(مصنف کی زیر ترتیب کتاب ’’حدود وتعزیرات: چند اہم مباحث‘‘ کا ایک باب)
شرعی قوانین اور بالخصوص سزاؤں سے متعلق شرعی احکام کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے معاصر مسلم فکر میں ایک اہم اور بنیادی بحث یہ ہے کہ قرآن وسنت میں مختلف معاشرتی جرائم مثلاً زنا، چوری، قذف اور محاربہ وغیرہ سے متعلق جو متعین سزائیں بیان کی گئی ہیں، آیا وہ ابدی اور آفاقی نوعیت کی ہیں یا ان کی معنویت اور افادیت ایک مخصوص زمان ومکان تک محدود تھی۔ ایک مکتب فکر یہ رائے رکھتا ہے کہ یہ سزائیں تجویز کرتے وقت اہل عرب کے مخصوص تمدنی مزاج اور معاشرتی عادات واطوار کو پیش نظر رکھا گیا تھا اور اس معاشرت میں جرائم کی روک تھام کے حوالے سے یہ موزوں اور موثر تھیں، تاہم ان کی ظاہری صورت کو ہر دور میں بعینہٖ برقرار رکھنا ضروری نہیں اور اصل مقصد یعنی عدل وانصاف پر مبنی معاشرے کے قیام اور جرائم کی روک تھام کو سامنے رکھتے ہوئے کسی بھی معاشرے کی نفسیات اور تمدنی حالات وضروریات کے لحاظ سے قرآن کی بیان کردہ سزاؤں سے مختلف سزائیں تجویز کی جا سکتی ہیں۔
یہاں تنقیح طلب نکتہ یہ ہے کہ آیا شارع نے کیا فی الواقع ان سزاؤں کی اساس یہی بیان کی ہے کہ ان کے ذریعے سے محض معاشرے میں جان ومال اور آبرو وغیرہ کا تحفظ مقصود ہے اور یہ کہ سزا کے اصل مقصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے، ان سزاؤں کی ظاہری صورت میں تبدیلی کی گنجایش موجود ہے؟ قرآن مجید کے متعلقہ نصوص کے مطالعے سے اس سوال کا جواب نفی میں ملتا ہے۔ قرآن سے واضح ہوتا ہے کہ اس معاملے میں اس کا زاویہ نگاہ جوہری طور پر زیر بحث زاویہ نگاہ سے مختلف ہے۔ قرآن ان سزاؤں کو اصلاً ’حقوق العباد‘ یعنی جان ومال اور آبرو کے تحفظ کے ایک ذریعے کے طور پر بیان نہیں کرتا اور نہ اس نے ان سزاؤں کو بیان کرتے ہوئے وہ مقدمہ ہی قائم کیا ہے جو زیر بحث نقطہ نظر میں ان سزاؤں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے، یعنی یہ کہ انسانی معاشرے میں امن ہونا چاہیے، اور چونکہ مذکورہ جرائم امن وامان کو تباہ کر دیتے ہیں، اس لیے یہ معاشرے کے تحفظ کا تقاضا ہے کہ ان جرائم کی روک تھام کے لیے مجرموں کو مذکورہ سزائیں دی جائیں۔ قرآن نے یہ بات نہیں کہی، بلکہ وہ ان سزاؤں کو ’حق اللہ‘ کے طور پر بیان کرتا ہے اور اس کا مقدمہ یہ ہے کہ انسان کی جان، مال اور اس کی آبرو کو اللہ نے حرمت بخشی ہے اور اللہ کی اجازت کے بغیر یہ حرمت کسی صورت میں ختم نہیں کی جا سکتی، اس لیے اگر کوئی مجرم کسی انسان کی جان، مال یا آبرو پر تعدی کرتا ہے تو وہ دراصل خدا کی قائم کی ہوئی ایک حرمت کو پامال کرتا ہے اور اس طرح خدا کی طرف سے سزا کا مستحق قرار پاتا ہے، چنانچہ کسی بھی جرم پر خدا کی بیان کردہ سزا دراصل خدا کا حق ہے جس کے نفاذ کو اس نے انسانوں کی ذمہ داری ٹھہرایا ہے۔
شرعی سزاؤں کا یہ پہلو قرآن مجید نے کم وبیش ہر موقع پر واضح کیا ہے۔ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت ۱۷۸ میں اللہ تعالیٰ نے قاتل سے قصاص لینے کو فرض قرار دیا ہے۔قصاص کا قانون تورات میں بھی بیان کیا گیا تھا، تاہم اس میں قاتل کو معاف کر کے دیت لینے کی گنجایش نہیں رکھی گئی تھی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کی اجازت دی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ اجازت تمھارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قتل کی صورت میں قاتل کو قتل کرنا یا اس سے دیت لے کر معاف کر دینا انسانوں کی صواب دید پر مبنی نہیں، بلکہ یہ اجازت خدا کی طرف سے رحمت کی وجہ سے ملی ہے اور اگر وہ تورات کے قانون کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی اجازت نہ دیتا تو قاتل کو قصاص میں قتل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہوتا۔
سورۂ نور کی آیت ۲ میں زانی مرد اور زانی عورت کے لیے سو کوڑوں کی سزا بیان کی گئی ہے۔ یہاں قرآن نے اپنی بیان کردہ سزا کے نفاذ کو اللہ کے دین پر عمل درآمد کا معاملہ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ مجرم پر کوئی ترس کھائے بغیر اس پر سزا کا نفاذ اہل ایمان کے ایمان کا تقاضا ہے۔
سورۂ مائدہ کی آیت ۳۸ میں چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا گیا ہے اور اس سزا کو ’نکالا من اللہ‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف عبرت کا نمونہ کہا گیا ہے۔ اس سے پہلے آیت ۳۳، ۳۴ میں نے محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرموں کی سزائیں بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر یہ مجرم قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے توبہ کر لیں تو جان لو کہ اللہ معاف کرنے والا، مہربان ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ توبہ کی صورت میں اللہ کی طرف سے معافی کی پوری توقع ہے، اس لیے ایسے مجرموں پر سزا نافذ نہ کی جائے۔
ان سزاؤں کا یہ پہلو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات سے بھی واضح ہوتا ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ جو شخص قتل، زنا، چوری اور بہتان طرازی کا مرتکب ہو اور دنیا ہی میں اپنے کیے کی سزا پا لے، اس کی سزا اس کے گناہ کا کفارہ بن جائے گی، لیکن اگر دنیا میں وہ سزا سے بچ گیا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا حق ہوگا کہ وہ چاہے تو اسے سزا دے اور چاہے تو معاف کر دے۔ (بخاری، ۱۷) ایک دوسری روایت میں آپ نے اس بات کو یوں بیان کیا کہ اگر کسی شخص کو دنیا ہی میں اس کے جرم کی سزا مل جائے تو یہ بات اللہ تعالیٰ کے عدل سے بعید ہے کہ وہ آخرت میں اسے دوبارہ اس کی سزا دے۔ (ترمذی، ۲۵۵۰) دونوں روایتوں سے واضح ہے کہ دنیا میں ملنے والی سزا بھی دراصل اللہ کا حق ہے جس کا نفاذ مجرم کو آخرت کے عذاب سے بچا لیتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً بھی بہت سے مقدمات میں مجرم کے ساتھ ہمدردی محسوس کرنے، صاحب حق کے معاف کر دینے یا تلافی کی متبادل صورت موجود ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ سزا ہی کے نفاذ پر اصرار کیا۔ چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اسلام میں سب سے پہلے جس شخص کا ہاتھ کاٹا گیا، اسے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اور آپ کو بتایا گیا کہ اس نے چوری کی ہے تو آپ کا چہرہ مبارک اس طرح سیاہ ہو گیا جیسے اس پر راکھ پھینک دی گئی ہو۔ صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ، آپ کو کیا ہوا؟ آپ نے فرمایا: ’’میں اس پر سزا نافذ کرنے سے کیسے رک سکتا ہوں جبکہ تم خود اپنے بھائی کے خلاف شیطان کی مدد کرنے والے ہو؟ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ (تمھیں چاہیے تھا کہ اس کو میرے سامنے پیش نہ کرتے کیونکہ) حکمران کے سامنے جب سزا سے متعلق کوئی معاملہ پیش ہو جائے تو اس کے لیے سزا کو نافذ کرنا ہی مناسب ہے۔‘‘ (مسنداحمد، ۳۷۸۰)
ایک شخص نے صفوان بن امیہ کی چادر چرا لی۔ اس کو پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کاحکم دیا۔ صفوان نے چور پر ترس کھاتے ہوئے کہا کہ یارسول اللہ، میرا مقصد یہ نہیں تھا کہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے، اس لیے میں اپنی چادر اس چور کو ہبہ کرتا ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے میرے پاس لانے سے قبل اسے کیوں معاف نہیں کر دیا؟ چنانچہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ (نسائی، ۴۷۹۵۔ ابن ماجہ، ۲۵۸۵)
عبد اللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نے چوری کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا کہ ہم اس کا عوض مال کی صورت میں دینے کے لیے تیار ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ انھوں نے کہا کہ ہم پانچ سو دینار تک دینے کے لیے تیار ہیں، لیکن آپ نے فرمایا کہ اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ (مسند احمد، ۶۳۷۰)
اس تفصیل سے واضح ہے کہ قرآن وسنت ان سزاؤں کو اصلاً ایک سماجی ضرورت کے طور پر نہیں ،بلکہ خدا کے حق کے طور پر بیان کرتے ہیں جس میں خود اس کے حکم کے بغیر کسی تبدیلی کی علمی وعقلی طور پر کوئی گنجایش نہیں۔ جہاں تک جرائم کے سدباب کا تعلق ہے تو یقیناًوہ بھی ان سزاؤں کا ایک اہم پہلو ہے، لیکن اس کی حیثیت اضافی اور ثانوی ہے اور اسے بنیاد بنا کر سزا کی اصل اساس کو اس کے تابع بنا دینے بلکہ بالکل نظر انداز کر دینے کو کسی طرح بھی شارع کے منشاکی ترجمانی نہیں کہا جا سکتا۔ شرعی سزاؤں کو یہی حیثیت سابقہ شرائع میں بھی حاصل رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب یہود نے تورات میں بیان ہونے والی بعض سزاؤں کو سنگین تصور کرتے ہوئے نرم سزا کی توقع پر بعض مقدمات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا تو قرآن نے ان کے اس طرز عمل پر تنقید کی اور فرمایا کہ ان کے پاس تورات ہے جس میں اللہ کا حکم موجود ہے، پھر یہ اس کو چھوڑ کر آپ کو کیسے حکم بنا سکتے ہیں؟ (مائدہ ۵:۴۳) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقدمے میں یہود کی منشا کو بالکل الٹتے ہوئے مجرموں پر تورات ہی کی سزا نافذ فرمائی اور پھر کہا: ’اللہم انی اول من احیا امرک اذ اماتوہ‘ (یا اللہ، میں پہلا وہ شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا، جبکہ انھوں نے اسے مردہ کر رکھا تھا)۔ (مسلم، ۳۲۱۲)
نصوص کی روشنی میں اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ان استدلالات پر بھی تبصرہ کر دیا جائے جو اس ضمن میں بالعموم پیش کیے جاتے ہیں:
پہلا استدلال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ سیدنا عمر نے اپنے عہد حکومت میں قحط سالی کے زمانے میں چور کے لیے قطع ید کی سزا کے نفاذ پر عمل درآمد روک دیا تھاجو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اس سزا کا نفاذ ہر حالت میں ضروری نہیں ہے۔ تاہم یہ نکتہ اصل بحث سے بالکل غیر متعلق ہے، اس لیے کہ کسی حکم کا اصولی طور پر واجب الاتباع نہ ہونا ایک چیز ہے اور کسی مخصوص صورت حال میں اس کے اطلاق میں کسی اخلاقی اور شرعی مصلحت کو ملحوظ کھنا ایک بالکل دوسری چیز۔ سیدنا عمر کا مذکورہ فیصلہ دوسرے دائرے کی چیز ہے اور اپنی جگہ بالکل درست ہے، اس لیے کہ شریعت میں مختلف معاشرتی جرائم پر جو سزائیں مقرر کی گئی ہیں، ان کے نفاذ میں ان تمام شروط وقیود اور مصالح کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے جو جرم وسزا کے باب میں عقل عام پر مبنی اخلاقیات قانون اور خود شریعت کی ہدایات سے ثابت ہیں۔ جرم کی نوعیت وکیفیت اور مجرم کے حالات کی رعایت کرنا اور اگر وہ کسی پہلو سے معاف کیے جانے کا مستحق ہو تو اسے معاف کر دینا انھی اصولوں میں سے ایک بنیادی ہے۔ کسی بھی مجرم پر سزا کا نفاذ اسی صورت میں قرین انصاف ہے جب مجرم کسی بھی پہلو سے رعایت کا مستحق نہ ہو۔ اگر جرم کی نوعیت وکیفیت اور مجرم کے حالات کسی رعایت کا تقاضا کر رہے ہوں تو اس پہلو کونظر انداز کرتے ہوئے سزا کو نافذ کرنا عدل وانصاف اور خود شارع کی منشا کے خلاف ہے اور سیدنا عمر نے اسی کو ملحوظ رکھتے ہوئے قحط سالی کے زمانے میں قطع ید کی سزا پر عمل درآمد کو روکا تھا۔ ان کے اس فیصلے سے کسی طرح یہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ فی نفسہ ان سزاؤں کو ہی شریعت کا کوئی ابدی حکم تصور نہیں کرتے تھے۔
دوسرا استدلال یہ سامنے آیا ہے کہ چونکہ جدید ذہن مختلف تمدنی اور نفسیاتی عوامل کے تحت شرعی سزاؤں سے اجنبیت محسوس کرتا ہے اور ان سزاؤں کا نفاذ نفسیاتی طور پر دین سے دوری کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے موجودہ دور میں ان سزاؤں کا نفاذ مصلحت کے خلاف ہے۔ ہماری رائے میں یہ بات تو درست ہے کہ دین کے احکام پر موثر عمل درآمد ان کی اعتقادی واخلاقی اساسات پر مضبوط ایمان اور شکوک وشبہات کا ازالہ کیے بغیر ممکن نہیں، تاہم اس نکتے کی بنیاد پر شرعی سزاؤں کو جدید دور میں کلیتاً ناقابل نفاذ قرار دے کر مستقل بنیادوں پر متبادل سزاؤں کا جواز اخذ درست نہیں، اس لیے کہ پھر یہ معاملہ قانون کے عملی نفاذ کی مصلحت تک محدود نہیں رہتا، بلکہ فکر ونظر کے زاویے میں ایک نہایت بنیادی اختلاف کو قبول کرنے تک جا پہنچتا ہے۔ جدید ذہن کو ان سزاؤں پر یہ اشکال نہیں ہے کہ یہ جرائم کی روک تھام میں مددگار نہیں یا ان سے زیادہ موثر سزائیں دریافت کر لی گئی ہیں، بلکہ اسے یہ سزائیں سنگین،متشددانہ اور قدیم وحشیانہ دور کی یادگار دکھائی دیتی ہیں اور وہ انھیں انسانی عزت اور وقار کے منافی تصور کرتا ہے۔ زاویۂ نگاہ کا یہ فرق قانون کی مابعد الطبیعیاتی اور اعتقادی بنیادوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اسلام خدا کے سامنے مکمل تسلیم اور سپردگی کا نام ہے۔ یہ سپردگی مجرد قسم کے ایمان واعتقاد اور بعض ظاہری پابندیوں کو بجا لانے تک محدود نہیں، بلکہ انسانی جذبات واحساسات بھی اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ محبت، نفرت، ہمدردی اور غصے جیسے جذبات اور حب ذات، آزادی اور احترام انسانیت جیسے احساسات وتصورات نفس انسانی میں خدا ہی کے ودیعت کردہ اور اس اعتبار سے بجائے خود خدا کی امانت ہیں، چنانچہ اسلام کے نزدیک ان کا اظہار اسی دائرۂ عمل میں اور اسی حد تک قابل قبول ہے جب تک وہ خدا کے مقرر کردہ حدود کے پابند رہیں۔ اس سے تجاوز کرتے ہوئے اگر ان کو کوئی مقام دیا جائے گا تو یہ خدا کی امانت کا صحیح استعمال نہیں، بلکہ اس میں خیانت کے مترادف ہوگا۔ چنانچہ جدید انسانی نفسیات اگر جرم وسزا سے متعلق قرآنی احکام سے نفور محسوس کرتی ہے تو یہ محض قانون کی مصلحت یا اس کے سماجی تناظر کے بدل جانے کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس کی جڑیں قانون کی مابعد الطبیعیاتی اساسات میں پیوست ہیں اور اس معاملے میں جدید فکر کے ساتھ کمپرومائز کا جواز فراہم کرنے کے لیے ’اجتہاد‘ کے دائرے کو ایمان واعتقاد تک وسیع کرنا پڑے گا۔
اس بحث سے متعلق تیسرا اہم استدلال برصغیر کے جلیل القدر عالم شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے حوالے سے پیش کیا جاتا ہے۔ مولانا شبلی نعمانی نے اپنی کتاب ’’الکلام اور علم الکلام‘‘ میں شاہ صاحب کی تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ سے ایک اقتباس نقل کر کے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ شاہ صاحب قتل، زنا اور چوری وغیرہ سے متعلق قرآن کی بیان کردہ سزاؤں کو اہل عرب کی عادات پر مبنی اور ان کی مخصوص معاشرت ہی کے لیے موزوں سمجھتے ہیں، جبکہ دنیا کے دیگر معاشروں میں ان سزاؤں کے نفاذ کو لازم قرار نہیں دیتے۔ یہ عبارت ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے ’المبحث السادس‘ کے ’باب الحاجۃ الی دین ینسخ الادیان‘ سے لی گئی ہے۔ ذیل میں ہم سیاق وسباق کی روشنی میں اس کا مفہوم واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔
مذکوہ باب میں بحث کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ دنیا میں مختلف اقوام اورملل کے وجود میں آ جانے اور ان کے اختیار کردہ سنن وشرائع میں راہ راست سے کجی اور انحراف واقع ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اب ایک ایسا امام راشد سامنے آئے جو تمام ملتوں کو ایک ملت پر جمع کر دے اور ان ملتوں میں پائے جانے والے انحراف کو درست کرنے کے لیے وہی کردار ادا کرے جو ایک خلیفہ راشد دوسرے ظالم حکمرانوں کے ظلم وجور کو ختم کر کے دنیا میں عدل قائم کرنے کے لیے ادا کرتا ہے۔ اس عالمگیر مقصد کے حصول کے لیے امام راشد کو ان عمومی اصولوں کے علاوہ جن کی وضاحت شاہ صاحب ’باب الارتفاق الرابع‘ نے میں کی ہے، چند مزید اصولوں کی بھی ضرورت ہے۔ شاہ صاحب نے اس ضمن میں حسب ذیل اصولوں کا تذکرہ کیا ہے:
۱۔ یہ امام راشد ایک مخصوص قوم کو تزکیہ وتربیت کے بعد اپنا آلہ جارحہ بنائے اور پھر وہ قوم دنیا کی دیگر ملتوں کو اس امام کی لائی ہوئی ملت پر جمع کرنے کی ذمہ داری انجام دے۔
۲۔ یہ قوم صاحب ملت کی مقرر کردہ ملت کے لیے دینی حمیت کے ساتھ ساتھ نسبی حمیت بھی رکھتی ہو۔
۳۔ صاحب ملت اس مقصد کے لیے اپنے دین کو دنیا کے دوسرے سارے ادیان پر غالب کر دے جس کی صورت یہ ہو کہ اس دین کے شعائر کا عام چرچا کیا جائے جبکہ دیگر ادیان کے شعائر کے عمومی اظہار کو ممنوع قرار دیا جائے۔ اسی طرح غیر مسلموں کو قانونی اور معاشرتی امور میں مسلمانوں کے ہم پلہ نہ سمجھا جائے بلکہ انھیں پستی اور کہتری کا احساس دلا کر اسلام قبول کرنے پر آمادہ کیا جائے۔
۴۔ صاحب ملت لوگوں کو شریعت کے ظاہری احکام کا پابند بنائے اور ان احکام کے اسرار ومصالح کے ساتھ انھیں زیادہ مشغول نہ ہونے دے، کیونکہ اسرار ومصالح پر غور کے نتیجے میں اختلاف پیدا ہوگا اور شریعت دینے سے اللہ تعالیٰ کے پیش نظر جو مقصد ہے، وہ فوت ہو جائے گا۔
۵۔ اس دین کے بارے میں یہ واضح کر دیا جائے کہ یہی واضح، آسان اور معقول دین ہے اور اس میں مقرر کیے جانے والے طریقے انسانوں کی اکثریت کے لیے زیادہ فائدہ مند ہیں، جبکہ دیگر تمام ادیان تحریف اور انحراف کا شکار ہونے کی وجہ سے قابل اتباع نہیں رہے۔
باب کے اس پورے نظم سے واضح ہے کہ یہاں بنیادی نکتہ یہ زیر بحث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت اور شریعت پر پوری انسانیت کو جمع کرنے کے لیے کون کون سے اصولوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔ ان اصولوں میں سے پہلے اصول یعنی ایک مخصوص قوم کو تزکیہ وتربیت کے بعد دنیا کی دیگر ملتوں کو امام راشد کی ملت پر جمع کرنے کا ذریعہ بنانے کی توضیح کرتے ہوئے شاہ صاحب نے وہ عبارت لکھی ہے جو شبلی نے نقل کی ہے اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہ شرعی سزاؤں کو ابدی اور آفاقی نہیں سمجھتے۔ ’باب الحاجۃ الی دین ینسخ الادیان‘ کا جو بنیادی نکتہ اور رخ اوپر واضح کیا گیا ہے، اس کی روشنی میں اب اس عبارت کو دیکھیے:
منہا ان یدعو قوما الی السنۃ الراشدۃ ویزکیہم ویصلح شانہم ثم یتخذہم بمنزلۃ جوارحہ فیجاہد اہل الارض ویفرقہم فی الآفاق وہو قولہ تعالیٰ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس وذلک لان ہذا الامام نفسہ لا یتاتی منہ مجاہدۃ امم غیر محصورۃ واذا کان کذلک وجب ان تکون مادۃ شریعتہ ما ہو بمنزلۃ المذہب الطبیعی لاہل الاقالیم الصالحۃ عربہم وعجمہم ثم ما عند قومہ من العلم والارتفاقات ویراعی فیہم حالہم اکثر من غیرہم ثم یحمل الناس جمیعا علی اتباع تلک الشریعۃ لانہ لا سبیل الی ان یفوض الامر الی کل قوم او الی ائمۃ کل عصر اذ لا یحصل منہ فائدۃ التشریع اصلا ولا الی ان ینظر ما عند کل قوم ویمارس کلا منہم فیجعل لکل شریعۃ اذ الاحاطۃ بعاداتہم وما عندہم علی اختلاف بلدانہم وتباین ادیانہم کالممتنع وقد عجز جمہور الرواۃ عن روایۃ شریعۃ واحدۃ فما ظنک بشرائع مختلفۃ والاکثر انہ لا یکون انقیاد الآخرین الا بعد عدد ومدد لا یطول عمر النبی الیہا کما وقع فی الشرائع الموجودۃ الآن فان الیہود والنصاری والمسلمین ما آمن من اوائلہم الا جمع ثم اصبحوا ظاہرین بعد ذلک فلا احسن ولا ایسر من ان یعتبر فی الشعائر والحدود والارتفاقات عادۃ قومہ المبعوث فیہم ولا یضیق کل التضییق علی الآخرین الذین یاتون بعد ویبقی علیہم فی الجملۃ والاولون یتیسر لہم الاخذ بتلک الشریعۃ بشہادۃ قلوبہم وعاداتہم والآخرون یتیسر لہم ذلک بالرغبۃ فی سیر ائمۃ الملۃ والخلفاء فانہا کالامر الطبیعی لکل قوم فی کل عصر قدیما او حدیثا (حجۃ اللہ البالغہ، ۱/۲۴۸)
’’ان میں سے ایک اصول یہ ہے کہ وہ ایک قوم کو سنت راشدہ کی طرف دعوت دے اور ان کا تزکیہ اور اصلاح کرنے کے بعد انھیں اپنا آلہ وجارحہ بنا ئے اور انھیں مختلف خطوں کی طرف بھیج کر ان کے ذریعے سے اہل زمین کے ساتھ جہاد کرے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس‘ کا یہی مطلب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام کے لیے بذات خود دنیا کی لاتعداد قوموں کے خلاف جہاد کرنا ممکن نہیں۔ اس صورت حال میں ضروری ہے کہ اس کی شریعت کا مادہ ایک تو وہ (احکام وقوانین) ہوں جو عرب وعجم کی مہذب قوموں کے لیے ایک فطری طریقے کی حیثیت رکھتے ہیں اور پھر وہ علوم وارتفاقات جو امام کی مخاطب قوم کے ہاں پائے جاتے ہیں اور اس شریعت میں اس قوم کے حالات کی دوسروں کی نسبت زیادہ رعایت کی جائے۔ پھر امام راشد دنیا کے تمام لوگوں کو اس شریعت کی پیروی پر مجبور کرے، کیونکہ نہ تو یہ ممکن ہے کہ وضع شریعت کا معاملہ ہر قوم یا ہر دور کے ائمہ کے سپرد کر دیا جائے، اس لیے کہ اس سے شریعت مقرر کرنے کا فائدہ ہی سرے سے فوت ہو جاتا ہے، اور نہ یہ طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے کہ امام راشد ہر قوم کے احوال وعادات کو دیکھے اور ان میں سے ہر ایک کے معاملات کا خود تجربہ حاصل کرے اور پھر سب کے لیے الگ الگ شریعت مقرر کر دے، کیونکہ خطہ ہائے زمین اور مذاہب کے اختلاف اور تباین کے باعث ان سب قوموں کی عادات اور اطوار کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ راویوں کی اکثریت ایک ہی شریعت کو (بحفاظت) آگے منتقل کرنے سے عاجز ہے تو الگ الگ شریعتوں کے نقل کیے جانے کا کیسے تصور کیا جا سکتا ہے! پھر یہ بھی ہے کہ دوسری قوموں کا امام راشد کے دین کی پیروی اختیار کرنا عام طور پر عرصہ دراز کی کوششوں اور کاوشوں کے بعد ہی ہو سکتا ہے اور نبی کی عمر اس قدر طویل نہیں ہوتی۔ چنانچہ دنیا کے موجودہ مذاہب میں ایسا ہی ہوا ہے، کیونکہ یہود ونصاریٰ اور مسلمانوں کی ابتدائی نسلوں میں ایک گروہ ہی ایمان لایا تھا جنھیں بعد میں غلبہ نصیب ہوا۔ اس صورت حال میں اس سے اچھا اور آسان طریقہ کوئی نہیں ہو سکتا کہ امام راشد شعائر، رسوم واحکام اور ارتفاقات میں اس قوم کی عادات کی رعایت کرے جس کی طرف اسے مبعوث کیا گیا ہے، جبکہ بعد میں آنے والوں کے لیے اس معاملے میں بہت زیادہ سختی کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے بلکہ ان کے لیے امام راشد کی شریعت اصولی حیثیت میں لازم رہے۔ (اولین قوم اور بعد کی اقوام میں فرق یہ ہوگا کہ) پہلوں کے لیے اس شریعت کو اختیار کرنا اپنے قلوب کی شہادت اور اپنی عادات کے ساتھ موافقت کی بنیاد پر آسان ہوگا جبکہ بعد میں آنے والوں کے لیے یہ یوں آسان ہوگا کہ وہ اس ملت کے ائمہ اور حکمرانوں کے طریقوں اور عادات کی پیروی میں راغب ہوں، کیونکہ حکمران قوم کے طریقوں کی پیروی کی رغبت پیدا ہونا قدیم اور جدید، ہر دور میں ہر قوم کے لیے ایک فطری طریقہ رہا ہے۔‘‘
مولانا شبلی نے اس اقتباس میں ’فلا احسن ولا ایسر من ان یعتبر فی الشعائر والحدود والارتفاقات عادۃ قومہ المبعوث فیہم ولا یضیق کل التضییق علی الآخرین الذین یاتون بعد‘ سے یہ نکتہ اخذ کیا ہے کہ ’’اس اصول سے یہ ظاہر ہو گیا کہ شریعت اسلامی میں چوری، زنا، قتل وغیرہ کی جو سزائیں مقرر کی گئی ہیں، ان میں کہاں تک عرب کی رسم ورواج کا لحاظ رکھا گیا ہے اور یہ کہ ان سزاؤں کا بعینہا اور بخصوصہا پابند رہنا کہاں تک ضروری ہے‘‘۔ (الکلام، ص ۱۲۴) تاہم باب کے پورے نظم اور خود اس جملے کے سیاق وسباق سے واضح ہوتا ہے کہ یہ بات کسی طرح بھی شاہ صاحب کے مدعا کی ترجمانی نہیں ہے۔ شاہ صاحب نے مذکورہ اقتباس میں بنیادی طور پر دو سوالات کا جواب دیا ہے:
پہلا یہ کہ تمام ملتوں کو ایک ملت پر جمع کرنے کے لیے امام راشد کو کسی مخصوص قوم کو اپنا آلہ جارحہ بنانے کی ضرورت کیوں ہے؟ شاہ صاحب نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ تمام ملتوں کو اس ایک ملت پر بالفعل جمع کرنے کی ذمہ داری براہ راست امام راشد پر ڈال دینا مناسب نہیں تھا کیونکہ امام کے لیے بذات خود دنیا کی بے شمار اقوام کے خلاف جہاد کر کے انھیں مغلوب کرنا ممکن نہیں، چنانچہ مناسب یہی تھا کہ وہ ایک مخصوص قوم کو تزکیہ وتربیت کے ذریعے سے اس مقصد کے لیے تیار کرے اور پھر آفاق عالم میں اس ملت کی اشاعت کی ذمہ داری اس قوم کے سپرد کر دی جائے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ شاہ صاحب نے شرائع اور مناہج کے حوالے سے پیغمبر کی مبعوث الیہ قوم کی عادات اور سنن کو ملحوظ رکھنے کی جو اصولی بحث کی ہے ، اس کی روشنی میں اس مخصوص قوم کو دی جانے والی شریعت کی نوعیت کیا ہوگی اور دنیا کی دوسری اقوام اور ملل کو کیونکر اس کا پابند کیا جا سکے گا؟ اس کے جواب میں شاہ صاحب نے تین امکانی طریقے بیان کیے ہیں: ایک یہ کہ شریعت کا معاملہ ہر قوم یا ہر زمانے کے ائمہ کے سپرد کر دیا جائے۔ شاہ صاحب نے اس امکان کی صاف نفی کی ہے اور کہا ہے کہ یہ طریقہ، تشریع کے بنیادی مقصد اور فائدے ہی کو فوت کر دینے والا ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ شریعت کے معاملے کو اقوام اور ائمہ کی صواب دید پر چھوڑنے کے بجائے تمام لوگوں کو امام راشد ہی کی دی ہوئی شریعت کا پابند کیا جائے۔ (ثم یحمل الناس جمیعا علی اتباع تلک الشریعۃ لانہ لا سبیل الی ان یفوض الامر الی کل قوم او الی ائمۃ کل عصر اذ لا یحصل منہ فائدۃ التشریع اصلا)
دوسرا امکان یہ ہو سکتا ہے کہ خود امام راشد دنیا کی ہر ہر قوم کے لیے الگ الگ شریعت مقرر کر دے۔ شاہ صاحب نے اس کو بھی ناممکن قرار دیا ہے، اس لیے کہ ایک تو دنیا کے دور دراز علاقوں میں آباد تمام اقوام کی عادات کا احاطہ عملاً محال ہے اور دوسرے ان اقوام کے، دائرۂ ملت میں داخل ہونے کے لیے عادتاً ایک طویل عرصہ چاہیے جبکہ امام راشد اس قدر طویل عرصے تک زندہ نہیں رہ سکتا۔
ان دو امکانات کی نفی کرتے ہوئے شاہ صاحب نے تیسرے امکان کو احسن اور ایسر قرار دیا ہے، یعنی یہ کہ امام راشد کو جو شریعت دی جائے، اس میں ان عادات کو تو ملحوظ رکھا ہی جائے جو عرب وعجم کے تمام صالح مزاج اقالیم کے لیے ’مذہب طبیعی‘ کی حیثیت رکھتی ہیں، لیکن اس مخصو ص قوم کے علوم وارتفاقات اور اس کے حالات کی زیادہ رعایت کی جائے جس کی طرف امام راشد کو مبعوث کیا گیا ہے۔ رہا یہ سوال کہ اس مخصوص قوم کی عادات کی رعایت سے مقرر کی جانے والی شریعت کو دنیا کی باقی اقوام کے لیے کیسے مانوس ومالوف بنایا جائے تو شاہ صاحب نے اس کی حکمت عملی یہ بیان کی ہے کہ یہ شریعت اصولی حیثیت میں تو ان کے لیے لازم رہے لیکن انھیں عملاً اس کا پابند بنانے کے لیے زیادہ سختی اور تنگی سے کام نہ لیا جائے۔ (لا یضیق کل التضییق علی الآخرین الذین یاتون بعد ویبقی علیہم فی الجملۃ) شاہ صاحب ان اقوام کو شریعت کے ان احکام سے جو ان کے لیے ’بمنزلہ مذہب طبیعی‘ کے نہیں ہیں، مانوس کرنے کے لیے ایک دوسرا فطری طریقہ تجویز کرتے ہیں جو ان کی رائے میں ہر زمانے میں ہر قوم کے لیے فطری طریقے کی حیثیت رکھتا ہے، یعنی یہ کہ بعد میں آنے والی ان اقوام میں اپنے حکمرانوں (جو پیغمبر کی مبعوث الیہ قوم سے تعلق رکھتے ہیں) کی سیرت اور طور طریقوں کی طرف رغبت پیدا ہو اور وہ ان سے متاثر ہو کر رفتہ رفتہ اس شریعت کو اپنانے کے لیے آمادہ ہو جائیں۔ (والآخرون یتیسر لہم ذلک بالرغبۃ فی سیر ائمۃ الملۃ والخلفاء فانہا کالامر الطبیعی لکل قوم فی کل عصر قدیما وحدیثا)۔
اس تفصیل سے واضح ہے کہ شاہ صاحب کا مدعا ہرگز وہ نہیں جو شبلی وغیرہ نے اخذ کیا ہے۔ اول تو اس عبارت میں وہ فقہی اصطلاح کے مطابق خاص حدود کے حوالے سے کوئی بحث نہیں کر رہے، بلکہ عمومی طور پر شرعی احکام کے نفاذ کا فلسفہ اور اس کی حکمت عملی واضح کر رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ انھوں نے شرعی احکام کے اہل عرب کی عادات پر مبنی ہونے کے نکتے کو انھیں غیر ابدی اور غیر آفاقی قرار دینے کے لیے بنیاد نہیں بنایا، بلکہ ان احکام کو ابدی مان کر انھیں دیگر اقوام پر نافذ کرنے کی حکمت عملی کو موضوع بحث بنایا ہے۔ شاہ صاحب کی بیان کردہ حکمت عملی پر کئی سوال اٹھائے جا سکتے ہیں، لیکن اتنی بات واضح ہے کہ اہل عرب کو دی جانے والی شریعت کو غیر عرب اقوام کے لیے لازم نہ سمجھنے کا نقطہ نظر ان کی طرف کسی طرح منسوب نہیں کیا جا سکتا۔
جہاں تک قتل، زنا اور چوری وغیرہ کی شرعی سزاؤں کا تعلق ہے تو شاہ صاحب نے اپنی اسی تصنیف میں ان کو الگ سے اور باقاعدہ موضوع بحث بنایا ہے اور غیر مبہم الفاظ میں یہ واضح کیا ہے کہ وہ انھیں اہل عرب کی مخصوص عادات پر مبنی نہیں سمجھتے بلکہ ان قوانین میں شمار کرتے ہیں جو عرب وعجم کی سب قوموں کے لیے فطری طریقے کی حیثیت رکھتے ہیں، چنانچہ یہ سزائیں دنیا کی تمام اقوام کے لیے لازم ہیں اور انھیں کسی حال میں ترک نہیں کیا جا سکتا۔ فرماتے ہیں:
’’جان لو کہ مسلمانوں کی جماعت میں ایک حکمران کا ہونا ضروری ہے کیونکہ بہت سے مصالح اس کے وجود کے بغیر حاصل نہیں ہو سکے۔ یہ مصالح بہت سے ہیں اور انھیں بنیادی طورپر دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن کا تعلق سیاست مدینہ سے ہے، مثلاً حملہ آور اور قابض ہونے والے لشکروں کی مدافعت، مظلوم کو ظالم کی دست رس سے بچانا، مقدمات کا فیصلہ وغیرہ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام حاجات کو چار ابواب میں جمع فرما دیا ہے۔ ایک نزاعات، دوسرے حدود، تیسرے قضا اور چوتھے جہاد۔ پھر حاجت پیش آئی کہ ان چاروں ابواب کے کلیات طے کر دیے جائیں جبکہ جزئیات کو ارباب حل وعقد کی صواب دید پر چھوڑ دیا جائے اور انھیں تاکید کر دی جائے کہ وہ عوام کے بارے میں خیر خواہی کا رویہ اختیار کریں۔‘‘ (حجۃ اللہ ۲/۳۸۲، ۳۸۳)
اس کے بعد انھوں نے وہ ضروریات اور مصالح بیان کیے ہیں جو اس باب کے کلیات کو ضبط کرنے کے متقاضی ہیں۔ ان میں سے ایک مصلحت یہ ہے کہ جرم اور سزا کے مابین تناسب کی تعیین کو اگر لوگوں کی صواب دید پر چھوڑ دیا جاتا تو یہ افراط اور تفریط کا موجب ہوتا اور لوگ اس معاملے میں اعتدال پر قائم نہ رہ سکتے، اس لیے یہ مناسب تھا کہ شارع جرم وسزا کے باب میں ’کلیات‘ کو خود متعین کر دے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’تمام صورتوں کا حکم بیان کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ یہ ایک امر محال کامکلف ٹھہرانے کے مترادف ہوتا، اس لیے یہ ضروری تھا کہ بنیادی باتیں طے کر دی جائیں (جبکہ فروع کو متعین نہ کیا جائے) کیونکہ اصول کے مقابلے میں فروع میں لوگوں کا اختلاف کرنا نسبتاً قابل برداشت ہے۔ بنیادی سزاؤں کو طے کرنے کی ایک حکمت یہ تھی کہ یہ قوانین جب شارع کی طرف سے بیان کیے جائیں گے تو لوگ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے انھیں نماز اور روزہ کے احکام ہی کے مانند سمجھیں گے۔ ؟؟؟ ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس معاملے کو نہ تو بالکلیہ خواہشات اور درندگی جیسی خصلت سے مغلوب انسانی نفوس کے سپرد کر دینا ممکن تھا اور نہ یہ ہو سکتا تھا کہ حکمرانوں میں سے عادل اور انصاف پسند کو (پیشگی) ممتاز کر لیا جاتا (اور عادلانہ سزاؤں کی تعیین ان کی صواب دید پر چھوڑ دی جاتی) چنانچہ شرعی قانون سازی اور احکام کی ظاہری صورتوں کو متعین کرنے میں جتنے بھی مصالح پیش نظر ہو سکتے ہیں، وہ سب اس باب میں پائے جاتے ہیں (اور اسی لیے شارع نے بنیادی سزاؤں کی ظاہری صورت کو بھی متعین کر دیا ہے)‘‘ (حجۃ اللہ، ۲/۳۸۳، ۳۸۴)
ان ’اصول‘ یعنی بنیادی سزاؤں کی وضاحت کرتے ہوئے جنھیں شریعت نے متعین کر دیا ہے، شاہ صاحب لکھتے ہیں:
’’جان لو کہ قتل کی صورت میں قصاص، زنا کی صورت میں رجم اور چوری کی صورت میں ہاتھ کاٹنے کی سزائیں ہم سے پہلی شریعتوں میں بھی موجود تھیں۔ یہ تین سزائیں آسمانی شریعتوں میں متوارث چلی آ رہی ہیں اور ان پر انبیا اور اقوام عالم کی اکثریت کا اتفاق رہا ہے، چنانچہ اس طرح کی سزاؤں کو مضبوطی سے تھامے رکھنا چاہیے اور انھیں چھوڑنا نہیں چاہیے۔ البتہ شریعت محمدی میں ان سزاؤں میں ایک اور طرح کا تصرف کیا گیا ہے اور ان میں سے ہر جرم کی سزا کے دو درجے مقرر کیے گئے ہیں۔ ایک بے حد سخت اور آخری درجے کی سزا جس کا حق یہ ہے کہ اسے سنگین قسم کے جرم میں نافذ کیا جائے، اور دوسری اس سے کم تر سزا جس کا حق یہ ہے کہ اسے پہلے کی بہ نسبت کم سنگین جرم میں نافذ کیا جائے۔‘‘ (حجۃ اللہ، ۲/۴۰۷)
شاہ صاحب کے نزدیک ان سزاؤں میں تخفیف یا رعایت کا فیصلہ بھی نصوص ہی کی روشنی میں کیا جا سکتا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں کہ احادیث میں زنا کی سزا کے طور پر زانی کو جلاوطن کرنے کا جو ذکر ہوا ہے، اسے معاف بھی کیا جا سکتا ہے اور اس طریقے سے متعارض روایات میں تطبیق دی جا سکتی ہے۔ (حجۃ اللہ البالغہ، ۲/۴۱۱)