ترتیب : ڈاکٹر حافظ محمد سجاد
(۱)
ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ عالم اسلام کے نامور محقق، مفکر اور سیرت نگار تھے۔ آپ کی علمی، فکری، تحقیقی وتصنیفی زندگی تقریباً اسّی پچاسی سال کے طویل عرصے پر پھیلی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا تعلق خاندانِ نوائط سے تھا۔ نوائط کا نسبی تعلق عرب کے معزز قبیلہ بنو ہاشم کی ایک شاخ سے تھا۔ یہ لوگ مدینہ کے رہنے والے تھے۔ نوائط نے حجاج بن یوسف کے ظلم وستم سے تنگ آکر ہجرت کی اور یہ خاندان جنوبی ہند کے ساحلی علاقوں پر آ کر آباد ہو گیا تھا۔یہ خاندان اپنی دین داری، شرافت اور علمی رجحانات وخدمات کے لحاظ سے بہت معروف ومشہور ہے (۱)۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ ۱۶ محرم ۱۳۲۶ ہجری بمطابق ۱۹ فروری ۱۹۰۸ بروز چہار شنبہ کو فیل خانہ جو کہ حیدر آباد (دکن) کا قدیم محلہ تھا، میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی کا نام ابو محمد خلیل اللہ تھا جو کہ مدد گار معتمدمال گزاری حیدر آباد تھے اور والدہ کا نام بی بی سلطان تھا۔ آپ کی پانچ بہنیں اور تین بھائی تھے۔ ایک بھائی کابچپن میں انتقال ہو گیا تھا۔ بہنوں کے نام امۃ العزیز بیگم، امۃ الو ہاب بیگم، امۃ رقیہ بیگم ، امۃ الصمد بیگم، حبیبۃ الرحمن اور بھائیوں کے نام محمد صبغت اللہ ، محمد حبیب اللہ اور محمد غلام احمد ہیں۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی تعلیم کا آغاز گھر سے دینی تعلیم سے ہوا۔ ان کی رسم بسم اللہ والد محترم نے پڑھائی۔ کچھ عرصے تک خود بیٹے کو درس دیتے رہے۔ پھر حیدر آباد کی مشہور درس گاہ دارالعلوم میں داخل کرایا جہاں وہ چھٹے درجے تک پڑھتے رہے۔چھٹی جماعت کے بعد انہیں مدرسہ نظامیہ میں شریک کرایا ۔ایک سال وہ وہاں پڑھتے رہے۔ اس زمانے میں انگریزی تعلیم حاصل کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا، مگر ڈاکٹر حمید اللہ انگریزی زبان کی اہمیت سے واقف تھے۔ انہوں نے انگریزی تعلیم اپنے والد صاحب کی اجازت کے بغیر حاصل کرنا شروع کی۔
ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے بعد ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے جامعہ عثمانیہ میں داخلہ لیا۔ ۱۹۲۸ء میں ڈاکٹر صاحب نے جامعہ عثمانیہ سے فقہ میں بی اے کیا۔ اس وقت آپ کی عمر ۲۰ سال تھی۔ ۱۹۳۰ء میں ایم اے کا امتحان درجہ اوّل میں پاس کیا اور اسی سال ایل ایل بی بھی کر لیا۔ جامعہ عثمانیہ میں تحقیقات علمیہ کے لیے علیحدہ شعبہ ۱۹۳۰ء میں قائم کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب اس شعبہ کے پہلے طالب علم تھے۔ ان کی تحقیق کا موضوع ’’اسلامی و یورپی قانون بین الممالک کا تقابلی مطالعہ‘‘ تھا۔ ایم اے میں امتیازی نمبروں سے کامیاب ہونے پر ڈاکٹر صاحب کو جامعہ عثمانیہ سے دو سال کے لیے ۷۵ روپے ماہوار وظیفہ ملا تھا۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے جامعہ عثمانیہ سے درخواست کی کہ انہیں تحقیقی کام کے لیے مواد جمع کرنے کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے اور وہاں ان کا وظیفہ بھی جاری رکھا جائے جو جامعہ عثمانیہ نے قبول کی ۔
حصول علم اور تحقیق کا شوق ڈاکٹر محمد حمید اللہ کو یورپ لے گیا جہاں کی لائبریریوں اور درس گاہوں سے آپ نے خوب استفادہ کیا۔ اکتوبر ۱۹۳۲ء میں جب وہ تحقیقی کام کے سلسلہ میں استنبول میں تھے توجرمنی کی بون یونیورسٹی کے پروفیسر کرنیکو نے ان کو بون آنے کی دعوت دی۔ جامعہ عثمانیہ نے ان کو اجازت دے دی کہ وہ اپنا مقالہ بون یونیورسٹی کو پیش کر سکتے ہیں۔ بون یونیورسٹی میں قیام کے دوران مخطوطات سے استفادہ کیا۔ برلین میں بعض نادر ونایاب مخطوطات دریافت کیے۔ بون یونیورسٹی میں ۱۹۳۳ ء میں ڈاکٹر صاحب نے اپنا تحقیقی مقالہ ’’اسلام کے بین الاقوامی قانون میں غیر جانب داری‘‘ کے موضوع پر پیش کیا۔ اس مقالہ پر آپ کو ڈی فل کی ڈگری عطا کی گئی۔ اس کے بعد آپ پیرس آئے۔ ۱۹۳۴ء میں آپ نے پیرس کی مشہور ومعروف سور بون یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے لیے داخلہ لیا۔ ان کے تحقیقی مقالے کا موضوع تھا ’’عہد نبوی اور خلافت راشدہ میں اسلامی سفارت کاری‘‘۔ گیارہ مہینے کی قلیل مدت میں مقالہ مکمل کیا اور ۳۱ جنوری ۱۹۳۵ ء کو انہیں ڈی لٹ کی سند نہایت اعزاز کے ساتھ عطا کی گئی۔ جرمنی اور فرانس کی جامعات سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب کا ارادہ ماسکو یونیورسٹی سے تیسری ڈاکٹریٹ حاصل کرنے کا تھا، لیکن آپ کے وظیفہ کی مدت ختم ہو گئی۔ا علیٰ ڈگریز کے حصول کے بعد ڈاکٹر صاحب وطن تشریف لائے اور مادر علمی جامعہ عثمانیہ سے وابستہ ہو گئے۔ جہاں وہ دینیات اور اسلامی قانون کی تعلیم دیتے رہے ۔یہ سلسلہ ۱۹۴۸ تک جاری رہا۔
تقسیم ہند کے بعد ریاست حیدرآباد کا سقوط ہو گیا تو ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے پیرس کو اپنا مستقل رہائشی مقام بنانے کا فیصلہ کیا ۔ انہوں نے فرانس کے ممتاز ادارے نیشنل سنٹر آف سائیٹفک ریسرچ National Centre of Scientific Research میں شمولیت اختیار کر لی۔کچھ عرصہ ترکی میں مہمان پروفیسر کی حیثیت سے تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ۱۹۵۷ء میں ڈاکٹرذ کی ولیدی طوغان نے (جو استنبول یونیورسٹی میں ادارہ تحقیقات اسلامی کے ڈائریکٹر تھے)۔ ڈاکٹر صاحب کو مہمان پروفیسر کی حیثیت سے مدعو کیا۔ ان کے لیکچروں میں طلبہ کے علاوہ تعلیم یافتہ افراد اور دانشوروں کی خاصی تعداد شریک ہوا کرتی تھی۔ تھوڑے ہی عرصہ میں ڈاکٹر صاحب کے علم و فضل اور سیرت وکردار کی شہرت سارے ملک میں پھیل گئی۔ پچیس برس تک وہ استانبول یونیورسٹی، ارض روم یونیورسٹی اور دیگر جامعات میں مہمان پروفیسر کی حیثیت سے جاتے رہے۔ وہ سال میں تین مہینے ترکی اور باقی ایام پیرس میں گزارتے تھے۔ یورپ کے قیام کے دوران ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے جرمنی اور فرانس کی یونیورسٹیوں میں تدریسی خدمات سر انجام دیں۔پیرس میں آپ نے مستقل قیام کیا۔ وہاں کتب خانوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے آپ پیرس کو بہت پسند کرتے تھے۔ وہاں پر رہتے ہوئے انہوں نے تحقیق کے میدان میں کار ہائے نمایاں سرانجام دیے۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ ایک بلند پایہ محقق ، عالم دین، ادیب اور داعی اللہ تھے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی تحقیق، تصنیف وتالیف اور اسلام کی خدمت میں صرف کر دی۔ انہوں نے بے شمار علمی خزانہ ورثے میں چھوڑا ہے جو دین اسلام کی ایک بہت بڑی خدمت ہے اور قابل فخر سرمایہ ہے۔انہوں نے قرآن و حدیث ،فقہ و قانون اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسے متنوع و مختلف موضوعات پر تقریباً ایک ہزار مقالات اور ایک سو ستر وقیع کتب یادگار چھوڑی ہیں۔ محمد حمید اللہ کا علمی و فکری سرمایہ صرف ان کے مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتب و مقالات تک ہی محدود نہیں رہا۔ ان کے مکاتیب بھی علوم و معارف کا ایک وقیع گنجینہ ہیں۔ ان مکاتیب سے نہ صرف مختلف اسلامی علوم و فنون کے حوالے سے قیمتی و مفید معلومات فراہم ہوتی ہیں بلکہ ان سے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت ان کے اصول زندگانی ،ان کے عادات و معمولات اور ان کی گوناں گوں دلچسپیوں کا بھی پتہ چلتا ہے ۔
(۲)
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ آپ عالم اسلام کے نامور سکالر، مفکر، اور داعی کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں ۔ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ ڈاکٹر محمد حمیداللہ ؒ کی علمی و تحقیقی خدمات کے قدر دان تھے۔ ونوں صاحبان علم کی علمی دلچسپیاں فقہ اسلامی، اسلام کے قانون بین الممالک اور سیرت طیبہ میں تھیں۔ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ نے نہ صرف ڈاکٹر محمد حمیداللہ ؒ کی علمی مطالعات و تحقیقات سے استفادہ فرمایا بلکہ ان کو متعارف کروانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر غازی ؒ صاحب نے ڈاکٹر محمد حمیداللہ ؒ کی وفات پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرمایا ۔
’’مجھے ذاتی طور پر ان سے ملنے کا ۱۹۷۳ء میں نیاز ہوا اور ان کے دنیا سے تشریف لے جانے کے آخری مہینوں تک جاری رہا۔ اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب کے قلم سے کو ئی ایسی تحریر نہیں نکلی جو انہوں نے کبھی اپنے دستخط یا دستخط کے بغیر مجھے اس کے ارسال سے مشرف نہ فرمایا ہو۔ اس دوران میں با ر بار ایسے مواقع آئے کہ ڈاکٹر صاحب نے بعض زیر تحقیق معاملے میں مجھے اس کا مستحق سمجھا، اس قابل گردانا کہ مشاورت کا شرف عطا کر سکیں۔‘‘ (۲)
ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ نے ڈاکٹر محمد حمیداللہ ؒ کے حوالے سے اپنے تاثرات میں اس بات کا بھی ذکر فرمایا کہ
’’ڈاکٹر صاحب کے اس وقت میرے پاس ۱۲۴ خطوط محفوظ اور دستیاب ہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ اور خطوط بھی کاغذات سے مل جائیں۔ ان خطوط کو مرتب کرنے کا پروگرام ہے اور ان خطوط کی تمہید میں یہ ساری یافداشتیں جو ابھی تک حافظے میں ہیں، لکھی نہیں گئیں، اس تمہید میں لکھنے کا پروگرام ہے۔ بظاہر تمہید بھی ۱۵۰۔۲۰۰ صفحے کی ہو گی۔‘‘ (۳)
ڈاکٹر محمود احمد غازی ؒ صاحب نے اپنے نام ڈاکٹر محمد حمیداللہ ؒ کے یہ خطوط کمپوز کروا لیے تھے اور اب وہ ان خطوط کا پس منظر بیان کرتے ہوئے تفصیلی حواشی لکھنا چاہتے تھے، مگر بیرونی سفر اور دیگر مصروفیات کی وجہ سے یہ کا م مکمل نہ ہو سکا۔ راقم نے ڈاکٹر صا حب کے حکم پر ان خطوط کی پروف خوانی کی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ان خطوط میں جن علمی نکات کی نشاندہی کی گئی ہے، ان کے حواشی میں لکھ دوں اور جو امور آپ سے متعلق ہیں، ان کی آپ خود و ضاحت کردیں۔ آپ نے اس تجویز کو پسندکیا اور فرمایاکہ کو ئی وقت مقرر کر لیتے ہیں،مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔اس کے بعد ملاقات کی نوبت نہ آ سکی اور آپ اپنے رب کے حضور حا ضر ہو گئے۔
ماہنامہ ’الشریعہ‘ کی اس خصوصی اشاعت بیاد ڈاکٹرمحمود احمد غازیؒ کے لیے ابتدائی دس خطوط ہدیہ قارئین ہیں۔ تمام ۱۲۴ خطوط پر حواشی کا کام جاری ہے، ان شا ء اللہ شش ماہی معارف اسلامی کے خصوصی شمارے بیاد ڈاکٹرمحمود احمد غازی میں ان کو شائع کیا جائے گا۔
خط نمبر:۱
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۱۷؍ ربیع الانور ۱۳۹۴ھ
مکرمی زاد مجدکم
سلام مسنون۔ آپ کا عنایت نامہ کل یہاں پاریس ہوکر آیا۔ ممنون ہوا ۔
اگر کسی شخص کو قابل طباعت فرانسسی آتی ہو اور مصارف طباعت کا بھی انتظام کرسکتا ہو تو :
الف) عشرہ مبشرہ میں سے ہر ایک کے حالات
ب) حضرت بلالؓ ،صہیبؓو سلمان فارسیؓ میں سے ہر ایک کے حالات
ج) ازواج مطہرات میں سے ہر ایک کے حالات
د) دیگر ممتاز صحابیاتؓ کے حالات
ھ) اخلاقی قصے کہانیان،لطائف،ضرب الامثال
و) اردو کے شہ کاروں کے ترجمے
ز) تصوف پر اچھی کتابیں جو خلاف شریعت نہ ہوں
غرض آغاز ہے، ابتدائی نوعیت کی کتابیں بھی نومسلموں اور ان کی اولاد کو درکار ہیں اور بلند پایہ کتابیں بھی، السعی منا والاتمام من اللہ ۔ کار دنیا کسے تمام نکرد۔
مجھے یہاں مئی کے اواخر تک رہنا ہے۔
نیاز مند
محمد حمید اللہ
خط نمبر:۲
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۲۱ رجب ۱۳۹۴ھ
مکرمی دام لطفکم
سلام مسنون
آج صبح عنایت نامہ ملا،شکر گزار ہوں۔
آپ کا سوال فرانسسی تالیف کے متعلق ایساہے جس کا خودآپ ہی نے جواب دے دیا ہے کہ عبد القدوس صاحب آپ کی مدد فرمانے والے ہیں۔ دوسرے سوال کے سلسلے میں یہ محض حسن ظن ہے کہ فرنگستان میں ہر چیز تیار ملتی ہے، ضرورت بس ایک پوسٹ کارڈ یا ایروگرام کے لکھنے کی ہے۔ یورپ میں مردم شماری کے وقت کبھی مذہب دریافت نہیں کیا جاتا، کسی کو معلوم نہیں کہ کہاں کتنے مسلمان ہیں۔
کافی عرصہ ہوا پروفیسر ماسین یوں Massignon نے سالنامۂ عالم اسلام Annuai nedu monde musulman شائع کرنا شروع کیا تھا۔ اس میں ہر قسم کے معلومات تھے۔ اب تو مؤلف کی وفات بھی ہو چکی ہے۔ معلومات کی ’’صحت‘‘ کا اندازہ اس سے کیجیے کہ انگلستان میں دس بارہ نو مسلم ہیں، فرانس میں ایک بھی نہیں!
فرانس میں آج کل پچیس تیس لاکھ مسلمان ہیں جن میں خاصے نو مسلم بھی ہیں۔ میرے اندازے میں شہرپاریس ہی میں دس ہزار سے کچھ زیادہ نو مسلم ہیں۔ یہاں فی الحال slam France-I نامی ایک فرانسسی ماہنامہ ہے۔ تین اسلامی انجمنیں قابل ذکر ہیں:
Centre Cultural Islamique,
Amicale des Musulmans
Association des Etudiants Islamiques
انگلستان میں سو سے زائد مسجدیں ہیں۔ پاریس میں اب بارہ پندرہ ہو چلی ہیں ۔
انگلستان میں کم از کم نو گرجا مسلمانوں کی مسجدوں کا کام دیتے ہیں تو پاریس میں دو۔ باقی فرانس میں مزید دو کا مجھے علم ہے، مگر ان خبروں کی اشاعت سے ہمیں مشکلیں ہی پیش آئیں گی کیونکہ ہر ملک وقوم میں تنگ نظر اورمتعصب لوگ بھی ہوتے ہیں اور وہ شور مچائیں تو روادار لوگ بھی ہاتھ روک لیتے ہیں۔
راوس کے مسلمان کے متعلق کوئی پندرہ بیس سال قبل فرانسسی وزارت خارجہ نے ایک کتاب شائع کی تھی۔ مؤلف کا نام Bennigsen ہے مگر اب اس کا ملنا ممکن نہیں۔
والسلام
محمد حمید اللہ
خط نمبر:۳
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۱۷؍ محرم ۱۳۹۵ھ
مکرمی
سلام مسنون.عنایت نامہ ملا۔ شکریہ۔ پابہ رکاب ہوں۔
آپ کا سوال مجھے بھایا نہیں۔ کسی بھی موضوع کو لیا جاسکتاہے، اہمیت عنوان کو نہیں مندرجات کو ہوتی ہے۔ ہر موضوع پر کام ہو سکتاہے۔
نیاز مند
محمد حمید اللہ
خط نمبر:۴
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۲۵ ذوالقعدہ۱۳۹۶ھ
مکرمی دام لطفکم
سلام مسنون۔ عید مبارک
عنایت نامہ ملا اور یہ معلوم کر کے مسرت ہوئی کہ آپ کی محترم و عزیز ہمشیرہ نے اپناکام مکمل کر لیاہے۔ میری مبارکباد پہنچائیں۔ تو قع ہے کہ یہ چھٹے (آخری) اڈیشن پر مبنی ہے ۔
اگر وہ چاہتی ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ میں بھی ترجمے پر ایک نظر ڈال لوں تو براہ کرم ارسال سے قبل مجھ سے پوچھ لیں۔ اگر وصولی کے زمانے میں، میں پاریس میں نہ رہوں تو بستہ بھیجنے والوں کو واپس ہو جائیگا۔ سمندری ڈاک دوماہ سے زیادہ لیتی ہے۔
مخلص
محمد حمید اللہ
مکرر
براہ کرم کبھی پارسل نہ بھیجیے۔ وہ لازماً چنگی خانہ جاتی ہے اورچنگی نہ بھی لی جائے تو اجرت کار بارہ فرانک (تقریباً چھتیس روپے) لی جاتی ہے۔ امید کہ خیال رکھا جائے گا۔
خط نمبر:۵
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محترم زاد مجدکم ۶؍ محرم۱۳۹۸ھ
سلام مسنون۔ آپ کا عنایت نامہ استانبول والوں کی عنایت سے کل یہاں آیا، شکریہ۔ عزیز آپا جان کو میری مبارک باد فرمائیں۔ میں دو دن میں جرمنی کے سفر پر جارہا ہوں۔ دو ایک ہفتوں میں واپس آنے پر مکرر جنوبی فرانس جانا ہے۔ فروری میں ترکی کا سفر در پیش ہے۔ (اس سال استانبول کی جگہ ارضردم کی دعوت آئی ہے) اور وہاں کثیر سرکاری فرائض میں اس کا وقت نہ ملے گا کہ آپا جان کا کام کروں۔ اصل کتاب بھی ساتھ نہ ہوگی ( میں اشرف صاحب کو ساتواں اڈیشن تصحیح کے بعد ان کی فرمائش پر بھیج چکا ہو ں، معلوم نہیں چھپا یا نہیں) چھٹے اڈیشن میں عربی متن بہت غلط چھپے ہیں۔
ان حالات میں التجاء ہے کہ ساری کتاب ایک ساتھ اس طرح بھیجیں کہ وہ مثلاً جون کے آغاز میں فرانس آئے۔ احتیاطاُ پتہ لینڈ لیڈی کا لکھیے تاکہ میری غیر حاضری میں بھی ڈاکیا بستہ پہنچا دے۔
خدا کر ے آپ سب خیر وعافیت سے ہوں ۔
نیاز مند
محمد حمید اللہ
LA CONCIERGE
POUR Mr. Hamidullah
4, Rue de Tournan
25006- Paris/France
خط نمبر:۶
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۲۷؍ربیع الانور ۱۴۰۰ھ
مخدوم و محترم متعنا اللہ بطول حیاتکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ نے اس ناچیز کی جو قدر افزائی اور مہمان نوازی اسلام آباد میں فرمائی، اس پر ممنونیت کے اظہار کے لیے الفاظ نہیں پاتا۔ حفظکم اللہ وعافاکم۔
بہاولپور کا سفر متعین ہوچکا ہے۔ ان شاء اللہ پاریس سے ۵مارچ کونکلوں گا اور ایک دن کراچی میں آرام لے کر آگے روانہ ہو جاؤں گا۔ ۸ تا ۲۱ مارچ وہاں درس ہیں۔ پھر فرانس واپسی ہے۔ ابھی یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ آیا مختصر قیام ہی کے لیے سہی، اسلام آباد آسکوں گا۔ سب احباب کوسلام مسنون عرض کرتا ہوں۔
غازی صاحب آپ کے رفیق تھے جن کے ہاں آپ کی ہمراہی میں رات کی دعوت ہوئی تھی۔ بعض چیزیں دریافت کی تھیں جوذیل میں درج ہیں۔ ان سے فرمادیں تو نوازش ہوگی:
Paul Coudere, Le Calwdrier مطبوعہ پاریس کے مطابق یہودیوں نے کالدیاوالوں سے تقویم لی۔ ان کے مہینے اب یہ ہیں:
1. Tishre 2. Marsahevan 3. Kislew. 4. Tebet 5. Sebat 6. Adar 7.. Nisan
8. Iyar 9. Sivan 10. Tamoug 11. Ab 12. Elul
یہودیوں کی Civil تقویم تِشری کے مہینے سے شروع ہوتی ہے ،خزاں میں ،اوریہ مہینہ کبھی اکتوبر اورکبھی ستمبر میں آتاہے کیونکہ مہینے توقمری ہوتے ہیں لیکن نسی کر کے تیرھواں مہینہ وقتاً فوقتاً ماہ آدار کے بعد بڑھاتے ہیں اور یہ زائد مہینہ Veadar کہلاتا ہے ۔ مگر مذہبی تقویم میں سال کا آغاز ماہ نیساں سے ہوتاہے جو مصر سے نکلنے اور دریا عبور کرنے (Peskha) کی یاد سے مربوط ہے ۔نسی کے باعث ماہ نیساں اپریل سے کبھی زیادہ دور نہیں ہوتا۔
نیاز مند
محمد حمید اللہ
خط نمبر:۷
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محترمی ۲۱؍شعبان۱۴۰۰ھ
سلام مسنون ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
نوازش نامہ ملا۔مضمون کے ص:۷ پر Rune Genu نہیں Rene Guenon۔ ص:۱ پر عاقل نہیں آکؤیل Aquil قلینڈی نام ہے۔ ص:۱ پر اپنے محل میں ’’کی جگہ‘‘ اپنے محل کے قریب۔ ص:۳ مشل والی شاں، امیشل مصطفی وال ساں vichel Valsam ہے۔ ص: ۵ پر ’’اس پادری کو چند سال قبل ایک پادری کے قتل کے جرم میں‘‘ کو ’’ایک عورت کے قتل کے جرم‘‘ پڑھئے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرے لاہور چند سال قبل وہاں کے وزیر اعظم کی صدرات میں دیے ہوے لکچر کا خلاصہ کسی کا لکھا ہوا ہے، مگر استدعا ہے کہ شائع نہ فرمائیں۔ آج فرانس میں پوپ کے حکم سے حکومت کی سیاست بدل گئی ہے، تعصب تو عناد اور دشمنی میں مبدل ہوگیا ہے۔ چنانچہ حال ہی میں پارلیمنٹ نے قانون بنایا ہے کہ جومسلمان یہاں متوطن ہوگئے ہیں، لیکن اجنبی قومیت کے ساتھ، ان میں سے ہر سال پینتیس ہزار کو اپنے اصلی وطن کو واپس جانے پر مجبور کیا جائے۔ اس کا اطلاق خاص کر بیس پچیس لاکھ الجزائر یوں پر ہوتا ہے اوران کی جگہ پرتگالیوں کو مزدوری کے لیے بلایا جا رہا ہے۔ فرانس میں نو مسلموں کی روز افزوں کثرت سے کلیسا پریشان ہو گیا ہے۔ یہودی اور کمیونسٹ بھی حیران ہیں۔ گذشتہ ہفتے ایک کمیونسٹ اخبار کے ایڈیٹر نے مجھ سے درخواست کی کہ اس کے نامہ نگار کو اس موضوع پر سوالات کا انٹریو میں جواب دوں۔ میں نے ٹال دیا اور ادب سے کہا کہ جامع مسجد کو جا کر وہاں کے ناظم سے پوچھ لو۔
ان حالات میں قطعاً مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ دشمنوں کو معلومات مہیا کیے جائیں۔ أعوذ برب الفلق من شر ما خلق۔
نیاز مند
محمد حمید اللہ
مکرر:
کیا حدیث قدسی پر کسی مطبوعہ علمی کام کا آپ کو کوئی علم ہے؟ میری ایک نومسلم شاگرد عائشہ اس پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھ رہی ہے۔ Zwenier کا مضمون مسلم ورلڈ میں اور Mouton کمپنی کی شائع کردہ حالیہ ا نگریزی کتاب سے میں واقف ہوں۔ معلوم نہیں اردو فارسی، عربی، ترکی میں کوئی چیز آپ کے علم میں ہو۔
خط نمبر: ۸
بسم اللہ الرحمن الرحیم
محترمی دوشنبہ ،۹؍رمضان المبارک ۱۴۰۰ھ
سلام مسنون ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ ملا۔ خیروعافیت کی اطلاع سے مسرت ہوئی۔
اگر موقع ہو تو الجزائر کے ذمہ دار لوگوں سے کہئے کہ مراکش میں جامع قرویین ہے، تونس میں جامع زیتونہ ہے ، مصر میں الازہر، مگر الجزائر میں کوئی اسلامی بڑی درسگاہ نہیں اور الجزائر یوں کو اپنے ہمسایوں کے ہاں جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دورِ استعمار میں پیدا شدہ اس خلا کو اب جلد سے جلد پر کرنا چاہئے کہ آدمی کو پیٹ بھی ہے اور دماغ بھی۔ صرف کسی ایک کو کِھلا ئیں تو دوسرا بھوکا مر جائیگا۔
ستمبر کے اواخر تک تو سفر کا کوئی پرگرام نہیں ہے اِلّا ما شاء اللہ۔ آپ کی تشریف آوری سے مسرت ہوگی، لیکن یونیورسٹی کے اساتذہ ابھی گرمائی تعطیلوں میں غائب ہی رہیں گے۔ کوشش فرمائیے کہ کسی اتوار کو یہاں رہیں تاکہ جمعیۃ الطلاب الاسلامیین کے ہفتہ وار اجلاس میں (جو صرف اتوار کو ہو سکتاہے) تشریف رکھ سکیں اور ان کو مخاطب فرما سکیں۔
رمضان مبارک، یوسف صاحب اور ان کی عزیز اہلیہ کو بھی میرا سلام فرمادیں۔
کیا اردو دائرہ معارف اسلامیہ کی جلد ع یا م شائع ہوگئی ہیں؟ عرصے سے زیر طبع تھیں۔ جواب کی کوئی جلدی نہیں۔
نیاز مند
محمد حمید اللہ
خط نمبر:۹
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۲۳؍ذی القعدہ ۱۴۰۰ھ
محترم ومکرم زاد مجدکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک ہفتے کی پرواز کے بعد الحمد للہ آج آپ کا عنایت نامہ پہنچ گیا۔خیروعافیت کی اطلاع سے مسرت بھی ہوئی اور اطمینان بھی ہوا، خاص کر ترکی کے انقلاب کے باوجود آپ کے لئے ازہر کے سفر کا موقع ملا۔ واللہ علیٰ مایشاء قدیر۔
افسوس ہوا کہ آپ پاریس کے کتب خانہ عام کو نہ جا سکے۔ اگر معلوم ہوتا کہ آپ کے رفیق اس میں دشواری محسوس کرتے ہیں تو میں آپ کو ساتھ لے جاتا۔توپ کاپی سرائے کے سلسلے میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کے دست مبارک کے متعلق جب میں نے دریافت کیا تھا تو بتایا گیا تھاکہ جب سلطان محمد فاتحؒ نے استانبول کو فتح کیا، مشہور حدیث نبوی کی حقانیت ثابت کی ۔ تو وہاں قیصر روم کے خزانۂ خاص الخاص میں یہ مساعد بھی ملا۔ (معلوم نہیں کیوں، اس کو ادب سے دفن کرنے کی جگہ محفوظ رکھا ہے؟) باقی کس حد تک وہ صحیح ہے اور اس کی تاریخ و سرگزشت کیا ہے، یہ اللہ تعالیٰ جانے۔
آپ کی مجلس کے سرنامہ پر موناگرام میں ’’ تعاونوا علی البر والتقویٰ‘‘ کی آیت پاک کے متعلق ہے۔ ( سورہ ۵ آیت ۲) آپ نے کبھی غور فرمایا کہ یہ کفار سے برتاؤ کے متعلق ہے، ’’ما بین المسلمین‘‘ طرز عمل کے لیے نہیں۔ اس آخر کے لیے اِنَّمَا المَؤمِنُوْنَ إخْوَۃٌ وغیرہ آیتیں ہیں۔ حدیث میں المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ (تین دن سے قطع مومن نہ کرنا چاہئے وغیرہ)
کیا آپ کو ایک زحمت دے سکتاہوں ؟ لاہور کے محمد اشرف صاحب نے میری کتاب چھاپی ہے۔ وہ یہاں نہیں ملتی ۔ اس کی مجھے شدید اور فوری ضرورت ہے ۔کیا وہ اسلام آباد میں مل سکتی ہے ؟اس کا ایک نسخہ ہوائی ڈاک سے، بل کے ساتھ روانہ فرما سکیں تو خوشی کا باعث ہوگا اور ہمیشہ شکر گزار رہوں گا۔
کار لائق سے یاد فرمائیں۔
نیاز مند
محمد حمید اللہ
خط نمبر:۱۰
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سہ شنبہ،۴؍ذی الحجہ ۱۴۰۰ھ
محترم ومکرم زاد مجدکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، عید مبارک
کتاب ابھی ابھی پہنچ گئی، دلی شکریہ۔
یہ چوری کا ایڈیشن ہے۔ پہلی دفعہ دیکھ رہاہوں۔ اللہ ہم لوگو ں کو اسلام فروشی سے بچائے۔ مزید برآں اجازت نہ مانگنے میں اس میں ایک مضرت یہ بھی ہے کہ کتاب کی تازہ تصحیحیں اور اصلاحیں نہیں ہوئی ہیں اور پرانی غلطیاں برقرار رہتی ہیں۔
بہر حال آپ کا دلی شکریہ ۔ میں نے کراچی میں ایک رشتہ دار کو لکھ دیا ہے کہ کتاب کی قیمت اور ڈاک کے مصارف آپ کو منی آرڈر سے بھیج دیں۔
میں ان شاء اللہ عیدالاضحی جزیرہ ریونیوں میں گزارو ں گا۔ دو ایک دن میں جارہا ہوں اور دو ہفتوں میں واپسی ہوگی۔ واللہ المستعان۔
نیاز مند
محمد حمید اللہ
حواشی و تعلیقات
۱۔ عمری، محمد یوسف کوکن، مولانا، خانوادہ قاضی بدرالدولہ، دارالتصنیف مدراس، ۱۹۶۳،ج۱/ص ۲۱۔۲۲
یوسف کوکن نے قاضی بدرالدولہ کے خاندان اور ان کے علمی کارناموں سے متعلق دو جلدوں پر مشتمل ایک کتاب ’’خانوادہ قاضی بدرالدولہ ‘‘کے نام سے لکھی ہے۔ وہ اپنی اس کتاب میں نائطی خاندان کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ قاضی بدرالدولہ کا خاندان نائطی کہلاتا ہے جو اپنے حسب ونسب ،عزوشرف، دینی ودنیوی وجاہت اور خصوصی رسم ورواج کے لحاظ سے خاص کر جنوبی ہند میں ایک امتیازی شان رکھتا ہے۔ نوائط جمع ہے نائط کی اور یہ لفظ’’ط‘‘ اور ’’ت‘‘ کے ساتھ دونوں طرح لکھا جاتا ہے۔ قدیم مورخین اور تذکرہ نگار ’’ت‘‘ سے ہی لکھا کرتے تھے‘‘۔
۲۔ غازی، محمود احمد، ڈاکٹر، علم و عمل کا پیکر۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ در شش ماہی معارف اسلامی، علامہ اقبال اوپن یو نیو رسٹی اسلام آباد،۲۰۰۳ء، جلد ۲ شمارہ ۲ ص۳۹۵
۳۔ایضا