ڈاکٹر محمود احمد غازی علم ومعرفت کی دنیا میں ہمہ جہت شخصیت تھے۔ اصحاب علم ودانش آپ کو ایک جید عالم دین، مفسر، سیرت نگار، مایہ ناز معلم، مصنف عربی، فارسی اور انگریزی زبان کے ماہر کی حیثیت سے جانتے ہیں اور یہ مبالغہ آرائی نہیں، حقیقت ہے کہ ڈاکٹر صاحب علم ومعرفت کے آسمان پر بدر منیر بن کے چمکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو گوناگوں علمی وعملی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ ان کی ان صلاحیتوں کے پس منظر میں ایک قوت کار فرماتھی جس کو قرآن کی زبان میں تقویٰ کہا جاتا ہے اور جس میں جس قدر تقویٰ کا جوہر نمایاں ہوگا، اتنا ہی اللہ تعالیٰ اسے علم ومعرفت کی دولت سے سرفراز فرمائیں گے۔ فرمان الٰہی ہے: وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ (۲:۲۸۲) ’’یعنی اللہ سے ڈرو، اللہ تمہیں علم عطا فرمائے گا۔‘‘
درج ذیل سطور میں ڈاکٹر صاحب کے تقویٰ کے چند واقعات سپرد قلم کیے جاتے ہیں۔
نماز کی پابندی:
قرآن عزیز میں متقین کی ایک صفت یہ بھی بتائی گئی ہے کہ یُقِیْمُونَ الصَّلٰوۃَ (۲:۳) یعنی وہ نماز قائم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نماز باجماعت کا بہت اہتمام کرتے تھے۔ ۱۹۸۵ء میں وزارت مذہبی امور، اسلام آباد کے زیر اہتمام کمیونٹی سنٹر اسلام آباد میں ایک نمائش ’’بسلسلہ کتب سیرت‘‘ کا انعقاد ہوا اور وطن عزیز کی بڑی بڑی لائبریریوں سے کتب سیرت کو نمائش میں رکھا گیا۔ یونیورسٹی کی جانب سے جو لوگ خدمت پر مامور تھے، ان میں چند حضرات کے علاوہ میں (راقم الحروف) اور ڈاکٹر غازی بھی شریک تھے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ ایسے مواقع پر بروقت نماز ادا کرنے کی پابندی نہیں کرتے، لیکن ڈاکٹر صاحب کو میں نے دیکھا کہ کسی بھی نماز میں اپنی مصروفیات کے باوجود تاخیر نہیں کرتے تھے اور جب نماز ادا کرتے تو اس میں خشوع وخضوع کا خاص خیال رکھتے اور جونہی اذان ہوتی تو آپ کی توجہ مسجد اور نماز کی جانب مبذول ہو جاتی۔ یہ بہت بڑی سعادت اور کامیابی کی دلیل ہے۔
جس شب آپ کو دِل کا دورہ پڑا، اس رات کو بھی آپ نے نماز عشا باجماعت ادا کی۔ رات ڈیڑھ بجے جب سینے میں درد محسوس ہونے لگا تو آپ کے بھائی ڈاکٹر محمد الغزالی آپ کو ہسپتال لے گئے اور صبح تک علاج معالجہ کی غرض سے ہسپتال میں رہے۔ جب صبح کی اذان ہوئی تو اپنے بھیجتے حمزہ غزالی سے کہا کہ مجھے وضو کرنا ہے۔ آپ کے فرمانبردار بھتیجے نے آپ کو چارپائی پر ہی وضو کروایا۔ اسی دوران اپنی اہلیہ سے کہا کہ: پاؤں کی ایڑھیاں صحیح طریقے سے دھوئیں۔ آپ نے چارپائی پر ہی صبح کی نماز ادا کی جو کہ آپ کی زندگی کی آخری نماز تھی۔ نماز کے بعد جب درد دل بڑھنے لگا تو آپ کے بھائی نے کہا: مولانا تھانویؒ نے دِل کے درد کے لیے جو دعا لکھی ہے، آپ کو یاد ہے؟ فرمایا: وہی دعا پڑھ رہا ہوں۔ وہ دعا یہ ہے:
وَأَلَّفَ بَیْْنَ قُلُوبِہِمْ، لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِیْ الأَرْضِ جَمِیْعاً مَّا أَلَّفَتْ بَیْْنَ قُلُوبِہِمْ، وَلَکِنَّ اللٰہَ أَلَّفَ بَیْْنَہُمْ، إِنَّہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (۸: ۶۳)
ڈاکٹر صاحب اس آیت کریمہ کا ورد کرتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملے۔ آپ نے چونکہ ساری عمر نماز اور وظائف کی ادائیگی میں بسر کی، موت بھی آئی تو نماز کے بعد اور آیت کریمہ کی تلاوت کرتے ہوئے۔ سچ فرمایا اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس طرح زندگی گزاروگے، اسی طرح موت آئے گی اور جس طرح موت آئے گی، قیامت کو اسی حال میں اٹھائے جاؤ گے۔
ڈاکٹر صاحب کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ عرصہ پانچ سال تک فیصل مسجد کے خطیب رہے اور جنرل ضیاء الحق کی نماز جنازہ بھی آپ ہی نے پڑھائی اور مختلف اسلامی ممالک سے آنے والے نمائندوں اور ہزاروں پاکستانیوں نے آپ کی امامت میں نماز ادا کی۔
قرآن مجید کی تلاوت:
آپ قرآن کی تلاوت کا بہت اہتمام کرتے تھے یہاں تک کہ دوران سفر جب جہاز یا گاڑی میں بیٹھتے تو قرآن کی تلاوت شروع کر دیتے۔ آپ کے بیگ میں ہمیشہ قرآن مجید کا نسخہ موجود ہوتا تھا۔ آپ کی قرآن سے وابستگی کے بارے میں آپ کی مایہ ناز کتاب ’’محاضرات قرآنی‘‘ واضح ثبوت ہے۔
محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
متقین کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ وہ اللہ کی محبت کے بعد سب سے زیادہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور رسول کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت اور رسول کی محبت کو اللہ کی محبت تصور کرتے ہیں۔ ڈاکٹر غازی اپنے اقوال، اعمال اور اخلاق میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا وآخرت کی کامیابی کا ذریعہ قرار دیتے تھے جس کا واضح ثبوت آپ کی دو کتابیں’’ محاضرات سیرت‘‘ اور ’’محاضرات حدیث‘‘ ہیں۔ ان کتابوں کے مطالعہ سے ڈاکٹر صاحب کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت اور محبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آپ کی دوسری تصانیف ’’محاضرات قرآن‘‘ اور ’’محاضرات فقہ‘‘ کی طرح یہ دو کتابیں بھی اہل علم سے خراج تحسین حاصل کر چکی ہیں اور بار بار طبع ہو رہی ہیں۔ گزشتہ چند سالوں میں آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بار گاہ اقدس میں بصورت نعت بھی نذرانہ عقیدت پیش کیا جس کی تفصیل اور نعتیہ کلام فارسی زبان میں ماہنامہ ’’تعمیر افکار‘‘ کراچی کے شماروں میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام اہل کمال کا منبع اور ان کی نسبت کو ہی سب سے بڑا اعزاز اور کمال سمجھتے تھے۔ اس ضمن میں ان کی ایک فارسی نعت کا شعر ملاحظہ ہو:
کمال کاملاں یک قطرۂ بحر کمالش است
شود از نسبت نامش کمال کاملاں پیدا
]کاملین کا کمال، ان کے بحر کمال کا بس ایک قطرہ ہے۔ ان کے نام کی نسبت سے ہی کمال پیدا ہو جاتا ہے۔[
آپ کی حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور بین ثبوت یہ ہے کہ فتنہ قادیانیت کے سلسلہ میں جنوبی افریقہ کے دارالحکومت، ڈربن کی عدالت میں قادیانیوں پر ایک مقدمہ چل رہاتھا۔ آپ نے بہت کم وقت میں اپنے حافظے کی بنیاد پر ایسے ٹھوس علمی دلائل پیش کیے کہ وہاں کی عدالت قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج ماننے پر مجبور ہوگئی۔
حج کی ادائیگی:
ڈاکٹر صاحب مرحوم کو حرمین شریفین سے بے پناہ محبت تھی ۔ آپ نے متعدد عمرے اور نو حج ادا کیے۔ قارئین کرام یہ پڑھ کر حیران ہوں گے کہ ڈاکٹر صاحب کو بانی پاکستان اور مصور پاکستان سے اس قدر محبت تھی کہ آپ نے ایک حج قائداعظم محمد علی جناحؒ کی طرف سے اور ایک حج علامہ محمد اقبالؒ کی طرف سے ادا کیا اور میرے علم کے مطابق یہ شرف صرف اور صرف ڈاکٹر صاحب ہی کو حاصل ہے۔
پابندئ اوقات:
۱۹۸۵ء کا واقعہ ہے کہ اسلام آباد کے ایک کالج میں مقابلہ حسن قرأت منعقد ہوا۔ مجھے اور ڈاکٹر صاحب کو جج مقرر کیا گیا۔ (یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب قرآن کے حافظ اور جید قاری بھی تھے۔) ہمارے ساتھ دو حضرات اور بھی تھے جن کے نام یاد نہیں آرہے۔ بہر حال تقریباً بارہ بجے ہم لوگ اپنے کام سے فارغ ہوگئے۔ مجھے اور غازی صاحب کو واپس دفتر آنا تھا، کیوں کہ ہم دفتر ہی کی طرف سے دفتر کے ٹائم میں گئے تھے۔ ہمارے دوسرے ساتھی دفتر آنے کی بجائے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔ ان کے اس عمل کو ڈاکٹر صاحب حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ گویا زبان حال سے یہ تاثر دے رہے تھے کہ ان کا یہ عمل تقویٰ کے منافی ہے اور ایک دو بار دوران تقریر انہوں نے اس بات کا اظہار کیا بھی کہ ہمیں دفتری اوقات کی پابندی کرنی چاہیے۔ قیامت کے دن اس کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ فرمان الٰہی ہے: أَوْفُواْ بِالْعَہْدِ (۱۷:۳۴) اور وَیْْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ، الَّذِیْنَ إِذَا اکْتَالُوا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُونَ (۸۳:۱، ۲)۔ ان آیات کی روشنی میں ہمیں وعدہ کی پاسداری اور دفتری اوقات کی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب اپنے گھر نہیں گئے، حالانکہ ان کا گھرکالج کے قریب تھا۔ آپ سیدھے دفتر آئے اور کام میں مشغول ہوگئے اور یوں آپ نے تقویٰ وپرہیز گاری کا ثبوت دیا۔
احترام رمضان:
ڈاکٹر صاحب مرحوم رمضان المبارک کا بہت احترام اور روزے کا پابندی سے اہتمام فرماتے اور ماہ رمضان میں گھر پر قرآن شریف سناتے تھے۔ ایک دفعہ ماہ رمضان میں، میں نے پوچھا ڈاکٹر صاحب! روزے کیسے جارہے ہیں؟ کہنے لگے، اللہ کا کرم ہے، بہت اچھے جارہے ہیں۔ میں نے دوبارہ سوال کیا کہ منزل سنا رہے ہیں؟ تو کہنے لگے: ’’مجھ جیسے نالائقوں کا کیا سنانا ہے‘‘ (یہ کہہ کر کچھ آب بدیدہ سے ہوگئے جو کہ ان کی رقت قلبی اور جذبہ ایمانی کی دلیل ہے۔) بس گزارہ ہو جاتا ہے، منزل تراویح میں سنا دیتا ہوں۔‘‘ اس واقعہ سے رمضان کے احترام، خشیت الٰہی اور رات کے قیام کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔
سرکاری املاک کی حفاظت:
ڈاکٹر صاحب دو سال یونیورسٹی کے صدر رہے۔ اس دوران آپ نے قابل تقلید کردار ادا کیا۔ آپ نے ایک مرتبہ یونیورسٹی کے تمام ملازمین کو خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ہمیں سرکاری املاک کی حفاظت کرنی چاہیے۔ گاڑیاں ہوں یا فرنیچر، بجلی کا استعمال ہو یا ہیٹر، اسٹیشنری ہو یا ٹیلیفون، یہ سب ہمارے پاس امانت ہے۔‘‘ اس ضمن میں آپ نے اپنی زندگی کا ایک واقعہ سنایا جو سرکاری وغیرسرکاری دفاتر وغیرہ میں کام کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ہے۔آپ نے کہا:
جب میں ادارہ تحقیقات اسلامی میں ملازم ہوا تو انھی دنوں ایک دوست نے مجھے اپنے دفتر میں دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا۔ جب ہم کھانے سے فارغ ہوئے تو میزبان نے ٹیبل کی دراز سے ٹائپنگ پیپر نکال کر ہاتھ صاف کیے اور دوسرے صاحب کو بھی دیے۔ میں نے پیپر سے ہاتھ صاف کرنے سے انکار کر دیا اور دل میں اللہ سے عہد کیا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے زندگی میں مجھے کوئی اہم منصب عطا کیا تو میں سرکاری املاک کو کبھی بھی ضائع نہیں ہونے دوں گا۔ ڈاکٹر صاحب جب جامعہ کے صدر بنے تو آپ نے اس عہد کو حرف بحرف پورا کر دکھایا۔ ایک مرتبہ آپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ دفتری کام میں جو کاغذ استعمال ہوتے ہیں، عموماً ان کی دوسری جانب خالی ہوتی ہے۔ میں ان کاغذات کو ضائع کرنے کی بجائے ان کی دوسری جانب کو کام میں لاتا ہوں۔ انہی پر ڈکٹیشن دیتا ہوں، املا لکھواتا ہوں اور علمی مضامین بھی لکھتا ہوں۔
جامعہ کی صدارت کے دوران آپ شریعت کورٹ کے جج بھی تھے۔ اپنے فیصلے جن کاغذات پر لکھتے، ان کو دونوں جانب سے کام میں لاتے اور اسٹینوگرافر کے حوالے کرتے۔ علاوہ ازیں جامعہ اور شریعت کورٹ کی جانب سے موصول آرڈر، مکتوبات وغیرہ کا باقاعدہ ایک بنڈل بنایا ہواتھا جس کی دوسری جانب مضامین وغیرہ لکھتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ ایک دن مجھے یہ خیال آیا کہ شاید میرا یہ عمل درست نہ ہو۔ اسی سوچ بچار میں تھا کہ ایک شب امام شافعیؒ کے حالات زندگی پڑھنے لگا تو معلوم ہوا کہ امام شافعیؒ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ سرکاری کاغذات کو ضائع کرنے کی بجائے ان کو کام میں لاتے تھے۔ بس مجھے اطمینان ہوگیا اور کاغذات کو ضائع ہونے سے بچالیا۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے کبھی بھی دفتر سے اسٹیشنری ایشو نہیں کروائی۔ دفتری کام کے لیے عام طور پر آپ ذاتی اسٹیشنری استعمال میں لاتے تھے۔
گیس ضائع نہ کریں:
ڈاکٹر صاحب کے ایک شاگرد جو کہ اب خود بھی ماشاء اللہ ڈاکٹرہیں یعنی ڈاکٹر شیخ تنویر احمد (اسسٹنٹ پروفیسر، اسلامک یونیورسٹی) ایک دن ڈاکٹر صاحب کے تقویٰ کا ایک واقعہ سناتے ہوئے کہنے لگے کہ:
’’ڈاکٹر غازی کے تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ آپ نے کلاس روم میں سوئی گیس کے ہیٹر کا پائلٹ جلتا ہوا دیکھا تو کہنے لگے، اگر ضرورت نہیں ہے تو پائلٹ بند کر دیا جائے۔ یہ قومی ملکیت ہے اور گیس ضائع ہو رہی ہے۔ آپ خود اٹھے اور پائلٹ بند کر دیا۔‘‘
غصہ کی حالت میں وضو:
ڈاکٹر صاحب کے پی اے عابد علی (جو دفتری معاملات میں آپ کی معاونت کرتے) کا کہنا ہے کہ اگر کسی معاملے میں ڈاکٹر صاحب کو غصہ آجاتا تو جوابی کارروائی کرنے کی بجائے آپ فوراً وضو کرنے لگتے اور تھوڑی ہی دیر بعد طبیعت میں بشاشت پلٹ آتی۔ علاوہ ازیں آپ دفتری اوقات میں بھی ہمیشہ باوضو رہتے اور اگر کوئی آپ کے سامنے آپ کی تعریف کرتا تو انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے۔
مکان کی ریکوزیشن اور ٹیلیفون کا استعمال:
قارئین کرام! آپ حیران ہوگے کہ جس دور میں یونیورسٹی کے ملازمین اپنے اپنے مکانوں کی ریکوزیشن کرواتے تھے، ڈاکٹر صاحب نے اپنے مکان کی ریکوزیشن نہیں کروائی حالانکہ ان کے گریڈ کے اعتبار سے خطیر رقم بنتی تھی۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مکان ایک ہے اور اس میں، میں اور میرا بھائی دونوں رہ رہے ہیں، اس لیے میں مناسب نہیں سمجھتا۔ اسی طرح گھر میں جو سرکاری ٹیلیفون تھا، اس کا بل اپنی جیب سے ادا کرتے اور دفتری ٹیلیفون کو صرف اور صرف سرکاری مقاصد کے لیے استعمال میں لاتے۔
یونیورسٹی کے صدر کی حیثیت سے آپ کو سرکاری طور پر یہ اجازت تھی کہ یونیورسٹی میں آنے والے سرکاری وفود اورمہمانوں کی چائے اور ریفریشمنٹ وغیرہ سے تواضع کریں، لیکن آپ ہمیشہ اس سے دور رہے اوریوں آپ نے مہمانوں کے بہانے یونیورسٹی کے مال کو ضائع ہونے سے بچائے رکھا۔ اگر کوئی غیر سرکاری مہمان یادوست آتا تو اپنی جیب سے اس کی خاطر تواضع کرتے۔
ان واقعات میں ہمارے لیے تقلید کا سامان ہے، خصوصاً اس دور میں جب کہ چہار جانب بددیانتی اور کرپشن کی مسموم ہوائیں چل رہی ہیں۔ اے کاش! اگر ہر ذمہ دار پاکستانی اور سرکاری عہدوں پر فائز لوگ اسی طرح تقویٰ اور دیانتداری کا ثبوت دیں جس طرح ڈاکٹر غازی مرحوم نے دیا ہے تو وطن عزیز سکون واطمینان کا گہوارہ بن جائے۔
عفوودرگذر:
تحمل وبردباری کو قرآن مجید نے نیک لوگوں کی صفت شمار کیا ہے، چنانچہ انہی لوگوں کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے: وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ (۳:۱۳۴)۔ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کے علما کی سوانح عمریاں عفو ودرگذر کے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔ قسام ازلی نے ڈاکٹر محمود احمد غازی کو بھی عفو ودرگذر کی دولت سے مالا مال فرمایا تھا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر صاحب کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر محمد الغزالی کی زبانی چند واقعات سپرد قلم کیے جاتے ہیں۔
۱۔ڈاکٹر محمد الغزالی بیان کرتے ہیں کہ ڈاکٹر محمود احمد غازی جن دنوں دعوۃ اکیڈمی کے ڈائریکٹر تھے، ایک دن میں کسی کام سے ان کے دفتر گیا۔ اسی دوران دعوۃ اکیڈمی کا ایک ملازم اپنی پروموشن کا کیس لے کر ڈاکٹر صاحب کے پاس آیا۔ آپ نے اس کی فائل ملاحظہ کرنے کے بعد کہا: اس میں چند قانونی رکاوٹیں ہیں جن کو دور کرنے کی میں کوشش کروں گا۔ فی الحال آپ کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ ڈاکٹر صاحب کا جواب سن کر ملازم سیخ پا ہوگیا اور ڈاکٹر صاحب سے کہنے لگا: ایک گھنٹہ سے میں دماغ کھپا رہا ہوں۔ جب آپ مر جائیں گے تو پھر میری پروموشن ہوگی۔ اس طرح کے اور بھی کئی ترش وتلخ جملے مسلسل بولتا رہا اور ڈاکٹر صاحب سنجیدگی سے اس کی باتیں سنتے رہے۔ آپ نے نہ تو اس کو ڈانٹا اور نہ ہی اس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کی۔
۲۔ایک دفعہ یونیورسٹی کے طلبہ نے ہڑتال کردی اور طلبہ کی دو گاڑیاں بھر کر ڈاکٹر صاحب کے گھر کے سامنے اکھٹے ہوگئے۔ تقریریں کرتے رہے اور مختلف انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ ڈاکٹر صاحب کا دور ایک مثالی دور تھا، مگر طلبہ بسا اوقات کچھ ایسے مطالبات بھی کر بیٹھتے ہیں کہ اصول وضوابط کی روشنی میں ان کا پورا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ آپ نے نہ تو پولیس کو مطلع کیا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کارروائی کی۔ ڈاکٹر صاحب کے صبروتحمل کا طلبہ پریہ اثر ہوا کہ طلبہ خود ہی ندامت کے ساتھ واپس چلے گئے۔
۳۔اسی طرح ایک مرتبہ طلبہ نے آپ کے دفتر کے سامنے نعرہ بازی شروع کر دی اور مطالبات منوانے کے لیے تقریریں کرتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب سارا دن اطمینان سے کام کرتے رہے اورطلبہ کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی۔ آپ کو متعدد بار ایسے مراحل اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا، مگر آپ نے ہمیشہ عفو و درگزر سے کام لے کر مخالفین کو اپنا ہم نوا اور تابع فرماں بنا دیا اور کسی کے ستم کو ستم اور جفا کو جفا نہیں سمجھا اور یوں کہتے ہوئے ٹال گئے:
ستم کو ہم کرم سمجھے جفا کو ہم وفا سمجھے
جو اس پر بھی نہ وہ سمجھے تو اس بت کو خدا سمجھے
اہل وعیال سے شفقت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ تم میں سب سے اچھا اور نیک وہ ہے جو اپنے گھروالوں کے معاملے میں بہتر ہو۔ ڈاکٹر غازی صاحب نے اس فرمان نبوی کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ ڈاکٹر محمد الغزالی نے آپ کی گھریلو زندگی کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے اہل خانہ سے نہایت خندہ پیشانی سے پیش آتے اور کبھی بھی کسی معاملہ میں ناراضی یا غصہ کا اظہار نہیں کیا۔ یہاں تک کہ بچوں سے بھی بہت پیار کرتے اور ادب واحترام سے کلام کرتے اور بے پناہ پیاروشفقت کا اظہار کرتے۔ آپ کی اس شفقت اور محبت نے آپ کے گھر کو امن وسکون کا گہوارہ بنادیا تھا۔
والدین کی خدمت:
خوش نصیب اور بلند بخت ہیں وہ لوگ جنہوں نے والد کی رضا میں اللہ کی رضا کو اور والدہ کے قدموں تلے جنت کو تلاش کیا۔ ڈاکٹر غازی صاحب بھی یہ سعادت پا گئے اور والدین کی قدم بوسی کر کے خدمت کے اصول بتاگئے اور اللہ کو اپنا بنا گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے تازیست والدین کی خدمت کی اور خوب دعائیں لیتے رہے۔ چند سال قبل آپ کے والد مرحوم جب اس دنیا سے رخصت ہوگئے تو اس کے بعد آپ نے اپنی والدہ کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آپ ہر روز دفتر آنے سے پہلے والدہ کی خدمت میں حاضری دیتے اور شام کو سب سے پہلے والدہ کی خدمت میں حاضر ہو کر حال احوال دریافت کرتے اور جھولیاں بھر بھر کر دعائیں سمیٹتے۔ اگر کہیں سفر میں ہوتے تو والدہ کے حالات سے باقاعدہ باخبر رہتے۔ آپ کی والدہ کی دعائیں ہمیشہ آپ کے شامل حال رہیں اور زندگی کے کئی پر خطر مراحل خوش اسلوبی سے طے کر گئے۔آپ کی والدہ محترمہ تاحال بقید حیات ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ انہوں نے اپنی وفات سے دو ماہ قبل اپنی والدہ کو وہیل چیئر پر بٹھا کر عمرہ کرایا۔ جن لوگوں نے حرمین شریفین کی زیارت کی ہے، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کسی عمرہ رسیدہ کو وہیل چیئر پر بیٹھا کر حج کے مناسک یا عمرہ کے اعمال بجالانا کس قدر مشکل مرحلہ ہے، مگر ڈاکٹر صاحب نے خندہ پیشانی کے ساتھ یہ سعادت حاصل کر لی۔
استقامت:
ڈاکٹر صاحب کی خداداد صلاحیتوں کو بھانپ کر بہت سے لوگوں نے آپ کو خریدنا چاہا، مگر آپ نے ہر پیش کش کو ٹھکرادیا اور إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا (۴۱:۳۰) کا دامن اس مضبوطی سے تھام لیا کہ بادِ مخالف کے تندو تیز جھونکے آپ کے پائے استقامت کو متزلزل نہ کر سکے اور ’’قل اٰمنت باللّٰہ ثم استقم‘‘ کا عملی نمونہ پیش کیا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر کی ایک علمی تقریر سے جس کا عنوان ’’اسلام اور مغرب۔۔۔موجودہ صورتحال‘‘ ہے، ان کی استقامت کا ایک قابل تقلید واقعہ پیش کیا جاتا ہے۔ آپ نے دوران تقریر میں کہا:
’’اکتوبر ۱۹۷۴ء میں ایک پروفیسر صاحب امریکہ سے تشریف لائے۔ وہ ایک مشہور امریکن یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ انہوں نے پاکستان کے مختلف اداروں کا دورہ کیا۔ وہ ادارہ تحقیقات اسلامی میں بھی آئے۔ میں اس زمانے میں ادارہ تحقیقات اسلامی میں کام کرتا تھا۔ نوجوان تھا، مدرسے کی تعلیم سے فارغ ہو چکاتھا۔ عربی اچھی جانتا تھا، انگریزی سے بھی شدبد ہوگئی تھی۔ تھوڑی بہت فرنچ بھی میں نے سیکھ لی تھی۔ وہ پروفیسر صاحب بہت سے لوگوں سے ملے، مجھ سے بھی ملے۔ مجھ سے ملنے کے بعد انہوں نے کہا کہ میں الگ سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں، تم مجھ سے ملنے کے لیے آؤ۔ میں ان سے ملنے چلا گیا۔ دوران ملاقات انہوں نے کہا، میں تمہیں اسکالر شپ دینا چاہتا ہوں امریکہ میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے۔ تم امریکہ کی جس یونیورسٹی میں چاہو، میں تمہیں اسکالر شپ دے سکتا ہوں۔ میں نے سنا ہوا تھا کہ ہارورڈ صف اوّل کی یونیورسٹی ہے اور ایم آئی ٹی ہے اور پرسٹن ہے، تین یونیورسٹیوں کا بڑا چرچا تھا، اس لیے میں نے ان کا نام سنا ہوا تھا۔ میں نے کہا کہ آپ مجھے ہارورڈ میں داخلہ دلوادیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے: میں تمہیں ہارورڈ میں داخلہ دلوادوں گا۔ کام یہ ہوگا کہ تم ایک سال کے لیے امریکہ آؤ، ہارورڈ یونیورسٹی میں کورس ورک کرو، پھر میرے پاس آؤ۔ تین مہینے میرے پاس کورس ورک کرو، پھر واپس پاکستان آجاؤ۔ انہوں نے جو نقد وظیفہ بتایا، وہ اتنا تھا جتنا اس وقت حکومت پاکستان کے سیکرٹری کو بھی تنخواہ نہیں ملتی تھی، کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو بھی نہیں ملتی۔ پاکستان میں رہ کر یہ وظیفہ ملنا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ کام یہ ہوگا کہ پاکستان میں رہ کر یہ معلومات جمع کرو کہ پاکستان میں دینی مدارس کیا کام کرتے ہیں، کتنے دینی مدارس ہیں؟ کون کون علماے کرام ان کو چلارہے ہیں، وہ کیا کیا پڑھاتے ہیں، کیا ذہن بناتے ہیں؟ اور جو لوگ ان سے تیار ہوتے ہیں، وہ بعد میں کیا کام کرتے ہیں اور ان کا رویہ مغرب کے بارے میں کیسا ہوتا ہے؟ یہ ساری معلومات جمع کر کے آؤ، پھر میرے ساتھ بیٹھ کر اس کو مرتب کرو، اس کی بنیاد پر تمہیں ہارورڈ یونیورسٹی پی ایچ ڈی کی ڈگری دے دے گی۔
سچی بات ہے، میں اللہ تعالیٰ کی تحدیث نعمت کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ مجھے اس وقت یہ لگا کہ یہ تو صاف صاف جاسوسی کا کام ہے۔ دوران گفتگو پروفیسر صاحب نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کا ایک پروجیکٹ مصر کے لیے ہے، ایک بنگلہ دیش اور انڈونیشیا کے لیے ہے۔ اب یہ چار بڑے ملک جو آبادی کے لحاظ سے صف اوّل کے ممالک تھے، جہاں دینی تعلیم کا پرائیویٹ نظام بڑا غیر معمولی تھا، وہاں کے لیے یہ کیوں تحقیق ہورہی تھی؟ اس پر لاکھوں روپے کے یہ مصارف کیوں کرائے جارہے تھے؟ میں نے کوئی ذاتی عذر بیان کر کے معذرت کر لی کہ میں سردست امریکا نہیں جا سکتا، لیکن اِس وقت میں جب بھی اس نوعیت کے مختلف معاملات کو دیکھتا رہتا ہوں تو مجھے یہ لگتا ہے کہ مغربی دنیا کم ازکم ۱۹۷۴ء سے اس نکتے پر سوچ رہی تھی کہ دنیائے اسلام میں دینی تعلیم کا مستقبل کیا ہے، ماضی کیا تھا اور حال کیا ہے؟ اب پچھلے آٹھ دس سال سے اس میں زیادہ شدت آگئی ہے۔‘‘ (تعمیر افکار، ج ۸، شمارہ ۱۰، اکتوبر ۲۰۰۷ء)
قارئین کرام! ڈاکٹر صاحب تو ایک علمی شخصیت تھے۔ یہ کام تو ایک طالب علم بھی کر سکتا تھا، مگر آپ نے فوراً اس پیشکش کو ٹھکرادیا جس کے لیے لوگ پاپٹر بیلتے اور ترستے ہیں۔
یہ اس دور کی بات ہے جب دینی مدارس کو ختم کرنے کی خفیہ پلاننگ ہورہی تھی اور غیروں نے مکین ومکان کو اجاڑنے کا مصمم ارادہ کر لیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب اپنی ایمانی فراست اور دینی غیرت کی قوت سے اس آزمائش سے دامن بچا گئے۔ استقامت کی سعادت پاگئے اور قیامت کے دن علماء ربانی کے گروہ میں یہ کہنے کے مجاز ہوں گے کہ:
بار الٰہ: جب اپنوں نے غیروں سے آشنائی کرلی تھی، روح اور جسم دونوں مرہون ہو چکے تھے، جب غیروں نے مکان ومکین پر منظم حملہ کیا تھا، دل ودماغ دونوں مجروح ہو چکے تھے اور بادسموم کے جھونکے شمع نبوت کو بجھانے کے درپے تھے تو ایسے نازک وقت میں اگرہم سے اور کچھ نہ ہو سکا تو غیروں کی مخالفت مول لے کر ملبہ کی حفاظت کی اور سامنے سے کسی کو مینا وساغر اٹھانے نہیں دیا۔
علماء وصوفیاء کے علم وہنر کا امتحان کم ہوا مگر کردار کا امتحان ہر زمانے میں ہوتا رہا، لیکن اہل استقامت اس امتحان میں کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔ ڈاکٹر غازی بھی انہی کامیاب اور صاحب استقامت لوگوں میں سے ایک ہیں جو اغیار کی پیشکش ٹھکراگئے، وفا کے اصول بتا گئے اور ’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘ کا درس دیتے ہوئے یہ فرما گئے:
چمن کا رنگ گو تو نے سراسر اے خزاں بدلا
نہ ہم نے شاخ گل چھوڑی نہ ہم نے آشیاں بدلا
سفر آخرت کے اشارے:
ڈاکٹر صاحب کی وفات سے تقریباً ایک ماہ قبل میں (راقم الحروف) نے خواب دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب ایک براؤن رنگ کی خوبصورت قالین پر بیٹھے ہیں اور آپ کے سامنے ایک رحل رکھی ہے جس پر قرآن مجید کھلا ہوا ہے اور اس کا ایک ایک ورق تقریباً چار چار فٹ چوڑا اور آٹھ آٹھ فٹ لمبا ہے۔ چہار جانب نور کا ہالہ بنا ہوا ہے اور ڈاکٹر صاحب بہت مسرور ہو ر ہے ہیں۔ جب راقم الحروف نے ڈاکٹر صاحب سے یہ خواب بیان کیا تو چند لمحے سکوت کے بعد کہنے لگے: ’’بس آپ میرے لیے دعا کیا کریں‘‘۔ غالباً ڈاکٹر صاحب کی خاموشی اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ آپ کی مساعی جمیلہ کو اللہ نے قبول فرما لیا ہے اور سفر آخرت بہت قریب ہے۔
اسی طرح آپ کی وفات سے تقریباً چند دن قبل دارالعلوم اسلامیہ، لاہور میں ’’تربیت مدرسین‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار منعقد ہوا۔ ڈاکٹر صاحب بھی اس میں شریک تھے۔ سیمینار کے اختتام پر آپ نے مولانا مشرف علی تھانوی (جنہوں نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی) سے کہا کہ ’’مولانا! میری نماز جنازہ آپ نے پڑھانی ہے‘‘۔ آپ کی یہ تمنا پوری ہوئی اور علم وتقویٰ کا یہ پیکر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔
نمازی اور نماز گاہ:
گزشتہ صفحات میں آپ نے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو ایک متقی کی حیثیت سے ملاحظہ فرمایا۔ جہاں تک آپ کی علمی صلاحیتوں اور خدمات کا تعلق ہے، اہل علم سے یہ حقیقت مخفی نہیں کہ آپ کی ساری زندگی علوم اسلامیہ کے حصول، تدریس اور اشاعت میں گزری اور بقول علامہ اقبال مرحوم کے:
اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی
ڈاکٹر غازی کے لیل ونہار بھی اسی قیل وقال میں گزر گئے اور اچھے حال میں گزر گئے۔ آپ کی مساعی جمیلہ کو اللہ نے وہ شرف بخشا کہ عالمِ برزخ میں بھی اسی محبوب عمل میں مشغول کر دیا جو کہ آپ کے تابناک مستقبل کی دلیل ہے۔
اس ضمن میں ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی صاحب (جو کہ علمی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت ہیں) کا ایک خواب نقل کیا جاتا ہے جو انہوں نے ڈاکٹر غازی کی وفات کے چند دن بعد دیکھا۔ اس خواب میں غازیؒ کے تلامذہ، احباب اور دیگر اہل علم کے لیے اطمینان وتسلی کا سامان ہے۔
ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک رات غازی صاحب کو خواب میں دیکھا اور آپ تیز تیز چل رہے ہیں۔ میں نے کہا! غازی صاحب! آپ تو فوت ہوگئے ہیں۔ بتائیے آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا تو جلدی جلدی آپ نے جواب دیا کہ اللہ نے کرم والا معاملہ فرمایا ہے اور وہاں ایک نماز گاہ میں میرا محاضرۃ (لیکچر) ہوتا ہے۔ میں جلدی جلدی اس لیے جارہا ہوں کہ دیر نہ ہو جائے۔ (راقم الحروف سے یہ خواب ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب، ریسرچ سکالر، IRIنے بیان کیا)۔
آخر میں ڈاکٹر صاحب کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
علم والے علم کا دریا بہا کر چل دیے
واعظان قوم سوتوں کو جگا کر چل دیے
کچھ سخن ور تھے کہ سحر اپنا دکھا کر چل دیے
کچھ مسیحا تھے کہ مردوں کو جلا کر چل دیے