فنا ایک اٹل حقیقت اور عالمگیر صداقت ہے جس سے آج تک کوئی انکار نہیں کرسکااور موت سے کسی کو رستگاری نہیں۔ دوام اور بقا صرف خدائے برتر کے لیے ہے۔ دنیاایک ایساعالم ہے جس کی کسی بھی چیز کو دوام حاصل نہیں ہے۔ ہر چیز عدم کی طرف رواں دواں ہے۔ حرکت جمود کی طرف گامزن ہے اور زندگی موت کے بے رحم پہرے میں سفر کرتی ہے۔ ہر چیز بزبان حال یہ اعلان کرتی نظر آتی ہے کہ ہر شے کو کسی نہ کسی دن فنا ہونا ہے۔ کسی کو مہلت کم ملتی ہے تو کسی کو زیادہ۔ کامیاب وہ انسان ہے جو موت کو اپنے لیے خوشگوار مرحلہ بنالے کہ فنا بھی اس کو فنا نہ کرسکے اور اس دنیا سے جانے کے بعد بھی وہ کسی نہ کسی صورت میں موجود رہے، خواہ اپنے افکار کی صورت میں یا اپنے قلم کے ذریعے یا ایسی خدمات کے ذریعے جس سے پوری قوم مستفید ہو۔ اس بقا کی بہترین صورت ’’ علم ‘‘ ہے جس سے اہل علم کی ایسی جماعت تیار ہو جو استاد کو لازوال بنا دے۔ ایسی ہی لازوال ہستیوں میں استاذ محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ بھی تھے جو ۲۶ ستمبر۲۰۱۰ء کو بعد از نماز فجر دل کے دورے سے انتقال فرماگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل یہ کیفیت ہے کہ منطوق الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مصداق عین الیقین کے درجہ میں سامنے آ رہا ہے۔ (آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کو تنگ فرما دے گا۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا کہ تنگی سے کیا مراد ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’بقبض العلماء‘‘، وہ علمائے ربانیین کو اٹھا لے گا۔)
مئی سے ستمبر ۲۰۱۰ء کے دوران میں تھوڑے تھوڑے وقفے سے پانچ بڑے بزرگ اور جید علماے کرام دارفانی سے داربقا کی طرف رخصت ہوگئے۔ ان میں سے خواجہ خان محمد صاحب (۵؍ مئی ۲۰۱۰ء)، راولاکوٹ (آزاد کشمیر) کے خان اشرف صاحب (۱۸؍اگست۲۰۱۰ء)، ان کے بعد تھوڑے ہی عرصے میں پلندری (آزاد کشمیر) کے بزرگ مولانا محمد یوسف خان صاحب، پھر قاضی عبداللطیف صاحب آف کلاچی ، پھر وانا کی ایک بزرگ شخصیت حضرت مولانا نور محمد صاحب شامل ہیں۔ ان مذکورہ جبال العلم کے فراق سے بندہ کے دل کے زخم ابھی مندمل نہیں ہو ئے تھے کہ ا یک اور جگر خراش اور جانکاہ اطلاع ملی کہ استاذ محترم ڈاکٹر محمود احمدغازی نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا ہے۔
یہ ۲۰۰۳ء کی بات ہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی صاحبؒ کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سے بحیثیت مہمان خصوصی ایم فل علوم اسلامیہ کے اسکالرز سے خطاب کرنے کے لیے زحمت دی گئی تھی۔ آپ کے لیکچر کا عنوان تھا: ’’مشرقی اور مغربی علوم کا تقا بلی اور تنقیدی جائزہ‘‘۔آپ کے لیکچر سے پہلے استاذ محترم ڈاکٹر محمد ضیاء الحق نے فرمایا کہ کیا آپ ڈاکٹر صاحب کو جانتے ہیں؟ بس ہماری بڑی خوش قسمتی ہے کہ آج ڈاکٹر صاحب جیسی شخصیت ہمارے درمیان میں موجود ہے جن کا ہر بیان ایک تحقیقی مقالے سے کم نہیں ہوا کرتا۔ آپ توجہ اور دھیان سے ان کا لیکچر سنیں گے اور مجھے امید واثق ہے کہ ان کا یہ لیکچر آپ کے لیے تحقیقی مراحل میں تازیانہ اور مہمیز کا کام دے گا۔ دو گھنٹوں پر مشتمل ڈاکٹر صاحب کے لیکچر نے آپ کو ہزار گنا زیادہ ارفع ثابت کر دیا۔
اس ورکشاپ کے ایک مہینہ بعد یونیورسٹی نے ڈاکٹر محمد حمید اللہ کانفرنس منعقد کی جس میں بطور مہمان خصوصی آپ کو بلایا گیا۔ آپ نے اپنے استاذ محترم ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی آرا وافکار اور خدمات کو جس انداز سے پیش کیا، وہ اپنی مثال آپ تھا۔ چائے کے وقفہ میں استاذ محترم ڈاکٹر محمد ضیاء الحق صاحب میرا ہاتھ پکڑ کر ڈاکٹر صاحب سے مخاطب ہوئے اور کہا کہ ’’یہ حقانی صاحب ہیں، ایک ممتاز عالم دین مولانا محمد کامل شاہ صاحب کے فرزند ارجمند اور ان کے علمی ورثے کے امین ہیں۔ ہمارے ساتھ ایم فل (علوم اسلامیہ) کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ’’بسطۃ فی العلم والجسم‘‘ کے صحیح مصداق ہیں۔ ان کو دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے‘‘۔ اس پر ڈاکٹر صاحب فرمانے لگے: ’’ہمیں تو ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے اور یہی ہمارا اصل سرمایہ اور امت کی راہنمائی کی اہلیت رکھنے والے چند گنے چنے افراد ہیں‘‘۔ پھر فرمایا: حقانی صاحب! کبھی یونیورسٹی تشریف لائیں تاکہ تفصیلی نشست کی جائے۔ آپ کی اعلیٰ ظرفی دیکھ کر دل بے اختیار کہنے لگا:
کہاں میں اور کہاں نکہت گل
نسیم صبح، تیری مہربانی
ایک ہفتہ کے بعد میں یونیورسٹی حاضر ہوا۔ سلام کے بعد آپ فرمانے لگے، حقانی صاحب! بڑی خوشی ہوئی کہ آپ سے ملاقات ہو ئی، کیسے تشریف لائے؟ میں نے کہا کہ ایک نشست کے لیے وقت چاہیے۔ فرمانے لگے: Most Welcome۔ کل تو میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان جارہاہوں، لہٰذا پرسوں مغرب کے بعد تشریف لے آئیں۔ حسب ارشاد میں پندرہ منٹ پہلے پہنچ گیا۔ آپ انتظار فرمارہے تھے۔ بڑے مشفقانہ انداز سے گلے ملے اور ایسا پیار دیا جیسے ایک مشفق باپ دیتا ہے۔ ہماری ون ٹوون پروقار مجلس شروع ہو ئی۔ عصر حاضر کے چیلنجز سے نمٹنے کی بابت جب میں نے ایک سوال کیا تو اس پر ڈاکٹر صاحب نے ایک تفصیلی خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد مزید فرمایا:
’’ حقانی صاحب! سچی بات یہ ہے کہ دور جدید ایک پیچیدہ دور ہے۔ اس دور کے ارادے، تصورات اور اس دور کے معاملات اتنے پیچیدہ ہیں کہ اس کے لیے بڑی خصوصی مہارتیں درکار ہیں۔ اس وقت پاکستان میں مثلاً ’’بلاسود بینکاری‘‘ کا ایک بڑا چیلنج درپیش ہے، لیکن پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جو شریعت کا بھی عمیق علم رکھتے ہوں اور جدید بینکاری کے تقاضوں کو مکمل طور پر سمجھتے ہوں، اس طرح کہ دنیا بھر کی سطح پر بینکاروں سے مقابلہ کرسکیں؟ تو کیا یہ ہم پر فرض کفایہ نہیں ہے کہ ہم شریعت کے ایسے مایہ ناز اور اصحاب بصیرت ماہرین پیدا کریں جو دینی ماحول، دینی تربیت اور دینی ذوق ومزاج کے ساتھ ساتھ دور جدید کے معیار کی فنی مہارت رکھتے ہوں؟‘‘
استدلال کے طور پر آپ نے دو واقعات سنائے۔ فرمایا: حقانی صاحب! امام احمد بن حنبل ؒ جیسا متبع سنت اور فقیہ ان کے دور میں کوئی نہیں گزرا ۔ ان سے کسی نے مشورہ کیا کہ فلاں جگہ جہاد کا معاملہ درپیش ہے۔ مختلف علاقوں سے افواج، رضاکاروں اور مجاہدین کے دستے جارہے ہیں۔ ایک فوجی کمانڈر کی سربراہی میں ایک بڑا دستہ تیار ہو رہا ہے۔ وہ کمانڈر بڑا متقی اور پرہیزگار ہے، بڑا نمازی اور شب زندہ دار ہے، لیکن سیاسی وعسکری معاملات میں خاص ماہر نہیں ہے۔ البتہ ایک دوسرا شخص ہے جو زیادہ دیندار اور نیک تو نہیں ہے، لیکن اس کی عسکری مہارت بڑی مسلم ہے تو فرمائیے کہ ہمیں کس کے ساتھ جانا چاہیے؟ امام احمد بن حنبل ؒ نے فرمایا: جو شخص نیک ومتقی ہے، لیکن عسکری مہارت میں کم درجہ رکھتا ہے، اس کی نیکی وتقویٰ کا فائدہ اس کی ذات کو ہوگا اور اس کی عسکری عدم مہارت کا نقصان پوری قوم اور اسلامی فوج کو ہوگا۔ جو شخص زیادہ نیک نہیں ہے، اس کی نیکی کی کمی کا جو نقصان ہے، وہ تو صرف اس کی ذات کو ہوگا، لیکن اس کی عسکری ’’مہارت‘‘ کا فائدہ پوری مسلم امہ کو ہوگا‘‘۔
مزید فرمایا: بڑی خوشی ہوئی کہ آپ درس نظامی، حفظ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ سائنس گریجویٹ بھی ہیں، کیونکہ آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایسے اہل علم جو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیوی تعلیم بھی رکھتے ہوں، ان کی بات کا غیر معمولی اثر ہوتا ہے اور جو دورجدید کے محاورے میں اپنی بات کو بیان نہیں کر پاتے، ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس صورت حال پر یہ کہنا کہ ’’ہمیں کوئی ضرورت نہیں کسی کو سمجھانے کی، جس کو سمجھنا ہو خود ہمارے پاس آئے اور ہمارا محاورہ اور اسلوب سیکھ کر آئے‘‘ مجھے اس بات سے ہرگز اتفاق نہیں۔ اسلام پر کسی فرد یا مخصوص طبقے کی اجارہ داری نہیں ہے۔ یہ تمام نسلوں، زمانوں اور قوموں کے لیے ہے، اس لیے اس کے پھیلاؤ کی راہ میں جو بھی جس انداز سے رکاوٹ بنے گا، اسے اپنا انجام یوم آخرت کو پیش نظر رکھ کر سوچ لینا چاہیے۔
اپنے ایم فل کے مقالے کے سلسلے میں موضوع کی بابت رہنمائی چاہی تو بڑی قیمتی آرا سے مستفید فرمایا، خصوصاً اپنے استاذ محترم کے نام سے موسوم ڈاکٹر محمد حمید اللہ لائبریری (فیصل مسجد، اسلام آباد) سے استفادے کی ترغیب دی۔ آپ کے ساتھ اس تفصیلی نشست نے میرے لیے مہمیز کا کام دیا اور میں نے بجائے ایک سال کے صرف دس مہینے میں عربی زبان میں ۳۰۸ صفحات پر مشتمل اپنا ایم فل کا مقالہ بعنوان ’’الامام زفر وآراؤہ الفقہیۃ: دراسۃ و نقدا‘‘ پیش کرکے ایم فل کی ڈگری حاصل کرلی۔ استاذ محترم کے ساتھ یہ میری پہلی اور آخری نشست تھی۔ اس کے بعد سیمینارز اور کانفرنسوں میں ملاقات اور اسی طرح بذریعہ فون سلام دعا ہوتی رہتی تھی۔
امسال عیدالفطر کے موقع پر میں نے گزارش کی کہ حضرت! آپ نے ہماری خانقاہ کو رونق بخشنے کا کافی عرصے سے جووعدہ فرما رکھا ہے، کیا میں اس کا خیال ذہن سے نکال دو ں؟ آپ نے فرمایا کہ صالح الدین! اگر زندگی نے وفا کی اور داعئ اجل نے تھوڑی مزید مہلت دی تو میرا ایک پروگرام اکتوبر کے پہلے ہفتے میں الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں اپنے بھائی (مولانا زاہد الرشدی) کے ساتھ طے ہوا ہے۔ ان شاء اللہ سیمینار سے فراغت کے بعد یا اس سے پہلے آؤں گا، لیکن بفحوائے ’’تدبیر کند بندہ ، تقدیر زند خندہ‘‘ ۲۶ ؍ستمبر ۲۰۱۰ء کو بعد از نماز فجر جان، جان آفریں کے سپرد کر دی اور عمر بھر کا تھکا مسافر جو شاید ہی کبھی اطمینان کی نیند سویا ہو، منزل پر پہنچ کر میٹھی نیند سوگیا، لیکن ان کی یادیں، ان کی علمی خدمات اور ان کے شذرات قلم سے مستفیدین کا ایک نہ ختم ہو نے والا سلسلہ انھیں صدیوں زندہ رکھے گا۔
وقت ایک ایسی دولت ہے جو شاہ وگدا، امیر وغریب، چھوٹے اور بڑے، طاقتور اور کمزور سب کو یکساں ملتی ہے۔ اس کے صحیح استعمال سے ایک وحشی مہذب جبکہ ایک مہذب انسان فرشتہ سیرت بن سکتا ہے۔ اس کی بدولت ایک جاہل، عالم اور ایک نادان، دانا بن سکتا ہے، اس لیے مشہور ہے کہ جو شخص وقت کی قدرکرتا ہے، وہ زمانے میں قیادت وسیادت سنبھال سکتا ہے۔ استاذ محترم کو وقت کی قدر دانی کا عظیم وصف ورثہ میں ملا تھا۔ آپ نے اپنی زندگی کا ایسا نظام الاوقات بنایا ہوا تھا کہ جس میں وقت کا ایک ایک لمحہ تلاش علم، اسلام کی نشرواشاعت، دعوت وتبلیغ، تقریر وتحریراور عمیق ودقیق مسائل کے حل میں گزرتا تھا، یہاں تک کہ دوران سفر بھی تصنیف وتالیف کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خداے بخشندہ
استاذ محترم کی علمی اور دینی خدمات کا دائرہ بہت وسیع وعریض تھا۔ دورِ جدید کے فکری وتہذیبی مزاج اور نفسیات سے آپ پوری طرح آگاہ تھے اور بالخصوص آج کے دور میں اسلام اور مسلمانوں کو فکر وفلسفہ، تہذیب ومعاشرت ، علم وتحقیق اور نظام وقانون کے دائروں میں جن مسائل کا سامنا ہے ، آپ انتہائی وسعت نظر، گہرائی اور بصیرت کے ساتھ ان کا تجزیہ کرسکتے تھے۔ اسی طرح آپ کی عملی خدمات کا دائرہ بھی مختلف شعبوں میں پھیلا ہوا تھا اور آپ نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، ادارۂ تحقیقات اسلامی اور اسلامی نظریاتی کونسل جیسے اداروں کے ساتھ ساتھ بیرون ملک کی اعلیٰ جامعات کو بھی اپنے علم وفضل سے سیراب کیا، جبکہ وفات کے وقت آپ وفاقی شرعی عدالت کے جج کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ اس قدر اسفار ، کثرت مشاغل اور مختلف اداروں کی ذمہ داریوں کے باوجود آپ نے مختلف موضوعات پر بڑی مفید کتابیں بھی تصنیف فرمائیں۔
محاضرات کے عنوان سے آپ نے قرآن، حدیث، فقہ اور سیرت پر مفصل خطبات دیے۔ یہ خطبات مختصر نوٹس کی مدد سے زبانی دیے گئے تھے جن کو بعد میں محترمہ عذرا نسیم فاروقی نے صوتی مسجل (Tape recorder) سے صفحہ قرطاس پر منتقل کیا۔ ان خطبات کے انداز بیان میں اگرچہ بنیادی طور پر علما اورمحققین کو سامنے نہیں رکھا گیا، لیکن پھر بھی علما اور محققین کے ہاں ان محاضرات کو بے حد پذیرائی ملی ہے۔ بے اختیار یہ کہنا پڑتا ہے کہ استاذ محترم قدیم وجدید دینی اور دنیوی علوم کے ایسے سنگم بن گئے تھے جس میں مختلف علوم وفنون کی حسین لہریں جمع تھیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ ایسی باکمال وبے مثال، باوقار وبامراد شخصیت کے حالات زندگی کو چند صفحات میں بیان کرنا جوے شیر لانے کے مترادف ہے اور پھر مجھ جیسا طفل مکتب آپ کے اخلاق وآداب، کمالات وامتیازات کو کیسے بیان کر سکتا ہے جس کی نہ عقل کی اتنی پرواز کہ استاذ محترم کی بلندیوں کو چھوسکے، نہ قلب میں اتنی سکت کہ وہ آپ کی اداؤں کا ادراک کرسکے، نہ فکر میں اتنی بلندی کہ وہ آپ کے مزاج ومزاق کو پہچان سکے، نہ طبیعت میں وہ جولانی کہ وہ آپ کے مقام کو جانچ سکے اور نہ قلم میں اتنی روانی کہ وہ آپ کی اداؤں کو بیان کرسکے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ استاذ محترم کے پس ماندگان اور ان کے جانشینوں کو ان کے قدم پر چلائے اور ان کو اپنی شایان شان اعلیٰ مقام نصیب فرمائے ۔ آمین