حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ
کل مضامین:
12
انسانی اخلاق کی چار بنیادیں
ہمارے نزدیک شاہ ولی اللہؒ حکیم و صدیق ہیں جنہوں نے سارے ادیان، مذاہب اور شریعتوں کا اصلاً ایک ہونا ثابت کیا اور پھر ان بنیادی اصولوں کا تعین بھی کیا جو ہر دین کا مقصودِ حقیقی تھے اور ہر مذہب اور شریعت ان کو پورا کرنا اپنا فرض سمجھتی رہی۔ شاہ صاحب ’’ہمعات‘‘ میں لکھتے ہیں: اس فقیر پر یہ بات روشن کی گئی ہے کہ تہذیبِ نفس کے سلسلے میں جو چیز شریعت میں مطلوب ہے، وہ چار خصلتیں ہیں۔ حق تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو انہی چار خصلتوں کے لیے بھیجا۔ تمام ملل حقہ میں انہی چار خصلتوں کا ارشاد اور ان کے حاصل کرنے کی ترغیب و تحریص ہے۔ ’’بر‘‘ یعنی بھلائی...
دنیا و آخرت کی فلاح حضرت شاہ ولی اللہؒ کی نظر میں
… ان چار اخلاق میں مرکزی حیثیت عدالت کو حاصل ہے۔ کسی سوسائٹی میں عدل و انصاف قائم نہیں ہو سکتا جب تک رزق کمانے والی جماعتوں پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنے سے احتراز کلی نہ برتا جائے۔ نزول قرآن کے زمانے میں کسری و قیصر نے متمدن دنیا کے اکثر حصے کو اقتصادی پریشانی میں مبتلا کر کے اخلاق سے محروم کر دیا تھا، اس لیے قرآن عظیم کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ کسری و قیصر کا زور توڑ کر ایسا نظام نافذ کر دیا جائے جس سے اقوام عالم کو اس مصیبت سے نجات حاصل...
علماء اور سیاستداں
تمہارے علماء ہیں کہ ان کی نظریں محض پہلے سے لکھی ہوئی کتابوں میں پھنس کر رہ گئی ہیں۔ وہ اپنے گرد و پیش دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے، اگر کبھی دیکھتے ہیں تو بس کتابی نظر۔ وہ زندگی سے کٹ چکے ہیں، اس لیے جن علوم کو وہ پڑھتے اور پڑھاتے ہیں ان علوم میں اس بنا پر نہ تو خود میں کوئی زندگی کی رمق باقی ہے اور نہ وہ علوم پڑھنے اور پڑھانے والوں میں زندگی کی حرارت و تڑپ پیدا کرتے...
سوسائٹی کی تشکیلِ نو کی ضرورت
شاہ ولی اللہؒ ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے جو گو خود بڑا صاحبِ مال و جائیداد نہ تھا لیکن شاہی اور جاگیردارانہ نظام کے بچے کھچے حصے کا وارث وہ ضرور تھا، اس لیے قدرتاً شاہ صاحب کے ہاں میانہ روی اور اعتدال ہے۔ آج میں اپنے نوجوانوں کو انقلاب کے اس درجے پر لانا چاہتا ہوں، موجودہ حالات میں جن سے آج ہم دو چار ہیں، انتہاپسندی بڑی خطرناک ہے اور پھر یہ مصلحتِ زمانہ کے بھی خلاف ہے، ہاں اگر کوئی اس سے آگے جانا چاہتا ہے تو میرا یقین ہے کہ قرآن اس کو اس منزل تک بھی لے جا سکتا...
حکمران جماعت اور قرآنی پروگرام
قانون کی پابندی کا انتظام ایک جماعت کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے اور وہ حکومت کرنے والی جماعت ہی ہو سکتی ہے۔ قانون کا انتظام کرنے والی جماعت کا فرض ہے کہ وہ امانت دار ہو اور اپنا فرض ادا کرنے والی ہو۔ صحیح طور پر قانون کی پابندی کرنے والی جماعت کا سب سے پہلا کام یہ ہو گا کہ وہ قانون کی تعلیم عام لوگوں کو اسی طرح دینا شروع کرے جیسے باپ اپنی اولاد کو پڑھاتا ہے۔ پھر قانون کی مخالفت کرنے والوں کو سزا دینا بھی انہی لوگوں کے ہاتھ میں ہو گا۔ وہ مخالف جماعتیں یا تو اس پارٹی کے اندر شامل ہوں گی یا باہر۔ جو اندر ہوں گی انہیں قانون توڑنے کی سزا دینے کا نام تعزیر...
قرآنِ کریم اور سود
قرآنِ کریم میں خلافتِ الٰہیہ کے قیام سے مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک ایسی قوت پیدا کی جائے جس سے اموال اور حکمت، علم و دانش دونوں کو لوگوں میں صرف کیا جائے اور پھیلایا جائے۔ اب سودی لین دین اس کے بالکل منافی اور مناقض ہے۔ قرآن کریم کی قائم کی ہوئی خلافت میں ربوٰا (سود) کا تعامل کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟ اس کا جواز بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ نور و ظلمت کا اجتماع۔ ربوٰا(سود) سود خواروں کے نفوس میں ایک خاص قسم کی خباثت پیدا کر دیتا ہے جس سے یہ ایک پیسہ بھی خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اگر یہ خرچ کرتے ہیں تو ان کے سامنے اس کا ’’اضعافًا مضاعفًا‘‘ نفع...
قرآنِ کریم کے ماننے والوں کا فریضہ
ہم پر، جو قرآنِ کریم کو ماننے والے ہیں، قطعی طور سے لازم ہے کہ ہم تمام اقوامِ عالم کے سامنے ثابت کر دیں کہ انسانیت کے ہاتھ میں قرآنِ کریم سے زیادہ درست اور صحیح کوئی پروگرام نہیں۔ پھر ہم پر یہ بھی لازم ہے کہ جو لوگ قرآن کریم پر ایمان لا چکے ہیں ان کی جماعت کو منظم کیا جائے، خواہ وہ کسی قوم یا نسل سے تعلق رکھتے ہوں۔ ہم ان کی کسی اور حیثیت کی طرف نہ دیکھیں بجز قرآن کریم پر ایمان لانے کے۔ پس ایسی جماعت ہی مخالفین پر غالب آئے گی۔ لیکن ان کا غلبہ انتقامی شکل میں نہیں ہو گا بلکہ ہدایت اور ارشاد کے طریق پر ہو گا جیسا کہ والد اپنی اولاد پر غالب ہوتا ہے۔...
سود کے خلاف قرآنِ کریم کا اعلانِ جنگ
قرآنِ کریم میں خلافتِ الٰہیہ کے قیام سے مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک ایسی قوت پیدا کی جائے جس سے اموال اور حکمت، علم و دانش دونوں کو لوگوں میں صرف کیا جائے اور پھیلایا جائے۔ اب سودی لین دین اس کے بالکل منافی اور مناقض ہے۔ قرآن کریم کی قائم کی ہوئی خلافت میں ربوٰ (سود) کا تعامل کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟ اس کا جواز بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ نور و ظلمت کا اجتماع۔ ربٰو سود خواروں کے نفوس میں ایک خاص قسم کی خباثت پیدا کر دیتا ہے جس سے یہ ایک پیسہ بھی خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اگر یہ خرچ کرتے ہیں تو ان کے سامنے ’’اضعافا مضاعفا‘‘ (دوگنا چوگنا) نفع...
سرمایہ داری کا بت
ہندو جب بھی کوئی نیا نظام پیدا کرتا ہے تو اس کی بنیاد سرمایہ داری پر ہوتی ہے۔ چنانچہ گاندھی جی جیسا شخص بھی انسانیت کا اتنا بڑا نمائندہ بن کر سرمایہ داری سے ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکا۔ اسی طرح پنڈت جواہر لال نہرو کمیونسٹ ہیں مگر وہ بھی سرمایہ دار ہیں۔ ان کے مقابلہ میں حسرت موہانی کو لیجئے، جس دن اس نے اشتراکیت قبول کی وہ اپنی تمام جائیداد ختم کر چکا اور اب وہ ایک کوڑی کا بھی مالک نہیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے یورپ جا کر سوشلسٹوں کے ساتھ رہ کر سوشلزم سیکھا مگر حسرت اپنی ذاتی کاوش سے اس مرتبہ پر...
قرآنی احکام کا نفاذ آج بھی ممکن ہے
خلافت اور رئیس کے باب میں صحیح نظریہ یہ ہے کہ خلافت تین باتوں کی طرف تقسیم ہوتی ہے: (۱) خلافت بغیر جماعت کے قائم نہیں ہو سکتی۔ (۲) رئیس صرف اس جماعت میں سے ہو سکتا ہے۔ (۳) رئیس کا انتخاب صرف یہ جماعت کر سکتی ہے۔ براہ راست اس کا انتخاب نہیں کر سکتے۔ کیونکہ یہ چیز بالآخر نزاع و تنازع و جھگڑا کا رخ اختیار کر لیتی ہے۔ ہمارے نزدیک اس معاملے کا صحیح رخ یہ ہے کہ جب اممِ مسلمہ سے کوئی امت یا جماعت ایسے آدمی کو آگے بڑھاتی ہے جو (۱) کتاب اللہ کو سب سے زیادہ جاننے والا ہو۔ (۲) حضورؐ کے طور طریقوں اور آپؐ کی سنت و تعلیمات کو سب سے زیادہ جانتا ہو۔ (۳) خلفاء راشدینؓ...
امام ولی اللہ کا پروگرام اور روسی انقلاب
لوگ بالعموم یہ جانتے ہیں کہ روسی انقلاب فقط ایک اقتصادی انقلاب ہے، ادیان اور حیاتِ اخروی سے بحث نہیں کرتا۔ ہم ان روسیوں کے پاس بیٹھے ہیں اور ان کے خیالات و افکار ہم نے معلوم کیے ہیں اور ہم بتدریج اور آہستہ آہستہ نرمی اور لطافت سے امام ولی اللہؒ کا پروگرام، جو انہوں نے حجۃ اللہ البالغۃ میں پیش کیا، ان روسیوں کے سامنے رکھا تو انہوں نے اسے نہایت ہی مستحسن خیال کیا اور ہم سے پوچھنے لگے کہ کیا کوئی ایسی جماعت اس وقت ہے جو اس پروگرام پر عمل کرتی ہو؟ جب ہم نے نفی میں جواب دیا تو انہوں نے بہت افسوس کیا اور کہنے لگے کہ اگر کوئی جماعت اس پروگرام پر عمل...
کمیونزم نہیں، اسلام
نام نہاد کمیونزم میں جس قدر مسکین نوازی ہے اس سے کہیں زیادہ امام ولی اللہ رحمہ اللہ تعالٰی کے فلسفے میں ہے اور اس میں مزدور اور کاشت کار کے حقوق کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے لیکن اس کی بنیاد خدا کے صحیح اور صاف تصور پر ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک کارکن اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس زندہ تصور کے ساتھ گزارتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہے، یا کم از کم یہ کہ اللہ تعالٰی اسے دیکھ رہا ہے۔وہ یہ تصور بھی ایک زندہ اور پائیدار شکل میں اپنے سامنے رکھتا ہے کہ اگر اس نے کم تولا یا کسی کے حق کو ناجائز طور پر پاؤں تلے روندا تو دنیا میں بھی سزا پائے گا اور مرنے...
1-12 (12) |