علم کا آفتاب عالم تاب

ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

ایک عالم آدمی ساری عمر علم کے سمندر میں غوطہ زن رہتا ہے اور شام زندگی کے قریب جب وہ سطح آب پر نمودار ہوتا ہے تو اس کے دامن میں چند سیپیاں، چند گھونگھے اور کبھی کبھار کوئی ایک آدھ موتی ہوتا ہے۔ مگر اس دنیا میں چند ایسے خوش قسمت بھی ہوتے ہیں جو فنا فی العلم ہو کر خود علم کا بحرِبیکراں بن جاتے ہیں۔ اس بحرِناپیداکنار کی تہہ میں اترنے والے غواص بیش قیمت موتیوں سے اپنے دامن کو بھر کر ایک دنیا کو مرعوب و متاثر کرتے ہیں۔ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ متنوع اور متفرق علوم و عجائب کا ایک ایسا سمندر تھے کہ جن میں غوطہ زن ہو کر ہزاروں لاکھوں لوگ جن میں ان کے شاگرد، ان کے قارئین، ان کے سامعین اور ناظرین شامل ہیں، کسب فیض کرتے رہے۔ 

میں روایتی تعلیم سے فارغ التحصیل ہو کر سعودی عرب چلا گیا تھا۔ وہاں کی وزارت تعلیم میں دو اڑھائی دہائیوں تک تدریسی فرائض انجام دیتا رہا۔ اس دوران میں ڈاکٹر محمود احمد غازی کی شخصیت، ان کی بعض کتب اور دین میں راہ اعتدال اختیار کرنے جیسے ان کے کارناموں سے آگاہ ہو چکا تھا مگر سابق جسٹس خلیل الرحمان خان اور غازی صاحب کی دعوت پر پاکستان آ کر نیشنل اسلامی یونیورسٹی میں خدمت کا موقع ملا۔ اس دوران غازی صاحب کی چشم التفات مجھ پر کھلتی گئی اور ان کے ساتھ میرے تعلقِ خاطر میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور جوں جوں قربت بڑھتی گئی، تو ں توں ان کی عظمت کا نقش میرے دل پر مزید گہرا ہوتا چلا گیا۔ ان کی بیکراں شخصیت اور ان کے عظیم علمی و دینی کارناموں پر غور کرتا ہوں تو سمجھ میں نہیںآتا کہ بات کہاں سے شروع کروں۔ 

ڈاکٹر محمود احمد غازی کی تعلیم و تربیت میں ان کے والد حافظ احمد فاروقی کی توجہ، ان کی والدہ کے حسن تربیت اور ان کے اساتذہ کے فیضان نظر کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ ان کی والدہ آج بھی حیات ہیں اور ان کے برادر اصغر پروفیسر ڈاکٹرمحمدالغزالی کے بقول: بھائی صاحب اپنی وزارت، یونیورسٹی کی صدارت، اپنی خطابت و کتابت اور اپنی گوناں گوں مصروفیات کے باوجود والدہ صاحبہ کے سامنے آخر دم تک اقبال کے طفل سادہ کی تصویر بنے رہے۔ بقول علامہ اقبال ؂

علم کی سنجیدہ گفتاری، بڑھاپے کا شعور
دنیوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور
زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم 
صحبت مادر میں طفل سادہ رہ جاتے ہیں ہم 

مجھے یہ اندازہ نہ تھا کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی حافظِ قرآن بھی ہیں۔ ان کے ڈرائیور مولوی محمد یوسف نے مجھے بتایا کہ وہ جب بھی میرے ساتھ شہر کے اندر یا شہر سے باہر سفر کرتے، زیادہ ترقرآن پاک کی تلاوت کرتے رہتے۔ بعد میں جب میں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ انہوں نے تھانہ بھون کے خاندان فاروقیہ کی روایات کے مطابق صرف آٹھ برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا تھا۔ حفظ قرآن کے بعد انہوں نے عربی زبان و ادب میں کئی امتحانات امتیاز کے ساتھ پاس کیے اور ایک دینی مدرسے سے درس نظامی مکمل کیا۔ بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے عربی اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ عربی کے علاوہ انہیں فارسی، انگریزی اور اردو زبان پر بھی مکمل عبور تھا۔ اردو تو ان کی مادری زبان تھی۔ ایک بار میں نے غازی صاحب سے پوچھا کہ آپ کاتعلیمی پس منظر تو عربی مدارس کا ہے، مگر آپ عام علماء کرام کے برعکس عربی بلکہ انگریزی بھی بڑی روانی سے بولتے ہیں۔ اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ کراچی کے جس دینی مدرسے میں انہوں نے درس نظامی مکمل کیا، وہاں مصری اساتذہ تھے جو بیک وقت محبت اور شوق سے ہمارے ساتھ رات دن عربی میں گفتگو کرتے، اس لیے میری عربی بول چال بہت رواں ہے۔ کہنے لگے کہ ابتدا میں مجھے انگریزی سے زیادہ دلچسپی نہ تھی مگر ایک رات زمانہ طالب علمی کے دوران میں نے سوچا کہ انگریزی سیکھے بغیر چارہ نہیں۔ اگلے روز میں نے فٹ پاتھ سے انگریزی گرائمر کی ایک پرانی کتاب خریدی اور پھر چل سوچل۔ میں نے انگریزی پڑھنا، بولنا اور لکھنا شروع کردی اور چند مہینوں میں میری استعداد اور میرا اعتماد اتنا بڑھ گیا کہ میں انگریزی میں تقریریں کرنے لگا۔ 

غازی صاحب نے تدریس کا آغاز پہلے راولپنڈی کے مدرسہ فرقانیہ میں عربی پڑھانے سے کیا۔ پھر وہ مدرسہ ملیہ میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ڈاکٹر غازی صاحب نے خود ایک بار مجھے بتایا تھا کہ میرے والد گرامی کو مولانا گلزاراحمد مظاہری ؒ نے لاہور آنے اور علماء اکیڈمی کا ڈائریکٹر بن جانے کی پیش کش کی تھی۔ غازی صاحب نے بتایا کہ وہ مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کے درمیان افہام و تفہیم کے لحاظ سے اس آئیڈیل کو بہت سراہتے تھے مگر وہ بوجوہ اس پیشکش کو قبول نہ کر سکے اور پھر اسلام آباد ہی ان کی علمی و دینی سرگرمیوں کی جولان گاہ بن گیا۔ ندوۃ العلماء لکھنو اور جامعہ ملیہ دہلی سے لے کر انٹر نیشنل یونیورسٹی اسلام آباد تک تقریباً ڈیڑھ صدی سے دنیاوی علوم یکجا کرنے کے لیے روشن خیال علماء کرام نے بہت کاوشیں کیں اور اس کے لیے کئی پروگرام وضع کیے۔ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد اس دینی و دنیاوی یکجائی کی ایک بہترین مثال اور ماڈل ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا بہت سا خونِ جگر اس گلشن کی آبیاری میں صرف ہوا ہے۔ وہ اس یونیورسٹی میں پہلے تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ پھر وہ ڈائریکٹر دعوۃ اکیڈمی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس کے بعد وہ نائب صدر جامعہ اور بعد ازاں صدر جامعہ کی حیثیت سے یونیورسٹی کی خدمات انجام دیتے رہے۔ اسی دوران وہ تین برس تک وزیر مذہبی امور بن گئے۔ وزارت اور اسلامی یونیورسٹی کی صدارت کے بعد وہ یونیورسٹی میں ایک بار پھر عام پروفیسر کی حیثیت سے درس وتدریس میں مشغول ہو گئے۔

اگرچہ ہماری ملکی روایات کے مطابق ایک بار کوئی شخص اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز رہ چکا ہو تو پھر وہ عام افسر یا استاد کی حیثیت سے فرائض انجام نہیں دیتا۔ یونیورسٹی کی نائب صدارت، پھر صدارت اور اس کے بعد وزارت کے بعد نہ ان کے پاس کوئی پلاٹ تھا، نہ کوئی بنگلہ اور نہ ہی ذاتی کار تھی۔ ان کے پاس ایک مشترکہ خاندانی گھر تھا جس میں دوسرے افراد خانہ کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ صدارت کے بعد سرکاری گاڑی واپس کرنے کے بعد انہوں نے المیزان اسلامی بنک کے ذریعے قسطوں پر گاڑی خریدی جسے وہ خود چلاتے تھے۔ جب کہیں دور جانا ہوتا یا گھر والوں کو ضرورت ہوتی تو وہ اپنے پرانے ڈرائیور کو جو اس وقت میرے ساتھ کام کر ر ہے تھے، فارغ اوقات میں بلاتے اور خدمت کا اسے معاوضہ ادا کرتے۔ کل وقتی ڈرائیور افورڈ کرنا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ دیانت وامانت کے اعتبا ر سے غازی صاحب کا کردار مثالی تھا۔ یونیورسٹی صدارت سے فارغ ہو کر تقریباً آٹھ نو ماہ تک وہ شریعہ کے شعبے میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے اور پھر قطر یونیورسٹی چلے گئے۔ وہاں پر ہی انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے شریعت کورٹ میں جسٹس کی ذمہ داری کی پیش کش ہوئی جسے انہوں نے قبول کر لیا۔ 

ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب نے قرآنیات، اقبالیات، اسلامی سیاسیات ومعاشیات ، سیرت وحدیث پاک وغیرہ پر درجنوں کتابیں اردو اور انگریزی میں لکھیں، تاہم عربی زبان اور فقہ اسلامی ان کے خاص موضوعات تھے جن میں انہیں سند کا درجہ حاصل تھا۔ میرے استاذ گرامی ڈاکٹر خورشید احمد رضوی ، غازی صاحب کے بے تکلف دوست تھے۔ انہوں نے بتایا کہ غازی صاحب پاکستان میں عربی زبان کے دو چار عالموں میں سے سرفہرست تھے۔ 

ایک زمانے میں غازی صاحب فتنہ قادیانیت کے رد میں جنوبی افریقہ کی عدالت میں مسلمانوں کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوتے رہے۔ انہوں نے وہاں دو اڑھائی ماہ قیام کیا تھا اور قادیانیت کی حقیقت کو آشکارا کیا۔ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ اور اتحاد بین المسلمین غازی صاحب کی زندگی کا مشن تھا۔ وہ جس بین الاقوامی یا اسلامی کانفرنس میں جاتے، وہاں اس بات کا تذکرہ ضرور کرتے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ ان کی نیکیوں کو قبول کرے، ان کی کوتاہیوں سے درگزر کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے۔ آمین۔ 

(بشکریہ نوائے وقت لاہور، یکم اکتوبر ، ۲۰۱۰ء)

شخصیات

(جنوری و فروری ۲۰۱۱ء)

جنوری و فروری ۲۰۱۱ء

جلد ۲۲ ۔ شمارہ ۱ و ۲

حرفے چند
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ حیات و خدمات کا ایک مختصر خاکہ
ادارہ

شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الرحمٰن المینویؒ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے استاذ حدیث)
مولانا حیدر علی مینوی

میری علمی اور مطالعاتی زندگی ۔ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا ایک غیر مطبوعہ انٹرویو)
عرفان احمد

بھائی جان
ڈاکٹر محمد الغزالی

بھائی محمود
مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی

ہمارے بابا
ماریہ غازی

ایک معتمد فکری راہ نما
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ایک عظیم اسکالر اور رہنما
مولانا محمد عیسٰی منصوری

ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم
محمد موسی بھٹو

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ : ایک اسم با مسمٰی
جسٹس سید افضل حیدر

ایک باکمال شخصیت
پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ - نشانِ عظمتِ ماضی
ڈاکٹر قاری محمد طاہر

مولانا ڈاکٹر محمود احمد غازی ۔ کچھ یادیں، کچھ تأثرات
مولانا مفتی محمد زاہد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند خوشگوار یادیں
محمد مشتاق احمد

معدوم قطبی تارا
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

میرے غازی صاحب
ڈاکٹر حیران خٹک

علم و تقویٰ کا پیکر
قاری خورشید احمد

میری آخری ملاقات
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر

مرد خوش خصال و خوش خو
مولانا سید حمید الرحمن شاہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ کچھ یادیں، کچھ باتیں
ڈاکٹر محمد امین

ایک بامقصد زندگی کا اختتام
خورشید احمد ندیم

اک دیا اور بجھا!
مولانا محمد ازہر

ایک معتدل شخصیت
مولانا محمد اسلم شیخوپوری

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ، ایک مشفق استاد
شاہ معین الدین ہاشمی

روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد
ڈاکٹر حافظ سید عزیز الرحمن

یاد خزانہ
ڈاکٹر عامر طاسین

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند تاثرات
محمد عمار خان ناصر

ڈاکٹر محمود احمد غازی علیہ الرحمۃ
ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان

ڈاکٹر غازیؒ ۔ چند یادداشتیں
محمد الیاس ڈار

ایک ہمہ جہت شخصیت
ضمیر اختر خان

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
محمد رشید

آفتاب علم و عمل
مولانا ڈاکٹر صالح الدین حقانی

شمع روشن بجھ گئی
مولانا سید متین احمد شاہ

علم کا آفتاب عالم تاب
ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

دگر داناے راز آید کہ ناید
حافظ ظہیر احمد ظہیر

ایک نابغہ روزگار شخصیت
سبوح سید

تواریخ وفات ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
مولانا ڈاکٹر خلیل احمد تھانوی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ تعزیتی پیغامات و تاثرات
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ فکر و نظر کے چند نمایاں پہلو
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

ڈاکٹر غازی مرحوم ۔ فکر و نظر کے چند گوشے
ڈاکٹر محمد شہباز منج

کاسموپولیٹن فقہ اور ڈاکٹر غازیؒ کے افکار
محمد سلیمان اسدی

آتشِ رفتہ کا سراغ
پروفیسر محمد اسلم اعوان

اسلام کے سیاسی اور تہذیبی تصورات ۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی کے افکار کی روشنی میں
محمد رشید

سلسلہ محاضرات: مختصر تعارف
ڈاکٹر علی اصغر شاہد

’’محاضراتِ قرآنی‘‘ پر ایک نظر
حافظ برہان الدین ربانی

ڈاکٹر غازیؒ اور ان کے محاضرات قرآن
سید علی محی الدین

’’محاضرات فقہ‘‘ ۔ ایک مطالعہ
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

محاضراتِ معیشت و تجارت کا ایک تنقیدی مطالعہ
پروفیسر میاں انعام الرحمن

تحریک سید احمد شہید رحمہ اللہ کا ایک جائزہ
ڈاکٹر محمود احمد غازی

اسلام میں تفریح کا تصور
ڈاکٹر محمود احمد غازی

اسلام اور جدید تجارت و معیشت
ڈاکٹر محمود احمد غازی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ سے ایک انٹرویو
مفتی شکیل احمد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ منتخب پیش لفظ اور تقریظات
ادارہ

مختلف اہل علم کے نام ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے چند منتخب خطوط
ڈاکٹر محمود احمد غازی

مکاتیب ڈاکٹر محمد حمیدؒ اللہ بنام ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
ادارہ

ڈاکٹر غازیؒ کے انتقال پر معاصر اہل علم کے تاثرات
ادارہ

ریجنل دعوۃ سنٹر کراچی کے زیر اہتمام تعزیتی ریفرنس
آغا عبد الصمد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں رابطۃ الادب الاسلامی کے سیمینار کی روداد
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام تعزیتی نشست
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ رسائل و جرائد کے تعزیتی شذرے
ادارہ

ایک نابغہ روزگار کی یاد میں
پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد خان

تلاش

Flag Counter