اسلامی شریعت اور حلالہ / ایک سوال نامہ اور اس کے مختصر جوابات

محمد عمار خان ناصر

ہمارے معاشرے میں دین وشریعت کے غلط اور مبنی بر جہالت فہم کے جو مختلف مظاہر پائے جاتے ہیں، ان میں سے ایک، حلالہ کی رسم ہے۔ مروجہ رسم کے مطابق حلالہ کا تصور یہ ہے کہ اگر شوہر، بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو اب ان کے اکٹھا رہنے کے جواز کے لیے شرط ہے کہ عورت، عارضی طور پر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے، اس سے جسمانی تعلق قائم کرے اور پھر طلاق لے کر پہلے شوہر کے پاس واپس آ جائے۔ یعنی اس میں دو تین چیزیں پہلے سے طے ہیں: ایک یہ کہ یہ دوسرا نکاح وقتی اور عارضی مدت کی نیت سے ہوگا۔ دوسرا یہ کہ اس کا مقصد ہی پہلے شوہر کے لیے عورت کو حلال کرنا ہے۔ اور تیسرا یہ کہ اس سارے عمل میں عورت کی مرضی کی کوئی اہمیت نہیں، اسے بس ایک بتایا گیا پروسیجر پورا کر کے بہرحال پہلے شوہر کے پاس واپس آنا ہے۔

اسلامی شریعت میں حلالہ کے اس تصور کی کوئی بنیاد نہیں۔ شریعت میں جو قانون دیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ اگر شوہر دو دفعہ بیوی کو طلاق دینے کے بعد رجوع کر چکا ہو اور پھر تیسری مرتبہ بیوی کو طلاق دے دے تو اب وہ رجوع نہیں کر سکتا اور تیسری طلاق کے بعد وہ دونوں، میاں بیوی کے طور پر اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ عورت اب کسی دوسرے مرد سے ہی نکاح کرے گی اور یہ نکاح ہرگز عارضی تعلق کی نیت سے اور پہلے شوہر کے لیے عورت کو حلال کرنے کے ارادے سے نہیں ہوگا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نیت سے نکاح کرنے والے اور پہلے شوہر، جس کے لیے نکاح کیا جا رہا ہے، دونوں پر لعنت فرمائی ہے اور عارضی نکاح کرنے والے کو کرایے کے سانڈ سے تشبیہ دی ہے۔ اس طرح کا مقدمہ سامنے آنے پر سیدنا عمر نے دوسرے شوہر کو سخت زجر وتوبیخ کی اور اسے پابند کیا کہ اب وہ اس نکاح کو قائم رکھے۔ نیز یہ کہ اگر اس نے پہلے شوہر کے لیے عورت کو حلال کرنے کی غرض سے اسے طلاق دی تو اسے بدکاری کی پاداش میں سنگسار کیا جائے گا۔ جمہور فقہائے اسلام حلالہ کی نیت سے کیے گئے نکاح کو منعقد ہی نہیں مانتے اور نہ اس کی بنیاد پر عورت کو پہلے شوہر کے لیے حلال قرار دیتے ہیں۔ صرف حنفی فقہاء نے ایک فقہی نکتے کی بنیاد پر اس طریقے کو اصولاً واخلاقاً ناجائز قرار دیتے ہوئے صرف قانونی اثرات کی حد تک معتبر تسلیم کیا ہے۔ 

اس تفصیل سے واضح ہے کہ شریعت میں دراصل، عورت کو پہلے شوہر کے لیے حلال کرنے کا کوئی طریقہ تجویز نہیں کیا گیا، بلکہ تیسری طلاق کے بعد دونوں کے اکٹھے رہنے پر پابندی عائد کی ہے اور عورت سے کہا ہے کہ اب وہ کسی دوسرے مرد کے ساتھ ہی زندگی گزارے۔ البتہ اگر کسی وجہ سے اتفاقاً دوسرے شوہر سے بھی علیحدگی ہو جائے اور عورت اپنی آزادانہ مرضی سے دوبارہ پہلے شوہر کے نکاح میں جانا چاہے اور دونوں کو یہ اطمینان ہو کہ وہ اللہ کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے رشتہ نکاح کو نباہ سکیں گے تو ایسی صورت میں شریعت انھیں دوبارہ نکاح کی اجازت دیتی ہے۔ اس طریقے کا، جیسا کہ واضح ہے، حلالہ کے مروجہ طریقے سے کوئی تعلق نہیں جو سر تا سر جہالت اور حرام حیلوں پر مبنی طریقہ ہے۔ اس میں شوہر کی غلطی کی سزا بیوی کو دی جاتی ہے جو غیر منصفانہ بھی ہے اور عورت کی تذلیل بھی۔ 

البتہ یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ تیسری طلاق کے بعد شریعت میں مرد اور عورت کو اکٹھا رہنے سے کیوں روکا گیا ہے؟ اس کی حکمت عموماً یہ بتائی جاتی ہے کہ اس پابندی کے ذریعے سے، شوہر سے بیوی کو اذیت پہنچانے کا ایک ہتھیار چھین لیا گیا ہے، کیونکہ اگر شوہر کو طلاق دینے کے بعد عدت کے اندر بیوی سے رجوع کر لینے کا لا محدود اختیار حاصل ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ نہ تو اپنی ناپسندیدہ بیوی کو مکمل حقوق کے ساتھ نکاح میں رکھے گا اور نہ اسے بندھن سے آزاد کرے گا تاکہ وہ کسی دوسرے سے نکاح کر لے۔ گویا زمانہ جاہلیت کے غیر اخلاقی طرز عمل کے تناظر میں شریعت میں شوہر پر یہ پابندی عائد کر دی گئی کہ وہ طلاق کے بعد رجوع کا حق صرف دو مرتبہ استعمال کر سکتا ہے، تیسری مرتبہ طلاق دینے پر اسے یہ حق حاصل نہیں ہوگا۔

یہ حکمت جزوی طور پر درست معلوم ہوتی ہے، لیکن اس سے حکم کی مکمل توجیہ نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ حکم کے مطابق پابندی صرف شوہر کے رجوع کرنے پرنہیں، بلکہ میاں بیوی کے اکٹھا رہنے پر عائد کی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر خود عورت بھی بدستور اس شوہر کے نکاح میں رہنے پر راضی ہو، تب بھی اس کی گنجائش نہیں اور عورت کو بہرحال کسی دوسرے آدمی سے ہی نکاح کرنا پڑے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پابندی صرف عورت کو ضرر سے بچانے کے لیے نہیں لگائی گئی، بلکہ اس میں کوئی دوسرا پہلو بھی ہے۔ ہماری رائے میں اس پابندی سے رشتہ نکاح کے تقدس کے حوالے سے شریعت کی مخصوص حساسیت کا اظہار ہوتا ہے۔ شریعت کی نظر میں یہ رشتہ محض مادی یعنی جسمانی وسماجی ضروریات کے پہلو سے اہمیت نہیں رکھتا، بلکہ اسے ایک خاص طرح کا روحانی تقدس بھی حاصل ہے جو یہ تقاضا کرتا ہے کہ انسان اس رشتے کو معمولی سمجھتے ہوئے غیر سنجیدہ اور لا ابالی قسم کا رویہ اختیار نہ کرے۔ انسانی نفسیات میں اس حساسیت کو زندہ رکھنے کے لیے ناگزیر ہے کہ اس رشتے کو قائم کرنے اور اسے ختم کرنے کے ضمن میں اس نوعیت کی کچھ پابندیاں عائد کی جائیں۔ شریعت کا منشا یہ ہے کہ نکاح کا رشتہ خوب سوچ سمجھ کر قائم کیا جائے اور ہمیشہ قائم رکھے جانے کے عزم کے ساتھ وجود میں لایا جائے۔ اگر کسی وجہ سے نباہ نہ ہو سکے تو اسے ختم کرنے کا فیصلہ بھی پوری طرح سوچ سمجھ کر اور اسی صورت میں کیا جائے جب موافقت اور ہم آہنگی کے امکانات بالکل ختم ہو جائیں۔ یہاں تک کہ طلاق دینے کا فیصلہ کیا جائے تو بھی ایک مخصوص مدت کے اندر فیصلے پر نظر ثانی کی گنجائش باقی رکھی گئی ہے، تاہم مذکورہ زاویہ نظر سے شریعت کی منشا یہ ہے کہ نظر ثانی کی گنجائش لامحدود نہیں، بلکہ محدود اور کچھ شرائط کے ساتھ مشروط ہو تاکہ طلاق کے حوالے سے غیر سنجیدگی اور لابالی پن کی نفسیات پیدا نہ ہو سکے۔

اسی نوعیت کی حساسیت ہمیں ظہار کے قانون میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ قبل از اسلام کی عرب معاشرت میں اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہہ دیتا کہ تم مجھ پر میری ماں کی طرح حرام ہو تو اسے حتمی اور ابدی حرمت کا مستوجب سمجھا جاتا تھا۔ اسلامی شریعت میں ابتداءً اسی قانون کو برقرار رکھا گیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رشتہ نکاح میں اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ رویے کو شریعت بھی سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے اور چاہتی ہے کہ اس تشبیہ کے بعد مرد اور عورت، میاں بیوی کے طور پر اکٹھے نہ رہیں۔تاہم ایک خاص واقعہ رونما ہونے پر اللہ تعالیٰ نے اس قانون میں آسانی پیدا کرتے ہوئے ترمیم کر دی اور سورۃ المجادلہ میں فرمایا کہ بیوی کو ماں سے تشبیہ دینے کے بعد ، دونوں کے بطور میاں بیوی رہنے کی گنجائش تو ہے، لیکن اس کے لیے شوہر کو، بالترتیب، ایک غلام آزاد کرنے یا دو مہینے کے مسلسل روزے رکھنے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی صورت میں اپنی غلطی کا کفارہ ادا کرنا ہوگا۔ غور کیا جائے تو تیسری طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش باقی نہ رکھنے کے قانون میں بھی اسی نوعیت کی حکمت دکھائی دیتی ہے۔ 

اس بحث سے ان فقہاء کے نقطہ نظر کا وزن بھی واضح ہوتا ہے جو تیسری طلاق کے بعد رجوع کے عدم امکان کی پابندی کو اس صورت سے متعلق قرار دیتے ہیں جب شوہر نے الگ الگ موقعوں پر صورت حال کا بغور جائزہ لے کر بیوی کو طلاق دینے کا فیصلہ کیا ہو۔ اگر اس طرح کے دو فیصلوں کے بعد تیسری مرتبہ طلاق دی گئی ہو تو شریعت کی عائد کردہ زیر بحث پابندی کی حکمت پوری طرح برقراررہتی ہے۔ اس کے برخلاف اگر کسی شخص نے وقتی جذبات کے زیر اثر نادانی میں بیک وقت تینوں طلاقیں دے دی ہوں تو قانون کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے لیے رجوع کی گنجائش باقی رکھی جائے اور بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کے عددکو بنیاد بنانے کے بجائے اس نکتے کو زیادہ اہمیت دی جائے کہ اس نے طلاق کا حق بہرحال ایک ہی موقع پر استعمال کیا ہے۔ علامہ ابن رشد المالکیؒ اس نکتے کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’یوں لگتا ہے کہ جمہور فقہاء نے سد ذریعہ کے طور پر (یعنی تاکہ لوگ طلاق کے معاملے میں جری نہ ہو جائیں)، تین طلاقوں کے معاملے میں سختی کا طریقہ اختیار کیا (اور بیک وقت تین طلاقوں کو نافذ قرار دے دیا) ہے، لیکن اس سے وہ شرعی رخصت اور وہ آسانی جو شریعت کا مقصود ہے، فوت ہو جاتی ہے، یعنی جس کا ذکر اللہ تعالی ٰنے یوں کیا ہے کہ ہو سکتا ہے، اللہ اس کے بعد (موافقت اور مصالحت کی) کوئی راہ پیدا کر دے۔‘‘ (بدایۃ المجتہد ج ۲، ص ۶۲)



ایک سوال نامہ اور اس کے مختصر جوابات

1۔ پاکستان میں مسلکی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ابھرنے والی سیاسی قوتوں خاص طور پر بریلوی مسلک سے وابستہ ’’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘‘ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب : ایسی تحریکیں اپنے مسلکی فکر کی نمائندگی کرتی ہیں اور ان سے عوامی سطح پر پائے جانے والے مذہبی جذبات ورجحانات کا اندازہ ہوتا ہے۔

2۔ پاکستان کی سیاست میں اس نئی مذہبی سیاسی قوت کی آمد کے معاشرتی اور سیاسی محرکات و وجوہات کیا ہیں؟

جواب : بریلوی مسلک کی پیروی پاکستانی عوام کی اکثریت کرتی ہے، تاہم کچھ عرصے سے مذہبی سیاست میں اس طبقے کی نمائندگی کوئی موثر شخصیت یا جماعت نہیں کر رہی۔ تحریک لبیک اسی احساس محرومی کا اظہار اور اس خلا کو پر کرنے کی کوشش ہے۔

3۔ ختم نبوت، توہین رسالت وغیرہ کے عنوان سے قائم مذہبی سیاسی جماعتیں اور ان کے شدت پسندی بیانیے کے حوالے سے ریاست کا کیا رسپانس ہونا چاہیے؟

جواب : ریاست کو آئین میں طے کردہ حدود کے مطابق ایسی تحریکوں کے جائز مطالبات کو وزن دینا چاہیے اور حدود سے متجاوز مطالبات کی، حکمت عملی اور فراست کے ساتھ مزاحمت کرنی چاہیے۔

4۔ مذکورہ بالا مقاصد کے تحت سیاسی میدان میں قدم رکھنے والی مذہبی سیاسی جماعت کس طرح آنے والے انتخابات کے ذریعے پاکستان کے سیاسی و سماجی ماحول پر اثر انداز ہو سکتی ہے؟

جواب : پاکستانی سیاست میں مذہبی جماعتوں کی حیثیت پریشر گروپس کی ہے جو مذہبی حساسیت رکھنے والے ایشوز میں تو ایک موثر کردار ادا کر سکتی ہیں، لیکن انتخابی سیاست کے عمومی نتائج پر کوئی خاص اثر مرتب نہیں کر سکتیں، الا یہ کہ وقتی حالات اور ماحول سے ایسی کوئی فضا بن جائے، جیسے نائن الیون کے بعد متحدہ مجلس عمل کو ملی۔

5۔ آپ دیوبندی سیاسی جماعتوں اوربریلوی مسلک کی نئی ابھرتی ہوئی جماعت جیسے تحریک لبیک یا رسول اللہ کے تقابل کے بارے میں کیا نقطہ نظر رکھتے ہیں؟

جواب : ان دونوں طبقوں کی constituencies الگ الگ ہیں، اس لیے میرے خیال میں بظاہر براہ راست ٹکراو کا کوئی خاص امکان نہیں۔ البتہ اگر بریلوی مسلک کی نمائندہ جماعتوں کو سیاسی میدان میں ایک خاص سطح پر accommodate نہ کیا گیا تو وہ زیادہ شدت کے ساتھ فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا راستہ اختیار کریں گی۔ اس لیے دوسری مذہبی سیاسی قوتوں اور خاص طور پر دیوبندی قیادت کو چاہیے کہ انھیں سیاسی میدان میں انگیج کر کے مذہبی سیاست کے مرکزی دھارے میں لانے کی کوشش کریں۔


اسلامی شریعت

(مارچ ۲۰۱۸ء)

تلاش

Flag Counter