بھائی محمود

مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی

ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ، پاکستان کے مدیر مکرم، مولانا عمار خان ناصر صاحب کا ارشاد ہے کہ راقم سطور، مجلہ الشریعہ کے پروفیسر محمود احمد غازی نمبر کے لیے کچھ لکھ کر پیش کرے۔ میں اس محترم فرمائش کی تکمیل کرنا چاہتاہوں مگر حیران ہوں کہ کیا لکھوں: 

چگونہ حرف زنم دل کجا، دماغ کجا

مگر بہر صورت کچھ نہ کچھ حاضر کرنا ہے، اس لیے چل مرے خامے بسم اللہ!

محمود غازی صاحب برصغیر ہند کے نامور وممتاز فاضل، عالم، دانشور، مصنف ومترجم، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے وائس چانسلر [شیخ الجامعہ]، پاکستان کی عدالت عالیہ کی شریعت بنچ کے سینئر جج، مذہبی امور اورحج کے لیے حکومت پاکستان کے وفاقی مرکزی وزیر، پاکستان کے متعدد سربراہان حکومت کے مشیر ومعتمد، پچاسوں قومی اوربین الاقوامی کانفرنسوں اور سیمیناروں میں ممتاز مبصر ومقالہ نگار، پینتس چھتیس کتابوں کے مصنف اور مختلف کتابوں کے عربی، اردو، انگریزی مترجم، یعنی اکثر علمی کمالات سے پوری طرح بہرہ ور اور دنیاوی مناصب واعزازات میں بلند سے بلند مرتبہ پر فائز! مگر ہم اہل خاندان خصوصاً کاندھلہ میں مقیم رشتہ داروں کو نہ ان میں سے اکثر عہدوں اور مناصب کا علم اورنہ ان کا ان سے وابستہ معاملات، منافع ومباحث سے کچھ واسطہ۔ ہم سب کے لیے محمودغازی صاحب نہ جسٹس صاحب تھے، نہ شیخ الجامعہ ،نہ وزیرباتدبیر اورصدرپاکستان کے مشیرومعتمد۔ ہم سب خصوصاً راقم سطور اورقریبی عزیزوں کی زبانوں پر وہ صرف بھائی محمود تھے۔ ہمیشہ اسی نام سے پکارے گئے اور بھائی محمود بھی ہم سب اہل خاندان سے صرف اور صرف اسی رشتے سے ملے۔ نہ ان پر کسی مقام ومرتبہ اورعہدہ ومنصب کا احساس واثر نظر آیا، نہ اس کا تذکرہ ہوا۔ جب ملتے خوب ملتے، بے تکلفی سے، بلاکسی خیال کے۔ سب طرح کی اچھی بری باتیں ہوتیں، عزیزوں رشتہ داروں کے احوال وکوائف کی بات ہوتی، واقعات جہاں کادفتر کھلتا، تازہ علمی مباحث اور کتابوں کی خبر ملتی اور ہراک عنوان پر کچھ نہ کچھ تبادلہ خیال ہوتا۔ اس کی وجہ بھائی محمود کے مزاج کی سادگی، کاندھلہ کے مشہورعلمی دینی صدیقی خاندان سے ان کی ننھیالی نسبت اور زندگی کے ابتدائی چندسال کاندھلہ میں گزارنے کا اثر تھا جس کابھائی محمودنے ہمیشہ بے حدخیال رکھا اوراس رشتہ وتعلق کوپورے اہتمام سے، پورے احترام سے اور تواتر کے ساتھ ہمیشہ نبھایا۔

کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ بھائی محمود کا اگرچہ اصلی وطن اور خاندانی سلسلہ تھانہ بھون کے ممتاز فاروقی خاندان سے ہے، مگر ان کے بچپن کا اکثر حصہ کاندھلہ میں گزرا۔ بھائی محمود کی والدۂ محترمہ مدظلہا کاندھلہ کے معروف صدیقی خاندان کی مؤقر خاتون ہیں۔ بھائی محمود کے نانا حکیم قمرالحسن صاحب، راقم سطور کے والد ماجد مدظلہ العالی کے بڑے بھائی [میرے تایا] تھے۔ اس پہلو کی بعض تفصیلات کے بغیر یہ گفتگو مجمل وناتمام رہے گی، اس لیے اس کے بعض گوشوں کاتذکرہ ضروری ہے۔

کاندھلہ کے اس خاندان کے ایک بابرکت فرد، مولوی رؤف الحسن صاحب کاندھلوی تھے جو [شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریا کاندھلوی کے والد ماجد] حضرت مولانا محمدیحییٰ اور مروج تبلیغ، حضرت مولانا محمدالیاس صاحب کاندھلوی کے حقیقی ماموں بھی تھے۔ ان کا سلسلۂ نسب یہ ہے:

مولوی رؤف الحسن [وفات:۱۳۶۴ھ۔۱۹۴۵ء] بن مولاناضیاء الحسن صادق[م۱۳۱۵ھ۔ ۱۸۹۸ء] بن مولانا نورالحسن [۱۲۸۵ھ۔۱۸۶۸ء] بن مولانا ابوالحسن [م۱۲۶۱ھ۔۱۸۵۳ء] بن حضرت مفتی الٰہی بخش کاندھلوی [م۱۲۴۵ھ۔۱۸۲۹ء] رحمہم اللہ‘‘

مولوی رؤف الحسن صاحب کے پانچ فرزند ہوئے:

(۱) مولانا حکیم نجم الحسن صاحب [م:۱۳۳۶ھ/۱۹۱۸ء]

(۲) مولانا احتشام الحسن صاحب، معروف مصنف اور حضرت مولانا محمدالیاس صاحب کے رفیق [م: ۱۳۹۲ھ۔۱۹۷۱ء]

(۳) مولوی حکیم قمر الحسن صاحب فاضل، جامعہ طبیہ دہلی[م:۸/شوال۱۳۶۲ھ۔۸ستمبر۱۹۴۳ء]

(۴) مولانا اظہارالحسن صاحب ،جو مولانا انعام الحسن صاحب کے دور میں اوراس کے بعد مرکزتبلیغ نظام الدین، دہلی کے عملاً سربراہ اور تبلیغ کے موجودہ ذمہ دار مولوی محمد سعد صاحب کے ناناتھے۔ [م:۱۴۱۷ھ/۱۹۹۶ء]

(۵) حضرت مولانا افتخارالحسن صاحب مدظلہ [جو راقم سطور کے والد ماجدہیں] ولادت:۱۱جمادیٰ الاولیٰ ۱۳۴۰ھ/۱۰جنوری۱۹۲۲ء 

اورتین دختر:

الف: جویریہ خاتون، زوجہ حضرت مولانا محمدالیاس صاحب کاندھلوی ۔

ب: امت الدیان، زوجہ مولوی ظہیرالحسن صاحب کاندھلوی۔

ج: امت المتین، زوجہ اولیٰ شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا کاندھلوی۔

فرزندوں میں سے تیسرے، حکیم قمرالحسن صاحب کے کوئی پسری اولاد نہیں تھی، دوبیٹیاں تھیں۔ بڑی کی شادی تھانہ بھون کے فاروقی خاندان میں مولانا محمداحمدصاحب تھانوی سے ہوئی۔ یہی بھائی محمود کی والدہ محترمہ ہیں۔ دوسری بہن کا نکاح کاندھلہ کے ایک فاضل، مولوی حکیم خلیق الرحمن صاحب سے ہوا۔ وہ بھی ۱۹۴۷ء کے بعد پاکستان چلے گئے تھے۔ سنجھورہ، سندھ میں رہے۔ آخر میں سکھر آگئے تھے، ان کے اہل خانہ وہیں ہیں۔ 

مولانا محمداحمد کے دوبیٹے ہوئے: محموداحمد[ولادت:۱۹۵۰ء] اور محمد [ولادت:۱۹۵۳ء]۔ بھائی محمودنے زمانہ طالب علمی سے اپنے نام کے ساتھ غازی کا اضافہ کر لیا تھا اور چھوٹے بھائی کے نام کے ساتھ الغزالی کا لاحقہ استعمال ہوتاہے، پروفیسر ڈاکٹر محمدالغزالی [مدیر مجلہ الدراسات الاسلامیۃ اسلام آباد] حفظہ اللّٰہ۔

بھائی محمود کے والد محترم، دہلی میں پاکستان ہائی کمیشن میں ملازم تھے، اس لیے ان کی والدہ اکثراپنے میکہ کاندھلہ رہتی تھیں۔ یہیں بھائی محمود کی نشوونما ہوئی اوریہیں قرآن کریم کی تعلیم کی ابتدا بھی ہوئی۔ بھائی محمودکی نانی صاحبہ کے مکان سے چند قدم کے فاصلہ پر،کاندھلہ کی جامع مسجد ہے۔ اس مسجدمیں ایک پرانامدرسہ تھا جس کو ۱۳۰۰ھ ؁ میں حضرت مولانا رشیداحمدگنگوہی کی سرپرستی میں حضرت مولانا کے ایک شاگرد،مولانا حکیم صدیق احمدصاحب کاندھلوی نے قائم کیا تھا۔ یہ مدرسہ اس وقت تک خوب کامیاب اور متحرک ورواں دواں تھا۔ اس میں حفظ کے درجات بھی تھے،ناظرہ کے بھی اور متوسطات تک عربی فارسی کی بھی عمدہ تعلیم ہوتی تھی۔ اسی مدرسہ کے ایک معلم قرآن، حافظ عبدالعزیز صاحب تھے جو کاندھلہ سے ملحق گاؤں کھندراؤلی کے باشندے تھے مگر کاندھلہ آگئے تھے۔ درجہ حفظ وناظرہ کے استاد تھے۔ بھائی محمود نے تعلیم کی ابتدا ان سے کی اوربہت کم عمری میں ایک پارہ ختم کر لیا تھا۔

سنہ۱۹۵۴ء میں بھائی محمود کے والد محترم نے اور بہت سے عزیزواقربا کے ساتھ پاکستان جانے کا ارادہ کرلیا اوراپنے وطن کوخیر باد کہتے ہوئے نئے وطن، نئی سرزمین کے لیے روانہ ہوگئے۔ پاکستان پہنچ کر کراچی میں قیام ہوا۔ کیونکہ دہلی میں مولوی محمداحمدصاحب پاکستان ہائی کمیشن میں ملازم تھے، اس لیے کراچی میں سرکاری دفتر میں تقرر ہوگیا۔ کراچی میں قیام اور ملازمت کا انتظام ہوتے ہی بھائی محمودکی تعلیم کی طرف توجہ کی۔ گھر کے قریب ایک مدرسہ تھا جس میں قاری وقاء اللہ صاحب پانی پتی سے [جو ہندوستان کی ایک معروف شخصیت مولانا لقاء اللہ پانی پتی کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے] کاندھلہ کے سلسلۂ تعلیم کی تجدید ہوئی۔ ان سے اور اسی مکتب کے ایک اوراستاد، حافظ نذیر احمدصاحب سے قرآن مجید حفظ مکمل کیا۔ حفظ نوعمری میں صرف نوسال کی عمر میں مکمل ہوگیاتھا۔

حفظ کے بعد دورکیا اور اس کے ساتھ ہی حضرت مولانا محمدیوسف بنوری کے مدرسہ میں عربی تعلیم کے لیے داخل کر دیے گئے۔ مدرسۂ مولانا بنوری میں چارسال تک پڑھا جس میں خودمولانا بنوری سے بھی تلمذ کی سعادت میسر آئی۔ اس کی صورت یہ ہوئی کہ بھائی محمودکے وہ استاذ جو اصول الشاشی پڑھارہے تھے، کسی ملازمت پر تقرر کی وجہ سے درمیان سال میں سعودی عرب چلے گئے تھے۔ اس وقت ان کے سبق مولانابنوری نے پڑھائے تھے۔ اسی مدرسہ میں مولانا عبدالرشید نعمانی سے بھی تلمذ ہوا اور مولانا عبدالقدوس ہاشمی سے بھی رابطہ رہا۔ مولانا ہاشمی سے اگرچہ باضابطہ تلمذوتعلیم تو نہیں ہوئی، لیکن کثیر استفادہ کاموقع ملا جو بعد میں بھی جاری رہا۔ بھائی محمودکوکچھ وقت مدرسہ ٹنڈو اللہ یار میں بھی گزارنے کا موقع ملا۔ یہاں حضرت مولانا ظفراحمدعثمانی اور حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی کے درس میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ یہ سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ پاکستان کامرکزی دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہونا شروع ہو گیا۔ سرکاری ملازمین بھی آہستہ آہستہ کراچی سے اسلام آباد پہنچتے رہے۔ انہی میں محمودصاحب کے والد محترم مولانا محمداحمد صاحب تھانوی بھی تھے۔ اس وقت سے اس گھرانہ کا قیام اسلام آباد میں ہوا جو آج تک اسی طرح ہے۔ 

بھائی محمود کی تعلیم کا سلسلہ ناتمام تھا، اس لیے ان کا راول پنڈی میں شیخ القرآن ، مولانا غلام اللہ خاں صاحب کے مدرسہ میں داخلہ کرایاگیا۔ اس مدرسہ میں درس نظامی کی آخری کتابیں مکمل کیں اور دورۂ ۂحدیث پڑھا۔ مولانا غلام اللہ صاحب کے مدرسہ کے ایک بڑے استاذ حدیث، مولانا عبدالشکور کامل پوری [وفات:رجب ۱۳۹۰ھ/ستمبر۱۹۷۰] (۱) سے سنن ابی داود اور موطاامام مالک پڑھیں۔ مولانا عبدالشکور صاحب ،حضرت مولانا خلیل احمد انبیٹھوی، حضرت علامہ انور شاہ کشمیری، حضرت مولانا محمدیحییٰ کاندھلوی اورحضرت مولانا عبدالرحمن کامل پوری رحمہم اللہ کے شاگردتھے۔ بہت عمدہ درس دیتے تھے۔ اگرچہ حنفی تھے، مگر درس محدثانہ شان کا محققانہ ہوتاتھا جس کی وجہ سے بعض حضرات کو یہ غلط فہمی ہوجاتی تھی کہ مولانا غیر مقلد یا اہل حدیث ہیں۔ مولانا حنفی تھے، لیکن محدثانہ تحقیقات صاف بیان فرماتے تھے جس سے مولانا کے اہل حدیث ہونے کا شبہ گزرتاتھا۔ چونکہ اس مدرسہ کے اکثر طالب علم پٹھان یا صوبہ سرحد [موجودہ نام، پختونخواہ] وغیرہ کے تھے، اس لیے مولانا کامل پوری، پشتو میں درس دیتے تھے۔ چند دنوں کے بعد بھائی محمود نے گزارش کی کہ میں پشتو نہیں جانتا، اگر درس عربی میں ہو تو میرے لیے استفادہ کا زیادہ موقع ہے۔ مولانا عبدالشکور صاحب نے عزیز شاگرد کی رعایت فرماتے ہوئے عربی میں درس دینا شروع کر دیا۔ اس سے اگرچہ کئی طلبہ ناراض ہوئے اورکچھ بات چلی، مگر پھر سب مطمئن ہوگئے تھے، درس عربی میں ہوتارہا۔ مولاناعبدالشکور کامل پوری ،۱۹۴۷ء سے پہلے مدرسہ مظاہرعلوم میں مدرس تھے، حضرت مولانا خلیل احمدانبیٹھوی کے بھی شاگر دتھے اوران سے بھائی محمود کے والد صاحب اور نانا دونوں نے پڑھاتھا۔ بھائی محمودکو بھی ان سے پڑھنے کی سعادت ملی۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھائی محمودنوعمری میں، اس وقت کے ایک بڑے مربی اور عارف حضرت شاہ عبدالقادر صاحب رائے پوری سے بیعت ہوگئے تھے۔ مولانا کے والد، شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا کی قیام گاہ (کچے گھر) سہارنپور میں، حضرت شاہ عبدالقادر صاحب سے بیعت ہورہے تھے۔ حضرت شیخ نے بھائی محمود کومخاطب کر کے فرمایا: تو بھی بیعت ہوجا! تو بھائی محمود بھی حضرت رائے پوری سے باقاعدہ بیعت ہوگئے تھے۔ میں نے سناہے کہ بھائی محمود کو، جو :’’بیاباں کی شب تاریک میں قندیل رہبانی‘‘ کی حیثیت بھی رکھتے تھے، پاکستان اور بیرون پاکستان کے ایک سے زائدمشائخ طریقت سے اجازت وخلافت بھی حاصل تھی، مگر اس کی تفصیل معلوم نہیں۔

جب اس کارخانۂ ہستی میں ہماری آنکھیں کھلیں اور کچھ شعور پیدا ہوا، وہ عجیب اپنائیت ومحبت کادور تھا۔ میل ملاقات، ایک دوسرے سے رابطہ تعلق رکھنے، رشتے، عزیزداری نباہنے کادورتھا۔ گھر اگرچہ ماشاء اللہ سب کے علیحدہ علیحدہ اور خوب بڑے بڑے تھے، ہرطرح کی ہر چیز کی فراوانی تھی اورافراد بھی ماشاء اللہ کم نہیں تھے، مگر اپنی الگ حیثیت، علیحدہ گھروں اور ذرائع معاش کے باوصف، سب عزیزایک دوسرے سے گویا جسم وجان سے پیوست تھے۔ ہرایک دوسرے پر جان چھڑکتاتھا، ہروقت ایک دوسرے کے یہاں آناجانا، ملاقات اور خیروخبرجاری رہتی تھی جس کی وجہ سے سب ایک دوسرے کے لیے افراد خانہ کی حیثیت رکھتے تھے اورخاندان کے سب لوگ مل کر، ایک گھرانہ کی طرح رہتے تھے۔ اس وقت کی محبتوں اورمخلصانہ روابطوں اور تعلقات کاآج کل کے ناپرسان احوال دور میں، اندازہ بھی نہیں کیاجاسکتا۔ گویا:

خواب تھاجو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا

انہی روابط وقرابت کی وجہ سے بھائی محمود کی والدہ صاحبہ ۱۹۶۵ء تک [جب ہندوپاکستان کے تعلقات زیادہ خراب نہیں ہوئے تھے اور آنے جانے کی ایسی پریشانی نہیں تھی] تقریباً ہرسال اپنی والدہ صاحبہ سے ملاقات کے لیے ہندوستان آتی تھیں، ہندوستان میں عموماً دوتین مہینہ قیام رہتا تھا۔ اس وقت بھائی محمود اپنی خاندانی مادرعلمی، مدرسہ جامع مسجدکاندھلہ کے طالب علم بن جاتے تھے۔ قرآن شریف کی تعلیم ودور کی بات ہو یا فارسی عربی درسیات کی، دونوں کے سبق کاندھلہ کے مدرسہ میں جاری رہتے تھے۔ اچھے پڑھانے والے بھی موجود تھے، اس لیے پڑھنے کابھی ایک مزا تھا۔ اس دور میں اول استاد، حافظ عبدالعزیز صاحب مرحوم کے علاوہ، مدرسہ کے عربی کے استادوں، مولانا عبدالجلیل صاحب بستوی اور مولانا زین الدین صاحب بستوی سے بھی تعلیم کا کچھ نہ کچھ سلسلہ جاری رہتاتھا اور پاکستان میں زیردرس کتابوں کے اسباق کی تکمیل ہوتی رہتی تھی۔ بھائی محمود، مولانا عبدالجلیل صاحب کی علمی صلاحیت اورطریقۂ تعلیم ودرس کے مداح تھے۔

اس وقت سے بھائی محمود سے جو واقفیت اور رابطہ بنا تھا، وہ بحمداللہ، ملک بلکہ ملکوں کے فاصلوں، مناصب ومصروفیات، عہدۂ وترقیات کے باوجود ہمیشہ اسی طرح رہا۔ مجھے اس اعتراف میں ذرا بھی تکلف وتأمل نہیں کہ اگرچہ رشتہ میرا بڑا تھا، مگر بھائی محمود عمر کے علاوہ، علم وکمال اورتحریروقلم سے رہنمائی اور علم آفرینی کے اس درجہ پر تھے کہ ہمارے جیسوں کاوہاں گزر بھی نہیں، مگراس کے باوجود ہرطرح کی گفتگوہوتی۔ علمی مباحث بھی چھڑتے، ارباب سیاست کابھی ذکر آتا، ان پر کھٹے میٹھے تبصرے بھی ہوتے، خصوصاً پاکستان کے اہل سیاست واقتدار پر ان کی رائے سننے کی ہوتی تھی۔ کئی مرتبہ کئی شخصیات ومعاملات میں ان کی رائے متعارف رائے اورنظریہ سے خاصی مختلف مگر سوچی سمجھی اورجچی تلی ہوتی تھی۔ وہ اس اعتماد سے بات کرتے تھے اوراس کے ایسے گوشے سامنے لاتے تھے کہ دوسرا پہلو ثابت کرنا مشکل ہوجاتاتھا اور ہم ایسے افراد جو ان معاملات سے براہ راست وابستہ نہیں، بھائی محمودصاحب کو صاحب البیت یاد انائے راز سمجھ کر خاموش رہ جاتے تھے۔

بھائی محمودصاحب جب کبھی ہندوستان آتے، کسی سیمینار میں، پروگرام میں، سرکاری مصروفیت سے، کاندھلہ کے لیے ضروروقت نکالتے تھے۔ بعض مرتبہ توموقع نہ ہونے کی وجہ سے آناجانا ہی ہوتا تھا، بمشکل گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ قیام اور ملاقات رہتی، مگر آتے تھے اوراس کا اہتمام کرتے تھے۔ مجھے بھائی محمودکے کمالات وصفات میں یہ بات بہت پسند تھی کہ وہ اپنی بڑائی کے باوجود ہمیشہ خورد بن کر ملتے تھے۔ پوری زندگی انہوں نے اپنی کسی بات سے، طرزعمل سے بلکہ اشارہ سے بھی اس کااحساس نہیں ہونے دیا کہ وہ کس حیثیت ومقام کے شخص ہیں اور ان کی کیسی منزلت ہے۔ یہی انداز خط وکتابت میں بھی تھا۔ میرا ہمیشہ تو نہیں، لیکن کبھی کبھی فون پر رابطہ اور خط وکتابت رہتی تھی۔ پاکستان باربار فون کرنا اورلمبی بات چیت تو خلاف احتیاط تھی، مگر جب وہ پاکستان سے باہر ہوتے تو کئی مرتبہ فون پر رابطہ ہو جاتا تھا، خصوصاً آخر میں جب قطر میں تھے، کئی مرتبہ گفتگو رہی اور کبھی کبھی تبادلہ خطوط بھی ہوتاتھا جس میں سے غالباً اٹھارہ بیس خط محفوظ بھی ہیں۔ ان میں سے آخری دوخط یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔

میں نے مولانا ئے روم [شیخ جلال الدین رومیؒ ] کے سات سو سالہ جشن کے موقع پر مولانا روم پر ایک خاص شمارہ نکالنے کا ارادہ کیا تھا۔ اس کا اپنے مجلہ احوال وآثار میں اعلان بھی کر دیا تھا اور اس میں تعاون ومضامین کے لیے ہند وپاکستان کے بیسوں اہل علم کی خدمات میں عریضہ اور سوال نامہ بھی بھیج دیاتھا، مگر چھے سات کے علاوہ کسی نے خط کی بھی رسید نہیں دی، مضامین ورہنمائی کا تو کیا ذکر ہے، اس لیے وہ ارادہ عمل میں نہ آسکا۔ جن لوگوں نے حوصلہ افزا جوابات دیے اور بھرپور تعاون کا وعدہ کیا، ان میں سب سے پہلا نام بھائی محمود کا ہی ہے۔ بھائی محمود نے میرے خط کے جواب میں دوخط لکھے تھے۔ ان سے غازی صاحب کی وسعت نظر، قوت اخذواستنباط اور سیلانئ ذہن کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ خطوط ملاحظہ ہوں:

مکتوب اول:

خال مکرم ومحترم جناب مولانا نورالحسن راشد صاحب کاندھلوی دامت برکاتہم العالیہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

گرامی نامہ مؤرخہ ۶؍صفر المظفر۱۴۳۰ھ چند روز قبل اسلام آباد پر ملا۔ شاید آں محترم کے علم میں ہو کہ میں آج کل قطر میں مقیم ہوں۔ موسم گرما کی تعطیلات کے سلسلہ میں اگست کے وسط تک یہاں اسلام آباد میں رہوں گا۔

اس اطلاع سے ازحد خوشی ہوئی کہ مفتی الٰہی بخش اکیڈمی مولانا روم کی آٹھ سو سالہ پیدائش کی یادگار تقریبات کے موقع پر مثنوی پر ایک خصوصی شمارہ شائع کرنے کا پروگرام بنارہی ہے۔ ایں کار از تو آید ومرداں چنیں کنند! میری طرف سے دلی مبارک قبول فرمائیے۔

میری ناچیز رائے میں مجوزہ مقالات وعنوانات کی فہرست میں، مندرجات مثنوی اور پیغام مثنوی پر مزید اضافہ کی ضرورت ہے۔ یہ اضافے درج ذیل خطوط پر ہو سکتے ہیں:

(۱) مولانا روم اور تجدید فکراسلامی

(۲) مثنوی کا علم کلام

(۳) اشعری اور ماتریدی کلام، مثنوی کی روشنی میں

(۴) وحی ورسالت مثنوی کی روشنی میں

(۵) پیررومی اورمرید ہندی، ایک تقابلی مطالعہ

(۶) احادیث مثنوی پر ایک نظر (اصول حدیث کی روشنی میں)

(۷) مثنوی اور مکتوبات امام ربانی: تجدید واصلاح تصوف کے دواہم مآخذ

(۸) مثنوی اور حدیقۃ الحقیقہ: ایک تقابلی مطالعہ

(۹) مولانا شیخ محمد اور مفتی الٰہی بخش کے تکملہ جات مثنوی

(۱۰) کلید مثنوی پر حاجی صاحب کی شرح مثنوی کے اثرات

(۱۱) مثنوی اورحکمت شریعت

(۱۲) مثنوی اور مسئلہ وحدۃ الوجود

(۱۳) مثنوی اور تصور ارتقاء

(۱۴) مثنوی کاتصور تعلیم وتربیت

(۱۵) حکایات مثنوی کے مآخذ

(۱۶) مثنوی میں تفسیر قرآن کا اسلوب

سردست یہ چند ممکنہ عنوانات ذہن میں آرہے ہیں۔ مثنوی سامنے ہو تو اور بہت سے عنوانات تجویز کیے جا سکتے ہیں۔ اگر آپ پسند فرمائیں تومیں عنوان ۱، ۲یا ۱۱ میں کسی ایک پر خامہ فرسائی کر سکتا ہوں۔

حضرت جدمکرم ومحترم مدظلہ العالی کی خدمت میں سلام نیاز اور دیگر اعزہ کو سلام ودعا۔

والسلام 

نیازمندمحموداحمدغازی 

۷؍جولائی۲۰۰۹ء 

مکتوب دوم:

خال مخدوم ومعظم جناب مولانا نورالحسن راشد صاحب کاندھلوی

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امیدہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے!

کل پرسوں ایک عریضہ ارسال خدمت کیاتھا، ملاحظہ سے گذرا ہوگا۔ رات مثنوی پر ایک سرسری نظر ڈالی تو بعض نئے موضوعات ذہن میں آئے جو خدمت عالی میں پیش ہیں:

(۱) مولانا کا فلسفۂ اخلاق

(۲) مکارم اخلاق : مثنوی کی روشنی میں

(۳) رذائل اخلاق: مثنوی کی روشنی میں

(۴) مولانا کی تنقید مسیحیت

(۵) مولانا کی تنقیدیہودیت

(۶) مثنوی کاتصور جہاد

(۷)معجزہ اور معجزات بندی مثنوی کی روشنی میں

(۸) نبوت وانبیاء [واِن شئت قلت] منصب نبوت اوراس کے حاملین، مثنوی کی روشنی میں

(۹)مقام نبوت اور مقام ولایت مولانا کی نظرمیں 

(۱۰) مولانا کا اسلوب نعت گوئی

(۱۱)مولانا کا اسلوب تفسیر

(۱۲) مثنوی اور فلسفۂ یونان پر نقد

(۱۳) کشاکش عقل ودل، مثنوی کی روشنی میں

(۱۴) مولانا کاتصور مدت وحیات

(۱۵) مسئلہ جبر وقدر اور مثنوی

(۱۶) نفس انسانی اور اس کے مدارج

(۱۷) مثنوی کے مذہبی استعارے اور ان کی معنویت

(۱۸) آتش وخلیل کا استعارہ، رومی اور اقبال کے کلام میں

(۱۹) مثنوی کی باطنی تفسیریں: ایک تنقیدی مطالعہ

(۲۰)’’ ہست قرآں درزبان پہلوی‘‘

والسلام

نیازمند: محمودغازی 

۹؍جولائی۲۰۰۹ء 

کوئی موقع ہوگا توان شاء اللہ بعض چیزیں اور پیش کی جائیں گی۔

شخصیات

(جنوری و فروری ۲۰۱۱ء)

جنوری و فروری ۲۰۱۱ء

جلد ۲۲ ۔ شمارہ ۱ و ۲

حرفے چند
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ حیات و خدمات کا ایک مختصر خاکہ
ادارہ

شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الرحمٰن المینویؒ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے استاذ حدیث)
مولانا حیدر علی مینوی

میری علمی اور مطالعاتی زندگی ۔ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا ایک غیر مطبوعہ انٹرویو)
عرفان احمد

بھائی جان
ڈاکٹر محمد الغزالی

بھائی محمود
مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی

ہمارے بابا
ماریہ غازی

ایک معتمد فکری راہ نما
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ایک عظیم اسکالر اور رہنما
مولانا محمد عیسٰی منصوری

ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم
محمد موسی بھٹو

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ : ایک اسم با مسمٰی
جسٹس سید افضل حیدر

ایک باکمال شخصیت
پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ - نشانِ عظمتِ ماضی
ڈاکٹر قاری محمد طاہر

مولانا ڈاکٹر محمود احمد غازی ۔ کچھ یادیں، کچھ تأثرات
مولانا مفتی محمد زاہد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند خوشگوار یادیں
محمد مشتاق احمد

معدوم قطبی تارا
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

میرے غازی صاحب
ڈاکٹر حیران خٹک

علم و تقویٰ کا پیکر
قاری خورشید احمد

میری آخری ملاقات
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر

مرد خوش خصال و خوش خو
مولانا سید حمید الرحمن شاہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ کچھ یادیں، کچھ باتیں
ڈاکٹر محمد امین

ایک بامقصد زندگی کا اختتام
خورشید احمد ندیم

اک دیا اور بجھا!
مولانا محمد ازہر

ایک معتدل شخصیت
مولانا محمد اسلم شیخوپوری

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ، ایک مشفق استاد
شاہ معین الدین ہاشمی

روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد
ڈاکٹر حافظ سید عزیز الرحمن

یاد خزانہ
ڈاکٹر عامر طاسین

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند تاثرات
محمد عمار خان ناصر

ڈاکٹر محمود احمد غازی علیہ الرحمۃ
ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان

ڈاکٹر غازیؒ ۔ چند یادداشتیں
محمد الیاس ڈار

ایک ہمہ جہت شخصیت
ضمیر اختر خان

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
محمد رشید

آفتاب علم و عمل
مولانا ڈاکٹر صالح الدین حقانی

شمع روشن بجھ گئی
مولانا سید متین احمد شاہ

علم کا آفتاب عالم تاب
ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

دگر داناے راز آید کہ ناید
حافظ ظہیر احمد ظہیر

ایک نابغہ روزگار شخصیت
سبوح سید

تواریخ وفات ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
مولانا ڈاکٹر خلیل احمد تھانوی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ تعزیتی پیغامات و تاثرات
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ فکر و نظر کے چند نمایاں پہلو
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

ڈاکٹر غازی مرحوم ۔ فکر و نظر کے چند گوشے
ڈاکٹر محمد شہباز منج

کاسموپولیٹن فقہ اور ڈاکٹر غازیؒ کے افکار
محمد سلیمان اسدی

آتشِ رفتہ کا سراغ
پروفیسر محمد اسلم اعوان

اسلام کے سیاسی اور تہذیبی تصورات ۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی کے افکار کی روشنی میں
محمد رشید

سلسلہ محاضرات: مختصر تعارف
ڈاکٹر علی اصغر شاہد

’’محاضراتِ قرآنی‘‘ پر ایک نظر
حافظ برہان الدین ربانی

ڈاکٹر غازیؒ اور ان کے محاضرات قرآن
سید علی محی الدین

’’محاضرات فقہ‘‘ ۔ ایک مطالعہ
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

محاضراتِ معیشت و تجارت کا ایک تنقیدی مطالعہ
پروفیسر میاں انعام الرحمن

تحریک سید احمد شہید رحمہ اللہ کا ایک جائزہ
ڈاکٹر محمود احمد غازی

اسلام میں تفریح کا تصور
ڈاکٹر محمود احمد غازی

اسلام اور جدید تجارت و معیشت
ڈاکٹر محمود احمد غازی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ سے ایک انٹرویو
مفتی شکیل احمد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ منتخب پیش لفظ اور تقریظات
ادارہ

مختلف اہل علم کے نام ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے چند منتخب خطوط
ڈاکٹر محمود احمد غازی

مکاتیب ڈاکٹر محمد حمیدؒ اللہ بنام ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
ادارہ

ڈاکٹر غازیؒ کے انتقال پر معاصر اہل علم کے تاثرات
ادارہ

ریجنل دعوۃ سنٹر کراچی کے زیر اہتمام تعزیتی ریفرنس
آغا عبد الصمد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں رابطۃ الادب الاسلامی کے سیمینار کی روداد
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام تعزیتی نشست
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ رسائل و جرائد کے تعزیتی شذرے
ادارہ

ایک نابغہ روزگار کی یاد میں
پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد خان

تلاش

Flag Counter