میرے غازی صاحب

ڈاکٹر حیران خٹک

’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ اس میں شک ہی کیا ہے۔

ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے 

جو کوئی بھی اس دارفانی میں آتا ہے ،اسے ایک دن دارِ بقا کی طرف کوچ کرنا پڑتاہے۔ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی روح بھی قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ یقین نہیں آتا کہ وہ اتنی جلدی ہم سے بچھڑ جائیں گے، لیکن لگتا ہے انہیں خود جانے کی جلدی تھی، اس لیے بہت کم وقت میں دینی اور دنیاوی لحاظ سے طویل سفر طے کیا۔ آٹھ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ مزید تعلیم جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی اور مدرسہ تعلیم القرآن راولپنڈی سے حاصل کی۔ کسی اسکول یا کالج میں ایک دن گئے بغیر ایم اے اور پی ایچ ڈی کے مراحل طے کیے۔ ادارہ تحقیقات اسلامی میں ریڈر کی حیثیت سے شامل ہوئے اور پھر دعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل، بین ا لاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے نائب صدر ، صدر اور اسی طرح سپریم کورٹ کے اپیلٹ بنچ کے جج اور آخر میں شریعت کورٹ کے جج کے منصب تک پہنچے۔ اسلامی بینکاری اور اسلامی نظام معیشت میں دنیا بھر میں اتھارٹی کی حیثیت رکھتے تھے۔ سپریم کورٹ کے اپیلٹ بنچ میں جب ربا کیس سنا جارہا تھا تو ڈاکٹر غازیؒ اس بنچ کے رکن تھے اوراس بنچ نے جو تاریخ ساز فیصلہ سنایا، وہ بقول جسٹس خلیل الرحمن خان اگر ان کو ڈاکٹر غازی کی معاونت حاصل نہ ہوتی تو وہ یہ فیصلہ کبھی نہ لکھ پاتے۔

جانے والے کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا۔ بلاشبہ ڈاکٹر محمود احمدغازیؒ کی رحلت اُمت مسلمہ اور بالخصوص پاکستان کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے، لیکن میرے لیے ذاتی طور پر بہت بڑا نقصان ہے، میں ایک ہمدرد اور غمگسار بزرگ سے محروم ہوگیاہوں۔ 

مجھے دعوۃاکیڈمی میں لانے والے وہی تھے۔ انہی کی دعوت پر میں نے پشاور کوخیرباد کہا۔ انہوں نے دعوۃ اکیڈمی میں قیام کے د وران اور اس کے بعد مجھے بہت عزت دی۔ جب دعوۃ اکیڈمی سے ان کاتبادلہ بحیثیت نائب صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ہوگیا تو انہوں نے میرے تبادلے کی تجویز بھی بھیجی، لیکن اُس وقت کے ڈائریکٹر جنرل محترم ڈاکٹرانیس احمد صاحب نے اس تجویزسے اتفاق نہیں کیا۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے پھر میرا تبادلہ شعبہ امتحانات میں کردیا۔ اب کی بار میری مرضی بھی اس میں شامل تھی چنانچہ محترم ڈاکٹر انیس احمد صاحب نے بھی جانے کی اجازت دے دی۔ 

ڈاکٹر غازیؒ درویش صفت انسان تھے۔ اگرچہ وہ ملنے ملانے میں زیادہ گرم جوشی کا اظہار نہیں کرتے تھے، لیکن میں اپنی عادت کے مطابق ان کے ساتھ بے تکلفی برتتا۔ کبھی کبھی یہ بے تکلفی بے ادبی کی حدود کو بھی چھو لیتی تھی، لیکن ڈاکٹر صاحب میرے مزاج سے بخوبی واقف تھے، اس لیے میر ی باتیں خندہ پیشانی سے برداشت کرلیتے۔

ڈاکٹر غازیؒ مجھ پر بہت اعتماد کرتے تھے اور الحمدللہ میں نے کبھی ان کے ا عتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ ایک دفعہ وہ کہیں بیرونِ ملک تشریف لے جارہے تھے اور میرا تربیت اساتذہ کا پروگرام شروع ہونے والا تھا۔ چنانچہ میں نے شرکا کی تعداد کے مطابق خالی اسناد ان کے سامنے دستخط کرنے کے لیے رکھ دیں ۔ انہوں نے خالی اسناد کو دیکھا اور کہا کہ ’’خالی اسناد پر دستخط کرنے پڑیں گے‘‘؟ میں نے کہا مجبوری ہے، چنانچہ ہماری مجبوری کا لحاظ رکھتے ہوئے انہوں نے خالی اسناد پر دستخط ثبت کیے۔ جب میرا تبادلہ شعبہ امتحانات میں ہواتو میں ایک دفعہ پھر براہِ راست غازی صاحبؒ کے ماتحت ہوگیا۔ وہ ان دنوں یونیورسٹی کے نائب صدر (اکیڈمکس) تھے۔ شعبہ امتحانات میں چونکہ آئے روز نت نئے مسائل کا سامنا ہوتا تھا، اس لیے غازی صاحبؒ کے ساتھ مشاورت کے لیے میں جب بھی جاتا تو وہ نہایت مصروف ہوتے اور بات نہ ہوپاتی۔ ایک دن میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھے دس منٹ دے دیں تاکہ میں اپنے مسائل آپ کے گوش گزار کروں۔ اس دوران پہلے سے گفتگو کا سلسلہ جاری تھا۔ غازی صاحب فائلیں نکالنے میں مصروف تھے۔ میری باتوں پر بھی وہ’’ بہت اچھا‘‘، ’’ٹھیک ہے‘‘ کہتے رہے۔ باتوں باتوں میں انہوں نے ایک دفعہ سر اٹھا کر کہا کہ دس منٹ میں سے پانچ منٹ تو آپ بول چکے۔ میں نے کہا میں توبول چکا ہوں، لیکن کیا آپ سن چکے ہیں؟ اس پر وہ مسکراکر پھر اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔ 

اسی طرح ایک دن میں ان سے ملنے کے لیے ان کے پی ایس کے کمرے میں کچھ اور لوگوں کے ساتھ انتظار کررہا تھا کہ اتنے میں غازی صاحبؒ اپنے دفتر سے برآمد ہوئے اور اپنے پی ایس سے جاتے جاتے کہا کہ اچھا میں جا رہا ہوں، کوئی کام تو نہیں ہے؟ اور یہ کہتے ہوئے نکل گئے۔ مجھ سمیت وہاں موجود دوسرے احباب نے یہ بات بہت محسوس کی اور ہر ایک ناگواری کا اظہارکرنے لگا۔ مجھے غازی صاحبؒ سے یہ توقع نہیں تھی، چنانچہ اگلے دن میں ان سے ملنے دوبارہ گیا۔ اس دن ان کے پاس کوئی موجود نہیں تھا۔ جاتے ہی میں نے سلام کے بعد کہا کہ ڈاکٹر صاحب، آپ نے کل کیاکیا؟ آپ کے اس رویے کی وجہ سے کئی احباب کی دل شکنی ہوئی، فریادیوں میں، میں بھی شامل تھا ۔چونکہ میں نے بات تھوڑی سی سخت کی تھی، اس لیے ڈاکٹرصاحبؒ کے چہرے پرکچھ ناگواری کے آثار نظر آئے۔ چنانچہ ان کے تاثر کو ٹھیک کرنے کے لیے میں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ ’’پیروں کو مناسب نہیں کہ مریدوں کے دلوں کو دکھائیں‘‘۔ اس پر وہ نارمل ہوگئے اور مسکرا کر کہا کہ آئندہ میں خیال ر کھوں گا اور مجھے ڈھیر ساری دعائیں دیں۔ 

جن دنوں غازی صاحب نیشنل سیکورٹی کونسل کے ممبر بن رہے تھے تو میرے پاس ایک’’ فرشتہ‘‘ آیا اور غازی صاحب کے متعلق مختلف قسم کے استفسارات کرنے لگا۔ میں سمجھ گیا کہ ان کو کوئی اہم ذمہ داری سونپی جا رہی ہے۔ اگلے دن ان سے ملاقات میں عرض کیا کہ میرے پاس ایک فرشتہ آیاتھا جو آپ کے متعلق مجھ سے استفسارات کر رہا تھا۔ ا نہوں نے مسکرا کر کہاکہ اچھا آپ کے پاس بھی پہنچ گیا تھا اور پھر کہا کہ کئی دوستوں کے پاس یہ فرشتے پہنچ گئے ہیں۔ پتہ نہیں کیا چاہتے ہیں۔ جس دن ان کے سیکورٹی کونسل کے ممبر کی حیثیت سے حلف اٹھانے کی خبر شائع ہوئی تو میں مبارکباد دینے کے لیے ان کے آفس گیا۔ جب میں نے مبارکباد دی تو انہوں نے مسکراکر وصول کی اور زبان سے کچھ نہیں بولے۔ پھر کہنے لگے کہ مجھے پیشکش تواس دن ہوئی تھی جس دن آپ کے پاس فرشتہ آیا تھا، لیکن میں نے احباب کے ساتھ مشورے کی مہلت مانگی تھی، چنانچہ کئی دوستوں سے مشورے کے بعد آج حلف اٹھارہا ہوں۔ کہنے لگے اللہ شاید کوئی خیر کا کام مجھ سے کروائے۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا بیگم عطیہ عنایت اللہ اور صاحبزادہ امتیاز کے درمیان بیٹھ کر آپ اپنے خیر کے تصور کے مطابق کوئی کام کرسکیں گے؟ کہنے لگے نہ کرسکا تو چھوڑ کر آجاؤں گا۔ اب میں نے چبھتا ہوا جملہ کہا۔ میں نے کہا کہ’’ لوگ کہتے ہیں جب حکومت تبدیل ہوتی ہے تو ڈاکٹر صاحب اپنی شیروانی ڈرائی کلین کرا لیتے ہیں‘‘۔ اس پر ان کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور کہا کہ ’’میں قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ میں نے آج تک نہ کسی عہدے کی خواہش ظاہر کی اور نہ ہی کسی عہدے کے لیے کسی کو درخواست کی ہے۔ میرا ایمان ہے کہ عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے، اس کے لیے ایک انسان کو دوسرے انسان کا محتاج نہیں ہونا چاہیے‘‘ اور پھر اپنے بریف کیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ’’ اگر میں اس میں پڑی ہوئی تحریر یں دکھا دوں تو آپ پریشان ہو جائیں گے کہ آخر یہ شخص سکون کی نیند کیسے سوتا ہے، لیکن الحمدللہ مجھے ان چیزوں کی پروا نہیں کیونکہ میرا ایمان ہے کہ عزت اور ذلت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔ 

وفاقی وزیر کی حیثیت سے ڈاکٹر صاحبؒ نے اصلاح احوال کی بڑی کوشش کی، لیکن ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئی۔ مدارس کی اصلاح کے پروگرا م میں حکومتی پروگرام سے اختلاف کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر داخلہ کے ساتھ کابینہ کے اجلاس میں تلخ کلامی بھی ہوئی۔ اسی طرح ڈاکٹر صاحب کی شدید خواہش تھی کہ سپریم کورٹ کے اپیلٹ بنچ کے ربا کے متعلق فیصلے کی روشنی میں پاکستان میں غیر سودی نظام معیشت رائج کیا جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے حتمی تاریخ کا اعلان بھی کیا تھا، لیکن بیوروکریسی اور سیکولر عناصر نے ان کی ایک نہ چلنے دی اور حکومت نے اس فیصلے کوبالائے طاق رکھ دیا۔ جب انہیں احساس ہوا کہ وہ کوئی مثبت کردار ادانہیں کرسکتے تو استعفا دینے میں ہی عافیت سمجھی۔

میں ان سے اکثر ذاتی اور دفتری معاملات اور مشکلات کا ذکر کرتا تھا ۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ’’ اپنے ایمان کو مضبوط کرو۔ جب آپ کا ایمان مضبوط ہوگا تو آپ ان تمام چیزوں کو من اللہ سمجھیں گے اور پھر کسی سے شکایت کی بجائے مشیت اللہ پر صابر و شاکر ہوں گے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’آپ یہ بات اپنے دل میں راسخ کرلیں کہ دنیا کی کوئی طاقت نہ آپ کو ذرہ برابر شر پہنچاسکتی ہے اور نہ ہی خیر‘‘۔

ڈاکٹر محمود احمدغازیؒ ایک انسان تھے اور انسان معصوم عن الخطاء نہیں ہوسکتا، لیکن امانت و دیانت کے لحاظ سے غازی صاحبؒ جن بلندیوں پر فائز تھے، ان کا اس دور میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ غازی صاحبؒ اس لحاظ سے گفتار کے نہیں کردار کے غازی تھے اور انہوں نے عملی طور پر یہ بات سمجھائی کہ امانت اور دیانت کسے کہتے ہیں۔ میں ایسے کئی واقعات کا عینی شاہد ہوں۔

ایک دفعہ میں ڈاکٹر صاحبؒ کے پاس ان کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ وہ گھر جانے کی تیاری کرنے لگے۔ بریف کیس کھول کر اس میں اپنی چیزیں رکھنے لگے۔ سامنے سے ایک پنسل اور ربر اٹھائی اور بریف کیس میں رکھ لی۔ میں یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا ۔ کہنے لگے یہ میں اپنے ذاتی کام کے لیے گھر سے لایاہوں۔

اسی طرح ایک دن کی بات ہے۔ غازی صاحب کو کہیں باہر دورے پر جانا تھا۔ میرے سامنے اپنے ڈرائیور کو بلایا اور ہدایت کی کہ کل دفتر کی گاڑی گیراج کر لیں اور اگر گھریلو ضرورت کے لیے گاڑی درکار ہو تو غزالی صاحب کی گاڑی استعمال کر لیں۔

غازی صاحبؒ یونیورسٹی کے نائب صدر بنے تو بھی میرا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ایک دن میں ان سے ملنے گیا، اندر پہلے سے کچھ لوگ موجود تھے، چنانچہ میں ان کے سیکرٹری طاہر فرقان کے پاس بیٹھ گیا۔ اتنے میں اندرسے کچھ کاغذات فوٹو کاپی کے لیے آئے جن پر غازی صاحبؒ نے تحریر کیا تھا: ’’ذاتی‘‘۔

دعوۃ اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر جناب حافظ بشیر احمد صاحب کا کہنا ہے کہ جب وہ دعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل بن کر آئے تو کئی مہینے ان کے گھر کے فون کا بل نہیں آیا۔ ایک دن میں نے پوچھ ہی لیا کہ سر! آپ کے گھر کے فون کا بل نہیں آرہاتو انہوں نے کہا کہ’’ میرے گھر پر کوئی سرکاری فون نہیں ہے۔ میں نے ذاتی لگوایا ہوا ہے، وہی استعمال کرتا ہوں، میرے بچے بھی وہی استعمال کرتے ہیں تو اس سے کیا فرق پڑتاہے کہ ایک آدھ فون دفتری مقاصد کے لیے بھی ہو جائے‘‘۔ ڈاکٹر صاحبؒ گھر کی سیلنگ بھی نہیں لیتے تھے حالانکہ قانوناً ایسا کرنے میں کوئی قباحت نہیں تھی، لیکن وہ اخلاقی طور پر اس کو مناسب خیال نہیں کرتے تھے۔ وہ تو تفریح الاؤنس بھی نہیں لیتے تھے بلکہ مہمانوں کی خاطر داری اپنی جیب سے کرتے تھے۔ نیشنل سیکورٹی کونسل اور وفاقی وزیر کی حیثیت سے ان کو کافی مراعات حاصل تھیں، لیکن انہوں نے ان مراعات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اسلامی یونیورسٹی میں صدر کے منصب سے ان کو جس دن فارغ کیا گیا، اُس دن وہ اپنے بھائی ڈاکٹر غزالی صاحب کی گاڑی میں گھر گئے اور یونیورسٹی کی گاڑی استعمال نہیں کی۔ 

یہ ۱۹۹۴ء کی بات ہے۔ غازی صاحبؒ اور ہمارے دو اور ساتھی کسی بین الاقوامی پروگرام میں شرکت کے لیے بیرونِ ملک جارہے تھے۔ میرا بھی تربیت اساتذہ کا پروگرام شروع ہونے والا تھا، اس لیے میں رہنمائی کے لیے غازی صاحب کے دفتر کی طرف چل پڑا۔ راستے میں معاً میرے دل میں بیرونِ ملک جانے کی خواہش نے سر اٹھایا۔ جب میں غازی صاحبؒ کے دفتر میں داخل ہوا تو اُن کے ہاتھ میں ایک خط تھا۔ انہوں نے دیکھتے ہی وہ خط مجھے پکڑا دیا اور کہا، بھئی میں باہر جارہا ہوں۔ یہ فجی میں ایک پروگرام ہے، اس پروگرام کے رابطہ کار آپ ہوں گے‘‘۔ اس سلسلے میں مزید تفصیلات طے کرنے کے لیے متعلقہ تنظیم سے رابطہ کرلیں۔ مجھے ملنے سے پہلے ہی وہ مذکورہ خط مجھے مارک کرچکے تھے۔ میں اب بھی سوچتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں میری وہ خواہش کتنی جلد مقبول ہوئی کہ ادھر دل میں خواہش پیدا ہوئی، اُدھر اللہ نے غازی صاحبؒ کے دل میں اس کام کے لیے میرا نام ڈا ل دیا۔ یہ ایک مہینے کا پروگرام تھا اور غازی صاحبؒ کے لیے اتنا عرصہ ملک سے باہر رہنا ممکن نہیں تھا، اس لیے وہ دس دن کی تاخیر سے ہمارے ساتھ شامل ہوئے۔غازی صاحبؒ کے آنے سے پروگرام کا لطف دوبالا ہوگیا۔ غازی صاحبؒ کے روزانہ ایک یا دو لیکچرز ہوتے تھے، باقی اوقات میں خوب گپ شپ رہتی۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میں پہلے بھی بے تکلف تھا، اب بے تکلفی اور بڑھ گئی۔ 

فارغ اوقات میں مختلف قسم کے سوالات جھاڑتا اور غازی صاحبؒ مسکرا مسکرا کر ہرسوال کا جواب دیتے۔ اس دوران غازی صاحبؒ کے ساتھ مختلف ضیافتوں اور فجی کے مختلف علاقوں کے دوروں کے مواقع بھی میسر رہے۔ ایک دن فجی مسلم لیگ کے یوتھ ونگ نے فجی کے دارالحکومت سووا کے قریب ایک جزیرے پر پکنک کا پروگرام بنایا۔ ہم پروگرام کے شرکا کے ہمراہ کشتی کے ذریعے روانہ ہوگئے۔ چونکہ کشتی نے بحرالکاہل کے سینے کو چیرنا تھا، اس لیے ہمیں لائف بوٹس دی گئیں۔ میں نے لائف جیکٹ مضبوطی کے ساتھ پہن لی۔ ڈاکٹر صاحب ؒ نے مسکرا کر کہا کہ یہ جیکٹ آپ کا بوجھ نہیں سہار سکے گی۔ میں نے استفسار کیا کہ بحرالکاہل کی گہرائی کتنی ہوگی؟ کہنے لگے کہ اوسطاً ایک سو دس میل۔ خوف سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ گھبرانے کی بات نہیں۔ جب ہم جزیرے پر پہنچے تو پروگرام کے شرکا بار بی کیو کی تیاری میں مصروف ہوگئے اور ہم ادھر ادھر جزیرے میں چہل قدمی کرنے لگے۔ اتنے میں کھانا تیار ہوگیا، ہم نے ڈٹ کر کھاناکھایا ۔ کھانا کھاتے ہی ڈاکٹر صاحبؒ کی طبیعت بوجھل ہوگئی۔ میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب خیریت ہے؟ کہنے لگے قیلولے کے بغیر بات نہیں بنے گی اور پھر وہیں گھاس پر کہنی سے سرہانہ بنا کر سو گئے۔ وہاں کے لوگوں کے کھانے کا ٹیسٹ بڑا مختلف تھا۔ وہ اپنے ذوق کے مطابق کھانا دیتے جس میں اکثر اوقات ابلے ہوئے چاول اور مچھلی کا شوربہ ہوا کرتا تھا جو مجھے سخت ناپسند تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو جب اس ناپسندیدگی کا پتہ چلا تو انہوں نے اس پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ ہم جو بھی پروگرام کریں گے، متعلقہ تنظیم کو بتادیں گے کہ وہ ہمارے رابطہ کار کی پسند کا خیال رکھے۔ کھانا ڈاکٹر صاحبؒ کو بھی پسند نہیں تھا لیکن خوش دلی سے اپنی ضرورت کے مطابق کھالیتے تھے۔

ایک دن ہم کھانے کے لیے بیٹھے۔ غازی صاحبؒ بھی موجود تھے۔ میں نہایت نیم دلی اور قدرے توقف سے ابلے ہوئے چاول چمچ میں اٹھا لیتا۔ ان کی نظر مجھ پر پڑی، انہوں نے مجھے کہا کہ مچھلی لے لیں! میں نے انکار میں سر ہلایا تو انہوں نے مچھلی کی ایک بوٹی اٹھائی اور کہا کہ میری خاطر ایک بوٹی لے لیں۔ چنانچہ ان کا دل رکھنے کے لیے میں نے وہ بوٹی کھالی ۔ 

فجی کے پروگرام سے و ہ بہت خوش تھے۔ اس پروگرام میں قریبی جزائر کے دعوتی کارکن بھی شامل تھے جن کی کل تعداد ۶۰ سے زیادہ تھی۔ڈاکٹر صاحبؒ نے مجھے بتایا کہ یہ بڑا اچھا موقع ہے انگریزی میں لیکچر دینے کے لیے۔ میں نے کہا کہ مجھ میں انگریزی بولنے کی استعداد نہیں ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ آپ اللہ کا نام لے کر لیکچر دیں، آپ کی استعداد خود بخود بڑھ جائے گی، لیکن میں اپنے آپ میں جرأت پیدا نہیں کرسکا۔ پروگرام کی اختتامی تقریب کے لیے میں نے رپورٹ تیار کی تھی۔ وہ میں نے ڈاکٹر صاحبؒ کو دکھائی، ڈاکٹر صاحبؒ نے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا، بہت اچھا لیکن مزہ تب آئے گا جب آپ زبانی تقریر کریں۔ میں ان کی یہ خواہش پوری نہ کرسکا۔

ایک موقع پر انہوں نے عربی میں اپنی پہلی تقریر کاقصہ بھی بیان کیا۔ کہنے لگے کہ ایک دفعہ میں ڈاکٹر معروف دوالیبی کی دعوت پر شام گیا۔ نماز جمعہ کے موقع پر انہوں نے مجھے خطبہ دینے کا حکم صادر کیا۔ میں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے عربی میں تقریر نہیں کی، اس لیے مشکل ہے۔ اس پر ڈاکٹر دوالیبی نے کہا کہ آپ کے لیے کیا مشکل ہے؟ آپ حافظ قرآن ہیں، بسم اللہ کرکے خطبہ شروع کردیں اور ایک دو فقروں کے بعد قرآن کی متعلقہ آیت کا حوالہ دیں۔میں نے اس فارمولے پر عمل کیا اور یوں میں نے عربی میں تقریر شروع کی۔

فجی میں قیام کے دوران ڈاکٹر غازی صاحبؒ کے ساتھ خوب گپ شپ ہوتی اور تقریباً ہر موضوع پر بات چیت ہوئی۔ ایک دفعہ باتوں باتوں میں، میں نے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب! آپ غازی کیسے بنے، یہ آپ کا تخلص ہے یا کنیت؟ مسکرا کر کہنے لگے کہ یہ بچپن کی ایک یادگار ہے۔ میں نے کہا وہ کیسے؟ تو کہنے لگے کہ بچوں کو عام طور پر اپنے نام کے ساتھ لاحقہ یا سابقہ لگانے کا شوق ہوتاہے۔ دوسرے بچوں کے طرح میرے دل میں بھی یہ شوق چرایا اور اپنا نام ابوالعلاء محمود احمد غازی لکھنے لگا۔ یہ نام میں ہر کتاب اور کاپی پر لکھتا تھا۔ ایک استاد نے ابوالعلاء کے لفظ کو میرے لیے چھیڑ بنایا۔ وہ جب بھی مجھے پکارتے تو’’ ابوالعلا ‘‘یا ’’ابوالعلاکے بچے‘‘ کہہ کر پکارتے ۔ میں بھی اس سے چڑتا چنانچہ ابوالعلاء لکھنا تو چھوڑ دیا، البتہ غازی میرے نام کا حصہ بن گیا جو اب تک چلاآرہا ہے۔

جب میں نے ایم فل اقبالیات میں داخلہ لیا، تب بھی ڈاکٹر صاحبؒ سے ملاقات ہوتی تھی۔ ان کا پہلا سوال یہی ہوا کرتا تھا کہ ہاں بھئی، کیا بنا آپ کے مقالے کا؟ اور میرے پاس اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہ ہوتا ۔ میرے لیے بار بار اس سوال کا سامنا کرنا مشکل تھا، اس لیے ایک طویل عرصے تک میں ان کے پاس نہیں گیا اور پھر تب گیا جب میں نے مکمل کرلیا۔ 

ڈاکٹر صاحبؒ کو جب میں نے مقالہ مکمل کرنے کی نوید سنائی توانہوں نے نہایت خوشی کااظہار کیا اور کہا کہ پی ایچ ڈی کی تیاری پکڑو، چنانچہ میں نے پی ایچ ڈی میں رجسٹریشن کروائی۔ غازی صاحب ہی میرے نگران تھے، ان کو میں نے مجوزہ مقالے کا خاکہ دکھایا۔ معمولی رد و بدل کے ساتھ انہوں نے مقالہ واپس دیتے ہوئے کہا کہ کہ جلدی جلدی پہلا باب لکھو تاکہ میں اسے دیکھ سکوں، لیکن اس وقت میرے ساتھ جوسانحہ رونما ہوا وہ یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب کی خواہش پر میرا تبادلہ دعوۃ اکیڈمی سے یونیورسٹی کے شعبہ امتحانات میں کردیاگیا۔ میں نے کہا کہ شعبہ امتحانات کی ذمہ داریوں کے ساتھ میں یہ ٹیڑھی کھیر کیسے کھاؤں گا؟ کہنے لگے میں نے بھی تو ان تمام مصروفیات کے باوجود پی ایچ ڈی کی تھی، لیکن غازی تو کوئی کوئی ہوتاہے،’’ حیرانوں‘‘ سے ’’غازی‘‘بننے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اب ان کی مصروفیات بھی کافی بڑھ گئی تھیں، اس لیے ان کی طرف سے ایم فل کے مرحلے جیسا تقاضا نہیں ہوتا تھا چنانچہ میں سست پڑ گیا، البتہ ان کی طرف سے جب بھی کوئی نوٹ آتا تو اس میں وہ مجھے ڈاکٹر حیران خٹک لکھتے اور یوں مجھے آگے بڑھنے کی ترغیب دیتے۔ 

ڈاکٹر غازی صاحبؒ کے ساتھ میری بہت سی یادیں وابستہ ہیں جو اب میرے لیے متاع حیات بن گئی ہیں۔ وہ ایک باکمال شخص تھے۔ ایک طرف اگر علم کی بلندیوں پر فائز تھے تو دوسری طرف اعلیٰ انسانی اخلا ق کا مرقع بھی تھے۔ انہوں نے حیاتِ مستعار کے ایک ایک لمحے کا حساب رکھا اور ایسی بھرپور ،متحرک ،بامقصد اور مصروف زندگی گزاری جس کی مثال ملنا محال ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت بخشے اور ان کی ابدی قیام گاہ دائمی نور سے منور فرمائے۔

شخصیات

(جنوری و فروری ۲۰۱۱ء)

جنوری و فروری ۲۰۱۱ء

جلد ۲۲ ۔ شمارہ ۱ و ۲

حرفے چند
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ حیات و خدمات کا ایک مختصر خاکہ
ادارہ

شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الرحمٰن المینویؒ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے استاذ حدیث)
مولانا حیدر علی مینوی

میری علمی اور مطالعاتی زندگی ۔ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا ایک غیر مطبوعہ انٹرویو)
عرفان احمد

بھائی جان
ڈاکٹر محمد الغزالی

بھائی محمود
مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی

ہمارے بابا
ماریہ غازی

ایک معتمد فکری راہ نما
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ایک عظیم اسکالر اور رہنما
مولانا محمد عیسٰی منصوری

ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم
محمد موسی بھٹو

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ : ایک اسم با مسمٰی
جسٹس سید افضل حیدر

ایک باکمال شخصیت
پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ - نشانِ عظمتِ ماضی
ڈاکٹر قاری محمد طاہر

مولانا ڈاکٹر محمود احمد غازی ۔ کچھ یادیں، کچھ تأثرات
مولانا مفتی محمد زاہد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند خوشگوار یادیں
محمد مشتاق احمد

معدوم قطبی تارا
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

میرے غازی صاحب
ڈاکٹر حیران خٹک

علم و تقویٰ کا پیکر
قاری خورشید احمد

میری آخری ملاقات
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر

مرد خوش خصال و خوش خو
مولانا سید حمید الرحمن شاہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ کچھ یادیں، کچھ باتیں
ڈاکٹر محمد امین

ایک بامقصد زندگی کا اختتام
خورشید احمد ندیم

اک دیا اور بجھا!
مولانا محمد ازہر

ایک معتدل شخصیت
مولانا محمد اسلم شیخوپوری

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ، ایک مشفق استاد
شاہ معین الدین ہاشمی

روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد
ڈاکٹر حافظ سید عزیز الرحمن

یاد خزانہ
ڈاکٹر عامر طاسین

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند تاثرات
محمد عمار خان ناصر

ڈاکٹر محمود احمد غازی علیہ الرحمۃ
ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان

ڈاکٹر غازیؒ ۔ چند یادداشتیں
محمد الیاس ڈار

ایک ہمہ جہت شخصیت
ضمیر اختر خان

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
محمد رشید

آفتاب علم و عمل
مولانا ڈاکٹر صالح الدین حقانی

شمع روشن بجھ گئی
مولانا سید متین احمد شاہ

علم کا آفتاب عالم تاب
ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

دگر داناے راز آید کہ ناید
حافظ ظہیر احمد ظہیر

ایک نابغہ روزگار شخصیت
سبوح سید

تواریخ وفات ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
مولانا ڈاکٹر خلیل احمد تھانوی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ تعزیتی پیغامات و تاثرات
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ فکر و نظر کے چند نمایاں پہلو
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

ڈاکٹر غازی مرحوم ۔ فکر و نظر کے چند گوشے
ڈاکٹر محمد شہباز منج

کاسموپولیٹن فقہ اور ڈاکٹر غازیؒ کے افکار
محمد سلیمان اسدی

آتشِ رفتہ کا سراغ
پروفیسر محمد اسلم اعوان

اسلام کے سیاسی اور تہذیبی تصورات ۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی کے افکار کی روشنی میں
محمد رشید

سلسلہ محاضرات: مختصر تعارف
ڈاکٹر علی اصغر شاہد

’’محاضراتِ قرآنی‘‘ پر ایک نظر
حافظ برہان الدین ربانی

ڈاکٹر غازیؒ اور ان کے محاضرات قرآن
سید علی محی الدین

’’محاضرات فقہ‘‘ ۔ ایک مطالعہ
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

محاضراتِ معیشت و تجارت کا ایک تنقیدی مطالعہ
پروفیسر میاں انعام الرحمن

تحریک سید احمد شہید رحمہ اللہ کا ایک جائزہ
ڈاکٹر محمود احمد غازی

اسلام میں تفریح کا تصور
ڈاکٹر محمود احمد غازی

اسلام اور جدید تجارت و معیشت
ڈاکٹر محمود احمد غازی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ سے ایک انٹرویو
مفتی شکیل احمد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ منتخب پیش لفظ اور تقریظات
ادارہ

مختلف اہل علم کے نام ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے چند منتخب خطوط
ڈاکٹر محمود احمد غازی

مکاتیب ڈاکٹر محمد حمیدؒ اللہ بنام ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
ادارہ

ڈاکٹر غازیؒ کے انتقال پر معاصر اہل علم کے تاثرات
ادارہ

ریجنل دعوۃ سنٹر کراچی کے زیر اہتمام تعزیتی ریفرنس
آغا عبد الصمد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں رابطۃ الادب الاسلامی کے سیمینار کی روداد
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام تعزیتی نشست
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ رسائل و جرائد کے تعزیتی شذرے
ادارہ

ایک نابغہ روزگار کی یاد میں
پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد خان

تلاش

Flag Counter