(۲۷ ستمبر ۲۰۱۰ء کو وفاقی شرعی عدالت میں ایک تعزیتی ریفرنس میں گفتگو۔)
عزت مآب جسٹس آغا رفیق احمد خان، (چیف جسٹس، وفاقی شرعی عدالت)
عزت مآب جسٹس شہزادو شیخ، (جج، وفاقی شرعی عدالت)
عزت مآب جسٹس (ر) فدا محمد خان، (عالم رکن شریعت اپیلٹ بنچ سپریم کورٹ)
عزت مآب جسٹس محمد الغزالی، (عالم رکن، شریعت اپیلٹ بنچ سپریم کورٹ)
السلام وعلیکم رحمۃ اللہ وبرکاتہ
جسٹس ڈاکٹر محمود احمد غازی کل صبح اپنے خالق حقیقی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے راہئ ملک عدم ہوئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ آج اِس مجلس ترحیم میں ہم مرحوم کے ذکر خیر اور دعائے مغفرت کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔
۱۸؍ ستمبر ۱۹۵۰ء کو حافظ محمد احمد فاروقی کے ہاں دہلی میں جسٹس ڈاکٹر محمود احمد غازی پیدا ہوئے۔ آپ نے آٹھ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا تھا۔ آپ نے لسانیات میں خاصا عبور حاصل کیا اور پنجاب یونیورسٹی سے ۱۹۷۲ء میں ایم اے عربی کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۸۸ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے اسلامک سٹڈیز میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ نے ملکی و بین الاقوامی سطح پر متعدد جامعات کی تشکیل میں بھرپور حصہ لیا۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے صدر بھی رہے۔ دو بار اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مقرر ہوئے۔ وزارت مذہبی امور کا قلمدان بھی آپ کے سپرد رہا۔ فیصل مسجد اسلام آباد کے خطیب بھی رہے۔ عربی جریدہ ’’الدراسات الاسلامیہ‘‘ کے ایڈیٹر اور معروف علمی رسالہ فکرونظر (اردو) کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کئی برس کام کیا۔ آپ متعدد اداروں کے مشیر تھے اور تقریباً ۳۰ کتب کے مصنف تھے جن میں سے ۷ کتب انگریزی زبان میں، ۵ کتب عربی زبان میں اور ۱۸ کتب اردو زبان میں لکھی گئیں۔
مرحوم جسٹس غازی محمود احمد بڑے باحیا انسان تھے۔ آپ خلوص کا پیکر تھے۔ خلوص کے رشتے عمر بھر قائم رہتے ہیں۔ غازی صاحب سے میرا پہلا تعارف دو دہائیاں قبل ۱۹۹۰ء میں ہوا جب ہم دونوں اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ جسٹس محمد حلیم سابق چیف جسٹس پاکستان ہمارے چیئرمین تھے۔ بہت اچھی ٹیم تھی۔ میرے ایما پر کونسل نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے قرآن و سنت کی کسوٹی پر رائج الوقت قوانین کو جانچنے کا فریضہ ایک کمیٹی کے سپرد کیا اور چیئرمین نے ہم دونوں کو اس کمیٹی میں شامل کیا۔ ہم نے مل کر کام شروع کیا۔ یہ فکری و علمی رفاقت دوستی کا روپ دھار گئی۔ بفضلہ تعالیٰ رفاقت کا سفر جاری رہا اور پھر ۲۶؍ مارچ ۲۰۱۰ء سے ہم اس عدالت میں ایک دوسرے کے ساتھی بن گئے۔
جناب آغا صاحب!
ہم دونوں نے دو بار اکٹھے حج بھی کیا اور اس طرح مجھے غازی صاحب کی ایمانی کیفیات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ مرحوم ایک متقی، پرہیزگار اور مخلص انسان تھے۔ اسلامی احکام کی بجاآوری آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔ میں اس موقع پر آپ کو بتلاتا چلوں کہ غازی صاحب نے ایک بار علامہ محمد اقبالؒ اور دوسری بار قائداعظم محمد علی جناحؒ کے نام پر حجِ بدل بھی کیے تھے۔ آپ کو ان دونوں شخصیتوں سے اور ان کے فیض سے حاصل ہونے والے اس مملکت خداداد پاکستان سے بہت پیار تھا۔
غازی صاحب کی شخصیت کو ایک نشست میں بیان کرنا میرے لیے ممکن نہیں، کیونکہ ان کے مشاغل اور ان کی کامرانیوں کی فہرست خاصی طویل ہے جس کا ہر ہر جزو بذاتِ خود ایک دفتر ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت کم ایسی ہستیاں دیکھی ہیں جنہیں اللہ تبارک تعالیٰ نے دل و دماغ، علم و عمل اور عمیق بصیرت جیسی صلاحیتوں سے سرفراز کیا ہو۔ آپ کی نگاہ بلند تھی اور آنے والے حالات کا جائزہ لینے اور اس کے لیے تیار رہنے کی صلاحیت بھی غازی صاحب میں موجود تھی۔ بلاشبہ آپ اسم بامسمیٰ تھے۔ تحقیق ان کا وظیفہ تھا۔ مطالعہ اتنا وسیع تھا کہ اِن سے ہم کلام ہونے والا یہ سمجھتا کہ وہ ایک متحرک لائبریری اور زندہ کمپیوٹر سے فیض یاب ہو رہا ہے۔ جو بات کہتے، اس کے پیچھے دلیل ہوتی اور حوالہ بھی فوری طور پر دے دیتے۔ ان کی ذاتی لائبریری اس امر کی شہادت دیتی ہے کہ موصوف تحقیق‘ کھوج اور دریافت میں کتنے کوشاں رہتے۔
غازی صاحب قومی زبان کے علاوہ عربی، فارسی، فرانسیسی اور انگریزی زبانوں میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے پر قادر تھے۔ اردو کے علاوہ کبھی کبھی فارسی میں اشعار بھی کہہ لیتے۔ قرآنی علوم، سنت مطہرہ، سیرت، فقہ اور قانون کے علاوہ ادب سے بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ آپ کی بنیادی دلچسپی اسلام اور دین کے مختلف شعبے تھے۔ خطبات بہاولپور (۲) کے عنوان سے اسلام کے بین الاقوامی تعلقات پر آپ کے بارہ خطبات ایک قابل قدر کارنامہ تھا۔ آپ کے متعدد خطبات اسلامی فقہ میں ایک ممتاز مقام حاصل کرچکے ہیں۔
جناب آغا صاحب!
ڈاکٹر صاحب بنیادی طور پر ایک معلم تھے۔ آپ نے اس میدان میں بھی سنت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کرتے ہوئے اہم کردار ادا کیا۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر آپ نے کئی جامعات کی تشکیل میں بھرپور حصہ لیا۔ عملی زندگی کا ایک طویل حصہ آپ نے درس و تدریس میں گزارا۔ سینکڑوں طالب علموں نے آپ سے رہنمائی حاصل کی۔
غازی صاحب نہ خود زندگی میں کبھی مایوس ہوئے، نہ کسی کو انہوں نے مایوس کیا۔ غازی صاحب سے مشورہ طلب کرنے والا یا مدد مانگنے والا کبھی خالی ہاتھ نہ لوٹا۔ آپ نے طالب علموں کے ساتھ مشفقانہ رویہ روا رکھا۔ میری نظر میں جسٹس غازی ایک درویش فقیہ اور عالم باعمل تھے۔
غازی صاحب نے اصولوں پر کبھی مفاہمت نہ کی۔ آپ نے ہمیشہ اعلیٰ اسلامی اقدار کی پاسداری کی اور نتائج کی پروا کیے بغیر صحیح بات سے انحراف نہ کیا۔ توکل اور قناعت آپ کا اثاثہ تھا، لہٰذا آپ کے پاؤں کبھی نہ ڈگمگائے۔
غازی صاحب کی زندگی کو دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ اسلامی اخلاق کی پابندی اور احکام اسلام کی مخلصانہ پیروی اس تیزرفتار زمانے میں بھی ممکن ہے۔ بقول اقبالؔ آپ شجر سے پیوستہ رہتے ہوئے بہار کی امید کے داعی تھے۔
غازی صاحب اپنی مجالس و محافل کو اللہ تبارک تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر سے مزین کرتے تھے۔ آپ نہایت منکسر المزاج اور حلیم الطبع شخصیت کے مالک تھے۔ انہیں زندگی میں اعلیٰ مقامات حاصل ہوئے، لیکن آپ نے کبھی بھی اپنی کامرانیوں کا ڈھنڈورا نہ پیٹا اور اپنے علم سے کبھی ناجائز فائدہ اٹھانے کی سوچ بھی ان کے پاس سے نہیں گزری۔ آپ اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر پاک سن کر آب دیدہ ہو جاتے۔ چھوٹوں کے ساتھ شفقت اور بزرگوں کا احترام آپ کا وطیرہ تھا۔
غازی صاحب مرحوم کو وطن عزیز کے ساتھ بہت پیار تھا۔ پاکستان کے استحکام کے لیے اکثر دعائیں کرتے۔ آپ کی انہی صفات کے پیش نظر ہمارے محترم چیف جسٹس آغا رفیق احمد خان نے وفاقی شرعی عدالت کے لیے غازی صاحب کا نام خصوصی طور پر تجویز کیا تھا۔ کسے معلوم تھا کہ علم کے اس منبع سے ہم محروم ہو جائیں گے۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔ ہم سمجھ رہے ہیں کہ سورج ڈوب گیا ہے، لیکن کسے معلوم کہ دوسری جانب یہی سورج اپنی آب و تاب سے طلوع ہوچکا ہے۔
بلھےؔ شاہ اساں مرناں ناہیں
گوراں وچ پئے ہور