ایک عالم آدمی ساری عمر علم کے سمندر میں غوطہ زن رہتا ہے اور شام زندگی کے قریب جب وہ سطح آب پر نمودار ہوتا ہے تو اس کے دامن میں چند سیپیاں، چند گھونگھے اور کبھی کبھار کوئی ایک آدھ موتی ہوتا ہے۔ مگر اس دنیا میں چند ایسے خوش قسمت بھی ہوتے ہیں جو فنا فی العلم ہو کر خود علم کا بحرِبیکراں بن جاتے ہیں۔ اس بحرِناپیداکنار کی تہہ میں اترنے والے غواص بیش قیمت موتیوں سے اپنے دامن کو بھر کر ایک دنیا کو مرعوب و متاثر کرتے ہیں۔ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ متنوع اور متفرق علوم و عجائب کا ایک ایسا سمندر تھے کہ جن میں غوطہ زن ہو کر ہزاروں لاکھوں لوگ جن میں ان کے شاگرد، ان کے قارئین، ان کے سامعین اور ناظرین شامل ہیں، کسب فیض کرتے رہے۔
میں روایتی تعلیم سے فارغ التحصیل ہو کر سعودی عرب چلا گیا تھا۔ وہاں کی وزارت تعلیم میں دو اڑھائی دہائیوں تک تدریسی فرائض انجام دیتا رہا۔ اس دوران میں ڈاکٹر محمود احمد غازی کی شخصیت، ان کی بعض کتب اور دین میں راہ اعتدال اختیار کرنے جیسے ان کے کارناموں سے آگاہ ہو چکا تھا مگر سابق جسٹس خلیل الرحمان خان اور غازی صاحب کی دعوت پر پاکستان آ کر نیشنل اسلامی یونیورسٹی میں خدمت کا موقع ملا۔ اس دوران غازی صاحب کی چشم التفات مجھ پر کھلتی گئی اور ان کے ساتھ میرے تعلقِ خاطر میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور جوں جوں قربت بڑھتی گئی، تو ں توں ان کی عظمت کا نقش میرے دل پر مزید گہرا ہوتا چلا گیا۔ ان کی بیکراں شخصیت اور ان کے عظیم علمی و دینی کارناموں پر غور کرتا ہوں تو سمجھ میں نہیںآتا کہ بات کہاں سے شروع کروں۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی کی تعلیم و تربیت میں ان کے والد حافظ احمد فاروقی کی توجہ، ان کی والدہ کے حسن تربیت اور ان کے اساتذہ کے فیضان نظر کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ ان کی والدہ آج بھی حیات ہیں اور ان کے برادر اصغر پروفیسر ڈاکٹرمحمدالغزالی کے بقول: بھائی صاحب اپنی وزارت، یونیورسٹی کی صدارت، اپنی خطابت و کتابت اور اپنی گوناں گوں مصروفیات کے باوجود والدہ صاحبہ کے سامنے آخر دم تک اقبال کے طفل سادہ کی تصویر بنے رہے۔ بقول علامہ اقبال
علم کی سنجیدہ گفتاری، بڑھاپے کا شعور
دنیوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور
زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم
صحبت مادر میں طفل سادہ رہ جاتے ہیں ہم
مجھے یہ اندازہ نہ تھا کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی حافظِ قرآن بھی ہیں۔ ان کے ڈرائیور مولوی محمد یوسف نے مجھے بتایا کہ وہ جب بھی میرے ساتھ شہر کے اندر یا شہر سے باہر سفر کرتے، زیادہ ترقرآن پاک کی تلاوت کرتے رہتے۔ بعد میں جب میں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ انہوں نے تھانہ بھون کے خاندان فاروقیہ کی روایات کے مطابق صرف آٹھ برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا تھا۔ حفظ قرآن کے بعد انہوں نے عربی زبان و ادب میں کئی امتحانات امتیاز کے ساتھ پاس کیے اور ایک دینی مدرسے سے درس نظامی مکمل کیا۔ بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے عربی اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ عربی کے علاوہ انہیں فارسی، انگریزی اور اردو زبان پر بھی مکمل عبور تھا۔ اردو تو ان کی مادری زبان تھی۔ ایک بار میں نے غازی صاحب سے پوچھا کہ آپ کاتعلیمی پس منظر تو عربی مدارس کا ہے، مگر آپ عام علماء کرام کے برعکس عربی بلکہ انگریزی بھی بڑی روانی سے بولتے ہیں۔ اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ کراچی کے جس دینی مدرسے میں انہوں نے درس نظامی مکمل کیا، وہاں مصری اساتذہ تھے جو بیک وقت محبت اور شوق سے ہمارے ساتھ رات دن عربی میں گفتگو کرتے، اس لیے میری عربی بول چال بہت رواں ہے۔ کہنے لگے کہ ابتدا میں مجھے انگریزی سے زیادہ دلچسپی نہ تھی مگر ایک رات زمانہ طالب علمی کے دوران میں نے سوچا کہ انگریزی سیکھے بغیر چارہ نہیں۔ اگلے روز میں نے فٹ پاتھ سے انگریزی گرائمر کی ایک پرانی کتاب خریدی اور پھر چل سوچل۔ میں نے انگریزی پڑھنا، بولنا اور لکھنا شروع کردی اور چند مہینوں میں میری استعداد اور میرا اعتماد اتنا بڑھ گیا کہ میں انگریزی میں تقریریں کرنے لگا۔
غازی صاحب نے تدریس کا آغاز پہلے راولپنڈی کے مدرسہ فرقانیہ میں عربی پڑھانے سے کیا۔ پھر وہ مدرسہ ملیہ میں درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ڈاکٹر غازی صاحب نے خود ایک بار مجھے بتایا تھا کہ میرے والد گرامی کو مولانا گلزاراحمد مظاہری ؒ نے لاہور آنے اور علماء اکیڈمی کا ڈائریکٹر بن جانے کی پیش کش کی تھی۔ غازی صاحب نے بتایا کہ وہ مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کے درمیان افہام و تفہیم کے لحاظ سے اس آئیڈیل کو بہت سراہتے تھے مگر وہ بوجوہ اس پیشکش کو قبول نہ کر سکے اور پھر اسلام آباد ہی ان کی علمی و دینی سرگرمیوں کی جولان گاہ بن گیا۔ ندوۃ العلماء لکھنو اور جامعہ ملیہ دہلی سے لے کر انٹر نیشنل یونیورسٹی اسلام آباد تک تقریباً ڈیڑھ صدی سے دنیاوی علوم یکجا کرنے کے لیے روشن خیال علماء کرام نے بہت کاوشیں کیں اور اس کے لیے کئی پروگرام وضع کیے۔ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد اس دینی و دنیاوی یکجائی کی ایک بہترین مثال اور ماڈل ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا بہت سا خونِ جگر اس گلشن کی آبیاری میں صرف ہوا ہے۔ وہ اس یونیورسٹی میں پہلے تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ پھر وہ ڈائریکٹر دعوۃ اکیڈمی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس کے بعد وہ نائب صدر جامعہ اور بعد ازاں صدر جامعہ کی حیثیت سے یونیورسٹی کی خدمات انجام دیتے رہے۔ اسی دوران وہ تین برس تک وزیر مذہبی امور بن گئے۔ وزارت اور اسلامی یونیورسٹی کی صدارت کے بعد وہ یونیورسٹی میں ایک بار پھر عام پروفیسر کی حیثیت سے درس وتدریس میں مشغول ہو گئے۔
اگرچہ ہماری ملکی روایات کے مطابق ایک بار کوئی شخص اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز رہ چکا ہو تو پھر وہ عام افسر یا استاد کی حیثیت سے فرائض انجام نہیں دیتا۔ یونیورسٹی کی نائب صدارت، پھر صدارت اور اس کے بعد وزارت کے بعد نہ ان کے پاس کوئی پلاٹ تھا، نہ کوئی بنگلہ اور نہ ہی ذاتی کار تھی۔ ان کے پاس ایک مشترکہ خاندانی گھر تھا جس میں دوسرے افراد خانہ کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ صدارت کے بعد سرکاری گاڑی واپس کرنے کے بعد انہوں نے المیزان اسلامی بنک کے ذریعے قسطوں پر گاڑی خریدی جسے وہ خود چلاتے تھے۔ جب کہیں دور جانا ہوتا یا گھر والوں کو ضرورت ہوتی تو وہ اپنے پرانے ڈرائیور کو جو اس وقت میرے ساتھ کام کر ر ہے تھے، فارغ اوقات میں بلاتے اور خدمت کا اسے معاوضہ ادا کرتے۔ کل وقتی ڈرائیور افورڈ کرنا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ دیانت وامانت کے اعتبا ر سے غازی صاحب کا کردار مثالی تھا۔ یونیورسٹی صدارت سے فارغ ہو کر تقریباً آٹھ نو ماہ تک وہ شریعہ کے شعبے میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے اور پھر قطر یونیورسٹی چلے گئے۔ وہاں پر ہی انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے شریعت کورٹ میں جسٹس کی ذمہ داری کی پیش کش ہوئی جسے انہوں نے قبول کر لیا۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب نے قرآنیات، اقبالیات، اسلامی سیاسیات ومعاشیات ، سیرت وحدیث پاک وغیرہ پر درجنوں کتابیں اردو اور انگریزی میں لکھیں، تاہم عربی زبان اور فقہ اسلامی ان کے خاص موضوعات تھے جن میں انہیں سند کا درجہ حاصل تھا۔ میرے استاذ گرامی ڈاکٹر خورشید احمد رضوی ، غازی صاحب کے بے تکلف دوست تھے۔ انہوں نے بتایا کہ غازی صاحب پاکستان میں عربی زبان کے دو چار عالموں میں سے سرفہرست تھے۔
ایک زمانے میں غازی صاحب فتنہ قادیانیت کے رد میں جنوبی افریقہ کی عدالت میں مسلمانوں کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوتے رہے۔ انہوں نے وہاں دو اڑھائی ماہ قیام کیا تھا اور قادیانیت کی حقیقت کو آشکارا کیا۔ مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ اور اتحاد بین المسلمین غازی صاحب کی زندگی کا مشن تھا۔ وہ جس بین الاقوامی یا اسلامی کانفرنس میں جاتے، وہاں اس بات کا تذکرہ ضرور کرتے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ ان کی نیکیوں کو قبول کرے، ان کی کوتاہیوں سے درگزر کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے۔ آمین۔
(بشکریہ نوائے وقت لاہور، یکم اکتوبر ، ۲۰۱۰ء)