مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم بائیبل، کتاب مقدس اور انجیل مقدس کے حوالے سے یہ ثابت کر دیں کہ ہر ایک کو عمل کرنا پڑے گا اور تب جا کر کہیں نجات نصیب ہو سکتی ہے۔ جب ہر ایک کے لیے عمل ضروری ٹھہرا تو پھر کفارے کا سوال کہاں سے؟ اور اس نامنصفانہ عقیدہ اور نظریہ کو بھلا سنتا بھی کون ہے؟
استثنا باب ۲۷ آیت ۲۶ میں ہے: ’’لعنت اس پر جو شریعت کی باتوں پر عمل کرنے کے لیے ان پر قائم نہ رہے اور سب لوگ کہیں: آمین۔‘‘
اگر شریعت کی باتوں کو ترک کر کے محض کفارہ ہی کا عقیدہ موجب نجات ہے تو پھر یہ لعنت کیسی اور کیوں؟
انجیل لوقا باب ۶ آیت ۴۶ تا ۴۹ میں ہے: ’’جب تم میرے کہنے پر عمل نہیں کرتے تو کیوں مجھے خداوند خداوند کہتے ہو؟ جو کوئی میرے پاس آتا اور میری باتیں سن کر ان پر عمل کرتا ہے، میں تمھیں بتاتا ہوں کہ وہ کس کی مانند ہے۔ وہ اس آدمی کی مانند ہے جس نے گھر بناتے وقت زمین گہری کھود کر چٹان پر بنیاد رکھی۔ جب طوفان آیا اور سیلاب اس گھر سے ٹکرایا تو اسے ہلا نہ سکا کیونکہ وہ بہت مضبوط بنا ہوا تھا۔ لیکن جو سن کر عمل میں نہیں لاتا، وہ اس آدمی کی مانند ہے جس نے زمین پر گھر کو بے بنیاد بنایا۔ جب سیلاب اس پر زور سے آیا تو وہ فی الفور گر پڑا اور وہ گھر بالکل برباد ہوا۔‘‘
غور کیجیے کہ حضرت یسوع مسیح نے کس طرح مثال دے کر عمل کرنے پر زور دیا ہے اور بے عمل انسان کے برائے نام ایمان کو کس طرح بے قدر وبے وقعت قرار دیا ہے۔
کرنتھیوں باب ۷ آیت ۱۹ میں ہے: ’’نہ ختنہ کوئی چیز ہے نہ نا مختونی، بلکہ خدا کے حکموں پر چلنا ہی سب کچھ ہے۔‘‘
اور یعقوب باب ۲ آیت ۱۰ تا ۱۲ میں ہے: ’’کیونکہ جس نے ساری شریعت پر عمل کیا اور ایک ہی بات میں خطا کی، وہ سب باتوں میں قصوروار ٹھہرا۔ اس لیے کہ جس نے یہ فرمایا کہ زنا نہ کر، اسی نے یہ بھی فرمایا کہ خون نہ کر۔ اس پر اگر تو نے زنا تو نہ کیا مگر خون کیا تو بھی تو شریعت کا عدول کرنے والا ٹھہرا۔ تم ان لوگوں کی طرح کلام کرو اور کام بھی کرو جن کا آزاد کی شریعت کے موافق انصاف ہوگا۔‘‘
جبکہ آیت ۱۴ میں ہے: ’’اے میرے بھائیو! اگر کوئی کہے کہ میں ایماندار ہوں مگر عمل نہ کرتا ہو تو کیا فائدہ؟ کیا ایسا ایمان اسے نجات دے سکتا ہے؟‘‘