ڈاکٹر محمود احمد غازی کے ساتھ میری پہلی ملاقات مئی ۱۹۸۳ ء میں ہوئی۔ ان دنوں کراچی جاتے ہوئے تین چار دن کے لیے اسلام آباد میں قیام کا موقع ملا۔ میری خواہش تھی کہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی جا کر ایل ایل ایم (شریعہ) کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کی جائیں۔ اس پروگرام کے بارے میں دینی جامعات کے طلبہ کے ہاں تذکرہ رہتا تھا اور مجھے ذاتی طور پر کئی اساتذہ نے اس میں داخلہ لینے کی ترغیب دی تھی۔ میں اپنے ایک عزیز کے ہمراہ جب فیصل مسجد پہنچا تو مین گیٹ کے سامنے استقبالیہ پر ایک ایسے صاحب سے ملاقات ہوئی جس کا تعلق اسلام آباد میں واقع ایک دینی مدرسے سے تھا۔ وہ دن کے وقت ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی میں ملازمت کرتا تھا اور چھٹی کے بعد دینی مدرسہ کی خدمت کرتا تھا۔ اُس نے پوری توجہ کے ساتھ میری بات سنی اور کہنے لگا:
’’میں آپ کی ملاقات ایسے اساتذہ سے کرا دیتا ہوں جو ایل ایل ایم (شریعہ) کے طلبہ کو پڑھاتے ہیں اور اس پروگرام کے بارے میں خوب جانتے ہیں، آپ اُن سے مشورہ کر لیں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ مجھے ڈاکٹر احمد حسن کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر احمد حسن صاحب کی ٹیبل کتابوں سے بھری ہوئی تھی۔ میں اُن کے سامنے بیٹھ گیا ، اپنا تعارف کرایا اور جب انہیں یہ بتایا کہ میں مجلس تحفظ ختم نبوت کا مبلغ ہوں تو ڈاکٹر صاحب نے بڑی پذیرائی فرمائی۔ ڈاکٹر صاحب سے اجازت لینے کے بعد ہم باہر نکلے اور بائیں طرف آگے بڑھے تو ایک کمرے کے باہر ’’محمود احمد غازی‘‘ کے نام کی تختی لٹک رہی تھی۔ میرے ساتھی نے کہا، یہ صاحب آپ کو بہت اچھا مشورہ دیں گے، آپ ان سے تفصیل کے ساتھ بات کریں۔ ہم نے دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر داخل ہو گئے۔ غازی صاحب کی ٹیبل پر مسودات کے ڈھیرتھے۔ پوچھنے لگے : آپ کیسے آئے، کہاں سے آئے؟ میں نے اپنا مدعا بتایا۔ میں نے کہا کہ:
’’ میرا تعلق نیو ٹاؤن سے ہے اور میں ہفت روزہ ’’ختم نبوت‘‘ کا منیجنگ ایڈیٹر ہوں‘‘۔
کہنے لگے :
’’ میں بہت اہتمام کے ساتھ ہفت روزہ ’’ختم نبوت‘‘ پڑھتا ہوں۔ آپ کے اداریے، مضامین اور نظمیں بھی پڑھتا ہوں۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ سے براہِ راست ملاقات ہوئی‘‘۔
میں نے عرض کیا:
’’ایل ایل ایم (شریعہ) میں داخلہ کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟‘‘
کہنے لگے :
’’آپ کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ اشتہار آئے تو درخواست دے دیں۔ داخلہ ہو جائے گا۔‘‘
۱۹۸۳ء کے اواخر میں مجھے کراچی سے شفٹ ہو کر اسلام آباد آنا ہوا۔ اُس سال وفاق المدارس نے سولہ سالہ نصاب مرتب کر کے دینی جامعات کے مہتمم حضرات کو ہدایت کی تھی کہ اس کے مطابق اپنے اپنے مدارس میں پڑھائی کا انتظام کریں۔ اس نصاب پر تفصیلی گفتگو کرنے کے لیے مولانا عبد الحکیم رحمہ اللہ نے جامعہ فرقانیہ راولپنڈی میں اجلاس طلب کیا۔ اس اجلاس میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے دینی مدارس کے تمام مہمتمین اور سینئر اساتذہ نے شرکت کی جن میں حاجی اختر حسن (مرحوم) بانئ و مہتمم جامعہ فریدیہ اسلام آباد بہت نمایاں تھے۔ مولانا عبد الحکیم رحمہ اللہ اور قاری سعید الرحمن انہیں بہت پروٹوکول دے رہے تھے۔ میں نے حاجی صاحب سے ملاقات کی تو مولانا عبد الحکیم نے ازراہِ شفقت حاجی صاحب کے سامنے میری تعریف کی اور فرمایا کہ چشتی صاحب فاضل وفاق بھی ہیں اور لاء گریجویٹ بھی ہیں۔ حسنِ اتفاق سے حاجی صاحب کو جامعہ فریدیہ میں صدر مدرس کی پوزیشن کے لیے ایک ایسے استاذ کی تلاش تھی جس کا تعلق علوم دینیہ کے ساتھ ساتھ علوم عصریہ سے بھی ہو۔ اس ضمن میں میرا تذکرہ مولانا ظہور احمد علوی صاحب بھی حاجی صاحب سے کر چکے تھے۔ حاجی صاحب نے اس بارے میں سیٹھ ہارون جعفر صاحب (مرحوم) سرپرست جامعہ فریدیہ سے کہا۔ سیٹھ صاحب مجھے پیر طفیل احمد فاروقی رحمہ اللہ کی وجہ سے جانتے تھے۔ اللہ جل شانہ نے ایسے اسباب پیدا فرمائے کہ مئی ۱۹۸۴ء میں، میں نے جامعہ فریدیہ میں اپنے فرائض سنبھالے۔
جامعہ فریدیہ چونکہ فیصل مسجد کے قریب واقع ہے، اس لیے فیصل مسجد آنے جانے کے مواقع بڑی سہولت کے ساتھ میسر آئے۔ جامعہ فریدیہ میں قیام کے دوران میں جب بھی ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی کی لائبریری میں جاتا تھا تو اکثر و بیشتر غازی صاحب سے ملاقات ہو جاتی تھی۔ ایک سال جامعہ فریدیہ کے ساتھ منسلک رہنے کے بعد جون ۱۹۸۵ء میں مجھے دعوۃ اکیڈمی میں بطور لیکچرر کام کرنے کا موقع ملا۔ دعوۃ اکیڈمی جس کا اساسی نام اکیڈمی برائے تربیت ائمہ (Academy for training of Imams) تھا اور بنیادی طور پر ائمہ مساجد اور خطبا و اساتذہ کی تربیت کے لیے اس کا قیام عمل میں آیا تھا، اس میں تربیت ائمہ کا پہلا پروگرام ۱۹۸۵ء کے اواخر میں شروع ہوا۔ اس پروگرام کی تخطیط میں غازی صاحب نے بھرپور حصہ لیا اور جب ہم نے کورسز کی تقسیم کی تو غازی صاحب نے اسلام کے سیاسی نظام کے موضوع پر لیکچرز دینے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ شروع شروع میں غازی صاحب ہفتہ میں صرف ایک لیکچر کے لیے تشریف لاتے تھے، لیکن پھر ان کی دلچسپی بڑھی اور انہوں نے ہفتہ میں دو لیکچرز لے لیے۔ یہ وہ دَور ہے جس میں غازی صاحب کے ساتھ ہماری بہت frankness پیدا ہو گئی۔ میں ان دنوں صبح کے وقت لال کڑتی چوک سے بہت سپیشل پان بنوا کر لاتا تھا۔ غازی صاحب لیکچر سے فارغ ہو کر آتے تھے تو ہم چائے پیتے تھے، پان کھاتے تھے اور بہت کھل کر گفتگو ہوتی تھی۔ دعوۃ اکیڈمی کے رفقا سب جمع ہوتے تھے اور بلا تکلف بات چیت ہوتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ بعض مرتبہ موسم سرما میں پرنس بیکرز کراچی کمپنی کے سامنے کرسیاں لگا کر ہم بیٹھتے تھے اور بہت light mood میں غازی صاحب کے ساتھ سلسلۂ کلام چلتا رہتا تھا۔ غازی صاحب جب تک ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی میں رہے ، آپ کا مزاج خالص علمی رہا۔ علمی گفتگو کرتے ہوئے آپ کو وقت کی فکر نہیں رہتی تھی۔ گھنٹہ کے بجائے ڈیڑھ اور کبھی دو گھنٹے شرکاے کورس کے ساتھ سوال و جواب میں گذار دیتے تھے۔
۱۹۸۸ ء کے وسط میں دعوۃ اکیڈمی کے انتظامی معاملات نشیب و فراز کا شکار ہوئے اور بعض ایسے ناخوشگوار واقعات رونما ہوئے جن کی وجہ سے اکیڈمی کے تقریباً تمام رفقا بری طرح متأثر ہوئے ۔ ان حالات کے نتیجہ میں یونیورسٹی کی اعلیٰ انتظامیہ نے محمود احمد غازی کو دعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل کے منصب کے لیے منتخب کر لیا۔ وہ منظر اب تک میری نظروں کے سامنے ہے جب غازی صاحب اپنا منصب سنبھالنے کے لیے کراچی کمپنی میں واقع دعوۃ اکیڈمی کے دفتر میں تشریف لائے۔ ہم نے مین گیٹ سے باہر آ کر آپ کا استقبال کیا۔ پھر آڈیٹوریم ان کے ساتھ گئے۔ اس موقع پر آپ نے دعوۃ اکیڈمی کے رفقا کے سامنے بہت مختصر سا خطاب کیا ۔ پھر ہمیں اپنے ساتھ مدیر عام کے دفتر میں لے آئے اور اکیڈمی کے مختلف شعبوں کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا۔
ڈاکٹر غازی صاحب کی قیادت میں دعوۃ اکیڈمی نے بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی۔ قسم قسم کے تربیتی پروگرام شروع ہوئے۔ آرمی آفیسرز کے لیے تربیتی پروگرام ترتیب دیا گیا۔ اساتذہ اور اُدبا کے لیے ورکشاپ کا سلسلہ شروع ہوا۔ بچوں کے ادب کا شعبہ قائم ہوا۔ خط و کتابت کورسز کے ضمن میں مطالعہ تفسیر، مطالعہ حدیث اور مطالعہ اسلام کے عنوان سے پروگراموں کا آغاز ہوا۔ ان کورسز کی سالانہ enrollment پینتالیس پچاس ہزار کے لگ بھگ ہوتی تھی۔ ان بہت سارے پروگراموں کے علاوہ دوپروگرام ایسے شروع ہوئے جو میری براہِ راست دلچسپی کے تھے جن کی تحریک میں نے پیش کی اور غازی صاحب نے انہیں سراہتے ہوئے مجھے ان کی تخطیط کی ہدایت کی۔ ایک بین الاقوامی تربیت ائمہ کورس جس میں زیادہ تر وسط ایشیا کی ریاستوں کے ائمہ مساجد اور خطبا شریک ہوتے رہے۔ بعد میں اس کا دائرہ پھیلا اور کئی ممالک مثلاً سری لنکا، فجی، نیپال، تھائی لینڈ، سنکیانگ اور برما کے ائمہ بھی اس پروگرام سے مستفید ہوتے رہے۔ یہ دعوۃ اکیڈمی کا ایک منفرد پروگرام تھا جس میں غازی صاحب بہت دلچسپی لیتے تھے۔ ڈاکٹر حسین حامد حسان، ڈاکٹر احمد العسّال (مرحوم) اور ڈاکٹر طیب زین العابدین جیسے اساتذہ اس کورس کے شرکا کو لیکچر دینے کے لیے آتے تھے اور بہت خوشی محسوس کرتے تھے۔ دوسرا کورس مطالعۂ قادیانیت کے عنوان سے ان ائمہ اور خطبا کے لیے ترتیب دیا گیا جنہوں نے دعوۃ اکیڈمی سے تربیت ائمہ کا عمومی کورس کر لیا ہو۔ قادیانیت کے موضوع پر چونکہ غازی صاحب نے بھرپور مطالعہ کیا ہوا تھا اور آپ اس موضوع کی اہمیت سے واقف تھے، اس لیے آپ نے اس پروگرام میں بھی بہت دلچسپی لی۔ غازی صاحب نے مجھے ایک بار نہیں، کئی بار اس بات کی ترغیب دی کہ ’’ قادیانیت کا علمی محاسبہ‘‘ کی تعریب کا اہتمام کیا جائے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ :
’’ جوشخص اس کتاب کو عربی زبان کے قالب میں ڈھال لے گا، میں اُس کو جنت کی ضمانت دینے کے لیے تیار ہوں۔ مقصد یہ کہ ایسے شخص کے جنتی ہونے میں کم از کم مجھے کوئی شک نہیں ہے۔‘‘
مطالعۂ قادیانیت کے اس کورس کو بڑی پذیرائی ملی اور یہ تسلسل کے ساتھ چلتا رہا، لیکن ۱۹۹۹ء میں جب میں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی جائن کی تو یہ پروگرام بند ہو گیا۔ بین الاقوامی تربیت ائمہ کا کورس بھی بعد میں بحران کا شکار ہو گیا۔ دعوۃ اکیڈمی میں ڈاکٹر غازی صاحب بطور ڈائریکٹر جنرل ۱۹۸۸ء میں آئے تھے اور ۱۹۹۴ء تک اس منصب پر فائز رہے۔ اس سات سال کے عرصہ میں ہمیں براہِ راست ان کی قیادت میں کام کرنے کا موقع ملا اور ان سے بھرپور استفادہ کے مواقع میسر آتے رہے۔ عام طور سے جامعات کے اساتذہ کا اختصاص کسی ایک مجال (field) میں ہوتا ہے اور وہ اُسی مجال میں گفتگو کرتے ہیں، لیکن غاز ی صاحب کا معاملہ اس اعتبار سے بالکل مختلف تھا۔ آپ تفسیر، حدیث، سیرت، فقہ، کلام، ادب اور تاریخ کے ادق موضوعات پر فی البدیہ گفتگو کرتے تھے اور یوں لگتا تھا جیسے آپ نے اس موضوع پر بولنے کے لیے بہت تفصیل کے ساتھ تیاری کی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنا قوی حافظہ دیا تھا کہ اس کا تصور معاصر علما میں نہیں کیا جا سکتا۔
نومبر ۲۰۰۵ء کی بات ہے، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبۂ اقبالیات اور کلیہ علوم اسلامیہ نے علامہ اقبال کے یوم ولادت کی مناسبت سے ایک سیمینار منعقد کیا۔ اس سیمینار میں مختلف جامعات کے معروف و مشہور اقبال شناس جمع تھے۔ ڈاکٹر غازی صاحب نے علامہ اقبال اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر گفتگو شروع کی۔ مسلسل دو گھنٹے آپ بولتے رہے۔ رقت اور جذبات کی ایسی فضا قائم ہوئی کہ حاضرین کے رخساروں پر بلااختیار آنسو بہتے رہے۔ ڈاکٹر الطاف حسین (وائس چانسلر ) جو سیمینار کی صدارت کر رہے تھے، جب صدارتی خطبہ کے لیے اُٹھے تو صدارتی کلمات کہنے کے لیے آمادہ نہ ہو سکے۔ اُس دن غازی صاحب خود بھی اپنے قابو میں نہیں تھے۔ آپ کا ایک ایک لفظ آپ کے دل کی گہرائیوں سے نکل رہا تھا اور سامعین کے دل و دماغ کو گرما رہا تھا۔
عام طور پر ہمارے ہاں جو اساتذہ تقریر کے ماہر ہوتے ہیں، ان کی تحریر اچھی نہیں ہوتی اور جن کی تحریر اچھی ہوتی ہے، وہ تقریر میں کمزور ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر غازی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بہ یک وقت جہاں تحریر کا بہت قوی ملکہ عطا فرمایا تھا، وہاں تقریر کی بہت عمدہ صلاحیت عطا فرمائی تھی۔ آپ اُردو، عربی اور انگریزی تینوں زبانوں میں پوری مہارت کے ساتھ بول بھی سکتے تھے اور لکھ بھی سکتے تھے۔ ایک ہی نشست میں جب عربی بولتے تھے تو یوں لگتا تھا کہ آپ عربی زبان کے ماہر ہیں اور جب انگریزی بولتے تھے تو یوں لگتا تھا کہ آپ انگریزی کے استاد ہیں۔ اُردو تو خیر آپ کی مادری زبان تھی۔ فارسی بہت شستہ بولتے تھے اور فرنچ کے ساتھ بھی بہت حد تک مناسبت رکھتے تھے۔
۲۰۰۱ء میں جب غازی صاحب وفاقی وزیر مذہبی اُمور کے منصب پر فائز تھے تو تعلیم الاسلام کالج کراچی کی انتظامیہ نے اپنی پچاس سالہ تقریبات کا اہتمام کیا۔ تعلیم الاسلام کے موجودہ ریذیڈنٹ ڈائریکٹر جناب عبد الباقی فاروقی صاحب میرے پاس آئے اور ڈاکٹر غازی صاحب کوافتتاحی تقریب میں مہمانِ خصوصی کے طور پر دعوت دینے کا عندیہ ظاہر کیا۔ وہ فکر مند تھے کہ غازی صاحب اپنی مصروفیات سے وقت نکال سکیں گے یا نہیں اور کراچی جانے پر آمادہ ہوں گے یا نہیں۔ بہرحال ہم دونوں غازی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہیں تعلیم الاسلام کالج کی خدمات پر بریفنگ دی اور تقریبات میں شرکت کی دعوت دی۔ غازی صاحب کہنے لگے :
’’ میں تعلیم الاسلام کے بانی پیر طفیل احمد فاروقی رحمہ اللہ کے بارے میں جانتا ہوں۔ وہ اس دَور کے کبار اصحاب بصیرت میں سے تھے۔ میں ان شاء اللہ ضرور حاضر ہوں گا۔‘‘
پھر اپنی مصروفیات کو دیکھتے ہوئے ہمیں تاریخ دے دی۔ افتتاحی تقریب کے موقع پر ڈاکٹر غازی صاحب نے انتہائی مؤثر انداز میں خطاب کیا۔ کراچی کے تمام دینی جامعات کے مہتممین اور اساتذہ کا جم غفیر تھا۔ غازی صاحب نے فرداً فرداً سب سے ملاقات کی۔ اس موقع پر آپ نے اس منصوبہ کا اظہار بھی کیا جو دینی مدارس اور جامعات کے ضمن میں آپ کے ذہن میں تھا۔
کلیہ عربی و علوم اسلامیہ، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کو آغاز سے ڈاکٹر غازی صاحب کی سرپرستی حاصل رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جب کلیہ عربی و علوم اسلامیہ کے نوتعمیر کردہ بلاک (شاہ ولی اللہ بلاک) کے افتتاح کا مرحلہ آیا تو آپ کو بلایا گیا۔ غازی صاحب نے بلاک کا افتتاح کیا اور تقریب سے خطاب کیا۔ ۲۰۰۰ء سے لے کر اب تک مجھے یاد نہیں کہ ہم نے آپ کو اپنے کسی پروگرام، ورکشاپ، سیمینار، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے زبانی امتحان کے لیے بلایا ہواور آپ نے انکار کیا ہو۔ کلیہ عربی و علوم اسلامیہ کے بہت سے اسکالرز نے آپ کی نگرانی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات مرتب کیے۔ طلبہ کے ساتھ آپ کا رویہ غیر معمولی، نرم اور ہمدردانہ ہوتا تھا اور ہمیں بعض مرتبہ اس بات پر حیرت ہوتی تھی کہ غازی صاحب اس حد تک نرم رویہ کیوں رکھتے ہیں۔ آپ فرماتے تھے کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے سے کوئی عالم یا علامہ نہیں بنتا، بس اتنا ہو جاتا ہے کہ پڑھنے لکھنے سے مناسبت پیدا ہو جاتی ہے، اس لیے اس سطح کے طلبہ کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ پڑھنے اور لکھنے کی طرف آئیں تا کہ ان میں قلم کے استعمال کا ملکہ پیدا ہو۔
اپریل ۲۰۱۰ء میں ہمارے ہاں پی ایچ ڈی کے اسکالرز کی ورکشاپ ہو رہی تھی۔ اس ورکشاپ کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ طلبہ اپنے اپنے موضوع کا تعین کریں اور خاکہ ہاے تحقیق تیار کر لیں تا کہ انہیں بورڈ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز اینڈ ریسرچ کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ ڈاکٹر غازی صاحب کو اس ورکشاپ میں لیکچرز دینے کے لیے دعوت دی گئی۔ آپ کا لیکچر چار بجے رکھا گیا تھا، لیکن آپ اڑھائی بجے تشریف لے آئے۔ میرے آفس میں بیٹھ گئے اور خوب گپ شپ لگاتے رہے۔ دوسرے دن آپ کا لیکچر مغرب کے بعد تھا، لیکن آپ عصر کے وقت تشریف لے آئے اور عشا تک ہمارے ساتھ رہے۔ غازی صاحب کے رویے میں اب غیر معمولی وسعت پیدا ہو گئی تھی۔ آپ کی خواہش ہوتی تھی کہ طلبہ آپ سے سوال کریں اور آپ پوری تفصیل کے ساتھ اس کا جواب دیں۔ جواب دینے میں اب آپ کے ہاں بخل کا شائبہ تک نظر نہیں آتا تھا۔
ڈاکٹر غازی صاحب کے ساتھ میری ملاقات سینکڑوں نہیں، ہزاروں مرتبہ ہوئی ۔ ہم نے اُن سے بہت کچھ سیکھا۔ میرے ایم فل کے مقالہ پر آپ نے رپورٹ لکھی اور بہت خوبصورت رپورٹ لکھی۔ جس دن میرے ایم فل کا زبانی امتحان تھا، اُس دن اتفاق سے آپ کو غلام اسحاق خان (مرحوم) نے ایوانِ صدر بلا لیا۔ مجھے بہت پریشانی لاحق ہوئی، لیکن ڈاکٹر صاحب نے ایوانِ صدر سے ڈاکٹر صدیق خان شبلی (سابق ڈین کلیہ سماجی علوم ) کو فون کیااور انہیں بتایا کہ چشتی صاحب کو ڈگری ایوارڈ کر دیں، میں ان کے مقالہ سے مطمئن ہوں۔ فائل پر دستخط کر دوں گا۔
غازی صاحب کو اللہ جل شانہ نے بہت سی خصوصیات سے نوازا تھا، لیکن میں نے ان کی تین خصوصیات ایسی دیکھیں جن میں میرے تجزیہ کے مطابق ان کی کامیابی کا راز مضمر تھا :
آپ کی پہلی خصوصیت یہ تھی کہ آپ اپنی والدہ کے بہت زیادہ فرماں بردار تھے۔ والدہ کی دُعا ئیں آپ کے ساتھ رہیں اور آپ نے ہمیشہ اپنی والدہ کو راضی رکھا۔
دوسری خصوصیت یہ تھی کہ آپ قرآن مجید کا بہت اہتمام کے ساتھ تلاوت کرتے تھے۔ آپ کو جونہی موقع ملتا تھا، آپ اُسے قرآن کی تلاوت میں صرف کرتے تھے، یہاں تک کہ گاڑی میں سفر کے دوران بھی آپ تلاوت کرتے رہتے تھے۔
تیسری خصوصیت یہ تھی کہ آپ مالی معاملات میں حد درجہ محتاط اور دیانت دار تھے۔
ڈاکٹر غازی کی رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے، وہ معمولی خلا نہیں۔ اس قحط الرجال کے دَور میں آپ کے وجود کی پہلی سے کہیں زیادہ ضرورت تھی، لیکن اللہ جل شانہ کا اپنا نظام ہے۔ اللہ جل شانہ کی مشیت کے سامنے کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ آپ کا انتقال آناً فاناً ہوا۔ ۲۶؍ ستمبر ۲۰۱۰ء کی صبح کو آپ نے عالم دُنیا کو خیر باد کہا ۔ نمازِ ظہر کے بعد نمازِ جنازہ ہوئی۔ نمازِ جنازہ میں اسلام آباد کے تقریباً تمام اہل علم شریک ہوئے۔ ہر شخص سوگوار تھا اور ہر آنکھ اشکبار تھی۔ تاحد نگاہ فضا پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ :
موت العالِم موت العالَم