(ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ کا ایک غیر مطبوعہ خطاب جسے حافظ آغا عبد الصمد نے مدون کیا۔)
تفریح اور خوشی اور مسرت کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے؟ یہ موضوع ایک عمومی انداز بھی رکھتا ہے اور ایک خاص پہلو سے ہمارے لیے اہمیت بھی رکھتا ہے۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں دینی تعلیم وتربیت کی کمی کی وجہ سے بہت سے معاملات میں غلط فہمیاں اور الجھنیں پیدا ہورہی ہیں۔ یہ غلط فہمیاں اور الجھنیں ماضی میں پیدا نہیں ہوئیں، اس لیے کہ ماضی میں اس بات کا انتظام موجود ہوتا تھا کہ مسلمانوں کی تعلیم وتربیت کا انتظام نہ صرف گھر سے شروع ہو، بلکہ گھر میں، بازار میں، مسجد اور مدرسے میں، دارالعلوم اور یونیورسٹی میں، کاروبار کے اداروں میں، تجارت کے مراکز میں ہر جگہ کا انتظام چوں کہ شریعت اور اسلامی تعلیمات کے مطابق تھا، ہر شخص کا رویہ اور طرز عمل شریعت کے احکام کے مطابق تھا، اس لیے اس ماحول میں رہنے والا خود بخود دینی تعلیم اور دینی مزاج میں رنگ جاتا تھا۔ اس پر دینی تعلیم کا رنگ اتنا غالب آجاتا تھا کہ کسی دوسرے رنگ کو قبول کرنا عام طور پر ممکن نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اب گزشتہ سوڈیڑھ سال کے دور انحطاط کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اسلامی نظام تعلیم ختم ہوگیا ہے، مسلم ماحول اور معاشرے سے وہ اثرات ایک ایک کرکے ختم ہوگئے جن کی وجہ سے نئے آنے والے افراد کی تربیت خود بخود ہوتی رہتی تھی۔ اس لیے اب یہ ضرورت پیش آتی ہے کہ لوگوں کہ نہ صرف جزئی مسائل کی تعلیم دی جائے بلکہ یہ کوشش بھی کی جائے کہ عمومی طور پر لوگوں کے ذہنوں کی ساخت اور سانچہ شریعت اور اسلام کی تعلیمات کے مطابق تشکیل پاجائے۔
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں نہ کسی تفریح کی گنجائش ہے اور نہ کوئی خوشی منانے کی گنجائش ہے۔ اسلام میں اگر کوئی داخل ہوگیا تو اس کاکام یہ ہے کہ خشک زندگی گزارے اور ہرقسم کی مسرت، خوشی اور سیروتفریح سے بالکل الگ ہوکر ایک تارک الدنیا کے طورپرزندگی بسر کرے۔یہ ایک رائے ہے جو کچھ لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ کچھ اور لوگ ہیں جویہ سمجھتے ہیں کہ اسلام صرف عبادات اور نماز روزے کانام ہے۔ نماز پڑھ لی تو گویا اللہ پر بڑا احسان کر لیا۔ رمضان کے روزے رکھ لیے تو بہت بڑا احسان ہوگیا۔ اس کے بعد ہم جو جی چاہے کریں۔ ہندوؤں کی نقل کریں، عیسائیوں کی نقل کریں، یہودیوں کی نقل کریں، بدکردار اباحیت پسند لوگوں کی نقل کریں۔ جو جی چاہے کریں کہ ہمیں تفریح اور خوشی کے نام پر دنیا کی ہر چیز کرنے کا اختیار ہے۔ یہ ایک دوسری انتہا ہے۔ یہ دونوں انتہائیں شریعت کے مزاج اور تقاضوں کے خلاف ہیں، شریعت کی تعلیم سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ تفریح اور خوشی اور مسرت کے بارے میں اسلام کا نقطہ نظر کیاہے؟
تفریح کا مفہوم
جس کو ہم تفریح کہتے ہیں، اس کے لغوی معنی کیا ہیں؟ تفریح کے لغوی معنی ہیں دل کو فرحت بخشنا۔ آپ گرمی کے موسم میں کہیں دور سے آرہے ہوں، سخت تکان اور پیاس ہو اور کسی اچھے شربت کا ایک ٹھنڈا گلاس پی لیں تو دل کو ایک فرحت پہنچتی ہے، خوشی اور مسرت کا احساس ہوتا ہے۔ اس کیفیت کے فراہم کرنے کو تفریح کہتے ہیں۔ جس طرح جسم کی تفریح ہوتی ہے، عقل کی تفریح بھی ہوتی ہے، ذہن کی تفریح بھی ہوتی ہے، جذبات واحساسات کی تفریح بھی ہوتی ہے، دل کی تفریح بھی ہوتی ہے اور یہ تفریح انسانی مزاج، انسانی طبیعت، انسانی جذبات واحساسات کو regenerate کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ انسان ایک ماحول سے اکتا جاتا ہے، بعض اوقات ماحول کی یکسانیت اسے بور کردیتی ہے، وہ پریشان ہوجاتاہے، اس بنا پر ماحول میں جدت پیدا کرنے کے لیے اسے کچھ کرنا پڑتا ہے۔ عربی کا ایک جملہ ضرب المثل ہے: کل جدید لذیذ، ہر جدید لذیذ ہوتاہے، ہرنئی چیز میں ایک لذت ہوتی ہے۔ انسان کا مزاج یہ ہے کہ وہ ہر نئی چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہے، اس لیے کہ وہ نئی چیز میں لذت محسوس کرتا ہے۔ اگر کسی پرانی چیز کو بھی نئے انداز سے پیش کیا جائے تو اس میں بھی ایک نیاپن محسوس ہوتاہے۔ آپ گھر میں جائیں اور گھر کے فرنیچر کو ایک نئے انداز سے ترتیب دے دیں، اس کی تشکیل بدل دیں تو کمرہ نیا معلوم ہونے لگے گا۔ پرانی کتابیں نکالیں، انہیں نئی ترتیب دے دیں، ان کی نئی جلدیں بنوالیں تو آپ کو اس میں ایک نیا پن اور اپنائیت محسوس ہونے لگے گی، ایک خوشی محسوس کریں گے۔ آپ لباس کی تراش خراش میں تھوڑی جدت پیدا کر لیں تو آپ کو اچھا لگے گا، خوشی محسوس ہوگی۔
گویا جدت میں انسان لذت محسوس کرتاہے اور نئے پن میں ایک تفریح محسوس ہوتی ہے۔ عام معمول سے ہٹ کر انسان جب کوئی نئی چیز کرتاہے تو اس کو خوشی ہوتی ہے، اس خوشی کی وجہ سے تفریح محسوس ہوتی ہے، اس تفریح سے جذبے اور احساس میں ایک نئی زندگی محسوس ہوتی ہے۔ ہم لوگ جو شہروں میں رہتے ہیں، تفریح کے لیے پہاڑوں پر جاتے ہیں اور جو لوگ پہاڑوں پر رہتے ہیں، وہ تفریح کے لیے شہروں میں آتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ گاؤں سے لوگ یہاں اسلام آباد آتے ہیں، فیصل مسجد آتے ہیں اور اس گھاس پر بیٹھ کر تفریح محسوس کرتے ہیں۔ جس ماحول میں ہمیں کوئی اپنائیت محسوس نہیں ہوتی، وہ اس ماحول میں پورا دن گزارتے ہیں۔ جو لوگ لاہور کے رہنے والے ہیں، وہ چھانگا مانگا جاتے ہیں اور چھانگا مانگا کے رہنے والے لاہور میں آتے ہیں۔ اس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ جو آدمی جس ماحول میں رہتا ہے، اس سے ہٹ کر وہ نیا ماحول تلاش کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک فطری بات ہے، اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ شریعت نے انسان کے تمام فطری تقاضوں کی تکمیل کا سامان کیا ہے، اس تقاضے کی تکمیل کا سامان اور اس سلسلے میں ہدایات بھی شریعت میں موجود ہیں۔ لیکن اس کی شرائط کیا ہیں؟ اس کی حدود کیا ہیں؟ اس پر ابھی بات ہوگی۔ لیکن اس حد تک ہر شخص اتفاق کرے گا کہ لوگ اپنے مزاج اور طبیعت کو ایک جدت سے ہم آہنگ کریں، اپنی صلاحیتوں کو جلا بخشیں، اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں، اپنی کارکردگی میں اگر کمی آرہی ہے، کوئی سستی واقع ہورہی ہے تو اس سستی کو دور کریں، یہ بات شریعت کے مزاج کے عین مطابق ہے، شریعت نے اس کی تعلیم دی ہے۔
لیکن آگے بڑھنے سے پہلے دیکھیں کہ دوسری اقوام میں تفریح یا تہوار کا تصور کیا ہے؟ تہوار جس کو کہتے ہیں، یہ بھی تفریح کا ایک ذریعہ سمجھاجاتا ہے۔ لوگ منتظر رہتے ہیں کہ فلاں تہوار آئے گا تو تفریح کے مواقع ملیں گے۔ اس موقع پر تفریح کریں گے تو ایک نیا پن محسوس ہوگا۔
اقوام عالم میں تفریح کا تصور
مختلف اقوام نے اپنے اپنے لیے جو تہوار اپنائے ہیں، ان میں کچھ چیزیں قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مشرق کی قومیں ہوں یا مغرب کی، عیسائی ہوں یا یہودی، ہمارے پڑوس میں رہنے والے ہندو ہوں یا سکھ ہویا کوئی اور قوم ہو، ان میں سے اکثر اقوام میں بلکہ اگریہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ سب ہی اقوام میں تہوار کا تصور یہ تھا کہ موسم کی تبدیلی کو نقطہ آغاز قرار دیاجائے۔ انسان تبدیلی سے خوش ہوتا ہے۔ جب تک سردی نہیں آئی ہوتی تو سردی کا منتظر رہتا ہے۔ سردی آجاتی ہے تو گرمی کا انتظار شروع ہوجاتا ہے۔ پھر گرمی آتی ہے تو اس سے پریشان ہوکر سردی کا منتظر رہتا ہے۔ یہ ہم میں سے ہر ایک کے ساتھ ہوتاہے۔ چونکہ یہ انسان کا عام مزاج ہے، اس لیے مختلف اقوام نے موسم کی تبدیلی کو ایک تہوار قرار دیا۔ قدیم ایرانیوں نے اس مقصد کے لیے نوروز مقرر کیا۔ انہوں نے ایک خاص دن کو موسم بہار کا نقطہ آغاز قرار دیا اور یہ سمجھا کہ اس دن ایک نیاپن ماحول اور کائنات میں پیدا ہواہے، اس لیے اسے ایک خاص انداز سے مناتے ہیں۔ کچھ اور اقوام ہیں جو سردی کی آمد کو مناتی ہیں۔ کچھ اور اقوام ہیں جو کسی خاص موسم کی آمد کو مناتی ہیں۔ کوئی گرمی کی آمد کو مناتا ہے، کوئی ہولی کے نام سے جب گرمی آتی ہے تو ایک دوسرے پر رنگ پھینکتے ہیں۔ لیکن تھوڑا سا غور کریں تو کسی خاص موسم کی آمدورفت سے کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ پھر موسم کی آمدورفت ہر علاقے کے لیے مختلف ہوگی۔ فرض کیجیے کہ موسم کی آمد پرجشن منانا اچھی بات ہو یا کم از کم بری بات نہ ہو تو موسم کی تبدیلی ہمارے پاکستان میں فرض کیجیے فروری میں ہوگی۔ لاہور میں فروری ہی میں ہوجاتی ہے، اسلام آباد میں مارچ میں ہوتی ہے۔ شمالی علاقہ جات میں اور آگے جائیں تو اپریل میں ہوتی ہے۔ مزید آگے جائیں تو جون میں ہوتی ہے۔ اور مزید آگے چلے جائیں توپورا سال نہیں ہوتی۔ سال بھر برف باری رہتی ہے۔ ہمارے مغربی علاقوں میں چلے جائیں تو بلوچستان میں شاید جنوری ہی کے کچھ دن سردی رہتی ہو۔ یہ جغرافیائی حالات ہیں جس سے اندازہ کرلیں کہ ہر علاقے اور ہر ملک میں ایک نئے وقت میں موسم کی تبدیلی آتی ہے۔ اس لیے اگر موسم کی تبدیلی کو اسلام بطور جشن کے یا بطور تہوار کے مانتا تو یہ ایک عالم گیر برادری کے لیے قابل عمل نہ رہتا۔ ایک ایسی عالمی برادری جو دنیا کے ہر ملک اور ہرگوشے میں پائی جاتی ہے، جو امریکہ سے لے کر چین تک اور سائبریا سے لے کر انتہائی جنوبی علاقوں سڈنی اور کیپ ٹاؤن تک میں موجود ہو، وہ کسی ایک دن کو موسم کی تبدیلی کانقطہ آغاز قرار نہیں دے سکتی۔ اس لیے کوئی ایسا تہوار موسم سے وابستہ نہیں ہوسکتا جو پوری امت مسلمہ کے لیے ہو۔ یہ آپ ذہن میں رکھیں کہ اسلام نے موسموں کو تہوار کیوں نہیں قرار دیا۔ اس لیے نہیں قرار دیا کہ یہ بات اسلام کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں ہے، اسی بنا پر قابل عمل نہیں ہے۔
کچھ اور اقوام نے یہ دیکھا کہ ان کے ہاں دیوتاؤں کے پرانے قصے مشہور ہیں کہ فلاں دیوتا سے یا فلاں دیوی سے یا فلاں بت سے وابستہ یہ واقعہ ہے ، وہ قصہ ہے۔ یہ قصے فرضی تھے یا حقیقی، انہوں نے ان کی یاد منانی چاہی اور انہوں نے ان کے نام پر تہوار مقرر کرلیے۔ اکثروبیشتر دیوتاؤں کے تہوار مشرکانہ ہیں ۔ مشرکانہ یادوں، مشرکانہ اعمال اور مشرکانہ عقائد کی بنیاد پر یہ تہوار مقر ر کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر اولمپک گیمز کیا ہیں؟ میں کوئی فتویٰ نہیں دے رہا۔ فتویٰ کوئی عالم دے گا۔ لیکن یونانیوں میں اولمپک ایک دیوتا تھا جو کھیلوں کا دیوتا کہلاتا ہے، اس کے نام پر یہ اولمپک گیمز ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے مختلف دیوتاؤں کے ناموں پر تہوار ہوا کرتے تھے۔ یہ اکثر یونانیوں کے یا رومیوں کے تہوار ہیں۔ ان کے ساتھ ان کی دیویاں وابستہ ہیں، ان کی یادیں وابستہ ہیں، ان کے ناموں سے یہ تہوار منائے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہندوستان میں برصغیر میں رام کی لیلا ایک تہوار ہوا کرتا تھا۔ میرا بچپن ہندوستان میں گزرا، اس لیے مجھے کچھ چیزیں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ غالباً ۱۹۵۶ء کی بات ہے، میں اپنے اعزہ کے ہاں انڈیا گیا ہوا تھا۔ ہماری والدہ کی نانی محترمہ تھیں، اللہ انہیں غریق رحمت کرے، اللہ کی ولیہ خاتون تھیں۔ کسی ولی خاتون کا تصور جب میرے ذہن میں آتا ہے تو ان کا آتا ہے۔ جب رام کی لیلا نکلنے والی تھی تو انہوں نے سختی سے منع کیا کہ کوئی بچہ باہر نہ نکلے۔ بچوں کو جس چیز سے منع کریں، اسی کا اشتیاق ہوتا ہے کہ کیا ہے۔ اور تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا، ایک کمرہ تھا جو اسٹور کے طور پرگندم وغیرہ رکھنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس میں ایک کھڑکی تھی، ہم کئی بچوں نے چارپائیاں اورسیڑھیاں کھڑی کر کے یہ فیصلہ کیا کہ اماں سے نظر بچا کر اس کھڑکی سے چڑھ کر دیکھیں گے کہ رام کی لیلا کیا ہوتی ہے؟ یوں ہم نے رام لیلا کا جلوس دیکھا۔ اس میں کئی چیزیں دلچسپی کی تھیں جو کسی بھی بچے کی دلچسپی کی ہو سکتی ہیں۔ ایک شخص جس نے ایک خاص طرح کے سوانگ بھرا ہوا تھا، وہ ہاتھی کے اوپر سوار تھا اور لوگ اس کے پاؤں چوم رہے تھے۔ اس کے پیچھے پیچھے دو تین خواتین جنہوں نے بے تحاشا کا میک اپ کیا ہوا تھا، لباس بھی بے ہودہ سا تھا، وہ اونٹوں، ہاتھیوں اور گھوڑوں پر سوار چلی آرہی تھیں۔ یہ ایک بہت بڑا جلوس تھا جس میں طرح طرح کی خرافات تھیں۔ اس وقت اس سے زیادہ کچھ معلوم نہیں تھا۔ بہت عرصے بعد یہ پتہ چلا کہ رام لیلا کیاہوتی ہے؟ قرآن پاک میں ایک جگہ آیا ہے: وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاء وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْْنَہُمَا لٰعِبِیْنَ (الانبیاء :۱۶) ہم نے آسمان اور زمین کو کسی کھیل میں پیدا نہیں کیا۔
ممکن ہے یہ سوال آپ کے دل میں بھی آیا ہو کہ کون کہتا ہے کہ اللہ نے یہ سب کچھ کھیل میں پیدا کیا ہے؟ جب میں نے اس آیت کا ترجمہ پہلی بار پڑھا تو مجھے خیال ہوا کہ یہ کون سمجھتا ہے؟ ہم نے تو کبھی نہیں سوچا کہ آپ نے یہ سب نعوذ باللہ کھیل میں پیدا کیاہے ۔پھر جب کچھ عرصے بعد ہندو مذہب پر کتابیں پڑھیں تو معلوم ہوا کہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ رام پوری کائنات کا خالق اکبر ہے، جس کی یادگار کے طور پر وہ ایودھیا میں مندر بنانا چاہتے ہیں جو اس کی جنم بھومی ہے۔ خدا ان کے ہاں پیدا ہوتا ہے۔ جب وہ پیدا ہوا تو وہ تنہا تھا۔ وہ اکیلے بیٹھے بیٹھے بور ہوتا تھا، اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کیا کرے؟ اس کی تفصیل بیان نہیں کی جاسکتی، کیوں کہ نہایت فحش خرافات اور بے ہودہ چیزیں وہ بیان کرتے ہیں کہ ر ام نے اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لیے کیا کیا؟ خلاصہ یہ ہے کہ اس نے اپنے میل سے ایک لڑکی پیدا کی، دل بہلانے کے لیے اسے اپنے ساتھ رکھا۔ کچھ دن تو دونوں کا دل بہلارہا، پھر یہ بور ہونے لگے تو سوچا کہ کیا کریں؟ پھر انہوں نے کچھ کرنے کے لیے کائنات بنائی۔ تو یہ ساری کائنات انہوں نے دل بہلانے کے لیے بنائی ہے۔ لیلا کائنات کو کہتے ہیں، رام کی لیلا یعنی یہ پوری کائنات رام کی لیلا ہے۔ رام نے اپنے کھیل کود کے لیے، اپنی تفریح کے لیے یہ پوری کائنات یہ سارا سنسار سجایا ہے۔ جب اس کا دل بھرجائے گا تو وہ اسے توڑ دے گا۔ پھر کچھ اور شروع کردے گا، یہ ہے رام لیلا اور قرآن پاک میں اس کی تردید ہے کہ ہم نے کائنات کو کھیل کود کے لیے پیدا نہیں کیا۔
آپ دیکھیں کہ عرب میں کسی کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ اسلام ہندوستان میں جائے گا، وہاں ایک ایسی فضول قوم ہوگی جو اس طرح کے عقائد رکھتی ہوگی جس کی تردید قرآن پاک میں پہلے دن سے موجود ہے۔ لیکن اس کے بعد ہندوستان جانے کا اتفاق ہوا تو کئی لوگوں سے سنا کہ یہ ایک تہوار ہے، ہندوؤں کی کلچرل چیز ہے۔ آخر مسلمان بھی یہاں رہتے ہیں، انہیں ہندوؤں کے کلچر میں شریک ہونا چاہیے، لیکن اگریہ معلوم ہو کہ یہ ایک خالص بے ہودہ، مشرکانہ اور کافرانہ عقیدہ ہے تو وہ کبھی ایسا خیال تصور میں بھی نہ لائے۔ اب ایک موحد انسان جو خالق کائنات پر ایمان رکھتا ہو اور قرآن پاک کے نظریہ توحید کو مانتا ہو، ایک لمحے کے لیے بھی مسلمان کا مزاج اور اس کی طبع سلیم برداشت نہیں کرسکتی کہ کسی بھی کلچر کے، کسی ثقافت کے نام سے وہ رام کی لیلا میں شرکت کرے۔ ہندو کرتے رہیں، ٹھیک ہے۔ مسلمان نہ اس میں شرکت کرے نہ اس پر اعتراض کرے۔ اگر اعتراض نہیں کرسکتے تو کم از کم گھر میں بیٹھیں۔ اکثر وبیشتر تہواروں کایہی حال ہے کہ وہ مختلف اقوام کے، بت پرستوں کے تہوار ہیں یا خاص واقعات جو قوموں کی تاریخ میں ہوئے ہیں، جن میں سے بیشتر واقعات کا تعلق ان کے کافرانہ عقائد اور بت پرستانہ تصورات سے ہے، ان کی یاد میں یہ تہوار منائے جاتے ہیں۔
یہ بات کہ ہندوؤں میں مختلف چیزوں کے دیوتا ہیں، ہر شخص جانتا ہے۔ ہندو ہر اس چیز کو جو کسی طرح کا نفع یا ضرر رکھتی ہو، دیوتا مانتے ہیں۔ ان کے دیوتاؤں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہر فطری مظہر کا بھی ایک دیوتا قرار دیاہے۔ ایک دولت کا دیوتا ہے، ایک غریبی کا دیوتا ہے، ایک بیماری کا دیوتا ہے۔ اگنی دیوی کا نام آپ نے سنا ہوگا جو دولت کی دیوی ہے۔ جب کہیں اترتی ہے تو وہ اندھی ہے، اس کی نگاہ کمزور ہے، اسے نظرنہیں آتا۔ جہاں زیادہ روشنی ہو، وہاں اتر جاتی ہے۔ جب اترنے کا وقت ہوتا ہے تو گھروں میں چراغاں کیا جاتا ہے۔ شب برات کے چراغاں کایہ پس منظر ہے۔ جب وہ اترتی ہے تو زیادہ چراغاں ہوتاہے تاکہ جہاں زیادہ روشنی ہوگی، وہ وہاں اترجائے گی، کیونکہ وہ ندھی ہے، اسے نظر نہیں آتا۔ جب وہ اترے گی تو دولت آجائے گی۔ اب غور کرلیجیے کہ یہ عقیدہ معلوم ہو تو شب برأت کے پٹاخوں کی خرافات میں کون مسلمان شرکت کر سکتا ہے؟ شب برات میں چراغاں کرنے والوں کو دیکھتا ہوں تو ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔
اسی طرح ان کے ہاں موسم بہار کی بھی ایک دیوی ہے۔ یہ دیوی زرد کپڑے پہن کر اترتی ہے اور ایسی جگہ اترتی ہے جہاں زیادہ زردی ہو۔ اس گھر میں زیادہ بہار آجاتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہندوؤں میں اور ہندو زدہ ہمارے بھائیوں اور بہنوں میں ایک خاص دن ہی زردکپڑے پہننے کا بڑا رواج ہے۔ گیندے کے زرد پھول، زرد کپڑے، زعفران میں رنگے ہوئے کپڑے۔ لوگ بڑی سادگی سے پوچھتے ہیں کہ آپ کو ہر چیز پراعتراض ہے، زعفران پر کیا اعتراض ہے؟ مجھے زعفران پر کوئی اعتراض نہیں۔ آپ زعفران ضرور کھائیں، استعمال کریں۔ جو مرضی کریں، لیکن اگر ایک خاص دن میں آپ زعفران اس لیے استعمال کریں کہ اس کا رنگ پیلا ہے اور پیلے رنگ میں حکمت یہ بتائی جاتی ہے کہ اس موسم بہار کی دیوی کو پیلا رنگ پسند ہے اور وہ اس روز اترتی ہے اور پیلا رنگ جہاں ہوتا ہے، وہاں وہ زیادہ اترتی ہے تو پھر مجھے تامل ہوتا ہے کہ یہ چیز میرے عقیدے کے خلاف ہے، اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
جو مسلمان خداے و احد کو مانتا ہو اور ہر چیز اللہ کے حکم سے مانتا ہو، وہ کسی دیوی کے چڑھنے اترنے کا ایک لمحے کے لیے بھی تصور نہیں کر سکتا۔ بظاہر چیزیں ثقافتی اور کلچرل معلوم ہوتی ہیں اور کچھ لوگ سادہ لوحی میں یا زبردستی، دھونس اور دھاندلی میں اس کا کلچرل، ثقافتی یا معاشرتی پہلو سامنے رکھتے ہیں کہ موسم بہار کی آمد پر لوگ خوشی منالیں اور پتنگ اڑالیں تو آ پ کاکیا نقصان ہے؟ پتنگ اڑانے میں کوئی نقصان نہیں ہے، کوئی اڑانا چاہتا ہے تو اڑائے، لیکن پوری قوم کوپتنگ بازی پر لگا دیں اور پوری قوم کی ساری توجہ اس جانب لگ جائے، درجنوں آدمی اس روز مارے جائیں۔ ایک طرف انسانی جان کی قدر وقیمت کے نعرے لگائے جاتے ہیں، ایک جانب ڈگنٹی آف مین (Dignity of man) کی بات کی جاتی ہے۔ اگر کہیں اسلام کے حوالے سے کہا جائے کہ فلاں آدمی نے میری انگلی کاٹ دی، لہٰذا قصاص میں اس کی انگلی کاٹ دی جائے تو وہاں تو ڈگنٹی آف مین (Dignity of man) یادآجاتی ہے کہ اس قاتل، ڈاکویا چور کی، جس نے حملہ کر کے میری انگلی توڑ دی تھی، اس کی انگلی سلامت رہے، میری انگلی کی خیرہے، لیکن جہاں درجنوں آدمی روزانہ موت کے گھاٹ اترتے ہوں، اس کا کسی کو احساس نہ ہو، یہ افسوس اور دکھ کی بات ہے۔
تو یہ تہوار کی ایک دوسری قسم ہے۔
تہوار کی ایک تیسری قسم وہ ہوتی ہے اور مختلف اقوام میں یہ قسم بھی پائی جاتی ہے کہ کسی خاص حکمراں کو اس دن حکومت قائم کرنے کا موقع ملا، کسی خاص خاندان کو تخت نشین ہونے کا موقع ملا، کوئی خاص بادشاہ مرگیا، کوئی دوسرا بادشاہ تخت پربیٹھ گیا تو اس دن سے تہوار شروع ہو گیا، اس روز کو یادگار کے طور پر منایاجانے لگا۔ یہ دنیا کی ہر قوم میں ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس طرح کے تہوار بدلتے بھی رہتے ہیں۔ جس بادشاہ کا عروج ہوتاہے، اس کی تخت نشینی تہوار بن جاتی ہے۔ جب اس کا زوال شروع ہوجاتا ہے تو اس کے تہوار کو بھی لوگ بھول جاتے ہیں۔ اس طرح کے تہوار ماضی میں ہزاروں آئے اور ہزاروں ختم ہوگئے جن کے بارے میں آج کسی کو معلوم نہیں۔ کچھ بادشاہ ایسے ہوتے ہیں جن کا تہوار کافی دن چلتا ہے۔ ایک زمانے میں ہمارے برادر ملک مصر میں فرعون کا بڑا رواج تھا۔ وہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ فرعون ان کی تاریخ کابڑا فرماں روا گزراہے، لہٰذا وہ ان کے لیے ایک ہیرو اور رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہاں یہ بحث چلی، باقاعدہ تحقیقیں ہوئیں، جامعات میں مقالے لکھے گئے کہ ان میں سے سب سے بڑا فرعون کون تھا جس کی یاد منائی جائے؟ فرعون تو لقب تھا، ہر بادشاہ کو فرعون کہتے تھے، لیکن ان میں سے متعین فرعون جو ان میں سب سے بڑا ہوا، اس کی نشان دہی کی جائے۔ پتہ چلا کہ وہ وہی تھا جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ ہوا تھا،چنانچہ اس کو ہیرو بنانے کی کوشش شروع ہوئی۔ اب ہیرو تو بنالیا، اس کے نام کے بت بھی بنائے گئے، ہوٹل بنائے گئے، لیکن اس میں بڑی تحقیق کرنی پڑی کہ وہ پیدا کس تاریخ کو ہوا اور مرا کس تاریخ کو تھا، تاکہ اس تاریخ کو جشن منایا جائے، لیکن نہ اس کی پیدائش کی تاریخ کا پتہ چلا نہ مرنے کا، اس لیے جشن والی بات تو ختم ہوگئی۔
یہ بھی ایک انتہا ہے۔ جب کسی فرد کو رول ماڈل بنایاجائے اور اس کی ذات کو مرکز بنایاجائے تو یہ نتائج نکلتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں آپ دیکھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات گرامی کو کسی تہوار کا موضوع قرار نہیں دیا۔ نہ آپ کے یوم پیدائش کوصحابہ نے تہوار بنایا، نہ اسے ہجری کیلنڈر کاآغاز قرار دیا، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے کیلنڈر شروع ہوا، نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ذاتی فعل وعمل سے ہوا۔ آپ کی شادی بھی ہوئی، آپ کی اولاد بھی ہوئی، بہت سے واقعات ہوئے، لیکن صحابہ کرام نے بالاتفاق ان میں سے کسی واقعے کو اسلامی کیلنڈر کا آغاز قرار نہیں دیا۔ خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان میں سے کسی واقعے کو تہوار قرار نہیں دیا۔
کچھ اور اقوام میں تہواروں کا ایک اور سبب پایاجاتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ کسی خاص جنگ میں کسی کو کامیابی ہوئی تو اس کی یاد میں تہوار منایاجانے لگا۔ مسلمانوں کو اللہ نے بڑی کامیابیاں دیں۔ غزوۂ بدر میں بڑی کامیابی ہوئی جسے قرآن نے یوم الفرقان قرار دیاہے۔ صلح حدیبیہ کو فتح مبین قرار دیاہے، فتح مکہ جیسی کامیابی ہوئی،لیکن ان میں سے کسی بھی جنگ میں کامیابی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کاتہوار یا یادگار قرار نہیں دیا۔ صحابہ کرامؓ نے ان میں سے کسی کی یاد نہیں منائی۔ آپ نے سیرت، تاریخ یا صحابہ کرام کی سوانح عمری میں کہیں نہیں پڑھا ہوگا کہ انہوں نے یوم بدر منایا ہو، انہوں نے فتح مکہ کا دن منایا ہو، انہوں نے صلح حدیبیہ کی کامیابی کا جشن منایا ہو۔ اس بات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اسلام کا مزاج تفریح اور تہوار کے بارے میں کیا ہے؟
اسلام کا تصور تفریح
اسی طرح سے آپ غور کریں کہ جتنے تہوار ہیں جن مواقع پر انسان تفریح مناتے ہیں، ان میں سے کسی موقع کو اللہ تعالیٰ نے تفریح کے لیے یا تہوار کے طور پراختیار نہیں کیا۔ اسلام میں صرف دو عیدیں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے: لکل قوم عید وھذا عیدنا۔ ہرقوم کی ایک عید ہوتی ہے اور ہماری عیدیں یہ دو ہیں یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی۔ آپ دیکھیں کہ نہ کسی بادشاہ کی تخت نشینی سے ان کا تعلق ہے، نہ کسی جنگ میں کامیابی سے تعلق ہے، نہ کسی ریاست وسلطنت کے قیام سے تعلق ہے، نہ کسی خاندان کی حکمرانی سے تعلق ہے کہ فلاں خانوادۂ شاہی کا عہدشروع ہوگیا، نہ کسی بڑے آدمی کی پیدائش ووفات سے تعلق ہے۔ ان دونوں عیدوں کا تعلق دو خالص اصولوں سے ہے، دو ایسے اصول جو انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کا ہمیشہ ممتاز ترین وصف رہے ہیں۔ ایک اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی الٰہی کانزول، قرآن مجید کی عطا جس کے شکر میں عید الفطر منائی جاتی ہے اور دوسرے اللہ کے حضور اتنی بڑی قربانی کہ اس سے بڑی قربانی کسی انسان نے کبھی نہیں دی، اس کی یاد میں عید الاضحی منائی جاتی ہے۔ ایک کاز کے لیے، اللہ کے حکم کے لییاپنی عزیز ترین چیز کی قربانی دینے کی جو مثال قائم ہوئی، عید الاضحی اس کی یادگار ہے۔ گویا تفریح کا تعلق بھی اور تہوار کا تعلق بھی نظریے ا ور اصول کے ساتھ ہے۔
نظریہ، اصول اور تفریح، یہ آپس میں اس طرح سے باہم مربوط ہیں کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ بظاہر اس میں آپ کو کوئی خاص معنویت معلوم نہیں ہوگی۔ آدمی سوچ سکتا ہے چلیے مسلمان بڑے مذہبی قسم کے لوگ تھے، انہوں نے کسی حکومت کے قیام پر نہیں، قرآن کے نزول پرجشن منایا، اس میں کون سی خاص بات ہے؟ لیکن درحقیقت اس میں بڑی خاص بات پوشیدہ ہے۔ تفریح کرنے کے مواقع ہم نے دیکھ لیے کہ کیا کیا ہوتے ہیں۔ یہ تو قومی مواقع ہوئے۔ اس کے بعد انفرادی مواقع ہوتے ہیں کہ فرد کو خوشی ہوتی ہے۔ کسی کی شادی ہے، اس کو خوشی ہوئی۔ کسی کو اللہ نے بیٹا دیا، خوشی ہوئی۔ کسی کو کامیابی ہوئی، اچھی ملازمت مل گئی، کاروبار میں ترقی ہوگئی، اس طرح کے ذاتی مواقع بہت آتے رہتے ہیں اور ہر ذاتی موقع پر انسان خوشی کا اظہار کرتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اس کی تلقین فرمائی بلکہ خود بھی اس پر عمل کرکے دکھایا۔ گویا مواقع دو طرح کے ہوئے: قومی، ملی اور اجتماعی مواقع جو شریعت نے دو رکھے ہیں، یعنی عید الفطر اور عیدالاضحی جن کا تعلق دو بڑے اصولوں سے ہے۔ اس کے بعد انفرادی مواقع جو ہر فرد کی زندگی میں پیش آتے ہیں اور مشہورہیں۔ شادی بیاہ ہے، پیدائش ہے، ملازمت ہے، کاروبار ہے، مکان نیا بنایا ہے، اس طرح کے اور کئی معاملات ہوسکتے ہیں۔ کچھ اور مواقع بھی ہوسکتے ہیں جو ان دونوں کے درمیان میں ہیں۔ مسلمانوں کے ایک بہت بڑے گروہ کو کسی بات پر خوشی ہوئی، مثلاً قیام پاکستان ہے، یہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے خوشی کا موقع ہے۔ مصر کے مسلمان ہیں، انہیں ۱۹۷۳ء میں اللہ تعالیٰ نے اسرائیل پر فتح دی۔ ۶؍ اکتوبر کو وہ جشن مناتے ہیں۔ ایک بڑے دشمن پر اللہ نے انہیں کامیابی دی، اس پر وہ خوشی کااظہار کرتے ہیں۔ یہ عارضی یاعلاقائی قسم کے مواقع ہوسکتے ہیں، شریعت ان سے نہیں روکتی۔
اسلام نے تفریح کے جو مواقع بتائے ہیں، ان میں ذاتی مواقع، ملی اور قومی سطح کے مواقع اور علاقائی سطح پر ہرخوشی اور جائز کامیابی کے مواقع شامل ہیں جو شریعت کی حدود کے اندر ہوں۔ ان کی خوشی منانے اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر ادا کرنے کا اہتمام نہ صرف جائز ہے، بلکہ قرآن مجید کے بالواسطہ اشارے کے مطابق مسنون اور بہترہے: قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہِ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُوا (یونس: ۵۸) اللہ کے فضل کو یاد کرکے خوشی کا اظہارکرو، فرحت کا اظہار کرو۔ یہی تفریح ہے۔ وَأَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ (الضحیٰ: ۱۱) اللہ تعالیٰ جو نعمت عطا کرے، اسے بیان کرو۔ کیونکہ جب نعمت کو بیان کروگے تو نعمت کی قدر ہوگی، ورنہ بھول جاؤ گے کہ اللہ نے یہ نعمت تمہیں عطا کی ہے۔ اگر اللہ کی نعمت کااظہار دوسروں کے سامنے نہیں کرو گے تو یاد نہیں رہے گا کہ اللہ نے بڑی نعمت دی تھی۔
تفریح اور تہوار جیسا کہ میں نے عرض کیا، ایک فطری ضرورت ہے اور ہر انسان کسی خاص موقع پر خوشی منانا چاہتا ہے، لیکن اگر خوشی اور تفریح حدود سے نکل جائے گی تو اس سے اخلاقی، معاشی، معاشرتی بہت سی قباحتیں پیدا ہوں گی۔ ایک قباحت کا ابھی ذکر ہوا۔ لاہور میں بسنت کے موقع پر چند سال پہلے۲۲ افراد ہلاک ہوئے اور چالیس پچاس کروڑ روپے ضائع ہوئے۔ اس طرح کا کوئی تہوار اسلام نے نہیں رکھا۔ اسلام نے تہوار اور تفریح کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے۔ ایک تہوار تو وہ ہے جو ایک متعین دن منایاجائے اور ساری امت اور ساری قوم مل کر اس میں شریک ہو اور اپنی خوشی ومسرت کااظہار کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لکل قوم عید وھذا عیدنا (صحیح بخاری) ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے، ہماری عید یہ ہے جو ہم منا رہے ہیں۔
تفریح کی حدود
لیکن ان دو تہواروں کے علاوہ ویسے بھی انسان کا کبھی کبھی یہ جی چاہتا ہے کہ اپنے عام معمولات اور ماحول سے نکل کر کسی نئے ماحول میں جائے، کسی نئی کیفیت کو محسوس کرے اور چوں کہ جدت کے احساس میں لذت ہے، اس لذت سے اپنی قوتوں،حوصلوں، اپنے مزاج کو تازہ کرے، دماغ کو تازہ ہوا دے، یہ ہر انسان چاہتا ہے۔ یہ بات اگر حدود کے اندر نہ ہو تو عملاً ممکن نہیں ہے۔ انسانوں کی ہرسرگرمی کے لیے حدود درکار ہیں۔ یہ ایسی واضح اور بدیہی بات ہے جس کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ ہر مسلم، غیر مسلم اس کو تسلیم کرے گا کہ ہر انسان کی خواہش کی تکمیل کو حدود کا پابند ہونا چاہیے۔ اگر کوئی شخص کہتا ہے کہ حدود کی پابندی ضروری نہیں ہے تو وہ غلط کہتا ہے۔ ہر خواہش کی تکمیل حدود کا تقاضا کرتی ہے۔ میری خواہش ہے کہ مجھے مزیدار سے مزیدار کھانے ملیں، لیکن اس کی حدود ہونی چاہییں۔ اگر اس کی حدود نہ ہوں تو میں آپ کے گھر میں گھس جایا کروں اور جو اچھا کھانا ملا کرے، کھاجایا کروں۔ ظاہر ہے کہ اس کو کوئی بھی پسند نہیں کرے گا۔ ہرشخص چاہتا ہے کہ اس کے پاس بڑی اچھی گاڑی ہو۔ اگر کوئی حدود کا پابند نہ ہو تو ہم میں سے ہر شخص باہرنکلے اور جو اچھی گاڑی نظر آئے، اسے ڈرائیو کرکے چلتا بنے۔ ظاہر ہے اس کو کوئی پسند نہیں کرے گا۔ اس لیے حدود ہونی چاہئیں، اخلاقی حدود ہونی چاہئیں۔ ہرنوجوان شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی ازدواجی زندگی اچھی گزرے، اچھی خاتون کے ساتھ گزرے۔ اس خواہش کو حدود کا پابند نہ بنایا جائے تو معاشرہ جنگل بن جائے گا۔ ہرنوجوان خاتون کی خواہش ہے کہ اس کے گھر کا اچھا ماحول ہو، اس کااپنا گھر ہو، اس کا شوہر ہو، اس کے بچے ہوں، لیکن اگر اس کو اخلاقی حدود کا پابند نہیں بنایا گیا تو معاشرہ بداخلاقی کے سیلاب میں بہہ جائے گا۔ اس لیے یہ بات کہ انسان کی خواہشات بلکہ جائز خواہشات کو بھی حدود کا پابند ہوناچاہیے، یہ دنیا کا ہر سلیم الطبع انسان تسلیم کرے گا۔ کوئی سلیم الطبع انسان اس سے اختلاف نہیں کرسکتا۔ اگر وہ اختلاف کرتا ہے تو وہ سلیم الطبع انسان نہیں ہے۔ اس سے بات کرنا بے کار ہے۔
جب یہ بات مان لی گئی کہ ہر انسان اپنی خواہشات کو حدود میں رہ کر ہی پورا کرنے کا پابند اور مکلف ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ حدود کیا ہیں اور ان حدود کو کون مقرر کرے گا؟ میں مقرر کروں گا یا آپ؟ اگر میں آپ کے لیے مقرر کروں تو میں کون ہوتا ہوں آپ کے لیے یہ حدود مقرر کرنے والا؟ مجھے آپ پر کیا فضیلت حاصل ہے کہ میں آپ کے لیے اس قسم کی حدود مقرر کروں؟ اور اگر آپ مقررکریں تو یہی سوال میں کر سکتا ہوں کہ آپ کویہ حدود مقرر کرنے کاکیا اختیار حاصل ہے؟ آپ کو کیا برتری حاصل ہے اور میں آپ کی مقرر کردہ حدود کا پابند کیوں ہوں؟ یا کوئی اور ہمارے لیے کرے تو کیوں کرے؟ اس لیے کہ جو شخص بھی یہ حدود مقرر کرے گا، اس کے اپنے خیالات ہوں گے، وہ اپنی تحدیدات سے محدود ہوگا، اس کا تجربہ محدود ہوگا، اس کا اپنا مخصوص پس منظر ہوگا، وہ کوئی بسنت کا رسیا ہوا تو بسنت کے بڑے احکام وضع کردے گا اور کوئی رام لیلا کا رسیا ہوا تو اس کو منانے کی گنجائش پیدا کرے گا اور بہت خشک آدمی ہوا تو جائز تفریح کے راستے بھی بند کردے گا، اس لیے کسی انسان کو یہ حدود مقرر کرنے کا فریضہ سونپنا بڑا خطرناک ہے۔ اگر وہ اچھی حدود بھی مقرر کردے تو وہ حدود چند مہینے، چند سال، چندعشرے چلیں گی، اس کے بعد وہ از خود حالات سے غیر متعلق ہوجائیں گی، بے کار ہوجائیں گی۔ جب وہ حالات بدل جائیں گے، زمانہ تبدیل ہوا تو وہ حدود بھی بدلنی پڑیں گی۔ پھر کیاہوگا؟ اس لیے بہتر ہے بلکہ ضروری ہے کہ یہ حدود کوئی ایسی قوت مقرر کرے جو موجودہ تحدیدات سے محدود نہ ہو، جو موجودہ قیود سے مقید نہ ہو، جو زمان ومکان سے ماورا ہو، جو کسی کے مفاد سے متاثر نہ ہو، جس کے پیش نظر کسی خاص گروہ یا فرد کی مصلحت نہ ہو، جو سب کو یکساں نظر سے دیکھتی ہو، جس کی نظر میں کالا اور گوراسب برابر ہوں، جس کی نظر میں غریب اور امیر میں کوئی فرق نہ ہو۔ وہ صرف خالق کائنات ہی ہو سکتا ہے، اس لیے اس طرح کی حدود جو سارے انسانوں کے لیے ہوں اور سارے انسان اس پر یکساں طور پرعمل کرسکتے ہوں، وہ حدود خالق کائنات ہی مقرر کر سکتا ہے۔
وحئ حق بنندہ سود ہمہ
در نگاہش سو دوبہبود ہمہ
صرف وحی حق ہے جو ہر شخص کے مفاد کودیکھتی ہے۔ اس کی نگاہ میں ہر انسان کا فائدہ، کامیابی اور فلاح ہے۔ وہ ذات متعین کرے گی کہ کیا حدود ہیں! وحی حق نے کیا حدود مقرر کی ہیں؟ ان میں سے کوئی بھی حد ایسی نہیں ہے جس سے کوئی سلیم الطبع انسان بھی اختلاف کرسکے۔ کوئی انسان جس میں اخلاق کی رمق ہو، جس میں فطرت سلیمہ ہو، وہ مسلم ہو یا غیر مسلم، مشرقی ہو یا جنوبی، عالم ہو یاجاہل، اسلام کا حوالہ دیے بغیر اس سے پوچھیں تو وہ اس کو تسلیم کرے گا۔
سب سے پہلی حد جو کسی تفریح کو منانے کے لیے درکار ہے، جس کی حدسے آگے نہیں جانا چاہیے، وہ ہے حیا۔ انسان کو حیا کا پابند ہونا چاہیے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں دریا کی سیر کو جاؤں۔ اچھی بات ہے، جانا چاہیے۔ وہاں خواتین بھی موجود ہوتی ہیں۔ اگر کوئی انسان کپڑے اتار کر دریا میں دوڑ لگانا شروع کر دے تو اسے کوئی پسند کرے گا؟ مشرق ومغرب کا کوئی سلیم الطبع انسان اس کو پسند نہیں کرے گا۔ دس مردوں کا کہیں اجتماع ہو، چار خواتین جا کر تیراکی کا لباس پہن کر وہاں تیرنا شروع کر دیں تویہ اسلام کے تصور حیا کے خلاف ہے۔ حیا اور اخلاق بنیادی حد ہے جو شریعت نے مقرر کی ہے اور حیا کے آداب کی پاس داری کسی نہ کسی حد تک ہر انسان کرتا ہے۔ یہ توہوسکتا ہے کہ میں حیا کی حد کچھ اور مقرر کروں، دوسرا حد اور مقرر کرے۔ اس پر تو بات ہوسکتی ہے کہ حیا کی حد کہاں مقرر کی جائے، لیکن حیا کی حد مقرر کرنے پر ہرانسان کا اتفاق ہے۔
کافی عرصہ پہلے مجھے کسی مغربی ملک میں جانے کا اتفاق ہوا، پچیس تیس سال پہلے کی بات ہے۔ اس وقت پہلی مرتبہ مجھے یہ پتہ چلا اور مجھے کئی رات تک نیند نہیں آئی، عجیب ذہنی کیفیت رہی۔ مجھے پتہ یہ چلا کہ مغربی ممالک میں برہنہ لوگوں کے کلب ہوتے ہیں۔ وہاں جو جاتا ہے، وہ مادر زاد برہنہ رہتا ہے۔ مرد، عورت، بچے، بوڑھے۔ اس کے قواعدوضوابط ہیں۔ ایک رسالہ تھا، اس میں کسی کلب کے متعلق قواعد وضوابط لکھے ہوئے تھے۔ ان قواعد وضوابط کی مثال میرے ذہن میں اس لیے آئی کہ ان بے حیا اور بداخلاق لوگوں میں بھی حیا کا تھوڑا سا تصور موجود تھا۔ اس میں یہ لکھا تھا کہ جو ہمارے کلب کا ممبر بنے گا، وہ کلب کی چار دیواری سے باہر برہنہ حالت میں نہیں جائے گا۔ میں بات یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بداخلاق سے بداخلاق اور بے حیا سے بے حیا انسان میں بھی حیا واخلاق کی کوئی نہ کوئی رمق موجود ہوتی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فطری چیز ہے۔ اگر شریعت نے حیا کی شرط رکھی ہے تو وہ انسانی فطرت کے مطابق رکھی ہے۔ کوئی چیز خلاف فطرت یا انسانی مزاج وطبیعت کے خلاف نہیں ہے۔ یہ ایک بنیادی حد ہے۔
دوسری بنیادی حد یہ ہے کہ تفریح یا خوشی منانے میں اسراف اور تبذیر سے کام نہیں لینا چاہیے۔ خوشی منائیں، اللہ نے اچھے کپڑے دیے ہیں، آپ پہنیں۔ اچھا کھانے کو دیا ہے، اچھا کھانا بھی کھائیں۔ دوستوں، رشتے داروں، عزیزوں کو، اپنے پسندیدہ لوگوں کو بلا کر گھر میں تقاریب بھی منعقد کریں۔ اللہ تعالیٰ کی شریعت نے ان چیزوں سے بالکل نہیں روکا، لیکن اسراف وتبذیر سے کام نہ لیں۔ اسراف وتبذیر قرآنی اصطلاحات ہیں۔ اسراف سے مراد کسی جائز کام میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا ہے اور تبذیر سے مراد ناجائز کام میں خرچ کرنا ہے، خواہ وہ ایک پیسہ ہی کیوں نہ ہو۔ ناجائز کام میں ایک پیسہ بھی خرچ کرناتبذیر ہے اور جائز کام میں اگر ایک لاکھ کی ضرورت ہے تو ایک لاکھ خرچ کرنا بھی اسراف نہیں ہے، لیکن اس صورت میں ایک لاکھ ایک روپیہ خرچ کرنا اسراف ہوگا۔ اگر ایک لاکھ میں کام ہوتا ہے تو ایک لاکھ خرچ کریں، شریعت اس سے نہیں روکتی، لیکن اس سے اوپر اگر دس روپے بھی ہوں گے تو وہ اسراف ہوجائے گا اور اس کا ہر شخص اپنے طور پر فیصلہ کرے گا۔ اس میں کوئی شخص باہر سے آپ کو نہیں بتاسکتاکہ آپ کے لیے اسراف کیاہے۔ تبذیرکی نشان دہی ہوسکتی ہے۔ اگرکام حرام ہے تو اس میں ایک پیسہ خرچ کرنا بھی تبذیر ہے۔ یہ آپ کو شریعت کاعالم بتا سکتا ہے کہ یہ تبذیر ہے یانہیں۔ اسراف کیا ہے؟یہ ہر شخص کے حالات پر منحصر ہے۔ میرے لیے اسراف کچھ اور ہوگا اور آپ کے لیے کچھ اور ہوگا،کسی اور کے لیے کچھ اور ہوگا۔ اپنے حالات کے حساب سے اسراف ہوگا۔
ظاہر ہے اس سے بھی کوئی شخص اختلاف نہیں کرے گا کہ اللہ نے جو وسائل دیے ہیں، جو مال ودولت دیا ہے، اس کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ کائنات کی ہر چیز کا مالک ہے۔ وہ ہمارے مال ودولت کا بھی مالک ہے۔ میری جیب میں جو پیسے ہیں اور آپ کی جیب میں جو پیسے ہیں، اس کا بھی مالک ہے۔ آپ اس رقم کے امین ہیں۔ آپ اس رقم کے ٹرسٹی ہیں اور رقم کو استعمال کرنے کی اللہ نے ہمیں اجازت دی ہے۔ میں اس کی مثال بھی دیا کرتا ہوں کہ میں یونیورسٹی میں کام کرتا ہوں۔ یونیورسٹی نے مجھے استعمال کے لیے ایک گاڑی دے رکھی ہے۔ میں بہ طور صدر جامعہ اس گاڑی کو استعمال کرتا ہوں۔ عرف عام میں وہ میری گاڑی کہلاتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ غازی صاحب کی گاڑی آگئی، غازی صاحب کی گاڑی چلی گئی، غازی کی گاڑی کی مرمت ہوئی۔ حالانکہ یہ میری گاڑی نہیں ہے، میں اس کا مالک نہیں ہوں، لیکن عام بول چال میں میری گاڑی سمجھی جاتی ہے۔ مجھے ہی اسے استعمال کرنے کا حق ہے، کسی اور کو استعمال کرنے کا حق نہیں۔ تقریباً یہی کیفیت اس مال ودولت کا ہے جو اللہ نے ہمیں دیا ہے۔ گھر، جائیداد، ہر چیز کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کے استعمال کی اسی طرح اجازت دی ہے، جیسے یونیورسٹی نے مجھے گاڑی استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ اگر میں یونیورسٹی کے قواعد و ضوابط کے مطابق استعمال کروں گا تو وہ جائز ہوگا، قواعد وضوابط سے ہٹ کر استعمال کروں گا تو وہ ناجائز استعمال ہوگا۔ یونیورسٹی نے مجھے اجازت دی ہے کہ میں اس کو ذاتی اور سرکاری دونوں ضروریات کے لیے استعمال کرسکتا ہوں، لیکن اگر میں یہ کروں کہ روزانہ شام کو گھر آکے ایک ڈرائیور کو بلایا کروں کہ میاں اس کو لے جاؤ، کرایے پر چلاؤ اور جو رقم ملا کرے، آدھی تمہاری آدھی میری تو یہ ناجائز اور حرام ہے، اس لیے کہ یونیورسٹی نے مجھے اس کی اجازت نہیں دی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جو مال ودولت دیا ہے، وہ جائز استعمال کے لیے دیاہے، ناجائز استعمال کے لیے نہیں دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ اختیار ہے کہ وہ کہے کہ میری دی ہوئی دولت کو کہاں استعمال کرو اور کہاں استعمال نہ کرو۔ یہ حق اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔
لیکن اگر کچھ لوگ شریعت کے اصولوں سے دلچسپی نہ بھی رکھتے ہوں تو بھی وہ یہ بات تو تسلیم کریں گے کہ مال ودولت انسانوں کی دوسری اعلیٰ وبرتر ضروریات کے لیے ہے۔ تفریح کے علاوہ بھی دوسری اہم ضروریات ہیں، مال ودولت کی زیادہ ضرورت ان کے لیے ہے۔ خدا نخواستہ آپ کے گھرمیں کوئی شدید بیمار ہے، پیسے آپ کے پاس تھوڑے ہیں۔ اب آپ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ اس کا علاج کروائیں، اور چھ ہزار کا Life saving انجکشن خریدلیں اور یہ بھی آپ کے اختیار میں ہے کہ چھ ہزار روپے خرچ کر کے آپ چھانگا مانگا چلے جائیں۔ لیکن کوئی معقول آدمی نہیں کہے گاکہ آپ اپنی ضعیف والدہ کا علاج تو چھوڑ دیں اور یہ چھ ہزار روپے جو آپ کے پاس ہیں، ان سے چھانگا مانگا کی تفریح کرنے چلے جائیں۔ ہر شخص یہی کہے گا کہ اس سے علاج کرانا چاہیے۔ کسی کی تعلیم کاخرچہ ہے، وہ پورا کرنا چاہیے۔ مکان کی چھت گرگئی ہے، بارش سے پانی بہہ رہا ہے تو کوئی یہ نہیں کہے گا کہ جی، چھ ہزار روپے سے چھت کی مرمت کی ضرورت نہیں، تفریح کرنے جاتے ہیں۔ ہرمعقول اور سلیم الطبع آدمی یہ کہے گا کہ یہ پیسہ تفریح کے بجائے فلاں بنیادی کام میں خرچ ہونا چاہیے۔ گویا جو بات شریعت نے کہی ہے، وہ ہر سلیم الطبع شخص مانتا ہے کہ تفریح کی ضرورت وہاں ہے جہاں باقی ضروریات آپ کی پوری ہوں، جہاں آپ کی ساری پریشانیاں دور ہوگئی ہوں اور اللہ نے جائز وسائل دیے ہوں جو آپ تفریح میں خرچ کرسکتے ہوں، ورنہ جائز ضروریات کو نظر انداز کر کے، اپنے فوری مسائل کو قربان کرکے تفریح کرنا کوئی معقول انسان پسند نہیں کرتا۔ نامعقولوں کی دنیا میں کمی نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین کی کہ جائز خوشی اور مسرت کے جو بھی جائز مواقع ووسائل موجود ہیں بغیر اسراف کے، بغیر تبذیر کے، بغیر اخلاقی، انسانی اور شرعی حدود کو توڑے جو بھی طریقہ ہو، اس کواختیار کرسکتے ہیں، چنانچہ بتایا گیا کہ بہترین کپڑے جو انسان کے پاس موجود ہوں، ان کوپہنے، تحفے اور ہدیے کا تبادلہ کرے۔ دوست احباب کو گھر بلانا، تحائف کا تبادلہ کرنا خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلقین ہے: تھادوا تحابوا۔ (طبرانی،المعجم الاوسط، بیروت، دارلکتب العلمیہ ۱۹۹۹ء، ج ۵، ص ۲۵۴، رقم الحدیث ۷۲۴۰) آپس میں تحفہ دو تو محبت بڑھتی ہے۔ ایک دوسرے کو گھروں میں بلاؤ، ایک دوسرے کی خدمت میں ہدیہ پیش کرو، چاہے کوئی معمولی چیز ہو۔ ضروری نہیں کہ کوئی قیمتی چیز ہی ہدیہ میں پیش کی جائے تو محبت بڑھتی ہے اور معمولی ہو تو نہیں بڑھتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: لاتحقرن جارۃ لجارتھا ولو بفرسن شاۃ (صحیح مسلم ،کتاب الزکوٰۃ، باب الحث علی الصدقۃ ولو بالقلیل، رقم ۲۳۷۶)۔ یہاں نون تاکید ثقیلہ ہے جس میں زیادہ تاکید ہے۔ اس کا ترجمہ انگریزی یا اردومیں نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ ایسے الفاظ اردو یا انگریزی میں موجود نہیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی پڑوسی کسی پڑوسی کے ہدیے کوحقیر نہ جانے۔ اگر ایک بکری کا کھر بھی تحفے میں آئے تو اس کی قدر کرنی چاہیے، اس کو ہدیہ سمجھنا چاہیے، اسے قبول کرنا چاہیے، اس لیے کہ اگر قدر جذبے کی ہے تو جذبے میں قیمت نہیں دیکھی جاتی۔ قیمت اس گلاس کی پچاس روپے ہے یا وہ دوروپے کا مٹی کا پیالہ ہے، اگر کسی نے محبت سے پیاس کی حالت میں ٹھنڈے پانی کا گلاس پیش کیا ہے تو اصل قدر اس محبت اور جذبے کی ہے اور اس احساس کی ہے جو اس کے دل میں پیدا ہوا کہ آپ کو وہ چیز پیش کرے، آپ کے ساتھ شیئر (Share) کرے۔ وہ ایک لاکھ روپے کی ہو، ایک روپے کی ہو، ایک پیسے کی ہو، دو پیسے کی ہو۔ اس لیے انسان کے جو بھی وسائل ہیں، کم ہیں یا زیادہ ہیں، اس میں ایک دوسرے کے ساتھ ہدیے کا تبادلہ کرنا تفریح کا ایک حصہ ہے اور خوشی ومسرت کے اظہار کا اسلامی اور دینی طریقہ ہے۔
بعض مواقع ایسے آئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شادی میں شرکت کا اتفاق ہوا۔ خاندانی میں یہ تفریح کا موقع ہوتا ہے۔ شادی ہوتی ہے تو لوگ خوشی کا اظہار کرتے ہیں، گھر میں جمع ہوتے ہیں، لیکن جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی کے اظہار کی تلقین فرمائی، وہاں اس میں ایک بڑے رجحان کو آپ نے روکا۔ بڑا رجحان ہوتا ہے اور یہ نفس کا ایک دھوکہ ہوتا ہے کہ جی، ایک ہی بیٹا ہے، اس کے ارمان نکالنے ہیں۔ ارمان بھی نکالنے ہیں اور ہر چیز کا جنازہ بھی نکالنا ہے۔ سب اکھڑ جاتا ہے، سب ختم ہو جاتا ہے کہ جی، ایک بچہ ہے، اس کے ارمان نکالنے ہیں۔ خاص طور پر بوڑھے لوگوں کایہ خیال، نانی دادی ہوں کہ جی ہمارا ایک ہی پوتاتو ہے، اس کے بعد کیا ہے۔ اس میں جو بھی راز ہے، سب ظاہر ہو جاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے طرز عمل سے اپنے صحابہ کی تربیت سے ایسی مثال پیش کی کہ آج ہمارے قریب ترین لوگوں میں بھی کوئی کرے تو شاید لوگ ناراض ہو جائیں۔
صحابہ کرامؓ میں سے اول درجہ کس کا ہے؟ عشرہ مبشرہ کا ہے۔ دس وہ صحابہ کرام جن کو اس دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی گئی اور ان صحابہ کا جن کو حضرت عمرفاروقؓ نے اپنی جانشینی کے لیے نامزد کیا کہ یہ چھ آدمی میرے جانشین ہو سکتے ہیں۔ عشرہ مبشرہ میں سے حضرت عبدالرحمن بن عوف وہ صحابی ہیں جو ہجرت حبشہ کے موقع پر چند سرداروں میں سے بنا کربھیجے گئے۔ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ ہجرت کرکے مدینہ آگئے۔ آپ اس زمانے کا تھوڑا تصور ذہن میں لائیں۔ تیرہ سال اپنے گھر میں اپنے وطن میں Persecute ہو رہے ہیں اور پریشان کیا جارہا ہے، کچلا جا رہا ہے۔ پھر خدا خدا کر کے ایک ٹھکانہ مل جاتا ہے، سب گھر بار چھوڑتے ہیں۔ کسی نے کاروبار چھوڑا، کسی نے جائیداد چھوڑی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ مکہ کے لکھ پتی آدمی تھے، صف اول کے پیسے والوں میں تھے۔ سب کاروبار چھوڑ کر تن تنہا مدینہ چلے آئے۔ وہاں جاکر ایک انصاری کے گھر میں بیٹھ گئے۔ انصاری نے کہا کہ میری زمین ہے، آدھی لے لو، کچھ یہ کرو، وہ کرو۔ انہوں نے کہا کہ نہیں، مجھے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ مجھے بازار کا راستہ بتاؤ۔ دو چار دن بازار میں پھرے، کاروبار کیا۔ اللہ نے صلاحیت دی تھی، کاروبار شروع کر دیا۔
عبدالرحمن بن عوفؓ چند دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں آئے۔ ایک دن آئے تو ذرا نئے کپڑے پہنے ہوئے تھے، خوشبو لگی ہوئی تھی اور مہندی کا نشان شاید ہاتھ یا پاؤں میں یا جہاں بھی ہوگا، دکھائی دے رہا تھا۔ اثر صفرۃ (زردی کا نشان) کے الفاظ آئے ہیں۔ آپ نے پوچھا، کیا بات ہے عبدالرحمن؟ انھوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ، میں نے شادی کرلی ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف بلایا نہیں بلکہ بتایا بھی نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ نہیں کہ اچھااتنی طوطا چشمی، اتنی بے وفائی کہ یہاں آکر میں نے سارا ٹھکانا دیا، میں لے کر آیا، میں نے لوگوں کے یہاں ٹھہرایا، مواخات کرائی، میرے کہنے پر لوگوں نے کاروبار میں شریک کیا اور ہمیں پوچھا بھی نہیں۔ آج اگر یہ ہو توری ایکشن ہوگا کہ اچھا جی، کاروبار میں اتنے مگن ہوئے کہ ہمیں بھول ہی گئے، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہیں کہا۔ نہ انہوں نے محسوس کیا کہ بلانا ضروری ہے، نہ حضور نے سمجھا۔ آپ نے فرمایا: اولم ولو بشاۃ (ابوداؤدج ۱، ص ۳۲۳، رقم ۲۱۰۹) ولیمہ ضرورکرنا، خواہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو۔ خوشی کا حکم دیا کہ اس کو Celebrate کرو، خوشی مناؤ، چاہے ایک بکری ذبح کرلو۔
اس واقعے پر جتنا غور کریں، اسلام میں شریعت کی ساری حدود سامنے آتی ہیں۔ اعتدال اور توازن کہ جتنے وسائل ہیں، ان کے اندر رہو، غیر ضروری طور پر اس کو مت پھیلاؤ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بس ایک بکری ذبح کرلو اور اس ایک بکری میں جتنے لوگوں کو شریک کرسکتے ہو، کرو۔ ولیمے کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم حکم دے رہے ہیں کہ دعوت کرو، لوگوں کو بلاؤ۔ اس میں بعض اوقات لوگوں کے وسائل ہوتے ہیں، بعض اوقات نہیں ہوتے۔ اگر اس موقع پرحضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے کہ عبدالرحمن! مجھے بھول گئے، مجھے نہیں بلایا تو یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان نہ ہوتی، اس لیے کہ اس سے یہ سمجھا جاتا کہ اپنے دینی قائد کو اپنی تقریب میں بلاؤ، یہ بلانا مستحب اور پسندیدہ ہے۔ اب کون مسلمان ایسا ہوتا مدینہ میں، مکے میں، اس کے قرب وجوار میں جس کے ہاں شادی ہوتی، تقریب ہوتی اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ بلاتا؟ ہر ایک بلاتا۔ کسی کے پاس اتنے پیسے بھی نہ ہوتے جتنے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے پاس تھے، کسی کے ہاں پانی پلانے کے لیے مٹی کا پیالہ بھی نہ ہوتا تو وہ کیا کرتا؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کوئی لفظ بغیر وحی کے نکلتا ہی نہیں۔ وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی (النجم:۳، ۴) تو یہ بھی نہیں کہا کہ بلایاکیوں نہیں۔ اتنا کہنے سے بھی ایک طریقہ ایسا قائم ہو جاتا کہ آئندہ آنے والوں کے لیے اس لفظ سے بھی مشکلات پیدا ہو جاتیں، اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی نہیں فرمایا۔
تیسری بنیادی حد یہ ہے کہ شریعت کے جو بنیادی مقاصد ہیں، وہ نظر انداز نہ ہوں۔ شریعت کے جو اہم Objectives ہیں، ان کو اگر نظر انداز کر کے تفریح کی جائے تو وہ تفریح شریعت کی حدود سے متجاوز ہے۔ اسلام نے انسان کو کائنات کے اندر سب سے اونچا مقام دیا ہے۔ اتنا اونچا مقام دیا ہے کہ خالق کائنات کے بعد سب سے اونچا مقام انسان کا ہے۔ انسان جسمانی طور پر تو بہت چھوٹی مخلوق ہے۔ آپ پوری کائنات میں ذرا غور کریں تو ہماری حیثیت وہ بھی نہیں ہے جو سمندر کے کنارے پر پڑے ریت کے کسی ذرے کی ہوتی ہے۔ جسمانی طور پر ہماری حیثیت وہ بھی نہیں، لیکن اللہ نے قوت بے شمار رکھی ہے، صلاحیتیں بے شمار دی ہیں۔ آزادی اور فیصلے کی نعمت سے نوازا ہے، اچھے اوربرے کی تمیز کی صلاحیت دی ہے۔ یہ باقی مخلوقات کو حاصل نہیں ہے۔ اس لیے اس کا درجہ اللہ نے اپنے بعد سب سے اونچا رکھا ہے۔ باقی ساری مخلوقات اس کے نیچے ہیں۔ یہ سب مخلوقات سے اوپر ہے اور خالق کائنات سے نیچے۔ ظاہر ہے جب درجہ اتنا اونچا ہے تو مقاصد بھی اتنے اونچے ہیں۔ خلافت ارضی سے اس کو نوازا ہے۔ خالق کائنات کی مرضی سے زندگی گزارنے کا یہ پابند ہے۔ اس کی مرضی کا عملی ترجمان بن کر اس کو دکھانا ہے کہ خالق کائنات جس طرح کا انسان چاہتا ہے، اس طرح کا انسان بننا ہے اور پھر دوسروں کے لیے اس کو معلم بنا کر بھیجا گیا۔ جو حیثیت پیغمبر کی اپنی قوم میں ہوتی ہے، وہ حیثیت امت مسلمہ کی بقیہ اقوام میں ہے۔ یہ آپ نے قرآن پاک میں پڑھا ہوگا کہ: لتکونوا شھداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیداً (البقرۃ: ۱۴۳) تم لوگوں کے مقابلے میں گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنے، یعنی جو Relationship کی نوعیت تمہاری اور پیغمبر کی ہے، وہی نوعیت تمہاری اور بقیہ انسانوں کی ہے۔ اب اتنے اونچے مقام کو چھوڑ کر آپ نے تفریح کا کوئی ایسا طریقہ اختیار کر لیا جس میں یہ سب بھول جائیں کہ آپ کس کام کے لیے آئے تھے، کس کام کے لیے بھیجے گئے تھے تو یہ چیز ایک عام عقل کے بھی خلاف ہے اور شریعت کے بھی خلاف ہے۔
ایک مثال آپ کو دیتا ہوں۔ کمانڈر ان چیف پاکستان نیوی ایک بہت بڑامنصب ہے۔ بھاری ذمہ داری ہے، پاکستان کے پورے سمندروں کی نگرانی اور بہت سے کام ان کے ذمے ہیں۔ ان کو تفریح کا حق ہے، تفریح کرنی چاہیے، لیکن اگر نیوی کے دس جہاز تفریح کے لیے چلے جائیں اور دنیا کے سارے سمندروں کے بے آباد جزیروں میں جا کر شکار کھیلا کریں کہ جی شریعت نے تفریح کا حکم دیا ہے اور کچھ پتا نہ ہو کہ پاکستان میں پیچھے کیا گزر رہا ہے، تو ظاہر ہے وہ بھی اس تفریح کو ناجائز سمجھتے ہوں گے۔ وہ بھی اس کو تفریح نہیں سمجھیں گے، ذمے داریوں سے تجاوز سمجھیں گے اور ذمے داریوں سے فرار قرار دیں گے۔ تو جو ذمے داری حکومت پاکستان نے پاکستان نیوی کے چیف کو دی ہے، اس سے بڑی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو دی ہے، اس لیے ملت مسلمہ کی جو ذمہ داریاں ہیں، ان کو نظر انداز کر کے تفریح کرنا نامناسب و ناجائز ہے۔ مثال کے طور پر نماز سب سے بڑا مقصد ہے۔
روز محشر کہ جاں گداز بود
اولین پرسش نماز بود
روز محشر جو جاں گداز ہوگا، اس میں سب سے پہلا سوال نماز کے بارے میں ہوگا۔ اب کوئی ایسی تفریح جس میں یہ پتا نہ چلے کہ نماز کب آئی، کب گئی، یہ شریعت کے مزاج کے خلاف ہے،یہ جائز نہیں۔
یہ تین بنیادی شرطیں ہیں جو شریعت نے تفریح کے لیے رکھی ہیں۔ اسراف وتبذیر سے اجتناب ہو، حیا کے حدود کے مطابق ہو، مقاصد شریعت سے تجاوز اور تجاہل نہ کیا جائے۔ ان حدود کے اندر جو تفریح بھی ہوگی، وہ جائز ہے، بغیر کسی رد وقدح کے آپ اسے جائز سمجھیں۔ ہم میں سے بہت سے حضرات کے مزاج میں شدت اور تیزی ہوتی ہے۔ بعض لوگ خالص دینی جذبے سے، کسی برے جذبے سے نہیں، دینی ومذہبی جذبے سے ہر جائز چیز کو بھی ناجائز کہنے لگتے ہیں۔ یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ بعض لوگوں کو اپنے فرائض کا احساس اتنا شدیدہوتا ہے کہ ان کو ہر تفریح بھول جاتی ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے، لیکن توازن کے خلاف ہے۔ اگر آپ امتحان دے رہے ہیں، فرض کیجیے آپ کا بی اے یا بی ایس سی کا امتحان ہورہا ہے اور بارہ بجے پرچہ ہونے والا ہے اور میں کہوں کہ وحدت روڈ کے فلاں اسکول میں آپ کا امتحان ہوگا، آپ وہاں چلے جایئے۔ اب کوئی تفریح یاد نہیں آئے گی۔ کوئی کہے کہ چلیں ہوٹل میں کھانا کھالیتے ہیں، تکے کھالیتے ہیں یا فلاں جگہ چلتے ہیں تو آپ کو کچھ یاد نہیں آئے گا۔ آپ کو یہ خیال دامن گیر ہوگا کہ مجھے وہاں پہنچنا ہے۔ جن لوگوں کو اللہ کے ہاں جو اب دہی کا احساس اتنا تازہ ہو جتنا کہ آپ کوپرچے کا احساس تازہ ہے تو تفریح یاد نہیں رہتی۔ اسی لیے میں یہ کہتاہوں کہ یہ قابل احترام بات ہے۔ اس سے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس کو امتحان کی جواب دہی کا احساس تازہ ہوگا، اسے کوئی چیز attract نہیں کرسکتی تو ایسے حضرات انتہائی احترام اور انتہائی عقیدت کے مستحق ہیں کہ جن کو آخرت کے امتحان کا احساس اتنا تازہ رہے کہ وہ ہر تفریح کو بھول جائیں، لیکن شریعت کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ ہر شخص کا ذہنی رویہ ہمیشہ ایسا ہی رہے۔ اگر کسی کا رہتا ہے تو اچھی بات ہے۔ ہر شخص کا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ کبھی یادداشت میں امتحان تازہ ہوتا ہے، کبھی نہیں ہوتا۔
آپ نے حضرت حنظلہؓ کامشہور واقعہ سنا ہوگا کہ حضرت حنظلہؓ پریشانی میں تیز تیز تشریف لے جا رہے تھے۔ حضرت ابو بکرصدیقؓ ملے، پوچھا کہاں جارہے ہو؟کہنے لگے کہ حنظلہ تو منافق ہوگیا۔ پوچھا، اچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگے کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ہوتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی سامنے ہے، جنت بھی سامنے ہے، دوزخ بھی سامنے ہے۔ کوئی چیز یاد نہیں آتی، صرف اللہ کے حضور جواب دہی کا احساس بیدار ہوتا ہے۔ جب واپس جاتا ہوں، کاروبار میں، تجارت میں، باغ میں، گھر میں تو وہ کیفیت نہیں رہتی تو یہ تو نفاق ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ اور ہے اور آپ کے پیچھے کچھ اور۔ حضرت ابو بکرصدیقؓ نے فرمایا کہ یہ کیفیت تو میری بھی ہوتی ہے۔ اگر یہ نفاق ہے تو بہت بری بات ہے۔ چلیں، پوچھتے ہیں۔ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے۔ عرض کیا، یارسول اللہ! یہ مسئلہ ہے۔ آپ نے تسلی دی کہ ایسا نہیں ہوسکتا، یہ کیفیت ہمیشہ نہیں رہتی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا کہ کبھی یہ کیفیت اگر رہے جو تم بتارہے ہو تو فرشتے آپ کے ہاتھ چومنے لگیں۔ گویاحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی وضاحت فرمائی کہ یہ چیز مطلوب نہیں کہ ہر وقت آپ پر یہ کیفیت طاری رہے اور نہ ایسا ہوتا ہے۔ اگرکسی پر طاری رہتی ہے تو یہ اللہ کا احسان ہے، اس کا معاملہ خالص اللہ کے ساتھ ہے، لیکن بقیہ انسان ایسے ہیں کہ ان میں جب تفریح کا جذبہ پیدا ہو تو تفریح بھی کریں۔ اس لیے میں یہ کہہ رہا تھا کہ کچھ حضرات ایسے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرز عمل کو جو انہوں نے اختیار کیا ہے، جو انتہائی استثنائی ہے، وہ ہر شخص اختیار کرے۔ یہ صحیح نہیں ہے۔ہر شخص تفریح بھی چاہتا ہے، ہر شخص کے بعض اور تقاضے ہیں، وہ ان کو بھی پورا کرنا چاہتا ہے۔ اس کے جسمانی تقاضے بھی ہیں، مادی اور اقتصادی ہر قسم کے تقاضے ہیں، ان کے درمیان توازن ہونا چاہیے۔ توازن اور اعتدال کے بغیرشگفتگی ہوہی نہیں سکتی۔ شگفتگی اعتدال کا لازمی تقاضا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ سفر پر تشریف لے گئے۔ حضرت عائشہؓ کے ساتھ چہل قدمی کرنے لگے تو دیکھا کہ کچھ نوجوان دوڑ لگا رہے ہیں اور مقابلہ کر رہے ہیں۔ حضرت عائشہؓ نے کہا کہ دوڑ کا مقابلہ کریں؟ آپ نے کہا چلو۔ مقابلہ کیا، دوڑ لگائی۔ یہ مدینہ منورہ کا واقعہ ہے۔ اس وقت آپ کی عمر کم ۵۷، ۵۸ سے کم نہیں تھی اور دنیاوی اعتبار سے آپ دیکھیں کہ مدینہ منورہ اور اس کے قرب وجوار کے کم از کم ایک تہائی پر آپ کی حکومت تھی اور آپ کے پیروکاروں کی تعداد، جو اپنی زندگی کا محور ومرکز آپ کو مانتے تھے، اگر لاکھوں میں نہیں تو ہزاروں میں ضرور تھی۔ اس اعتبار سے دیکھیں کہ ایک معمولی مسجد کا مولوی، ایک اسکول کا ہیڈ ماسٹر، ایک کلاس کا ٹیچر اس طرح کرنے لگے تو سمجھتا ہے کہ میرا بھرم ختم ہو جائے گا اور لوگ کیا کہیں گے۔ میری ایک Dignity ہے یعنی پچاس چیزیں آدمی سوچتا ہے، ایک تصنع کاہالہ اپنے اوپر طاری کردیتا ہے۔ لیکن یہ فطرت کے خلاف ہے، یہ رویہ Openness کے خلاف ہے۔ گھر والوں کے ساتھ ایک بے تکلفی کا تعلق ہونا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ چلو دوڑ لگاتے ہیں۔ آپ نے دوڑ لگائی۔ حضرت عائشہؓ کا بدن ہلکا تھا، عمربھی کم تھی، وہ آگے نکل گئیں اور کہا کہ دیکھا، ہرادیا! اس کے کچھ عرصے بعد پھر ایک مرتبہ سفر پر جانے کا اتفاق ہوا۔ پھر ایسے موقع پر دیکھا کہ لوگ دوڑ لگارہے ہیں تو کہا کہ آو دوڑ لگائیں۔اب حضرت عائشہؓ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم آگے نکل گئے تو آپ نے فرمایا: ھذہ بتلک۔ یہ اس دن کا بدلہ ہوگیا۔ مثالیں اور بھی ذہن میں ہیں جو دی جاسکتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان میں حس مزاح (Humor) بھی رکھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حس مزاح تو ضرب المثل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاح کے واقعات حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں، اگر آپ نے پڑھے ہوں۔ اگر نہ پڑھے ہوں تو ضرور پڑھیں۔ ترمذی کی بڑی اچھی کتاب شمائل ترمذی ہے جس کا اردو اور انگریزی ترجمہ دستیاب ہے۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور شخصیت کے بارے میں، آپ کے حلیہ مبارک، لباس، عادات، خصائل کے بارے میں بڑی معلومات جمع کی ہیں اور ایک بڑے مستند ترین محدث وقت کی لکھی ہوئی ہیں۔ اس میں جتنے اقوال وواقعات جمع کیے گئے ہیں، بڑے مستند ہیں۔ اگر آپ مدینہ منورہ کے دس سال بلکہ مکہ مکرمہ کے تیرہ سال دیکھیں تو یہ انتہائی کرائسز کا زمانہ ہے۔ کرائسزاوربحران کے جو بھی پہلو آپ کے ذہن میں آتے ہیں، کسی علاقے میں ہنگامی حالات کے جو بھی اسباب آپ کے ذہن میں آتے ہیں، وہ سارے کے سارے بیک وقت موجود تھے کہ چاروں طرف سے دشمن حملہ آور ہے، ہر تین چار مہینے بعد حملہ ہو رہا ہے، ہر تین چار ماہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فوج لے کر نکلنا پڑتا ہے اور اوسطاً ہر چار ماہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے باہر فوج لے گئے ہیں، دفاع کرنے یا فتنے یا خطرے کا سدباب کرنے کے لیے۔ کبھی باہر سے کوئی سازش ہو رہی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کرنے کوئی آرہا ہے، کچھ لوگ آپ کو شہید کرنے آرہے ہیں، لیکن ان سارے ہنگامی حالات اور خطرات کے باوجود آپ کی جو حس مزاح ہے، وہ اسی طرح موجود ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک شخص توازن اور اعتدال کی معراج پر بیٹھا ہوا ہے کہ اس سے اوپر توازن اور اعتدال کا تصور انسان کے ذہن میں نہیں آتا۔ بعض اوقات بچوں سے گفتگو ہو رہی ہے۔ بچے دوڑ لگا رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی دوڑ لگا رہے ہیں۔ کبھی صحابہ کرامؓ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ صحابہ کرامؓ میں جاکر دیکھا کہ شعر وشاعری ہورہی ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی شعر وشاعری سننی شروع کردی۔ کبھی آپ نے یہ نہیں کہا کہ میاں! یہ کیا لغو حرکت ہے۔ دیکھتے نہیں کہ ہم آگئے ہیں، تب بھی شعر وشاعری ہورہی ہے! آپ بھی شعر سن رہے ہیں، لیکن اگراس میں کوئی بات شریعت کے خلاف ہوگئی تو آپ نے فوراً ٹوک دیا کہ یہ ٹھیک نہیں۔
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شادی میں تشریف لے گئے تو وہاں دیکھا کہ لوگ خوشی منارہے ہیں، بچیاں ڈھولک پر گا رہی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاکر بیٹھ گئے۔ اتنے میں ایک بچی نے گاتے گاتے ایک جملہ کہا کہ: وفینا نبی یعلم ما فی غد (بخاری،کتاب المغازی، باب ۱۲، رقم ۴۰۰۱)۔ اور ہم میں ایک نبی بھی ہیں جو کل کا حال جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں نہیں، یہ بات مت کہو۔ کل کا حال اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ یعنی عقیدے پر بات آئی تو فوراً اسی وقت ٹوک دیا، لیکن وہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ آئے تو بیٹھے رہے اور وہ گاتی رہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ آئے توبچیاں اٹھ کر چلی گئیں۔ حضرت عمر فاروقؓ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ دیکھو تمہارے آنے پر شیطان بھی بھاگ جاتا ہے۔ یعنی حضرت عمر فاروقؓ کو نہیں روکا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ تم اتنے سخت کیوں ہو؟ اور ان بچیوں کو نہیں روکا کہ تم کیوں بھاگتی ہو؟ آپ دیکھیں کہ جس آدمی کے مزاج میں شدت ہے، وہ شدت دین کے لیے استعمال ہو رہی ہے تو اس شدت کو نہیں روکا۔ اس میں اگر حضور کہتے کہ مت روکو تو پھر وہی بات ہوتی کہ ہمیشہ کے لیے ممکن ہے۔ آگے چل کر کوئی اعتدال سے بڑھ جانے والا ہو تو ممکن ہے بعض اوقات آپ کسی مصلحت سے روک دیں۔ یہ چیز جائز ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز جائز ہوتی ہے، لیکن آپ ماں ہیں، آپ سمجھتی ہیں کہ اگر اس وقت بچے کو اس میں لگنے دیا گیاتو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ اس وقت اس جائز کام کو روک دینا چاہیے، ممکن ہے اس سے غلط عادت پیدا ہوجائے۔ فرض کیجیے محلے میں کبوتر باز رہتے ہیں، کبوتر بازی کرتے ہیں۔ آپ کا بچہ ایک کبوتر لے آیا، چھوٹا کبوتر پالنا گناہ نہیں ہے، لیکن آپ اس کو اس وقت روک سکتے ہیں کہ خدشہ ہے کہ محلے والوں کے ساتھ مل کر غلط عادت پڑجائے گی۔ تو اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت حضور عمر فاروقؓ کو روک دیتے کہ دیکھو منع مت کرو تو یہ ہمیشہ کے لیے قانون اور شریعت کا حکم بن جاتا کہ اگر کوئی جائز تفریح کے کسی کام میں مصروف ہو، کسی بھی مصلحت سے اس کو روکا نہیں جاسکتا۔ اب مصلحت سے آپ روک سکتے ہیں، حضرت عمرؓ کی سنت بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ بچیوں کو گانے سے روکا اور نہ حضرت عمر فاروقؓ کو منع کرنے سے روکا۔ دونوں کو اپنی اپنی حالت پر رکھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ تشریف لائے جو سو فیصد مزاج شناسِ رسول تھے، انہوں نے نہیں روکا۔ حضرت عمرفاروقؓ جن کے مزاج میں سختی تھی، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ واشدھم فی امر اللہ عمر، اللہ کے معاملے میں میرے صحابہ میں سب زیادہ سخت عمرؓ ہیں۔ انہوں نے روکا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع نہیں کیا۔ اسی طرح کے واقعات اور مثالوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اظہار مسرت اور خوشی کے جتنے بھی جائز طریقے ہیں، جب تک وہ شریعت کے حدود کے اندر ہوں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نہیں روکا۔ انسان خوشی کے موقع پر چاہتا ہے کہ اس کا لباس اچھا ہو۔ انسان خوشی کے موقع پر چاہتا ہے کہ اس کی خوراک اچھی ہو، اپنے دوستوں کو بلائے، اپنے احباب کو بلائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اس کی تعریف کی ہے، لیکن اب اس بات کا امکان موجود تھا کہ جب لوگ خوشی ومسرت کے موقع پر دوست واحباب کو بلائیں گے تو انسان کا مزاج آپ نہ بھولیے، انسان کا مزاج بدلتا نہیں ہے۔ انسان کا مزاج یہ ہے کہ وہ مادی مفادات چاہتا ہے، ،انسان کا مزاج یہ ہے کہ دولت چاہتا ہے، صاحبان اقتدار کے قریب ہونا چاہتا ہے۔
بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اِتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
جو شہ کا مصاحب ہوتا ہے، وہ اِتراتا بھی ہے۔ تو اس میں یہ رجحان بھی موجود ہے کہ جی بڑے آدمیوں کو بلاؤ، چھوٹے آدمیوں کو نظر انداز کردو تو آپ نے جہاں خوشی کے اظہار کی اجازت دی اور تلقین کی کہ لوگوں کو بلاؤ، دوستوں کو بلاؤ، لوگوں کو جمع کرو، وہاں یہ بھی فرمایا کہ بدترین دعوت ہے وہ جس میں امیر لوگوں کو بلایا جائے، لیکن غریبوں اور ناداروں کو چھوڑ دیا جائے۔
عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کا حکم دیا۔ اس میں آپ دیکھیں توازن کیا ہے۔ ایک تہائی اپنے لیے رکھو، ایک تہائی دوست احباب کو بھیجو اور ایک تہائی آس پاس کے جوضرورت مند ہوں، نادار ہوں، چاہے دوستی رشتے داری نہ ہو، ان کو بھیجو۔ تو آپ دیکھیں کہ تینوں یکساں سطح پر ہیں۔ اپنی ذات بھی، دوست احباب بھی اور شہر کے نادار اور کمزور لوگ بھی۔ یہ خوشی کے موقعے پر اجتماعیت پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تفریح جس سے طبقاتیت کو فروغ ملے، اسلام کے مزاج کے خلاف ہے اور وہ تفریح جس سے طبقات ہم آہنگ ہوں، مسلمانوں میں ہم آہنگی پیدا ہو، بستی میں یکجہتی پیدا ہو،وہ تفریح اسلام کے تصور کے مطابق ہے، اسلام کے تصور سے ہم آہنگ ہے۔
دوسری چیز جو یاد رکھنے کی ہے، اس کو ذرا غور سے سماعت فرمائیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جی یہ تو ثقافتی چیز ہے، اس کا اسلام سے کیا تعلق؟ یہ بات کہ یہ ثقافتی چیز ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، یہ بڑی غلط چیز ہے۔ اسلام کا ہر چیز سے تعلق ہے۔ اسلام تو ہر چیز کے بارے میں راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ثقافت کے بارے میں بھی کرتا ہے۔ اگر ثقافت میں کوئی ایسی چیز ہے جو مشرکانہ اورکافرانہ پس منظر رکھتی ہے،جیسا کہ میں نے مثالیں دیں کہ پیلے رنگ میں ویسے تو کچھ نہیں ہے، لیکن اگر پیلے رنگ میں یہ عقیدہ ہو کہ اس میں دیوی اترتی ہے، لہٰذا مجھے پیلے رنگ کے کپڑے پہننے ہیں تو پیلے رنگ میں بہت کچھ ہے۔ اگر ویسے ہی کسی کوپیلا رنگ اچھا لگتا ہے اور وہ بسنت کے علاوہ بھی پیلے رنگ کے کپڑے پہنتا ہے یا پہنتی ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن اگر بسنت کے ہی دن پیلا رنگ پسند آتا ہے، اور کسی دن پسند نہیں آتا پھر معلوم ہوتا ہے کہ بات محض پسند کی بات نہیں، کچھ اور ہے۔ اس لیے یہ دیکھنا چاہیے کہ جو مقامی ثقافت ہے، اس کا جو مظہر ہے جس کو آپ کہتے ہیں کہ محض ثقافتی چیز ہے، وہ کیاہے؟ اگر اس کے پیچھے محض کسی قوم کا رواج ہے، اس کے پیچھے کسی غیر مذہب کا کوئی عقیدہ نہیں ہے، اس کے پیچھے کوئی مشرکانہ، جاہلانہ اور کافرانہ تصور نہیں ہے تو اس ثقافت کو اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مثال کے طور پر عید کے موقع پر لوگوں میں سویاں بنانے کا رواج ہے تو سویاں بنانے کا نہ کوئی مذہبی پس منظر ہے، نہ کوئی عقیدہ ہے، نہ کوئی ملحدانہ، مشرکانہ اور کافرانہ تصور ہے۔ یہ محض رواج ہے۔ ممکن ہے شروع میں کسی طبی ضرورت کے تحت اختیار کیا گیا ہو۔ ہمارے یہاں رمضان میں افطار کے وقت پکوڑے بنانے کارواج ہے، کئی اور ملکوں میں نہیں ہے۔ اب یہ طبی ضرورت ہے۔ ہندوستان کے ایک خاص موسم میں پورادن بھوکا رہنے کے بعد چنا شاید مفید رہتا ہو، اس طرح رواج ہوگیا۔ بعض عرب ملکوں میں اس کا رواج نہیں، کسی اور چیز کا رواج ہے۔ میں نے بچپن میں ہمیشہ اپنے بزرگوں سے سنا تھا کہ کبوتر بڑا گرم ہوتا ہے اور کبوتر کا گوشت کبھی ہمارے گھر میں کسی نے بنایا نہیں کہ اگر کسی نے کھایا تو نکسیر پھوٹ پڑے گی اور دانے نکل آئیں گے۔ پتہ نہیں کیا ہوجائے گا۔ کافی عرصہ پہلے، غالباً ۱۹۹۰ء میں مجھے مراکش جانے کا اتفاق ہوا۔ رمضان کامہینہ تھا۔ ایک جگہ جب میں گیا تو اسی دن کسی بڑے آدمی کے ہاں افطار تھا تو ملازمین بڑی بڑی دیگوں میں سوپ لے کر آئے۔ وہ کبوتر کی یخنی تھی اور انھوں نے بڑے بڑے پیالے میںیخنی بھر کر دی اور دو دو کبوتر بھی ڈالے۔ اب میں بہت ڈرا کہ گرمی کا موسم بھی ہے، روزہ بھی ہے اور یہ بھی سنا تھا کہ روزے میں خشکی ہو جاتی ہے تو نکسیر پھوٹ جائے گی۔ میں نے پیالے کو رکھ دیا، لیکن پھر سوچا کہ یہ پانچ سو آدمی کھارہے ہیں۔ جو ان کے ساتھ ہوگا، وہ تمہارے ساتھ بھی ہو جائے گا، چنانچہ میں نے ڈرتے ڈرتے تھوڑی سی یخنی پی لی اور کبوتر نہیں کھایا۔ اگلے دن ایک کبوتر کھایا اور دوسرے دن دونوں کبوتر کھالیے، کچھ بھی نہیں ہوا۔ نہ نکسیر پھوٹی، نہ دانے نکلے اورنہ کوئی پریشانی ہوئی۔ اب یہ محض رواج ہے۔ میں نے دیکھا کہ مراکش میں افطار کے وقت یخنی ہر جگہ ہوتی ہے۔ غریب، امیر سب کے پاس۔ دوکان میں جائیں تو کبوتر کی یخنی ملے گی، بادشاہ کے پاس جائیں تو کبوتر کی یخنی ملے گی۔
اس طرح کی ثقافت ظاہر ہے، ہر قوم میں الگ الگ ہوتی ہے۔ اسلام اس کو پسند کرتا ہے، مسلمانوں نے کبھی اس کو ختم نہیں کیا۔ یہ ثقافتیں آج تک چلی آرہی ہیں۔ اسلام جس علاقے تک گیا، وہاں کے رسم ورواج کو صحابہ نے بھی اختیار کیا، وہاں کے اچھے طریقوں کوصحابہ نے بھی اپنایا۔ کبھی کسی صحابی یا تابعی نے نہیں کہا کہ اہل شام، تم فلاں قسم کا کھانا بند کر دو اور ہمارے جیسا کھانا کھانا شروع کر دو یا ہمارے جیسا لباس اپنا لو۔ لباس الگ الگ رہے۔ اہل شام کا الگ تھا، سینٹرل ایشیا والوں کا الگ تھا، اب بھی الگ ہے۔ جزیرہ عرب والوں کا الگ تھا، ایرانیوں کا الگ تھا۔ اس میں اگر کوئی چیز شریعت کے خلاف تھی تو اس کی نشان دہی کر دی گئی کہ یہ حصہ شریعت کے خلاف ہے۔ مثلاً مرد ریشم پہنتے ہیں، یہ درست نہیں ہے یا آپ کا لباس مکمل طور پر ساترنہیں ہے تو ستر کا تقاضا ہے کہ اسے پورا کریں۔ اس طرح ضروری تبدیلی تو ہوتی رہی، لیکن اس طرح کی مقامی روایات کو جو شریعت کے متصادم نہیں تھیں، کبھی کسی نیختم نہیں کیا، بلکہ ان کواختیار کیا اوران کو پروموٹ (Promote) کیا۔ سب سے پہلی شرط تو مقامی ثقافت کے بارے میں یہ ہے۔
دوسری شرط مقامی ثقافت کے بارے میں یہ ہے کہ وہ ملت اسلامیہ کی وحدت سے متصادم نہ ہو۔ ابھی میں نے عرض کیا کہ اسلام میں تہوار موسم کی وجہ سے نہیں ہوتا کہ موسم ہر جگہ ایک جیسا نہیں ہوتا۔ کہیں سردی ہوگی، کہیں گرمی ہوگی، کہیں بہار ہوگی۔ اگر موسم کے حساب سے اسلام میں تہوار ہوگا تو پوری دنیا میں نہیں ہوسکتا، اس لیے کوئی ایسا تہوار یا مقامی ثقافت یا مقامی رواج جس سے ملت مسلمہ کی وحدت ختم ہوجائے، وہ بھی قابل قبول نہیں ہے۔ امت مسلمہ کی وحدت قرآن کریم کی نص قطعی کی رُو سے ضروریات دین میں سے ہے: ان ھذہٖ امتکم امۃ واحدۃ (الانبیاء:۹۲)۔ یاد رکھو، بلاشک وشبہ یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے۔ جگہ جگہ قرآن میں اس بات کا ذکر ہے کہ امت کی وحدت میں خلل نہ پڑنے پائے۔ لہٰذا کوئی مقامی ثقافت جو امت مسلمہ کی وحدت متاثر کرے، شرعاً قابل قبول نہیں ہے۔
تیسری اور اہم چیز یہ ہے کہ جس چیز کو ثقافت کہتے ہیں، اس کا تعلق عقائد، عبادات اور ان معاملات سے نہ ہو جن کے بارے میں شریعت نے واضح ہدایات دی ہیں۔ شریعت نے جن چیزوں کی تعلیم دی ہے، وہ چار ہیں :
۱۔ کچھ وہ ہیں جن کا تعلق عقائد سے ہے۔ عقائد میں کوئی مقامی یا غیر مقامی ثقافت قابل قبول نہیں ہے۔ عقیدہ وہی قابل قبول ہے جو قرآن پاک اورسنت میں ہے۔
۲۔ عبادات ہیں۔ عبادات میں کوئی چیز قابل قبول نہیں ہے۔ صرف وہ عبادت قابل قبول ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہے۔ اس کے علاوہ عبادت کی ہرقسم بالکل بدعت ہے۔ اس میں کوئی تامل کی بات نہیں ہے۔ ہر وہ عبادت جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم نہیں دی یا جس کی سند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے نہیں ملتی، وہ عبادت، عبادت نہیں ہے۔ یہ دو چیزیں جن کے بارے میں اسلام بہت حساس ہے، اس میں کوئی External element داخل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں اضافے کی اجازت نہیں کہ کوئی یہ کہے کہ میرا تو اللہ کے آگے جھکنے کو بڑا جی چاہتا ہے۔ دو سجدوں سے تشفی نہیں ہوتی، میں دس دس سجدے کیاکروں گا۔ اگر ایسا کرے گا تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی، قابل قبول نہیں ہوگی۔
تیسری چیز ہے معاملات اور لین دین۔ لین دین میں شریعت نے جو احکام دیے ہیں، عمومی احکام ہیں، عمومی ہدایات ہیں۔ تفصیلات انسانوں پر چھوڑ دی ہیں۔ لیکن اگر مقامی ثقافت کا تعلق معاملات سے ہے تووہ شریعت کی ان حدود کے اندر ہونی چاہیے۔ جن معاملات کی تعلیم شریعت نے دی ہے، اس کے اندر وہ مقامی ثقافت ہو، اس کے باہر نہ ہو۔ مثال کے طور پر شریعت نے کہا ہے کہ کسی کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر نہ خریدو۔ لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم (النساء :۲۹) یہ قرآن پاک کی نص قطعی ہے، شریعت کا حکم ہے، لہٰذا کوئی ایسا مقامی رواج جس سے زبردستی کسی سے پیسہ نکالا جائے یا اس کے مال وجائداد کو ہتھیا لیا جائے، جائز نہیں ہے۔
میں مثالیں دوں گا تو بات بہت لمبی ہوجائے گی، لیکن شادی ہوتی ہے تو لڑکیاں گھیر لیتی ہیں کہ بہنوئی سے جوتا چھپائی لینی ہے۔ بے چارہ پتہ نہیں پیسے لایا کہ نہیں لایا۔ شوق سے اور خوشی سے دے رہا ہے کہ نہیں دے رہا۔ جوتا چھپائی کے نام سے دے یا ٹوپی چھپائی کے نام سے دے۔ مجھے پتہ نہیں جوتا چھپائی کاکیا پس منظر ہے،کیا بیک گراؤنڈ (Background) ہے! ممکن کہ اس کا بھی کوئیبیک گراؤنڈ ہو، لیکن بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں زبردستی یا کسی شخص کی مرضی کے خلاف اس سے پیسے یا رقم لی جاتی ہے تو یہ شریعت میں جائز نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا یحل مال امرئ مسلم الا بطیب نفس منہ (مسندالامام احمد بن حنبل ج ۶، ص: ۳۰۹، رقم ۲۰۹۷۱)۔ کسی مسلمان کا مال دوسرے مسلمان کے لیے جائز نہیں، سوائے اس کے وہ اپنی خوشی سے، باہمی رضا مندی اور طیب نفس سے دے رہا ہو۔ اپنی پوری خوشی کے ساتھ دے رہا ہو تو وہ جائز ہے، اس کے علاوہ جائز نہیں ہے۔ اب یہ یقین کرنا کہ کہاں خوشی سے دے رہا ہے، کہاں مجبوری میں دے رہا ہے، یہ اس میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے، لہٰذا کوئی ایسا رواج جس میں زبردستی کسی کی رقم ہتھیا لی جائے، یہ شریعت کے خلاف ہے۔
۴۔ چوتھی چیز عادات ہے۔ عادات میں شریعت میں بہت آزادی ہے۔ کھلا چھوڑا ہے۔ ہر قوم کی عادات ورواج ہوتے ہیں۔ کسی کے یہاں چادر اوڑھنے کا رواج ہے، کسی کے ہاں تہ بند باندھنے کا رواج ہے، کسی کے ہاں چارپائی پر سونے کا رواج ہے، کسی کے ہاں فرش پر سونے کا رواج ہے، کسی کے پاس کوئی کھانا مروّج ہے، کسی کے پاس کوئی کھانا مروّج ہے۔ کوئی چاول کھاتا ہے، کوئی کدو کھاتا ہے۔ یہ سب عادات ہیں۔ مختلف قوموں کی عادات ہیں جن کا تعلق جغرافیے سے، تاریخ سے، مقامی حالات سے، اقتصادی وسائل سے ہوتا ہے۔ اس میں شریعت نے بالکل آزادی دی ہے کہ اگر کوئی چیز شریعت کی نص قطعی کے خلاف نہیں ہے تو آپ جو جی چاہے کریں، آپ کو کھلی آزادی ہے کہ اسے اختیار کریں۔ مقامی ثقافت اورعادات کے باب میں اس کی کھلی گنجائش ہے، جیسا کہ میں نے عید کے موقع پر سویوں کی مثال دی۔
یہ وہ بنیادی ہدایات اور اصول ہیں جو شریعت نے تفریح کے بارے میں دیے ہیں۔ ان حدود کے اندر جو تفریح یا تہوار ہوگا، وہ منانا جائز ہوگا۔ اب دیکھیں کہ اسلام میں تفریح اور تہوار منانے کے بارے میں مثبت ہدایات کیا ہیں؟ یہ تو وہ ہیں جن میں منفی چیزوں سے روکا گیا ہے۔ جو چیز شریعت نے خود بتائی ہے، وہ کیا ہے؟ اس میں دو چیزوں کو الگ الگ دیکھیں۔ پہلے دیکھیں تفریح اور اس کے بعد دیکھیں تہوار۔ تفریح سے مراد وہ سرگرمی ہے جو وقتاً فوقتاً انسان انفرادی طور پر کرتا ہے۔ آپ آؤٹنگ (outing) کے لیے چلے گئے، پکنک (Picnic) کے لیے چلے گئے۔ یہ تفریح ہے۔ دوستوں کی دعوت کرلی، مہمانوں کو بلالیا، یہ چیزیں تفریح ہیں۔تہوارسے مراد عیدالفطر اور عیدالاضحی ہے۔
پہلے تفریح کو دیکھ لیں۔ تفریح کے بارے میں شریعت نے جو ہدایات دی ہیں، پہلے ان کے بارے میں وہ تین ہدایات سامنے رکھیں جو میں نے ابھی بتائی ہیں۔ ان ہدایات کی روشنی میں یہ دیکھیں کہ صحابہ کرامؓ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل کیا تھا تو پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تفریح کو مقاصد عالیہ سے ہم آہنگ کر لیا۔ اسلام کے جو Higher objectives ہیں، امت مسلمہ کے جو مقاصد عالیہ ہیں، ان کو اور تفریح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یکجا کرلیا۔
تفریح کی تین عام شکلیں ہیں۔ ان میں پھر مختلف ورائیٹیز ہیں، لیکن بڑی بڑی شکلیں تین چار ہیں۔ تفریح کی ایک شکل یہ ہے کہ لوگ سیر وتفریح کے لیے جاتے ہیں۔ کسی اور ملک میں تفریح کے لیے چلے گئے، شہر کے کسی مقام پر چلے گئے، شہروالے گاؤں کی تفریح کے لیے چلے گئے، گاؤں والے شہر میں گئے، ریگستان گئے، پہاڑوں پر گئے، دریا یا سمندر کے کنارے گئے۔ یہ ایک عام تفریح ہے جو ہر شہری کرتا ہے اور ہرانسان کا جی چاہتا ہے کہ اپنے علاقے سے باہر نکل کر سیر وتفریح کرے۔ اس کے بارے میں قرآن مجید نے کیا کہا؟ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ گونگے، اندھے، بہرے آدمی کی طرح جیسے گئے تھے، ویسے واپس آگئے۔ نہ کسی اچھائی کا پتہ چلا، نہ کسی برائی کا پتہ چلا۔ انسان کو تو ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ایک تفریح یہ ہے کہ جیسے مکھی ہوتی ہے، اس کو گندگی ہی نظر آتی ہے، اچھائی نظر نہیں آتی۔ خوشبو، تازہ پھول رکھے ہوں تو مکھی وہاں نہیں بیٹھے گی۔ ایک نکتہ گندگی کا ہو تو ساری مکھیاں وہاں جمع ہو جائیں گی۔ ایک انسان وہ ہوتا ہے جس کو سیر وتفریح میں گندگی نظر آتی ہے، اچھائی نظر نہیں آتی۔ اسلام نے ایسی تفریح کو پسند نہیں کیا۔ جاتے ہیں تو نامحرم عورتوں کو ہی تاڑتے ہیں کہ یہاں کوئی نامحرم عورت ملے۔ یہی دیکھتے ہیں کہ یہاں کوئی خلاف شریعت کام اور سرگرمی ہو تو پتہ لگائیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ یہ منفی تفریح ہے جسے آپ کہہ سکتے ہیں کہ مکھی کا مزاج ہے۔ اسلام یہ کہتا ہے کہ جب تفریح کے لیے جاؤ تو سیروا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبۃ المجرمین (النمل: ۶۹) جب جاؤ تو ہر چیز کو عبرت کی نظر سے دیکھو۔ یہ دیکھو کہ پچھلی اقوام کا عروج وزوال کیسے ہوا۔ جو قومیں مٹ گئیں، ان کے آثار باقی ہیں۔ ان کے آثار محض تاریخی چیز کے طور پر نہ دیکھو، بلکہ یہ دیکھو کہ ان کو زوال کیوں ہوا؟ ان کی غلطیاں کیا تھیں؟ ان کی کمزوریاں کیا تھیں؟ گویا تاریخ کو سیر سے وابستہ کر دیا کہ اس سیر کو تاریخ سے عبرت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بنا دیا۔ اسی نظریے کے ساتھ سیر کے لیے جاؤ، ہر جگہ جاؤ۔ بعض جگہ ایسے تاریخی اور عبرت انگیز مقام نہیں ہوتے تو مظاہر کائنات کو دیکھو۔ (الی الارض کیف سطحت)۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو کیسے بچھایا۔ شہر میں آپ دیکھیں تو اس کو احساس نہیں ہوگا کہ الی الارض کیف سطحت۔ لیکن ریگستان میں کسی پہاڑ کے قریب جا کر دیکھیں تو وہاں جا کر پتہ چلے گا کہ اللہ نے کیسے بچھایا۔ واقعی پتہ چلتا ہے کہ اللہ نے بچھایا۔ الی الابل کیف خلقت۔ اور نہیں تو کسی جانور پر غور کرو کہ اللہ نے اسے کیسا پیدا کیا۔اللہ کی حکمت کیا ہے۔ کسی بھی چیز پر غور کرنا شروع کردیں۔
ایک مرتبہ میرے ایک دوست نے مجھے ایک کتاب دکھائی جو ایک ماہر شخص نے پی ایچ ڈی کے تھیسس کے طور پر ایک آلو پر لکھی تھی۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے پہلے اس کا اندازہ نہیں تھا کہ اللہ کی ہر چیز پر غورکرنے سے اللہ کی قدرت سامنے آتی ہے۔ آلو کو سامنے رکھ کر ایک بڑی موٹی کتاب لکھی تھی کہ آلو میں کیا کیا ہوتا ہے؟ آلو میں پوری کائنات موجود تھی۔ اس کو مائیکرو اسکوپ کے ذریعے دیکھا تو جیسے دنیا کے اندر نہریں، سمندر اور جانورموجود ہیں، اس آلو کے اندر موجود تھے۔ چھوٹے مائیکرو اسکوپ کو اس آلو کے اندر لگا کردیکھاتو پورا کرۂ ارض اس آلو میں موجود ہے۔ اللہ کی مخلوقات اور ان میں تعارض اور تناسل، نہریں، پانی اورغذائیں اور پودے، سب کچھ اس چھوٹے سے آلو میں موجود تھا۔ جب انہوں نے مجھے وہ کتاب دکھائی اور مجھے اس کے بارے میں بتایا تو سچی بات یہ ہے کہ غیر معمولی انداز میں مجھے قرآن مجید کی وہ آیتیں یاد آئیں کہ جس چیز میں غور کرو گے، اللہ کی قدرت کو پاؤ گے۔ یہ قرآن پاک کی پہلی تعلیم ہے۔ اس لیے جب انسان سیر کے لیے جائے گا تو ایک لمحہ بھی مقاصد عالیہ اس کی نظروں سے اوجھل نہیں رہیں گے۔ مقاصد عالیہ اس کی نظروں میں رہیں گے۔ اللہ کی قدرت اور اس کی توحید، کائنات کی عظمت، اپنا مقام اور ذمے داری اس کو یاد رہیں گی۔ تفریح بھی ہورہی ہے، مقاصد عالیہ سے بھی وابستگی ہے اور خود بخود ایک سبق بھی مل رہا ہے۔
دوسری چیز جو تفریح کے طور پر انسان کرتا ہے، وہ آپس میں مقابلہ ہوتا ہے۔ ہر انسان ایک مثبت چیز میں مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔ شریعت نے تعلیم دی ہے کہ مقابلہ اچھی چیز ہے، لیکن مقابلہ کسی برائی میں نہ ہو، کسی منفی چیز میں نہ ہو، مقابلہ کسی تباہ کن چیز میں نہ ہو۔ مقابلہ کسی مثبت اور خیر کی چیز میں ہو: وفی ذلک فلیتنافس المتنافسون (المطففین:۲۶)۔ خیر کے کاموں میں مقابلہ کرو، ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ ایک شخص خطاط ہے۔ آپ اس سے بڑھ کر خطاط بننا چاہیں۔ ایک شخص اچھا قاری ہے، آپ اس سے بڑھ کر اچھا قاری بننا چاہیں۔ ایک شخص اچھا ماہر ریاضیات ہے، آپ اس سے بڑھ کر ماہر ریاضیات بننا چاہیں۔ ایک شخص اچھا معمار ہے، آپ اس سے اچھا معمار بننا چاہیں۔ جو چیزیں بھی مثبت ہیں، تعمیری ہیں، اس دنیا کے بارے میں ہوں یا آخرت کے بارے میں ہوں یا دین کے بارے میں ہوں، ان میں مقابلہ اچھی بات ہے۔ ایک بہن اچھی cook ہے، دوسری بہن اس سے اچھی cook بننا چاہتی ہیں۔ ایک بہن کو بریانی اچھی بنانی آتی ہے، دوسری بہن اس سے اچھی بریانی بنانا سیکھ لے۔ اس میں مقابلہ کرنے میں حرج نہیں، مقابلہ کرنا چاہیے۔ ہر اچھی، مثبت اور تعمیری سرگرمی میں صحت مندانہ مقابلہ، یہ قرآن مجید کی تعلیم کے بالکل مطابق ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نوجوان صحابہ میں اس طرح کے مقابلے ہوا کرتے تھے۔ وہ زمانہ ایسا تھا کہ ہر وقت دشمنوں کا خطرہ تھا، ہر وقت مسلمانوں کو جہاد کے لیے تیار رہنا پڑتا تھا۔ آٹھ سالوں میں ۸۲ غزوات کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نکلنا پڑا۔ اب اگر calculate کریں تو ہر ماہ یا ڈیڑھ ماہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نکلنا پڑا۔ اسی طرح ایمرجنسی کی بھی کیفیت تھی اور یہ کیفیت تھی کہ رات کو اگر کہیں سے شور کی آواز آئے تو لوگ سمجھتے تھے کہ باہرسے کسی نے حملہ کر دیا ہے۔ آٹھ سال کا عرصہ تقریباًہر لمحہ ایمرجنسی کا زمانہ رہا۔ اس لیے اس کی ضرورت تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت صحابہ کرامؓ کوجہاد کی تربیت دیں، چنانچہ نوجوانوں میں جب مقابلے ہوتے تھے تو تیر اندازی کے ہوتے تھے یا گھوڑ دوڑ کے ہوتے تھے یا اونٹ دوڑ کے ہوتے تھے یا تلوار بازی کے ہوتے تھے یا اسی طرح کے مردانہ مقابلے ہوتے تھے کہ جس میں کھیل بھی ہو، تفریح بھی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیتنے والے کو انعام بھی دیا کرتے تھے کہ جو جیتے گا، اس کو انعام بھی دیں گے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تعمیری کاموں میں صحت مندانہ مقابلہ اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش، یہ قرآن مجیدکے مطابق بھی ہے، سنت کے مطابق بھی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مقابلوں کا اہتمام کیاہے۔
امہات المؤمنینؓ اور صحابیاتؓ میں اور قسم کے مقابلے ہوا کرتے تھے۔ کھانا پکانے کے، سینے کے، گنتی سیکھنے کے، حساب سیکھنے کے یا اس زمانے کے گھریلو حساب سے ہوم اسٹڈی (Home study) یا ہوم اکنامکس (Home Economic) کہہ سکتے ہیں، وہ صحابیات میں رائج تھی اور وہ صحابیات سیکھتی تھیں ۔ایک دوسرے سے علم قرآن کا مقابلہ تو تھا ہی۔ علم حدیث کا مقابلہ بھی تھا، لیکن اس زمانے کے لحاظ سے جو خالص دنیوی علوم کی چیزیں تھیں جیسے کھاناپکانا یا سینا، ان میں بھی آپس میں ایک دوسرے سے بڑھنے کا سلسلہ تھا۔
ایک تیسری چیز ہوتی ہے، کھیل کود۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے صاحبزادوں نے پیغمبر سے کہا کہ آپ ہمیں اجازت دیں۔ ہم باہر پکنک کے لیے جارہے ہیں، اپنے بھائی کو بھی ساتھ لے لیں۔ یرتع ویلعب (سورۃ یوسف :۱۲) ہمارے ساتھ کھیلے کودے اور جنگل میں کھائے پیے۔ پیغمبر نے اجازت دے دی۔ قرآن پاک کی تفسیر کا یہ اصول ہے کہ سابقہ انبیاء علیہم السلام کی جو شریعت قرآن پاک میں بیان ہوئی ہے اور اس کی منسوخی کی کوئی ہدایت یا Indication نہیں ہے، وہ ہمارے لیے شریعت ہے۔ یہ قرآن کا اصول ہے۔ ہر وہ حکم جو سابقہ انبیاء علیہم السلام کے حوالے سے قرآن پاک میں یا سنت میں اور صرف قرآن وسنت میں آیا ہے، اس کی یہ حیثیت ہے۔ یہاں غلط فہمی نہ ہو۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ایک مرتبہ میں نے کہیں تقریر کی تو کسی نے یہ بات کہی کہ تورات اور انجیل کو بھی میں نے شریعت کا ماخذ بنا دیا ہے۔ قرآن پاک میں اور سنت میں سابقہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کے بارے میں جو فرمودات نقل ہوئے ہیں، اگر وہ فرمودات کسی منسوخی کی ہدایت کے ساتھ نہیں ہیں تو وہ ہماری شریعت کا حصہ ہیں۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: وکتبنا علیہم فیھا ان النفس بالنفس والعین بالعین (المائدۃ:۴۵) ہم نے یہودیوں پر فرض کیا تھا تورات میں کہ نفس کے بدلے نفس، جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ۔ یہ بعینہ ہمارے لیے حکم ہے، حالانکہ تورات کے حوالے سے قرآن پاک میںآیا ہے، لیکن چونکہ منسوخی نہیں آئی، اس لیے ہمارے لیے حکم ہے۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کی سنت ایک پیغمبر کی سنت ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو کھیل کود کی اجازت دے دی۔ اس لیے کہ بارہ تیرہ سال کی عمرمیں ایک خاص اسٹیج ہوتا ہے جس میں زیادہ فلسفہ آپ ان کے دماغ پر لاد نہیں سکتے۔ یہ بھی غلط ہوتا ہے۔ بعض ماں باپ کو میں نے دیکھا کہ چھ یا سات سال کا بچہ ہے، اس کے دماغ میں ٹھونس رہے ہیں کہ آپ کو کیا بننا ہے۔یہ بچے کے مزاج کے خلاف ہے۔ اس کو کھیلنے دیں۔ کھیل کود سے جسمانی طور پر اس کی صحت میں اضافہ ہوگا۔ یہ چیز انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کے مطابق ہے۔ البتہ کوشش کرنی چاہیے کہ اس میں بچے کی دلچسپی کو برقرار رکھتے ہوئے جتنی تربیت دی جاسکتی ہے، اتنی تربیت آپ دیں۔ بچیوں کی تربیت اور انداز کی ہوگی، لڑکوں کی اور انداز کی ہوگی۔ یہ ہر ماں باپ اپنے طور پر طے کرلیں۔ اپنے بچوں کے لحاظ سے طے کریں کہ ان کے بچے کا بیک گراؤنڈ کیا ہے، ان کا پس منظر کیا ہے، ان کے ذہن میں بچے کے مستقبل کے بارے میں کیا آرزوئیں اور تمنائیں ہیں اور اس کے حساب سے بچے کو تیار کریں۔
یہ تین تفریحیں ہیں جن کو اسلام نے اپنے تمام مقاصد سے ہم آہنگ کر دیا ہے۔ ان تفریحوں پر آپ بقیہ تمام تفریحوں کو قیاس کرسکتے ہیں۔ تفریح کی جو بھی شکل آپ ایجاد کریں یا جو بھی قوم ایجاد کرے، وہ انہی حدود کی پابند اور اسی نقشے کے مطابق ہو۔
تہوار کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان لکل قوم عید وھذا عیدنا۔ ہر قوم کی ایک عید یا تہوار ہوتا ہے اور یہ ہماری عید اور تہوار ہے۔ تہوار کے بارے میں، میں نے عرض کیا کہ مختلف اقوام میں مختلف چیزوں کا رواج ہے۔ کہیں بادشاہ تخت پر بیٹھا تو تہوار ہے، کہیں جنگ میں فتح ہوئی تو تہوار ہے، کوئی دیوتا کے نام پر تہوار ہے، کہیں موسم کے بدلنے پرتہوار ہے۔ اسلام نے کوئی ایسی چیز نہیں رکھی۔ اسلام نے جو تہوار رکھے ہیں، وہ ایسے تہوار ہیں، ان کی Timing ایسی ہے کہ پوری امت مسلمہ اس کو ایک وقت میں مناسکتی ہے۔ یہ نہیں ہوگا کہ یہاں تو بہار شروع ہوگئی، وہاں بیس دن کے بعد شروع ہوگی، فلاں جگہ سرے سے بہار کا موسم آئے گا ہی نہیں۔ صرف سردی کا موسم ہے یا گرمی کا۔سائبیریا میں نہ خزاں کا تصور ہے، نہ سردی کا نہ گرمی کا۔ تو فرض کیجیے کہ اسلام بہار سے نو روز کو تسلیم کرتا ہے کہ نو روز سے عید ہوا کرے گی تو سائبریا کے مسلمان کیا کرتے؟ ان کے لیے تو نہ نوروز ہے نہ تین روز، کچھ بھی نہیں۔ اسی لیے اسلام نے ایسی کوئی چیز نہیں رکھی جو سارے مسلمانوں کے لیے قابل عمل نہ ہو۔ یہ دوتہوار جو اسلام نے رکھے ہیں (تہوار کا لفظ میں صرف مناسبت سے بول رہاہوں، ورنہ عید کا لفظ بولنا چاہیے) اس میں سے ایک عید الفطرہے اور ایک عید الاضحی۔ یہ دو وہ تہوار ہیں جو اسلام نے مسلمانوں کو دیے ہیں۔
خلاصۂ کلام
گفتگو کا خلاصہ بیان کردیتا ہوں کہ اسلام نے تفریح کی اجازت دی ہے۔ اسلام نے دو تہوار فراہم کیے ہیں۔ اسلام نے تفریح کو اخلاقی اور دینی حدود کا پابند قرار دیاہے، تفریح کے وہ آداب دیے ہیں جو انسانوں کی فلاح اور بہبود کے ضامن ہوں۔ تفریح میں ان حدود سے تجاوز کرنے سے منع کیا ہے جو دینی اعتبار سے، اخلاقی اعتبار سے، معاشرتی اعتبار سے، معاشی اعتبار سے، کسی بھی اعتبار سے انسانوں کے لیے نقصان دہ ہوں۔ جو تہوار دوسری قوموں میں رائج ہیں، وہ سارے کے سارے ایسی بنیادوں پر استوار ہیں جو ملت مسلمہ کی عالمگیریت کے خلاف ہیں یا عقیدۂ توحید کے خلاف ہیں، اسی لیے اسلام نے ان تہواروں کو قبول نہیں کیا۔ ان سے یا عالمگیریت متاثر ہوتی ہے یا عقیدہء توحید متاثر ہوتا ہے، اس لیے ایسے تہوار دیے ہیں جن سے عقیدۂ توحید بھی بدرجہ اتم مکمل رہتاہے اور عالمگیریت بھی بدرجہ اتم emphasize ہوتی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو ان غیر اسلامی تہواروں سے اجتناب کرنا چاہیے اور اپنے بہن بھائیوں کو سمجھانا چاہیے کہ جب وہ خوشی منائیں تو شریعت کے حدود کے اندر منائیں، جب کسی تفریح کا بندوبست کریں تو شریعت کے حدود کے مطابق کریں۔ اس میں دنیا کی بھلائی بھی ہے اور آخرت کی بھلائی بھی ہے۔