(علم کی پختگی کے لیے باقاعدہ مطالعہ کرنے کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ خاکسار بھی مختلف علوم اور مختلف موضوعات پر اکثر مطالعہ کرتا رہتا ہے۔ آج سے دس برس پہلے پرانی کتابوں کی ایک دکان سے مجلس نشریات اسلام کی شائع کردہ کتاب ’’میری محسن کتابیں‘‘ اچانک دست یاب ہوئی۔ اس کتاب میں بیسویں صدی کے بعض بلند پایہ مشاہیر علم کے مطالعاتی تاثرات بیان کیے گئے تھے۔ مطالعہ کا ذوق رکھنے والے لوگوں کے لیے یہ کتاب ایک کلید اور محرک کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں شامل لوگوں کے طریق مطالعہ سے اپنے لیے مطالعے کے اصول اور طریقے اخذ کیے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے مجھ میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ آج کے موجودہ دور کے ارباب علم کے بھی مطالعہ کے حوالے سے انٹرویوز کیے جائیں۔ اسی مقصد کے پیش نظر میں نے آج سے تقریباً چار سال پہلے عصر حاضر کے اہل علم کے انٹرویوز کرنے شروع کیے جن میں زندگی کے مختلف شعبہ جات کے لوگ شامل ہیں۔ انہی ارباب علم میں ایک شخصیت جو اب ہم میں نہیں رہی، ڈاکٹر محمود احمد غازی کی تھی۔ مطالعے اور کتاب سے دلچسپی رکھنے والے سنجیدہ اہل علم اور شائقین کے لیے ان کے مطالعاتی ذوق کی داستان پر مشتمل یہ انٹرویو پیش خدمت ہے۔ عرفان احمد)
میری ابتدائی تعلیم روایتی انداز میں ہوئی جیسے میرے خاندان میں دوسرے لوگوں کی ہوئی تھی۔ پہلے میں نے قرآن پاک حفظ کیا، اس کے بعد میں نے اپنے والد سے تھوڑی فارسی پڑھی۔ فارسی پڑھنے کے بعد پھر سکول میں داخل ہو گیا۔ تین چار سال سکول میں پڑھا، پھر اسکول کی کچھ تعلیم اطمینان بخش نہیں لگی تو میرے والد صاحب نے مجھے کراچی میں ایک دینی مدرسے میں داخل کروا دیا جہاں میں نے کوئی پانچ سال پڑھا۔ عربی وغیرہ اچھی سیکھ لی۔ میرے والد گورنمنٹ سروس میں تھے تو وہ پھر ۱۹۶۴ء میں اسلام آباد آگئے تو میں بھی ان کے ساتھ اسلام آباد آگیا۔ یہاں کوئی دینی تعلیم کا قابل اعتماد انتظام نہیں تھا، اس لیے تھوڑی تھوڑی وہ بھی چلتی رہی، لیکن اس کے ساتھ میں نے میٹرک کا امتحان بھی دے دیا۔ میٹرک کر نے کے بعد پھر میں نے انٹر میڈیٹ کرلیا۔ اسی دوران انٹر میڈیٹ کے امتحان کے بعد جب میں بی اے کے امتحان کی پرائیویٹ تیاری کر رہا تھا کہ میرے والد صاحب نے مجھے کہا کہ کچھ اور بھی کرنا چاہیے تو پنڈی میں ایک سکول تھا، مدرسہ ملیہ اسلامیہ۔ مولانا عبد الجبار غازی مرحوم نے بنایا تھا۔ جماعت اسلامی کے قائم مقام امیر بھی رہ چکے تھے جب مولانا مودودیؒ گرفتار رہے۔ کچھ عرصہ ان کے ہاں میں نے پڑھایا، لیکن میرا تاثر تھا کہ یہ ایسا ادارہ ہے نہیں جیسا کہ مولانا بنانا چاہتے تھے۔ اسی اسلامیہ مدرسہ میں، میں پڑھاتا تھا۔
مجھے مطالعہ کا شوق تھا، اس لیے میں چھٹی کے دن ادارہ تحقیقات اسلامی کی لائبریری میں چلا جایا کرتا تھا۔ سب لوگوں سے تعارف تھا۔ کسی اور دوست کے نام سے کتاب جاری کروالیا کرتا تھا۔ اسلام آباد میں ایک نیشنل سٹینڈرڈ لائبریری تھی اور وہ پاکستان کونسل برائے قومی یکجہتی لائبریری کہلاتی تھی۔ اس لائبریری میں بھی جایا کرتا تھا اور بہت سی کتابیں لاتا، لیکن وہاں عربی اور فارسی کی بجائے اردو، انگریزی کی کتابیں ملتی تھیں۔ میں فارسی جانتا بھی تھا اور بولتا بھی تھا۔ کتابیں پڑھنے کا بھی شوق تھا اور کتابیں مجھے ادارہ تحقیقات اسلامی سے مل جایا کرتی تھیں توچھٹی کے دن میں پورا دن وہاں گزارتا تھا۔ ایک مرتبہ میں وہاں گیا ہوا تھا۔ یہ بات تقریباً ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۶۸ء کی ہے۔ مدرسہ عربیہ اسلامیہ میں چھٹی تھی۔ ۱۶؍ اکتوبر کو (شہادت لیاقت علی خان کی وجہ سے) میں صبح ہی ادارہ تحقیقات اسلامی کی لائبریری میں، جہاں Reading Hall تھا، وہاں چلا گیا۔ وہاں وہ ایک سرخ وسفید داڑھی والے صاحب بیٹھے ہوئے تھے جونفیس لباس اورخوبصورت عمامہ پہنے ہوئے تھے۔ بڑے خوبصورت اور وجیہ آدمی تھے۔ میں نے سلام کیا۔ قریب جا کر اندازہ ہوا کہ وہ نابینا تھے۔ عربی میں بات کرنے کا مجھے شوق تھا بچپن ہی سے جیسے کہ بچوں کو ہوتا ہے۔ قابلیت کے اظہار کا شوق بچپن میں زیادہ ہوتا ہے۔ سلام ودعا کے بعد عربی میں بات شروع کر دی۔ انھوں نے پوچھا تم کون ہو اور ایک آدھ سوال کیا تو میرے لہجے سے خوش ہوئے۔ پوچھا فارسی بھی جانتے ہو؟ تو میں نے کہا جی۔۔۔ میں فارسی بھی جانتا ہوں۔ کتنی پڑھی ہے؟ میں نے کہا کہ فارسی میں نے کافی پڑھی ہے۔ پوچھا کلا م اقبال پڑھا ہے؟ تو میں نے کہا کہ بہت پڑھا ہے۔ میں تقریباً اس دور میں اقبال کا حافظ تھا فارسی اور اردو میں۔ تو انہوں نے کہا کہ کوئی شعر سناؤ تو میں نے فارسی کے دو تین اشعار سنا دیے۔ ان کے سامنے ’’ارمغان حجاز‘‘ رکھی تھی۔ انھوں نے کہا کہ آخر میں جو رباعی ہے، اسے پڑھو۔ پہلی رباعی تھی ’’حرم از دیر دیگر رنگ وبو‘‘۔ کہا اس کا ترجمہ کرو۔ میں نے ترجمہ کردیا۔ بڑے خوش ہوئے۔ ترجمہ ٹھیک تھا، ان کو اچھا لگا۔
انھوں نے بتایا کہ میرا نام شیخ صاوی علی شعلان ہے۔ میں مصر کا مشہور شاعر ہوں اور مجھے حکومت پاکستان نے بلایا ہے کہ میں کلام اقبال کا عربی منظوم ترجمہ کروں گا توکیا تم میرے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہو ؟میں نے کہا جی ہاں تو کہنے لگے کب سے؟ میں نے کہا کہ ابھی سے تو کہنے لگے کیا کرتے ہو؟ میں نے کہا کہ اسکول میں پڑھاتا ہوں۔ پوچھا تو اسکول کا کیا کرو گے؟ تو میں نے کہا، چھوڑدوں گا۔ اس پر بڑے خوش ہوئے۔ ان کو حیرت یہ بھی ہوئی اور شک بھی کہ کیسا آدمی ہے۔ ایک دو آدمیوں سے پوچھا تو انھوں نے یقین دلایا کہ یہ آپ کے ساتھ استعفا دے کر کام کرلے گا۔ تو میں نے وہاں جانا شروع کردیا اور اسکول میں استعفا دے دیا۔ مولانا غازی بہت ناراض ہوئے۔ انھوں نے بہت mindکیا لیکن میں نے ان کو اس کام کے بارے میں بتایا تو انھوں نے پوچھا کہ کیا تنخواہ ملے گی تو میں نے کہا کہ نہیں، تنخواہ کی فکر نہیں۔ اس طرح میں مدرسہ چھوڑ کر شیخ شعلان کے ساتھ لگ گیا۔ ان کے ساتھ کام کرنے میں کافی فائدے ہوئے۔ ایک تومیری عربی درست ہو گئی۔ پھر میں نے ان کے ساتھ کلام اقبالؒ ایک نئی ترتیب کے ساتھ پڑھا اور ہر مشق اور شعر کا عربی ترجمہ کر کے ان کو بتایا خاص طور پر اردو شعر کا۔ اور بھی بہت سی کتابیں پڑھیں اور اس طرح منتخب کلام کا ترجمہ ہوا، خاص طور پر علامہ اقبال کی فارسی مثنوی جو ہے، اس کا مکمل عربی ترجمہ ہوا، اس میں مدد کی۔ میں ترجمہDictateکردیا کرتا تھا، وہ اپنی برل مشین پر لکھ لیا کرتے تھے اور رات کو کہیں نظم کرتے تھے۔ برل مشین پر وہ نظم اگلے دن صبح Dictateکرواتے، میں اس دوران پھر تیار ترجمہ ان کو نثر میں لکھواتا تھا۔ اس طرح سے کوئی تقریباً ایک سال میں نے ان کے ساتھ کام کیا۔ اس ایک سال میں تقریباً جولائی، اگست ۶۹ء تک کافی کام ہو گیا، ترجمہ بھی ہو گیا۔ اس دوران اور بھی کتب جو وہ فرمائش کرتے، پڑھ کر سنایا کرتا تھا۔ جو چیزیں انھوں نے نہیں پڑھی تھیں، وہ میں نے پڑھ کر سنائیں۔ ایسے شاعروں، ادیبوں کے نام جو میں نے نہیں سنے تھے، جب ان کی کتابیں ان کو پڑھ پڑھ کر سنائیں تو اس سے میرا مطالعہ مزیدوسیع ہوگیا۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ میری عربی زبان مضبوط ہو گئی۔ مجھے آج بھی عربی میں لکھنے، بولنے، پڑھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔
جب وہ چلے گئے یہاں سے اپنا کام مکمل کر کے تو ظاہر کہ میرا تعارف یہاں پر سب لوگوں سے ہو گیا تھا۔ پہلے کم تھا، پھر زیادہ ہو گیا کہ یہ عربی، فارسی اچھی جانتے ہیں ۔اس سے لوگوں کا میرے بارے میں تاثر زیادہ اچھا ہو گیا، کیوں کہ عربی جاننے والے اکثر لکھ پڑھ نہیں سکتے۔ جو یہ کر سکتے ہیں، وہ بول نہیں سکتے، لیکن الحمد للہ میرے اندر یہ تمام صلاحیتیں پیدا ہو گئیں۔ اس دوران انسٹی ٹیوٹ میں ملازمت کی آفر ہو گئی۔ انھوں نے مجھے وہاں آفر کی، ہلکا سا انٹر ویو ہوا، مجھے لگا کہ فارمیلٹی ہے۔ کوئی محمدممتاز حسن مرحوم تھے، نیشنل بنک کے ریٹائرڈ صدر تھے اس وقت، ایک دواور حضرات تھے۔ اس طرح ۱۹۶۹ء کی گرمیوں میں، میں نے انسٹی ٹیوٹ جوائن کرلیا۔ اس کے بعد میں انسٹی ٹیوٹ ہی میں رہا۔ اس دوران میں نے پرائیویٹ ایم اے بھی کر لیا تھا اور PhD بھی۔
انیسویں صدی میں مسلمانوں میں جو احیائے اسلام کا کام شروع ہوا، تجدید واحیائے دین کی تحریکیں چلتی رہی ہیں، ان کا بہت معروضی انداز میں مطالعہ کیا جائے تو مختلف لوگوں نے مختلف تحریکات کامطالعہ شروع کیا۔ سنو سی تحریک جو لیبیا میں چلی تھی، یہ آزادی کی تحریک تھی جس کے نتیجہ میں حکومت بھی بنی اور عمرو مختار اسی تحریک کے قائد تھے۔ شاید اس لیے کہ ماخذ کی کمی تھی، جو کام کرنے والے تھے شاید عربی میں اتنے رواں نہ تھے، بہر حال جو بھی وجہ تھی تو میں نے اس پر کام شروع کردیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں نے سنوسی تحریک کا نام پہلی بار سنا تھا۔ مجھے اس کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ لیبیا کے نام سے بھی زیادہ واقف نہیں تھا کہ لیبیا بھی کوئی ملک ہے۔ بہرحال انھوں نے کہا کہ سنوسی تحریک پر کام کریں۔ میں نے تلاش شروع کی اور مواد ملنا شروع ہوا اور میں نے مطالعہ شروع کیا اور ایک کتاب تیار کردی۔ بعد میں کچھ لوگوں کے مشورہ پر اس کتاب یا تحریک کو Reviseکر کے PhD کے مطالعہ کے لیے پیش کردیا۔ اسے یونیورسٹی نے قبول کرلیا اور اس طرح میں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان میں غالباً ابھی تک وہ واحد کتاب ہے جو کہ سنوسی تحریک کے بارے میں چھپی ہے۔
میری ابتدائی تعلیم کراچی میں ہوئی۔ میرے والد کا تعلق دہلی کی ایک قریبی جگہ سے تھا، لیکن تعلیم کے بعد کا بیشتر حصہ علی گڑھ یا دہلی میں گزارا ۔علی گڑھ رہے۔ میرے خاندان کا علی گڑھ سے پرانا تعلق تھا۔ میرے دادا علی گڑھ سے پڑھ چکے تھے۔ علی گڑھ کی فٹ بال کی ٹیم کے کپتان تھے۔ میری دادی بتاتی ہیں کہ شادی کے بعد بھی جب وہاں جاتے تو ہاتھی ان کو لینے کے لیے آیا کرتا تھا۔ گاڑی تو ہوتی نہیں تھی اور ہاتھی کسی کو لینے کے لیے آئے تو یہ ایک دیہاتی کے لیے نئی بات ہوتی تھی۔ میری دادی کے ماموں جو تھے، بدر الحسن ان کا نام تھا، وہ سرسید کے ساتھ علی گڑھ کالج کے ٹرسٹی تھے۔ بدر باغ ان کے نام سے تھا۔ علی گڑھ اور دیوبند دونوں سے میر اخاندانی تعلق تھا۔ خاندان کے کچھ لوگ دیوبند سے پڑھے تھے، کچھ علی گڑھ سے پڑھے تھے۔ دونوں طرف رجحان تھا۔ یہ بھی ہوا کہ ایک بھائی کی تعلیم علی گڑھ، دوسرے کی دیوبند میں ہوئی، باپ کی دیوبند یا بیٹے کی علی گڑھ میں۔ یہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہے یعنی دینی اور دنیاوی تعلیم۔ میرے والدصاحب کی تعلیم پہلے مدرسہ میں ہوئی، بعد میں علی گڑھ چلے گئے ۔علی گڑھ سے پڑھنے کے بعد دہلی آگئے اور پرائیویٹ تعلیمی ادارہ قائم کیا جس میں درس وتدریس ہوتی تھی۔ ساتھ ہی ایک فتح پوری کالج تھا جو اب بھی ہے ،اس میں پڑھایا کرتے تھے۔فتح پوری کالج شایدکامیاب طور پر چلا نہیں، اس لیے والد صاحب نے بعد میں وہ ادارہ چھوڑ کر گورنمنٹ سروس اختیار کرلی۔ سروس میں دہلی میں رہتے رہے۔
جب پاکستان قائم ہوا تو بڑے پر جوش مسلم لیگی تھے، انھوں نے پاکستان کو Opt کیا۔ سرکاری ملازم ہوئے، بہت کام کیا۔ آرڈر ملا کہ۱۷؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستانی ہائی کمیشن دہلی میں رپورٹ کریں اور ان کی پوسٹنگ دہلی میں ہوئی۔ ۱۷؍اگست ۱۹۴۷ء کو دہلی میں کرفیو تھا۔ بہت قتل عام ہوا تھا۔ والد صاحب بتاتے ہیں کہ مجھے ساری رات نیند نہیں آئی کہ صبح پاکستان کی سروس جوائن کرنی ہے۔ یہ بتاتے ہوئے رویا کرتے تھے کہ میں صبح آٹھ بجے کپڑے بدل کر روانہ ہو گیا، اب وہاں لوگوں کی لاشیں پھلانگتا ہوا جا رہا تھا۔ بڑی مشکل اور تلاش کے بعد عمارت ملی جس میں ہائی کمیشن قائم ہوا تھا۔ کافی دیر تک دستک دیتے رہے، کسی نے نہیں کھولا۔ اندر سے کسی نے جھانکا اور پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ انھوں نے کہا کہ میرے پاس لیٹر ہے اورمیں نے جوائن کرنا ہے تو انھوں نے کہا کہ اس حالت میں کیا پاگل ہو؟ واپس جاؤ، دوبارہ آنا۔ پھر ۱۵ کو گئے۔ ۱۷؍ اگست کو امن ہوا تو انھوں نے جوائن کیا اور دہلی میں گئے۔
میری پیدائش دہلی میں ہوئی۔ میں ۴، ۵ سال کا تھا جب دہلی سے پاکستان آیا۔ بچپن میں پرانے مسلمانوں کے قصے کہانیاں پڑھا کرتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میری دادی بڑی عالمہ فاضلہ خاتون تھیں۔ ان کی تعلیم تو کوئی زیادہ نہیں تھی، لیکن بڑی وسیع المطالعہ خاتون تھیں۔ اردو، فارسی ان کو اچھی آتی تھی۔ اردو کی کتابیں ان کے پاس بہت تھیں۔ وہ اپنے ساتھ کچھ اور تو نہیں لاسکی تھیں، لیکن اپنے مطالعہ کی کتابیں دوصندوقوں میں بھر کر لائی تھیں۔ وہ کتابیں میں پڑھا کرتا تھا۔ ایک کتاب ان کو زبانی یاد تھی جس کا نام تھا’’ صمصام الاسلام‘‘۔ اس کے لغوی معنی ہیں ’’اسلام کی تلوار‘‘ لیکن یہ ایک منظوم ترجمہ تھا ایک پرانی کتاب کا جو اس نام سے مشہور ہے۔ اس میں شام کے علاقہ میں جو مسلمانوں کی فتوحات کے واقعات تھے ،خالد بن ولیدؓ کی بہادری کے قصے تھے، ابوعبیدہؓ کی بہادری کے واقعات تھے، یہ کسی نے نظم کیے ہوئے تھے۔ یہ میری دادی کو زبانی یاد تھی۔ اس کی بہت سی نظمیں اور شعرمجھے سنایا کرتی تھیں۔ اس سے مجھے یہ واقعات یاد ہو گئے۔ تو ایسی کتابیں جن میں اس طرح کے واقعات ہوں، وہ مجھے اب بھی اچھی لگتی ہیں۔
میں کراچی میں قرآن پاک حفظ کرچکا تھا۔ یہ غالباً ۱۹۵۷ء کی بات ہے، میرے والد کے ایک قریبی دوست تھے۔ میرے والد سے ان کابڑا وسیع تعلق تھا۔ کافی لمبی عمر کے بزرگ تھے اور مولانا اشرف علی تھانوی کے بھتیجے تھے۔ کراچی میں مولانا اشرف علی تھانوی کی کتابوں کی طباعت کا کام انھوں نے شروع کررکھا تھا ادارہ تالیفات اشرفیہ کے نام سے۔ مولانا کے ملفوظات کی چھ، آٹھ جلدیں انھوں نے شائع کیں جو پروف ریڈنگ کرنے کے لیے میرے پاس آئی تھیں۔ میں ان کے ساتھ بیٹھ کر پروف پڑھا کرتا تھا۔ وہ مسودے کو پڑھتے اور میں اصل کو پڑھتا تھا اور جو غلطی ہوتی، میں ٹھیک کردیتا اور جہاں جہاں قرآن پاک کے حوالے ہوتے تھے، میں حافظ ہونے کی وجہ سے حوالہ نکال دیا کرتا تھا۔ اس کا ترجمہ اور ریفرنس مکمل طور پر وہ دے دیا کرتے تھے۔ اس طرح سے بچپن میں، جب کہ اردو نئی پڑھنی سیکھی تھی تو مولانا اشرف علی تھانوی کی کتابیں میں نے پڑھ ڈالیں جب کہ وہ ابھی انھیں چھپوا رہے تھے۔ ویسے تو ملفوظات میں تصوف کے مباحث بہت ہیں۔ اکثر جو فنی چیزیں ہیں، وہ تو میری سمجھ میں بہت کم آتی تھیں، لیکن اس میں جو حکایتیں اورشعروشاعری ہوتی، دلچسپی کی ہوتی تھیں، ان سے مجھے دلچسپی ہو گئی تو اس طرح حضرت تھانوی کی کتابیں بہت بچپن میں پڑھ ڈالی تھیں۔ ان کے پڑھنے سے بہت سارے دین کے اہم حقائق اور اہم چیزیں جو تھیں، وہ ذہن نشین ہو گئیں اور اس طرح بہت ساری ایسی مشکلات سے بچا رہا جس کا بہت سے لوگ شکار ہوتے ہیں کیونکہ اکثر لوگوں کو ان کا Back Ground معلوم نہیں ہوتا۔
اس دوران کراچی ہی میں تھا کہ اتفاق سے مجھے مولانا مودودی کی کتابیں پڑھنے کا موقع ملا۔ ایک بزرگ تھے مفتی محمد اکمل جن کے پاس مولانا مودودی ؒ کی کتابیں تھیں تو میں فارغ وقت میں ان کے کتب خانہ میں جایا کرتا تھا اور کتابیں پڑھتا اور دیکھتا رہتا۔ میرا کتابوں کا ذوق انھوں نے دیکھا تو ایک دن کہنے لگے کہ کونے میں جو کتابوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے، اس میں جو تمھارے کام کی کتابیں ہوں، وہ لے جاؤ تو میں بڑا خوش ہوا اور ایک تخت کے نیچے گھس کر مٹی میں ۲، ۴ دن کتابوں کو چھانٹتا رہا۔ ساری کتابیں باہر نکالیں اور ۵۰، ۱۰۰ کتابوں کا ایک بنڈل باندھا کہ لے جاؤں؟ توانھوں نے کہا کہ ہاں ٹھیک ہے، لے جاؤ تو وہ ساری کتابیں میں گھر لے آیا۔ اس طرح میری پہلی Personal لائبریری ان ردی کی عطیہ شدہ کتابوں سے بنی۔ کچھ کام کی نہیں تھیں، لیکن کچھ بہت مفید نکلیں۔ جو اچھی کتابیں تھیں، ان میں دو کتابچے تھے۔ ایک مولانا مودودیؒ کا تھا: ’’پاکستان میں اسلامی نظام اور نفاذ کی عملی تدابیر‘‘۔ یہ لیکچر یا تقریر تھی۔ میں بہت متاثر ہوا کہ یہ بڑے کام کی تقریر ہے۔ مولانا کی کتابیں پڑھنے کا ذوق بھی اس طرح ہوا۔ مولانا کی کتابیں میں نے اس وقت پڑھنی شروع کیں۔ دوسری چیز جو مجھے ان کتابوں میں ملی، وہ ایک قرارداد تھی جو مسلمانوں کے مختلف مسائل کے بارے میں تھی۔ اب یاد نہیں کہ کس ادارے کی تھی، شاید کراچی میں انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی تھی جو مسئلہ فلسطین اور الجزائر اور دیگر آزادی کی ان تحریکوں کے بارے میں تھی جسے پڑھ کر مجھے بہت دکھ ہوا کہ اچھا مسلمانوں کے ساتھ یہ ہو رہا ہے اور یہ صرف قراردادیں پاس کررہے ہیں، اس سے کیا ہوگا؟ اور میرے دل میں یہ آیا کہ حکومت پاکستان وہاں پر فوجیں بھیجتی۔ اس طرح کے جذبات میرے دل میں آتے تھے۔ یہ مجھے اندازہ نہ تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ جب ریزولیشن پاس کرنے کی ہمت بھی نہ ہوگی۔ لیکن بہر حال اس سے مجھ میں دنیائے اسلام کے معاملات میں دلچسپی لینے کا ذوق پیدا ہوگیا۔ اس دن سے مجھے عالم اسلام کے مسائل سے دلچسپی پید اہو گئی اور اب کافی مسائل سے واقفیت ہے۔
شاعری سے مجھے زیادہ دلچسپی شروع سے نہیں تھی اور شعروشاعری میری طبیعت کے خلاف تھی۔ وجہ کیا ہے؟ مجھے معلوم نہیں، لیکن میرا دل شعر و شاعری میں لگتا نہیں تھا۔ شاید اس وجہ سے کہ میری والدہ مجھے فارسی شاعری پڑھانا چاہتی تھیں جو کہ شاید اس وقت میرے ذوق اور سطح سے بلند ہو گی اور شاید اس وجہ سے شاعری سے میرا دل کھٹا ہو گیا۔ بہر حال جو بھی وجہ ہوگی، لیکن اردو ناول اور افسانے میں میرا دل لگنے لگا۔ اس زمانے میں نسیم حجازی کے میں نے کافی ناول پڑھے۔ ایک خاتون ہوتی تھیں، غالباً اے آر خاتون، بہت اچھا لکھتی تھیں۔ ان کے ناول بھی پڑھے۔ یہ دو نام مجھے یاد ہیں۔ ممکن ہے کہ میری اردو پر اس افسانوی ادب کے پڑھنے کا اثر ہوا ہو۔ اردو میں نے باقاعدہ نہیں پڑھی یا باقاعدہ اردو تعلیم کسی ادارے میں نہیں پائی۔ اردو میں لکھ لیتا ہوں، تحریریں موجود ہیں۔
جب میری دینی تعلیم مکمل ہو گئی تو زیادہ تر عربی مطالعہ کا موقع ملا۔ انگریزی کتابوں کا مطالعہ بھی کیا۔ انگریزی میں جن چیزوں کے ساتھ دلچسپی رہی، یا تو قانون کے متعلق موضوعات تھے کیونکہ میں فقہ کا طالب علم تھا اور وہ اس لیے کہ اس کے ذریعے قانون کو سمجھنے میں مدد ملتی تھی۔ قانون کی خاص کتابیں پڑھیں اور پھر کچھ قانون کا باقاعدہ طالب علم بھی رہا۔ FEL بھی کیا اور ایل ایل بی کا امتحان بھی پاس کیا۔ اس میں دو پرچوں میں شرکت نہ کرسکا اور پرچوں میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے فیل ہو گیا۔ میں نے کوشش کی دوبارہ کرنے کی، لیکن نہیں کر سکا وقت نہ ملنے کی وجہ سے۔ شاید یہی اللہ تعالیٰ کی مرضی تھی کہ میں وکالت نہ کروں، استادبنوں۔ ۷۳ء، ۷۴ء، ۷۵ء میں قانون پڑھنے کا موقع ملا۔ انگریزی پڑھنے کا ذوق تو موجود تھا۔ میرے دادا علی گڑھ میں پڑھتے تھے ، میرے والدنے دینی تعلیم بھی حاصل کی تھی اور انگریزی بھی جانتے تھے اور میرے خاندان میں کافی لوگ دینی ودنیوی تعلیم کے حامل موجود تھے۔ بچپن کراچی میں ہی گزارا اور پھر اسلام آباد کا ماحول انگریزی کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے کافی تھا۔ انگریزی پڑھنے کی کوشش کی، میری کوشش تھی کہ ایسی کتابیں پڑھوں جو مغربی تصورات کو سمجھنے میں مدد دیں۔ اس کا احساس علامہ اقبال کی شاعری کے مطالعے سے ہوا۔
علامہ اقبال کے کلام کے مطالعہ کا ذوق کب پیدا ہوا؟ یہ کہنا مشکل ہے لیکن ۱۹۶۵، ۶۶ء کے لگ بھگ ہوا۔ اس سے پہلے اقبال کی کوئی خاص چیز نہیں پڑھی تھی اور پھر اتنا ہوا کہ دو تین سال ایسے گزرے کہ میں نے علامہ اقبال کے علاوہ کچھ پڑھا ہی نہیں اور اس زمانے میں مجھے کلام اقبال تقریباً سارا یاد تھا اور اب چالیس بیالیس سال ہو گئے ہیں، اب بھی آپ کوئی شعر مجھ سے پوچھ لیں تو تقریباً ۹۰ فیصد شعر کے بارے میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ یہ فلاں غزل میں فلاں کتاب کا حصہ ہے۔ ۹۰ فیصد شعر تو اب بھی مجھے یاد ہیں۔ مجھے کلام اقبال کو بیان کرنے میں کبھی دقت نہیں ہوئی۔ اسی عرصے میں شیخ شعلان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ تو کلامِ اقبال کے مطالعے سے یہ ذوق پیدا ہوا کہ مغرب کا تنقیدی مطالعہ ضروری ہے اور مغربی افکار سے واقفیت کے بغیر اور اس کے بارے میں ایک موقف اختیار کیے بغیر دور جدید میں مسلمانوں کا احیاناممکن ہے۔ اس کا جب احساس ہوا تو میں نے مغربی افکار کا مطالعہ شروع کیا۔ میری دلچسپی کے جو میدان تھے، وہ قانون، دستور اور کسی حد تک معیشت تھے، اگرچہ یہ میرا اتنا پسندیدہ موضوع نہیں رہا، لیکن سیاست کو سمجھنے کے لیے معیشت کو پڑھنا بھی ضروری ہے اور تھوڑا سا مغربی افکار کی تاریخ اور مغربی تہذیب کا پس منظر، مذہب اور ریاستی کشمکش، یہ چیزیں میری دلچسپی کا موضوع رہی ہیں۔ اس پر میں نے کچھ کتابیں پڑھیں، لیکن جس کتاب سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا، وہ ول ڈیورنٹ کی کتاب The Story of Civilization ہے جو آٹھ جلدوں میں ہے۔ یہ کتاب میں نے کئی مرتبہ پڑھی ہے اورنہایت باریک بینی اورگہرائی سے پڑھی ہے۔ ایک تو اس سے انگریزی بہتر ہو جاتی ہے اور ویسے بھی ان چیزوں کے متعلق جن کے بارے میں ذہن میں سوالات پیدا ہوتے تھے، ان کا جواب اس کتاب میں تھا۔Will Durant کی اس کتاب کے علاوہ مغربی افکار اور مغربی تہذیب کو جاننے کے لیے میں نے جو کتابیں دیکھیں، ان میں ٹرینڈ رسل کی کتابیں بہت اہم ہیں جو کہ میں نے پڑھی ہیں۔ اس کی کتابوں میںHistory of Western Philosophyجیسی کتاب کو میں نے تین چار مرتبہ پڑھا ہے۔ اس سے مغربی افکار کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ کس دور میں کیا تھا اور مغرب میں کس دور میں کیا خیالات پیدا ہوئے، اس کا پس منظر کیا تھا۔ ان کتابوں کو پڑھنے سے مغربی افکار اور تہذیب کو سمجھنے میں مدد ملی۔ مغرب کو جاننے میں ایک اور کتاب جس سے بڑی مدد ملی ہے، میں نے اسے پاکستان کونسل کی لائبریری سے لے کر پڑھا۔ گبن کی کتاب The Fall of Roman Empire اگرچہ پرانی ہے، Outdated ہے، لیکن کتاب بہت اچھی ہے۔ اس سے مغربی رومن امپائر اورر ومن چرچ اور ان چیزوں کو سمجھنے میں بڑی مدد ملی۔ یہ چیزیں جب تھوڑی سی پڑھ لیں تو اقبال کی شاعری میں مجھے بہت گہرائی ملی۔ علامہ اقبال کا کہنا یہ ہے کہ جتنا آدمی گہرائی سے مطالعہ کرتا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابھی سطح پر ہے۔
اسلامی قانون پر تو بہت سی کتابیں ہیں جن میں سے چند کا ذکر کروں گا۔ مغربی قانون کے بارے میں دو کتابیں مجھے بڑی پسندآئیں جنھیں میں کثرت سے پڑھتا ہوں۔ اے کے بروہی صاحب کی کتاب ہےThe Fundamental Law of Paksitan۔ اصل میں تو یہ ۱۹۵۶ء کے Constitution کی شرح ہے، لیکن انھوں نے مغربی قوانین کے تصورات، شہری اور تمام وہ بنیادی عقائد جس پر مغربی قوانین کی اساس ہے، ان پر بحث کی ہے۔ اتنی عالمانہ بحث بہت کم لوگ کر پاتے ہیں۔ یہ کتاب مجھے بہت پسندآئی اور اسے میں نے کئی مرتبہ پڑھا اور اب بھی ہمیشہ اسے وقتاً فوقتاًدیکھتا رہتا ہوں اور میرے خیال میں کسی اور مسلمان کی اس موضوع پراتنی جامع کتاب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ Jurisdictionپر ایک اور کتاب پڑھی جو نئے انداز سے لکھی گئی ہے۔ اس کے مصنف نے ایسا التزام کیا ہے کہ اس میں تمام بنیادی تصورات دینے والے ماہرین قانون ہیں۔ مغربی دنیا کے اہل علم کے تصورات کے اقتباسات پیش کر کے اور بنیادی قانونی تصورات پر بحث کی ہے۔ یہ بھی مجھے بڑی پسندآئی۔ سترہویں اٹھارویں صدی میں جب سے اس پر غور شروع ہوا ہے کہ کس نے کیا لکھا ہے، Montersنے کیا لکھا تھا اور Kalsenنے کیا لکھا تھا، Rousseau نے کیا لکھا تھا تو گویا قانون تصورات کی تاریخ بھی آگئی۔ Rousseau کی اپنی زبان میں اس کا بیان بھی آگیا کہ انہوں نے Social Contractکے بارے میں کیا لکھا تھا، اس میں قانون دانوں کے اپنے دلچسپی کے موضوعات بھی ہیں۔
مجموعی طور پراسلامیات سے متعلق چیزیں ہی میری دلچسپی سے متعلق ہیں۔ اسلامی تاریخ و تمدن، تصوف اور اس طرح کی ہر چیز جیسے سید علی ہجویریؒ ]کی تحریریں[، مجدد الف ثانی کے مکتوبات۔ مجدد الف ثانی کے جو مکتوبات ہیں، وہ تصوف کی بنیاد ہیں اور تصوف میں اس سے زیادہ ٹھوس اور جامع تحریر کسی کی بھی نہیں ہے۔ پورے ۱۴۰۰ برس میں کسی بھی مسلمان صوفی کی اتنی جامع اور ٹھوس تحریریں نہیں ہیں جتنی کہ مجدد الف ثانی کی تحریریں ہیں۔ علامہ اقبال نے ان کے بارے میں کہا تھا کہGreatest Muslim Genius of India، یہ میں نے سارے پڑھے ہیں۔ اس میں سے ۱۱۰۰ کے قریب منتخب مکتوبات کا عربی ترجمہ بھی کیا ۔شاہ ولی اللہ کی کتب پڑھیں۔ امام غزالیؒ کی’’ احیاء العلوم‘‘ تو ہمیشہ میرے سرہانے رہتی ہے جس کو وقتاً فوقتاً پڑھتا رہتا ہوں۔ مولانا تھانوی کی کتب بچپن میں ہی پڑھ لی تھیں۔ بنیادی چیزیں پڑھیں۔ عصر جدید کے تمام لوگوں کو پڑھا، لیکن بنیادی جو کتابیں ہیں، وہ قوت القلوب ہے ابوطالب مکی کی، کتاب اللمعہ، رسالہ قشیر یہ ہے۔ یہ سب الحمدللہ میرے پاس ہیں۔ دورِحاضر کے مصنفین میں تصوف پرٹھوس اصل کام کسی نے بھی نہیں کیا ہے، یعنی ایسا تو ہے کہ کچھ لوگوں نے تصوف کو نئے انداز میں سمجھانے کی کوشش کی۔ ان میں دو تین کتابیں بہت اچھی ہیں۔ ایک تو مولانا زوارحسین صاحب جو کہ کراچی کے ایک بزرگ ہیں، ان کی کتاب ہے ’’عمدۃ السلوک‘‘۔ ایک مولانا اللہ یار خان تھے یہاں چکوال کے قریب، ان کی کتاب ہے ’’دلائل السلوک‘‘۔ یہ دونوں اچھی کتابیں ہیں، لیکن میرے ذہن میں اس سے مختلف نقشہ ہے۔ ایک بزرگ میرے دوست ہیں، صاحبزادہ محمد حسن الٰہی، یہاں قریب ایک جگہ ہے، وہاں کے رہنے والے ہیں۔ وہ بڑے صوفی بزرگ ہیں۔ عالم فاضل ہیں، استاد بھی ہیں، ان کی تحریریں بھی تصوف پر اچھی تحریریں ہیں۔ میں نے کئی مرتبہ ان سے گزارش کی ہے کہ ان سب کو مرتب کر کے تصوف پر ایک جامع کتاب تیار کریں جس میں ان اعتراضات کا جواب بھی موجود ہو جو کہ عموماً تصوف پر کیے جاتے ہیں۔ بڑے وزنی اعتراضات ہیں، ہلکے اعتراضات نہیں ہیں اور جو تصوف کے علم برداران کہتے رہے ہیں، وہ بھی بڑا وزنی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ کے اہم اور عظیم ترین لوگ تصوف کے ساتھ وابستہ رہے ہیں، اس لیے آپ اسے آسانی سے نظرانداز نہیں کر سکتے کہ بیک جنبش قلم کہہ دیں کہ تصوف فضول ہے۔ یہ کہنے سے کام نہیں چلے گا، اس کے لیے ٹھوس مطالعہ کی ضرورت ہے۔
اسی طرح عصر حاضر میں مولانا مودودیؒ کی اکثر معروف کتب پڑھی ہیں۔ میں مولانا کی دو کتابوں سے بہت متاثر ہوا تھا۔ اب بھی دوبارہ پڑھتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ پہلا تاثر بالکل صحیح تھا۔ جو کتابیں مولانا کی بہت مقبول ہیں اور جس سے لوگ بہت متاثر ہوتے ہیں، میں ان سے متاثر نہیں ہوا۔یہ دو کتابیں ’’تنقیحات‘‘ اور ’’اسلام اور جدید معاشی نظریات‘‘ ہیں۔ یہ کتابیں مجھے بہت غیر معمولی فاضلانہ اور Creativeمحسوس ہوئیں۔ مولانا کی جن کتابوں سے لوگ بہت متاثر ہوتے ہیں، ’’خلافت وملوکیت‘‘ اور ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘، ’’تجدید واحیائے دین‘‘ ہیں۔ ان کتابوں نے مجھے بہت کم متاثر کیا۔ مولانا کا احترام مانع ہے، ورنہ اس بات کو اور پھیلا سکتا ہوں۔ یہ مجھے مولانا کے معیار کی کتابیں معلوم نہیں ہوئیں، جو مولانا کا علمی معیار ہے۔ ’’خلافت و ملوکیت‘‘ کے بارے میں ایک اچھی کتاب حافظ صلاح الدین یوسف کی ہے جوبڑی معتدل اور اچھی کتاب ہے۔
اصل میں، میں مولانا پر وہ اعتراضات نہیں کرتا جس طرح کے اعتراضات یہ لوگ کرتے ہیں اور میں اُس طرح کے خیالات کے اظہار میں مولانا کو معذور اور کسی حد تک حق بجانب سمجھتا ہوں۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ ہر بڑا فاضل مفکر اپنے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ ظاہر ہے کہ اگرماحول کا نوٹس (Notice) نہ لے تو وہ بڑا مفکر نہیں بن سکتا۔ وہ کیا مفکر ہے کہ جو ماحول کا جواب نہ دے اور نہ ہی بالکل ماحول کا اسیر ہو جائے۔ تو ہر مفکر کے لیے یہ بڑا چیلنج ہوتا ہے کہ اُس میں اتنی عالمگیریت ہو کہ ماحول سے بہت آگے جا کر بات کرے، لیکن اُس کے ساتھ ماحول کا نوٹس لے کر اُس کا جواب بھی دے۔ تو مولانا جس ماحول میں لکھ رہے تھے، وہ مسلمانوں کی انتہائی پستی کا دور تھا۔ کوئی ایسی قابل ذکر قوت نہ تھی جو مسلمانوں کے مقاصد کو لے کر چل سکے، جو مسلمانوں کی مصلحت اور Cause کا تحفظ کر سکے۔ اُس کے مقابلے میں Communism کی ایک بڑی قوت قائم ہو گئی تھی جو Communism کو ایک پوری دنیا میں فروغ دے رہی تھی، وسائل استعمال کر رہی تھی۔ برطانیہ کی بڑی قوت تھی جو پوری دنیا میں اپنے وسائل سے انگریزی زبان، انگریزی کلچر اور انگریزی اقدار کو فروغ دے رہی تھی۔ بڑے بڑے تعلیمی ادارے انگریزی اقدار کو فروغ دینے کے لیے قائم کیے جا رہے تھے۔ تو اگر مولانا مودودی کے ذہن میں یہ آیا کہ مسلمانوں کی بھی ایک ریاست اُسی طرح کی ہونی چاہیے تویہ ان کی ذات میں موجود اخلاص کی بات ہے۔ اِس درد مندی اور اخلاص سے انہوں نے مسلمانوں کی زندگی کا جائزہ لیا ہو گا تو اُن کو لگا ہو گا کہ بڑی بڑی حکومتیں اپنے تصورات کو پھیلا رہی ہیں جو اسلام کے نقطہ نظر سے غلط ہے تو اگر اسلام کی بھی اس طرح کی ایک سلطنت ہو جو اُس Cause کو لے کر چلے تو اسلام کے حق میں بہتر ہوگا۔ تو اِس لیے مولانا نے اُس کے لیے قوم کو آمادہ کرنا شروع کیا۔ اِس کا نتیجہ لازمی طور پر یہ نکل سکتا تھا کہ مولانا کے اندازِ تخاطب اور طرزِ تحریرمیں سیاسیات کا پہلو بہت نمایاں ہو گیا۔ سیاسیات کے پہلو کا نمایاں ہونا اس لیے نہیں کہ مولانا اسلام میں بھی سیاست کو وہ مقام دیتے ہیں جو اُن کی تحریروں سے نظر آتا ہے۔ اُن کی تحریروں میں سیاسیات کی نمایاں حیثیت اِس لیے نظر آئی کہ مولانا جس دور میں لکھ رہے تھے یا جس طبقے سے مخاطب تھے، اُس طبقے کا بڑا مسئلہ یہ تھا۔ اب یہ سمجھنا کہ مولانا اسلام کے عمومی نظام میں سیاست کو بھی وہ درجہ دیتے ہیں تو یہ مناسب نہیں ہے۔ یہ مولانا کے ساتھ انصاف نہیں ہے، لیکن اُن کی تحریروں سے یہ رنگ پیدا ہوتا ہے۔ خواہی نخواہی، دانستہ یا نا دانستہ اُس سے قارئین کا ذہن یہ بنا تو پھر اس پر مولانا ابو الحسن علی ندوی کو قلم اٹھانا پڑا۔
مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی کتاب ’’پرانے چراغ‘‘ بہت معیاری کتاب ہے۔ میری شخصیت پر اس کے بہت اثرات مرتب ہوئے ہیں، البتہ ان کی شہرت کی وجہ جو کتاب ہے، وہ مجھے پسند نہیں آئی۔ ’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر‘‘ میں نے پہلے عربی میں پڑھی تھی۔ اس کی زبان بہت اچھی ہے، عربی میں وہ کتاب میں نے enjoy کی، لیکن اس کے مند رجات نے مجھے متاثر نہیں کیا۔ مولانا کی جس کتاب سے بہت متاثر ہوا اور بار بار پڑھی ہیں، وہ ’’پرانے چراغ‘‘ اور ’’سیرت سید احمد شہیدؒ ‘‘ ہیں۔
میں ایک زمانے میں کمیونزم سے بڑا متاثر ہوا۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں پاکستان کی چین نے بڑی مدد کی تھی اور بڑا چرچا تھا اس کا۔ اس زمانے میں چینی سفارت خانہ کمیونزم پر بڑی کثرت سے لٹریچر تقسیم کیاکرتا تھا۔ تو وہ لٹریچر دیکھ کر مجھے لگتا تھا کہ واقعی اگر دنیا میں کوئی مظلوموں کا ساتھی ہے تو وہ کمیونسٹ ہیں۔ انگریزی میری اتنی رواں نہیں تھی کہ میں انگریزی کی کتابیں پڑھ سکوں۔ عربی میں بھی کوئی چیزیں نہیں ملتی تھیں، لیکن جو کچھ ملتا تھا، میں نے پڑھنے کی کوشش کی اور کوئی سال سوا سال ایسا گزرا کہ کمیونزم کے بارے میں میری بڑی اچھی رائے رہی اور جو چیزیں اس بارے میں ملیں، میں نے پڑھیں۔ پھر ۱۹۶۶ء کی بات ہے جب انڈونیشیا میں انقلاب آیا۔ وہاں کمیونسٹوں کا قتل عام شروع ہوا تو مجھے بڑا دکھ ہوا کہ یہ تو بے گناہ لوگوں میں عدل وانصاف کی بات کرتے ہیں، انسان کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ اس کے بعد جب باقی چیزیں پڑھیں اور کچھ سنجیدہ مطالعہ ہوا تو پھرکمیونزم کے بارے میں یہ تاثر ختم ہو گیا اور بعد میں تو بالکل مختلف تاثر بن گیا۔ Communismبالکل فضول ہے اور مذہب بیزار زندگی، غیراخلاقی زندگی۔ ان کے سارے دعوے باطل اور غلط ہیں۔ نہ اس میں مزدور کی فلاح وبہبود ہوتی ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ اس نظام نے مزدروں کو مزید غلام بنایا۔ کمیونسٹ حکومتوں نے ان پر مزید مظالم کیے۔ اس بارے میں ایک کتاب جس سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا، وہ پروفیسر مظہر الدین صدیقی کی کتاب تھی۔ ’’اشتراکیت اور نظام اسلام‘‘ اس زمانے میں لکھی گئی تھی جب کمیونزم پر زیادہ لٹریچر اسلامی نقطہ نظر کے حوالے سے نہیں ملتا تھا۔ غالباً ۱۹۴۰ء کے زمانے کی بات ہے، بلکہ اس سے بھی پہلے ایک اور کتاب تھی’’ اسلام اور مارکسزم‘‘۔
کتابیں لینے اور دینے کے بارے میں تھوڑی سخاوت بڑا نقصان پہنچاتی ہے۔ میری بہت سی کتابیں واپس نہیں آئیں۔ سینکڑوں جو بہت سے احباب لے گئے پڑھنے کے لیے۔ میرے پاس کوئی ریکارڈ نہیں تھا اور نہ ہی رجسٹر تھا کہ میں درج کرتا جاتا کہ اس کا اندراج ہو۔ پاکستان کی ایک بڑی نامور شخصیت نے مجھ سے کتاب لی اور پھر صاف مکر گئے اور میں بھی احتراماً خاموش رہا۔
میں دورانِ سفر بھی مطالعہ کرتا ہوں۔ کتابیں سفر میں ساتھ رکھتا ہوں، خاص طور پر ادب کی اور شاعری کی۔ شاعری میں زیادہ فارسی اور عربی شاعری پڑھتا ہوں۔ انگریزی شاعری پڑھنے کی کوشش کی، لیکن مجھے پسند نہیںآئی۔ میں نے بہت چاہا کہ انگریزی شاعری بھی پڑھوں۔ فارسی شاعری میں قدیم شاعری سے متاثر ہوا ہوں، جبکہ جدید شاعری نے کبھی متاثر نہیں کیا۔ قدیم شاعری میں حافظ، غالب، سعدی اور سنائی۔
اخبار صبح پڑھتا ہوں صرف ناشتے کے دوران۔ جنگ، ڈان اور Pakistan Observer پڑھتا ہوں۔ زاہد ملک صاحب مفت صبح صبح اخبار دیتے ہیں۔ باقی رسائل میں ریگولر نہیں پڑھتا۔ بہت سے حضرات بھیجتے ہیں۔ بس ایک نظر میں دیکھ لیتا ہوں۔ باقاعدہ ضرور نوائے وقت اور جنگ کے کالم پڑھتا ہوں، کیوں کہ بھائی کے گھر میں نوائے وقت آتا ہے۔
عموماً رات کو سونے سے پہلے پڑھتا ہوں۔ کرتا یہ ہوں کہ سال کا ایک پلان کرتا ہوں کہ سال میں یہ پڑھنا ہے تو کتاب پہلے ہی طے کر تا ہوں۔ کتابیں تو دنیا میں لاکھوں ہیں۔ زیادہ سے زیادہ آپ بیس یا پچیس ہزار کتابیں پڑھ سکتے ہیں زندگی میں یا دس بارہ ہزار پڑھ سکتے ہیں۔ اِن لاکھوں کتابوں میں آپ دس ہزار کتابیں منتخب کرتے ہیں تو میں ایسا کرتا ہوں۔
کچھ ایسی کتابیں ہوتی ہیں جن پر ایک نظر ڈال لینا کافی ہوتا ہے۔ آپ دس، پندرہ منٹ کے لیے نظر ڈال لیں، اندازہ ہو جاتا ہے کہ کیسی کتاب ہے، اِن میں کوئی نئی بات نہیں ہوتی۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بک سیلرکے پاس ہی جا کر دیکھتا ہوں۔ اسلام آباد کے کئی بک سیلر مجھے جانتے ہیں اور دوست ہیں۔ میں شیلف پر کھڑا ہو کر پندرہ منٹ نظر ڈال کرکتاب کا ]حاصل[ اخذ کر کے کتاب فارغ کر دیتا ہوں۔ اُس کے بعدان کو دیکھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں کہ اُن کو مجھے دو گھنٹے دیکھنا پڑتا ہے۔ وہ اُسی کی مستحق ہوتی ہیں کہ آپ دو تین گھنٹے اُس پر لگائیں۔ کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو ایک بار پڑھنے کی ہوتی ہیں، کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جو ساری زندگی ساتھ رہتی ہیں۔ تو جو ایسی کتابیں ہوتی ہیں، وہ میں خریدلیتا ہوں۔ جو ایسی نہیں جن کو وقتاً فوقتاً دیکھنا ہوتا ہے، اُن کو بھی خریدنا پڑتا ہے۔ جو کتابیں گھنٹے اور دو گھنٹے میں فارغ ہوتی ہیں، وہ میں نہیں خریدتا۔ میری ذاتی لائبریری میں کتابیں میں نے کبھی گنی نہیں، مگر میرا اندازہ ہے کہ بیس بائیس ہزار کتابیں ضرورہوں گی۔
بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جن کو پڑھنے کے بعد ملنے کا اشتیاق ہوا۔ ایسا تو نہیں ہوا کہ کسی سے ملنے کی خواہش کی ہو اور ملنے کے بعد مایوسی ہوئی ہو۔ یاد نہیں کہ کبھی ایسا ہوا ہو، لیکن کچھ مصنفین جن سے ملنے کی خواہش پیدا ہوتی رہی لیکن مل نہ سکا، اِن میں سے ایک تھے پروفیسر یوسف سلیم چشتی۔ جب کلام اقبال اوڑھنا بچھونا تھا تو اُن کی شرحیں میں نے ساری پڑھی ہیں۔ نثر میں لکھیں۔ سب پڑھیں تو اُن سے ملنے کا بڑا اِشتیاق رہا۔ تین چار بار لاہور اُن سے ملنے گیا، لیکن اتفاق سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ بس ایک مرتبہ اُن کو زندگی میں دیکھا۔ لاہور میں ایک جلسہ تھا۔ یہ غالباً ۱۹۷۶ء کی بات ہے۔ اُس میں ایک میری تقریر تھی۔ اسٹیج پر چار، پانچ آدمی بیٹھے ہوئے تھے۔ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب صدارت کر رہے تھے۔ مولانا کے ایک طرف میں بیٹھا ہوا تھا، مولانا کے دائیں جانب ایک بوڑھے سے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ یہ کون ہیں۔ جب اعلان ہوا کہ پروفیسر یوسف سلیم چشتی تقریر کریں گے تو میں ایک دم چونکا۔ اُن بزرگ نے اٹھ کر تقریر کی۔ میں نے کہا کہ آج میں مل کر ہی جاؤں گا۔ میری بدنصیبی کہ وہ تقریر کر کے کہنے لگے کہ مجھے کام ہے اور وہ چلے گئے۔ اِس کے علاوہ نہ کبھی اُن کو دیکھا نہ اُن سے ملاقات ہوئی۔
باقی جن حضرات سے ملنے کا اشتیاق ہوا اور اُن سے ملاقات ہوئی تو بعض سے بہت استفادہ بھی کیا۔ دو بزرگوں سے تو میں کوشش اور اہتمام سے ملا جن کی کتابیں میں نے پڑھی تھیں اور بعد میں اُن سے بہت نیاز مندی رہی۔ ایک تو کراچی میں رہتے تھے اور جب بھی میں کراچی جایا کرتا تھا، اُن کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، اُن کی تمام کتابیں پڑھی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں تاریخ نویسی کے فن کی وہ معراج ہیں۔ اُن سے بڑا مورخ برصغیر میں شاید بیسویں صدی میں پیدا ہی نہیں ہوا۔ اگر مجھ سے کہا جائے کہ برصغیر میں بیسویں صدی میں تاریخ نویسی کا سب سے بڑا نام کون ہے تو میں کہوں گا کہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی۔ میں اُن سے ملنے کے لیے گیا۔ میرا خیال تھا کہ اتنے بڑے آدمی ہیں، وزیر ہیں، اُن سے ملنا مشکل ہو گا۔ اُ ن کے ایک شاگردکی معرفت میں اُن سے ملنے گیا تو وہ ایسے ملے جیسے کوئی باپ یا استاد ملتا ہے تو بڑی حیرت ہوئی۔ اس طرح ملنے کے بعدپہلے جو احترام اور رعب تھا، اب اُس میں محبت بھی شامل ہو گئی تومیں جب بھی جایا کرتا تھا تو ملتا تھا، بہت ہی شفقت سے ملتے، ایسے جیسے ساری عمر سے جانتے ہیں۔
مجھے اشتیاق تھا مصطفی الزرقا سے ملنے کا۔ استاد مصطفی الزرقا شام کے تھے اور جو بات میں نے اشتیاق حسین قریشی کے بارے میں کہی ہے، مصطفی الزرقا کے بارے میں بھی کہتا ہوں کہ بیسویں صدی میں اُن سے بڑا فقیہ کوئی نہیں تھا۔ فقہ اسلامی میں گرفت اور گہرائی کے ساتھ کسی کی نظر نہیں تھی جتنی پوری دین اسلام کے بارے میں استاد الزرقاکی تھی، بلکہ مجھے اجازت دی جائے تو میں یہ بھی کہوں گا کہ علامہ اقبال نے ۱۹۲۵ء میں لکھا تھا کہ جو شخص زمانہ حال کے تمام احکام قرآنیہ کی ابدیت ثابت کرے گا، وہ اسلام کا سب سے بڑا مفسر ہو گا۔ یہ کام جن لوگوں نے کیا ہے بیسویں صدی میں، اُن میں مصطفی الزرقا کا نام سب سے پہلے آتا ہے۔ اُنہوں نے بہت غیر معمولی انداز میں کام کیا ۔وہ شام میں رہے اور کچھ عرصہ سعودی عرب میں رہے۔ میری اِن سے پہلی ملاقات ۱۹۷۹ء میں ہوئی۔ اکتوبر ۷۹ء میں اسلام آباد میں ایک سیمینار ہوا نفاذ اسلام کے بارے میں تو اُس میں وہ بھی آئے ہوئے تھے۔ اخبار میں آرہا تھا کہ مصطفی الزرقا بھی آئے ہوئے ہیں تو مجھے بڑا اشتیاق تھا۔ اس کی افتتاحی تقریب تھی تو میں اُس میں شرکت کے لیے گیا تو میں ہر ایک کو دیکھتا رہا کہ یہ مصطفی الزرقا ہوں گے، یہ ہوں گے۔ تو ایک صاحب پر نظر پڑی جن کا چہرہ مجھے معصوم سا لگا تو مجھے لگا کہ یہی ہیں مصطفی الزرقا تو میں نے پوچھا کہ آپ مصطفی الزرقا ہیں؟ تو کہنے لگے، ہاں تو اُن سے مل کر طبیعت بڑی خوش ہوئی۔ وہ مجھ پربڑے مہربان ہوئے۔ اتنے مہربان ہو گئے کہ میری حیثیت سے بڑھ کر میرے بارے میں رائے قائم کرنے لگے۔ خط وکتابت اِن سے ہوتی تھی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ اُن کا خط میرے نام آیا تو میں نے شرم سے چھپا لیا کہ کوئی اور نہ دیکھ لے اور دیکھے گا کہ تو کیا کہے گا یعنی لوگ سمجھیں گے کہ میں نے کوئی جعلی عکس ڈال رکھا ہے، اُن پر غلط بیانی کر رکھی ہے اپنے بارے میں، اس لیے وہ ایسی بات لکھتے ہیں۔
ایک اور بزرگ جن سے بڑا ملنے کا اشتیاق رہا، اُن سے ملاقات بھی رہی اور بہت مہربان بھی رہے، وہ تھے مولانا صباح الدین عبد الرحمن۔ یہ ہندوستان کے رہنے والے تھے۔ اِن کی برصغیر کی تاریخ پر کئی زبردست کتابیں ہیں اور اردو زبان بڑی ہی نفیس لکھتے اور بولتے تھے۔ بہت ہی سادہ اور نفیس انسان تھے۔ اگر کسی نفیس انسان کی نفسیات کے ۱۰۰ نمبر ہوں تو ۹۹ نمبر اُن کو دوں گا۔ یہ دارالمصنفین کے ناظم تھے۔ کتابیں میں نے اُن کی پڑھی ہوئی تھیں۔ تو ایک دفعہ انسٹی ٹیوٹ میں، میں صبح صبح پہنچا تو گرمی کا زمانہ تھا۔ یہ ۱۹۷۵ کی بات ہے۔ میں دفتر میں پہنچا تو ایک صاحب نے کہا کہ آئیے، آپ کو ایک بزرگ سے ملاتے ہیں۔ تو انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور ڈائریکٹر کے کمرے میں لے گئے۔ وہاں ایک صاحب شیروانی اورپاجامہ پہنے ہوئے، جیسے ہندوستان کے لوگ پہنتے ہیں، بیٹھے ہوئے تھے۔ اُن سے تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ صباح الدین عبد الرحمن ہیں۔ میرے ذہن میں اُن کا جو نقشہ تھا، وہ بالکل اُس سے مختلف نکلے۔ اُس کے بعد مجھ پر اتنے مہربان ہوئے کہ پھر اُن کی زندگی کے آخری ایام تک اُن سے بڑا تعلق رہا۔ میں اُن سے ملنے کے لیے ہندوستان بھی گیا۔ وہ جب بھی آتے تو میرے پاس تشریف لاتے تھے۔ ان کی کتابوں میں بزم صوفیہ، بزم تیموریہ اور’’ ہندوستان میں مسلمانوں کے جلوے‘‘ اور ہندوستان میں مسلمانوں کا عسکری نظام، تمدنی نظام،’’ ]شامل ہیں[۔ ’’بزم صوفیہ‘‘ میں ہندوستان کے بڑے صوفیہ کا تذکرہ ہے، داتا گنج بخش سے لے کر خواجہ بہاء الدین نقشبند وغیرہ تک بلکہ خواجہ نظام الدین اولیا تک۔ ’’بزم تیمور یہ‘‘ مغل سلطنت کے زمانے کے تمدنی اور تہذیبی اور ثقافتی معاملات پر ہے۔ ’’بزم مملوکیہ‘‘ مغل دور سے پہلے کے تمدنی دور پر ہے۔