سؤر کے گوشت کے نقصانات

حکیم محمود احمد ظفر

قرآن حکیم نے سؤر کے گوشت کے بارے میں یہ حکم دیا

انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اھل بہ لغیر اللہ فمن اضطر غیر باغ ولا عاد فلا اثم علیہ ان اللہ غفور رحیم۔ (البقرہ ۱۷۳)

بے شک اللہ تعالی نے حرام کر دیا ہے تم پر مردار، خون اور سؤر کا گوشت اور وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ ہاں جو شخص مجبوری اور اضطرار کی حالت میں ان میں سے کوئی چیز کھالے بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی یا حد سے تجاوز کرنے کا ارادہ رکھتا ہو، تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔ بے شک اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

قرآن حکیم خنزیر کے گوشت کو چار مختلف آیات میں منع کرتا ہے۔ اس کے حرام ہونے کا حکم سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۱۷۳، سورۃ المائدہ کی آیت نمبر ۳، سورۃ الانعام کی آیت نمبر ۱۴۵ اور سورۃ النحل کی آیت نمبر ۱۱۵ میں صریحا دیا گیا ہے۔ اس حکم کو چار مختلف سورتوں میں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس حقیقت کو پرزور طریقے سے لوگوں کو بتایا جائے اور یہ کہ ہر شخص اس مسئلہ پر پوری توجہ کرے۔

روز مرہ زندگی میں سؤر سے دور رہنے کے لیے یہی وجہ کافی ہے کہ یہ بے حد غلیظ جانور ہے اور ان میں مشہور قسم کے نقصان دہ طفیلی جراثیموں کی تھیلی Trichina Cyst پائی جاتی ہے، مگر بدقسمتی سے ان معاشروں میں جہاں کئی سالوں تک سؤر کے گوشت پر پابندی رہی ہے، کچھ لوگوں نے اب یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ جانور کے ڈاکٹری معائنے کے بعد اس کو کھایا جا سکتا ہے۔

سؤر کے گوشت کی ممانعت کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟ گزشتہ ۲۵ سالوں میں قرآن حکیم کے اس حکم کی تائید میں سائنس نے متعدد وجوہ ڈھونڈلی ہیں اور خود سائنس دان بھی اللہ تعالی کے اس حکم پر حیرت زدہ رہ گئے ہیں جو اس نے قرآن حکیم کی اس آیت میں دیا ہے۔ اب میں سؤر کے جسم کے ان حصوں پر سائنسی تحقیقات کا خلاصہ پیش کروں گا جو انسانی صحت کے لیے مضرت رساں ہیں۔

مشہور جرمن میڈیکل سائنس دان ہینز ہائنرک ریکویگ (Hans Heinrich Rechweg) نے سؤر کے گوشت میں ایک عجیب قسم کی زہریلی پروٹین سٹوکسن (Sutoxin)کی نشان دہی کی ہے جس سے کئی قسم کی الرجی والی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ زہر اس قسم کی الرجی والی بیماریوں مثلا ایگزیما اور دمہ کے دورے (Asthamatic Rash) کا باعث بنتی ہے۔ اگر سٹوکسن کی مقدار یا خوراک کم ہو تو بھی اس سے تھکاوٹ اور جوڑوں کے درد کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے اگر کچھ لوگوں کی اس بات کو تھوڑی دیر کے لیے مان بھی لیا جائے کہ سؤر کا گوشت سستا ہوتا ہے تو اس سے پیدا ہونے والی بیماریاں بہت مہنگی ہوتی ہیں لہذا ان بیماریوں کے علاج میں وقت کے ضیاع اور دواؤں کے اخراجات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے۔ تب اس گوشت کی کوئی خوبی نظر نہیں آئے گی۔

جانوروں پر تجربات کے سلسلے میں سؤر کا اثر ہمیشہ نظر آجاتا ہے۔ اس جانور کے رطوبت چھوڑنے والے غدودوں کے نظام (Lymphatic System) میں تیزی سے ہونے والی فرسودگی سے ایسی خصوصیات پیدا ہو جاتی ہیں جو اس وجہ سے ہے کہ یہ جانور نقصان دہ بیکٹیریا سے بھری ہوئی خوراک متواتر بغیر وقفہ کے کھاتا رہتا ہے۔

خنزیر کے گوشت میں ایک عنصر میوکو پولائزک چرائڈ (Muco Polysac Charides) کافی تعداد میں پایا جاتا ہے اور چونکہ اس میں گندھک (Sulphur) ضرورت سے زیادہ ہوتا ہے، اس لیے اس کی وجہ سے جوڑوں کی بہت سی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ سؤر میں بڑھنے کے عمل میں تیزی پیدا کرنے والے ہارمونز ایک بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے گوشت کے عادی لوگوں کے جسم بھی بدنما اور عیب زدہ ہو جاتے ہیں۔

ایک اور پریشان کن بیماری جو سؤر کے گوشت کے ذریعے سے پیدا ہوتی ہے، اسے شیپ وائرس (Sheep virus) کہتے ہیں۔ یہ وائرس انسانی پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتا ہے، اس لیے کہ خود سؤر کے پھیپھڑوں میں بھی یہ کثیر مقدار میں پایا جاتا ہے۔

سؤر کا گوشت خون میں چربی والے اجزا کے تناسب کا ضرورت سے زیادہ مقدار میں اضافہ کر دیتا ہے۔ آج کل ایسی خوراک یعنی قیمہ بھری آنتوں (Sausages) اور سلامی (Salami) وغیرہ بہت مرغوب سمجھی جاتی ہیں۔ سؤر کھانے والوں کے جسم رفتہ رفتہ ایک انگیٹھی کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ یورپ کے کئی شہروں میں یہ حقیقت بآسانی دیکھی جا سکتی ہے۔ پروفیسر لیٹرے (Prof. Lettre) نے تابکاری طریقے (Radioactive Tagging)استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ خوراک جسم کے اسی حصے میں مرکوز ہو جاتی ہے جس حصہ کی وہ خوراک ہے۔ چنانچہ اس نظریہ کا ثبوت مل جاتا ہے کہ سؤر کھانے والوں کے چوتڑوں میں چربی اکٹھی ہو جاتی ہے۔

سؤر کھانے والوں کو لاحق ہونے والی ایک اور مہلک بیماری چنونے یا کیڑوں والی بیماری ہوتی ہے جسے Trichinaکہتے ہیں۔سٹاہل (Stahl) نے اس موضوع پر اپنی کتاب This Wormy World میں یہ بتایا ہے کہ اس وقت دنیا میں قریبا تین کروڑ کی تعداد میں لوگ اس بیماری کے شکار ہیں۔ لاعلمی پر مبنی خیالات کے برخلاف اوپر بیان کردہ بیماری ٹرائی کینا دماغ میں صرف نقصان دہ گلٹی یا تھیلی ہی نہیں بناتی بلکہ چونکہ سور سے پھیلائی گئی یہ وبا خون میں رکاوٹ یا منجمد کرنے کا عمل بھی پیدا کرتی ہے، اس لیے اس سے ٹائیفائڈ جیسا موذی مرض بھی پیدا ہوتا ہے اور اس سے اچانک موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ سور کا گوشت جسم کے پٹھوں میں مرکوز ہو کر پٹھوں کی خطرناک بیماریوں کو جنم دیتا ہے۔

سور سے متعلق مخصوص چوڑے خنزیری کیڑے (Tape Worm)والی ایک اور بیماری بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ بہت سے یورپی ممالک میں سور کے پھیپھڑوں کا کھانا ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ مگر سور کے عام گوشت کے ذریعہ بھی یہ بیماری پیدا ہو سکتی ہے۔ انسانی صحت کو سب سے زیادہ نقصان اس بیماری سے ہوتا ہے جس سے اس جانور کے گردوں کی سخت چربی کے ذریعے آنتوں میں خاص قسم کے طفیلی کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک عام فہم بات ہے کہ جانوروں کے گوشت میں دو قسم کی چربی ہوتی ہے۔ ان میں سے پہلی تو وہ ہے جو صاف نظر آتی ہے اور گوشت کے اوپر لپٹی ہوتی ہے جبکہ دوسری قسم کی چربی وہ ہوتی ہے جو خود گوشت کے پٹھوں کے ریشوں کے اندر ہی پائی جاتی ہے۔ جہاں تک چربی کا گوشت میں مرکوز ہو جانے کا معاملہہے، دوسری قسم کی چربی سے بطور خاص ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں عام قسم کے گوشت کی چیزوں میں چربی کا مرکوز ہو جانا درج ذیل ہے۔

بچھڑے کا گوشت    (۱۰ فیصد)

بھیڑ کاگوشت    (۲۰ فیصد)

بھیڑکے بچے کا گوشت    (۲۳ فیصد)

سؤر کا گوشت    (۳۵ فیصد)

جانوروں سے حاصل کردہ چربی جو ہمارے جسم میں جاتی ہے، اس کے متعلق یہ تحقیق ہو چکی ہے کہ انسانی خون میں یہ سب سے کم مقدار میں تحلیل ہوتی یا گلتی ہے۔ چنانچہ اس کے کھانے سے خون میں چربی (Lipid) اور کولیسٹرول (Cholesterol) کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر یہ اجزا خون کے بہاؤ میں زیادہ عرصہ تک موجود رہیں تو یہ چپکنے سے رکاوٹ بناتے ہیں اور خون کی شریانوں کو سخت کر دیتے ہیں۔ آج کل تو پوری طرح سے تسلیم کر لیا گیا ہے کہ خوراک میں چربی کا زیادہ مقدار میں ہونا ہی دل کی شریانوں کی بیماریوں کا سب سے بڑا سبب ہے۔ خون میں چربی کی مقدار کا ضرورت سے زیادہ ہونا وقت سے قبل بڑھاپے، ضعف، فالج اور دل کے دورے کی بلا شبہ ایک عام وجہ ہے۔

آج کل قصاب کی دوکان میں داخل ہونے والا ہر گاہک بغیر چربی کے گوشت کا طلب گار ہوتا ہے لیکن دراصل اس چربی کی زیادہ اہمیت نہیں ہے جو گوشت کے باہر ظاہری طور پر نظر آتی ہے بلکہ اس چربی سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جو ظاہری طور پر نظر نہیں آتی مگر گوشت کے اندر پٹھوں کے ریشوں میں چھپی ہوتی ہے۔

سور کے گوشت میں بہت زیادہ چربی سے ایک اور نقصان یہ ہے کہ انسانی جسم میں وٹامن ای ضرورت سے کم ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ایسا گوشت کھانے والوں میں وٹامن ای فورا تحلیل ہونے کے عمل سے اس وٹامن میں اندرونی مخفی کمی پید اہو جاتی ہے۔ اب یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ وٹامن ای بہت سے دل چسپ کام انجام دیتا ہے۔ ان میں سے ایک کام وہ ہے جس کا جنسیاتی غدود (Sex Glands) پر اہم اثر ہے۔ موٹے لوگ، خاص طور پر سور کا گوشت کھانے والے لوگ وٹامن ای کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں اور نتیجتا جنسی طور پر سست او رنامرد ہو جاتے ہیں۔ وٹامن ای کی کمی رفتہ رفتہ مختلف قسم کی جلدی اور آنکھوں کی بیماریاں پیدا کر دیتی ہے۔

جیسا کہ ہم نے ابتدا میں بتایا کہ مستقل اور متواتر گندی اور غلیظ خوراک اور فضلہ کھانے سے سور کے جسم کا لمفی نظام متواتر حرکت میں رہتا ہے اور ان حفاظت دینے والے اجزا سے بھرا رہتا ہے جن میں مخصوص سفید چربی البومن (Albumin) پائی جاتی ہے۔ یہ اجزا جو جسم کے محفوظ رکھنے والے نظام(Immune System) میں پیدا ہوتے ہیں اور جن پر متعدی امراض سے متعلق تحقیقات ہو رہی ہیں، دوسرے جسیموں یا مخلوق کے لیے انتہائی زہریلے اور مہلک اثرات رکھتے ہیں۔ اس لیے ایک جسیمہ یا مخلوق اپنے جسم کے خلیوں کی حفاظت کے لیے جو مخصوص قسم کے پروٹین پیدا کرتا ہے، وہی پروٹین دوسرے جسیمے یا اس کے کھانے والے کے خلیوں کے لیے زہر کا اثر رکھتا ہے۔ اس حقیقت کی بنا پر سؤر کے گوشت کے مسلسل استعمال سے مختلف الرجی قسم کی بیماریاں اور پٹھوں کی سوجن کی بیماری بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ اگرچہ یہ حتمی طور پر ثابت نہیں ہو سکا لیکن یہ بات قرین قیاس ہے کہ یہی اجزا ہماری نسوں اور رطوبت پیدا کرنے والے لمفی نظام کے عمل میں انتشار کا باعث بھی بنتے ہیں۔

چونکہ خنزیر ایک ایسا جانور ہے جو بہت سی بیماریوں کا شکار رہتا ہے اس لیے یہ ناممکن ہے کہ اس کے گوشت کو کھانے اور ہضم کے ذریعے نقصان دہ سفید چربی والی البومنز، جنہیں اینٹی باڈی کہتے ہیں، انسانی جسم کے اندر داخل نہ ہو جائے۔

الغرض سور کا گوشت ایک ایسی خوراک ہے جسے نشوونما کے لیے نہیں بلکہ خود کو زہریلا مواد کھلانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جبکہ اس سلسلے میں تمام قسم کے حقائق سامنے آ چکے ہیں اور وہ لوگ جو اس کو محض شوق اور دکھاوے کے لیے کھاتے ہیں، ان کا مسئلہ تو اور بھی زیادہ خراب ہے۔

قرآن حکیم کی اس آیت کے ذریعے ایک اور اہم سبق جو ملتا ہے، وہ یہ ہے کہ سور کے گوشت کو خون اور مردار کے ساتھ حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہاں اس کی مثال اس طرح ہے کہ نقصان دہ جراثیم اور جانوروں سے پیدا ہونے والے زہر (ٹاکسن) ا س نکمے گوشت یعنی جگر یا دل کے گوشت میں ایک ساتھ جمع ہو جائیں، اسی قدر نقصان دہ اجزا سور کا گوشت مہیا کرتا ہے۔ ہماری توجہ بطور خاص خون میں پائی جانے والی رطوبت کے البومنز کا سور کے لمفی نظام سے پیدا ہونے والی البومنز کی طرف مبذول کرائی جا رہی ہے۔ چنانچہ آیت کریمہ میں سور کے گوشت کو مردار کے گوشت سے اس لیے ملا دیا گیا ہے کہ ان دونوں میں جراثیم سے آلودہ گندگی پائی جاتی ہے اور خون سے اس لیے ملایا گیا ہے کہ دونوں کے البومنز میں نقصان دہ رطوبت پائی جاتی ہے۔

ہم صاف صاف دیکھ سکتے ہیں کہ قرآن حکیم اس فرمان کے ذریعے سے ایک بلا وجہ قسم کی نکتہ چینی نہیں کر رہا بلکہ انسانی صحت وتندرستی کے لیے ایک بیش قیمت تحفہ پیش کر رہا ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ سور کے گوشت کے ان نقصانات کا وسیع طو رپر علم ہو جانے کے بعد بھی اس کو متواتر کھایا جا رہا ہے۔ میرے خیال میں اس سلسلے میں معاشی عوامل کا خاصا دخل ہے۔ مگر بہت جلد یہ چیز صحت کے لیے ایک خطرناک مسئلہ بن جائے گی۔ آج کل تو یہ بالکل عیاں بات ہے کہ دل اور خون کی شریانوں کی بیماریاں ان معاشروں میں بہت زیادہ پائی جاتی ہیں جہاں سور کا گوشت عام طور پر کھایا جاتا ہے۔ پھر بھی تاحال سور کے گوشت میں ضرورت سے زیادہ چربی کا وجود عوام میں تشویش یا بحث مباحثے کا موضوع نہیں بنا ہے۔ بہرحال یہ مسئلہ اب ایجنڈے پر آ چکا ہے اور یہ امید کی جا سکتی ہے کہ دنیا مستقبل قریب میں قرآن حکیم کے حکم کے مطابق سؤر کے گوشت سے اجتناب کر لے گی۔

آخر میں ہم اس سائنسی نقطہ نظر کو پیش کریں گے جس میں سور کے گوشت سے متعلق ایک اور اہم بات کی جاتی ہے۔ بہت سے مسلمان دانش وروں نے دعوی کیا ہے کہ صرف سور ہی ایک ایسا جانور ہے جس میں اپنی مادہ کے سلسلے میں کسی قسم کے حسد یا غیرت کا جذبہ نہیں پایا جاتا۔ اور اس لیے وہ اس کے لیے لڑائی بھی نہیں کرتا۔ اسی نسبت سے سور کھانے والے لوگ اور قومیں بھی جنسی طور پر بے غیرت ہوتی ہیں۔

اسلامی شریعت

(اپریل ۲۰۰۱ء)

اپریل ۲۰۰۱ء

جلد ۱۲ ۔ شمارہ ۴

تلاش

Flag Counter