بنام: جناب مسعود احمد برکاتی
برادر مکرم ومحترم جناب مسعود احمد برکاتی صاحب دامت برکاتکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا گرامی نامہ (بحوالہ ھ۔ن ۲۰۰۴، مورخہ ۲۷ جون ۲۰۰۴ء) بروقت مل گیا تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں بروقت جواب نہ دے سکا۔ امید ہے کہ آپ حسب سابق اس کوتاہی کو بھی معاف فرمائیں گے۔
میرا رشتہ بھی ہمدرد نونہال سے کم وبیش نصف صدی پرانا ہے۔ میں نے بہت بچپن میں، تقریباً چار سال کی عمر سے، ہمدرد نونہال پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ میں نے اپنے والد مرحوم کی زیر نگرانی تین ساڑھے تین سال کی عمر سے ہی گھر میں نوشت وخواند کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ شروع کے ایک دو سالوں میں نہ تو پورا رسالہ سمجھ میں آتا تھا اور نہ میری یہ بساط تھی، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ چند سال کے اندر اندر نہ صرف رسالے کے مضامین سمجھ میں آنے لگے، بلکہ میرا اشتیاق بھی بڑھتا گیا۔ مزید دو ایک سال بعد میں نے تعلیم وتربیت بھی پڑھنا شروع کر دیا، لیکن جو اشتیاق ہمدرد نونہال کے نئے شمارے کے لیے پورے مہینے رہتا تھا، وہ ابھی تک یاد ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہمدرد نونہال کے مضامین میں بچوں کے مزاج اور نفسیات کا خاص لحاظ رکھا جاتا تھا۔
ہمدرد نونہال نے ایسی تربیت کر دی تھی کہ کوئی غیر سنجیدہ یا غیر معیاری تحریر پڑھنے کو کبھی دل نہیں چاہا۔ بچوں کے بہت سے رسالوں میں جنوں اور پریوں، جادو اور ٹوٹکوں، چوری اور ڈاکے جیسے تصورات پر مبنی کہانیاں کثرت سے چھپتی تھیں، لیکن ان میں کبھی بھی میرا دل نہیں لگا۔ ہمدرد نونہال کے جو مضامین میں بہت شوق سے پڑھتا تھا، ان میں مسلمانوں کے کارناموں پر مبنی تاریخی کہانیاں اور واقعات نمایاں ہوتے تھے۔ ہمدرد نونہال اور تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ مولوی اسماعیل میرٹھی کی درسی کتابیں میرے والد مرحوم نے مجھے حفظ قرآن کے دوران ہی پڑھا دی تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعد کی زندگی میں اردو زبان کبھی بھی مشکل مضمون معلوم نہ ہوئی۔
ہمدرد نونہال نے میری تعلیم اور تربیت دونوں میں حصہ لیا۔ آج اگر اردو لکھنے اور بولنے کا کوئی سلیقہ حاصل ہے تو اس کا ابتدائی بیج رکھنے میں ہمدرد نونہال ہی شامل ہے۔
میری دعا ہے کہ یہ رسالہ اسی طرح قائم دائم رہے۔
والسلام
محمود احمد غازی
(بشکریہ ’’ہمدرد نونہال‘‘، نومبر ۲۰۰۴ء)
بنام:مولانا زاہد الراشدی
(۱)
برادر مکرم ومحترم جناب مولانا ابو عمار زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اپریل ۲۰۰۲ء کا ماہنامہ ’الشریعہ‘ آپ کے دیرینہ لطف وکرم سے موصول ہوا۔ میں روز اول ہی سے اس رسالے کا باقاعدہ قاری ہوں۔ آپ کی تحریروں اور مضامین میں جو اعتدال اور توازن ہوتا ہے، وہ گزشتہ کچھ عرصے سے [ہمارے ہاں] کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ کی تحریریں ملک میں ایک متوازن اور معتدل مذہبی رویے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں گی۔
زیر نظر شمارے میں اپنی ایک تحریر دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔ حیرت اس لیے کہ اس عنوان سے کوئی مضمون لکھنا یاد نہیں تھا اس لیے ابتداءً اخیال ہوا کہ شاید یا تو غلطی سے میرا نام چھپ گیا ہے یا یہ میرے کسی ہم نام کی تحریر ہے، لیکن جب اصل مضمون پڑھا تو اندازہ ہوا کہ عنوان آپ کا اور معنون اس ناچیز کا۔ غالباً آپ نے میرا وہ لیکچر ملاحظہ فرمایا ہوگا جس سے یہ اقتباس لے کر شائع کیا گیا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ آپ اور آپ جیسے دوسرے علماء کرام اس پورے لیکچر کو بالاستیعاب مطالعہ فرمائیں۔ آپ کے عطا کردہ اس عنوان سے خیال ہوتا ہے کہ شاید میری کتاب ’خطبات بہاول پور‘ آپ کے لیے دلچسپی کا موضوع ہوگی۔ پتہ نہیں آپ کویہ کتاب دیکھنے کا اتفاق ہوا یا نہیں۔
علامہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ کے مابین فکری مماثلتوں کے موضوع پر پروفیسر محمد یونس میو کا مضمون اچھا ہے، لیکن بہت مختصر۔ شاید ان کو یہ تجویز کرنا موزوں ہو کہ مولانا رومیؒ کے افکار اور پیغام کے بارے میں علامہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ کے نظریات وخیالات کا تقابلی مطالعہ نہ صرف دلچسپ ہوگا بلکہ دونوں اکابر کے نقطہ نظر میں حیرت انگیز مماثلتیں بھی اس کے ذریعے سامنے آئیں گی۔ میری طرف سے پروفیسر محمد یونس صاحب کو مبارک باد پیش کر دیں۔
والسلام
نیاز مند
ڈاکٹر محمود احمد غازی
(الشریعہ، مئی ۲۰۰۲ء)
(۲)
۱۷؍ اگست ۲۰۱۰ء
۶؍رمضان المبارک ۱۴۳۱ھ
برادر مکرم ومحترم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب دامت برکاتکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
مجھے معلوم ہوا ہے کہ چند سال قبل آپ نے طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر کوئی مشاورت منعقد فرمائی تھی جس میں بہت سے اہل علم نے اپنی آراء کا اظہار فرمایا تھا۔ کیا یہ آراء تحریری صورت میں دستیاب ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کیا ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے؟ مزید برآں غیر اہل حدیث اور غیر سلفی علماء میں کون کون سے حضرات طلاق ثلاثہ کے ایک ہونے کے قائل رہے ہیں؟ ایک درمیانی راستہ حضرت مفتی کفایۃ اللہ صاحب نے اختیار فرمایا تھا۔ کیا دوسرے اہل افتاء کے ہاں بھی یہ رجحان ملتا ہے؟
بہرحال اس موضوع پر جتنا مواد فراہم ہو سکے، وہ مجھے ارسال فرما دیں۔
رمضان المبارک کی نیک ساعتوں میں بھی یاد فرمائیے۔
والسلام
نیاز مند
محمود احمد غازی
بنام: مولانا محمد موسیٰ بھٹو
(۱)
مورخہ: ۲۳ ستمبر ۸۹ء
مخدوم ومعظم جناب حافظ محمد موسیٰ بھٹو صاحب دامت برکاتکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے، آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ کل آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا۔ معلوم نہیں آپ کو یہ تاثر کیوں ہوا کہ اکیڈمی نے سندھی زبان میں لٹریچر کا منصوبہ ترک کر دیا ہے۔ یہ تاثر غالباً گذشتہ چند ماہ کی سست رفتاری سے پیدا ہوا ہے۔ یہ سست رفتاری بعض انتظامی دقتوں اور دفتری طریقہ کار کی طوالت اور پیچیدگی کی وجہ سے پیدا ہو گئی تھی۔ تاہم ہماری پوری کوشش یہ ہے کہ سندھی اسلامی ادبیات کے میدان میں جو کچھ ہم کر سکتے ہیں، اس سے دریغ نہ کیا جائے۔ اس ضمن میں آپ سے ماضی میں جو گفتگوئیں ہوتی رہی ہیں، ان کی روشنی میں حتی المقدور کام کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ استاد محمد قطب کی کتاب ’’اسلام اور جدید ذہن کے شبہات‘‘ کے بارے میں دفتری کارروائی ایک ناگزیر انتظامی مشکل کی وجہ سے ہو گئی تھی جو اب الحمد للہ دور ہو گئی ہے۔ اس ضمن میں جلد ہی آپ کو دفتری مراسلہ مل جائے گا۔
سندھ نیشنل اکیڈمی کے ساتھ تعاون کی تجویز اچھی ہے۔ کیا یہ ممکن ہوگا کہ اس پر آپ تفصیلی تجویز انگریزی میں ٹائپ کرا کر ہمیں بھیج سکیں؟
بائبل، قرآن اور سائنس سندھ کے اہم اہل علم کو بھیجنے کے لیے آپ سے گزارش ہے کہ ایسے افراد کے پتے ہمیں ارسال فرمائیں۔ ہم ایک ہفتے کے اندر اندر ان کو یہ کتاب ارسال کر دیں گے۔
اگر آپ جیسے مخلص اہل علم وفکر ہی کسی مایوسی یا غلط فہمی کا شکار ہوں گے تو ہم جیسوں کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔
دعاؤں میں یاد فرماتے رہنے کی درخواست ہے۔
والسلام
محمود احمد غازی
(۲)
مورخہ: ۳۰؍ اکتوبر ۸۹ء
برادر مکرم ومحترم جناب حافظ موسیٰ بھٹو صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ آپ کا گرامی نامہ مورخہ ۲۵؍ ستمبر مجھے ایک غیر ملکی سفر سے واپسی پر ملا۔ اس کے ہمراہ پتوں کی فہرست بھی مل گئی۔ ہم ان سب اہل علم کو سندھی زبان کی کتابیں بھیج رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اب تک ’’اسلام اور جدید ذہن کے شبہات‘‘ کی کمپوزنگ مکمل ہو گئی ہوگی۔ آپ سے گزارش ہے کہ جونہی پروف ریڈنگ اور تصحیح مکمل ہو، کتاب ہمیں ارسال کر دیں۔ یہ غالباً آپ کے ذہن میں ہوگا کہ اس کتاب کے مختلف ابواب الگ الگ کتابچوں کی شکل میں شائع کیے جائیں گے اور ایک ہی پیش لفظ جو میری طرف سے ہے، ہر کتاب میں شامل ہوگا۔
آپ سے مسلسل دعاؤں میں یاد رکھنے کی درخواست ہے۔
والسلام
نیاز مند
محمود احمد غازی
(۳)
برادر مکرم ومحترم جناب حافظ محمد موسیٰ صاحب بھٹو
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ آپ کا گرامی نامہ کئی روز ہوئے مل گیا تھا، لیکن میں مختلف مصروفیات کی بنا پر جواب ارسال نہ کر سکا۔
آپ کی مرسلہ کتاب ’’اسلام اور ہمارے مسائل‘‘ بروقت مل گئی تھی اور اس وقت اس سے استفادہ بھی کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ میں آپ کی تحریروں اور کتابوں کا ایک عرصہ سے مداح ہوں۔ آپ کی ہر تحریر میں نہ صرف صحیح اسلامی خیالات پڑھنے کو ملتے ہیں بلکہ ملک وملت کے مسائل پر آپ کا انداز فکر بڑا پختہ اور حقیقت پسندانہ ہوتا ہے، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آپ کی ان فاضلانہ تحریروں کو وہ قبول عام حاصل نہیں ہوا جس کی اس وقت شدید ضرورت ہے۔
آپ کے حسب ارشاد جناب عبد الغنی فاروق کی کتاب ’’ہم کیوں مسلمان ہوئے‘‘ کا کمپوز شدہ مواد ان شاء اللہ ارسال کر دیا جائے گا۔ میں جلد ہی اس بارے میں آپ سے رابطہ قائم کروں گا۔
والسلام
مخلص
محمود احمد غازی
(۴)
برادر مکرم ومحترم جناب حافظ محمد موسیٰ صاحب بھٹو
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
آپ کا گرامی نامہ مورخہ ۸ ؍ اکتوبر موصول ہوا۔ آپ کے خطوط پڑھ کر ایمان میں تازگی پیدا ہوتی ہے، اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ براہ کرم اپنے خطوط کا سلسلہ منقطع نہ فرمائیے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ کئی ماہ قبل میں نے یہ گزارش کی تھی کہ دور جدید میں دعوت دین، اس کا فلسفہ اور اسلوب ومنہاج کے عنوان سے ایک جامع کتاب اکیڈمی کے لیے مرتب کر دیجیے جس میں آپ کی اب تک کی تحریروں کا خلاصہ آ جائے۔ ہم اس کو اپنے پروگرام میں شائع کریں گے اور کوشش کریں گے کہ اس کا دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ کرا سکیں۔
مجھے امید ہے کہ آپ کے پاس اکیڈمی کی تمام اردو، انگریزی اور سندھی مطبوعات موجود ہوں گی۔
والسلام
نیاز مند
محمود احمد غازی
(۵)
برادر مکرم ومحترم جناب حافظ محمد موسیٰ بھٹو صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ آپ کا گرامی نامہ مورخہ ۲۰ جنوری موصول ہوا جس کے ہمراہ آپ نے ماہنامہ بیداری میں شائع شدہ اپنے فاضلانہ مضامین کی ایک فہرست بھی ارسال فرمائی ہے۔ ہم یقیناًان تحریروں سے استفادہ کریں گے اور وقتاً فوقتاً یہ تحریریں آپ سے منگواتے رہیں گے۔
شاید آپ کے علم میں ہو کہ اکیڈمی نے ڈاکٹر رفیع الدین کی دو کتابیں شائع کی تھیں اور ان کو بڑے پیمانے پر اندرون وبیرون ملک علمی حلقوں میں پہنچایا تھا۔ مولانا محمد تقی امینی کی کتابیں خالص فنی قسم کی ہیں اور وہ اکیڈمی کے موضوع سے براہ راست متعلق بھی نہیں ہیں۔ یوں بھی پاکستان میں کئی ادارے ان کی اشاعت کر رہے ہیں۔ کبھی ملاقات ہو تو مخدوم ومعظم جناب ڈاکٹر غلام مصطفی خان دامت برکاتہم کی خدمت میں سلام عرض کر دیں۔ ان سے مراسلت کا سلسلہ شروع کیا تھا، لیکن مسلسل سفروں کی وجہ سے میں اس کو جاری نہ رکھ سکا۔
والسلام
نیاز مند
محمود احمد غازی
(۶)
۹۹۔۱۔۲۰
محترمی ومکرمی جناب حافظ محمد موسیٰ بھٹو صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
دعوۃ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کی سرگرمیوں سے آپ یقیناًآگاہ ہوں گے۔ اسلام کی دعوت وتبلیغ کے لیے دنیا کی ہر اہم زبان میں کتب کی اشاعت کے علاوہ انگریزی زبان میں دعوتی پرچہ "Dawah Highlights" کے نام سے شائع کیا جا رہا ہے۔
اس بات کی بہت عرصہ سے ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اردو بولنے اور پڑھنے والے مسلمانوں کے لیے اردو زبان میں ایسا معیاری دعوتی پرچہ شروع کیا جائے جس کے ذریعے وہ نہ صرف اسلام کی بنیادی تعلیمات سے آگاہ ہو سکیں، بلکہ انھیں موجودہ اور آنے والے دور کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی تیار کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو وسعت تحریر اور زور قلم سے نوازا ہے۔ امید ہے دعوۃ اکیڈمی کے مجوزہ ماہنامہ ’’دعوۃ‘‘ کو آپ کی قلمی سرپرستی حاصل ہوگی،مگر اس سے قبل ہمیں آپ کی گراں قدر تجاویز اور مفید مشوروں کی ضرورت ہے کہ اس کے مندرجات میں کیا کچھ شامل ہونا چاہیے۔ تعلیم یافتہ مسلمان بالعموم اور نوجوان وعام پڑھے لکھے مسلمانوں کے لیے بالخصوص اس میں کیا کچھ ہونا چاہیے۔ یہ پرچہ رمضان المبارک ۱۴۱۴ھ بمطابق مارچ ۱۹۹۴ء سے شروع کرنے کا پروگرام ہے۔ اس لیے آپ اپنی تجاویز اور مشوروں سے جلد از جلد نوازیں تاکہ ان کی روشنی میں ’’دعوۃ‘‘ کی اشاعت کو عملی شکل دی جا سکے۔
والسلام
محمود احمد غازی
(۷)
۲۸؍۱۰؍۹۴
برادر مکرم ومحترم جناب حافظ محمد موسیٰ صاحب بھٹودامت برکاتکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ آپ کا گرامی نامہ مورخہ ۱۲؍ اکتوبر موصول ہوا تھا۔ اس کے ہمراہ آپ کی مرسلہ کتاب ’’معاشرہ، جدیدیت اور اسلام‘‘ کے نسخے بھی موصول ہوئے، جزاکم اللہ تعالیٰ۔ ان شاء اللہ صاحب الرائے تک پہنچانے کی کوشش کروں گا۔ مجھے آپ کے خیالات میں اپنے احساسات کی عکاسی محسوس ہوتی ہے جس کی وجہ سے دل کوبڑی قربت محسوس ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو دار آخرت کی قربت کا ذریعہ بنائیں۔
والسلام
نیاز مند
محمود احمد غازی
(۸)
۱۷؍۶؍۲۰۰۶
برادر گرامی قدر جناب حافظ محمد موسیٰ بھٹو صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گرامی نامہ موصول ہوا۔ کتابوں کا ہدیہ بھی باصرہ نواز اور بصیرت افزا ہوا۔ جزاکم اللہ
آپ نے جن اہم امور کی طرف توجہ دلائی ہے، ان کے لیے شکر گزار ہوں۔ اگر آپ ان باخبر مذہبی شخصیات سے کہہ سکیں کہ وہ کبھی مجھ سے مل لیں تو میں ان کے تحفظات کے بارہ میں ان سے بات کر سکتا ہوں۔ ان شاء اللہ گفتگو کے بعد ان کے خدشات دور ہو جائیں گے۔
دعاؤں میں یاد رکھنے کی درخواست ہے۔
والسلام
نیاز مند
محمود احمد غازی
(۹)
اسلام آباد
۱؍۱۱؍۱۹۹۴ء
برادر مکرم ومحترم جناب حافظ محمد موسیٰ صاحب بھٹو دامت برکاتکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ آپ کا گرامی نامہ مورخہ ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۹۴ء بروقت مل گیا تھا اور اس کے ہمراہ آپ کی نئی تصنیف: معاشرہ، جدیدیت اور اسلام کے بیس نسخے بھی مل گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے قلم میں روانی، وسائل میں فراوانی اور ذوق وشوق میں طغیانی بیش از بیش فرمائیں۔ آپ سے وہ بہت کام لے رہے ہیں۔ ان شاء اللہ ان کاموں کے واضح نتائج بھی جلد سامنے آئیں گے۔
میں اب دعوہ اکیڈمی کی ذمہ داریوں سے الگ ہو گیا ہوں اور یونیورسٹی کے دوسرے شعبہ میں آ گیا ہوں۔ اکیڈمی کی سربراہی اب ڈاکٹر انیس احمد صاحب کے سپرد کی گئی ہے۔ وہی ا س کے بانی اور موسس بھی تھے اور گزشتہ چار سال سے ملائشیا میں تدریسی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔ دعا فرمائیے کہ اکیڈمی کے اچھے کام ان کی سربراہی اور نگرانی میں اور اچھے ہوں اور جاری رہیں اور ان کے نااہل پیشرو کی کمزوریاں ان کے ہاتھوں دور ہوں۔
ایک عرصہ سے مخدوم ومعظم جناب ڈاکٹر غلام مصطفی خان صاحب کی خیریت معلوم نہیں ہوئی۔ نیاز حاصل ہو تو سلام عرض فرما دیں۔
والسلام
نیاز مند
محمود احمد غازی
بنام: ڈاکٹر سید عزیز الرحمن
(۱)
اسلام آباد ۱؍۳؍۱۹۹۹ء
برادرمکرم ومحترم جناب مولانا سید عزیرالرحمان صاحب دامت برکاتکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے دونوں گرامی نامے بروقت موصول ہو گئے تھے (۱) لیکن میں قبل از یں جواب ارسال نہ کر سکا جس کے لیے دل سے معذرت خواہ ہوں۔ حضرت مولانا سید فضل الرحمان صاحب از حد مبارک بادکے مستحق ہیں کہ شش ماہی تحقیقی مجلہ السیرۃ کا اجراء فرما رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائیں اور وسائل سے مالا مال فرمائیں۔ رسالہ کا نکالنا تو آسان، لیکن اس کا جاری رکھنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلا شمارہ اس وقت شائع کیا جائے جب آئندہ تین چار تیار شمارے موجود ہوں۔ مزید برآں علمی اور تحقیقی رسائل معاشی طور پر viable نہیں ہوتے۔ اکثر وبیشتر ان پر خرچ ہی کرنا پڑتا ہے۔ ان کی فروخت سے یافت ہوناشاذ ونادر صورتوں میں ہی ممکن ہو پاتا ہے۔ لہٰذا آئندہ تین چار شماروں کے مواد کے ساتھ ساتھ ان شماروں کے اخراجات کی فراہمی بھی ضروری ہے۔ علمی اور تحقیقی رسائل میں اشتہارات سے بھی زیادہ آمدنی نہیں ہو پاتی، لہٰذا اس مد سے بھی کسی خاص مدد کی امید نہ رکھنی چاہیے۔
رسالہ کو محدود معنوں میں سیرت کے موضوعات تک محدود نہ رکھیے، بلکہ اگر اس کا دائرہ کار معارف نبوت یا علوم نبوت یا پیغام سیرت رکھا جائے توموزوں ہو۔
محترم جناب سید سعید احمد شاہ صاحب علیل تھے، اب ٹھیک ہیں اور ہسپتال سے گھر آ گئے ہیں۔ (۲)
والسلام
نباز مند وطالب دعا
محمود احمد غازی
(۲)
محترم جناب سید عزیرالرحمان صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا گرامی نامہ مورخہ ۳۱؍ جنوری ۲۰۰۱ء بنام ڈاکٹر محمو د احمدغازی صاحب وفاقی وزیر مذہبی امور،زکوٰۃ وعشر موصول ہوا۔
ڈاکٹر غازی صاحب نے آپ کے مراسلے اورالسیرۃ انٹرنیشنل کا شکریہ ادا فرمایا ہے۔ (۳) آپ نے اپنے مکتوب میں جن دیگرامور کی جانب ڈاکٹر صاحب کی توجہ مبذول کروائی ہے، اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب نے مجاز افسروں کو مناسب غوروخوض اور ضروری کاروائی کے لیے ہدایات جاری کر دی ہیں۔ (۴) اس سلسلے میں ہونے والی پیشرفت سے آپ کو جلد آگاہ کیا جائے گا۔
والسلام
سید قمر مصطفی شاہ
پرنسپل سٹاف آفیسر برائے وزیر محترم
(۳)
اسلام آباد ، یکم اگست ۲۰۰۱ء
برادر مکرم و محترم جناب سید عزیرالرحمان صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے متعدد گرامی نامے اور ششماہی عالمی السیرۃ کے شمارے موصول ہوئے ۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ وقتاً فوقتاً اپنے مفید مشوروں اور تجاویز سے رہنمائی فرماتے رہتے ہیں۔
سیرت کانفرنس کی بابت آپ نے جو امور تحریر فرمائے تھے، ان پر غور وخوض کر کے اس سال سیرت کانفرنس کے انتظامات بہتر بنائے جا رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ حسب سابق اپنے مفیدمشوروں سے نوازتے رہیں گے۔
والسلام
نیاز مند
ڈاکٹر محمود احمد غازی
(۴)
اسلام آباد، ۹؍جولائی ۲۰۰۲ء
محترم جناب سید عزیرالرحمان صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کاوقیع رسالہ عالمی السیرۃ باقاعدگی سے ملتا رہتا ہے۔ اس کے عالمانہ مضامین اور تحقیقی مقالات نے اس رسالے کو بہت جلد ایک نمایاں مقام عطا کر دیا ہے۔ اس سے خوشی ہوئی کہ آپ پروفیسر سید محمد سلیمؒ کے افکار وخیالات پر رسالہ تعمیر افکارکے تعاون سے ایک خصوصی اشاعت کااہتمام کر رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ تعمیر افکار کا یہ خصوصی شمارہ ایک اہم تاریخی دستاویز ہو گا۔ پروفیسر سیدمحمد سلیم مرحوم کا علمی مقام اس بات کا متقاضی ہے کہ ان پر ایک نہیں، بہت سے رسائل کے خصوصی شمارے شائع کیے جائیں۔ انہوں نے علم وتحقیق کے مختلف میدانوں میں جتنا وقیع کام کیا ہے، اس پر دیر تک اہل علم تحقیق کرتے رہیں گے۔
میں بڑے اشتیاق اور شدت سے رسالہ تعمیر افکار کے خصوصی شمارے کا منتظر ہوں۔
والسلام
نیاز مند
ڈاکٹر محمود احمد غازی
(۵)
تاریخ: ۱؍۸؍۲۰۰۶
برادر مکرم جناب مولانا حافظ سید عزیر الرحمان صاحب زیدت معالیکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گرامی نامہ، کتابیں اورمقالہ (۵) سب ہدایا ایک ساتھ موصول ہوئے۔ جزاکم اللہ۔
مقالہ الحمدللہ بہت عالمانہ ہے۔ جلد سے جلد اشاعت کا اہتمام فرمائیے۔ عجیب توارد ہے کہ یہی موضوعات میرے ذہن میں بھی ہیں جو آخری تین خطبات میں زیر بحث آئیں گے۔ (۶) توارد پر ایک لطیفہ وقت ملاقات سناؤں گا۔
محترم ڈاکٹر کشفی صاحب کا بھی دلی شکریہ ادا کر دیں۔ ان سے ملاقات کی لذت ابھی تازہ ہے۔ (۷)
آج ان شاء اللہ خطبہ ہشتم ہے،ہفتہ تک بارہ خطبے ہو جائیں گے۔ جیسے ہی کسی خطبہ کی نقل تیار ہوئی، آپ کو ارسال کر دوں گا۔ (۸)
والسلام
نیاز مند
محمود احمد غازی
(۶)
دوحہ: قطر
۱۶؍ اکتوبر ۲۰۰۹ء
جمعۃالمبارک
برادر مکرم جناب ڈاکٹر سید عزیر الرحمان صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ٓامید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ عرصہ دراز سے، غالباً اگست کے اوائل کی ملاقات کے بعد سے آپ سے کوئی رابطہ نہیں ہوا، خدا کرے خیر ہی ہو۔
اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اسلامی بنکاری والی تقریر پر نظر ثانی ہو گئی ہے۔ (۹) لیکن اب بھی مزید نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس لیے گزارش یہ ہے کہ ایک بار کھلا کھلا کمپوز کرا کے مجھے واپس بھیج دیں۔ ان شا ء اللہ اس بار تاخیر نہ ہوگی۔
پروفیسرعبدالجبار شاکر صاحب کے اچانک رخصت ہوجانے سے بہت صدمہ ہوا ۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ بہت مخلص اور متدین انسان تھے۔ ان کے اہل خانہ میں سے کسی سے رابطہ ہو تو میری طرف سے تعزیت بھی کر دیں اور ان کا نمبر وغیرہ بھیج دیں تاکہ میں براہ راست بھی رابطہ کر سکوں۔
ان کا ذاتی کتب خانہ بہت عالی شان اور وسیع تھا۔ کتابوں کا واقعی بہت عالمانہ اور اچھا ذوق رکھتے تھے۔ اللہ کرے کہ کتب خانہ سلامت اور یکجا رہے۔ خالد اسحاق صاحب مرحوم کے کتب خانہ کی طرح تتر بتر نہ ہو۔
’’اسلام اور مغرب‘‘ والے مقالات کا کیا ہوا؟ (۱۰) یہ صرف استفسار ہے، اصرار نہیں ۔ دعوہ اکیڈمی (کراچی مرکز) کی سرگرمیاں کیسی چل رہی ہیں؟ والد صاحب سے سلام عرض کر دیں۔
والسلام
محمود احمد غازی
(۷)
تاریخ: ۱۶؍ستمبر ۲۰۱۰
برادر مکرم جناب ڈاکٹر سید عزیر الرحمان صاحب زیدت معالیکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔
کل کی زحمت دہی پر نادم اور شرمندہ ہوں۔ بلاوجہ گرمی میں آپ کو (محض اپنے ذاتی کام کے لیے) پچاس میل سے سفر کی زحمت دی۔ ( ۱۱) براہ کرم درگزر فرمائیے گا۔ کتابیں (تاریخ الحرکۃ المجددیۃ) کے نسخے مل گئے، جزاکم اللہ۔ قرآن نمبر کے لیے منتخب کردہ خطبہ پر سرسری نظر ثانی کر دی ہے۔ (۱۲)
والسلام نیاز مند
محمود احمد غازی
(۸)
۱۹ ؍اکتوبر۲۰۰۸
۲۰شوال المکرم ۱۴۲۹ھ
دوحہ۔قطر
برادرم مکرم و محترم جناب مولانا ڈاکٹر حافظ عزیز الرحمن صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
وعدے کرنے میں بہت سخی واقع ہوا ہوں، نبھانے کے معاملہ میں صفر ہوں۔ اس شکل سے نکلنے کا واحد راستہ صبر ہی ہے،لہٰذا صبر سے کام لیجیے۔
بنکاری والی تقریر میں معاملہ صفر سے ذرا آگے بڑھا ہے۔ثبوت کے طور پر یہ آدھی تقریر ارسال خدمت ہے۔ بقیہ بھی جلدہی پیش کر دوں گا۔ گزارش یہ ہے کہ تصحیحات کے بعد تین گنا space پر ٹائپ کرائیے گا، اس لیے کہ ایک بار مزید اصلاح ہوگی تو یہ بے سروپا گفت گو قابل اشاعت ہو سکے گی۔
بقیہ وعدوں کے ایفا کی رفتار کا اندازہ آپ کو ہو گیا ہو گا۔
والسلام
نیاز مند
ڈاکٹر محمود احمد غازی
(۹)
۲۵ اکتوبر۲۰۰۸
۲۶شوال المکرم ۱۴۲۹ھ
برادرم مکرم و محترم جناب مولانا ڈاکٹر حافظ عزیز الرحمن صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے!
آج اپنے کاغذات میں یہ مقالہ نظر پڑا۔ یہ میں نے مکہ مکرمہ کی کانفرنس (جون ۲۰۰۸) میں پڑھا تھا۔ یاد آیا کہ آپ نے اس کی نقل بھیجنے کو کہا تھا۔ تاخیر ہی سے سہی، مگر تعمیل ارشاد کی سعادت ہوگئی۔
والسلام
نیاز مند
ڈاکٹر محمود احمد غازی
(۱۰)
برادرم مکرم و محترم جناب مولانا ڈاکٹر حافظ عزیز الرحمن صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
مزاج گرامی!
اسلامی بنکاری والی تقریر کا آخری حصہ ارسال خدمت ہے۔ اس میں کم از کم دو بار مزید اصلاح و ترمیم کرنا ہوگی، جب جا کر یہ قابل طباعت ہو سکے گی۔ دوبارہ جب بھیجیں تو تین گنا space پر ٹائپ کرائیے گا تاکہ اصلاح میں آسانی رہے۔
والسلام
نیاز مند
ڈاکٹر محمود احمد غازی
۲۳ اکتوبر ۲۰۰۸
(معاف کیجیے گا کہ علم اور ہمت کے ساتھ ساتھ قلم نے بھی جواب دے دیا ہے۔)
حواشی (از ڈاکٹر سید عزیز الرحمن)
۱۔ ۱۹۹۹ء میں شش ماہی السیرۃ کے اجرا کے موقع پر اہل علم کو خطوط لکھے گئے تھے۔ بعض حضرات کو یاد دہانی کے لیے اس کی نقل مکرر روانہ کی گئی تھی۔ یہ خط اس کے جواب ہی موصول ہو اتھا۔
۲۔ سید سعید احمد شاہ صاحب ادارۂ تحقیقات اسلامی میں ناظم مطبوعات تھے ۔ یونیورسٹی کی نہایت قابل احترام بزرگ شخصیات میں شمار ہوتے تھے۔ دادا جان مولانا سید زوار حسین شاہ ؒ سے بیعت تھے۔ اسی نسبت سے ڈاکٹر صاحب نے خط میں ان کا تذکرہ کیا تھے۔
۳۔ ان دنوں السیرۃ کا چوتھا شمارہ شائع ہوا تھا جو ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں ارسال کیا گیا تھا۔
۴۔ حج کے معاملات اور وزارت مذہبی امور کے زیر اہتمام ہر سال منعقد ہونے والی سیرت کانفرنس کے بعض امور کی جانب ڈاکٹر صاحب کی توجہ دلائی تھی۔ اس کے جواب میں ان کے دفتر سے یہ خط موصول ہوا۔
۵۔ راقم نے ایک تقریب میں سیرت نگاری پر ایک گفتگو کی تھی جو اس وقت شائع نہیں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریک پریہ مضمون شائع آنے کی ہمت ہوئی اور یہ مضمون ’’مطالعہ سیرت کی وسعت ، براعظم پاک وہند‘‘ کے عنوان سے شش ماہی السیرۃ کے شمارہ نمبر ۱۸ میں شائع ہوا ہے۔
۶۔ ان محاضرات کے عنوانات ہیں: مطالعہ سیرت پاک وہند میں۔ مطالعہ سیرت دور جدید میں۔ مطالعہ سیرت مستقبل کی ممکنہ جہتیں۔ یہ مجموعہ محاضرات سیرت کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔
۷۔ ڈاکٹر صاحب ایک پروگرام میں کراچی تشریف لائے تو ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی ؒ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی۔ پھر راقم ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کشفی صاحب کے ہاں حاضر ہوا تھا۔ اس کا ذکر ہے۔
۸۔ ان دنوں ادارہ تحقیقات اسلامی ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آباد میں ڈاکٹر صاحب کے محاضرات سیرت جاری تھے، اس کا ذکر ہے۔
۹۔ تقریر جامعۃ الرشید کراچی کی گئی تھی او ر اپنے موضوع پر نہایت مفصل تقریرتھی۔ یہ پہلے دو اقساط میں ماہنامہ تعمیر افکار کراچی کے جنوری ، فروری ۲۰۱۰ء کے شماروں میں شائع ہوئی تھی۔ بعد میں اسے کتابی شکل میں ’’اسلامی بنکاری ۔ایک تعارف‘‘ کے عنوان سے دارالعلم والتحقیق کی طرف سے شائع کیا گیا۔ (صفحات ۱۱۱۔ مار چ ۲۰۱۰ء)
۱۰۔ ڈاکٹر صاحب کے یہ چھے حاضرات راقم نے مرتب کیے تھے۔ ان کی اشاعت میں تاخیر ہوتی چلی گئی۔ یہ مجموعہ ’’ اسلام اور مغرب تعلقات‘‘ کے عنوان سے دسمبر ۲۰۰۹ء میں دارالعلم والتحقیق سے شائع ہوا۔ (صفحات ۲۲۱)
۱۱۔ یہ خط راقم کے نام ڈاکٹر صاحب کا آخری خط ثابت ہوا۔ ڈاکٹر صاحب کی عربی کتاب تاریخ الحرکۃ المجددیۃ دارالکتب العلمیۃ بیروت سے ۲۰۰۹ء میں شائع ہوئی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کے کچھ نسخے ذاتی طور پر خریدنے کا عندیہ ظاہر کیا تو راقم نے وہ نسخے حاصل کرکے ارسال کر دیے تھے۔ ان کی رقم کی ادائیگی کے لیے ڈاکٹر صاحب مصر تھے۔ راقم نے عرض کیا کہ عندالملاقات وصول کر لوں گا، اس کی فکر نہ فرمائیں۔ ۱۴؍ ستمبر کو ڈاکٹر صاحب اسٹیٹ بینک کے شریعہ ایڈوائزی بورڈ کی میٹنگ میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ یہ میٹنگ ۱۵؍ ستمبر کو تھی۔ اسی روز وہاں سے فراغت کے بعد ڈاکٹر صاحب کی ائیرپورٹ روانگی تھی۔ ان کاحکم ہو ا کہ میں اسٹیٹ بنک میں ہی مل لوں۔ اس لیے وہاں جانا ہوں جس کا خط میں ذکر ہے اور راقم کو رقم کی ادائیگی وہ ذاتی کام تھاجس پر ڈاکٹر صاحب معذرت کر رہے ہیں۔ اللہ اکبر!
۱۲۔ڈاکٹر صاحب کا یہ خطبہ ان کی سلسلہ محاضرات کی آخری کتاب ’’محاضرات معیشت وتجارت‘‘ کا ابتدائی خطبہ ہے جس میں معیشت کی قرآنی ہدایات پر گفتگو کی گئی ہے۔ راقم نے ان میں چند حوالوں کا اضافہ کر کے اسی ملاقات ہی میں مضمون ڈاکٹر صاحب کو پیش کیا تھا تاکہ وہ ایک نظر اسے ملاحظہ فرما لیں۔ یہ خطبہ ان شاء اللہ ماہ نامہ تعمیر افکار کے قرآن نمبر میں شائع ہو گا۔
بنام: حافظ صفوان محمد چوہان
مورخہ ۱۴؍ ۴؍ ۲۰۰۵ء
بردر مکرم ومحترم جناب حافظ صفوان محمد چوہان زیدت معالیکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا گرامی نامہ چند روز قبل ملا تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں بروقت جواب ارسال نہ کرسکا۔ اس سے خوشی ہوئی کہ آپ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ جیسے شعبوں سے وابستہ رہتے ہوئے (جو خالص فنی اور سائنسی نوعیت کے ہیں) دینی اور ملی موضوعات سے بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اس ذوق میں برکت عطا فرمائے اور آپ کو زیادہ سے زیادہ دینی اور ملی کاموں میں تعمیری حصہ لینے کی مزید توفیق عطا فرمائے۔
میری ناچیز گفتگو کو آپ نے پسند فرمایا۔ ممنون ہوں۔ یہ زبانی اور فی البدیہ گفتگو تھی جس میں مرتب خیالات اور پختہ نتائج پیش کرنا آسان نہیں (کم از کم میرے لیے) ۔ اب خیال ہو رہا ہے کہ اس transcription کو سامنے رکھ کر اس میں تفصیلی نظرثانی اور حک واضافہ کروں تاکہ جو با تیں وہاں زیادہ تفصیل سے عرض نہیں کی جا سکیں، وہ تفصیل سے سامنے آ جائیں۔
’’الشریعہ‘‘ کے بارہ میں میرے تاثرات بھی وہی ہیں جو آپ کے ہیں۔ اس کا سارا کریڈٹ مولانا زاہدالراشدی صاحب کو جاتا ہے۔
والسلام
نیاز مند
محمود احمد غازی
بنام: ڈاکٹر سید شاہد حسن رضوی
مکرمی جناب ڈاکٹر سید شاہد حسن رضوی صاحب
السلام علیکم
آپ کا ارسال کردہ سہ ماہی الزبیر موصول ہوا۔ اس سے قبل بھی ایک دو شمارے پڑھنے کا موقع ملا تھا۔ ایک انتہائی خوشگوار حیرت اس سے ہوئی کہ بہاول پور کا یہ رسالہ علم و ادب کے بڑے بڑے مراکز سے نکلنے والے بھاری بھرکم رسالوں سے کم نہیں۔ زیر نظر شمارے میں مشفق خواجہ مرحوم کے نام جو گوشہ مختص کیا گیا ہے، وہ بھی خاصے کی چیز ہے۔
میری ناچیز تحریریں عموماً دینی اور فقہی موضوعات پر مشتمل ہوتی ہیں جو شاید آپ کے رسالے کے لیے غیر موزوں ہوں۔ البتہ کبھی کبھی عربی یا فارسی میں کچھ اشعار نظم ہوجاتے ہیں جن کی حیثیت معنوی اعتبار سے صرف ذاتی احساسات اور لفظی اعتبار سے محض تک بندی سے زیادہ نہیں ہوتی۔ یوں یہ بھی آپ کے معیار سے فروتر سمجھی جائے گی۔
البتہ ایک گزارش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ وہ یہ کہ عموماً اہل دین اور اہل تقویٰ کی ادبی کاوشوں کو اہل ادب کی بارگاہ میں زیادہ پذیرائی نہیں ملتی۔ اس دربار میں وہی لوگ باریاب ہوسکتے ہیں جو اخلاقیات اور روحانیات کے لباس سے یا تو عملاً عاری ہوں یا کم از کم نظری طور پر عاری ہونے کے دعوے دار ہوں۔ اگر سہ ماہی الزبیر اس رجحان کی اصلاح کی کوشش کرے تو یہ ایک بڑی خدمت ہوگی۔ مثال کے طور پر اردو کے مشہور شاعر محسن کاکوروی کا کلام کسی بھی اعتبار سے اردو کے بڑے بڑے اساتذہ کے کلام سے کم نہیں، لیکن ہماری ادبی تاریخیں اور تنقیدی تحریریں ان کے ذکر سے خالی ملتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں بہت سے ایسے لوگ جن کی شعری کاوشیں بہت پست معیار رکھتی ہیں، ادیبوں اور نقادوں کے ہاں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں۔
(بشکریہ سہ ماہی الزبیر، بہاولپور ۔ شمارہ ۳، ۲۰۰۶ء؛ ص ۲۸۹)
[اس خط کے جواب میں بندہ نے اپنے والد صاحب کا مضمون: ’’محسن کاکوروی کی نعتیہ شاعری‘‘ الزبیر میں بھجوایا جو شمارہ ۴، ۲۰۰۶ء میں چھپا۔ اس پر غازی صاحب کا خط شاید شمارہ۔۱، ۲۰۰۷ء میں چھپا ہوگا، لیکن یہ رسالہ مجھے فی الوقت نہیں مل رہا۔ (حافظ صفوان محمد)]
بنام:شہزاد چنا صاحب
(۱)
مور خہ ۴؍ جنوری ۲۰۰۶ء
برادرم جناب شہزاد چنا صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا گرامی نامہ موصول ہوا۔ اس کے ہمراہ’’ قرآن: ایک تعارف‘‘ کے سندھی ترجمے کی پہلی قسط بھی موصول ہوئی۔ جزاکم اللہ ۔
سندھی زبان میں لٹریچر کی تیاری کے لیے بہتر مشورہ اور رہنمائی مولانا امیر الدین مہر صاحب ہی دے سکتے ہیں۔
والسلام
ڈاکٹر محمود احمد غازی
(۲)
مورخہ ۲۲؍ مارچ ۲۰۰۶ء
برادر مکرم ومحترم جناب شہزاد چنا صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا گرامی نامہ مورخہ ۱۳؍ مارچ ۲۰۰۶ء موصول ہوا۔’’ الفاروق‘‘ اور ’’وینجھار ‘‘ کے تازہ شمارے بھی مل گئے ۔ اس سے خوشی ہوئی کہ ’’ الفاروق‘‘ کے ایڈیٹر مولانا محمدحسین شاہ نے بھی اس کاوش کو پسند کیا ہے۔ عربی لفظ ’’نجماً نجماً‘‘ کا ترجمہ ’’تھوڑا تھوڑا‘‘ ٹھیک ہے۔ مفسرین کرام نے آیت قرآنی کے لیے ’’ تھوڑا تھوڑا‘‘ کا لفظ خلاف ادب سمجھا، اس لیے اس کے بجائے ’’نجماً نجماً‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جن کے لغوی معنی ’’ستارہ ستارہ‘‘ کے ہیں۔ گویا قرآن مجید رشد وہدایت کی ایک کہکشاں ہے جس کے ستارے ایک ایک کر کے اتر رہے تھے اور کہکشاں کی تکمیل کر رہے تھے۔ اس لفظ میں جو معنویت اور خوبصورتی ہے، وہ کسی اور لفظ میں ممکن نہیں۔ جس صاحب ذوق اور صاحب دل مفسر نے پہلی بار یہ اصطلاح استعمال کی، اس کے ذوق کو سلام کرنا چاہیے۔
والسلام
ڈاکٹر محمود احمد غازی
(۳)
مورخہ ۳۱؍ جنوری ۲۰۰۶ء
برادر مکرم ومحترم جناب شہزاد چنا صاحب
السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ
گرامی نامہ مورخہ ۲۵؍ جنوری ۲۰۰۶ء موصول ہوا۔ ’ ’قرآن پاک:ایک تعارف ‘‘کے سندھی ترجمہ کی دوسری قسط بھی موصول ہوئی۔ اس سے خوشی ہوئی کہ مولانا امیر الدین مہر صاحب اس ترجمہ پر نظر ثانی فرما رہے ہیں۔ اگر مولانا کی رائے میں اس کتابچے کے سندھی ترجمہ کی اشاعت مفید ہوتو اس کے مکمل ہونے پر ایک کتابچے کی شکل میں شائع کرنے پر غور کریں اور مشورہ دیں۔
اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ختم ہو گیا ہے۔ اب دوسرے ایڈیشن کی طباعت کا مرحلہ درپیش ہے۔ چونکہ مولانا امیر الدین مہر صاحب اس کو ساتھ ساتھ ملاحظہ بھی فرما رہے ہیں، اس لیے ان سے درخواست کریں کہ کتاب کے آئندہ ایڈیشن میں جو ترامیم، اضافے اور اصلاحات ضروری ہوں، ان کی نشان دہی فرما دیں۔
میر ی طرف سے مرکز کے تمام احباب اور مولانا امیر الدین مہر صاحب کو سلام عرض کر دیں۔
والسلام
محمود احمد غازی
بنام: محمد عمار خان ناصر
(۱)
06/8/03
برادر مکرم ومحترم جناب مولانا عمار ناصر صاحب، مدیر الشریعہ گوجرانوالہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ مسجد اقصیٰ کی شرعی حیثیت کے بارے میں آپ کا فاضلانہ مقالہ بروقت مل گیا تھا۔ میرے لیے اس کے مندرجات کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینا تو دشوار ہے، اس لیے کہ میں نے مسجد اقصیٰ کی تاریخ کے بارے میں جو کچھ مطالعہ کیا تھا، اس پر خاصی مدت گزر چکی ہے۔ اب ازسرنو مطالعہ تازہ کرنے کے لیے کتابوں کی ورق گردانی ناگزیر ہے جس کی سردست فرصت نہیں۔ تاہم اگر آپ چاہیں تو علامہ ابن قیم الجوزیہ کی کتاب احکام اہل الذمہ کا مطالعہ فرمائیں جس میں انہوں نے شروط عمریہ پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ میری ناچیز رائے میں شروط عمریہ ہی اس معاملہ میں مسلمانوں کے موقف کی فقہی اور آئینی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔
تاہم یہ غور ضرور کر لیں کہ کیا موجودہ حالات میں یہ بحث اٹھانا مفید ہوگا! میرا خیال یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کو اور بے شمار مسائل درپیش ہیں۔ اس صورت حال میں ایک نئی اختلافی بحث کھڑی کر دینا مناسب نہیں۔ علم اور خاص طور پر علم دین اللہ تعالیٰ کی طرف سے جہاں ایک بڑا اعزاز ہے، وہاں ایک مقدس امانت بھی ہے۔ اس کو استعمال کرنے میں انتہائی احتیاط اور ذمہ داری سے کام لینا چاہیے۔ اگر ہم میں سے کسی کے علم کا استعمال اس انداز سے ہو کہ امت مسلمہ کو اس کا نقصان یا پاداش برداشت کرنا پڑے تو شاید یہ علم کا بہتر استعمال نہیں۔ مزید مشورہ برادر مکرم جناب مولانا زاہد الراشدی اور اپنے جد محترم سے فرما لیں۔
والسلام
ڈاکٹر محمود احمد غازی
نائب رئیس الجامعہ
(۲)
۱۱؍ اگست ۲۰۱۰ء
برادر عزیز ومکرم جناب مولانا محمد عمار خان صاحب ناصر
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گرامی نامہ مورخہ ۲۶ جولائی کل سفر حرمین سے واپسی پر دیکھا۔ دعوت کا شکریہ۔ جزاکم اللہ
۳۰؍ ستمبر کو جمعرات ہے اور عدالتی مصروفیت کا دن ہے۔ میں اتوار کے روز صبح کے وقت دستیاب ہو سکتا ہوں۔ آپ ستمبر/شوال کے مہینہ میں کوئی سا اتوار رکھ لیں۔
والد مکرم کی خدمت میں سلام عرض کر دیں۔ آپ کی تحریر بابت تولیت بیت المقدس کیا الگ سے بھی چھپی ہے؟ اس کی ایک نقل درکار ہے۔
والسلام
مخلص
محمود احمد غازی
بنام: محمد رضا تیمور
۱۹؍ اکتوبر ۲۰۰۷ء
برادر مکرم جناب محمد رضا تیمور ایم فل
السلام علیکم وررحمۃ اللہ وبرکاتہ
گرامی نامہ ملا۔ ممنون ہوا۔ جزاکم اللہ!
اس سے خوشی ہوئی کہ آپ کو محاضرات کا یہ سلسلہ پسند آیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کو قارئین کے لیے نافع اور ناچیز مولف کے لیے توشہ آخرت بنائے۔
آپ شوق سے ان کی تلخیص کیجیے۔ مناسب یہ ہوگا کہ پہلے کسی رسالہ میں ایک ایک محاضرہ شائع کرتے رہیے۔ قارئین کے تبصرہ اور رد عمل سے افادیت کا بھی اندازہ ہو جائے گا۔ اس کام کے لیے گوجرانوالہ کا الشریعہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ اس کے لیے پہلے مولانا زاہد الراشدی سے استمزاج کر لیں۔
والسلام
نیاز مند
محمود احمد غازی
بنام: شبیر احمد خان میواتی
۰۰۔۹۔۴
برادر مکرم جناب مولانا شبیر احمد خان صاحب میواتی زیدت معالیکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گرامی نامہ مورخہ ۱۷؍۸؍۲۰۰۰ء موصول ہوا۔ جزاکم اللہ۔ آپ نے جن خیالات کا اظہار فرمایا ہے، ان کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ آپ سے درخواست ہے کہ اپنی دعوات صالحہ میں یاد فرماتے رہیں۔
حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کے لیے میرے بھی وہی احساسات ہیں جن کا آپ نے اظہار فرمایا ہے۔ اللہ کرے ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
والسلام
مخلص
محمود احمد غازی
بنام: مولانا حیدر علی مینوی
برادر مکرم ومحترم جناب مولانا حیدر علی مینوی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ میں ایک عرصہ دراز سے آپ کو یہ عریضہ ارسال کرنے کا ارادہ کر رہا تھا، لیکن میرے پاس آپ کا پتہ نہ تھا۔
اگر بہ سہولت ممکن ہو تو استاذ جلیل حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب مینوی رحمہ اللہ کی تالیف جواہر الاصول کے دو نسخے ارسال فرما دیں۔
میں یہاں اگست کے اوائل تک مقیم ہوں۔ پھر قطر واپس جانا ہے جہاں میں آج کل مقیم ہوں۔
والسلام
نیاز مند
محمود احمد غازی
بنام: نعمت اللہ سومرو
مورخہ ۲؍اکتوبر ۱۹۹۱ء
برادرمکرم ومحترم جناب نعمت اللہ سومرو صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ آپ کے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ آپ کا خط مورخہ ۲۱؍ ستمبر موصول ہوا کہ آپ کے علاقے میں امن وامان کی صورحال بہت خراب ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جلد از ہماری ان مشکلات کو دورفرما دے۔
یہ جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ آپ لوگ شاہ عبداللطیف لائبریری کے اہتمام میں بہت سے دینی پروگرام منعقد کر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی یہ تعمیری کوششیں بالآخر نتیجہ خیز ثابت ہوں گی اور آپ اسلام کے پیغام امن ومساوات کو عام کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ اس سلسلے میں اکیڈمی اپنے وسائل کے مطابق آپ کی ہر خدمت کے لیے تیار ہے۔
قطرٹیلی ویژن کے جس پروگرام کاآپ نے ذکر کیا ہے، وہ پہلے سے اکیڈمی میں موجود ہے اور اس کو اردو میں منتقل کرانے کی تجویز زیر غور ہے۔
والسلام مخلص
محمود احمد غازی