اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود اور بھیانک معاشرتی جرائم، ڈکیتی، بدکاری، شراب نوشی اور قذف وغیرہ پر جو شرعی سزائیں خالقِ بشر نے مقرر فرمائی ہیں وہ پوری کائنات کے لیے سراسر رحمت ہیں۔ انسانی معاشرے میں قیامِ امن اور بشریت کی ہر دو صنف مرد و زن کی عزت و عصمت، ان کے مال و جان کی حفاظت کی ضامن ہیں، بلکہ انسانیت کے مقامِ شرافت و کرامت کی کفیل یہی حدود اللہ ہیں جن کے مبارک ثمرات کا اولین نتیجہ انسانوں کے اس دنیا میں مکمل تحفظ کی صورت میں ملتا ہے۔ ان سراپائے رحمت حدود کو دہشت گردی گرداننا کفرانِ نعمت اور صرف خدا رسول سے ہی بیزاری کا اعلان نہیں بلکہ انسانیت دشمنی اور خبثِ باطن اور ہوا پرستی کی ظاہر دلیل ہے۔
خصوصًا مملکتِ خداداد پاکستان جو صرف تنفیذِ شریعہ اسلامیہ کے لیے معرضِ وجود میں آئی۔ اس ملک میں حدود اللہ کے خلاف شر انگیزی وطنِ عزیز کی اساس کو ہلانا اور ارضِ پاک کے خلاف بغاوت کی ایک سازش ہے جس کی ابتدائی سزا یہ ہونی چاہیئے کہ پاکستانی شہریت کا حامل جو شخص اسلامی شریعت کے کسی پہلو پر طعن کرے اس سے پاکستانی شناختی کارڈ چھین لیا جائے اور پھر ملت و ملک کے اس باغی کا پورا محاسبہ کیا جانا چاہیئے۔
الحمد للہ تاسیسِ پاکستان کے آغاز سے ہنوز ہمارے عوام کی اکثریت اور ایوانوں کی غالبیت چاہے کسی جماعت سے وابستہ ہو اسلامی شریعت کی برتری پر غیر متزلزل یقین رکھتی ہے اور اپنی ملکی فلاح و بقا صرف اور صرف نظامِ اسلامی میں ہی جانتی ہے۔ کمی اس بات کی ضرور ہے کہ مسلم قومیت کا نظریہ جس کی عملی مشق کے لیے ہندوستان تقسیم ہوا اس کی عملی مشق کا موقع میسر نہ آسکا، اس کوتاہی کا ہر پاکستانی کو احساس ہے اور اس قصور کا ہر ذمہ دار کو اعتراف بھی ہے مگر اسلام سے بیزاری اور بغاوت یہ عوام اور حکمران ہر دو جہت سے ناقابلِ معافی جرم ہے اور رہا ہے۔
مگر ہمارے ملک میں چند افراد پر مشتمل ایک طبقہ فکری ارتداد کا بھی شکار ہے جو مغرب کو قبلہ و کعبہ جانتے ہوئے کبھی کبھی شرعی احکام کے خلاف بیزاری کا اظہار کرنے کی جرأت کرتا ہے اور حکومت کے بعض وزراء اور مشیر صاحبان بھی اس فتنے میں ان کے شریکِ عمل ہو کر نظریۂ پاکستان پر حملہ آور ہوتے ہیں، ان کا یہ عمل خدا تعالیٰ کے غضب عمومی کو دعوت دیتا ہے۔ اور دوسری طرف یہ طبقہ پاکستان کی اکثریت کی غیرتِ ایمانی کو چیلنج کرتا ہے، ساتھ ساتھ یہ مغرب کے ایجنٹ حکومت کی وسعتِ نظری کی بھی آزمائش کرتے ہیں کہ کس حد تک حکومتِ پاکستان دینِ اسلام اور نظریۂ پاکستان کے خلاف بغاوت کو برداشت کر سکتی ہے۔ ملک و ملت اور انسانیت کا دشمن یہ طبقہ جسدِ ملکی کے لیے وہ ناسور ہے جس کا فوری معالجہ ناگزیر ہے، پاکستانی مسلم معاشرے کی پیشانی پر سے اس بدنما داغ کا ازالہ نہایت ضروری ہے۔ شریعتِ مطہرہ کے کسی پہلو پر طعن کرنے والے اور نظریۂ پاکستان کے خلاف زہر اگلنے والے مفسد عناصر اعدائے اسلام کے کارندے ہیں۔ پاکستانی عوام اور حکومت کو ان کا محاسبہ کرنا ہو گا، آج نہیں تو مستقبل قریب میں انشاء اللہ تعالٰی۔ مذکور الصدر حضرات کی شر انگیزی کی ایک مثال پیش خدمت ہے۔ روزنامہ جنگ ۲۱ دسمبر کے شمارے میں پاکستان ویمنز رائٹس کمیٹی کراچی کے حوالہ سے تحریر ہے کہ:
’’(۱) بچے کی ولادت کے وقت شہریت کے فارم میں ’’باپ‘‘ کے لفظ کے ساتھ ’’ماں‘‘ کا اضافہ ہونا چاہیئے تاکہ پیدا ہوتے ہی ہر بچہ (چاہے اس کا نسب کچھ ہو) شہریت کا حق حاصل کر لے۔
(۲) عورت کو قانون شہادت برائے حدود میں مستثنٰی کرنے کے قانون میں ترمیم ہونی چاہیئے۔
(۳) زنا آرڈیننس معصوم افراد کی زندگیوں میں دہشت پیدا کر رہا ہے۔ـ‘‘
یہ ہیں بحالیٔ حقوقِ خواتین کی اختراعات و اقتراحات جن کی تحلیل کے طور پر عرض ہے کہ ایسی تجاویز پیش کرنے والے قرآن و سنت کی تعلیمات سے اگر بے بہرہ ہیں تو جان لیں کہ:
(۱) حق تعالیٰ شانہ نے تمام بشریت کو بنی آدم کا لقب دیا اور ان کو ان کے باپ کی طرف منسوب کیا۔ قرآن حکیم نے اولاد کو باپ کی طرف منسوب کرنے کی واضح ہدایت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’ادعوھم لاباءھم‘‘ اولاد کی نسبت ان کے باپوں کی طرف کرو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’الولد للفراش وللعاھر الحجر‘‘ بچہ تو اپنے باپ کا ہے اور بدکار کے لیے پتھر ہیں۔ یہ بھی معلوم رہے کہ صرف لعان کی صورت میں بچہ ماں کی طرف منسوب ہو گا کہ نکاح کے بعد خاوند اپنی منکوحہ بیوی کے حمل کا انکار کر دے اور بیوی حلف کے ساتھ اس سے حمل پر اصرار کرے اور یہ بھی کہے کہ اگر اس کا خاوند سچا ہے تو اس (عورت) پر خدا کا غضب ہو۔ تو انکارِ نسب کی صورت میں بچہ ماں کی طرف منسوب ہو گا اور اس ماں کا وارث بھی ہو گا۔ ایسی کوئی صورت نہیں کہ بحالیٔ حقوق کے نام پر ترویج اور بدکاری کی اشاعت کی خاطر ایسے قانون وضع ہوں کہ شرم و حیا کا جنازہ نکل جائے۔
(۲) یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ شہادت ایک مقدس خدائی فریضہ اور عظیم قومی امانت ہے۔ بعض احوال میں خدا تعالٰی نے صنفِ نازک پر کرم فرمائی کرتے ہوئے عورتوں کے اس کے تحمل سے اور کچھ دیگر حالات میں بعض اہم فرائض سے رخصتیں دے رکھی ہیں۔ خواتین کو مولا کریم کا شکرگزار ہونا چاہیے، عورت کے فطری ضعف کی شریعت میں کتنی رعایت رکھی گئی ہے، نہ یہ کہ کفرانِ نعمت کے طور پر عورت کا اصرار ہو کہ وہ ضرور اس بوجھ کو اٹھائے گی۔ یہ عین رحمتِ الٰہی ہے کہ عورت کو امامتِ صغرٰی یعنی نماز کی امامت اور امامتِ مملکت کی ذمہ داری کے تحمل سے مستثنٰی قرار دیا۔
(۳) اسی طرح اسلامی حدود پر غور کریں کہ بدکار کو کوڑے لگانا یا سنگساری، چور کا ہاتھ کاٹنا، ڈاکو کا ساتھ ہی پاؤں بھی کاٹ دینا یا قتل کرنا، قاتل کی گردن اتار پھینکنا، یہ سب دہشت گردی کے خلاف مبارک جہاد ہے اور جرائم کے انسداد کا ایک ایسا سہل نسخہ ہے جسے حکیمِ مطلق نے فطرتِ انسانی کے عین مطابق تجویز فرمایا ہے تاکہ یہ حدود مفسد عنصر کا قلع قمع کر کے پراَمن معاشرے کی تخلیق کرنے میں مدد دے سکیں۔ جن سے مظلوم کی دادرسی ہوتی ہے، مجرمین کے لیے مقامِ عبرت اور شریروں کو ان کے شر سے باز رکھ کر پراَمن انسانوں کی خدمت اور برکاتِ خداوندی کو حاصل کیا جاتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کسی حد کے نفاذ کی برکات چالیس سال کی بارش سے بھی بڑھ کر ہیں۔
تو مفسد عنصر کا قلع قمع انسانی معاشرے کے ساتھ عین رحمت ہے جس طرح کہ فاسد عضو کو مریض پر شفقت اور کمالِ رحمت کے تقاضہ سے کاٹ کر بقیہ جسد کو مامون و محفوظ بنایا جائے، اس میں کسی کی حق تلفی کیسے ہے؟ نہ مردوں کی، نہ عورتوں کی، بلکہ اقامتِ حدود میں تو صاحبِ حق کو اس کے حق کے دلانے کا تحفظ ہے۔ البتہ خدائی ضوابط کو موردِ طعن ٹھہرانا اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو خالق کے سراپا رحمت نظامِ حیات سے محروم رکھنا یہ خالق اور مخلوق دونوں کی حق تلفی ہے اور دوہرا ظلم ہے۔ اسی لیے ارشادِ ربانی ہے:
ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الظالمون۔ (المائدہ ۴۴)
’’جو خدا تعالیٰ کے نازل کردہ نظامِ حکومت کا نفاذ نہیں کرتے وہ ظالم ہیں۔‘‘
کیونکہ خدا تعالٰی کے حقِ اطاعت میں کوتاہی کر کے مخلوق کو اس کی رحمت سے محروم کر کے یہ ظالم اپنی ڈھٹائی سے خدا تعالٰی کے نزدیک فاسق بھی بن جاتے ہیں ’’ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الفاسقون‘‘ (المائدہ ۴۵)۔ اور شریعت مطہرہ کے نظام کو غیر صالح سمجھ کر منکر ہو جانے پر یہ کافر بھی گردانے جاتے ہیں ’’ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون‘‘ (المائدہ ۴۷)۔
انسان کے وضعی قوانین میں نقص اور خالقِ انسان کے وضع کردہ نظام میں کمال اور جامعیت بالکل اسی طرح بدیہی ہے جیسے کہ خالق و مخلوق میں فرق۔ نہ سمجھیں تو دونوں نظاموں میں تقابل کر لیں۔ بشری قوانین کی قیامِ امن میں عدم صلاحیت جاننے کے لیے اقوامِ عالم میں سب سے ترقی یافتہ ملک امریکہ کو دیکھ لیں کہ اعلیٰ اور جدید ترین مادی وسائل کی کثرت کے باوجود بداَمنی اور اخلاقی گراوٹ میں اسفل سافلین میں ہے۔ عفت و پاکدامنی کا تصور معدوم، دن دہاڑے قتل و غارت اور ڈکیتیاں معمولِ زندگی، کوئی شخص نقدی لے کر جیب میں چلنے کو یوں ہی سمجھتا ہے کہ ایٹم بم ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ جرائم کی کثرت سے مجرموں کے لیے بنائی گئی جیلوں میں گنجائش نہیں تو اب بحری جہازوں میں بند کر کے انہیں کھلے سمندر میں کھڑا کر دیتے ہیں۔
اس کے تقابل میں اسلام کے نظامِ حکومت اور اس کی حدود کے قیام سے پراَمن معاشرے کا صدیوں تک انسانوں نے تجربہ کیا اور آج بھی جن ممالک اسلامیہ میں شرعی سزائیں قائم شدہ کی جاتی ہیں ان میں امنِ عامہ کی حالت مشرق و مغرب میں قابلِ رشک ہے۔ کاش کہ ہم بھی پاکستان میں تنفیذِ شریعت کی عملی مشق کر کے اغیار کے لیے قابلِ تقلید بنتے۔ مگر پاکستانی معاشرے کے بعض افراد جو مادر پدر آزادی کے قائل ہیں اسلامی نظام کے خلاف ہمارے معزز معاشرے کے شرف و کرامت اور عفت کو ہم سے چھیننا چاہتے ہیں۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ یہ اپنے مغربی آقاؤں کی حالت سے عبرت پکڑتے اور ان کی حالتِ زار پر رحم کے طور پر اور حق نمک خواری کی ادائیگی ان کو اسلام کے جامع نظامِ حکومت کو اختیار کرنے کی دعوت دے کر ان پر احسان کرتے۔ مگر کتنی بے حیائی اور باطل پر ڈھٹائی ہے کہ یہ لوگ الٹا بحالیٔ حقوق کے نام سے شریعتِ مطہرہ کے خلاف ہرزہ سرائی کریں۔ نہ خدا کا خوف مانع ہو نہ مسلم اکثریت کے غیظ و غضب کا ڈر، نہ حکومت کی طرف سے محاسبہ کی فکر۔
حکومت کا فریضہ ہے کہ فکری ارتداد کے حامل، وطن اور ملت کے ان غداروں کا شدید حساب لے، ورنہ پاک وطن کے غیور مسلمان ان کے محلوں، گلی کوچوں، ان کے گھروں اور دفتروں میں ان کا تعاقب کریں گے، پھر اسلام کے فدایان کی گرفت سے مغرب کے ان ایجنٹوں اور قومی ممبروں کو وہ نہ بچا سکیں گے۔