ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ - نشانِ عظمتِ ماضی

ڈاکٹر قاری محمد طاہر

لیجیے، ڈاکٹر محمود احمد غازی بھی عالم بقا کو سدھارے۔ ۲۶ ستمبر ان کا یوم موعود تھا جو آن پہنچا۔ اس یوم موعود کی پہلے نہ ڈاکٹر صاحب کو خبر تھی نہ کسی اور کو۔ صرف داعئ اجل ہی کو علم تھا۔ یہ بھید اسی وقت کھلا جب داعئ اجل نے دستک دے دی۔ ڈاکٹر صاحب اٹھے اورچل دیے۔ کسی کو بتانا بھی گوارا نہ کیا۔ کاش پہلے پتہ چل جاتا، لیکن اگر پہلے پتہ چل بھی جاتا تو بھی دنیا والے کیا کر لیتے۔ اس جہان میں ہر انسان تو بس بے بس ہی ہے۔ 

دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کو اپنے بچوں کی فکر تھی نہ دوست احباب کی۔ دم واپسیں بس اتنا کہا: ’’کیا نماز کا وقت ہو گیا؟‘‘ ظاہر بین لوگوں نے کہا ، نہیں ابھی نماز میں بہت وقت باقی ہے۔ دیدۂ بینا بولی، ڈاکٹر صاحب کی نماز کا وقت ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب رخصت ہوتے ہوئے پیغام دے گئے۔ 

فرصت کار فقط چار گھڑی ہے یارو
یہ نہ سمجھو کہ ابھی عمر پڑی ہے یارو

اس دنیا میں کسی کو دوام نہیں، اول فنا آخر فنا۔ جانا تو ہر ایک کو ہی ہے لیکن موت موت میں فرق ہے۔ موت اگر کسی کے آنگن میں آئے تو ایک ہی مرتا ہے لیکن فرشتۂ اجل اگر کسی نابغہ روزگار شخصیت کے دروازے پر دستک دے دے تو ایک نہیں پوری قوم کا جنازہ اٹھتا ہے۔ کوئی سمجھے نہ سمجھے، اس حقیقت کا ادراک صاحبان بصیرت ضرور ہی رکھتے ہیں۔ 

ڈاکٹر صاحب حال کی آبرو اور ماضی کی عظمت کا نشان تھے۔ ان کو قدیم و جدید پر یکساں عبور تھا ۔ اردو انگریزی عربی بولتے تو محسوس ہوتا وہ زبان کے بندے نہیں بلکہ زبان ان کی باندی ہے اور الفاظ ان کے غلام جو صف بستہ ہاتھ باندھے حکم کے منتظر کھڑے ہیں۔ زبان کھولتے ہی علم کے موتی رولتے۔ سننے والے مبہوت ہو جاتے اور گفتگو سے گوہر چنتے تھے۔ 

یہ غالباً ۱۹۹۱ء کی بات ہے، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی سب سے پہلی ایم فل کی ورکشاپ تھی۔ اس ورکشاپ میں صوبہ سرحد اور پنجاب کے بیشتر حضرات شامل تھے۔ شاید ایک آدھ صاحب سندھ یا بلوچستان کے بھی ہوں ۔ یہ سب حضرات کالجوں کے لیکچرر یا اسسٹنٹ پروفیسر تھے۔ گویا سب کے سب کسی نہ کسی صورت میں پڑھے لکھے کہلاتے تھے۔ ورکشاپ کا اہتمام یونیورسٹی کی سابقہ عمارت میں کیا گیا تھا۔ اعلان ہوا کہ کل کا لیکچر ڈاکٹر محمود احمد غازی دیں گے۔ ہم اس وقت تک ڈاکٹر صاحب کے نام سے شناسا نہ تھے۔ ہم نے ڈاکٹر صاحب کا نام پہلی مرتبہ ہی سنا تھا۔ بیشتر شرکا کی زبانوں پر ان کی عظمت کے تذکرے تھے۔ لہٰذا سبھی وقت مقررہ پر ہال میں اکٹھے ہو گئے۔ ڈاکٹر صاحب تشریف لائے۔ دراز قد، فیروزی رنگ کا تھری پیس سوٹ، انتہائی سرخ ٹائی، سر پر قراقلی ٹوپی، لباس کی نفاست، آپ کی شخصیت میں خوب نکھار پیدا کر رہی تھی۔ چہرے پر لگی لگی داڑھی۔ مقدارِ داڑھی کو معیارِ اسلام سمجھنے والے حضرات کی جبین پر ’’؟‘‘ کا نشان واضح تھا، لیکن ڈاکٹر صاحب کی عالمانہ فاضلانہ گفتگو نے سکہ جمالیا ۔ بعد میں نجی محفلیں جمیں تو بحث، موضوع بحث اور اندازِ تکلم پر ہی تھی۔ بعض حضرات نے ڈاکٹر صاحب کی داڑھی کے طول و عرض، یک مشت و چہار انگشت کو موضوع بنانا چاہا لیکن ان کی کسی نے نہ سنی، نہ بات کو بڑھایا۔ جہاں علم کا بحربے کنار ہو جائے، وہاں یہ بحثیں سطحی ہوتی ہیں۔ علم و عمل میں فاصلے نہ ہوں تو ظاہری تراش خراش کی حد بندیاں باقی نہیں رہتیں۔ 

یہ ہماری ڈاکٹر صاحب سے پہلی شناسائی تھی۔ جس نے ہمارے دل کو مٹھی بند کر لیا۔ گرفت اتنی پختہ کہ ان کی موت کے بعد اب تک ڈھیلی نہ ہوئی۔ اس کے بعد بیسیوں مرتبہ ملاقات کی مجلسیں جمیں ۔ ہمیشہ یہی لگا، وہ میرے اور ہم ان کے ہیں۔ میری گزارش پر کئی مرتبہ فیصل آباد تشریف لائے۔ ان کی طبیعت میں نہ تکلف تھا، نہ ہی وہ زیادہ رکھ رکھاؤ کے عادی تھے۔ ہمیشہ کھلے دل سے اس طرح ملتے جیسے بچپن کے شناسا ہیں۔ اپنائیت اتنی کہ لگتا گلی گلیان میں اکٹھے کھیلتے کودتے بڑے ہوئے ہیں۔ کبھی اپنے علم کا رعب نہ جمایا، نہ بڑھ کر اپنی ہی کہی ، بلکہ دوسرے کی پورے دھیان اور توجہ سے سنی، پھر اپنی کہی اور دلائل سے زیر کیا۔ اہل علم کی یہی پہچان ہوتی ہے، اسی چیز نے ان کو بڑا بنایا۔ 

آپ کے نام کے ساتھ غازی کا لاحقہ کیوں اور کیسے ہے؟ اس کا علم تو ہمیں نہیں ، ہم اتنا ضرور جاتے ہیں کہ آپ علم کے غازی ضرور تھے۔ کسی موضوع پر بحث میں آپ بڑے بڑے علماء پر غالب آتے تھے۔ یہ تغلب آواز کی بلندی سے نہیں علم کی گہرائی اور گیرائی سے پیدا ہوتا۔ آپ کی رائے مستحکم ہوتی جس پر نصوص کی تائید پیش کرتے تھے اور سامع کو قائل ہوتے ہی بنتی تھی۔ 

ایک مجلس میں اس عاجز نے زکوٰۃ کے حوالے سے بات چھیڑی تاکہ ساز پر مضراب کی ضرب سے دھنیں جنم لیں اور موتیوں کی بارش ہو۔ میں نے مسئلہ تملیک کے بارے میں استفسار کیا۔ فرمانے لگے، تملیک صرف چار مدات میں ہے، دیگر میں نہیں۔ مجھے تعجب ہوا کہ علمائے احناف تو تملیک کو زکوٰۃ کا لزوم قرار دیتے ہیں ۔ فرمانے لگے، قرآن میں آٹھ مدات زکوٰۃ کا ذکر ہے جن میں سے پہلی چار میں تملیک ہے ، مؤخر الذکر چار میں تملیک نہیں ہے۔ میں نے دلیل پوچھی۔ فرمانے لگے ، پہلی چار میں لام تملیک ہے، آخری چار میں نہیں ہے۔ 

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُمْ (۹:۶۰)

ان چاروں مدات میں لام تملیک ہے، لہٰذا ان میں تملیک لازم ہے، لیکن وَفِیْ الرِّقَابِ غلام کو آزاد کرایا جائے گا تو اس کی قیمت کی تملیک غلام کی نہیں بلکہ اس کے مالک کے لیے ہوگی۔ اسی طرح وَالْغَارِمِیْنَ میں تملیک مقروض کے لیے نہیں، قارض کی ہوگی۔ یہی کیفیت وَفِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ میں ہے۔ 

آپ کا علمی قد کاٹھ بہت نہیں بلکہ بہت ہی بلند تھا جہاں پر پہنچنا ہر کہ ومہ کے بس کی بات نہیں۔ یہ بات مسلم ہے کہ علم و عمل ہی انسان کو عزت بخشتا ہے۔ علم روشنی ہے، عمل راستہ۔ آپ کی گرفت دونوں پر یکساں تھی۔ عمل کے بغیر محض علم کبر لاتا ہے اور علم بغیر عمل راستہ کھوٹا کر سکتا ہے۔ آپ کے پاس علم کی قندیل بھی تھی اور راستے کی معرفت بھی۔ اسی سبب آپ کی عزت و توقیر علمی حلقوں میں مسلم تھی، لیکن اس کے باوجود آپ تواضع و انکسار کا مرقع تھے۔ کبھی خود کو بڑا خیال نہ کیا۔ ایک مرتبہ میں نے فون کیا کہ ڈاکٹر صاحب! اگرچہ آپ کی شان سے تو کہیں فروتر ہے، لیکن آپ کی محبت کے پیش نظر جسارت کر رہا ہوں ۔ فیصل آباد میں دارِارقم نام کا چھوٹا سا سکول ہے ۔ اس کی سالانہ تقریب میں آپ کو مہمانِ خصوصی کی کرسی پر بٹھا کر اپنی اور سکول کی عزت کو بڑھانا چاہتا ہوں۔ فون سنتے ہی میرے جملوں پر مسکراتے ہوئے فرمانے لگے: یہ اسکول کی نہیں، آپ میری عزت افزائی فرما رہے ہیں، میں ضرور آؤں گا۔ تاریخ کا تعین ہوگیا، میں نے عرض کی، اسلام آباد و فیصل آباد کے مابین ہوائی سروس نہیں ہے۔ آپ کو زحمت ہوگی، کار پر سفر کرنا ہوگا۔ فرمانے لگے، زحمت نہیں میرے لیے رحمت ہے۔ میں کار پر ہی آؤں گا۔ یوں بھی ہوائی سروس ہوتی تو بھی وقت تو یکساں ہی لگتا۔ ہوائی جہاز میں سفر کریں تو کم از کم ڈیڑھ گھنٹہ پہلے پہنچنا ہوتا ہے۔ ڈیڑھ گھنٹہ پہلے پہنچنے کے لیے گھر سے مزید ایک گھنٹہ قبل روانہ ہونا ضروری ہے۔ پھر فیصل آباد کے ہوائی اڈے سے کلیرنس اور اصل مقام تک پہنچنے میں گھنٹہ ڈیڑھ تو لگتا ہی ہوگا۔ اس طرح کم از کم پانچ گھنٹے تو صرف ہوں گے جبکہ موٹر وے سے ساڑھے تین گھنٹے لگیں گے۔ یہ سب تفصیل آپ کی فطری تواضع کا ثبوت تھی ، وگرنہ سکول کی تقریب میں نہ آنے کے لیے ہوائی سروس کی عدم موجودگی او رمصروفیت کا ذکر بڑے معقول بہانے بن سکتے تھے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کے ہاں یہ تکلفات عنقا تھے۔ یہی ان کی عظمت تھی۔ 

تقریب سے ایک روز قبل میں نے یاد دہانی کے لیے فون کیا۔ میرے کچھ عرض کرنے سے پہلے ہی بولے، مجھے کل کی تقریب بالکل یاد ہے، میں فجر کی نماز کے ایک گھنٹہ بعد چلوں گا۔ میری ذہنی پستی، میں نے عرض کیا کہ دیر ہو جائے گی، آپ کے انتظار میں سامعین کو روکنا، بٹھانا ہمارے لیے مشکل پیدا کر دے گا۔ اگر آپ فجر کی نماز ادا کرنے کے فوری بعد سفر شروع کر یں تو ہمارے لیے سہولت رہے گی۔ آپ نے ایک منٹ توقف فرمایا اور بولے، اچھا ایسا ہی کروں گا۔ اگلے روز ہم موٹر وے پر آپ کے استقبال کے لیے پہنچنے بھی نہ پائے تھے کہ فون آیا: میں موٹر وے فیصل آباد انٹرچینج پر آپ کا منتظر ہوں۔ فون سنتے ہی بڑی خفت ہوئی۔ فوراً موٹر وے کی طرف بھاگے، گاڑی تیز دوڑائی، پھر بھی آدھ گھنٹہ صرف ہوگیا۔ ڈاکٹر صاحب کی گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی تھی اور ڈاکٹر صاحب اگلی سیٹ پر بیٹھے تلاوت کلام اللہ میں مصروف تھے۔ ہم نے معذرت کی۔ آپ آگے بڑھے ، منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور فرمایا، معذرت کی ضرورت نہیں، مجھے فائدہ ہوگیا۔ منزل رہتی تھی، پوری کر لی۔ 

تقریب کے اختتام پر فرمانے لگے ، فیصل آباد میں بڑی عظیم شخصیات رہتی ہیں، میں ان سے ملنا چاہوں گا۔ میں نے نام پوچھا۔ بولے، مولانا مجاہد الحسینی اسلاف میں سے ہیں، ان سے مل لیں۔ ہم ڈاکٹر صاحب کو لے کر مولانا مجاہد الحسینی کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ وہ محبت سے اور ڈاکٹر صاحب عزت سے ملے۔ وہاں سے جامعہ امدادیہ چلے گئے، راستہ بھر مولانا کی خدمات کا تذکرہ کرتے رہے۔ 

خط کا جواب لکھنے کے معاملے میں ڈاکٹر صاحب سخی نہیں بلکہ خط کے جواب کو لزوم کا درجہ دیتے۔ خط کا راقم چھوٹا ہو یا بڑا،اس سے غرض نہیں۔ اس نے سلام کے ذریعہ مخاطب کیا ہے، قرآن حکیم کے مطابق سلام کا جواب بھی لازم اور پوچھی گئی بات کا جواب بھی لازم ہے۔ قرآن حکیم میں ہے:

وَإِذَا حُیِّیْْتُم بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّواْ بِأَحْسَنَ مِنْہَا أَوْ رُدُّوہَا (۴:۸۶)
’’جب کوئی تمہیں سلام کرے تو جواب زیادہ احسن طریق سے دو یا اسی کو لوٹا دو۔ ‘‘

ڈاکٹر صاحب کے نزدیک خط کا جواب دینا بھی لازم تھا کہ اس میں لکھنے والا سلام ہی کرتاہے۔ دوسرا حکم بھی فرمانِ الٰہی ہے: فَاسْأَلُواْ أَہْلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (۱۶:۴۳)۔

ڈاکٹر صاحب سے شناسا حضرات انہیں خط لکھتے، آپ ہر ایک کا جواب دیتے۔ ہماری دانست میں کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ ڈاکٹر صاحب نے قصداً میرے خط کا جواب نہیں دیا۔ یہ ان کا بڑا وصف تھا۔ اکابر کا معمول بھی یہی رہا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے حالات و معمولات میں بھی اس بات کی پابندی ملتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب عموماً جواب ہاتھ سے لکھتے۔ کبھی کمپوزنگ یا ٹائپ سے بھی کام لیتے، لیکن عموماً ہاتھ سے جواب لکھنے کی عادت تھی۔ مجھ سے کوتاہ علم اور کوتاہ عمل کے ساتھ بھی اس معاملے میں ان کا معمول سخیانہ تھا۔ میں نے جب بھی لکھا، جواب سرعت سے آیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح مطلوب کی معمولی طلب پر طالب لپکتا ہے۔ یہ بات ان کے اخلاق کریمانہ میں سے ایک تھی۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی کی طرف سے لکھے گئے خطوط تحقیق کا مستقل علمی عنوان ہے جس سے بہت سے علمی گوشے منکشف ہو سکتے ہیں۔ شاید کوئی غواص اس علمی سمندر میں اترے اور علمی موتی چنے۔ 

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ علمی میدان کے شناور تھے۔ پڑھنا لکھنا، زبان کے ذریعے علم کے موتی بکھیرنا ہی ان کا مشغلہ تھا۔ یہ پرویز مشرف کا زمانۂ اقتدار تھا کہ اچانک خبر ملی کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی کو وفاقی حکومت میں وزارت کا قلمدان پیش کیا گیا ہے اور ڈاکٹر صاحب نے اس قلم دان کو سنبھال لیا ہے اور اس پر کام بھی شروع کر دیا ہے۔ پہلی خبر تک تو کسی کو حیرت نہ ہوئی کیونکہ ڈاکٹر صاحب کی صلاحیتیں اس بات کا تقاضا کرتی تھیں کہ ان سے حکومتی سطح پر کوئی اہم خدمت لی جائے۔ چنانچہ حکومت کی طرف سے کرسی وزارت کی پیشکش باعث حیرت نہ تھی، لیکن دو سری خبر کہ ’’آپ نے وزارت کی ذمہ داریاں قبول کر لی ہیں اور بطور وزیر وفاق حلف اٹھا کر کام بھی شروع کر دیا‘‘، اس پر علمی حلقوں میں اضطراب پیدا ہوا، کیونکہ ہر شخص یہ خیال کرتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کی افتاد طبع اس عہدہ سے مطابقت نہیں رکھتی۔ لیکن یہ امر واقع تھا۔ ڈاکٹر صاحب اپنے اس عہدہ سے فارغ ہوئے تو عقدہ کھلا اور وہ مصلحت سامنے آئی جس کے لیے آپ نے اپنی طبیعت کے برعکس سیاست جیسی پرخار وادی میں قدم رکھنا گوارا کر لیا۔ 

یہ وہ دور تھا کہ جب مدارس کو ختم کرنے یا ان کو حکومتی احکامات کا تابع بنانے کی بھرپور مہم چل رہی تھی اور پرویزی حکومت کے بارے میں یہ حقیقت سامنے آچکی تھی کہ وہ کتوں سے محبت رکھتی ہے اور مصطفےٰ کمال پاشا مشرف کے آئیڈیل ہیں، اسی آئیڈیلزم کے اشتراک کے سبب مشرف حکومت بھی دین سے ہمدردی رکھنے والوں کو نظر بد سے دیکھتی ہے۔ ان معروضی حالات میں ڈاکٹر محمود احمد غازی نے اپنی طبیعت پر جبر کیا اور مدارس کو حکومتی چیرہ دستی سے بچانے کے لیے وزیر مذہبی امور بنے اور مدارس کے دفاع میں کامیاب رہے۔ جب یہ کام ہو چکا تو آپ قلیل عرصہ ہی میں بغیر وجہ بتائے یا بغیر کسی ظاہری سبب کے اس منصب سے علیحدہ ہو گئے۔ 

وزارت سے علیحدگی کے بعد میری ملاقات ڈاکٹر صاحب سے ہوئی۔ میں نے اصل مقصد کو سمجھنے کے باوجود ڈاکٹر صاحب سے چٹکی لی۔ عرض کی، ڈاکٹر صاحب! آپ تو سیاسی ہو گئے۔ میرا سوال نما تبصرہ سن کر بولے، ہرگز نہیں ، میں تو بازارِ سیاست سے بس گزرا ہوں۔ حالات نے ثابت کر دیا کہ اگر ڈاکٹر صاحب مرحوم اس وقت اس پرخار وادی میں قدم نہ رکھتے تو مدارس اور دینی تعلیم کا حلیہ بگڑ چکا ہوتا اور مدارس کے مہتمم حضرات اہتمام سے فارغ بیٹھے ہوتے۔ جبہ بچتا نہ دستار، نہ ہی کھالیں ملتیں بلکہ کھالیں نوچ لی جاتیں۔ ڈاکٹر صاحب پر زبان طعن دراز کرنے والوں کی زبانیں کھنچ چکی ہوتیں۔ 

یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ مشرف دور میں دینی مدارس کے خلاف اٹھنے والے طوفان کو روکنے کی صلاحیت رکھنے والی شخصیت صرف اور صرف ڈاکٹر محمود احمد غازی ہی کی تھی جو قدیم و جدید تمام علوم کی جامع تھی۔ ڈاکٹر محمود غازی واحد شخصیت تھے جو منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی بولنے والوں کو مسکت جواب دینے کی اہلیت کے حامل بھی تھے اور ساتھ ہی دینی علوم کی اتھاہ گہرائیوں پر پوری نظر رکھتے تھے اور اس معاملے میں کسی سمجھوتے کے قائل نہ تھے۔ آپ نے اسی زمانے میں مدارس میں رائج نصاب میں معروضی حالات کے تقاضوں کے مطابق قدیم و جدید کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی اور اپنے قلیل دورِ وزارت میں مدارس کے لیے نہایت اہم نصاب مرتب کیا، لیکن افسوس بعض دینی حلقوں نے ڈاکٹر صاحب کے اس دانش مندانہ فعل کو بھی اپنی ذہنی اپج اور مخالفت برائے مخالفت کے جذبے ہی سے لیا، لیکن ڈاکٹر صاحب نے ایسے حضرات کا کوئی نوٹس نہ لیا اور اپنا مشن جاری رکھا۔ جب ڈاکٹر صاحب کی طرف سے اس نصاب کا اعلان ہوا تو راقم نے انہیں ایک خط لکھا جس میں مشورہ دیا کہ آپ بہت اہم کام سر انجام دے رہے ہیں، لیکن براہ کرم کوئی ایسی سبیل بھی تلاش کیجیے کہ علما کا روایتی طبقہ آپ کے خلاف صف آرا نہ ہو اور ایسا نہ ہو کہ آپ کی مثبت مساعی علما کے منفی رویے کا شکار ہو جائیں۔ اس خط کا آپ نے جواب دیا۔ ڈاکٹر صاحب کی طرف سے مجھے جتنے خطوط موصول ہوئے، ان میں صرف یہی ایک خط ہے جو کمپوز شدہ ہے۔ یہ خط انہوں نے اپنی وزاایک رت کے دوران اپنے پرنسپل سیکرٹری سید قمر مصطفےٰ کی طرف سے لکھوایا، وگرنہ باقی دیگر تمام خطوط ان کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے لکھا:

’’ڈاکٹر غازی صاحب نے آپ کے مراسلے اور ماہنامہ التجوید کے شمارے کا شکریہ ادا فرمایا ہے۔ انہوں نے مجھے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ میں آپ کو مطلع کروں کہ ماڈل دینی مدارس کا نصاب مختلف علماء کرام اور وفاق کے نمائندوں کی مشاورت سے ہی مرتب کیا جا رہاہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس نصاب سے مطلوبہ اہداف کا حصول ممکن ہو سکے گا‘‘۔

ڈاکٹر صاحب کو اپنے علم پر کبھی ناز ہوا ہی نہیں۔ کبھی کسی علمی موضوع پر بحث و تمحیص میں اپنی علمیت کو فخر کے انداز میں بیان نہ کرتے بلکہ اپنے سے کم علم آدمی کی بات کو بھی اس طرح سنتے جیسے اس معاملے میں بالکل بے خبر ہیں۔ یہ آپ کی عالی ظرفی کی علامت تھی۔ اسی طرح وزارت کے منصب پر فائز ہوئے تو عاجزی و انکساری میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ان کی وزارت ہی کے ایام کا واقعہ ہے کہ راقم کو آپ کی طرف سے کتابوں کا بنڈل بذریعہ ڈاک موصول ہوا۔ باہر وزارت حج و اوقاف کی مہر موجود تھی۔ میں نے بنڈل کھولا ، اس میں کچھ اہم علمی کتب تھیں۔ ساتھ ہی آپ کا خط تھا ۔ لکھا تھا کہ حج کے دوران مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ جانا ہوا۔ مہتمم مولانا حشیم صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے آپ کو یہ کتب بھیجنا تھیں۔ وہ متردد تھے کیسے بھیجوں۔ میں نے کہا مجھے دے دیں ، میں پاکستان جاکر پہنچا دوں گا۔ مجھے کتابیں وصول کرکے خوشی ہوئی اور اس سے زیادہ خوشی اس خط کو پڑھ کر ہوئی کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی کس قدر متواضع اور منکسرالمزاج ہیں جو اہل علم کاخاصہ ہے۔ میں نے شکریے کے طور پر فون کیا تو فرمانے لگے، شکریے کی کیا بات ہے ۔ میں آ ہی رہا تھا اور میں نے کتابیں خود تھوڑے اٹھانا تھیں۔ سامان میں آگئیں، ڈاک سے آپ کو پہنچ گئیں۔ پھر کہنے لگے ، ان کتابوں کے مطالعے سے آپ کو جو فائدہ ہوگا تو اس ثواب کا کچھ حصہ میرے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا۔ اب وہ دنیا میں نہیں لیکن ان کے ان جملوں کی حلاوت میرے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔ میرا شعور اور لاشعور دونوں بین کرتے ہیں۔ کاش جیتا کوئی دن اور، کاش موت کا فرشتہ ڈاکٹر صاحب کا گھر بھول جاتا اور اسلام آباد کے پہاڑی سلسلہ میں گم ہو کر خائب و خاسر ہی لوٹ جاتا۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ، فرشتۂ اجل بھی ویفعلون مایؤمرون (۶۶:۶) کا پابند ہے۔ 

۲۰۰۱ء میں آپ وزیر مذہبی امور تھے۔ سرکاری منصب کے حوالے سے حج وفد کی سربراہی آپ کے سپرد تھی۔ حج کے لیے تشریف لے گئے۔ ہمارے ایک دوست مصباح الحق صدیقی صاحب ، جو نیشنل بنک میں آفسر ہیں، بھی اس سرکاری وفد میں شامل تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک روز وضو اور حوائج ضروریہ کی تکمیل کے لیے سب لوگ قطار بنائے باری کا انتظار کر رہے تھے۔ میں نے ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب کو بھی قطار میں لگے انتظار کرتے دیکھا۔ میں ان سے آگے تھا، ڈاکٹر صاحب تین چار افراد کے پیچھے کھڑے تھے۔ میں نے احتراماً عرض کی ، آپ مجھ سے آگے تشریف لے آئیں۔ ڈاکٹر صاحب نے شکریہ ادا کیا اور اپنی جگہ پر ہی کھڑے رہے، آگے نہ بڑھے۔ میں ان کی یہ تواضع و انکساری اور اصول کی پابندی دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔ جب آپ وضو سے فارغ ہوئے تو میں نے آگے بڑھ کر سلام کیا اور عرض کی کہ ڈاکٹر قاری محمد طاہر مدیر التجوید میرے دوست ہیں۔ ان کے حوالے سے آپ سے ملنا چاہتا ہوں ، وقت دے دیجیے۔ خندہ پیشانی سے بولے، میرے خیمہ کا نمبر یہ ہے۔ آپ جس وقت چاہیں تشریف لائیں، مجھے بہت خوشی ہوگی۔ مغرب کی نماز سے فارغ ہو کر ان کے خیمہ کی طرف چل دیا۔ آپ تلاوت کلام اللہ میں مشغول تھے۔ میں پیچھے بیٹھ گیا۔ جب آپ فارغ ہوئے تو مجھے دیکھا ، بہت ہی خوشی سے میرا استقبال کیا۔ میرے ہاتھ میں آپ کا کتابچہ بعنوان آسان حج پکڑا ہوا تھا۔ آپ نے وہ کتابچہ لیا ، کچھ ورق گردانی کی۔ فرمایا بہت مختصر اور مفیدہے۔ انہوں نے از خود تعریفی کلمات اس کتابچہ پر تحریر کر دیے۔ واپسی پر مصباح الحق صدیقی صاحب نے وہ کتابچہ مجھے لا کر دیا اور سارا واقعہ بھی سنایا۔ میرے دل میں ڈاکٹر صاحب کی عظمت مزید ہوئی۔ آپ کس قدر تعلق خاطر کو نبھانے والے ہیں۔ آپ کی وہ دو سطریں راقم کے پاس محفوظ ہیں اور میرے لیے سرمایہ حیات کا درجہ رکھتی ہیں۔ 

کوئی شخص فقیر ہو یا امیر، عالم ہو یا صوفی، بادشاہ ہو یا گدا، سب کا حاصل حیات گور کے علاوہ کچھ نہیں ۔ جو آیا جانے ہی کے لیے، رہنے کے لیے تو کوئی آتا ہی نہیں۔ علامہ اقبال نے زندگی کی اسی حقیقت سے پردہ سرکایا ہے۔ 

بادشاہوں کی بھی کشت عمر کا حاصل ہے گور 
جادۂ عظمت کی گویا آخری منزل ہے گور

بادشاہ و امراء دنیا میں زر و زمین چھوڑ جاتے ہیں جن پر بعد والے لڑتے جھگڑتے ہیں۔ قتل و غارت اور خون ریزی سے بھی گریز نہیں کرتے لیکن علماء کا ورثہ علم ہوتا ہے۔ فرمان رسول ہے: العلماء ورثۃ الانبیاء۔ علما، انبیا کے وارث ہیں۔ انبیا کی وراثت درہم و دینار نہیں ہوتے، ان کا ترکہ علم ہوتا ہے۔ زندہ رہیں تو علم کی میراث تقسیم کرتے ہیں۔ دنیا سے رخصت ہوں تو ترکہ میں بھی علمی وراثت ہی ہوتی ہے جس سے ایک زمانہ صدیوں کسب فیض کرتا ہے۔ امام غزالی ایران کے شہر طوس میں محو استراحت ہیں۔ آپ کو رخصت ہوئے صدیاں بیتیں لیکن ان کی کیمیائے سعادت روشنی بکھیر رہی ہے۔ بہت سے غیر مسلم کیمیائے سعادت کو پڑھ کر مسلمان ہوئے۔ سعید ارواح اس سے علمی کیمیا گری کے اصول حاصل کر رہی ہیں۔ امام الہند شاہ ولی اللہ مہندیاں دہلی میں آسودہ خاک ہیں لیکن حجۃ اللہ البالغہ سے پوری دنیا میں اہل علم من کی دنیا کو اجال رہے ہیں اور تاقیامت اجالتے رہیں گے۔ 

اسی طرح ڈاکٹر محمود احمد غازی کی پاکیزہ روح بھی جلد ہی عالم ارواح کو سدھار گئی۔ اسلام آباد کی مٹی نے ان کے جسم کو پناہ دے دی۔ وہ یقیناًمٹی تلے آسودۂ رحمت ہیں لیکن وہ اپنے قلم سے اتنا کام ورثہ کے طور پر چھوڑ گئے ہیں کہ ان کے قلم سے نکلی تحریریں بہت سے کم علموں کو علم کی مالاؤں سے آراستہ کرتی رہیں گی۔ ان کی ایک ایک کتاب ہی پی ایچ ڈی کے لیے مستقل عنوان ہے۔ دورِ حاضر میں ذہن بنجر ہو گئے ہیں۔ تحقیق کے لیے عنوانات تلاش کرنا بھی کارے دارد، لیکن ڈاکٹر غازی کی کتابیں اور تحریریں غواص حضرات کو مزید راہیں عطا کرتی ہیں اور کرتی رہیں گی۔ 

ڈاکٹر محمود احمد غازی کی قلمی میراث میں محاضرات قرآنی، محاضراتِ حدیث، محاضراتِ فقہ، قانون بین الممالک، اسلام اور مغرب تعلقات، مسلمانوں کا دینی و عصری نظام تعلیم، اسلامی بنکاری: ایک تعارف، قرآن مجید:ایک تعارف انتہائی اہم ہیں۔ ان میں سے ہر تحریر مستقل موضوع ہے، جس کو بنیاد بنا کر علم و تحقیق کے شناور مزید گوہر تابدار تلاش کر سکتے ہیں۔ ان کتب کے علاوہ ملکی و غیر ملکی جرائد میں طبع ہونے والے مضامین تحقیق کے لیے مستقل موضوع ہیں جن سے طلبہ اپنی پیشانیوں پر پی ایچ ڈی کے تمغے سجا سکتے ہیں جس سے ان کا دسترخوان بھی بابرکت ہو سکتا ہے۔ 

ڈاکٹر صاحب کو اللہ نے جہاں تحریر کا ملکہ دیا، وہاں تقریر کا ملکہ بھی وافر عطا کر رکھا تھا۔ ان کی ہر تقریر کئی کتب پر بھاری ہوتی۔ بولتے تو محسوس ہوتا کہ علم کا بحرِ بے کراں ہے، سننے والوں کا دامن موتی سمیٹنے سے کوتاہ نظر آتا۔ دورانِ تقریر امہات الکتب سے ایسے ایسے حوالے پیش کرتے جیسے موسوعہ کھل جائے۔ 

ڈاکٹر صاحب دھیما مزاج رکھتے تھے۔ ہمیشہ خوش رہتے ، خوش رکھتے، لیکن اس کے باوجود میں نے انہیں ایک مرتبہ غصہ میں بھی دیکھا لیکن عام لوگوں کی طرح وہ غصہ میں غضبناک نہ ہوتے۔ ۲۰۰۷ء کی بات ہے، مشرف صدر تھے۔ انہوں نے بین المذاہب ہم آہنگی کا ڈول ڈالا۔ ان کا خیال تھا کہ مختلف مذاہب کو اکٹھا کر دیا جائے تاکہ مختلف مذہب رکھنے والے لوگوں خصوصاً عیسائیت کے ساتھ اسلام کا اور عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں کا رشتہ مستحکم ہو اور ہم پوری دنیا خصوصاً امریکہ کو باور کرا سکیں کہ ہم میں اور عیسائیت میں ہم مشربی ہے۔ 

اس مقصد کے لیے صدر صاحب نے اسلام آباد میں عیسائیوں اور مسلمانوں کا مشترکہ اجلاس بلایا جس میں پاکستان بھر سے تقریباً دو ڈھائی سو کے قریب علماء کو اکٹھا کیا گیا۔ پاکستان کے چوٹی کے عیسائی بشپ اور فادر وغیرہ بھی بلائے گئے۔ ایک آدھ ہندو اور سکھ پیشوا بھی شریک ہوئے۔ کراچی سے مولانا تقی عثمانی ، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، اسی مقام کے شیعہ حضرات بھی شریک ہوئے۔ راقم بھی مدعوین میں سے تھا۔ صدر مشرف نے صدارت فرمائی۔ مولانا فضل الرحیم جامعہ اشرفیہ نے مولانا احتشام الحق تھانوی مرحوم کی لے میں تلاوت کی اور تعالوا الی کلمۃ سواء بینا و بینکم (۳:۶۴) کی آیات پڑھیں۔ علماء کرام اور عیسائی پیشواؤں نے اسلام اور عیسائیت کے فضائل بیان کیے۔ علماء کرام نے اسلام کو عیسائیت کے قریب اور عیسائیوں نے عیسائیت کو اسلام کی اصل ثابت کرنے کی کوشش کی۔ حسب معمول انتہائی پر تکلف چائے پر اجلاس ختم ہو گیا۔ یہاں سے فارغ ہو کر ہم ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحب سے ملنے کی غرض سے ان کے دفتر گئے۔ جو فیصل مسجد سے متصل تھا۔ ڈاکٹر صاحب حسب عادت و حسب معمول انتہائی تپاک ، محبت اور خوش روئی سے ملے۔ اسلام آباد آنے کی غرض پوچھی۔ میں نے بین المذاہب ہم آہنگی اجلاس کی روداد سنائی۔ ڈاکٹر صاحب کا چہرہ پر ملال ہوا۔ بولے عقیدہ توحید و تثلیث میں مماثلت کس طرح ممکن ہے؟ میرے دورِ وزارت میں بھی ایسی کوشش ہوئی تھی، میں آڑے ہی آیا جس پر حاملین تثلیث ناراض ہوئے۔ ہمیں اللہ کی رضا جوئی مقصود ہونی چاہیے۔ حالات کیا رخ اختیار کریں ، اس سے غرض درست نہیں۔ ڈاکٹرصاحب کا لہجہ سخت تھا۔ مجھے احساس ہوا ایں گناہ ہست کہ من ہم کردم ۔ کئی روز دل کچوکے لگاتا رہا۔ 

عالمی رابطہ ادب اسلامی، ادبا کی ایک تنظیم ہے جس کی بنیاد عالم اسلام کے نامور عالم، مؤرخ ، ادیب، متصوف بزرگ سید ابو الحسن علی ندوی نے رکھی تھی۔ آپ عالمی رابطہ ادبِ اسلامی پاکستان کے رکن تھے۔ آپ کے مرتبہ و مقام کے اعتبار سے اس کا رکن ہونا آپ کے لیے کوئی بڑے اعزاز کی بات نہ تھی بلکہ آپ کی رکنیت عالمی رابطہ ادب اسلامی کے لیے باعث عزت و افتخار تھی۔ لیکن جب بھی آپ سے ا س حوالے سے ملاقات ہوئی، ہمیشہ یہی فرمایا کہ اس تنظیم کا رکن ہونا میرے لیے اعزاز و فخر کی بات ہے۔ راقم اس تنظیم کا جنرل سیکرٹری تھا۔ اس حوالے سے مجھے ہمیشہ بہت عزت عطا فرمائی۔ میری ادارت میں ’’اخبارِ رابطہ‘‘ کا اجرا ہوا۔ اس کا پہلا شمارہ شائع ہوا تو میری حوصلہ افزائی کی اور بہت ہی خوشی کا اظہار کیا۔ فرمانے لگے ، اگر آپ کی یہ کوشش مسلسل جاری رہی تو رابطہ ان شاء اللہ بہت ترقی کرے گا۔ اہل علم سے رابطہ کرنے میں سہولت بھی ہوگی اور رابطہ کی سرگرمیوں کے بارے میں آگاہی رابطہ میں تحریک کا سبب بنے گی۔ 

رابطہ کے بعض عہدیداران کو وہم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب رابطہ کے صدر بننے کی خواہش رکھتے ہیں حالانکہ امر واقعہ یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے لیے رابطہ کا صدر ہونا قطعاً خواہش کی بات نہ تھی۔ وہ اس عہدہ سے کہیں بڑے تھے۔ آپ کو اس کی خبر ملی تو مسکرائے اور اتنا فرمایا کہ میں تو صرف اس لیے اس کا رکن ہوں کہ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ نے مجھے از خود اس کا رکن نامزد کر دیا تھا۔ یہی میرے لیے اعزاز کی بات ہے ۔ وگرنہ میں نے ان کے جملے سنے اور محسوس کیا کہ زبان سے نہیں بلکہ حال سے فرما رہے ہیں۔ 

سو پشت سے ہے پیشہ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے 

سچی بات ہے کہ ڈاکٹر محمود غازی کا وجود رابطہ ادب اسلامی کے لیے عزت و افتخار کا سبب تھا، وگرنہ ڈاکٹر صاحب موصوف اس قسم کے اعزازات سے ارفع و اعلیٰ تھے۔ یہ غالباً ۲۰۰۴ء کی بات ہے۔ میں اس وقت عالمی رابطہ ادب اسلامی پاکستان کا جنرل سیکرٹری تھا۔ مولانا فضل الرحیم اس کے صدر تھے۔ مجلس شوریٰ میں یہ بات طے ہوئی کہ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کے حوالے سے بین الصوبائی سطح پر سیمینار منعقد کیا جائے جو اسلام آباد میں ہو۔ اس سیمینار کے ابتدائی انتظامات کے حوالے سے میرے ذمہ یہ خدمت لگائی گئی کہ میں اسلام آباد جاکر ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کروں اور سیمینار کے لیے جگہ اور تاریخوں کا تعین کروں۔ میں اسلام آباد گیا، ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ میں نے مدعا عرض کیا، خوش ہوئے۔ فرمانے لگے، اس نیک کام کے لیے اسلامی یونیورسٹی کے ہال کو رابطہ والے اگر قبول کریں تو اعزاز ہوگا۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ میں خوشی سے دل ہی دل میں اچھل پڑا، لیکن میں نے اپنی خوشی چھپائے رکھی، ظاہر نہ ہونے دیا اور عرض کیا کہ آپ کی پیش کش اپنی جگہ، میں اکیلا فیصلہ نہیں کر سکتا۔ لاہور جاکر دوستوں سے عرض کروں گا۔ جو فیصلہ ہوگا، آپ تک پہنچا دوں گا۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی عظمت تھی۔ فرمانے لگے، مولانا فضل الرحیم صاحب کے سامنے میری پیشکش رکھیں، وہ ان شاء اللہ مان جائیں گے۔ مجھے حوصلہ ملا تو میں نے دست طمع دراز کیا۔ عرض کی ، ڈاکٹر صاحب اگر آپ کی اس پیشکش کو قبولیت ملے تو آپ رابطہ کے ساتھ مالی معاونت کیا فرمائیں گے؟ ڈاکٹر صاحب میری اندرونی کیفیت کو بھانپ گئے۔ میری طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا ، زیرلب مسکرائے۔ اب مجھ سے ضبط نہ ہوا، میرے حسن طلب کے جذبات چہرے اور آنکھوں سے ہویدا ہو گئے تو ڈاکٹر صاحب بھی کھل کر ہنس دیے۔ فرمانے لگے، ہال کا خرچ، بجلی پانی کا خرچ اور تقریب کے بعد کھانا سب اسلامی یونیورسٹی برداشت کرے گی اور سامعین کی کمی بھی پوری کر دے گی۔ ساتھ ہی فرمانے لگے ، اب تو شوریٰ سے منظوری کی ضرورت نہ ہوگی! میں نے چٹکی لی، عرض کیا: آپ عالمی رابطہ ادب اسلامی کے بڑے قدر آور رکن ہیں۔ آپ سے مشورے کے بعد کسی اور کے مشورے اور منظوری کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ ہم دونوں اس مکالمے کا حظ کافی دیر تک لیتے رہے۔ 

اس جگہ ایک انتہائی اہم واقعہ کا تذکرہ بہت ضروری ہے جو غازی مرحوم کے حوالے سے قوم کی امانت ہے۔ مقررہ تاریخوں پر مذکورہ سیمینار اسلامی یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوا۔ ایک اجلاس کی صدارت ڈاکٹر صاحب مرحوم نے فرمائی۔ اپنے خطبہ صدارت میں آپ نے مولانا ابوالحسن علی ندوی کے حوالے سے انتہائی اہم بات ارشاد فرمائی۔ میری دانست میں یہ بات پوری پاکستانی قوم کی امانت ہے جس کا ذکر اس جگہ بہت ضروری ہے۔ شاید اس بات سے ہمارے سیاست کار اپنا قبلہ درست کر سکیں اور حق و باطل میں امتیاز کی لکیر کھینچنے کا حوصلہ حاصل کریں۔ 

ڈاکٹر صاحب فرما رہے تھے کہ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کو خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ آپ فرما رہے تھے کہ مدینہ منورہ میں صورت حال مخدوش ہے۔ اس کا تدارک ضروری ہے۔ مولانا ندوی اس خواب کی تعبیر و توضیح پر سوچ بچار کرتے رہے۔ ان کے ذہن میں اللہ نے بات ڈالی کہ خواب اہم ہے اور انتظامی معاملہ ہے۔ اس کی اطلاع پاکستان کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق کو کرنا ضروری ہے۔ یہ سوچ کر آپ فوراً کراچی پاکستان تشریف لائے اور اس وقت کے وزیر قانون اے کے بروہی سے رابطہ کیا اور کہا کہ میری ملاقات فوراً جنرل محمد ضیاء الحق سے کرانے کا بندوبست کریں۔ بروہی صاحب نے ضیاء الحق سے رابطہ کیا اور مولانا ندوی کا پیغام پہنچایا۔ ضیاء الحق مرحوم نے کہا کہ مولانا عالم اسلام کے بڑے مفکر ہیں، انہیں اسلام آباد آنے کی زحمت نہ دیں۔ میں فوراً ان کی خدمت میں کراچی حاضر ہو رہا ہوں۔ جنرل مرحوم اسی وقت عازم کراچی ہو گئے۔ مولانا سے ملاقات ہوئی۔ ندویؒ نے اپنا خواب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ضیاء الحق کو بتلایا۔ غازی صاحب کے بقول خواب بیان کر چکنے کے بعد مولانا ندویؒ اپنی نشست سے اٹھے اور ضیاء الحق کی قمیص کا کالر پکڑا اور فرمایا کہ میں نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام آپ تک پہنچا دیا ہے۔ میں بری الذمہ ہوں۔ اس موقع پر ڈاکٹر غازی صاحب کی آواز بھرا گئی۔ کہنے لگے ، یہ خواب سن کر ضیاء الحق مرحوم رونے لگے اور مولانا سے قدرے توقف سے بولے، مولانا! اب اگر ایسی صورت پیش آئے تو میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیجیے گا کہ پاکستان کی فوج کا ہر جوان مدینہ منورہ کی حفاظت کے لیے کٹ مرے گا۔ مدینہ منورہ پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ ان شاء اللہ کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ ڈاکٹر غازی صاحب کی زبان سے یہ ساری بات سن کر پورے مجمع پر رقت طاری ہو گئی۔ اس کے بعد جنرل مرحوم نے جو اقدامات کیے، وہ اس وقت کے اخبارات کا حصہ ہیں۔ 

ڈاکٹر صاحب عالمی شہرت رکھتے تھے۔ پورا عالم اسلام ان کا قدر شناس تھا۔ ان کی آواز میں وزن تھا۔ عالمی رابطہ ادب اسلامی کے بزرجمہر اگر چاہتے تو ڈاکٹر صاحب کے مرتبہ و مقام سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے تھے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اپنی ذات کے ہالے میں گم رہنے والے حضرات کی کوتاہ فکری نے فکر ندوی کو محدود رکھنے میں عافیت تلاش کی اور ’انا ولا غیری‘ کے جذبے کے تحت ادیبوں کو اس تنظیم سے اور اس تنظیم کو ادیبوں سے دور رکھنے کی شعوری کوشش میں کامیاب رہے، اسی لیے اہل بصیرت عالمی رابطہ ادب اسلامی کو عارفی رابطہ ادب اسلامی کہہ کر حظ لیتے ہیں۔ 

ڈاکٹر محمود احمد غازی زاہد تھے، لیکن خشک ہرگز نہ تھے۔ آپ کی طبیعت شگفتہ تھی۔ علمی لطائف سے دوران گفتگو رنگ بھرتے تھے۔ سننے والا محظوظ ہوتا۔ میرے ہمراہ مولانا مجاہد الحسینی سے ملنے گئے تو بات تبلیغی جماعت کے حوالے سے چلی۔ فرمانے لگے، مولانا الیاسؒ کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے میواتیوں کو مسلمان کیا جبکہ آج کل تبلیغی جماعت والے مسلمانوں کو میواتی بنا رہے ہیں۔

ان کے ہمراہ ایک مرتبہ واش بیسن پر وضو کرنا مجبوری بن گیا۔ میں نے عرض کی اس معاملے میں اہل حدیث حضرات کے مزے ہیں۔ جرابوں پر مسح کرکے فارغ ہو جاتے ہیں۔ یہ پاؤں اٹھانا، سنک میں رکھنا ، اس مشکل سے جان چھوٹ جاتی ہے۔ فرمانے لگے ، یہ بات درست ہے۔ مجھے اس کا تجربہ اور اس کی اہمیت کا اندازہ ایک غیر ملکی سفر میں ہوا جب میں نے ایک ہوائی اڈے پر وضو کے لیے واش بیسن کا رخ کیا۔ جب حسب عادت منہ اور بازو دھونے کے بعد پاؤں دھونے کی غرض سے ٹانگ پکڑی اور پاؤں واش بیسن میں رکھا تو ایک غیر ملکی نے میری اس حرکت کو بنظر حقارت دیکھا۔ اس وقت مجھے جرابوں پر مسح کر لینے کی رخصت کی اہمیت کا پتہ چلا۔ میں نے ازراہ استفسار پوچھا کہ پاؤں پر مسح کرنے کے لیے موزے کی شرائط کیا ہیں؟ فرمانے لگے، چار شرائط ہیں۔ میں نے چونک کر پوچھا، ہم نے تو تین پڑھی ہیں، چوتھی شرط کون سی؟ فرمانے لگے، پہلی شرط یہ کہ تین چار میل چلے تو پھٹے نہیں۔ دوسرے یہ کہ موسمی اثرات سے محفوظ رکھے۔ تیسرے یہ کہ پاؤں پانی میں ڈالیں تو پانی جلد تک سرایت نہ کرے۔ مسکرا کر فرمانے لگے: اور چوتھی یہ کہ اس وقت کوئی حنفی مولوی صاحب پاس نہ ہوں۔ 

ایک مرتبہ ہم نے عالمی رابطہ ادب اسلامی کے تحت فیصل آباد میں سیمینار منعقد کرایا۔ ڈاکٹر صاحب کو دعوت دی، آپ تشریف لائے۔ بڑی علمی گفتگو فرمائی۔ واپسی پر میں نے کچھ رقم سفر خرچ کے طور پر مصافحہ کرتے ہوئے پیش کرنا چاہی تو انکاری انداز میں بولے، بھئی یہ کیا سلسلہ ہے؟ میں نے عرض کی، بس قبول کر لیجیے تو زور سے بولے، آخر کس سلسلے میں؟ کوئی سلسلہ تو بتاؤ۔ میں نے فوراً عرض کی ، جناب یہ سلسلہ چشتیہ قادریہ نہیں بلکہ سلسلہ مالیہ ہے۔ میرے اس جواب پر ڈاکٹر صاحب بڑے محظوظ ہوئے اور خوب مسکرائے۔ 

ڈاکٹر صاحب عموماً موبائل فون نہیں رکھتے تھے۔ کئی مواقع ایسے آئے کہ ڈاکٹر صاحب سے بات کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، لیکن ہمارے پاس ان کا موبائل نمبر ہی نہ تھا۔ خیال ہوتا کہ اب ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوگی تو موبائل نمبر لے کر لکھ لوں گا، لیکن ہر ملاقات پر ایسا کرنا بھول جاتا تھا۔ ایک روز یاد آہی گیا، ہم نے مطالبہ کیا، ڈاکٹر صاحب اگر پسند فرمائیں تو موبائل نمبر دے دیں۔ آپ نے فرمایا، میں تو موبائل فون رکھتا ہی نہیں۔ ہم نے فوراً تعجب سے پوچھا، ڈاکٹر صاحب ہمیں ما اور لمَ کا حق تو نہیں، یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔ لیکن اجازت دیں تو پوچھ لوں کہ آپ نئی ایجادات سے کیوں بدکتے ہیں؟ آپ نے موبائیل فون کیوں نہیں رکھا؟ ڈاکٹر صاحب نے بات سنی اور بغیر کسی توقف کے فرمانے لگے: إِثْمُہُمَا أَکْبَرُ مِن نَّفْعِہِمَا (۲:۲۱۹)۔

گویا ڈاکٹر صاحب نے ہمیں ہنسایا اور چپ بھی کرا دیا۔ میں نے جواب سنا تو خوب لذت لی۔ جب بھی ان کا جواب ذہن میں آتا ہے، بڑا حظ ملتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے اس جملے نے ذہن کی تاروں کو چھیڑا تو ہم نے موبائل کے عنوان سے کالم لکھا۔ جس کے مندرجات یہ تھے:

’’ڈاکٹر محمود احمد غازی ہمارے ملک کے نامور معروف دانشور ہیں۔ ان کا شمار ان اہل علم میں ہوتا ہے جو قدیم وجدید علوم کا ادراک رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے اہل علم ہمارے ملک میں خال خال ہی ہیں۔ وہ مرکزی حکومت کے سابق وزیر مذہبی امور بھی رہ چکے ہیں۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے چیف بھی رہے۔ وہ پہلے پاکستانی ہیں جن کو یہ عہدہ تفویض ہوا۔ علمی اعتبار سے ان کی پذیرائی نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون پاکستان دیگر ممالک میں بھی ہوتی ہے۔ دنیا کے بڑے تعلیمی اداروں کی اعلیٰ سطحی علمی کانفرنسوں میں ان کو مدعو کیا جاتا ہے اور ان سے علمی موضوعات پر مقالات لکھنے اور پڑھنے کی فرمائش کی جاتی ہے۔ اردو کے علاوہ عربی اور انگریزی زبان میں تحریر و تقریر کا یکساں ملکہ رکھتے ہیں۔ اس وقت تک بہت سی کتب ان کے قلم سے نکلیں اور اہل علم کے لیے مزید علم کا ذریعہ بنیں۔ تواضع اور انکسار کا پیکر ہیں۔ لباس کے اعتبار سے بھی قدیم و جدید کا سنگم ہیں۔ تھری پیس سوٹ ، ہم رنگ نک ٹائی کے ساتھ ساتھ مشرقی لباس سے بھی جسم کو مزین کرتے ہیں۔ شلوار قمیص اور جیکٹ بھی زیب تن کرتے ہیں۔ اس طرح وہ صرف علم ہی کے اعتبار سے نہیں بلکہ لباس کے اعتبار سے بھی قدیم و جدید کا سنگم ہیں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ دورِ جدید کی اہم ترین ایجاد موبائل فون کو کبھی استعمال نہیں کرتے اور نہ ہی موبائل اپنے پاس رکھتے ہیں۔ میں نے ایک مرتبہ پوچھ ہی لیا ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کا موبائل نمبر کیا ہے‘‘؟ فرمانے لگے ’’میں موبائل رکھتا ہی نہیں‘‘۔ میں نے حیرت سے دوسرا سوال کیا ’’کیوں‘‘؟ تو ان کا جواب استعاراتی تھا جس سے وہی لوگ لذت لے سکتے ہیں جو اس آیت کے مطلب، مفہوم اور تناظر سے واقف ہیں۔ فرمانے لگے: ’’إِثْمُہُمَا أَکْبَرُ مِن نَّفْعِہِمَا‘‘۔ ترجمہ : ان دونوں کا گناہ ان دونوں کے فائدہ سے زیادہ ہے۔ ‘‘

اس کالم کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے ہمیں خط لکھا جس کے مندرجات اس طرح ہیں:

’’برادرِ مکرم و محترم جناب ڈاکٹر قاری محمد طاہر صاحب 
یقین جانیے کہ آپ کا ممدوح اتنی تعریفوں کا مستحق نہیں ہے جتنی آپ کے مضمون میں بیان ہوئی ہیں۔ یہ محض کسر نفسی یا تواضع نہیں ، اظہارِ حقیقت ہے۔ آپ کا رسالہ ملتا رہتا ہے۔ استفادہ کرتا ہوں اور دعاگو رہتا ہوں۔ تجوید کے فنی مباحث تو میرے معیار تلاوت سے بلند ہوتے ہیں، ان سے استفادہ کا تو میں اہل نہیں ہوں، البتہ قراء حضرات کا تذکرہ دلچسپی سے پڑھتا ہوں۔ فن قراء ت کے حوالہ سے بطور لطیفہ کے عرض ہے کہ ۱۹۶۲ء میں حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ کے حکم سے مجھے تجوید میں سو میں سے ایک سو پانچ نمبر ملے تھے، لیکن اس حرکت کے ذمہ دار مولانا نہ تھے، کچھ حاسدین تھے۔ 
(قدرے دخل در معقولات: مصر کے مفتی اعظم کا نام علی جمعہ ہے اور ان کا خطاب جامعۃ الاسکندریہ میں ہوا تھا) 

والسلام 

نیاز مند

محمود احمد غازی‘‘

یہ خط ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے جو راقم کے پاس محفوظ ہے۔ اس خط سے ڈاکٹر صاحب مرحوم کی بہت سی خوبیوں کا پتہ چلتا ہے۔ آپ کی طبیعت میں زہد کی خشکی نہ تھی بلکہ آپ شگفتہ طبیعت کے مالک تھے اور خط کا جواب لکھنا اسی طرح ضروری خیال کرتے جس طرح سلام کا جواب دینا ضروری ہے۔ تیسری بات یہ کہ آپ کے اندر تواضع و انکساری بھی انتہا کی تھی۔ حافظ قرآن تھے، تجوید کے قواعد و ضوابط سے پوری طرح بہرہ ور ہونے کے باوجود فرماتے ہیں کہ ’’تجوید کے فنی مباحث تو میرے معیار تلاوت سے بلند ہوتے ہیں۔ ان سے استفادہ کا تو میں اہل ہی نہیں ہوں‘‘۔ یہ جملہ انتہائے انکسار کا غماز ہے۔ کیونکہ قراء حضرات کے تذکروں کا دلچسپی سے پڑھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ علم تجوید و قراء ت کے خوب خوب شناور تھے اور محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ کا آپ کو سو میں سے ایک سو پانچ نمبر دینا ہمارے دعوے کی دلیل کے لیے بذات خود بڑی دلیل ہی نہیں بلکہ بڑی تائید ہے۔ 

ڈاکٹر صاحب فقہی معاملات میں فروعی اختلافات کی خلیج کو پاٹنا چاہتے تھے، اسی لیے آپ نے اپنے دور میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں بڑے مفید اور اہم سیمینارز منعقد کرائے۔ بہت سے مضامین اور کتابچے بھی لکھے۔ اس حوالے سے آپ نے کاسموپولیٹن فقہ کا نیا نظریہ دیا۔ ان کی رائے یہ تھی کہ دنیا کے بدلتے حالات کے تناظر میں ایک نئی فقہ مدون کی جائے جو دنیا میں بسنے والے تمام مسلمانوں کی میراث ہو، جس پر پوری دنیا میں عمل بھی ممکن ہو۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ جدید حالات میں پوری دنیا سمٹ کر ایک ملک کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ پوری دنیا میں بسنے والے لوگوں کا باہم رابطہ انتہائی آسان بھی ہے اور انتہائی سریع بھی ہو چکا ہے۔ فاصلہ اور وقت سب کے سب سمٹ چکے ہیں۔ لہٰذا اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر علاقے کے بسنے والے مسلمان معروضی حالات کے تحت اپنے مسائل کا جائزہ لیں اور بین الاقوامی سطح پر ان کے نتائج پر غور کریں اور اس غور کے نتیجے میں درپیش مسائل کا حل تلاش کریں اور چاروں مکاتب فکر کی بنیادوں کو قائم رکھتے ہوئے ایک نئی فقہ مدون کی جائے جس پر سب کا اتفاق و اتحاد ہو۔ اس کے لیے انہوں نے عملی خاکہ بھی دیا تھا کہ ہر ملک کے علماء کا ایک بورڈ قائم کیا جائے جو اپنے ملک کے معروضی حالات کی روشنی میں پیدا ہونے والے جدید مسائل کا حل کتاب و سنت اور کتب فقہ کی مدد سے تلاش کریں اور کتاب و سنت کی روشنی میں تجاویز مرتب کریں۔ اس طرح مسلمانوں کے ستاون اسلامی ممالک کے چوٹی کے اہل علم حضرات کا مرکزی بورڈ عالمی اسلامی سطح پر قائم کیا جائے۔ تمام ممالک سے موصولہ نتائج و تجاویز اس بورڈ کے سامنے پیش کی جائیں اور ان کے فیصلوں کو قبول کر لیا جائے۔ اس طرح جدید مسائل کا حل جدید حالات کے تناظر میں تلاش کیا جاسکے گا اور دنیا کے سامنے اسلام کا رخ روشن واضح کرنے میں مدد ملے گی۔ فقہی حوالے سے ڈاکٹر صاحب کے مضامین نہایت اہم ہیں جن سے مدد لے کر جدید مسائل کو متفقہ طور پر حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ کاش اہل دانش و بینش اور علماء حضرات اس اہمیت سے واقف ہوں اور فکر کی نئی راہیں تلاش کر سکیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کی کتاب ’’محاضرات فقہ‘‘ سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔ 

سیاست کاروں کی سوچ مفادات کی اسیر ہوتی ہے ۔ مفادات بھی قومی نہیں، ذاتی۔ سیاست کار جم غفیر کا رخ دیکھ کر قبلہ متعین کرتے ہیں اور اس پیمانے کے مدنظر رخ تبدیل کرنے میں قطعاً دیر نہیں لگاتے۔ یہی پاکستان کا المیہ ہے اور اسی رویے کو عام اصطلاح میں لوٹا کریسی بھی کہا جاتا ہے۔ سیاست کار کچھ بھی کہیں ، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی نظام کو عملاً نافذ کرنے کے لیے جو مساعی پاکستان کے فوجی حکمران جنرل محمد ضیاء الحق رحمۃ اللہ علیہ نے سرانجام دیں، وہ کسی اور کا حصہ نہ بن سکیں۔ انہوں نے پاکستان میں غیر سودی معیشت کو رائج کرنے میں مثالی کام کیا۔ اس حوالے سے انہوں نے انتہائی چیدہ اور چنیدہ اہل علم سے معاونت حاصل کی، ان میں ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کا کردار انتہائی اہم ہے۔ ممکن ہے کوئی صاحب ہماری اس بات کو عقیدت پر محمول کریں ، اس لیے ہم ان کے قریبی رفیق کار ڈاکٹر انیس احمد کی گواہی ڈلوانا چاہتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

’’پاکستان میں سودی بنکاری سے نجات کے لیے جن لوگوں نے کام کیا اور خصوصاً جب معاملہ سپریم کورٹ کے اپیلٹ بنچ میں گیا اور پھر سپریم کورٹ کے فل بنچ نے اس مسئلے کا جائزہ لیا تو اس میں غازی صاحب نے نمایاں کردار ادا کیا۔ فیڈرل شریعہ کورٹ میں جس طرح ڈاکٹر فدا محمد خان صاحب نے فیصلے کی تحریر میں کردار ادا کیا، ایسے ہی سپریم کورٹ کے فیصلے میں جسٹس خلیل الرحمن صاحب اور ڈاکٹر غازی کا اہم کردار رہا۔ ۸۰ کے عشرے میں جنوبی افریقہ میں قادیانیوں کے حوالے سے عدالتی کاروائی میں پاکستان کے جن اصحابِ علم نے عدالتِ عالیہ کو اس مسئلے پر رہنمائی فراہم کی، ان میں مولانا ظفر احمد انصاری، پروفیسر خورشید احمد صاحب ، جسٹس افضل چیمہ صاحب مرحوم اور ڈاکٹر غازی کے نام قابلِ ذکر ہیں‘‘۔ 

ڈاکٹر صاحب کو فرنچ زبان پر بھی دسترس حاصل تھی۔ اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ ڈاکٹر حمید اللہ مرحومؒ نے سیرت الرسول کے موضوع پر ایک کتاب فرانسیسی زبان میں لکھی تھی جس کا انگریزی ترجمہ ایک ترک سکالر نے The Life and Time of Muhammad کے نام سے کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے ترجمہ دیکھا تو انہیں اس میں کچھ اسقام نظر آئے۔ چنانچہ آپ نے ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کی اصل کتاب جو فرانسیسی زبان میں تھی اور انگریزی ترجمہ کا باہم موازنہ کرکے ان اسقام کو دور کیا۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول انگریزی ترجمہ میں بہت سے مقامات ترجمہ سے رہ بھی گئے تھے۔ آپ نے ان حصوں کو پورا کیا۔ 

ڈاکٹر محمود احمد غازی کو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ انہوں نے بطل امت، محسن پاکستان شہید اسلام جنرل محمد ضیاء الحق کا جنازہ پڑھایا۔ ہمارے نزدیک شہید ضیاء الحق کا جنازہ پڑھانا جہاں ان کے لیے سعادت تھا، وہاں ضیاء الحق کے لیے نجات کا اور بخشش کا ذریعہ بھی ثابت ہوگا، کیونکہ دونوں شخصیات تقویٰ و طہارت میں اپنا منفرد مقام رکھتی تھیں۔ 

آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا 

شاید اس شعر کے شاعر کو مرحوم ڈاکٹر غازی سے واسطہ نہیں پڑا۔ اگر اسے ڈاکٹر صاحب سے کبھی واسطہ پڑتا تو شاید وہ یہ شعر ہرگز نہ کہتا، کیونکہ ڈاکٹر غازی مرحوم حیات دنیوی کے راستوں سے محفوظ و مامون تشریف لے گئے۔ وہ اپنی متاع حیات لٹا کر نہیں، رداے حیات کو حسنات سے مالا مال کرکے دنیا سے رخصت ہوئے۔ 

ڈاکٹر محمود احمد غازی کا تعلق ایک ایسے علمی گھرانے سے تھا جس میں بڑے قد آور علما پیدا ہوئے جو علم کے ساتھ ساتھ تصوف و سلوک کے شناور بھی تھے، جن کے نزدیک محض علم کافی نہیں، تطہیر باطن اصلاً مقصد علم تھا۔ ڈاکٹر صاحب خود بھی تصوف و سلوک کے مویدین میں سے تھے، لیکن اس کے لیے جہری سری اذکار کی بحث میں نہ پڑے بلکہ سبحوا بکرۃً وعشیَّا(۱۹:۱۱) پر عمل کرتے ۔ وہ اس بات پر بھی شاید یقین نہیں رکھتے تھے کہ یاد الٰہی کے لیے مالا و دانے دار تسبیح کا سہارا ہی لیا جائے اور اس مقصد کے لیے کسی کونے کھدرے یا زاویہ ہی کو تلاش کیا جائے، بلکہ اس کے برعکس وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ زندگی اپنی ذات میں تصوف و سلوک کا نام ہے اور زندگی اگر ہے تو اس کا ایک ایک لمحہ عبادت الٰہی و ریاضت الٰہی کے لیے صرف ہونا چاہیے۔ وہ اسی پر عمل کرتے تھے۔ ان کی سوچ ان کی فکر ان کا قلم ان کی مساعی اور دنیوی دفتری مناصب کی مصروفیات سب اسی مقصد کے حصول کے لیے تھیں۔ بقول جگر 

محو تسبیح تو سب ہیں مگر ادراک کہاں
زندگی خود ہی عبادت ہے مگر ہوش نہیں 

ڈاکٹر صاحب نے شاید زندگی کے ساٹھ بہاریں بھی پوری نہ کیں لیکن اس متاع قلیل اور حیاتِ مستعار کو ہمیشہ عبادت سمجھا اور ایک ایک لمحہ بے ہوش نہیں باہوش گزارا۔ قلم کاری کو بھی عبادت خیال کیا۔ وہ عالم باعمل تھے۔ ان کے نزدیک علم محض جانکاری کا نہیں بلکہ عملی استواری کا نام تھا۔ تطہیر باطن کے بغیر علم محض ایک خبر ہے۔ آج کسے خبر نہیں کہ جھوٹ بولنا بری بات ہے۔ بچہ بھی جانتا ہے۔ اس جاننے کے باوجود لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور بعض تو بانگ دہل یہ بھی کہتے ہیں کہ جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیں۔ یہ سب عدم تطہیر باطن کا سبب ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں:

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

محض کتابی علم تطہیر باطن نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے کسی صاحب بصیرت کی ضرور ت ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کوئی شخص مسند تدریس پر نہیں بیٹھ سکتا تھا ، خواہ اس کا علمی مرتبہ و مقام کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو ۔ محض علمی بلندی مسند تدریس کے لیے کافی نہ ہوتی تھی۔ علمی مقام و مرتبہ عموماً خود پسندی کا مرض پیدا کرتا ہے جو زوال شخصیت کا باعث ہوتا ہے۔ تطہیر باطن کے لیے کسی صاحب نظر شخصیت کی طرف میلان طبعی ضروری ہوتا ہے۔ ہمیں اس بات کا تو علم نہیں کہ تطہیر باطن کے لیے ڈاکٹر صاحب کی نسبت کہاں تھی، البتہ ہم نے دیکھا اور بارہا دیکھا کہ سفر وحضر میں ذکر اذکار سے آپ کی زبان تر رہتی اور قلبی اعتبار سے آپ خاشعین ﷲ کی تصور تھے۔ جو تطہیر باطن کا ثبوت ہے۔ تقریباً نصف صدی قبل ہم نے اپنی نسبت سلوک کے اعتبار سے مولانا عبدالقادر رائے پوری سے قائم کی، لیکن یہ زمانہ ذہنی بلوغت کا نہ تھا ۔ ہم حضرت رائے پوری کی مرجعیت سے متاثر ہوئے اور لوگوں کو لمبی چادر پکڑے بیعت ہوتے دیکھا۔ ہم بھی بیٹھ لیے اور بہت سے صحبتیں اٹھائیں۔ ان کے جنازہ میں شرکت کی سعادت بھی ملی ۔ ان کے بعد اپنا رشتہ سلوک مولانا محمد زکریاؒ سے استوار کیا۔ ان کے انتقال کے بعد ہم کٹی ہوئی ڈور تھے لیکن، خواہش پیوستگی موجود تھی۔ دل ڈاکٹر محمود احمد غازی کی طرف مائل تھا۔ میں نے جتنی مرتبہ ڈاکٹر صاحب کو قریب سے دیکھا، میرا طبعی میلان حصول تطہیر باطن کے لیے ان کی طرف راغب ہوا۔ ایک مرتبہ میں نے لیطمئن قلبی کی غرض سے عرض کی: ڈاکٹر صاحب! سلوک و تصوف پر بھی آپ کے قلم سے کچھ تحریریں معرض وجود میں آئیں؟ گویا ہوئے، میرے ذہن میں اس کا خاکہ ہے، مختلف پہلوؤں سے اس پر لکھنے کا ارادہ ہے، لیکن ارادہ کی تکمیل سے قبل مدعی اجل نے دستک دی اور ڈاکٹر صاحب لبیک کہہ گئے۔ 

ڈاکٹر صاحب اس دنیا سے دور بہت دور چلے گئے، اتنا دور کہ کوئی بھی وہاں جانے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ البتہ موت اس مکانی فاصلے کو سمیٹ دیتی ہے۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے ، اس سے مفر نہیں ۔ اس کے لیے فرشتۂ اجل کو بھی الزام نہیں دیا جاسکتا۔ وہ مالک الملک کی طرف سے اسی کام پر متعین ہے۔ وہ اپنا فریضہ اصول و ضوابط کے مطابق سرانجام دے رہا ہے۔ شکوہ میڈیا پر قابض لوگوں سے ہے جنہیں خبر ہی نہ ہو سکی کہ دنیا سے کون رخصت ہوا۔ کتنا بڑا خلا چھوڑ گیا۔ اس کی وجہ سے علمی دنیا پر کیا قیامت ٹوٹی۔ محسوس ہوتا ہے کہ میڈیا پر قابض لوگ صمٌ بکمٌ عمیٌ کی زندہ تصویریں ہیں جو پاتال سے خبریں ڈھونڈ لاتے ہیں ، جو کسی بھی مغنیہ یا مغنی کی آوازوں کے سر تال تو سنتے ہیں، ان کی باریکیوں پر پروگرام ترتیب دیتے ہیں، انہیں ڈھول کی تھاپ پر پاؤں کی جھنکار کا تو علم ہوتا ہے، لیکن ڈاکٹر محمود کی عظمتوں و رفعتوں کو ان کی آنکھ دیکھ نہیں پاتی۔ نہ ہی ان کے قلم سے لکھی تحریریں ان کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ نہ ہی انہیں اس علمی میراث کا پتہ چلتا ہے جو وہ قوم کے لوگوں کے لیے چھوڑ کر جاتے ہیں۔ انہیں وہ تاریخ بھی یاد نہیں رہتی جس تاریخ کو ان کی موت کا عظیم سانحہ بیت جاتا ہے۔ 

لَہُمْ أَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لاَّ یَسْمَعُونَ بِہَا أُوْلَءِکَ کَالأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ (۷:۱۷۹)

کان بہرے نہیں ہوتے، آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ یہ دل ہیں جو اندھے اور بہرے ہو جاتے ہیں۔ جب قومی سطح پر یہ مرض شدت اختیار کر جائے تو پھر ایسی قوموں کو فکری انتشار، کج علمی اور کج عملی سے کوئی مسیحا نجات نہیں دلا سکتا۔ میڈیا والوں کے اس رویہ پر ہم پروفیسر عنایت علی کے الفاظ میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ 

سانحے سے بڑا حادثہ یہ ہوا
کوئی ٹھہرا نہیں حادثہ دیکھ کر

شخصیات

(جنوری و فروری ۲۰۱۱ء)

جنوری و فروری ۲۰۱۱ء

جلد ۲۲ ۔ شمارہ ۱ و ۲

حرفے چند
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ حیات و خدمات کا ایک مختصر خاکہ
ادارہ

شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الرحمٰن المینویؒ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے استاذ حدیث)
مولانا حیدر علی مینوی

میری علمی اور مطالعاتی زندگی ۔ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا ایک غیر مطبوعہ انٹرویو)
عرفان احمد

بھائی جان
ڈاکٹر محمد الغزالی

بھائی محمود
مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی

ہمارے بابا
ماریہ غازی

ایک معتمد فکری راہ نما
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ایک عظیم اسکالر اور رہنما
مولانا محمد عیسٰی منصوری

ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم
محمد موسی بھٹو

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ : ایک اسم با مسمٰی
جسٹس سید افضل حیدر

ایک باکمال شخصیت
پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ - نشانِ عظمتِ ماضی
ڈاکٹر قاری محمد طاہر

مولانا ڈاکٹر محمود احمد غازی ۔ کچھ یادیں، کچھ تأثرات
مولانا مفتی محمد زاہد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند خوشگوار یادیں
محمد مشتاق احمد

معدوم قطبی تارا
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

میرے غازی صاحب
ڈاکٹر حیران خٹک

علم و تقویٰ کا پیکر
قاری خورشید احمد

میری آخری ملاقات
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر

مرد خوش خصال و خوش خو
مولانا سید حمید الرحمن شاہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ کچھ یادیں، کچھ باتیں
ڈاکٹر محمد امین

ایک بامقصد زندگی کا اختتام
خورشید احمد ندیم

اک دیا اور بجھا!
مولانا محمد ازہر

ایک معتدل شخصیت
مولانا محمد اسلم شیخوپوری

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ، ایک مشفق استاد
شاہ معین الدین ہاشمی

روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد
ڈاکٹر حافظ سید عزیز الرحمن

یاد خزانہ
ڈاکٹر عامر طاسین

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند تاثرات
محمد عمار خان ناصر

ڈاکٹر محمود احمد غازی علیہ الرحمۃ
ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان

ڈاکٹر غازیؒ ۔ چند یادداشتیں
محمد الیاس ڈار

ایک ہمہ جہت شخصیت
ضمیر اختر خان

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
محمد رشید

آفتاب علم و عمل
مولانا ڈاکٹر صالح الدین حقانی

شمع روشن بجھ گئی
مولانا سید متین احمد شاہ

علم کا آفتاب عالم تاب
ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

دگر داناے راز آید کہ ناید
حافظ ظہیر احمد ظہیر

ایک نابغہ روزگار شخصیت
سبوح سید

تواریخ وفات ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
مولانا ڈاکٹر خلیل احمد تھانوی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ تعزیتی پیغامات و تاثرات
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ فکر و نظر کے چند نمایاں پہلو
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

ڈاکٹر غازی مرحوم ۔ فکر و نظر کے چند گوشے
ڈاکٹر محمد شہباز منج

کاسموپولیٹن فقہ اور ڈاکٹر غازیؒ کے افکار
محمد سلیمان اسدی

آتشِ رفتہ کا سراغ
پروفیسر محمد اسلم اعوان

اسلام کے سیاسی اور تہذیبی تصورات ۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی کے افکار کی روشنی میں
محمد رشید

سلسلہ محاضرات: مختصر تعارف
ڈاکٹر علی اصغر شاہد

’’محاضراتِ قرآنی‘‘ پر ایک نظر
حافظ برہان الدین ربانی

ڈاکٹر غازیؒ اور ان کے محاضرات قرآن
سید علی محی الدین

’’محاضرات فقہ‘‘ ۔ ایک مطالعہ
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

محاضراتِ معیشت و تجارت کا ایک تنقیدی مطالعہ
پروفیسر میاں انعام الرحمن

تحریک سید احمد شہید رحمہ اللہ کا ایک جائزہ
ڈاکٹر محمود احمد غازی

اسلام میں تفریح کا تصور
ڈاکٹر محمود احمد غازی

اسلام اور جدید تجارت و معیشت
ڈاکٹر محمود احمد غازی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ سے ایک انٹرویو
مفتی شکیل احمد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ منتخب پیش لفظ اور تقریظات
ادارہ

مختلف اہل علم کے نام ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے چند منتخب خطوط
ڈاکٹر محمود احمد غازی

مکاتیب ڈاکٹر محمد حمیدؒ اللہ بنام ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
ادارہ

ڈاکٹر غازیؒ کے انتقال پر معاصر اہل علم کے تاثرات
ادارہ

ریجنل دعوۃ سنٹر کراچی کے زیر اہتمام تعزیتی ریفرنس
آغا عبد الصمد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں رابطۃ الادب الاسلامی کے سیمینار کی روداد
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام تعزیتی نشست
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ رسائل و جرائد کے تعزیتی شذرے
ادارہ

ایک نابغہ روزگار کی یاد میں
پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد خان

تلاش

Flag Counter