مغرب زدہ افراد کا ایک طبقہ ہے جو اسلامی حدود کے نفاذ کا خواہاں نہیں ہے۔ اس کا خیال ہے کہ یہ اسلامی سزائیں سخت ہیں، غیر انسانی ہیں اور وحشیانہ ہیں۔ لیکن ظاہر بات ہے کہ یہ خیال و تاثر محض مغرب سے مرعوبیت اور مسحوریت کا نتیجہ ہے ورنہ اسلامی سزائیں جہاں نافذ ہوتی ہیں وہ معاشرہ جرم و گناہ سے تقریباً پاک ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں سخت سزائیں اسلام ہی نے مقرر نہیں کی ہیں بلکہ اسلام سے قبل آسمانی مذاہب میں بھی اسی نوعیت کی سزائیں تھیں اور یہ سزائیں آج تک ان کی مقدس کتابوں میں موجود ہیں جنہیں اہل مغرب (عیسائی اور یہودی) بھی مذہبی اور مقدس مانتے ہیں۔ اس ضمن میں کتبِ سابقہ کا ایک مختصر سا مطالعہ حسب ذیل ہے۔
کتب سابقہ کے ایک مروّجہ مجموعہ بائبل کی پہلی پانچ کتابیں تورات کہلاتی ہیں۔ یہودی ان کی بہت تعظیم کرتے اور قابلِ عمل سمجھتے ہیں۔ عیسائی بھی ان کی عظمت و تقدس کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے۔ یہودی یا بنی اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو کہتے ہیں۔ ان کی مقدس کتابوں کی رو سے قومِ یہود خدا تعالیٰ کی برگزیدہ، چنیدہ، اپنی اور مقدس قوم ہے۔ یہ لوگ خدا کے فرزند ہیں، نبوت اور رسالت صرف اسی قوم کے لیے مخصوص ہے، غیر یہودی کتوں کی مثل ہیں، نجات کی بلاہٹ محض یہودیوں کے لیے ہے غیر اقوام کے لیے نہیں (پادری ڈملو کی تفسیر بائبل صفحہ ۸۵)۔
اس عظمت و بزرگی کے ساتھ ساتھ کتب مقدسہ سے یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ یہودی ایک بڑی سرکش اور نافرمان قوم ہیں۔ ان کی سرکشی اور باغیانہ خصلتوں کے پیشِ نظر ان کی شریعت بھی بڑی سخت مقرر کی گئی تھی۔ مثلاً ان کے ہاں ذبیحہ کا گوشت پہلے اور دوسرے دن تو کھایا جا سکتا تھا لیکن تیسرے دن کھانے کی ممانعت تھی۔ خلاف ورزی کی سزا جماعت سے کاٹا جانا تھی (کتاب احبار باب ۱۹ آیت ۸)۔ آتشیں قربانی کا گوشت یا اپنی سکونت گاہ میں پرند یا چرند کا خون کھانے (احبار باب ۷ آیت ۲۵) حائضہ کے ساتھ صحبت (احبار باب ۲۰ آیت ۱۸) اور کفارہ کے دن اپنی جان کو دکھ نہ دینے کی سزا بھی جماعت سے کاٹا جانا تھی (احبار باب ۲۳ آیت ۲)۔ جماعت سے کاٹے جانے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص بنی اسرائیل کے ساتھ خدا تعالیٰ کے وعدوں اور موعودہ برکتوں میں شامل نہیں رہتا، نامختون اور غیر قوم کا فرد شمار کیا جاتا ہے (پادری ڈملو کی تفسیر ص ۵۹)
سزائے موت
قاتل کا مارا جانا تو بآسانی سمجھ میں آتا ہے (احبار باب ۲۴ آیت ۱۸) لیکن زنا اور لواطت کی سزا بھی موت ہی ہے (احبار باب ۲۰) جانور سے جماع کرنے والا بھی جان سے مارا جائے (احبار باب ۲۰ آیت ۴۵) اگر کسی شخص کا بیل ماروکھنڈا ہو اور مالک اسے باندھ کر نہ رکھے اور وہ بیل کسی مرد یا عورت کو ٹکر مار کر اس کی جان لے لے تو بیل کو سنگسار کیا جائے، مالک کی سزا بھی موت ہے۔ جو کوئی کسی آدمی کو چرائے، خواہ وہ اسے بیچ ڈالے خواہ وہ اس کے ہاں ملے وہ قطعی مارا جائے (خروج باب ۲۱ آیت ۱۶) نقب زنی کرتے ہوئے چور کو اگر ایسی مار پڑے کہ وہ مر جائے تو اس کے خون کا کوئی جرم نہیں (خروج باب ۲۲ آیت ۲) توبہ توبہ وہ کتنی سخت شریعت تھی جس کے مطابق اگر کوئی شخص کاہن (یہودی مولوی) سے گستاخی سے پیش آئے یا قاضی کا کہا نہ مانے تو اسے بھی قتل کر دیا جائے (استثنا باب ۷ آیت ۱۲)
کوڑے
اگر لوگوں میں کسی قسم کا جھگڑا ہو اور وہ عدالت میں آئیں تاکہ قاضی ان سے انصاف کریں، تو وہ صادق کو بے گناہ ٹھہرائیں اور شریر کے خلاف فتوٰی دیں۔ اگر وہ شریر پٹنے کے لائق نکلے تو قاضی اسے زمین پر لٹوا کر اپنی آنکھوں کے سامنے اس کی شرارت کے مطابق اسے گن گن کر کوڑے لگوائے اور اسے چالیس کوڑے لگیں زیادہ نہیں (استثنا باب ۲۵ آیت ۱ تا ۳)
سنگساری
تورات میں کئی جرموں کی سزا سنگساری ہے۔ لکھا ہے جو خداوند کے نام پر کفر بکے ضرور جان سے مارا جائے۔ ساری جماعت اسے قطعی سنگسار کرے (احبار باب ۲۴ آیت ۱۶) اسی طرح جو شخص اور معبودوں سورج، چاند یا اجرام فلکی کی پوجا کرے اس کی سزا شہر کے پھاٹکوں سے باہر لے جا کر سنگسار کرنا ہے کہ وہ مر جائے (استثنا باب ۱۷ آیت ۶) ترغیبِ شرک کی سزا قتل ہے (استثنا باب ۱۲) تورات پڑھتے وقت قاری کے ذہن پر اس کے شرعی احکام کی سختی کا گہرا تاثر قائم ہوتا ہے اور انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ مرد یا عورت جس میں جن ہو یا وہ جادوگر ہو تو وہ ضرور جان سے مارا جائے۔ ایسوں کو لوگ سنگسار کریں (احبار باب ۲۰ آیت ۲۷) ماں باپ کے نافرمان بیٹے کو شہر کے سب لوگ سنگسار کریں کہ وہ مر جائیں (استثنا باب ۲۱ آیت ۲۱) یہودی سبت کو مانتے ہیں یعنی ہفتہ کے روز کچھ کام نہیں کرتے۔ حرمتِ سبت کا حکم نیا نیا تھا، لوگ اس کی عظمت و اہمیت ابھی پوری طرح سمجھ نہیں پائے تھے۔ صحرا نوروی کے دنوں ایک یہودی سبت کے دن لکڑیاں اکٹھی کرتے پکڑا گیا، جماعت نے اسے پکڑ کر حوالات میں بند کر دیا اور حضرت موسٰی علیہ السلام نے بحکم الٰہی اسے لشکرگاہ سے باہر لے جا کر خود سنگسار کرایا اور وہ مر گیا (گنتی باب ۱۵ آیت ۳۶)
آگ میں جلانا
ہمارے بہت سارے معزز قارئین کے لیے یہ امر انتہائی عجیب اور اچنبھا معلوم ہو گا کہ تورات میں بعض جرائم کی سزا آگ میں جلانا بھی مقرر ہے۔ اگر کوئی شخص بیوی اور ساس دونوں کو رکھے تو تینوں جلا ڈالے جائیں۔ (احبار باب ۲۰ آیت ۱۴) کپڑا جتنا سفید ہو گا اس پر داغ اتنا ہی برا لگے گا۔ چنانچہ اگر کاہن کی بیٹی فاحشہ بن کر اپنے آپ کو ناپاک کرے تو وہ عورت آگ میں جلائی جائے کیونکہ وہ اپنے آپ کو ناپاک ٹھہراتی ہے (احبار باب ۲۱ آیت ۹)
تورات کے مذکورہ احکام پر باقاعدہ عمل کیا جاتا تھا۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں بھی زنا کی سزا سنگساری تھی (انجیل یوحنا باب ۸) ؟؟ کو شریعت کی مخالفت اور موسٰیؑ کی رسموں کو بدلنے کے الزام میں سنگسار کیا گیا تھا (کتاب اعمال باب ۶) صدیوں بعد فرانس میں جون آف آرک نامی نوجوان خاتون کو جادوگری کے الزام میں جلا دیا گیا تھا۔ تورات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جرائم کی سرکردگی پر سزا کا مطلب برائیوں سے پاک معاشرہ کا قیام تھا۔ جب لوگوں کو معلوم ہو کہ فلاں جرم کرنے پر اتنی سخت سزا ضرور ملے گی تو وہ قانون شکنی سے باز رہیں گے اور سزا کے اجراء سے عبرت پکڑیں گے۔ نافرمان بیٹے کو سنگساری کے حکم کے بعد لکھا ہے کہ یوں تو ایسی برائی کو اپنے درمیان سے دور کرنا تب سب اسرائیلی ڈر جائیں گے۔ کچھ اسی طرح کے الفاظ کاہن کی شان میں گستاخی پر سزا دینے کے ضمن میں بھی وارد ہیں کہ سب لوگ سن کر ڈر جائیں گے اور پھر گستاخی نہیں کریں گے (استثنا باب ۱۷ آیت ۱۳)
ہندومت
مشہور ہندو قانون دان منّو کے دھرم شاستر میں ہندوؤں کی چاروں ذاتوں (برہمن، کشتری، ویش، شودر) کا بڑا لحاظ رکھا گیا ہے۔ اعلٰی ذات برہمنوں کو معمولی سزاؤں پر اکتفا کیا جاتا ہے، تاہم سخت سزاؤں کا تصور اپنی جگہ قائم ہے مثلاً برہمن، کشتری، ویش کی عورت شوہر وغیرہ سے محفوظ ہو یا نہ اس سے زنا کرنے والے شودر کا عضو تناسل قطع کرنا، تمام دولت کو چھین لینا اور قتل کی سزا دینی چاہیئے۔ اگر وہ غیر محفوظ عورت سے جماع کرے تو اسے دونوں متذکرہ صدر سزائیں اور قتل کی سزا دینی چاہیئے (منو کا دھرم شاستر ادھیائے ۸ اشلوک ۳۷۴) جس عضو سے دوسرے کی چیز چرائے اسی عضو کو قطع کرنا چاہیے تاکہ پھر ایسا کام نہ کرے (۸ : ۳۳۴)
چند برس پیشتر بھارت کی ایک اعلیٰ عدالت نے نسوانی مقدمات کے سلسلہ میں کوڑوں کی اسلامی سزا کی حمایت کی تھی۔ اگر جرم کو روکنا مقصود ہے تو پھر مجرم کے ساتھ چہلیں نہیں کی جانی چاہئیں۔ القصہ ہمیں اسلامی شریعت کو ببانگ دہل اپنانا چاہیئے اور ہرگز پرواہ نہیں کرنی چاہیئے کہ اس پر دنیا کیا کہے گی۔ بفضلہٖ تعالیٰ ہم حق پر ہیں (قرآن مجید سورہ یس آیت ۱۴) چنانچہ ہمیں حق پر ڈٹ کر دنیا والوں کی اٹکلوں کی طرف مطلق توجہ نہیں دینی چاہیئے۔ جن قوانین، اقدار اور امور و احکام نے ڈیڑھ ہزار برس پیشتر عالمِ انسانیت سے اپنی صداقت کی مہر لگوائی تھی اگر انہیں خلوصِ نیت سے آج بھی اپنایا جائے تو
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا