حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے مقدمہ میں اس مسئلے پر تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے کہ شریعت کے اوامر ونواہی اور قرآن وسنت کے بیان کردہ احکام وفرائض کا عقل ومصلحت کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ انھوں نے اس سلسلے میں ایک گروہ کا موقف یہ بیان کیا ہے کہ یہ محض تعبدی امور ہیں کہ آقا نے غلام کو اور مالک نے بندے کو حکم دے دیا ہے او ربس! اس سے زیادہ ان میں غور وخوض کرنا اور ان میں مصلحت ومعقولیت تلاش کرنا کار لاحاصل ہے، جبکہ دوسرے گروہ کا موقف یہ ذکر کیا ہے کہ شریعت کے تمام احکام کا مدار عقل ومصلحت پر ہے اور عقل ومصلحت ہی کے حوالے سے یہ واجب العمل ہیں۔ شریعت ان میں سے کسی کام کی اصل حاکم نہیں ہے بلکہ اس کا وظیفہ صرف یہ ہے کہ وہ اعمال کے حسن وقبح سے انسانوں کو آگاہ کر دے، اس لیے کسی عمل کے حسن وقبح تک رسائی ہوگی تو وہ وجوب، جواز یا حرمت کا درجہ اختیار کرے گا، اور حسن وقبح تک رسائی نہیں ہوگی تو اسے حکم کی حیثیت حاصل نہیں ہو سکے گی۔
حضرت شاہ صاحب نے ان دونوں گروہوں کے موقف کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اصل بات ان دونوں کے درمیان ہے کہ شریعت کا کوئی حکم عقل ومصلحت کے خلاف نہیں ہے لیکن چونکہ تمام انسانوں کی عقل یکساں نہیں ہے اور ہر شخص کا عقل وفہم کی ہر بات تک رسائی حاصل کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے قرآن وسنت کے احکام وقوانین کا مدار انسانی عقل وفہم اور اس کی سمجھ کے دائرے میں آنے والی حکمت ومصلحت پر نہیں ہے بلکہ صر ف امر الٰہی پر ہے اور وہ اسی لیے واجب العمل ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا حکم دیا ہے۔
ہمارے خیال میں اسے اگر ایک اور زاویہ سے دیکھ لیا جائے تو بات زیادہ واضح ہو جائے گی کہ کسی چیز یا عمل کے حسن وقبح کے ادراک اور اس تک رسائی کا ایک ذریعہ انسانی عقل وفہم ہے۔ اس کا دائرہ الگ ہے۔ جبکہ کسی چیز یا عمل کے حسن وقبح کے تعین کا اصل ذریعہ اللہ تعالیٰ کا علم اور حکمت ہے۔ اس کا دائرہ یقیناًپہلے دائرے سے مختلف ہے۔ اگر ہم ان دونوں دائروں کے درمیان فرق کو سامنے رکھ لیں تو یہ بات سمجھنا مشکل نہیں رہے گا کہ انسانی عقل وفہم کا دائرہ بہت ہی محدود بلکہ محدود تر ہے اور یہ دعویٰ کرنا اس کے بس کی بات ہی نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی حکمت اور اس میں موجود ہر مصلحت کو سمجھ سکتا ہے اور اس تک رسائی حاصل کر سکتا ہے، اس لیے یہ بات تو قطعی طور پر درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم مصلحت اور حکمت سے خالی نہیں ہے، کیونکہ وہ حکیم مطلق ہے اور حکیم کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا، البتہ یہ بات ہمیشہ سے محل نظر چلی آ رہی ہے اور ہمیشہ محل نظر رہے گی کہ انسانی عقل ودانش اللہ تعالیٰ کے ہر حکم اور فیصلے کی حکمت ومصلحت کا ادراک کر سکتی ہے اور جب یہ بات انسانی عقل وفہم کے لیے ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے اور حکم کی ہر مصلحت وحکمت تک رسائی حاصل کر سکتی ہے تو احکام خداوندی کو انسانی عقل ودانش کے دائرے میں محدود کرنا اور محدود عقل وفہم کو احکام شرعیہ کا مدار قرار دینا کسی طرح بھی قرین قیاس نہیں قرار پا سکتا۔اس مسئلہ کو ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے اس پہلو سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ چلو انسانوں کے عقل وفہم کا دائرہ اور سطح مختلف ہونے کے باعث شخصی عقل کو تو مدار قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن عقل عام اوراجتماعی عقل چونکہ انسانی عقل کے تمام دائروں اور تمام سطحوں کو اپنے اندر سمو لیتی ہے اور ان سب کی جامع ہوتی ہے، اس لیے عقل عام (Common Sense) کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اشیا واعمال کے حسن وقبح اور مقصد ومصلحت کا تعین کرے اور اس کے فیصلے کو حتمی مان لیا جائے، لیکن یہ بات بھی قابل قبول نہیں ہے، اس لیے کہ عقل عام کا دائرہ زمان ومکان دونوں حوالوں سے ہمیشہ مختلف رہا ہے اور ہمیشہ مختلف رہے گا، کیونکہ عقل عام مشاہدات، محسوسات، تجربات، مفادات، ضروریات اور معقولات کی بنیاد پر تشکیل پاتی ہے جبکہ ان میں سے کوئی چیز بھی کبھی ایک حالت میں نہیں رہتی اور اگر ان امور کے زمانی ومکانی تغیرات کو احکام شریعت کے تعین میں دخیل اور معیار قرار دے دیا جائے تو پوری نسل انسانی کے لیے ایک عالمگیر اور ابدی دین کا تصور ہی عنقا ہو جائے گا اور بات پھر علاقائی اور محدود وقتی مذاہب کی طرف واپس چلی جائے گی۔
اس عقل عام کی کارستانیوں کا مشاہدہ ہم گزشتہ دو صدیوں کے دوران مغرب میں کر چکے ہیں جہاں انسانی خواہشات کی سان پر چڑھ کر اس عقل عام نے زنا، عریانی، سود اور ہم جنس پرستی جیسی لعنتوں کو بھی جواز کا درجہ دے دیا ہے بلکہ انھیں انسانی حقوق کے زمرے میں شمار کر لیا ہے۔ ہمارے خیال میں احکام شرعیہ کا مدار مقاصد ومصالح کو قرار دے کر مقاصد ومصالح کے بدلتے ہوئے معیارات کی بنیاد پر قرآن وسنت کے منصوص احکام میں تغیر وتبدل کے راستے تلاش کرنے کی موجودہ کوششوں کو مغرب کے اس فکری وتہذیبی انقلاب سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ اگرچہ اس کے لیے اصطلاح ’’اجتہاد‘‘ ہی کی استعمال کی جاتی ہے لیکن اس کے اہداف ومقاصد کا رشتہ ’’اجتہاد‘‘ کے بجائے تشکیل نو (Reconstruction) سے جا ملتا ہے جو اسلام کی بجائے مغرب کی اصطلاح ہے اور مارٹن لوتھر کے فکری اور تہذیبی انقلاب کا کرشمہ ہے جس کے خوف ناک نتائج سے آج خود مغرب بھی حیران وپریشان ہو رہا ہے، اس لیے قرآن وسنت کے صریح احکام میں تغیر وتبدل کے لیے مقاصد ومصالح، عقل عام اور انسانی فہم ودانش کو واحد معیار اور مدار قرار دے کر ان کی تشکیل نو کے تصور کو نہ عقلی طور پرقبول کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسلام کا چودہ سو سالہ اجماعی تعامل اور قرآن وسنت کے طے شدہ اصول اس کی اجازت دیتے ہیں۔
البتہ قرآن وسنت کے بیان کردہ صریح احکام وقوانین کو ابدی اور غیر متبدل تسلیم کر لینے اور ان کی قطعیت وابدیت پرمکمل ایمان کے بعد ان کے اطلاق ونفاذ اور تطبیق کے حوالے سے زمانے کے تغیرات، ضروریات کے تنوع اور احوال کے اختلاف کا لحاظ رکھنا اس سے مختلف امر ہے اور اس کی گنجایش ہر زمانے میں موجود رہی ہے۔ ہماری رائے میں پہلی بات کا تعلق تشکیل نو سے ہے جبکہ دوسری بات کا تعلق اجتہاد سے ہے اور اسلام اجتہاد اور تجدید کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ مسلمہ اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کی ترغیب دیتا ہے اور اس پراجر وثواب بھی بیان کرتا ہے، مگر وہ اسلام کی تشکیل نو کے تصور کو مسترد کرتا ہے اور اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ہماری رائے میں اجتہاد کے ضروری تقاضوں کی طرف پیش رفت کے حوالے سے مسلمانوں کے روایتی دینی حلقوں کی حد درجہ بلکہ ضرورت سے زیادہ احتیاط کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اجتہاد اور تشکیل نو کو خلط ملط کر دیا گیا ہے اور اجتہاد کے نام پر پورے اسلام کی تشکیل نو کا حق مانگا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بسا اوقات اجتہاد کے دائرے کے امور کو بھی تشکیل نو کا تقاضا سمجھ کر مسترد کر دیا جاتا ہے اور ان معاملات میں عجیب نوعیت کا کنفیوژن پیدا ہو گیا ہے۔
عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے ایک سیمینار میں پڑھے جانے والے زیر نظر مقالہ ’’شریعت، مقاصد شریعت اور اجتہاد‘‘ میں مسئلہ کے ان دونوں پہلووں کا جائزہ لیا ہے اور انتہائی عرق ریزی اور نکتہ رسی کے ساتھ اس کے مختلف زاویوں کو اہل علم کے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ مجھے مقالہ کے دونوں پہلووں سے اصولی طور پر اتفاق ہے کہ:
۱۔ مقاصد ومصالح کے معیارات تبدیل ہو جانے کی بنیاد پر قرآن وسنت کے صریح احکام میں تغیر وتبدل کا کوئی جواز نہیں ہے، اور
۲۔ جو امور اجتہاد کے دائرے میں آتے ہیں اور جن مسائل ومعاملات میں احوال وزمانہ کے تغیرات کا مجتہدین کے ہاں ہمیشہ لحاظ رکھا جاتا رہا ہے، ان میں قطعی جمود کی موجودہ صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے بلکہ اجتہادی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت آج بھی موجود ہے جو زمانے کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔
البتہ اس مقالہ کی تمام جزئیات اور ترجیحات سے اتفاق ضروری نہیں ہے اور ہر علمی بحث ومباحثہ کی طرح اس کے مختلف پہلووں پر بھی مزید بحث، اختلاف اور نقد کی گنجایش موجود ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ مقالہ اس موضوع پر علمی بحث کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بنے گا اور ارباب علم ودانش کی سنجیدہ توجہ عزیز مقالہ نگار کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ثابت ہوگی۔