دنیا کے لیے بلاشبہ وہ ڈاکٹر محمود احمد غازی تھے، مگر ہمارے لیے وہ صرف ’بابا‘ تھے۔انھوں نے کبھی گھر میں یہ ظاہر نہیں کہا کہ وہ کتنے بڑے آدمی تھے۔ ان کے علم وتقویٰ کے بارے میں تو خاندان والوں کو بخوبی علم تھا، مگر دنیا ان سے کتنی محبت رکھتی ہے، اس کا اندازہ ان کے انتقال کے بعد ہوا۔ جس طرح لوگ دیوانہ وار ان کے جنازے میں شریک ہوئے اور جوق در جوق تعزیت کے لیے آئے، اس سے صحیح معنوں میں ان کی مقبولیت کا اندازہ ہوا اور بے پناہ رشک آیا۔ لوگوں کی محبت اور عقیدت کو دیکھتے ہوئے وہ حدیث یاد آتی ہے جس کامفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس شخص سے محبت رکھتا ہے، دنیا والوں کے دلوں میں بھی اس کی محبت ڈال دیتا ہے۔
باوجود اتنی مقبولیت کے، گھر میں وہ بالکل عام آدمی کی طرح رہا کرتے تھے۔ بہت ہی مہربان رویہ، نرم خو لہجہ۔ کبھی کسی کو ڈانٹنا تو کجا، اونچی آواز میں بات بھی نہیں کی۔ گھرمیں ہمیشہ مسکراتے ہوئے داخل ہوتے تھے۔ روزانہ کا معمول تھا کہ رات کو سب گھر والوں، خصوصاً دادی صاحبہ کے پاس بیٹھا کرتے اور ہلکی پھلکی پرمزاح گفتگو کیا کرتے تھے۔ بیرون ملک سفر کے دوران میں پیش آنے والے دلچسپ واقعات سنایا کرتے تھے۔باتوں باتوں میں نصیحت بھی کر دیا کرتے تھے، لیکن انداز اتنا اچھا ہوتا تھا کہ کبھی کسی کو ناگوار نہیں گزرا۔ سنت کے مطابق اکثر پہیلی کی شکل میں سوال پوچھتے اور اکثر وبیشتر اس پر انعام بھی رکھا کرتے تھے کہ جو اس سوال کا جواب دے گا، اس کو سو روپے انعام دوں گا۔ کبھی کبھی انعامی رقم ایک ہزار روپے بھی ہوتی تھی۔ انعام کی رقم سے ہمیں اندازہ ہو جاتا تھا کہ سوال کس نوعیت کا ہے۔ اگر ہزار روپے ہوتے تو بغیر سوچے کہہ دیا کرتے تھے کہ ہمیں نہیں معلوم! اس طرح ہلکے پھلکے انداز میں بڑے بڑے مسائل سمجھا دیا کرتے تھے اور کسی کو یہ محسوس بھی نہیں ہوتا تھا کہ کوئی باقاعدہ تعلیم ہو رہی ہے۔ اقبال کی شاعری سے خاص شغف تھا۔ کبھی کسی شعر کا ایک مصرعہ بتا کر اگلا مصرعہ پوچھتے، کبھی کسی شعر کا مطلب دریافت کرتے اور کبھی یہ پوچھتے تھے کہ بتاؤ، یہ شعر کس شاعر کا ہے۔
اپنے مقام ومرتبہ کا اظہار گھر والوں کے سامنے تو کیا، رشتہ داروں کے سامنے بھی نہیں کرتے تھے۔ گھر میں مہمان داری بہت زیادہ تھی اور ہر کسی کی خوب خاطر تواضع کیا کرتے تھے۔ بچوں بڑوں، سب کو مناسب وقت دیتے تھے۔ مہمانوں کی تواضع کے لیے کئی طرح کے کھانے پکواتے اور سیر وتفریح کا بھی انتظام کیا کرتے تھے۔ گھر میں جو بھی بچے آتے، ان کو اپنے بچوں ہی کی طرح سمجھتے تھے۔ جب ہمیں جیب خرچ دیتے تو جو بچے مہمان آئے ہوتے، ان کو بھی اتنی ہی خوشی اور پیار سے پیسے دیتے تھے۔ دوسروں کو تحفے تحائف دینے اور کھانے پلانے سے بے حد خوش ہوتے تھے۔ مہمانوں کے لیے ہمیشہ بہت اہتمام سے تحائف منگایا کرتے تھے اور خود بھی جب بیرون ملک جاتے تو سب کے لیے الگ الگ تحائف لے کر آتے تھے۔ عید کے موقع پر ہمیشہ ہمیں چاند رات کو چوڑیاں خریدنے کے لیے ساتھ لے کر جاتے تھے۔ اتنی عزت اور مقام ومرتبہ کے باوجود دل میں تواضع اور انکسار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ کسی کے گھر جاتے تو خواہ کتنی ہی بے آرامی محسوس ہوتی، کبھی اظہار نہیں کرتے تھے۔ ہمیشہ یہی ظاہر کرتے کہ بہت آرام اور راحت سے ہیں۔
دل میں تقویٰ بہت زیادہ تھا۔ سرکاری چیزوں کے بارے میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔جو اپنا جائز حق ہوتا، اکثر وہ بھی چھوڑدیا کرتے تھے۔ اگر کوئی نشان دہی کرتا بھی تو فرماتے کہ اگر سب کچھ یہیں لے لیں گے تو پھر وہاں کیا لیں گے! بہت شروع سے سرکاری گاڑی ملی ہوئی تھی، مگر کسی کو اجازت نہیں تھی کہ اس کو چلائے۔ یا تو سرکاری ڈرائیور چلاتا تھا یا خود چلاتے تھے۔ کہتے تھے کہ یہ قانون کے خلاف ہے کہ میرے یا ڈرائیور کے علاوہ کوئی اور اس کو چلائے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ گھر میں گاڑی ہونے کے باوجود چچا (ڈاکٹر محمد الغزالی) ٹیکسی یا بس سے دفتر گئے۔ گھر کے کام کے لیے جب بھی گاڑی استعمال ہوتی تو اس کا الگ سے حساب کر کے پیسے جمع کرایا کرتے تھے۔ کبھی کسی معاملے میں سختی نہیں کی، لیکن اس معاملے میں بالکل کمپرومائز نہیں کیا اور بہت سختی سے سب سے اس پر عمل کروایا کرتے تھے، حتیٰ کہ دفتر کی طرف سے جو اخبار بھی گھر میں آتے، وہ بھی اکٹھے کر کے واپس جمع کروایا کرتے تھے۔
بچپن سے کتابیں جمع کرنے کا شوق تھا۔ طالب علمی کے زمانے کی کتابیں بھی ابھی تک حفاظت سے رکھی ہوئی ہیں۔ اندرون ملک، بیرون ملک جہاں کہیں بھی جاتے، کتابیں ضرور خرید کر لاتے اور بہت احتیاط سے رکھتے تھے۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ جو کتاب کا ادب نہیں کرتا، اسے کبھی علم حاصل نہیں ہوتا۔کتاب پر لکھنے کے سخت خلاف تھے۔ اپنی کتابوں کو ہمیشہ مضمون کے لحاظ سے ترتیب وار رکھا کرتے تھے۔ تفسیر، حدیث، علوم الحدیث، فقہ، اصول الفقہ، سیرۃ، رجال، عقیدہ، علم الکلام، مقارنۃ الادیان، قانون، فلسفہ، معاشیات ، اردو، انگریزی، فارسی ادب حتیٰ کہ طب یونانی کے بارے میں بھی کتابیں ان کے ذخیرے میں موجود ہیں۔ انھوں نے زندگی میں ہزاروں کتابیں جمع کیں اور ہر کتاب کے بارے میں انھیں زبانی یاد ہوتا تھا کہ کون سی الماری میں کس جگہ رکھی ہوئی ہے۔
ہمارے لیے بھی شروع سے ہی سبق آموز کہانیوں کی کتابیں لایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ ہمیں نسیم حجازی کے ناول بھی لا کر دیے۔ علم اور تعلیم سے ان کو بے پناہ دلچسپی تھی۔ روزانہ جب میں یونیورسٹی سے واپس آتی تو پوچھتے تھے کہ آج کس کس مضمون کی کلاس ہوئی اور کیا پڑھا؟ اسکول کی ابتدائی جماعتوں سے ان کا یہی معمول تھا۔ یونیورسٹی میں جب مجھے کوئی اسائنمنٹ ملتی تو میں اس پر ان کے ساتھ اچھی طرح ڈسکس کرتی تھی۔ اس کے بعد وہ اس موضوع سے متعلق کتابوں کی نشان دہی کرتے تھے اور جب اسائنمنٹ تیار ہو جاتی تو بہت دلچسپی سے اس کو پڑھا کرتے تھے اور غلطیوں کی اصلاح کیا کرتے تھے۔ اکثر وبیشتر انعام بھی دیا کرتے تھے۔ اسی طرح ہم بہنوں کا جب بھی امتحانات میں اچھا رزلٹ آتا تو نہایت خوشی کا اظہار کرتے، دعوت کا اہتمام کرتے اور تحائف دیا کرتے تھے۔
کھیلوں میں بھی انھیں وہی کھیل پسند تھے جن میں کوئی تعلیمی پہلو ہو۔ بہت بچپن سے ہمارے ساتھ تعلیمی تاش کھیلتے کہ اس سے اردو اچھی ہوتی ہے۔ اسی طرح اکثر جب سب لوگ اکٹھے ہوتے تو بیت بازی کیا کرتے تھے اور آخر میں والد صاحب اور دادی صاحبہ رہ جاتے تھے، باقی سب ہار جاتے تھے۔ مختلف علمی شخصیات سے متعلق سوالات پر مبنی ذہنی آزمائش کا کھیل ’کسوٹی‘ بھی بہت شوق سے کھیلتے تھے۔ ہم جب ان سے کہانی سننے کی فرمائش کرتے تو اسلامی تاریخ سے قصے سنایا کرتے تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ بہت پسند تھا۔ وہ بہت زیادہ سناتے تھے۔
والد صاحب بہت خوش لباس بھی تھے۔ اپنے کپڑے بہت شوق سے سلواتے تھے۔ اگر کبھی ہم کہتے کہ آپ کے پاس اتنے زیادہ کپڑے ہیں تو امام مالک بن انسؒ کا واقعہ سناتے کہ وہ روزانہ صبح کو نئے کپڑے پہنتے تھے اور جب کوئی ان سے اس کے بارے میں کہتا تو فرماتے تھے: ’نفعل ونستغفر‘ کہ ہم ایسا کرتے ہیں اور استغفار کرتے ہیں۔
اپنا وقت کبھی ضائع نہیں کرتے تھے۔ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ انھوں نے کارآمد بنایا۔ شام کو جب چائے پیتے تھے تو ساتھ ساتھ کوئی کتاب پڑھتے رہتے تھے۔ شام کو بلاناغہ اپنے اسٹڈی روم میں بیٹھ کر کام کرتے تھے۔ چاہے کتنے بھی تھکے ہوئے ہوں، ناغہ نہیں ہوتا تھا۔ کھانے سے پہلے چہل قدمی کے لیے جاتے تھے۔ رات کا کھانا کھا کر گھر والوں کے ساتھ محفل سجایا کرتے تھے اور پھر رات کو بارہ ایک بجے تک اپنا کام کرتے تھے۔ آخری دن تک ان کا یہی معمول رہا۔
اپنا کام ہمیشہ خود کرتے تھے۔ کبھی کسی دوسرے کو زحمت نہیں دی۔ صبح دفتر جاتے ہوئے اپنا بریف کیس ہمیشہ خود گاڑی میں رکھتے تھے، کبھی ڈرائیور کو نہیں دیا۔ آخری عمر میں بازو میں تکلیف رہنے لگی تھی اور بھاری چیز اٹھانے میں دقت ہوتی تھی، پھر بھی کبھی کبھار خود ہی اٹھا لیتے تھے۔ گاڑی میں سفر کے دوران میں ہمیشہ قرآن شریف کی تلاوت کرتے تھے اور اگر سفر لمبا ہوتا تو کوئی کتاب ساتھ رکھ لیتے تھے۔
طبیعت میں قناعت پسندی بہت زیادہ تھی۔ دنیاوی عیش وآرام سے بے نیاز رہتے تھے۔ اپنے بچپن کا قصہ سناتے تھے کہ ایک دفعہ میں پڑوسیوں کی گاڑی دیکھ کر بہت افسردہ ہوا کہ ان کے ٹھاٹھ باٹھ ہیں اور ہمارے نہیں ہیں۔ گھر آکر کہا کہ میں کل سے مدرسے نہیں جاؤں گا، مجھے بھی پڑوسیوں کے بچوں کی طرح اسکول جانا ہے۔ ان کے پاس تو گاڑی بھی ہے۔ خوب روئے اور سو گئے۔ سو کر اٹھے تو دادی جان نے کہا کہ ذرا میرے ساتھ چلو۔ وہ گھر کے قریب ہی مہاجروں کی جھونپڑیوں میں لے گئیں۔ کئی جھونپڑوں کے اندر لے کر گئیں اور پھر گھر آ کر خوب ڈانٹا کہ پڑوسیوں کے عیش وآرام تو تمھیں خوب نظر آئے، یہ لوگ نظر نہیں آتے کہ کس طرح زندگی گزارتے ہیں! فرماتے تھے کہ انھوں نے ایسا سبق دیا تھا کہ میں دنیا کے بڑے سے بڑے محل میں گیا، خوب سے خوب تر ہوٹلوں میں ٹھہرا، مگر کبھی دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ کس کے پاس کیا ہے اور میرے پاس کیا ہے۔ یہی بے نیازی اور تقویٰ تھا جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اتنی عزت دی۔ ان کے ایک دوست نے کیا خوب کہا ہے کہ ایسا علم تو شاید دوبارہ پیدا ہو جائے، لیکن ایسا تقویٰ دوبارہ پیدا ہونا مشکل ہے۔
واقعات تو اور بھی بہت سے ہیں، لیکن نہ الفاظ ساتھ دیتے ہیں اور نہ جذبات اجازت دیتے ہیں۔ بس اللہ رب العزت سے یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق اور ان کے ادھورے رہ جانے والوں کاموں کو مکمل کرنے کی ہمت اور استطاعت عطا کرے اور ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دے۔ آمین