نفاذ شریعت کی اہمیت اور برکات

نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ الكريم، اما بعد۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: للہ ملک السموات والارض کہ آسمانوں اور زمینوں کا ملک صرف اللہ تعالٰی کے لیے ہے کیونکہ وہی خالق وہی مالک اور وہی متصرف ہے، تو یہ بات فطرت اور انصاف کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کماحقہٗ ماننے والوں کے ملک میں قانون کسی اور کا نافذ ہو۔ 

سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی سے بڑھ کر کوئی بھی علیم و خبیر نہیں اور اس سے زیادہ کوئی حکیم و رحیم بھی نہیں۔ اس نے جو احکام دیے ہیں سب حق اور صحیح ہیں اور کوئی بھی حکم مصلحت و حکمت سے خالی نہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کو کیا جانیں؟ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا؟ اللہ تعالیٰ کو رحمٰن و رحیم اور حکیم تسلیم کر لینے کے بعد اس کا کوئی حکم بھی ظالمانہ، جابرانہ اور وحشیانہ نہیں نظر آئے گا۔ ایسا نظریہ صرف ان لوگوں کا ہو سکتا ہے جن کا اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں اور وہ مغربیت زدہ ذہن رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ڈاکہ، چوری، زنا، قذف وغیرہ جرائم کی واضح الفاظ میں سزائیں اور حدود بیان کی ہیں تاکہ کوئی کسی پر ظلم اور زیادتی نہ کرے اور امن و امان کے ساتھ ہر آدمی پر سکون زندگی بسر کر سکے۔ 

اگر یہ سزائیں نہ دی جائیں تو آج ہم اپنی آنکھوں کے ساتھ دیکھ رہے ہیں اور روزانہ ملکی اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ نہ تو کسی کی جان محفوظ ہے، نہ مال محفوظ ہے اور نہ عزت و آبرو محفوظ ہے۔ ڈاکوؤں، چوروں اور بد معاشوں کا دور دورہ ہے اور وہ دندناتے پھرتے ہیں، اور جب پکڑے جاتے ہیں تو بڑی آسانی اور آنکھوں کے اشاروں سے مک مکاؤ ہو جاتا ہے، اور اگر کوئی قدرے اکڑ جائے تو اس کو پولیس مقابلہ میں ختم کر دیا جاتا ہے۔ کوئی محکمہ رشوت اور گھپلوں سے خالی نہیں، عوام ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں اور بعض تو پیٹ بھر کر کھانے سے بھی محروم ہیں۔ اور بلوں اور ٹیکسوں کی اتنی بھرمار ہے کہ عوام بیچارے سوئی گیس، بجلی، ٹیلیفون اور پانی وغیرہ کے بل ادا کرتے بھی بلبلاتے ہیں، اور حکمران طبقہ ہے جو صم بکم عمی کا مصداق ہے۔ عوام کی خیر خواہی کے لیے کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی، اور ان کو حلال و حرام کی تمیز سے بالا تر ہو کر دولت جمع کرنے اور لوٹنے کھوٹنے کی فکر ہے۔ موت، قبر آخرت اور یوم الحساب کی فکر سے اکثریت بے نیاز ہے۔ اور سب کچھ اس ملک میں ہو رہا ہے جس کے حاصل کرنے کا مقصد ہی اسلام اور صرف اسلام تھا اور بچہ بچہ جانتا ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ۔ مگر صد افسوس ہے کہ اللہ تعالیٰ کے واضح اور صریح احکام کو رد کر کے امریکہ بہادر کی مرضی کو ترجیح دی جا رہی ہے جس پر ہر مسلمان درد مند ہے۔

میرے درد کی حقیقت میرے آنسوؤں سے پوچھو 
میرے قہقہوں کی دنیا میری ترجماں نہیں ہے

اسلام میں ظلم کا تصور بھی نہیں

مذہب اسلام نے کسی مرحلہ میں بھی کسی پر رتی برابر ظلم کو روا نہیں رکھا۔ خود ظلم کرنا تو درکنار، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ظالموں کے ساتھ میل جول بھی نہ رکھو۔ ارشاد ہے: 

ولا تركنوا الی الذين ظلموا فتمسكم النار وما لكم من دون اللہ من اولياء ثم لا تنصرون (پ ۱۳، ہود ۱۰) 
’’اور مت جھکو ان کی طرف جو ظالم ہیں پھر تم کو لے گی آگ اور کوئی نہیں تمہارا اللہ کے سوا مددگار پھر کہیں مدد نہ پاؤ گے (ترجمہ از شیخ الہندؒ)

اس کی تفسیر میں وہ بزرگ جس نے اپنے مبارک ہاتھوں سے پاکستان کا جھنڈا لہرایا تھا، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانیؒ (المتوفی ۱۳۶۹ھ) فرماتے ہیں:

’’پہلے لا تطغوا میں حد سے نکلنے کو منع کیا تھا، اب بتلاتے ہیں کہ جو لوگ ظالم (حد سے نکلنے والے) ہیں ان کی طرف تمہارا ذرا سا میلان اور جھکاؤ بھی نہ ہو۔ ان کی موالات، مصاحبت، تعظیم و تکریم، مدح و ثنا، ظاہری تشبہ، اشتراکِ عمل ہر بات سے حسبِ مقدور محترز رہو، مبادا آگ کی لپیٹ تم کو نہ لگ جائے، پھر نہ خدا کے سوا تم کو کوئی مددگار ملے گا اور نہ خدا کی طرف سے کچھ مدد پہنچے گی۔‘‘ (فوائد عثمانیہ ص ۳۰۳ ف ۵)

آج ظالموں اور اللہ تعالٰی کے نافرمانوں کا جو تعاون ہو رہا ہے اور ان کی مدح و ثنا کے جو گیت گائے جا رہے ہیں جن کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ اور ہے، وہ کسی بھی اہلِ حق اور منصف مزاج سے مخفی نہیں ہے۔

سفر کی سمت کا کوئی تعین ہو تو کیسے ہو؟ 
غبارِ کارواں کچھ، راستہ کچھ اور کہتا ہے

عورت کی حکمرانی (جو شرعاً‌ ناجائز ہے) میں جو قتل و غارت، گرانی اور ملکی فسادات برپا ہیں وہ بالکل ختم ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ظاہری سزا ہے کہ قوم نے اپنے ووٹ کی گواہی اور شہادت سے نااہل لوگوں کو عوام پر حکمرانی کا حق دیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 

الا لہ الخلق والامر تبارك اللہ رب العالمين۔
’’ سن لو اسی کا کام ہے پیدا کرنا اور حکم فرمانا، بڑی برکت والا ہے اللہ جو رب ہے سارے جہان کا۔‘‘ (ترجمہ حضرت شیخ الہندؒ) 

مولانا شبیر احمد صاحب اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: 

’’پیدا کرنا خلق ہے اور پیدا کرنے کے بعد تکوینی یا تشریعی احکام دینا امر ہے اور دونوں اسی کے قبضہ و اختیار میں ہیں۔ اس طرح وہ ہی ساری خوبیوں اور برکتوں کا سرچشمہ ہے۔‘‘ (فوائد عثمانیہ ص ۲۰۴) 

نفاذ شریعت کی برکات

دنیا و مافیہا کے تمام خزانوں کا خالق، مالک اور متصرف صرف اور صرف اللہ تعالٰی ہے اور سب کچھ اس کے قبضہ میں ہے۔ وہ جیسے چاہتا ہے ان میں تصرف اور تدبیر کرتا ہے۔ جب وہ راضی ہوتا ہے تو تمام اشیاء میں برکت ہی برکت ہوتی ہیں، اور جب وہ ناراض ہوتا ہے اور زمین میں گناہوں کی وجہ سے اس کی نافرمانی ہوتی ہے تو وہ ناراض ہو کر اپنی رحمت اور برکت روک لیتا ہے۔ حافظ عماد الدین ابو الفداء اسماعیل بن کثیر (المتوفی ۷۷۴ھ) مشہور مفسر ابو العاليہ (الریاحی رفیعؒ بن مہرانؒ المتوفی (۹۳ھ) ـ سے ظہر الفساد فہ البر والبحر (الایہ) کی تفسیر میں نقل کرتے ہیں: 

من عصی اللہ فی الارض فقد افسد فی الارض لان صلاح الارض والسماء بالطاعۃ ولہذا جاء فی الحدیث الذی رواہ ابو داؤد لحد یقام فی الارض احب الی اہلہا من ان یمطروا اربعین صباحاً‌  والسبب فی ہذا ان الحدود اذا اقیمت انکف الناس او اکثرہم او کثیر منہم عن تعاطی المحرمات واذا ترکت المعاص عن سبباً‌ فی حصول البرکات من السماء والارض و لہذا اذا نزل عیسی بن مریم علیہما السلام فی آخر الزمان یحکم بہذہ الشریعۃ المطہرۃ فی ذلک الوقت من قتل الخنزیوکسر الصلیب ووضع الجزیۃ وہو ترکہا فلا یقبل الا الاسلام او السیف فاذا اہلک اللہ فی زمانہ الدجال واتباعہ ویاجوج وموج قیل للارض اخرجی برکتک فیاکل من الرمانۃ الفئام من الناس ویستظلون بقحفہا ویکفی لبن اللقحۃ الجماعۃ من الناس وما ذالک الا ببرکۃ تنفیذ شریعۃ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فکلما اقیم العدل کثرت البرکات والخیر ولہذا ثبت فی الصحیحین ان الفاجر اذا مات یستریح منہ العباد والبلاد والشجر والدواب وقال احمد بن حنبل حدثنا محمد والحسین قالا حدثنا عوف عن ابی مخذم قال وجد رجل فی زمان زیاد او ابن زیاد صرۃ فیہا حب یعنی من بر امثال النوی مکتوب فیہا ہذا نبت فی زمان کان یعمل فیہ بالعدل (تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۴۳۵)
’’جس شخص نے زمین میں اللہ تعالی کی نافرمانی کی تو اس نے زمین میں فساد برپا کیا کیونکہ زمین و آسمان کی اصلاح اطاعت سے ہے، اور اسی لیے ابوداؤد کی حدیث میں آتا ہے کہ زمین پر شرعی طور پر ایک حد کا قائم کرنا زمین کے باشندوں کے لیے چالیس (۴۰) دن کی (مناسب) بارش سے زیادہ محبوب و بہتر ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب حدود قائم کی جائیں گی تو لوگ یا ان میں سے اکثر حرام کاریوں سے رک جائیں گے اور گناہ ترک کر دیے جائیں گے تو آسمان و زمین کی برکات حاصل ہوں گی۔ اور یہی وجہ ہے کہ آخر زمانہ میں جب حضرت عیسیٰ بن مریمؑ نازل ہو کر اس پاکیزہ شریعت کے مطابق فیصلے صادر فرمائیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو توڑیں گے (اور یہود و نصاریٰ کی قوت ختم کر ڈالیں گے) اور جزیہ لینا موقوف کر دیں گے اور اسلام اور جہاد بالسیف کے بغیر کوئی چیز قبول نہیں کریں گے تو ان کے دور میں اللہ تعالی دجال اور اس کے پیروکاروں اور یا جوج ماجوج کو ہلاک کر دے گا اور زمین کو حکم ہوگا کہ اپنی برکات نکال۔ اس وقت ایک انار کو کئی گھرانے کھائیں گے اور اس کے چھلکے کے سایہ میں کئی لوگ بیٹھ سکیں گے، اور ایک اونٹنی کا دودھ لوگوں کی خاص جماعت کو کفایت کرے گا۔ اور یہ سب کچھ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے نفاذ کی برکت سے ہو گا۔ اور جب بھی عدل قائم کیا جائے اس کی برکات اور خیر زیادہ ہوتی ہے، اسی واسطے بخاری (ج ۱) اور مسلم (ج ۱ ص ۳۰۸) کی روایت میں آتا ہے کہ جب کوئی نافرمان مرتا ہے تو اس سے بندوں کو، شہروں کو، درختوں کو، اور جانوروں کو راحت حاصل ہوتی ہے۔ امام احمدؒ بن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ ہم سے محمدؒ اور حسینؒ دو راویوں نے بیان کیا، وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے عوفؒ نے بیان کیا، وہ ابو مخذمؒ  سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ زیاد یا ابن زیاد کے زمانہ میں ایک تھیلہ ملا جس میں کھجور کی گھٹلیوں کے برابر (ایک گھٹلی کا وزن نو ماشے اور تولہ بھی نکلا ہے) گندم کا ایک ایک دانہ تھا۔ ان پر لکھا ہوا تھا کہ یہ اس زمانہ کے دانے ہیں جس میں عدل و انصاف پر عمل ہوتا تھا۔‘‘

ابو داؤد کی جس روایت کا حوالہ حافظ ابن کثیرؒ نے دیا ہے یہ روایت حضرت ابوہریرہؓ سے نسائی ج ۲ ص ۲۲۳ اور ابن ماجہ ص ۱۸۵ وغیرہ کتب حدیث میں موجود ہے۔ امام سیوطیؒ (المتوفی ۹۱۱ھ) فرماتے ہیں صحیح ہے (الجامع الصغیر ج ا ص ۱۸۷)۔ مادہ پرست اور ظاہر بین جنہوں نے اپنے قلوب و اذہان کو مغربی تہذیب و تمدن کے ہاں گروی رکھ دیا ہے، ان نفس الامری باتوں کا مذاق اڑائیں گے مگر اہل ایمان، اہل خرد اور پختہ عقیدہ رکھنے والے مسلمان ایسے واقعات کو بلا چون و چرا تسلیم کرتے ہیں اور ان شاء اللہ العزیز کرتے رہیں گے۔

وہی بالا ہیں دنیا میں جو اپنا نیک و بد سمجھیں 
یہ نکتہ وہ ہے جس کو اہلِ دل اہلِ خرد سمجھیں

عدل و انصاف کے دور کی تَر اور سنگترہ

جس زمانہ میں عدل و انصاف ہوتا تھا اس زمانہ میں سبزیوں اور پھلوں وغیرہ ہر چیز میں برکت ہوتی تھی۔ امام ابوداؤد (سلیمان بن اشعث السجستانیؒ (المتوفی ۲۷۵ھ) فرماتے ہیں کہ

شبرت قثاءۃ بمصر ثلاثۃ عشر شبرا و رایت اترجۃ علی بعیر قطعت وصیرت علی مثل عدلین (ابو داؤد ج ۱ ص ۲۲۶) 
’’میں نے مصر میں ایک تر کو ماپا تو وہ تیرہ (۱۳) بالشت لمبی نکلی اور ایک سنگترہ اتنا بڑا دیکھا کہ اس کو دو حصے کر کے ایک اونٹ پر دو طرف لادا گیا۔‘‘

 اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کوئی چیز خارج اور بعید نہیں ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات پر یقین رکھتے ہیں وہ اہلِ نظر ایسی چیزوں کے ماننے میں تامل نہیں کرتے۔ ضد، عناد اور حق سے انکار کا مخلوق کے پاس کوئی علاج نہیں ہے:

اے اہلِ نظر! ذوقِ نظر خوب ہے لیکن 
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا؟

عدل و انصاف کی برکت سے فقر و فاقہ اور ڈاکہ اور بدی مٹتی ہے

حضرت عدیؓ بن حاتم (المتوفی (۲۸ھ) فرماتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص آیا اور اس نے فقر و فاقہ کا شکوہ کیا۔ اس کے بعد ایک دوسرا آیا اور اس نے ڈاکہ کا ذکر کیا۔ آپؐ نے فرمایا اے عدیؓ تو نے حیرہ دیکھا ہے؟ میں نے کہا کہ دیکھا تو نہیں لیکن اس کے بارے مجھے یہ خبری دی گئی ہے کہ حیرہ (کوفہ کے قریب ایک مشہور شہر تھا جس کو نعمان نامی شخص نے آباد کیا تھا) ہے۔ آپؐ نے فرمایا اگر تیری زندگی لمبی ہوئی تو تو ضرور دیکھے گا کہ اونٹ کے کجاوہ میں سوار عورت حیرہ سے چل کر کعبہ اللہ کا طواف کرے گی اور اللہ تعالی کے سوا اسے کسی کا خوف اور ڈر نہ ہو گا۔ حضرت عدیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں کہا کہ بنو طے (حاتم طائی کا خاندان جو سخاوت میں مشہور تھا اور حضرت عدیؓ کا والد تھا) کے غنڈے بدمعاش اور ڈاکو اس وقت کہاں ہوں گے جنہوں نے شہروں میں فتنہ و فساد اور شرارت کی آگ جلا رکھی ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ اگر تیری زندگی طویل ہوئی تو کسریٰ (ایران کا بادشاہ تھا) کے خزانے ضرور فتح کیے جائیں گے۔ میں نے کہا کسریٰ بن ہرمز کے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں کسریٰ بن ہرمز کے۔ پھر آپؐ نے فرمایا اگر تیری زندگی زیادہ ہوئی تو تو دیکھے گا کہ آدمی ہاتھ بھر کر سونا اور چاندی (زکوٰۃ اور صدقہ کے طور پر) لیے لیے پھرے گا مگر اسے کوئی لینے والا نہیں ملے گا۔ 

(پھر آگے حضرت عدیؓ نے فرمایا) میں نے آنکھوں کے ساتھ کجاوہ سوار عورت کو دیکھا کہ حیرہ سے چل کر بیت اللہ کا طواف کر رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے سوا اسے کسی کا خوف نہیں، اور کسریٰ بن ہرمز کے خزانوں کے فتح کرنے والوں میں، میں بھی شریک تھا۔ آگے فرمایا، اے سامعین! اگر تمہاری زندگی لمبی ہوئی تو تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی صداقت بھی دیکھ لو گے کہ اوکھ (بک) بھرا ہوا مال بھی کوئی وصول نہیں کرے گا۔ (بخاری ج ا ص ۵۰۷ و ۵۰۸ و مختصراً‌ ج ا ص ۱۹۰) 

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (المتوفی ۸۵۲ھ) فلا يجد احدا يقبلہ کی شرح میں کہتے ہیں کہ

ای لعدم الفقراء فی ذلک الزمان تقدم فی الزکوۃ قول من قال ان ذٰلک عند نزول عیسی بن مریم علیہما السلام ویحتمل ان یکون ذالک اشارۃ الی ما وقع فی زمن عمر بن عبد العزیز وبذلک جزم البیہقی و اخرج فی الدلائل من طریق یعقوب بن سفیان بسندہ الی عمر بن اسید بن عبدالرحمن بن زید بن الخطاب قال انما ولی عمر بن عبدالعزیز ثلاثین شہرا الا واللہ ما مات حتی جعل الرجل یاتینا بالمال العظیم فیقول اجعلوا ہذا حیث ترون فی الفقراء فما یبرح حتی یرجع بمالہ یتذکر من یضعہ فیہ فلا یجدہ قد اغنی عمر الناس الخ (فتح الباری ج ۶ ص ۳۱۲ واللفظ لہ، والبدایہ والنہایہ ج ۵ ص ۶۴ لحافظ ابن کثیرؒ) 
’’فقراء اس زمانہ میں نہ ہوں گے اس لیے مال لینے والا بھی کوئی نہ پایا جائے گا۔ پہلے کتاب الزکوٰۃ میں ان حضرات کا قول بیان ہو چکا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ یہ کارروائی حضرت عیسی بن مریمؑ کے نزول کے بعد ہوگی، اور اس کا بھی احتمال ہے کہ اس میں اس کی طرف اشارہ ہو جو حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے دور میں ہوا اور امام بیہقیؒ نے اس پر اعتماد کیا ہے اور اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں یعقوبؒ بن سفیانؒ سے ان کی سند کے ساتھ عمرؒ بن اسیدؒ بن عبد الرحمٰن بن زیدؓ بن الخطاب سے روایت کی ہے کہ حضرت عمرؒ بن عبد العزیزؒ کو صرف تمہیں ماہ ہی خلافت کرنے کا موقع ملا لیکن بخدا ان کی اس وقت تک وفات نہیں ہوئی جب تک کہ آدمی (زکوٰۃ کا) کثیر مال لیے لیے پھرتا تھا اور کہتا تھا کہ اس مال کو جہاں مناسب سمجھو فقراء میں تقسیم کر دو اور اسی لگن میں وہ مصارف کو ڈھونڈنے اور تلاش کرنے میں لگا رہتا تھا مگر اس کو لینے والا کوئی نہ ملتا کیونکہ حضرت عمرؒ نے لوگوں کو مال دار کر دیا تھا تو وہ مال واپس لے کر گھر آ جاتا۔‘‘

 اس سے خلیفہ راشد و عادل حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا عدل، حسنِ انتظام اور عوام کی خیر خواہی کا واضح ثبوت ملتا ہے کہ زکوٰۃ و صدقات کے وصول کرنے والوں کا ڈھونڈنے کے باوجود بھی نشان نہیں ملتا تھا اور دینے والے افسردہ ہو کر گھر کو واپس ہوتا۔ 

حافظ ابن حجرؒ ہی علامہ ابن التينؒ (عبد الواحدؒ بن التينؒ شارح بخاری کے حوالے سے لکھتے ہیں:

قال ابن التینؒ انما یقع بعد نزول عیسی بن مریم علیہما السلام حین تخرج الارض برکاتہا حتی تشبع الرمانۃ اہل البیت ولا یبقی فی الارض کافر اھ (فتح الباری ج ۳ ص ۲۸۲)
’’امام ابن التینؒ فرماتے ہیں کہ یہ کارروائی حضرت عیسی بن مریمؑ کے نزول کے بعد ہوگی جس وقت کہ زمین اپنی تمام برکات نکالے گی یہاں تک کہ ایک انار سے ایک گھرانا سیر شکم ہو جائے گا اور زمین میں کوئی کافر باقی نہ رہے گا۔‘‘

امام ابو عبید القاسم بن سلامؒ (المتوفی ۲۲۴ھ) اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ حضرت معاذؓ بن جبل (المتوفی ۱۸ھ جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۰ھ میں یمن کے ایک صوبہ کا گورنر بنا کر بھیجا تھا اور وہ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں بھی یمن کے گورنر تھے) نے وہاں کے صدقات کا تیسرا حصہ مدینہ طیبہ ارسال کر دیا۔ حضرت عمر نے فرمایا: ولکن بعثنک لتاخذ من اغنیاء الناس فتردہا علی فقرائہم لیکن میں نے تو تجھے اس لیے (یمن) بھیجا تھا تاکہ تو اغنیاء سے مال لے کر ان کے محتاجوں پر تقسیم کرے۔ حضرت معاذؓ نے جواب دیا کہ یمن میں فقراء پر تقسیم کرنے کے بعد جو بچ گیا ہے، وہ مرکزی بیت المال میں جمع کرانے کے لیے ارسال ہے۔ دوسرے سال حضرت معاذؓ نے نصف صدقہ مدینہ طیبہ بھیج دیا۔ حضرت عمرؓ نے پھر وہی سوال کیا اور حضرت معاذ نے بھی پھر وہی جواب دیا۔ تیسرے سال حضرت معاذؓ نے یمن میں اپنے صوبے کا سارا صدقہ مدینہ طیبہ بھیج دیا۔ حضرت عمرؓ نے (غالباً‌ ذرا سختی سے)  سوال کیا تو حضرت معاذؓ نے جواب دیا کہ یمن کے لوگ (اسلام کے اقتصادی اور معاشی نظام کی بدولت) اس قدر خوشحال اور آسودہ ہو گئے ہیں کہ یہاں ایک شخص بھی اب ایسا نہیں رہا جس کو میں صدقہ دوں۔ (کتاب الاموال ص ۵۹۶)

صرف اس ایک واقعہ سے خلافت راشدہ کے سنہری دور کی برکات اور اسلام کے عادلانہ اور منصفانہ اقتصادی اور معاشی نظام کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پورے صوبہ میں ایک بھی فقیر و محتاج اور صدقات کا مصرف نہ رہا، اور اس سے لینے والوں کے ضمیر خودداری اور خدا خوفی کا اندازہ بھی ہو سکتا ہے۔ خدانخواستہ ہمارا زمانہ ہوتا تو غیر مستحق اور غیر مصرف لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا پھیلا کر خود زکوٰتیں اور صدقات مانگتے اور سب کچھ ناجائز طور پر ہڑپ کر جاتے اور صدقات کی رقموں سے اپنی گلی نالی اور سڑک ٹھیک کرتے بلکہ الیکشن میں صرف کر دیتے۔ بہت قربانی اور ایثار سے کام لیتے تو ہسپتال اور برائے نام رفاہ عام کے کاموں کی عمارات اور مشینوں پر صَرف کر دیتے۔ 

راقم اثیم کہتا ہے کہ ان بظاہر مختلف اقوال میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ اسلام کے عدل و انصاف اور اقتصادی نظام کی برکت سے حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے دور میں ایسا ہو چکا ہے اور حضرت عیسیٰ کے نزول کے بعد بھی ضرور ایسا ہوگا۔ 

انار کی جس حدیث کی طرف اشارہ ہے وہ حضرت ابوہریرہؓ سے مرفوعاً  مروی ہے جس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ 

ثم قال (ای اللہ تعالی) للارض انبتی ثمرک وردی برکتک فیومئذ یاکل العصابۃ من الرمانۃ ویستظلون بقحفہا ویبارک فی الرسل حتی ان اللقحۃ من الابل لتکفی الفئام من الناس واللقحۃ من البقر تکفی القبیلۃ واللقحۃ من الغنم تکفی الفخذ (الحدیث، مسلم ج ۲ ص ۴۰۲۔ ترمذی ج ۲ ص ۴۷۔ ابن ماجہ ص ۳۰۷- مستدرک ج ۴ ص ۴۹۳۔ قال الحاکم والذہبی صحیح علیٰ شرطہما) 
’’پھر اللہ تعالی زمین سے فرمائے گا اپنے پھل اگاؤ اور اپنی برکات لوٹاؤ، سو اس وقت ایک انار کو ایک جماعت کھائے گی اور اس کے چھلکے کے نیچے ایک جماعت بیٹھے گی اور دودھ میں برکت کرے گا حتیٰ کہ ایک اونٹنی کا دودھ لوگوں کی متعدد جماعتوں کو اور ایک گائے کا دودھ ایک قبیلہ کو اور ایک بکری کا دودھ ایک خاندان کو کافی ہوگا۔‘‘

اس صحیح اور صریح حدیث سے عدل کی برکت سے پھلوں اور دودھ وغیرہ تمام اشیاء میں برکت کا ثبوت ہے اور حضرت ابوہریرہؓ سے ایک اور مرفوع حدیث میں یوں آتا ہے:

فیدق الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویدعو الناس الی الاسلام فیہلک اللہ فی زمانہ المسیح الدجال ویقع الامنۃ علی اہل الارض حتی ترعی الاسود مع الابل والنمور مع البقر والذئاب مع الغنم ویلعب الصیبان بالحیات لا تضرہم فیمکث اربعین سنۃ ثم یتوفی ویصلی علیہ المسلمون (المستدرک ج ۲ ص ۵۹۵ - قال الحاکم والذہبی صحیح)
’’حضرت عیسٰیؑ صلیب توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ لینا بند کر دیں گے اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے دور میں مسیح دجال کو ہلاک کرے گا اور زمین میں امن ہوگا یہاں تک کہ شیر اونٹوں کے ساتھ اور چیتے بیلوں اور گایوں کے ساتھ اور بھیڑیے بھیڑ بکریوں کے ساتھ اکھٹے چریں گے اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے، وہ ان کو کوئی ضرر نہ دیں گے اور حضرت عیسٰیؑ نازل ہونے کے بعد چالیس (۴۰) سال رہیں گے، پھر ان کی وفات ہوگی اور اہل اسلام ان کا جنازہ پڑھیں گے۔‘‘

عدل و انصاف کا اثر موذی حیوانات پر بھی ہوتا ہے

شیر چیتا اور بھیڑیا کیسے موذی درندے ہیں۔ عام آدمی تو ان کے نام سن کر ہی بد حواس ہو جاتا ہے اور بیچارے کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں مگر جب زمین پر عدل و انصاف ہو تو نہ تو درندے کسی کو تکلیف دیتے ہیں اور نہ مال مویشی ان سے کتراتے ہیں۔ حضرت عیسٰیؑ کے نزول کے بعد عدل کے دور میں بچوں کا سانپوں سےکھیلنا اور بچوں کا ان سے نہ ڈرنا اور ان کا بچوں کو نہ کاٹنا صحیح احادیث کے حوالہ سے پڑھ چکے ہیں۔ حضرت عیسٰیؑ تو پیغمبر ہیں۔ رسول اور نبی کا درجہ تو بہت ہی بلند ہوتا ہے اور ان کی برکات بھی بے حد و بے حساب ہوتی ہیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ جو صحابی بھی نہ تھے بلکہ تابعی تھے مگر خلیفہ راشد تھے، ان کے مبارک دور کے بعض تاریخی واقعات ملاحظہ فرمائیں:

(۱) الامام الفقیہ ابو محمد عبد اللہؒ بن مسلمؒ بن قتیبہ الدینوریؒ (المتوفی ۲۷۶ھ) اپنی کتاب الامامہ والسیاسہ میں نقل کرتے ہیں (ضروری نوٹ: بعض نام نہاد محققین نے الامامہ والسیاسہ کو امام ابن قتیبہ الدینوریؒ کی تالیف ماننے سے رکیک وجہ کی بنا پر انکار کیا ہے جیسے ثروت عکاشہ مصری وغیرہ، مگر ہمیں ان کی رائے سے اتفاق نہیں ہے):

وفد قوم من اہل المدینۃ الی الشام فنزلوا برجل فی اوائل الشام موسع علیہ تروح علیہ ابل کثیرۃ وابقار واغنام فنظروا الی شی لا یعلمونہ غیر ما یعرفون من غضارۃ العیش اذ اقبل بعض رعاتہ فقال ان السبع عدا الیوم علی غمنی فذہب منہا بشاۃ فقال الرجل انا للہ وانا الیہ راجعون ثم جعل یتاسف اسفاً‌ شدیداً‌ فقلنا بعضنا لبعض ما عند ہذا خیر یتاسف ویتوجع من شاۃ اکلہا السبع فکلمہ بعض القوم وقال لہ ان اللہ وسع علیک فما ہذا التوجع والتاسف قال انہ لیس مما ترون ولکن اخشی ان یکون عمر بن عبد العزیزؒ قد توفی الیلۃ واللہ ما تعدی السبع علی الشاۃ الا لموتہ فاثبتوا ذلک الیوم فاذا عمرؒ قد توفی فی ذلک الیوم (الامامہ والسیاسہ ج ۲ ص ۱۲۳ طبع مصر) 
’’مدینہ طیبہ سے کچھ لوگ بطور وفد کے ملک شام کی طرف روانہ ہوئے۔ شام کے ابتدائی حصہ میں ایک امیر آدمی کے ہاں ٹھہرے جس کے پاس کثیر تعداد میں اونٹ بیل اور گائیں اور بھیڑ بکریاں دن کو چر کر رات کو گھر آتیں۔ ان مہمانوں نے اس میزبان میں کوئی کمی نہ دیکھی، یہی دیکھا کہ اس کو آسودہ زندگی حاصل ہے۔ اسی حالت میں تھے کہ اس کے چرواہوں میں سے ایک آیا اور اس نے کہا کہ آج ایک درندے نے میری بکریوں پر حملہ کیا ہے اور ایک بکری لے گیا ہے۔ اس کے مالک نے انا للہ وانا اليہ راجعون پڑھا پھر بہت ہی سخت افسوس کرنے لگا۔ ہم میں سے بعض نے بعض سے کہا کہ اس شخص کے پاس کوئی خیر اور حوصلہ نہیں ہے۔ ایک بکری کے لیے ایسا افسوس اور غم کر رہا ہے جس کو درندہ کھا گیا ہے۔ بعض ساتھیوں نے اس سے گفتگو کی کہ اللہ تعالٰی نے آپ کو تو اتنی وسعت اور فراخی عطا فرمائی ہے، ایک بکری کے لیے اتنا غم اور افسوس کیوں؟ اس نے کہا کہ تم جو میری پریشانی دیکھ رہے ہو یہ بکری کی وجہ سے نہیں بلکہ مجھے خوف ہے کہ اس رات کہیں حضرت عمر بن عبد العزيزؒ وفات نہ پا گئے ہوں۔ بخدا درندے نے حملہ نہیں کیا مگر ان کی موت کے بعد ۔ انہوں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ واقعی اسی دن حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی وفات ہوئی۔‘‘

اس سے عیاں ہوا کہ عدل وانصاف کا اثر صرف انسانوں اور مکلف مخلوق تک ہی محدود نہیں بلکہ موذی قسم کے درندوں پر بھی اس کا اثر ہوتا ہے کہ عادل کے مرنے کے بعد ہی ان کو حوصلہ ہوا۔ 

(۲) حافظ ابن کثیرؒ سند کے ساتھ موسٰیؒ بن ایمن الراعیؒ سے نقل کرتے ہیں:

وکان یرعی الغنم لمحمد بن عیینۃ (وکان یرعی بکرمان) قال کانت الاسود والغنم والوحش ترعی فی خلافۃ عمر بن عبدالعزیزؒ فی موضع واحد فعرض ذات یوم لشاۃ منہا ذئب فقلت انا للہ وانا الیہ راجعون ما اری الرجل الصالح الا قد ہلک (البدایہ والنہایہ ج ۹ ص ۲۰۳) 
’’انہوں نے فرمایا کہ میں (علاقہ کرمان میں) محمدؒ بن عیینہ کی بکریاں چراتا تھا اور فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کی خلافت میں شیر، وحشی جانور اور بھیٹر بکریاں ایک ہی جگہ پر چرتی تھیں۔ ایک دن ایک بھیڑیا ایک بکری پر حملہ آور ہوا تو میں نے انا للہ وانا اليہ راجعون پڑھا اور کہا کہ میں یہی سمجھتا ہوں کہ مرد صالح فوت ہو گیا ہے۔‘‘

یعنی جس وقت تک خلیفہ راشد و عادل زندہ تھا، بھیڑیوں کو بھی بکریوں پر حملہ کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ علامہ ابن سعدؒ اپنی سند کے ساتھ موسٰیؒ بن اعین الراعیؒ کے حوالہ سے لکھتے ہیں: 

کان لمحمد بن ابی عیینۃ قال کنا نرعی الشاء بکرمان فی خلافۃ عمر بن عبد العزیزؒ فکانت الشاء والذئاب والوحش ترعی فی موضع واحد فبینا نحن ذات لیلۃ اذ عرض الذئب لشاۃ فقلنا ما نری الرجل الصالح الا قد ہلک (طبقات ابن سعدؒ ج ۵ ص ۳۸۷ طبع بیروت)
’’جو محمدؒ بن عیینہ کے چرواہے تھے، وہ کہتے ہیں کہ ہم کرمان میں حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے دور خلافت میں بھیڑ بکریاں چراتے تھے۔ اس زمانہ میں بھیڑ بکریاں بھیڑیے اور وحشی جانور ایک جگہ چرتے تھے، اس حالت میں ہم تھے کہ ایک رات بھیڑیا بکری پر حملہ آور ہوا۔ ہم نے کہا کہ ہم یہی خیال رکھتے ہیں کہ نیک آدمی وفات پا گیا ہے۔’’

 آگے لکھا ہے کہ تحقیق کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ واقعی حضرت عمر بن عبد العزیزؒ اس رات وفات پاگئے تھے۔ یہ واقعہ حافظ ابن کثیرؒ نے بھی تھوڑے سے تغیر الفاظ کے ساتھ البدایہ والنہایہ ج ۹ ص ۲۰۳ میں نقل کیا ہے۔

الحافظ ابو نعیم احمدؒ بن عبد اللہ الاصبہانیؒ (المتوفی ۴۳۰ھ) اپنی سند کے ساتھ جسر القصابؒ (ميمون الكوفی ابوحمزۃ القصاب) کے حوالہ سے لکھتے ہیں: 

قال کنت احلب الغنم فی خلافۃ عمرؒ بن عبدالعزیزؒ فمررت براع وفی غنمہ نحو من ثلاثین ذئبا فحسبتہا کلابا ولم اکن رایت الذئاب قبل ذلک فقلت یا راعی ما ترجو بہذہ الکلاب کلہا؟ فقال یا بنی انہا لیست کلابا انما ہی ذئاب فقلت سبحان اللہ ذئب فی غنم لا تضرہا؟ فقال یا بنی اذا صلح الراس فلیس علی الجسد باس وکان ذلک فی خلافۃ عمر بن عبدالعزیزؒ (حلیہ الاولیاء ج ۵ ص ۲۵۵ طبع بیروت)
’’وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؒ بن عبد العزیزؒ کے دورِ خلافت میں بکریوں کا دودھ دوہیا کرتا تھا۔ میں نے ایک چرواہے کی بھیڑ بکریوں میں تیس (۳۰) بھیڑیے دیکھے مگر میں ان کو کتے سمجھا اور میں نے اس سے قبل بھیڑے نہیں دیکھے تھے۔ میں نے اس چرواہے سے کہا کہ اتنے کتوں سے تم کیا امید رکھتے ہو؟ اس نے کہا اے پیارے بیٹے! یہ کہتے نہیں یہ تو بھیڑیے ہیں۔ میں نے کہا سبحان اللہ بکریوں میں بھیڑے ان کو ضرر نہیں دیتے؟ اس نے کہا اے پیارے بیٹے! جب سر (یعنی بادشاہ)  درست ہو تو باقی جسم (یعنی رعیت) پر کوئی حرج نہیں۔ اور یہ واقعہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے دورِ خلافت کا ہے۔‘‘

جب بادشاہ اور حکمران عادل ہوں تو پھر شیر، چیتے، ریچھ، وحشی جانور اور بھیڑیے بھی بھیڑ بکریوں کو کچھ نہیں کہتے۔ حضرت عمرؒ بن عبدالعزیزؒ کا عدل و انصاف اور دینی امور میں احتیاط تاریخِ اسلام میں سنہرے حروف سے مرقوم ہے۔ حضرت عمرؒ بن عبد العزیز کی خلافت دو سال اور پانچ ماہ تھی (طبقات ابن سعد ج ۵ ص ۴۰۷) اور پانچ ماہ سے بھی دس دن کم تھے (ايضاً‌ ج ۵ ص ۳۴۶) اور اس قلیل مدت میں انہوں نے خدا خوفی، موت، فکر آخرت اور احتیاط کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔ چند واقعات ملاحظہ ہوں:

(۱) جب رات کو وہ عوام اور پبلک کا کام کرتے تو بیت المال کا چراغ استعمال کرتے لیکن جب اپنا ذاتی اور گھریلو معاملہ اور گفتگو ہوتی تو اپنا ذاتی چراغ جلاتے۔ (طبقات ابن سعدؒ ج ۵ ص ۳۹۹)

(۲) ولید نے ان کو ایک نگینہ دیا تھا جو انہوں نے اپنی انگوٹھی میں لگا لیا تھا۔ جب خلافت کا بوجھ سر پر پڑا تو وہ نگینہ بھی واپس کر دیا اور فرمایا کہ ولید نے یہ مجھے ناحق دیا تھا۔ (البدایہ والنہايہ ج ۹ ص ۲۰۸)

(۳) ایک مرتبہ اپنے غلام کو تھوڑا گوشت دیا۔ وہ جلدی میں بھون لایا۔ فرمایا کہ اتنی جلدی میں بھون لائے؟ اس نے کہا کہ نادار مسلمانوں کے لیے جہاں مطبخ میں کھانا پکتا ہے میں اس میں بھون لایا ہوں۔ فرمایا کہ اس گوشت کو تو کھا، تو مستحق ہے۔ اس مطبخ میں میرا کوئی حق نہیں۔ (ایضاً‌ ص ۲۰۲) 

(۴) ایک دفعہ وضو کا پانی اس مطبخ کی آگ سے گرم کر کے دیا گیا تو حضرت عمرؒ بن عبد العزیزؒ نے ایک درہم کا ایندھن اس کے عوض میں وہاں بھیجا۔ (ایضاً‌) 

(۵) ریاحؒ بن عبیدہؒ کہتے ہیں کہ بیت المال کے خزانہ سے ایک دفعہ کستوری نکالی گئی اور ان کے سامنے رکھی گئی تو انہوں نے فوراً‌ اپنی ناک بند کر لی اس خوف سے کہ خوشبو نہ محسوس ہو۔ مجلس میں حاضر ایک شخص نے کہا امیر المومنین! اگر کستوری کی خوشبو سونگھ لیتے تو کیا نقصان ہوتا؟ تو فرمایا کہ کستوری سونگھنے کی ہی تو چیز ہے (میں کیوں استفادہ کروں)۔ (طبقات ابن سعد ج ۵ ص ۳۶۸)

حضرت عمرؒ بن عبد العزیزؒ نے اپنے حکام کو یہ لکھا:

ان اقامۃ الحدود عندی کاقامۃ الصلوۃ والزکوۃ (طبقات ابن سعد ج ۵ ص ۳۷۸) 
’’کہ بے شک حدود کا قائم کرنا میرے نزدیک ایسا ہی (ضروری) ہے جیسے نماز و زکوٰۃ کا ادا کرنا۔‘‘

اور یہ شرعی حدود کے اجرا کی برکت ہی تھی کہ بکریاں، بھیڑیں اور بھیڑیے اکٹھے رہتے تھے اور ملک میں زکوٰۃ لینے والا کوئی غریب نہیں ملتا تھا اور سب کی جانیں، اموال اور آبرو میں محفوظ تھیں۔ اور اگر اِس دور کے حکمرانوں کی طرح گھپلے بازی، رشوت ستانی، اقربا نوازی اور احکام شرع سے تنفر ہوتا تو پھر یہ برکات کہاں ہوتیں؟ اور آج ہم خالق اور خلق کے ساتھ وعدہ خلافی اور حدود و تعزیرات کے عدم اجرا کی وجہ سے ذیل کی مصیبتوں میں مبتلا ہیں جن کے ازالہ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ 

حدود و تعزیرات اسلامی کو نافذ نہ کرنے کی نحوست 

اس سے قبل آپ نے احکامِ خداوندی اور حدودِ شرعیہ کے اجرا و نفاذ کی برکات ملاحظہ کیں، اب عدمِ اجراء کی نحوست بھی دیکھ لیں۔ حضرت عبد اللہؒ بن عمرؒ سے ایک طویل حدیث مروی ہے جس میں یہ الفاظ بھی ہیں:

فقال النبی صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم یا معشر المہاجرین خمس ان ابتلتیم بہن ونزل فیکم واعوذ باللہ ان تدرکوہن: 
(۱) لم تظہر الفاحشۃ فی قوم قط حتی یعملوہا الا ظہر فیہم الطاعون والاوجاع التی لم تکن مضت فی اسلافہم 
(۲) ولم ینقصوا المکیال والمیزان الا اخذوا بالسنین وشدۃ المونۃ وجور السلطان۔ 
(۳) ولم یمنعوا الزکوۃ الا منعوا المطر من السماء ولو لا البہائم لم یمطروا۔ 
(۴) ولم ینقضوا عہد اللہ وعہد رسولہ الا سلط اللہ علیہم عدوہم من غیرہم واخذوا بعض ما کان فی ایدیہم۔
(۵) وما لم یحکم ائمتھم بکتاب اللہ الا القی اللہ باسہم بینہم (الحدیث) (مستدرک ج ۴ ص ۵۴۰ قال الحاکم والذہبیؒ صحیح)
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (جبکہ مجلس میں مہاجرین کی اکثریت تھی اور خلافت بھی انہیں کو ملنی تھی) اے مہاجرین کے گروہ! پانچ چیزیں ہیں جبکہ تم ان میں مبتلا ہو گے اور یہ تم پر وارد ہوں گی اور میں اللہ تعالی سے پناہ لیتا ہوں کہ یہ چیزیں تم میں ظاہر ہوں:
(۱) جب بھی کسی قوم میں بے حیائی ظاہر ہوگی اور وہ اس میں آلودہ ہوگی تو اس قوم میں طاعون کی بیماری اور ایسے درد ظاہر ہوں گے جو اس سے پہلے اس کے بڑوں میں نہ تھے اور 
(۲) جب وہ ماپ اور تول میں کمی کرے گی تو وہ مہنگائی، سخت تکلیف اور حکمرانوں کی طرف سے ظلم و جبر میں مبتلا ہوگی اور 
(۳) جب بھی (پوری) زکوۃ ادا نہیں کرے گی وہ خشک سالی کا شکار ہو گی، اگر حیوانات نہ ہوں تو اس قوم پر بارش نہ برسے اور 
(۴) جب بھی کوئی قوم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کو نظر انداز کرے گی تو اللہ تعالیٰ اس پر اس کے دشمنوں کو مسلط کرے گا اور وہ دشمن اس کے ملک کے بعض حصہ پر قبضہ کر لے گا اور 
(۵) جب حکمران طبقہ اللہ تعالیٰ کی کتاب (اور اس کے قانون) کو ترک کرے گا تو اللہ تعالی ان میں آپس کے اختلافات پیدا کر دے گا۔‘‘

اس صحیح حدیث کا ایک ایک حرف دیگر مسلمانوں کے ملکوں پر عموماً‌ اور پاکستان پر خصوصاً‌ فٹ آتا ہے جس کے بنانے کا مقصد ہی اسلام کا نفاذ تھا مگر صد افسوس ہے پاکستان بنانے والوں میں بغیر چند بھولے بھالے سادہ بزرگوں کے کوئی بھی اسلام کے نفاذ کے لیے مخلص نہ تھا، صرف بعض مصلحتوں کے پیش نظر ملک کا اقتدار ہی حاصل کرنا تھا۔ اور نصف صدی گزرنے کے باوجود بھی اسلام کے نفاذ کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھا اور عوام کو طفل تسلیوں میں الجھا دیا گیا۔ بعض سطحی ذہن رکھنے والوں کو جمعہ کی چھٹی کا مژدہ سنا کر خوش کیا گیا جبکہ بین الاقوامی یہودی کمپنی نے (یوم السبت) اپنے ہفتہ کے دن کی چھٹی بھی حکمران طبقہ سے منوا لی۔ اور نادان حکمرانوں کے ذریعہ رافضیوں کو زکوٰۃ اور عشر سے مستثنیٰ کر کے اہل اسلام کے دینی مدارس کو زک پہنچانے کی ناپاک سعی کی گئی۔ مگر اس سے کیا حاصل ہوا یا ہو گا یا ہو سکتا ہے؟ واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون۔

نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن 
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا 

بحمد اللہ تعالیٰ باوجود شدید پابندیوں کے پہلے سے دینی مدارس بھی زیادہ ہیں، معلمین کی تعداد بھی زیادہ ہے، اور متعلمین بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔ ان ناجائز پابندیوں کا اہلِ اسلام اور اہلِ حق پر کوئی اثر نہیں پڑا اور نہ ان شاء اللہ العزیز پڑے گا کیونکہ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم پاک زبان سے یہ الفاظ نکلے ہیں: 

ولن تزال ہذہ الامۃ قائمۃ علی امر اللہ لا یضرہم من خالفہم حتی یاتی امر اللہ (بخاری ج ا ص ۱۶) ’’
’’اور ہمیشہ یہ امت اللہ تعالیٰ کے دین پر قائم رہے گی قیامت تک اس کو کوئی مخالف ضرر اور نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔‘‘

اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے آج تک اور قیامت تک یہ ارشاد برحق و برقرار رہے گا دنیا کی کوئی طاقت اس کو ٹال نہیں سکتی۔

عدل و انصاف کی بدولت زمین و آسمان قائم ہیں

محرم ۷ھ میں جب خیبر فتح ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کو وہاں کا ظاہری اقتدار عطا فرمایا تو آپؐ نے حضرت عبد اللہؓ بن رواحہ کو (جو غزوہ موتہ ۸ھ میں شہید ہو گئے تھے) محصل (زمینوں اور باغات کی پیداوار کا ٹیکس اور خراج وصول کرنے کے لیے) بنا کر بھیجا تاکہ وہ اندازہ اور تخمینہ لگا کر یہودیوں سے خراج وصول کر کے مدینہ طیبہ لائیں۔ تو خیبر کے یہودیوں نے

فجمعوا لہ حلیا من حلی نسائہم فقالوا ہذا لک وخفف عنا وتجاوز فی القسم فقال عبد اللہؓ بن رواحۃ یا معشر الیہود واللہ انکم لمن أبغض خلق اللہ الی وما ذلک بحاملی علی ان احیف علیکم فاما ما عرضتم من الرشوۃ فانما ہی سحت وانا لا ناکلہا فقالوا بہذا قامت السموات والارض (موطا امام مالک ۲۹۳ و معناہ موارد الضمان ص ۴۱۲)
’’ان کے لیے اپنی عورتوں کے زیورات میں کچھ زیور جمع کیے اور حضرت عبد اللہؓ بن رواحہ سے کہا کہ یہ آپ کے لیے (ہدیہ) ہے، ہمارے خراج اور ٹیکس میں تخفیف اور کمی کریں۔ انہوں نے فرمایا، اے یہود کے گروہ! بخدا تم اللہ تعالیٰ کی ساری مخلوق میں میرے نزدیک مبغوض تر ہو مگر یہ بغض مجھے اس پر آمادہ نہیں کرتا کہ میں تم پر زیادتی کروں۔ اور جو کچھ تم نے پیش کیا ہے، یہ رشوت اور حرام ہے اور ہم حرام نہیں کھاتے۔ یہود نے کہا کہ اسی عدل و انصاف کی بدولت آسمانوں اور زمینوں کا نظام قائم ہے۔‘‘

امام ابو جعفر احمدؒ بن محمدؒ بن سلامہ الطحاویؒ (المتوفی ۳۲۱ھ) اپنی سند کے ساتھ یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہؒ بن رواحہ نے فرمایا:

یا معشر الیہود انتم ابغض الخلق الی قتلتم الانبیاء و کذبتم علی اللہ ولیس یحملنی بغضی ایاکم ان احیف علیکم الخ (طحاوی ج ا ص ۲۶۶) 
’’اے گروہ یہود! اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے تم مجھے زیادہ مبغوض ہو۔ تم نے حضرات انبیاء کرامؑ کو قتل کیا اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولا ( مثلاً‌ یہ کہ حضرت عزیزؑ اللہ تعالی کے بیٹے ہیں) لیکن تمہارے ساتھ میرا یہ بغض مجھے اس پر آمادہ نہیں کرتا کہ میں تم پر ظلم کروں۔‘‘

قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن یہودی ہیں لتجدن اشد الناس عداوۃ للذین آمنوا الیہود (الایہ) مگر مسلمانوں کے بد ترین دشمن بھی یہ کہنے اور ماننے پر مجبور ہیں کہ اسلامی عدل و انصاف سے ہی زمین و آسمان کا نظام قائم ہے۔ اگر یہ عدل نہ ہو تو اللہ تعالیٰ ناراض ہو کر نظامِ عالم کو تہ و بالا کر دے اور ہر جاندار کو موت کے گھاٹ اتار دے اور جو موت سے بھاگتے پھرتے ہیں ان کو بھی موت کا مزہ چکھا دے۔ 

نہ سمجھے تھے کہ اس جان جہاں سے یوں جدا ہوں گے 
یہ سنتے گو چلے آتے تھے اک دن جان جانی ہے


اسلامی شریعت

(اپریل ۱۹۹۶ء)

اپریل ۱۹۹۶ء

جلد ۷ ۔ شمارہ ۲

دینی حلقے اور قومی سیاست کی دلدل
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نفاذ شریعت کی اہمیت اور برکات
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام کے طے کردہ ۲۲ متفقہ دستوری نکات
ادارہ

خلافتِ اسلامیہ کے احیا کی اہمیت اور اس کے تقاضے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نفاذِ اسلام کی راہ روکنے کے لیے امریکی منصوبہ بندی
وائس آف امریکہ

عدالتِ عظمیٰ کی نوازشات
ادارہ

نفاذ شریعت کی جدوجہد اور مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کی ذمہ داریاں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نفاذِ اسلام اور ہمارا نظامِ تعلیم
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نفاذ شریعت ایکٹ کی خلافِ اسلام دفعات
ادارہ

شریعت بل کی دفعہ ۳ کے بارے میں علماء کرام کے ارشادات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ۔ نفاذ اسلام کی جدوجہد میں معاون یا رکاوٹ؟
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علماء اور قومی سیاست
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دوسری سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس
ادارہ

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

قافلۂ معاد
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

خربوزہ
حکیم عبد الرشید شاہد

قراردادِ مقاصد
ادارہ

۱۹۷۳ء کے دستور کی اہم اسلامی دفعات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter