’’محاضراتِ قرآنی‘‘ پر ایک نظر

حافظ برہان الدین ربانی

جہالت کی تاریکی کو علم کے نور سے بدلنے اور بھٹکتی انسانیت کو جینے کا شعور دینے کے لیے معاشرہ اور سوسائٹی ہمیشہ علم اور اہل علم کے محتاج رہے ہیں۔تغیر زماں کے ساتھ کئی اہل علم آئے اور اپنی ہمت وبساط کے مطابق اپنے علم سے روشنی کے دیپ جلاتے رہے۔ انہی قد آور شخصیات میں ایک نام ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم کا بھی ہے جو سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ بعض لوگ اس دنیا سے بظاہر رخت سفر باندھ لیتے ہیں، لیکن اپنے پیچھے ایسے کارنامے چھوڑ جاتے ہیں جن کی بدولت وہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب بھی قانون خداوندی: کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ (۳:۱۸۵) کے مطابق اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے، لیکن اہل علم کے لیے محاضرات کی شکل میں ایک عظیم علمی اثاثہ چھوڑ گئے ۔ محاضرات اصل میں ڈاکٹر صاحب کے مختلف مقامات پر دیے گئے لیکچرز ہیں جو اب کتابی شکل میں دستیاب ہیں۔ ان میں محاضرات قرآنی ، محاضرات حدیث ، محاضرات فقہ ، محاضرات سیرت اور محاضرات معیشت وتجارت وغیرہ شامل ہیں۔

ہم اس وقت ڈاکٹر صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے محاضرات قرآنی پر ایک نظر ڈالنا چاہتے ہیں۔ ان محاضرات کے لیے تحریک ڈاکٹر صاحب کی ہمشیرہ محترمہ عذرا نسیم فاروقی نے پیدا کی اور ان خطبات کو صوتی مسجل سے صفحہ قرطاس پر بھی منتقل کیا۔زیر نظر محاضرات قرآنیات پر دیے گئے بارہ خطبات کا مجموعہ ہے جن کی ترتیب کچھ یوں ہے :

خطبہ اول : تدریس قرآن مجید: ایک منہاجی جائزہ

خطبہ دوم : قرآن مجید: ایک عمومی تعارف

خطبہ سوم : تاریخ نزول قرآن مجید 

خطبہ چہارم : جمع و تدوین قرآن مجید

خطبہ پنجم : علم تفسیر: ایک تعارف

خطبہ ششم : تاریخ اسلام کے چند عظیم مفسرین 

خطبہ ہفتم : مفسرین قرآن کے تفسیری مناہج

خطبہ ہشتم : اعجاز القرآن

خطبہ نہم : علوم القرآن

خطبہ دہم : نظم قرآن اور اسلوب قرآن

خطبہ یازددہم : قرآن مجید کا موضوع اور اس کے اہم مضامین

خطبہ دو از دہم : تدریس قرآن مجید: دور جدید کی ضروریات اور تقاضے

محاضرات قرآنی اس لحا ظ سے بڑی خصوصیت کے حامل ہیں کہ اس میں قرآنیات کے حوالے سے تقریباً تمام موضوعات کا احاطہ کرنے اور طویل و دقیق موضوعات کو مختصر اور عام فہم انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور بڑی حد تک ڈاکٹر صاحب کو اس کوشش میں کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں محاضرات قرآنی کا مطالعہ ایک عام قاری کو دوسری بہت سی کتب سے مستغنی کرتا اور ایک محقق کے علمی سفر کے لیے راہ ہموار کرتا ہے ، وہاں ڈاکٹر صاحب کے علمی مقام ومرتبہ کو بھی اجاگر کرتاہے ۔جہاں یہ محاضرات ایک ادیب کے لیے ادب کی چاشنی اور ایک محقق کے لیے تحقیقی راہنمائی لیے ہوئے ہیں، وہیں ایک مدرس کے لیے انداز تدریس کا سامان بھی فراہم کرتے ہیں۔ ان کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ ایک عام قاری بھی ان کے مطالعہ کے دوران میں کسی قسم کا ثقل اور بوجھ محسوس نہیں کرتا۔ 

قرآن اپنے دعویٰ ھُدًی للناس کے مطابق چونکہ تمام انسانیت کی راہنمائی کے لیے نازل کی گئی کتاب ہے، اس لیے اس کا مطالعہ ایک غیر مسلم کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ کسی مسلمان کے لیے۔ ڈاکٹر صاحب ایک غیر مسلم کے لیے قرآن کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : 

’’ایک انصاف پسند غیر مسلم اگر قرآن مجید پر نظر ڈالے گا اور قرآن مجید کی تاریخ اور انسانیت پر اس کے اثرات کا مطالعہ کرے گا تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس کتاب کا مطالعہ اس کے لیے بھی شاید اتنا ہی ضروری ہے جتنا ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ اس کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ میں کوئی اور کتاب ایسی نہیں جس نے انسانیت کی تاریخ پر اتنا گہرا اثر ڈالا ہو جتنا قرآن مجید نے ڈالا ہے۔‘‘ (ص: ۱۶)

اسی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے موصوف قرآن مجید کے ان اثرات کی جانب اشارہ کرتے ہیں جو اس نے انسانی تاریخ پر مرتب کیے۔ قرآن نے انسانیت پر جو عظیم احسانات کیے، ان میں سے ایک کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’نزول قرآن سے پہلے دنیا میں ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ پائی جاتی تھی (جو کسی حد تک اب بھی پائی جاتی ہے) کہ ہر وہ چیز جو انسانوں کو کسی قسم کا نفع یا نقصان پہنچا سکتی ہے، وہ اپنے اندر خاص قسم کے ما فوق الفطرت اثرات اور قوتیں رکھتی ہے۔ یہ غلط فہمی انسانوں میں بہت پہلے کم علمی اور جہالت کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہے اور وہ یہ سمجھنے لگا کہ ہر وہ قوت جو اس کی نظر میں مافوق الفطرت حیثیت رکھتی ہے، وہ اس بات کی مستحق ہے کہ نہ صرف اس کا احترام کیا جائے بلکہ اس کی تقدیس بھی کی جائے۔ چنانچہ انسانوں نے ہر نافع اور ضار چیز کو مقدس سمجھنا شروع کردیا۔ آگے چل کر یہ احترام اور یہ تقدیس بڑھتے بڑھتے عبادت کے درجہ تک جا پہنچا۔ یوں ہوتے ہوتے ہر کائناتی قوت محترم اور مقدس قرار پاجاتی ہے، پھر اس کی پوجا کی جانے لگتی ہے اور اس کو بالآخر معبود کے درجہ پر فائز کر لیا جاتا ہے۔‘‘ (ص ۱۷)

اس قسم کے لوگوں کی قرآن کس حوالے سے راہنمائی کرتا ہے، ڈاکٹر غازیؒ نے اس کا بھی ذکر کیا ہے:

’’ انسانی تاریخ میں قرآن مجید وہ پہلی کتاب ہے جس نے انسان کو یہ بتایا کہ اس کائنات میں جو کچھ ہے، وہ تمہارے فائدے اور استعمال کے لیے پیدا کیا گیاہے: وسخر لکم ما فی الارض جمیعا، زمین و آسمان کے درمیان جو کچھ پایا جاتا ہے ،وہ اجرام فلکی ہوں ، گرجتے بادل ہوںِ، وہ بہتے دریا ہوں، وہ چمکتے ستارے ہوں، گہرے سمندر ہوں، وہ خطرناک جانور یا دیگر مخلوقات ہوں، یہ تمام کی تمام چیزیں انسان کے فائدے اور اس کی خدمت کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔‘‘ (ص: ۱۸)

وسخر لکم ما فی الارض جمیعا، ایک عام انسان اس آیت مبارکہ پر غور کرنے کے بعد یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اگر زمین میں موجود سب کچھ میرے لیے مسخر کیا گیاہے تو بجائے اس کے کہ ان اشیا سے فائدہ حاصل کروں اور انھیں تحقیق کا موضوع بناؤں، انھیں تقدیس کا مقام دے کر ان کا خادم کیوں بن جاؤں؟ کیونکہ کسی چیز کا تقدس ہی اس چیزکے استعمال اور اس کے متعلق تحقیق میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے ۔اس بات کو ڈاکٹر صاحب کے الفاظ میں ہی ملاحظہ کیجیے:

’’ جب آپ یہ یقین کرلیں کہ کوئی چیز آپ کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے اور آپ اسے ہر طرح استعمال کر سکتے ہیں ، وہ آپ کے لیے بطور دوا کے ، بطور غذاکے، بطور علاج کے،بطور زینت کے، یا کسی بھی طرح سے آپ کے کام آ سکتی ہے تو پھر آپ اس پر تحقیق شروع کریں گے۔ اس کے ٹکڑے کریں گے، اس کے حصے بخرے الگ الگ کریں گے اور لیبارٹری میں رکھ کر اس کی تحقیق کریں گے، کیونکہ تقدیس کے ساتھ تحقیق ممکن نہیں ہے۔ تحقیق ممکن ہے امکان تسخیر کے ساتھ ۔ جس چیز کو مسخر کرنے کا آپ کے اندر جذبہ پیدا ہو اور آپ کو یقین ہو کہ آپ اس چیزکو مسخرکر سکتے ہیں، وہی چیز آپ کی تحقیق کا موضوع بنے گی، لیکن جس چیز کے گرد تکریم و تقدیس کا ہالہ چھایا ہوا ہو، اس کی تحقیق نہیں ہوتی۔‘‘ (ص: ۱۸)

ڈاکٹر غازی مرحوم کی تائید میں ہم گزارش کریں گے کہ تاریخ عالم پر نظر رکھنے والے ہر صاحب علم پر یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قرآن کے نزول سے قبل انسان کائنات کے حقائق سے کتنابے خبرتھا اور نزول قرآن کے بعد اس کے علم میں مسلسل اضافہ ہوا ہے ۔آگے بڑھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب قرآن کی دوسری بڑی عطا جو اس نے ایک عام انسان پر کی غالباً اس آیت : یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللّٰہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (حجرات:آیت ۱۳) اور حدیث مبارکہ: ان ربکم واحد وان اباکم واحد کلکم من آدم وآدم من تراب، لا فضل لعربی علی عجمی ولا لاحمر علی اسود کی روشنی میں د یکھتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’قرآن مجید کی ایک اہم عطا جس سے پورا عالم انسانیت یکساں طور مستفید ہوا اور ہو رہا ہے انسانی وحدت اور مساوات کا وہ واضح تصور اور دو ٹوک اعلان ہے جو قرآن مجید کے ذریعہ سے پہلی بار دنیا کو عطا ہوا۔ قرآن مجید سے قبل دنیا کی ہر قوم میں نسلی ، لسانی ، لونی ، جغرافیائی بنیادوں پر امتیازی سلوک اور اونچ نیچ عام تھی۔ ایسے عوامل اور عناصر کی بنیاد پر جو انسان کے اپنے اختیار میں نہ تھے انسانوں کے مابین تفریق کو ایک مستقل صورت دے دی گئی تھی ۔اقوام عالم کے مابین تفریق اور دشمنی کی بنیاد کسی فطری یا عقلی یا اخلاقی مصلحت کے بجائے رنگ و نسل، زبان اور جغرافیہ کے امتیازات تھے جو انسان کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں ۔کو ئی انسان اپنی نسل خود منتخب نہیں کرتا، کوئی شخض اپنا رنگ خود پسند نہیں کرتا، کسی شخض کی مادری زبان کا انتخاب اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ یہ چیزیں وہ پیدائش کے وقت ساتھ لاتا ہے ۔ ان غیر اختیاری امور کی بنیاد پر گروہوں اور قوموں کی تشکیل کو قرآن مجید ایک وجہ تعارف کے طور پر تو تسلیم کرتا ہے۔ لیکن وہ ان چیزوں کو وحدت انسانی اور مساوات آدم میں مخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔قرآن مجید نے سب سے پہلے یہ انقلاب آفریں اعلان کیا کہ وحدت الٰہ کا لازمی تقاضا ہے کہ وحدت آدم کے اصول کو تسلیم کیا جائے۔‘‘(ص:۱۹)

انسان پر قرآن کے تیسرے بڑے احسان، نزول قرآن سے قبل اور بعد میں انسان اورخدا کے تعلق میں فرق کے حوالے سے ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ فرماتے ہیں :

’’ اسلام سے پہلے انسانوں کی مذہبی زندگی کی ساری باگ دوڑ بعض خاص طبقات کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔ مذہبیات کی تاریخ کا ہر طالب علم یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ اسلام سے قبل ہر مذہب میں مذہبی زندگی پر متعین گروہوں اور مخصوص طبقات کی اجارہ داری ہوتی تھی ۔ یہ اجارہ داری یہاں تک بڑھ گئی تھی کہ آخرت میں گناہوں کی معافی تک کے اختیارات مذہبی طبقوں نے اپنے ہاتھ میں لے رکھے تھے۔ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ مذہبی پیشوا رشوتیں لے کر گناہوں کی معافی کے پروانے جاری کیا کرتے تھے ۔ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب میں آج بھی مذہبی پیشوا خصوصی اختیارات اور اجارہ داری کا دعوے دار ہے۔ وہ کسی بت خانہ کا پنڈت یا پروہت ہو، کسی گرجا کا پادری ہو، کوئی ربی ہو، یا کوئی اور مذہبی عہدیدار ہو، اپنے مذہب میں وہی مذہبی زندگی کا اجارہ دار ہے ، وہ اللہ تعٰا لیٰ اور بندوں کے درمیان کوئی رشتہ براہ راست قائم نہیں ہونے دیتا۔ کہنے کو تووہ گناہ گارانسانوں اور ان کے خالق کے درمیان سفارشی کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن دراصل وہ اللہ اور بندے کے درمیان ایک رکاوٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ پہلے بھی دنیا میں ہر جگہ یہی رواج تھا، اور آج بھی یہی رواج ہے، قرآن مجید وہ پہلی کتاب ہے جس نے ان تمام رکاوٹوں کو ختم کرکے اعلان کیا: ادعونی استجب لکم۔ مجھے (اللہ) پکارو میں تمھاری پکار سنوں گا۔ ہر انسان جب دل کی گہرائیوں کے ساتھ دعا کرتا ہے تو براہ راست روشنی سے بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ اس کی دعا اللہ تعالیٰ کے پاس جا پہنچتی ہے ۔ اجیب دعوۃ الداع اذا دعان، جب بھی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے میں اس کی پکار کا جواب دیتا ہوں۔ ‘‘(ص:۲۲)

اس اقتباس کی روشنی میں ایک مسلمان کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ قرآن سے دوری نے آج پھر اسے اسی گمراہی کے کنارے لا کھڑا کیا ہے جہان انسان نزول قرآن سے قبل ڈگمگا رہا تھا ۔ ہم زیادہ دور نہیں اپنے ملک پاکستان کے حالات پر ہی ایک نظر ڈالیں تو ہمیں ایسے علماء و مشائخ کی ایک کھیپ ملے گی جن کی حیثیت ایک مذہبی اجارہ دار سے کم نہیں ۔ شاید کہ انہیں کبھی قرآن کو ہاتھ لگانے کا موقع بھی نہ ملا ہو لیکن وہ اپنے حلقہ میں مریدین کی ایک اچھی خاصی تعداد رکھتے ہیں۔ اور نسلی و صوبائی منافرت بھی کسی سے اوجھل نہیں، چاہے وہ پنجابی پٹھان کا جھگڑا ہو یا مہاجر مقامی کا نعرہ یا پھر قبائلی عصبیت ہو یہ سب کچھ ایک اسلامی ریاست میں اپنے عروج کو پہنچے ہوئے ہیں ۔ان سب کا سدباب قرآن سے تعلق قائم کیے بغیرنہیں ہوسکتا۔ورنہ قرآن کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان الفاظ سے شکایت پیش کریں گے۔ وقال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ھذا القراٰن مھجورا۔ اے پروردگار میری اس قوم نے قرآن کو چھوڑ دیا تھا۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنے خطبہ نمبر دو (قرآن مجید ایک عمومی تعارف) خطبہ نمبر تین(تاریخ نزول قرآن مجید) اور خطبہ نمبرچار (جمع و تدوین قرآن) میں قرآن مجید کا مکمل تعارف اور تاریخ بیان کی ہے۔اقسام وحی پر بات کرتے ہوئے وحی کی لغوی اور اصطلاحی تعریف اور اقسام وحی کا تفصیلی ذکر کیا ہے ۔قرآن کریم کو یک بار نازل نہ کیے جانے کی حکمتوں میں سے ایک حکمت کی طرف ڈاکٹر صاحب اشارہ فرماتے ہیں :

’’اس کتاب کے ذریعے سے ایک حقیقی اور دیر پا تبدیلی پیدا کرنا مقصود تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ کتاب کسی خلا میں نازل نہیں ہوئی تھی، بلکہ یہ کتاب ایک تبدیلی کو پیدا کرنے کے لیے اور ایک تبدیلی کی راہ نمائی کے لیے نازل ہوئی تھی۔ جب تک تبدیلی کا عمل مکمل نہیں ہوا قرآن کا نزول بھی جاری رہا ، اور جوں ہی تبدیلی کا عمل مکمل ہوگیا تو کتاب کا نزول بھی مکمل ہوگیا۔ یہ دونوں عمل ایک دوسرے کے ساتھ چلتے رہے۔ یہ دو مختلف لیکن متوازی عمل تھے، روئے زمین پر تبدیلی کا عمل اور آسمان پر نزول کتاب کا عمل جاری تھا،دونوں ایک ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچے۔ تبدیلی کا یہ عمل اسی وقت ممکن تھا جب نزول آہستہ آہستہ اور تھوڑا تھوڑا کرکے ہوتا۔ کسی انسان میں بھی اچانک مکمل تبدیلی نہیں آتی۔ ایسے لوگ بہت ہی شاذونادر ہوتے ہیں جو اچانک اور یک بارگی اپنے اندر ایک مکمل تبدیلی لے آئیں۔ بالفرض اگر کسی کے رویہ میں تبدیلی اچانک آبھی جائے تو پھر بھی روز مرہ کی تفصیلات کو بدلنے میں وقت لگتا ہے۔قرآن مجید کے زیر ہدایت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ نمائی میں تبدیلی کا یہ عمل شروع ہوا اور تیئیس سال مسلسل جاری رہا۔ جب ضرورت پیش آئی راہ نمائی نازل ہوگئی اور اس کے نتیجے میں تبدیلی آگئی۔ کسی جگہ قوانین کی تبدیلی آئی، کسی جگہ عقائد میں تبدیلی آئی اور کہیں عقائد اور کردار دونوں کو بہتر بنایا گیا۔ کہیں سابقہ انبیاء کی وہ شریعتیں جنہیں لوگوں نے بھلا دیا تھا ان کے بنیادی عناصر دوبارہ یاد دلائے گئے ۔اس تبدیلی کو یقینی اور دیر پا بنانے کے لیے ضروری تھا کہ یہ عمل تھوڑا تھوڑا کرکے کیا جائے۔‘‘ (ص:۶۶)

یہ تو قرآن مجید کی کیفیت نزولی کے حوالے سے بات تھی جس کا ڈاکٹرصاحب نے ذکر کیا۔لیکن اگر ہم قرآن کا مزاجِ تربیت دیکھیں تو اس میں دو اصولوں کو ہمیشہ مد نظر رکھاگیا:

(۱) قرآن مجید میں کسی ایسی معاشرتی برائی کوجو اس سوسائٹی میں سرایت کر چکی ہو، یک بارگی چھوڑنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ بلکہ تدریجی عمل کو اختیار کرتے ہوئے اس برائی سے بچنے کی ترغیب دی گئی۔ اور جب اس چیز کا اثر برائے نام رہ گیا یا اس برائی کو برائی سمجھنے پر طبیعتوں میں رجحان پیدا ہونے لگا تو پھر اس چیز کو ہمیشہ کے لیے حرام قرار دے دیا گیا۔اس بات کے لیے شراب کی حرمت کے بارے میں قرآن نے کیا طریقہ اختیار کیا، اس پر غور کرلینا کافی ہے۔

(۲) قرآن مجید میں کسی بھی بات کو منوانے کے لیے دعویٰ بغیر دلیل کے راستہ کو نہیں اختیار کیا گیا، بلکہ کسی حکم کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی متعلقہ نشانیوں اور حکمتوں کا بھی ذکر کر دیا گیا اور اس کے بعد انسانی عقل کو بذات خود غوروفکر کی دعوت دی گئی ، تاکہ وہ حق بات کو زبردستی قبول کرنے کے بجائے دلی طور پر اس کے سامنے سر تسلیم خم کردے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے درج ذیل آیات پر غور وفکر کافی ہے: 

لَوْ کَانَ فِیْہِمَا آلِہَۃٌ إِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُونَ (الانبیاء: ۲۲)
’’اگر آسمان و زمین میں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور بھی معبود ہوتے تو یہ دونوں درہم برہم ہوجاتے،پس اللہ تعالیٰ عرش کا رب ہر اس وصف سے پاک ہے جو یہ مشرک بیان کرتے ہیں۔‘‘ 
إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِیْ الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْیَا بِہِ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیْہَا مِن کُلِّ دَآبَّۃٍ وَتَصْرِیْفِ الرِّیَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَیْْنَ السَّمَاء وَالأَرْضِ لآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُونَ (البقرہ: ۱۶۴)
’’آسمانوں اور زمین کی پیدائش ،رات دن کا ہیر پھیر، کشتیوں کا لوگوں کو نفع دینے والی چیزوں کو لیے ہوئے سمندروں میں چلنا، آسمانوں سے پانی اتار کر مردہ زمین کو زندہ کر دینا، اس میں ہر قسم کے جانورں کو پھیلادینا، ہواؤں کے رخ بدلنا ، اور بادل، جو آسمان اور زمین کے درمیاں مسخر ہیں، ان میں عقلمندوں کے لیے قدرت الٰہی کی نشانیاں ہیں۔‘‘ 

بد قسمتی سے یہ دونوں مزاج ہمارے معاشرے سے مفقود ہوکر رہ گئے ہیں ۔ اپنی کوئی بات منوانے کے لیے( خواہ وہ کسی بھی حوالے سے ہو ) تحکمانہ لہجہ اختیار کیا جاتا ہے جس میں کسی قسم کی نرمی کی آمیزش تک کرنے سے گریز کیا جاتاہے۔ اور اگر کوئی اپنے ذہن میں پیدا ہونے والی خلش کو دور کرنے کے لیے کسی صاحب علم سے کسی قسم کی دلیل کا مطالبہ کرے تو بجائے اس کی راہ نمائی کے اپنی علمی کمزوری کو چھپانے کی غرض سے اسے ڈانٹ ڈپٹ کر چپ کروا دیا جاتا ہے ۔نہ جانے یہ بات کیوں ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے کہ ہمارا تجاہل عارفانہ کا سا مزاج کسی کو حق سے دور کرنے کے لیے کافی مدد گار ثابت ہو سکتا ہے ۔

تیسرے خطبہ’’ تاریخ نزول قرآن مجید‘‘ پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے قرآن مجید کی مکمل تاریخ (history) کو بیان کیا جس میں وحی اول سے لے کر وحی آخر اور سورتوں کی مکی و مدنی ترتیب کے حوالے سے کا فی توجہ طلب نکات ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ قرآن عربی میں کیوں نازل ہوا، ڈاکٹر صاحب ایک حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’عربی زبان کو اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ لسانیات کی تاریخ میں یہ زبان اپنی نوعیت کی منفرد زبان ہے۔ اس کی ایک انفرادی خصوصیت یہ ہے کہ یہ زبان گذشتہ سولہ سو سال سے بغیر کسی ردوبدل کے آج تک موجود ہے۔ دنیا کی ہر زبان دو تین سو سال بعد تبدیلی کے عمل سے گزرنے لگتی ہے ۔اور پانچ سو سال بعد تو مکمل طور پر تبدیل ہو جاتی ہے۔‘‘ (ص:۱۱۵)

محترم ڈاکٹر صاحب کی اس بات سے تو مکمل طور پر اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ یہ زبان ردوبدل سے آج تک محفوظ ہے۔ اگر بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل کا کلام کسی آج کے عربی بولنے والے کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ اسے بالکل اسی طرح سمجھ سکتا ہے جیسے بعثت نبوی سے پہلے کا عربی دان اور ا گر آج کی عربی کو ہزار سال پرانے عربی دان کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ کسی قسم کی نامانوسیت کا شکار نہیں ہونے پائے گا، لیکن عربی زبان کی قدامت صرف سولہ سو سالہ تک محدود نہیں ہے، کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کی اول قیام گاہ جنت تھی اور وہاں حضرت آدم کو اسماء کی جو تعلیم دی گئی، وہ عربی زبان میں تھی۔ پھر قرآن کریم میں مختلف انبیا کے حوالے سے جو کلام پیش کیا گیا ہے، خواہ وہ حضرت ابراہیم اور اسمٰعیل علیما السلام کے درمیان مکالمہ ہو یا کسی نبی کی کوئی دعا ،ہو وہ سب عربی زبان میں آج تک من وعن محفوظ ہے بلکہ علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے الاتقان میں ایک روایت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آسمانی کتابیں اور صحائف جتنے بھی نازل ہوئے، ان کی اصل زبان عربی تھی۔ انبیاء علیہم السلام نے اپنی اپنی قوموں کو ان کی زبان میں ترجمہ کرکے ان کو پہنچایا۔ ان میں قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جو اپنی اصلی زبان یعنی عربی میں باقی ہے۔ اس بات پر مزید غوروفکر کے لیے صفدر قریشی صاحب کی کتاب ’’وحدت اللسان‘‘ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ 

ڈاکٹر صاحب کی زبان سے قرآن کے عربی زبان میں نزول کی ایک دوسری حکمت ملاحظہ فرمائیں:

’’ہر زبان کا ایک خاص مزاج ہوتا ہے۔ انگریزی زبان کا ایک مزاج ہے، فرانسیسی، ہندی، سنسکرت وغیرہ زبانوں کے اپنے اپنے مزاج ہیں۔ کسی زبان کا یہ مزاج اس قوم کے عقائد، تصورات، اور خیالات کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے۔ مثال کے طور پر انگریزی زبان کا مزاج ایسا ہے کہ آپ اس میں ایک گھنٹہ بھی بات کر یں اور کوئی صاف بات نہ کرنا چاہیں تو آپ کر سکتے ہیں۔ سننے والا سمجھ نہیں سکے گا کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔آپ کی بات مثبت ہے، منفی ہے، تائید میں ہے، تردید میں ہے، دوستی ہے، دشمنی ہے کچھ ظاہر نہ ہوگا۔ یہ حیلہ گری اور شعبدہ بازی صرف انگریزی زبان میں ہی ممکن ہے۔ کسی اور زبان میں ممکن نہیں۔ اگر آپ سے کوئی پوچھے آپ صدر بش کے ساتھ ہیں یا صدر صدام کے؟ اگر آپ اس کا جواب اردو میں دیں تو آپ کو ’ہاں‘ یا ’نہیں‘ میں واضح اور دو ٹوک انداز میں کہنا پڑے گا، لیکن انگریزی ایسی زبان ہے کہ آپ اس کے جواب میں ایک گھنٹہ بھی بولیں تو کسی کو پتا بھی نہیں چل سکے گا کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ یہ اس زبان کا خاصہ ہے۔‘‘ (ص:۱۱۵)

سچ تو یہ ہے کہ اگر عربی زبان کی وسعت یا فصاحت و بلاغت کے حوالے سے بات کی جاتی تو واقعی عربی زبان سے کسی اور زبان کا مقابلہ ممکن نہیں، لیکن انگریزی یا کسی بھی زبان کو اس حوالے سے مخصوص کرنا کہ اس میں اپنی اصل بات کو دو ٹوک انداز میں پیش کرنے سے گریز کیا جا سکتا ہے، سمجھ سے بالا تر ہے کیوں کہ ہر زبان میں بشمول عربی کے اس بات کی گنجائش موجود رہتی ہے کہ اپنی اصل رائے کو چھپایا یا اپنی بات کو ملمع سازی سے پیش کیا جا سکے۔ زبان کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کی فکر میں تضاد پایا جاتا ہے۔ موصوف ایک مقام پر تو(جیسا کہ پچھلی سطروں میں ذکر ہو چکا) قرآن مجید کے انقلاب آفریں اعلان کی بابت فرماتے ہیں کہ قرآن نے غیر اختیاری امور کی بنیادوں پر روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کی نفی کر کے وحدتِ انسانی اور مساوات کی راہ ہموار کی اور اس سلسلے میں ڈاکٹر غازیؒ زبان کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’کسی شخص کی مادری زبان کا انتخاب اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں ہوتا‘‘۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کی مادری زبان انگریزی ہے، کیا وہ وحدتِ انسانی کے دائرے میں نہیں سما سکتے؟ کیا ایسے لوگوں کو ڈاکٹر صاحب کے نشتر کی چبھن محسوس نہیں ہو گی؟ یہاں قرآن مجید کا انقلاب آفریں پیغام کہاں گیا؟ سچ یہ ہے کہ ڈاکٹر غازیؒ انگریزی زبان سے تعصب برت رہے ہیں، جبکہ وہ بھی دیگر زبانوں کے مانند ایک انسانی زبان ہے۔

ڈاکٹر صاحب کی بیان کردہ ایک اور حکمت ملاحظہ فرمائیں :

’’نزول قرآن کے لیے ایسی زبان کا انتخاب ضروری تھاجو ایک طرف تو مکمل طور پر ترقی یافتہ ہو اور دوسری طرف اس پر کسی غیر اسلامی عقیدے یا تصور کی چھاپ نہ ہو۔ عربی کے علاوہ اس وقت کی تمام زبانوں پر غیر اسلامی عقائد و خیالات کی گہری چھاپ موجود تھی۔ عربی زبان ترقی یافتہ بھی تھی اور ایسی ترقی یافتہ کہ آج تک کوئی زبان اس مقام تک نہیں پہنچ سکی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس پر کسی غیر قرآنی عقیدہ یا نظریہ یا قبل قرآنی خیالات کی چھاپ نہیں تھی۔‘‘ (ص:۱۱۵)

یہاں پر بھی ڈاکٹر صاحب کی مراد واضح نہیں ہو پاتی کہ آخر ان کے نزدیک غیر اسلامی تصور یا عقیدے کا معیار کیا ہے۔ بت پرستی جن کا عقیدہ اور فطرت سے بغاوت جس قوم کا شیوہ رہا ہو، اس سے زیادہ غیر اسلامی عقیدہ کی پختگی اور کیا ہو سکتی ہے ؟ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے آج کے دور میں کوئی ہندوبنیے کے تعصب اور جہالت سے قطع نظر کرکے سنسکرت کو غیر اسلامی چھاپ سے محفوظ زبان خیال کرے۔

ڈاکٹر غازی مرحوم قرآن مجید کے تراجم کا تقابل بائبل سے کرکے مسلمانوں کو جھنجوڑتے ہیں اور ڈاکٹر حمید اللہ ؒ کی کتاب القرآن فی کل لسان کے حوالے سے فرماتے ہیں : 

’’ دنیا کی ۲۰۵ زبانوں میں قرآن کے کلی یا جزوی تراجم موجود ہیں ۔۲۰۵یہ وہ تراجم ہیں جو ڈاکٹر صاحب نے خود دیکھے ۔ صرف ایک اردو زبان میں ۳۰۰ سے زائد تراجم موجود ہیں۔ انگریزی میں ۱۵۰ سے زیادہ تراجم موجود ہیں ۔ فارسی اور ترکی میں ۱۰۰ سے زائد، فرانسیسی میں ۵۸۱، جرمن میں ۵۵، لاطینی میں ۵۳ اور بقیہ زبانوں میں درجنوں کے حساب سے قرآن مجید کے تراجم موجود ہیں۔ کچھ زبانیں ایسی ہیں جن میں ترجمے مکمل اور کچھ میں نامکمل ہیں۔ یہ معلومات ہمارے لیے اگرچہ بہت خوش کن ہیں، لیکن یہ بھی یاد رکھیے کہ بائبل کے ۱۸۰۰ زبانوں میں ترجمے موجود ہیں۔ یہ خبر ہم مسلمانوں کو بہت کچھ بتا رہی ہے اور بہت کچھ کرنے کی دعوت دے رہی ہے۔‘‘ (ص: ۱۱۸، ۱۱۷)

خطبہ چہارم میں جمع وتدوین قرآن اورصحابہ و تابعین کی قرآن کے حوالے سے خدمات اوررسم الخط(نبطی، حمیری، کوفی، نسخ) کی تاریخ اور قرآن میں استعمال نیز قرآن کو محفوظ کرنے کے لیے کن اسباب کو اختیار کیا گیا پر مفصل بحث کی گئی ہے ۔مثال کے طور پر:

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قرآن مجید اکثرو بیشتر جھلیوں سے بنے ہوئے کاغذ پر، کبھی کبھی باہر سے آئے ہوئے عمدہ اور نفیس کاغذ پر، اور کاغذ کے علاوہ اور چیزو ں پر بھی لکھا جاتا تھا۔ جو صحابہ کرام کاغذ رکھتے تھے، وہ کا غذ بھی استعمال فرمایا کرتے تھے۔ اور جن کے وسائل کم تھے، وہ رق parchment وغیرہ استعمال کرتے تھے۔ احادیث میں عُسُب کا ذکر بھی آیا ہے جو عسیب کی جمع ہے۔ یہ بھی لکھنے کے لیے کا غذ نما ایک چیز ہوتی تھی اور کھجور کی چھال خشک کرکے کا غذ کی طرح بنا لی جاتی تھی۔ لخاف کا بھی ذکر ہے جو لخف کی جمع ہے۔ یہ ایک چوڑی اور کشادہ سل نما چیز ہوتی تھی۔ یہ پتھر سے بنائی جاتی تھی۔ اس کی شکل غالباً وہ تھی جیسے آج کل بچوں کی سلیٹ ہوتی ہے۔ رقاع، رقعۃ  کی جمع ہے جس کے لفظی معنی رقعہ کے ہیں جسے اردو میں ہم چٹھی بولتے ہیں۔ یہ کاغذ یا چمڑے کا ٹکڑا ہوتا تھا۔ اکتاف جو کتف کی جمع ہے، یہ اونٹ یا بڑے جانور کے مونڈھے کی ہڈی ہوتی تھی جس کو تختی کی طرح ہموار کر لیا جاتا تھا۔ ان کے علاوہ لکڑی کی بڑی اور کشادہ شاخوں سے بنائی ہوئیں تختیاں یا الواح بھی لکھنے کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔‘‘ (ص: ۱۲۵)

خطبہ پنجم ’’علم تفسیر: ایک تعارف ‘‘میں فہم قرآن میں تفسیر بالقرآن، تفسیر بالسنۃ اور جاہلی شعری ادب کی اہمیت پر زوردیا گیا ہے۔ خطبہ ششم ’’تاریخ اسلام کے چند عظیم مفسرین قرآن‘‘اور خطبہ ہفتم ’’مفسرین قرآن کے تفسیری مناہج‘‘ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے مفسرین قرآن کا تعارف اور ان کی خدمات کا تفصیلی ذکر کیاگیا ہے اور اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ تفسیری خدمات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے صدی کی ترتیب کو بھی ملحوظ رکھا کہ کس صدی ہجری میں تفسیری کام کی نوعیت کیا تھی اور مفسرین کی دلچسپی کا میدان کیا تھا۔ اس کے علاوہ مفسرین کے اسالیب اور تفاسیر کی خصوصیات کے حوالے سے بھی خوب بات کی گئی ہے۔خطبہ ہشتم ’’اعجاز القرآن‘‘ میں قرآن مجید کے معجزاتی کلام ہونے کے بارے میں مختلف حوالوں سے مدلل اور پرمغز گفتگو کی گئی ہے۔ خطبہ نہم ’’علوم القرآن ایک جائزہ‘‘کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں:

’’علوم القرآن سے مراد وہ تمام علوم و معارف ہیں جو علماء کرام مفسرین اور مفکرین ملت نے گذشتہ چودہ سو سال میں قرآن مجید کے حوالے سے مرتب فرمائے۔ ایک اعتبار سے اسلامی علوم و فنون کا پورا ذخیرہ قرآن مجید کی تفسیر سے عبارت ہے۔ آج سے تقریباً ایک ہزار سال قبل مشہور مفسر قرآن اور فقیہ قاضی ابوبکر ابن العربی نے لکھا تھا کہ مسلمانوں کے جتنے علوم وفنون ہیں، جن کا انہوں نے اس وقت اندازہ سات سو کے قریب لگایا تھا، وہ سب بالواسطہ یا بلا واسطہ سنت رسول کی شرح ہے۔ اس اعتبار سے سارے علوم و فنون علوم القرآن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسلام سے وابستگی کا بھی یہی تقاضا ہے، وحدت علوم کا منطقی نتیجہ بھی یہی ہے اور وحدت فکر اور تصور وحدت کائنات کا بھی یہی ثمرہ ہے کہ سارے علوم و فنون کو قرآن مجید سے وہی نسبت ہو جو پتوں کو اپنی شاخوں سے، شاخوں کو اپنے تنے سے اور تنے کو اپنی جڑ سے ہوتی ہے۔‘‘ (ص:۲۸۳)

ڈاکٹر غازی صاحب نے علوم القرآن کو دو دائروں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک وہ دائرہ جن کا تعلق براہ راست قرآن کریم کی تفسیر اور فہم سے ہے۔ علوم القرآن کا دوسرا دائرہ ڈاکٹر صاحب نے انسان کی ہر اس فکری کاوش کو قرار دیا جس کی سمت درست اور اساس صحیح ہو۔ علوم القرآن کے پہلے دائرہ کو بیان کرتے ہوئے(جو کہ ڈاکٹر صاحب کا اصل موضوع ہے) فضائل قرآن، خواص القرآن، امثال القرآن، اقسام القرآن، قصص القرآن، حجج القرآن، جدل القرآن(علم مخاصمہ)، غریب القرآن، ناسخ ومنسوخ، مشکلات القرآن وغیرہ مو ضوعات کا تفصیلی تعارف دیا گیا ہے۔علوم القرآن کے دوسرے دائرے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’یہی وہ مقصد ہے جس کے حصول کے لیے گذشتہ ساٹھ ستر سال سے اہل فکرو دانش کوشاں ہیں۔ یہ وہ کوشش ہے جسے islamization of knowledge  کی اصطلاح سے تعبیر کیا جاتاہے ...... اس دائرے میں ہر وہ چیز شامل ہے جس سے مسلمانوں نے اپنی فکری اور علمی سرگرمیوں میں حصہ لیا ہو اور جو قرآن مجید کے بتائے ہوئے تصورات کے مطابق ہو اور اس کی بنیادی تعلیم سے ہم آہنگ ہو۔ جب مسلمان اپنے تمام موجودہ معاشرتی اور انسانی علوم کو از سر نو مدون کر لیں گے تو وہ اسی طرح سے قرآن فہمی میں مدد گار ثابت ہوں گے جس طرح ماضی میں مسلمانوں کے معاشرتی اور انسانی علوم نے قرآن فہمی میں مدد دی۔ مسلمانوں کا فلسفہ اور تاریخ اپنے زمانے میں اسلامی نظریہ اور اسلامی تعلیم میں ممدومعاون ثابت ہوا۔جب آج کا اصول قانون، آج کی سیاسیات، آج کی معاشیات، اور آج کے دوسرے تمام علوم اسلامی اساس پر از سر نو مرتب ہوں گے تو اس وقت ایک بار پھر ان سب علوم کی حیثیت قرآن مجید کے خادم اور قرآن فہمی کے آلات وو سائل کی ہوگی۔ اس وقت یہ سب علوم وفنون اسی تصور حیات اور نظریہ کائنات کو فروغ دیں گے جو قرآن مجیدنے دیا ہے۔ اس وقت یہ علوم قرآن مجید کی تہذیبی اقدار کو نمایاں کریں گے اور اس تصور کی بنیاد پر مزید نئے علوم اور فنون کو جنم دیں گے جو قرآن مجید میں ملتا ہے۔‘‘ (ص: ۲۸۴، ۲۸۳)

ڈاکٹر صاحب مسلمانوں کی پستی ، نا اہلی اور ناکامی کے اسباب کا تجزیہ اس طرح کرتے ہیں:

’’آج مسلمان کے پاس رائج الوقت تمام علوم وفنون اکثر و بیشتر مغربی ذرائع و مصادر سے پہنچے ہیں۔ ان سب علوم کی اساس اور ان سب نظریات کی اٹھان ایک غیر اسلامی ماحول میں ہوئی ہے۔ غیر اسلامی نظریات و تصورات اور لا دینی افکا رو اساسات پر ان سارے علوم و فنون کا ارتقاء ہوا۔‘‘( ص:۲۸۳)

خطبہ دہم ’’ نظم قرآن اور اسلوب قرآن‘‘ کے موضوع پر ڈاکٹر غازی صاحب نے نظم قرآنی اور اسلوب قرآنی پرگفتگو کرتے ہوئے اس بات کی حکمتیں ذکر کی ہیں کہ قرآن مجید کو بائبل اوردوسری کتب کی طرح موضوعات کے اعتبار سے کیوں ترتیب نہیں دیا گیا۔ خطبہ یازدہم ’’قرآن مجید کا موضوع اور اس کے اہم مضامین‘‘ میں ڈاکٹر صاحب نے قرآن مجید کے مضامین کو دو مختلف انداز میں پیش کیا جس میں پہلے حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کے بیان کردہ علوم خمسہ (تذکیر باحکام اللہ، مخاصمہ، تذکیز بآلاء اللہ، تذکیر بایام اللہ، تذکیر بالموت وما بعدالموت) کا مکمل ذکر کیا۔ اس کے بعد اپنے غور وفکر سے اخذ کردہ قرآن مجید کے جن پانچ بنیادی مضامین کا ذکر فرمایا، ان میں عقیدہ، احکام، اخلاق، تزکیہ اور احسان، امم سابقہ کا تذکرہ، موت وما بعد الموت شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے عقیدہ کے حوالے سے باقی مضامین کی نسبت قدرے تفصیل سے گفتگو کرتے ہوئے دور جدید میں عقیدہ کی خرابی پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایاہے کہ :

’’ دور جدید کے انسان نے ایک شخص کو تو خدا بنانا چھوڑ دیا ہے،البتہ ایک سے زائد افراد پر مشتمل گروہوں اور جماعتوں کو خدائی کا مقام ہمارے اس جدید دور میں بھی دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر برطانوی پارلیمنٹ کو لے لیجیے۔ کہا جاتا ہے کہ پارلیمنٹ کو اختیار مطلق حاصل ہے۔ وہ جو چاہے کرے، سوائے اس کے کہ وہ کسی مرد کو عورت اور کسی عورت کو مرد نہیں بنا سکتی۔ یہ وہ قدرت کاملہ ہے جسے ہم اللہ تعالیٰ کے لیے مانتے ہیں۔ یہ پارلیمنٹ کو فرعون کے مقام پر فائز کرنے کے مترادف ہے۔ جس کو وہ جائز سمجھے، وہ جائز اور جسے نا جائز سمجھے، وہ ناجائز ہے۔ جو حیثیت اہل عراق نے نمرود کو اور اہل مصر نے فرعون کو دی تھی، وہ حیثیت اہل انگلستان نے پارلیمنٹ کو دے دی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلوں نے یہ خدائی حیثیت ایک فرد کو دی تھی اور پچھلوں نے ایک گروہ کو دے رکھی ہے، بعض اوقات گمراہی ایک شخص کی طرف سے آتی ہے تو محدود ہوتی ہے، لیکن اگر بہت سے انسانوں کی طرف سے گمراہی آئے تو اس کے اثرات بہت بڑھ جاتے ہیں۔‘‘ (ص:۳۶۶)

ڈاکٹر غازی مرحوم کے محاضرات چونکہ مدرسات کی تربیت کے حوالے سے منعقد کیے گئے تھے اس لیے ان میں جہاں جا بجا طریقہ تدریس اور قرآن مجید سے عامۃ المسلمین کی دلی وابستگی کی ممکنات کے حوالے سے بات کی گئی، وہیں فرقہ واریت کے نتائج اور نقصانات سے بھی صرف نظر نہیں برتاگیا۔ ڈاکٹر صاحب نے دین اسلام کو وحدت کا ضامن قرار دیتے ہوئے ان خامیوں اور رکاوٹوں کا بھی ذکر کیا جو وحدت کی چادر کو چاک کیے ہوئے ہیں۔ اوراس کا سد باب کیسے کیا جا سکتا ہے (اگر کوئی کرنا چاہے) ملاحظہ فرمائیں:

’’مسلم معاشرے کے بارے میں نظری طور پر تو یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ اس میں دین اور دنیا کی تفریق موجود نہیں ہے۔ اس کی تعلیم میں بنیادی نکتہ توحید اور وحدت ہے۔ نہ صرف دین و دنیا کی وحدت ہے، بلکہ علوم و فنون کی وحدت اسلامی فکر اور اسلامی تہذیب وتمدن کی اساس ہے۔ اس تعلیم پر کامل ایمان کے علاوہ ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستگی امت مسلمہ میں وحدت کی بنیاد ہے۔ دین کی تعلیم کو جتنا فروغ دیا جائے گا، اتنا ہی مسلم معاشرہ میں وحدت فکرونظر پیدا ہوگی۔ نظری اعتبار سے تو سب لوگ یہ بات مانتے ہیں، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عملاً ایسا نہیں ہو رہاہے۔ دینی تعلیم کے بہت سے مراکز ایسے ہیں کہ وہاں سے دین کے نام پر جو تعلیم آرہی ہے، وہ معاشرے کو مسلکوں اور فرقوں کے نام پر مختلف حصوں میں بانٹ رہی ہے۔ اگر تھوڑا سا غور کر کے دیکھیں تو پتا چلے گا کہ مسلم معاشرہ میں پہلے سے جتنے گروہ یا فرقے موجود تھے، ان میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ جیسے جیسے مذہبی تعلیم کا یہ خاص رنگ اور انداز پھیل رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ معاشرہ میں تقسیم اور تفریق میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ اب یا تو آپ یہ کہیں کہ قرآن مجید اور دین اسلام مسلمانوں میں وحدت کاضامن نہیں جو بالکل بے بنیاد اور خلاف حقیقت بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اسلوب تعلیم میں ہی کوئی خامی ہے۔ ہم جس انداز سے دین کی تعلیم دے رہے ہیں جس میں بنیادی زور مسلکی آرا اور فقہی اجتہادات پر دیا جاتا ہے، اس طرز عمل میں بہت کچھ اصلاح اور نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ مزید برآں ہمارے ہاں دین کے حوالہ سے جو ذمہ داریاں ہیں، وہ مختلف سطحوں کی ہیں۔ ان سطحوں کو جب تک اپنی جگہ برقرار نہ رکھا جائے، اس وقت تک اس وہ نتائج برآمد نہیں ہوسکیں گے جو دین پیدا کرنا چاہتا ہے۔‘‘(ص:۳۸۰)

ہمارے نام نہاد مذہبی فکر رکھنے والے (فکر کم ایکٹنگ زیادہ) طبقے میں اکثریت ان لوگوں کی ملے گی جنہیں اپنے مخصو ص حلقے کے علاوہ سب کچھ باطل ہی دکھتا ہے۔ امت کی پریشانیوں سے صرف نظر کرکے منا ظروں کی محفلیں گرمانا اور چوکوں چراہوں پر روڈ بلاک کرکے ایک دوسرے کے مسلک کے خلاف پاک بھارت سے بڑا محاذ سمجھ کر ’’جآء الحق وزھق الباطل‘‘ کے نعرہ لگانا جن کا شیوہ اور ایک دوسرے کے مسلک کے اکابر پر انگلی اٹھانا جن کا شعار ہو، آخر ایسے لوگوں کاخود کو ناجی فرقہ قرار دینے اور فرقہ ثانی کو جہنم کا مستحق سمجھنے کے علاوہ اور مقصد ہی کیا ہو سکتا ہے؟ تمام اکابرین دین کا احترام کرنے والے ایک سنجیدہ آدمی کے لیے اس سے بڑا تکلیف دہ امراور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ ایک دن مولانا ثناء اللہ امرتسری اور مولانا داؤد غزنوی پر سب و شتم ہوتے سنتا ہے اور دوسرے دن اسی مقام پر سیدحسین احمد مدنی، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا احمد رضا خاں بریلوی پر انگلیاں اٹھتے دیکھتا ہے۔ میں اس موقع پر اپنے استاد محترم مولانا زاہد الراشد ی کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ مدرسہ نصرۃ العلوم میں دورۂ حدیث کے طلبہ کوجمعرات کے دن مختلف موضوعات (تعارف ادیان ،تعارف مذاہب ، تعارف مسالک اور بین الاقوامی تعلقات) کے حوالے سے لیکچرز دیا کرتے ہیں۔ اس دوران جب تعارف مسالک پر بات کرتے ہیں تو استاد محترم جس طریقہ سے علماے دیوبند کا تعارف کرواتے ہیں، اسی طریقہ سے علماے اہل لحدیث اور بریلوی علما کا نہ صرف تعارف کراتے ہیں بلکہ ہر مسلک کے عالم کی خصوصیات کا بھی ذکر فرماتے ہیں جس سے اس عالم کی قدر اور اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ آج ہمارا معاشرہ ایسے ہی علما کی راہ نمائی کا محتاج ہے تا کہ وحدت کی کھوئی ہوئی متاع کوہم دوبارہ حاصل کر پائیں۔لیکن افسوس! صد افسوس ایسے علما اتنی کم تعداد میں ہیں کہ بآسانی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے بھی فرقہ پرست علما کی کثرت دیکھتے ہوئے ان کے ضمیر کو جھنجوڑنے کی( ناکام) کوشش کی تھی: 

منفعت ایک ہے اس قوم کی ، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں!

بہرحال! ڈاکٹر غازی مرحوم نہ صرف قرآن سے رابطہ استوار کرنے کی بات کرتے ہیں بلکہ ہر عالم کے اظہار رائے کے حق کو بھی تسلیم کرتے ہیں اور دروس قرآن کی محافل میں پائے جانے والے دوہرے معیار پر بھی کڑی تنقیدفرماتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:

’’ہمیں درس قرآن کے حلقے منظم کرنے ہیں۔ یعنی لوگوں کو دین کے بنیادی عقائد پر جمع کرنا اور شریعت کی تعلیم اس طرح دیناکہ جہاں جہاں خود شارع نے اختلاف کی گنجائش رکھی ہے اس اختلاف کو آپ تسلیم کریں۔ اب ہوتا یہ ہے جو بالکل درست نہیں ہے کہ ایک عالم کا درس قرآن ہوتا ہے، اس میں صرف اس خاص مسلک کے لوگ ہوتے ہیں جو ان عالم کا اپنا فقہی یا کلامی مسلک ہوتا ہے۔ دوسرے مسلک کا کوئی آدمی حاضرین اور سامعین میں موجود نہیں ہوتا۔ترجمہ قرآن بھی اپنے مسلک کے عالم کا مخصوص ہوتا ہے۔ یوں تو کسی ترجمہ یا تفسیر کو مخصوص کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ ایک اعتبار سے بہتر اور مناسب یہی ہے جس سے آپ کا ذوق ملے اسی عالم کے ترجمہ اور تفسیر کو آپ پڑھ لیں۔ لیکن اگر اس سے آگے بڑھ کریہ کہا جائے کہ فلاں ترجمہ اور تفسیر ہی کو پڑھا جائے، اس کے علاوہ کسی اور ترجمہ یا تفسیر کو نہ پڑھا جائے تو یہ بات غلط ہوگی۔ کسی کو اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ لوگوں کو زبردستی اپنے ذوق پر جمع کرے۔‘‘(ص:۳۹۱)

اگر ہندو اور عیسائی مذہب کے پیروکارجہالت کی وجہ سے اپنے پنڈت اور پادری کو پا ک صاف اور ہر غلطی سے منزہ سمجھتے ہیں تو خیر سے ہمارے ’’مذہب شناس‘‘ لوگ بھی اپنے اکابرین کو پوجنے میں کسی قسم کی کمی نہیں کرتے ۔ اسی رویہ پر ڈاکٹر غازیؒ بڑے اچھے انداز میں تنقید فرماتے ہیں ۔ملاحظہ فرمائیں:

’’اگر غلطی ابوبکرصدیقؓ سے ہو سکتی ہے تو پھر کوئی شخص بھی غلطی سے مبرا نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ سے فہم قرآن سے چوک ہوتی ہے اور وہ اس کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں آج کل یہ کہنا تو بہت آسان ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ سے غلطی ہوگئی، ہمارے لیے یہ کہہ دینا بھی بہت سہل ہے کہ امام شافعی نے فلاں جگہ غلطی کی اور یہ کہہ دینا بھی آسان ہے کہ امام مالک نے فلاں بات صحیح نہیں سمجھی۔ ہماری دینی درس گاہوں میں روز یہ تنقیدی تبصرے ہوتے رہتے ہیں، لیکن یہ کہنے کی کسی کی مجال نہیں ہے کہ مولانا تھانوی یا مولانا مودودی یا مولانا احمد رضاخان سے بھی غلطی ہوئی ہے۔ کوئی ذرا یہ جرات کرکے دیکھے! ان کے مریدین سر توڑ دیں گے اور اسلام سے خارج کرکے دم لیں گے۔‘‘ (ص: ۴۰۱)

ہم اپنے مضمون کو یہیں پر سمیٹتے ہوئے ایک بار پھر ڈاکٹر غازی مرحوم کے کام اور ان کی لگن کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں کہ اتنے مشکل مضامین کو انہوں نے سلاست کا جامہ پہنایا تاکہ ایک عام اردودان بھی ان سے استفادہ کر سکے۔ اللہ تعالیٰ غازی مرحوم کی اس محنت کو قبول فرمائے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ان کے علمی ذخیرہ سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔ 

تعارف و تبصرہ

(جنوری و فروری ۲۰۱۱ء)

جنوری و فروری ۲۰۱۱ء

جلد ۲۲ ۔ شمارہ ۱ و ۲

حرفے چند
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ حیات و خدمات کا ایک مختصر خاکہ
ادارہ

شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الرحمٰن المینویؒ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے استاذ حدیث)
مولانا حیدر علی مینوی

میری علمی اور مطالعاتی زندگی ۔ (ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کا ایک غیر مطبوعہ انٹرویو)
عرفان احمد

بھائی جان
ڈاکٹر محمد الغزالی

بھائی محمود
مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی

ہمارے بابا
ماریہ غازی

ایک معتمد فکری راہ نما
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ایک عظیم اسکالر اور رہنما
مولانا محمد عیسٰی منصوری

ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم
محمد موسی بھٹو

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ : ایک اسم با مسمٰی
جسٹس سید افضل حیدر

ایک باکمال شخصیت
پروفیسر ڈاکٹر علی اصغر چشتی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ - نشانِ عظمتِ ماضی
ڈاکٹر قاری محمد طاہر

مولانا ڈاکٹر محمود احمد غازی ۔ کچھ یادیں، کچھ تأثرات
مولانا مفتی محمد زاہد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند خوشگوار یادیں
محمد مشتاق احمد

معدوم قطبی تارا
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

میرے غازی صاحب
ڈاکٹر حیران خٹک

علم و تقویٰ کا پیکر
قاری خورشید احمد

میری آخری ملاقات
ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر

مرد خوش خصال و خوش خو
مولانا سید حمید الرحمن شاہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ کچھ یادیں، کچھ باتیں
ڈاکٹر محمد امین

ایک بامقصد زندگی کا اختتام
خورشید احمد ندیم

اک دیا اور بجھا!
مولانا محمد ازہر

ایک معتدل شخصیت
مولانا محمد اسلم شیخوپوری

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ، ایک مشفق استاد
شاہ معین الدین ہاشمی

روئے گل سیر نہ دیدم و بہار آخر شد
ڈاکٹر حافظ سید عزیز الرحمن

یاد خزانہ
ڈاکٹر عامر طاسین

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ چند تاثرات
محمد عمار خان ناصر

ڈاکٹر محمود احمد غازی علیہ الرحمۃ
ڈاکٹر حافظ صفوان محمد چوہان

ڈاکٹر غازیؒ ۔ چند یادداشتیں
محمد الیاس ڈار

ایک ہمہ جہت شخصیت
ضمیر اختر خان

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
محمد رشید

آفتاب علم و عمل
مولانا ڈاکٹر صالح الدین حقانی

شمع روشن بجھ گئی
مولانا سید متین احمد شاہ

علم کا آفتاب عالم تاب
ڈاکٹر حسین احمد پراچہ

دگر داناے راز آید کہ ناید
حافظ ظہیر احمد ظہیر

ایک نابغہ روزگار شخصیت
سبوح سید

تواریخ وفات ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
مولانا ڈاکٹر خلیل احمد تھانوی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ تعزیتی پیغامات و تاثرات
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ فکر و نظر کے چند نمایاں پہلو
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

ڈاکٹر غازی مرحوم ۔ فکر و نظر کے چند گوشے
ڈاکٹر محمد شہباز منج

کاسموپولیٹن فقہ اور ڈاکٹر غازیؒ کے افکار
محمد سلیمان اسدی

آتشِ رفتہ کا سراغ
پروفیسر محمد اسلم اعوان

اسلام کے سیاسی اور تہذیبی تصورات ۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی کے افکار کی روشنی میں
محمد رشید

سلسلہ محاضرات: مختصر تعارف
ڈاکٹر علی اصغر شاہد

’’محاضراتِ قرآنی‘‘ پر ایک نظر
حافظ برہان الدین ربانی

ڈاکٹر غازیؒ اور ان کے محاضرات قرآن
سید علی محی الدین

’’محاضرات فقہ‘‘ ۔ ایک مطالعہ
چوہدری محمد یوسف ایڈووکیٹ

محاضراتِ معیشت و تجارت کا ایک تنقیدی مطالعہ
پروفیسر میاں انعام الرحمن

تحریک سید احمد شہید رحمہ اللہ کا ایک جائزہ
ڈاکٹر محمود احمد غازی

اسلام میں تفریح کا تصور
ڈاکٹر محمود احمد غازی

اسلام اور جدید تجارت و معیشت
ڈاکٹر محمود احمد غازی

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ سے ایک انٹرویو
مفتی شکیل احمد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ منتخب پیش لفظ اور تقریظات
ادارہ

مختلف اہل علم کے نام ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے چند منتخب خطوط
ڈاکٹر محمود احمد غازی

مکاتیب ڈاکٹر محمد حمیدؒ اللہ بنام ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ
ادارہ

ڈاکٹر غازیؒ کے انتقال پر معاصر اہل علم کے تاثرات
ادارہ

ریجنل دعوۃ سنٹر کراچی کے زیر اہتمام تعزیتی ریفرنس
آغا عبد الصمد

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کی یاد میں رابطۃ الادب الاسلامی کے سیمینار کی روداد
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام تعزیتی نشست
ادارہ

ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ۔ رسائل و جرائد کے تعزیتی شذرے
ادارہ

ایک نابغہ روزگار کی یاد میں
پروفیسر ڈاکٹر دوست محمد خان

تلاش

Flag Counter