور پر مرعوب ہیں بلکہ انگریزوں سے بڑھ کر انگریزہیں۔ بقول اقبال :
نشان راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مرد راہ داں کے لیے
’’ دینی مدارس: مفروضے، حقائق، لائحہ عمل‘‘ کے زیر عنوان برصغیر پاکستان، ہند اور بنگلہ دیش میں دینی مدارس کے عظیم کردار کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ ان مدارس نے ’’ ملک وملت کی پوری تاریخ میں بالعموم اور انگریز کی دوسو سالہ تاریخ میں بالخصوص یہاں اسلامی تہذیب، اسلامی تمدن، مسلمانوں کی مذہبی زندگی کا تحفظ کیا۔‘‘ (ص ۲۲) محمود احمد غازیؒ کے ان الفاظ کو پڑ ھ کر سرسر ی طور پر نہ گزر جائیے گا۔ اس کے پس منظر میں دینی مدارس سے وابستہ، اسلام اور علوم اسلامیہ سے وابستہ ہزاروں معلمین اور تلامذہ کی جاں سوزی اور پوری دنیا کو اختیاری طورپر تج کر مقہوری کی سطح پر رہ کر ایثارو فدا ہونے والوں کی لاتعداد روشن مثالیں ہیں۔ ان گم نام قربانیوں کے باعث آج بھی دینی مدارس روشن میناروں کی طرح بلند وبالا اور قائم ودائم کھڑے عظمت ونور بکھیر رہے ہیں۔
یہاں مجھے سیدعطاء اللہ شاہ بخاریؒ (م ۱۹۶۱ء) کے قریبی ساتھیوں میں ایک نمایاں نیاز مند اور رفیق قاضی احسان اللہ شجاع آبادی ( م ۱۹۶۷ء) کا واقعہ یا د آ رہا ہے۔ شجاع آباد میں قیام پاکستان سے قبل برطانوی حکومت کے عروج کے دور میں ایک سول جج تعینا ت تھے ۔ یہ جج صاحب مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کے سبب نسلی طورپر مسلمان تھے، لیکن جذباتی طور پراسلام سے وابستگی کے باوجود دین اسلام سے رواجی تعلق رکھتے تھے۔ اس دور کے جدید تعلیم یافتہ مسلمان طبقے کی اکثریت کے ذہن یورپ سے فکری طور پر مرعوب تھے اور مسلمانوں کے تہذیبی اور علمی ورثے کے بارے میں کچھ قابل رشک خیالات نہیں رکھتے تھے، بلکہ انگریزی تعلیم کے حصول اور انگریزی استادوں کے زیر اثر مسلمانوں کے ماضی کے بارے میں احساس کمتری کا شکار اور علما سے بھی نالاں اور گریزاں رہتے۔ ہوا یوں کہ اتفاق سے جج صاحب کی بیٹی ایم اے فارسی کرنے کے لیے پرائیویٹ طور پر تیار ی کے لیے فارسی کے کسی معلم ٹیوٹر کی رہنمائی اور امداد کی خواہاں تھی۔ جج صاحب تو فارسی سے ناخواندہ محض تھے، ان کی نظر انتخاب ٹیوٹر کے طور پر قاضی احسان احمد پر جا ٹھہری ۔ مجبوراً قاضی صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی بچی کے لیے فارسی زبان کی تدریس کی درخواست کے ساتھ فیس کی پیش کش بھی کی۔ قاضی صاحب نے فرمایا، فیس اور ٹیوشن دے کر نہ تو ہم نے اپنے اساتذہ سے پڑھا ہے اور نہ ہم نے معاوضہ لے کر کسی کو پڑھایاہے۔ آپ کی بیٹی میری بیٹی ہے، میں اسے بلامعاوضہ فارسی پڑھا ؤں گا۔ قصہ مختصر، وہ طالبہ قاضی صاحب کے پاس کم وبیش ایک سال تک فارسی پڑھتی رہی۔ یونیورسٹی کے امتحان میں اس طالبہ نے ایم اے فارسی میں سب سے اول پوزیشن حاصل کی۔ جج صاحب یہ خوش خبری سن کر جہاں انتہائی شاداں وفرحاں ہوئے، وہاں قاضی صاحب کی فارسی میں مہارت دیکھ کر علماء کرام کے علم وفضل اور مرتبہ ودرجہ کے بارے میں اپنے سابقہ احساسات سے رجوع کرتے ہوئے سوچنے پر مجبور ہو گئے۔ خود چل کر قاضی صاحب کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی کہ قاضی صاحب! آپ کی تعلیم کتنی ہے؟ قاضی صاحب نے جواب دیا: ’’ میری تعلیم اتنی ہے کہ مجھے کوئی پانچ روپے ماہانہ نوکری دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔‘‘
کہنے کو تو یہ ایک سرسری واقعہ ہے، لیکن گزشتہ دو سو سال میں دیسی انگریزوں نے دینی مدارس کے تعلیم یافتہ حضرات کو رزق کی مار دینے کی جو مذموم کوششیں یعنی سعی نامشکور کی، اس کا نچوڑ اور خلاصہ قاضی صاحب کی بیان کردہ اس مبنی برحقائق حکایت میں بطور المیہ آ جاتا ہے۔ یہ ہے دینی مدارس کی عظیم تاریخ جس پر محمود احمد غازی نے اعداد وشمار کی روشنی میں اظہار خیال کیا ہے۔
دینی مدارس کے عظیم کردار کو اکیسویں صدی کے جدید دور اور آئندہ مستقبل میں جدید تعلیم سے ہم آہنگ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور آج سے تقریباً سوا صدی قبل دارالعلوم ندوۃ العلماء کے قیام کو اس جدوجہد کی پہلی جست کہا جا سکتا ہے۔ فاضل مصنف اس سلسلے میں اپنی دردمندی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’ دور جدید ایک پیچیدہ دور ہے۔ اس دور کے ادارے، تصورات اوراس دور کے معاملات اتنے پیچیدہ ہیں کہ اس کے لیے بڑی خصوصی مہارتیں درکار ہیں۔ جہاں فنی مہارتیں ہیں، وہاں بدقسمتی سے شریعت کا علم نہیں ہے اور جہاں شریعت کا علم ہے، وہاں جدید فنی مہارتیں نہیں ہیں۔ ہم پر فرض کفایہ ہے کہ ہم شریعت کے ایسے متعمق ماہرین پیدا کریں جو دینی ماحول، دینی تربیت اور دینی ذوق ومزاج کے ساتھ ساتھ دور جدید کے معیار کی فنی مہارت رکھتے ہوں۔‘‘
محمود احمدغازی نے جس اہم مسئلہ کی طرف اشارہ کیا ہے، وہ بلاشبہ ہماری تہذیبی، تمد نی اور دینی بقا کے لیے اولین ترجیحات میں سرفہرست ہے، لیکن افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ المیہ اور یہ شتر گربگی بھی برطانیہ کے دو سو سالہ دور غلامی کے ثمرات بد میں سے ہے اور شجر خبیثہ کی طرح مسلسل اپنے برگ وبار چھوڑ رہا ہے۔ قبل ازیں یہ صورتحال نہ تھی۔ اس بارے میں فاضل مصنف بالکل صحیح اور برمحل کہتے ہیں:
’’ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے ہاں دینی مدارس اور غیردینی مدارس کی تفریق نہیں تھی۔مجدد الف ثانیؒ ( م ۱۶۲۴ء) اور سلطنت مغلیہ کے وزیر اعظم نواب سعداللہ اور تاج محل آگرہ اور دوسری عظیم الشان عمارتوں کے معمار بھی انھی درس گاہوں کے پڑھے ہوئے تھے۔‘‘
وطن عزیز پاکستان میں عمرانی علوم خصوصاً تاریخ، فلسفہ، عمرانیات، اردو، فارسی ،عربی ادبیات سے روگردانی اور اس حوالے سے عدم توجہی پر مبنی حقارت کا رویہ اور ایسے رجحانات میں روز افزوں کثرت، یہ ایسے تعلیمی المیوں میں سے ہے جن کے ارتکاب سے قومیں اپنی شناخت کھو بیٹھتی ہیں۔ اس کی نشاندہی کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے :
’’ امام غزالیؒ نے احیاء العلوم میں، امام ابن تیمیہ نے السیاسیۃ الشرعیہ میں لکھا ہے کہ ایسی تمام مہارتوں اور تخصصات کا حاصل کرنا مسلمانوں کے ذمے فرض کفایہ ہے جس کے نہ ہونے کہ وجہ سے مسلمان غیر مسلموں کے محتاج بن کر رہیں۔ اس دور میں فقہ پڑھ کر قاضی بن جاتا تھا، مفتی بن جاتا تھا، گورنر بن جاتا تھا۔ امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ طلبہ فقہ تو بہت پڑھتے ہیں، لیکن طب، ہندسہ (انجینئرنگ ) کوئی نہیں پڑھتا۔ اس زمانے میں الٹ تھا ۔ آج کل لوگ میڈیکل اور انجینئرنگ تو بہت پڑھتے ہیں، لیکن فقہ نہیں پڑھتے۔‘‘
علوم جدید کے حصول اور ان میں اعلیٰ مہارت پیدا کرنے کے بعدان کے منفی پہلوؤں کی نشان دہی جس دلیری اور مہارت سے مسلمانوں کی نابغہ روزگار علمی شخصیات نے کی ہے، اس کی نظیر شاید ہی مل سکے۔ چنانچہ زیر نظرکتاب میں اس کی شہادتیں جا بجا بکھر ہوئی نظر آتی ہیں۔ مصنف لکھتے ہیں:
’’یونانی علوم وفنون کو سیکھ کر ہی ہم اس کا جائزہ لے سکیں گے کہ ان میں کون سی چیز غلط ہے اور کیا چیز ہمارے لیے اسلامی نقطہ نظر سے قابل قبول ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغہ برصغیر کی بہترین مستند تصنیف ہے۔ برصغیر میں اس سے بہتر کتاب اسلام کے فلسفے پر لکھی ہی نہیں گئی۔ وہ بھی ساری کی ساری یونانی علوم وفلاسفہ کی اصطلاحات سے بھر پور ہے۔ ان مثالوں سے اندازہ ہوگا کہ وہ چیز جو پہلے خطرہ سمجھی گئی، وہ بعد میں خادم بن گئی۔ اسلام خادم بننے کے لیے نہیں آیا، مخدوم بننے کے لیے آیا ہے۔ اگر امام غزالیؒ اپنے دور میں منطق کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ: من لم یعرف المنطق فلا ثقۃ لہ فی العلوم اصلاً، جس آدمی نے منطق نہیں سیکھی، اس کا علم میں کوئی مقام اور وزن نہیں، اس لیے کہ اس دور میں اہمیت منطق کی تھی۔ اس طر ح آج کے دور میں اگر کچھ دوسرے علوم وفنون، انگریزی زبان، معاشیات، ریاضی، کمپیوٹر کو اہمیت حاصل ہو گئی ہے تو علماء کرام کو آگے بڑھ کر امام غزالی کی طرح اس کا ادراک کرنا چاہیے۔‘‘
دیار مغرب (یورپ) میں جدید تعلیم یافتہ انگریز، فرانسیسی اور امریکی لوگوں میں سے غیر متعصب اور فراخ دل صاحب مطالعہ لوگ آخر کا راسلام کے دامن رحمت سے وابستہ ہو کر ملت اسلامیہ کے فرد بن جاتے ہیں، لیکن ہمارے برصغیر پاک وہند اور بنگلہ دیش سے برآمد شدہ نیم خواندہ اور فرقہ پرست امام مسجدوں کی یورپ میں موجودگی یورپ میں فروغ اسلام کے سلسلے میں نہ صرف سوالیہ نشان ہے بلکہ تبلیغ اسلام کے راستے میں بھی ایک بڑی رکاوٹ بن کر رہ گئی ہے۔ اس کی نشان دہی ملاحظہ ہو:
’’لندن میں یہ پاکستانیوں کی مسجد ہے، یہ بنگالیوں کی، یہ ترکوں کی۔ کیا صحابہ کرامؓ، تابعین ؒ جہاں گئے تھے، انہوں نے یہی طے کیا تھا کہ یہ بنو ہاشم کی مسجد ہے، یہ خزرج کی ہے اور یہ اوس کی ہے؟ وہاں تو اس طرح کی کوئی چیز نہیں تھی۔ ہماری اس کمزوری کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم طالب علم کو اس اہم اور بھاری ذمہ داری کے لیے تیار نہیں کر رہے کہ وہ ایسے غیر مسلم اور ناملائم ماحول میں حکمت کے ساتھ دین کی تعلیم پیش کر سکے۔‘‘
گزشتہ دوصدیوں میں یورپی استعمار نے نہ صرف براعظم ایشیا بلکہ براعظم افریقہ کے اکثر مسلم ممالک کو عسکری طور پر اپنے مقبوضات میں شامل کیا اور امت مسلمہ کو دینی، تہذیبی، ثقافتی اور علمی لحاظ سے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، لیکن یہ شرف برصغیر پاکستان وہند اور بنگلہ دیش کی سرزمین کو حاصل ہے کہ یہاں علما نے انگریز کے دو سو سالہ قبضہ کے باوجود مسلمانوں کی دینی وعلمی شناخت کو برقرار رکھا۔ محمود احمد غازی کے الفاظ میں :
’’الجزائر میں فرانسیسی استعمار نے اس مقبوضہ ملک کو اپنے رنگ میں رنگ دیا کہ فرانسیسیوں کے جانے کے بعد وہاں عربی بولنے اور لکھنے والے افراد کا وجود ختم ہو گیا۔ اس کے برعکس برصغیر کے علماء کرام، اہل علم، دینی مدارس نے قدیم تعلیمی روایت کے بہت سے پہلوؤں کو تحفظ فراہم کیا اور ان کو باقی رکھا۔ اس کے بعد جب منتقلی (ٹرانزیشن) کا آخری مرحلہ شروع ہوا، جب استعمار یہاں سے گیااور اقتدار مقامی لوگوں کے ہاتھوں میں آیاتو اس منتقلی کے وہ خطرناک اور منفی نتائج یہاں پیدا نہیں ہوئے جو کئی دوسرے مسلم ممالک میں پیدا ہوئے۔ صحابہ کرامؓ کی برکات، نفوس قدسیہ، صحابیوںؓ کی برصغیر میںآمد اور ان کے بابرکت قدموں کی کرامت کا سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ ان کے ورود مسعود کی مہک سے ان علاقوں کی فضائیں آج بھی پانچ وقتہ اذانوں سے گونج رہی ہیں اور وہاں دینی مدارس، قرآن وحدیث کی تعلیم وتدریس کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ ‘‘
عموماً عبارت یا تقریر میں واقعہ لکھنے یا سنانے کے بعد حسب حال شعر لکھنا یاپڑھا جا تا ہے، لیکن میں محموداحمدغازیؒ کی زبانی وہ صورتحال قارئین کے سامنے پیش کرنے سے پہلے تقدیم کے طور پر شعر لکھتا ہوں:
کھلے ہوئے ہیں وہیں پھول سے نقوش قدم
جہاں سے قافلہ گزرا ہے میرے پیاروں کا
محمود احمدغازی کے الفاظ ہیں:
’’لیکن ایک بات نہایت عجیب ہے کہ وہ علاقہ جو صحابہ کرامؓ کے زمانے میں فتح ہواتھا ( اور صحابہ کرامؓ کا دور محدثین کے مطابق ۱۰۰ء تک ہے) وہ آج بھی پاکستان میں شامل ہے۔‘‘
دینی تعلیم وتدریس اسلامی ثقافت کی روح ہے اور یہ ایک ایسی ابدی حقیقت ہے کہ معیار ہمیشہ مقدار پر تفوق رکھتا ہے۔ دینی تعلیم کے فرو غ سے جو کلچر اور تمدن فروغ پاتا ہے، اس نے امت مسلمہ کو ہمیشہ غالب وبرتر رکھا۔ مقام تاسف کہ آج طبقاتی اور دینی اور انگریزی تعلیم کی تفریق وتقسیم سے وہ علمی ودینی ماحول دنیا کی غالب اکثریت کی آنکھوں سے اوجھل ہے او رانسان ہے کہ ہمیشہ سے محسوسات کا رسیا ہے اور موجود وحاضر صورت حال سے متاثر ومرعوب ہوتا آیا ہے۔ مصنف اس صورت حال کو مختصر اور معروضی انداز میں بیان کرتے ہیں:
’’مسلم کمیونٹی (برصغیر) میں، جو عددی اعتبار سے اقلیت میں تھی، جو عسکری اعتبار سے دوسری غیر اسلامی قوتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ کمزور تھی، جو تہذیب وتمدن کے اعتبار سے یہاں کی قوتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی، لیکن صرف اور صرف تعلیم وتربیت کے اس نظام نے جو ۹۲ھ کے آغاز میں مسلمانوں نے قائم کیاتھا، مسلمانوں کو بارہ سو برس تک باقی رکھا۔‘‘
اسلامیان برصغیر پاکستان وہند اوربنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ اسلامیان عالم کا دینی وفکری سرچشمہ سرزمین عرب ہے۔ ۹۲ھ بمطابق ۷۱۲ء میں محمدبن قاسم کی آمد کے وقت سند ھ اور ملتان تک کی زمین عربوں کے ورود سے آشنا ہوئی، لیکن بعد میں کچھ سیاسی، عصری اور دیگر وجوہ کے سبب عرب فاتحین اپنے ان مفتوحہ علاقوں سے رابطہ نہ رکھ سکے اور پھر کافی عرصہ یعنی دو صدیاں گزرنے کے بعد عرب سے مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ رکنے کے باعث برصغیر کا شمال میں واقع مسلمان ریاستوں افغانستان، وسط ایشیا، ترکستان سے اس طرح تعلق قائم ہوتا ہے کہ شمال سے سلطان محمود غزنویؒ (۹۹۸ء تا ۱۰۳۰ء) اور اس کے بعد سلطان شہاب الدین محمد غوری کی ۱۱۹۳ء میں آمداور دیگر مسلمان فاتحین، مبلغین، علماء کرام، صوفیاء کرام برصغیر کے شمال سے ہندوستان میں وارد ہوتے ہیں اور اسلامیان ہند کا رابطہ عرب کے مسلمانوں سے کٹ کر شمالی علاقوں کے مسلمانوں سے قائم ہو جاتا ہے۔ مصنف نے اس صورت حال کو کمال تاریخی بصیرت سے بیان کیا ہے:
’’ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا تعلیمی اور فکری رشتہ عرب اور عراق اورعربی بولنے والوں سے کٹ کر ایران اور سنٹرل ایشیا کے ممالک سے قائم ہو جاتا ہے۔‘‘
برصغیر پاک وہند اوربنگلہ دیش میں برطانیہ کی دو سو سالہ غلامی کے بعد آج اکیسویں صدی میں برطانیہ کے پیدا کیے ہوئے ذہنی غلاموں اور دیسی انگریزوں کے ہاتھوں تعلیم وتعلم کی جو درگت بن رہی ہے، اس کا خیال شاید لارڈ میکالے اوراس کے انگریز جانشینوں کو بھی نہ آیا ہوگا۔ بقول اقبالؒ
گلہ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہل حرم سے ہے
کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری
آئے دن کمیشن قائم ہو تے ہیں، تجاویز پر مبنی طول طویل مقالے لکھے اور پڑھے جاتے ہیں، بھاری بھر کم کتابوں پر مبنی رپورٹیں کئی کئی جلدوں پر مشتمل ضخیم کتابوں کی صورت میں شائع ہوتی ہیں، لیکن ملی تعلیم نظر انداز کرنے کے مسلسل رویے کے سبب انگریزی تعلیم وتعلم کاسلسلہ ہے کہ بڑھتا ہی چلا جاتاہے۔ اگر ان انگریزی اسکولوں اور کالجوں میں انگریزی کے ایسے فاضل تیار ہوتے جو اقوام یورپ کے سامنے مسلمانوں کانقطہ نظر اور نصب العین خود اعتمادی سے پیش کرنے کے اہل ہوتے تو پھر بھی غنیمت تھا۔ کم از کم ہمیں یہ تو اطمینان ہوتا کہ انگلش میڈیم اسکولوں اور کالجوں میں وہ مسلمان طبقہ تیار ہو رہا ہے جو مغرب کے سامنے اسلامی تہذیب وتمدن کو پیش کرنے کا اہل ہے، لیکن مقام صد افسوس کہ انگلش میڈیم اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے پڑھانے والا طبقہ دینی علوم، مشرقی ادبیات، عربی، فارسی، اردو سے کلی طور پر ناآشنا ہے اور اپنے ملی اور ادبی ورثہ سے حقار ت کارویہ رکھتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ گزشتہ کئی عشروں سے انگریزی زبان وتہذیب سے عاشقانہ اور والہانہ انداز رکھنے کے باوجود اپنی محبوب ومرغوب زبان وتہذیب یعنی انگریزی زبان وادب سے اتنی بھی آگاہی نہیں رکھتا کہ اس پرعلمی اندازمیں اظہار خیال کرسکے۔ یعنی وہ صرف اور صرف لارڈ میکالے کے مجوزہ کلر ک بن کر نسل درنسل کالے اور دیسی انگریزوں کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔ بقول اکبر الہ آبادی ؒ :
چھوڑ لٹریچر کو، اپنی ہسٹری کو بھول جا
شیخ ومسجد سے تعلق ترک کر، اسکول جا
چار دن کی زندگی ہے، کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پھول جا
مقام ماتم کہ آج کا برسر اقتدار حکمران طبقہ اور تعلیم، نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کی تشکیل کا اختیار رکھنے والا مقتدر گروہ کچھ ایسے نادیدہ عاشق کی طرح انگریزی کی زلف گرہ گیرکا اسیر ہے کہ وہ اسلامی ودینی ثقافت کے فکری سرچشموں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ادھر کا رخ کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا، حالانکہ اسی مذکورہ بالا درس نظامی نے اپنے زمانے کے عبقری لوگ پید اکیے ہیں۔ محمود احمد غازیؒ کی زبانی:
’’درس نظامی محض دینی تعلیم کا نظام نہیں تھا۔ .....یہ تو اس زمانے کے حساب سے ایک ماڈرن اور اپ ٹوڈیٹ نظام کا خاکہ تھا جو اس زمانے کے ایک صاحب علم نے وضع کیا تھا۔ .....ملا نظام الدین نے اس زمانے میں جتنے علوم مروج تھے جن کا اندازہ ۵۶کے قریب لگایا جاتا ہے، ان سب کو یکجا کر کے ایک ایسے آٹھ سالہ نظام تعلیم کا خاکہ پیش کیاجس کو آج کل گریجویشن کی ڈگری کے برابر قراردے سکتے ہیں۔‘‘
کسی بھی نظام تعلیم کے روز افزوں فروغ اور نشوونما میں سب سے نمایاں کردار حکومت کی سرپرستی کا ہوتا ہے۔ حکام وقت جس بات کو بھی اختیار کریں، وہ عوام الناس کے لیے وجہ تقلید اور اسٹیٹس (status) کا معیار بن جاتی ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے سیاح ابن بطوطہ نے اس سلسلے میں ایک بڑی ہوش ر با شہادت دی ہے جس کو محمود غازیؒ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے:
’’دہلی کے اجڑنے کے بعد بھی ایک ہزار مدارس اس اجڑے دیار میں موجود تھے۔ ابن بطوطہ کے مطابق محمد تغلق دستر خوان پر اس وقت تک نہیں بیٹھتا تھاجب تک کم ازکم چار سو علما وفقہا اس کے دسترخوان پرموجود نہ ہوں۔‘‘ (ص ۵۶)
محمود غازیؒ کی کتاب پر تبصرہ کا خاتمہ کرنے کے بعد ضروری ہے کہ ہم موجودہ اور آئندہ کے لیے تعلیمی ضابطہ اخلاق کی تجدید کریں۔ پر وفیسرایم عمر الدین (شعبہ فلسفہ، مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ) نے امام غزالی کے فلسفہ اخلاق پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے :
"Knowledge of God includes the knowledge of the creator and the creation comprising the universe, the soul, the circumstances attending after death and so on. And knowledge of these things constitue the knowledge of Islam. Thus it is all-comprehending, for every science is a religious science if it promotes the realization of perfection. No science is bad in it self, because every science is simply knowledge of the facts as they are and this can not be bad in intself". (The Ethical Philosophy of Ghazali, Sh. M. Ashraf, Lahore 1977, page 113)
مراد یہ ہے کہ ہرعلم کا حصول دین کا حصہ تھا اور یہ علم حیات ہی کے ہر شعبہ سے متعلق نہ تھا، حیات بعد الممات سے بھی مربوط تھا۔ چنانچہ علم حاصل کرنا اور علم کو عام کرنا ثواب اور سر بسر عبادت ہے۔ یہی عبادت ہے کہ ہر پڑھا لکھا مسلمان دوسروں کو پڑھانا لکھانا اپنے لیے باعث رحمت جانتا تھا ۔ وہ گھر میں بھی معلم ہوتا تھا اور باہر بھی۔ نور کا اکتساب اور نور کی تقسیم، کار خیر میں امداد باہمی ہے۔ چنانچہ معلم کا مقام مسلم معاشرے میں بہت وقیع تھا۔ پہلی بار باتنخواہ اساتذہ بغداد کی نظامیہ یونیورسٹی میں مقرر کیے گئے۔ یہ یونیورسٹی پانچویں صدیں ہجری میں نظام الملک طوسی نے قائم کی تھی۔ باتنخواہ اساتذہ کا تقرر مسلمان اہل علم کوسخت ناگوار گزرا۔ ڈاکٹر محمد اسد طلس لکھتے ہیں کہ جب ہمہ وقتی تنخواہ دار اساتذہ ملازم ہوئے تو علماء خراسان نے ماتم علم کی مجلسیں منعقد کیں اور کہا کہ :
’’معلمی بلند نظر اور پاک نفس لوگوں کا شیوہ تھا جن کے پیش نظرعلم کے ذریعے کمال وفضیلت کا حصول ہوتا تھا۔ مگر ا ب جو علما آئیں گے، وہ علم کو محض کمائی کا ذریعہ بنائیں گے اور تنخواہ کے خیال سے دوں نہاد اور نکمے افراد بھی اس جانب کا رخ کرنے لگیں گے۔‘‘ (التربیۃ والتعلیم فی الاسلام، بیروت، ص ۱۲۴)
قارئین باتمکین!گستاخی معاف، آج ہم انگریزی تعلیم کے نقصانات اور انگریزی تعلیم کے اداروں کو تو بہت رو چکے، لیکن دینی مدارس میں بھی قابل اساتذہ کے بجائے صاحبزادگان کا قبضہ اور ان دینی مدارس کو جو ہر قابل (merit) کے حامل فاضل اساتذہ کے سپر د کرنے کے بجائے مدارس میں نسل در نسل گدی نشینی کا سلسلہ، یہ صورت حال ہماری دینی تعلیم اور دینی تعلیمی اداروں کے مستقبل کے لیے کوئی نیک فال نہیں ہے۔