اللہ تعالیٰ کے پیغمبر اللہ کی طرف سے جو تعلیم دینے کے لیے مامور کیے جاتے ہیں، اس تعلیم کے دو حصے ہوتے ہیں: ایک اخلاقی تعلیم، دوسرے قانونی تعلیم (شریعت)۔ قانون میں اخلاقی اصولوں کی آمیزش کا ٹھیک ٹھیک تناسب بھی پیغمبر قائم کرتے ہیں، تاکہ اخلاقی اصولوں اور انسانی فطرت کے تقاضوں کے مابین توازن قائم رہ سکے۔ کچھ پیغمبروں کا مشن اخلاقی تعلیم کے ساتھ قانونِ شریعت کا نفاذ بھی رہا ہے اور کچھ پیغمبروں کا مشن صرف اخلاقی تعلیم تک محدود رہا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اخلاقی تعلیم کے ساتھ شریعت الہٰی کا نفاذ بھی فرمایا۔ مگر حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام صاحبِ شریعت نہ تھے، اجرائے شریعت کی نوبت آنے سے پہلے ہی دنیا میں ان کی نبوت کا مشن ختم ہو گیا، اس لیے ان کے ارشادات میں ہمیں اخلاق کے ابتدائی اصول ہی مل پاتے ہیں۔ نبوت کے سلسلہ زریں کی آخری کڑی خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم نہ صرف معلم اخلاق اور صاحب شریعت تھے بلکہ قانون شریعت الہٰی کی تکمیل بھی آپ ہی پر ہوئی۔ (الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی تعلیم میں فرمایا گیا ہے:
’’جسے خدا نے جوڑا، اسے آدمی جدا نہ کرے‘‘ (متی 6:19)
قرآن مجید میں ہے:
الذین ینقضون عہد اللہ من بعد میثاقہ و یقطعون ما امر اللہ بہ ان یوصل ویفسدون فی الارض اولئک ھم الخاسرون (بقرہ 3)
’’جو لوگ اللہ کے عہد کو مضبوط کرنے کے بعد توڑتے ہیں اور ان تعلقات کو کاٹتے ہیں جنہیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے، یقیناً وہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:
’’جو کوئی اپنی بیوی کو حرام کاری کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دے اور دوسرا بیاد کرے وہ زنا کرتا ہے۔‘‘ (متی 19 : 19)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ابغض الحلال الی اللہ الطلاق‘‘
’’اللہ کے نزدیک جائز کاموں میں سب سے زیادہ برا کام طلاق ہے۔‘‘ (روایت ابوداؤد، مشکوٰۃ، باب الخلع والطلاق، الفصل الاول صفحہ 283)
ہر دو پیغمبروں کے ان ارشادات کا تعلق اخلاقی ہدایات سے ہے نہ کہ قانون شریعت ہے۔ ان ہدایات میں اشخاص کو تعلیم دی گئی ہے کہ شریعت کے قانون پر عمل پیرا ہونے میں وہ مذکورہ ہدایات کو پیش نظر رکھیں۔
سینٹ پال نے حضرت مسیحؑ کی ان اخلاقی ہدایتوں کو لے کر اپنے آپ کو شریعتِ الہٰی سے بے نیاز سمجھ لیا، اور ان اخلاقی اصولوں پر خود قانون سازی کا کام شروع کر دیا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ارشاد کہ ’’جسے خدا نے جوڑا، اسے آدمی جدا نہ کرے‘‘ کو لے کر یہ قانون بنایا کہ ایک مرتبہ نکاح ہونے کے بعد کبھی جدائی نہیں ہو سکتی، کیونکہ یہ تعلق خدا نے جوڑا ہے اور آدمی اس کو توڑنے کا حق نہیں رکھتا۔ اب رہی یہ آیت کہ ’’جو کوئی اپنی بیوی کو حرام کاری کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑے اور دوسرا بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے‘‘، کیونکہ یہ آیت پہلی آیت سے ٹکراتی ہے کہ اس میں حرام کاری کی وجہ سے چھوڑنے کی اجازت ملتی ہے، اس لیے اس آیت کی دو طرح سے توجیہ کی گئی ہے:
- ایک تو یہ کہ حرام کاری کی وجہ سے طلاق دینے کا استثناء بعد کا اضافہ ہے۔ اور اصل حکم وہی ہے کہ موت کے سوا جدائی کی کوئی صورت نہیں ہے۔
- دوسری توجیہ یہ کی گئی ہے کہ حرام کاری کی صورت میں میاں بیوی میں جدائی تو کرائی جائے گی مگر نکاح بدستور قائم رہے گا اور دونوں میں سے کسی کو بھی دوسرا نکاح کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔
صدیوں تک مسیحی دنیا اس پر عمل کرتی رہی اور نتیجہ یہ ہوا کہ انسانی عقل کے تراشے ہوئے اس غیر فطری قانون کی بدولت مسیحی دنیا میں بد اخلاقی پھیلتی چلی گئی۔ اس شدید اور ناقابل عمل قانون سے بچنے کے لیے مسیحی علماء نے طرح طرح کے شرعی حیلے نکال رکھے تھے:
ایک حیلہ یہ تھا کہ کسی طور پر یہ ثابت کیا جائے کہ مرد و عورت نے ساتھ رہنے کا جو عہد کیا تھا وہ ان سے بلا اِرادہ سرزد ہو گیا تھا تو اس صورت میں مذہبی عدالت بطلانِ نکاح (Nullity) کا فیصلہ کر دے گی۔ اور نکاح باطل ہونے کا یہ مطلب تھا کہ سرے سے کوئی نکاح ہوا ہی نہیں، اب تک ان میں ناجائز تعلقات تھے اور ان سے جو اولاد ہوئی وہ حرامی اولاد تھی۔
کلیسائے روم کے مذہبی قانون (Cannon Law) میں تفریق کے لیے چھ صورتیں تجویز کی گئی تھیں, (1) زنا یا خلافِ فطرت جرائم (2) نا مردی (3) ظالمانہ برتاؤ (4) کفر (5) ارتداد (6) زوجین کے درمیان خونی رشتوں میں سے کوئی رشتہ نکل آنا۔
مذکورہ چھ صورتوں میں قانونی چارہ کار یہ تجویز کیا گیا کہ زوجین ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں اور ہمیشہ تجرد کی زندگی بسر کریں۔ اس قانونی تفریق (Judicial Separation) کے معنی رشتۂ نکاح کے پورے طور پر ختم ہونے (Divorce) کے نہیں تھے کہ اس کے بعد بھی زوجین میں سے کوئی دوسرا نکاح کر سکے۔
رومن چرچ کے مقابلے میں مذہبی کلیسا (Orthidic Eastern Church) نے نسبتاً ایک بہتر اور قابل عمل قانون بنایا۔ اس کے نزدیک زوجین کو حسب ذیل وجوہ کی بنا پر بند نکاح سے آزاد کیا جا سکتا ہے: (1) زنا اور اس کے مقدمات (2) ارتداد (3) شوہر کا اپنی زندگی کو قسیس کی حیثیت سے مذہبی خدمت کے لیے وقت کر دینا (4) بغاوت (5) نشوز (6) نامردی (7) جنون (8) برص و جذام (9) طویل مدت کے لیے قید (10) باہمی نفرت اور مزاج کی ناموافقت۔
واضح رہے کہ مذہبی کلیسا کو فقہ اسلامی سے متاثر ہونے کے بہت زیادہ مواقع ملے، اس لیے اس کے قانون میں اسلامی فقہ کی واضح جھلک نظر آتی ہے۔ لیکن مغربی ملکوں کے مذہبی پیشوا مشرقی کلیسا کے اس قانون کو نہیں مانتے۔
انقلاب فرانس سے پہلے تک یورپ کے زیادہ تر ملکوں میں رومن چرچ کا مذہبی قانون چلتا تھا۔ انقلابی دور میں جب آزاد تنقید اور آزادئ فکر کی ہوا چلی تو سب سے پہلے فرانس نے اس مذہبی قانون کی کمزوریوں کو دیکھ کر سرے سے اس مذہبی قانون کا جوا ہی اپنے کندھے سے اتار پھینکا۔ اس کے بعد آزادی کی یہ ہوا دوسرے ملکوں تک پہنچی اور رفتہ رفتہ انگلستان، جرمنی، آسٹریلیا، بیلجیم، ہالینڈ، سویڈن، ڈنمارک، سوئزرلینڈ وغیرہ ملکوں نے بھی مذہبی قانون چھوڑ کر اپنے اپنے جداگانہ قوانین نکاح و طلاق وضع کر لیے۔
مذہبی قانون سے آزاد ہو جانے کے بعد مغربی ملکوں میں جو ازدواجی قانون وضع کیے گئے ہیں ان کے بنانے میں اگرچہ سینکڑوں ہزاروں دماغوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ حصہ لیا ہے اور تجربات کی روشنی میں برابر اصلاحیں کی جاتی رہی ہیں لیکن ان سب کوششوں کے باوجود ان کے قوانین میں وہ اعتدال اور توازن پیدا نہیں ہو سکا جو عرب کے ایک اُمّی کے پیش کیے ہوئے قوانین میں پایا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر انگلستان میں 1857ء سے پہلے زنا اور ظالمانہ برتاؤ کی وجہ سے زوجین میں تفریق کی جا سکتی تھی، مگر طلاق نہیں تھی کہ اس کے بعد زوجین میں سے کوئی دوسرا نکاح کر سکے۔ پھر 1857ء میں زنا اور ظالمانہ برتاؤ کے علاوہ تعلقات زوجیت کا انقطاع (Desertion) کو بھی شامل کیا گیا، بشرطیکہ یہ انقطاع دو سال یا اس سے زیادہ مدت تک جاری رہا ہو۔ یہ اسلامی قانون ایلاء کی ایک ناقص نقل تھی۔ 1857ء ہی کے قانون میں ایک تبدیلی اور کی گئی کہ تفریق کے ساتھ طلاق کو بھی جائز کیا گیا۔ مگر طلاق کے لیے شرط لگائی گئی کہ مرد اور عورت عدالت سے رجوع کریں، بطور خود طلاق کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ اور عدالت کے لیے طلاق کی ڈگری دینے کی صرف ایک ہی صورت رکھی گئی کہ دونوں میں سے جو طلاق لینا چاہے، وہ دوسرے فریق کا مرتکب زنا ہونا ثابت کرے۔ اس قانون میں شوہر کو یہ حق بھی دیا گیا کہ اگر وہ چاہے تو اپنی بیوی کے ناجائز دوست سے اپنی بیوی کی عصمت کا ہرجانہ بھی وصول کر سکتا ہے۔
1886ء میں قانون بنایا گیا جس میں عدالت کو اختیار دیا گیا کہ اگر وہ چاہے تو نکاح توڑنے کے ساتھ ساتھ ’’خطا کار‘‘ شوہر سے عورت کو نفقہ دلوا سکتی ہے۔
1907ء کے قانون میں شوہر کے خطا کار ہونے کی شرط اڑا دی گئی اور عدالت کو یہ اختیار دیا گیا کہ جہاں مناسب سمجھے مطلقہ عورت کے نفقہ کی ذمہ داری مرد پر ڈال دے۔ ہندوستانی قانون کی دفعہ 125 اسی کی نقل ہے۔
انگلستان کے بہترین دماغوں کی پچاس برس کی پے در پے محنت کے بعد انیسویں صدی کے آخر میں 1895ء میں ایک قانون بنایا گیا کہ اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی زیادتیوں کی وجہ سے گھر چھوڑ کر چلی جائے تو عدالت شوہر کو اس کے پاس جانے سے روک دے گی، بچوں کو عورت کے پاس رکھنے کا مجاز قرار دے گی۔ اور اگر اس صورت میں عورت زنا کی مرتکب ہے تو اس کے خلاف شوہر کا طلاق کا دعویٰ قابل سماعت نہ ہوگا۔
1910ء میں طلاق اور ازدواجی معاملات پر غور کرنے کے لیے ایک شاہی کمیشن مقرر کیا گیا تھا جس نے تین سال کی محنت کے بعد 1912ء کے آخر میں رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ میں دیگر سفارشات کے علاوہ ایک سفارش یہ تھی، جسے قبول کر کے 1923ء کے قانون Matrimonial Cases Act میں شامل کیا گیا کہ
’’طلاق کے اسباب اور وجوہات کے اعتبار سے مرد اور عورت دونوں کو مساوی قرار دیا جائے۔ مثلاً اگر شوہر ایک بار بھی زنا کا مرتکب ہو تو عورت اس سے طلاق لے سکے۔‘‘
انگلستان کے یہ بہترین دماغ عورت یا مرد کے ارتکابِ زنا کا فطری فرق تک نہ سمجھ سکے اور اس قانون کی بدولت عورتوں کی طرف سے اپنے شوہروں کے خلاف طلاق کے مقدموں کی بھر مار ہو گئی۔ یہاں تک کہ عدالتیں پریشان ہو گئیں اور — میں لارڈ مری ویل (Lord Merrivale) کو ان کی روک تھام کرنی پڑی۔
آئر لینڈ اور اٹلی کے قوانین پر رومن چرچ کا اثر ہے اور وہاں رشتۂ نکاح اب تک ناقابلِ انقطاع ہے۔ بعض صورتوں میں قانونی تفریق ہو جاتی ہے مگر قانونی تفریق کے بعد زوجین نہ مل سکتے ہیں، نہ آزاد ہو کر نکاح ثانی کر سکتے ہیں:
؏ کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے
فرانس میں قانونِ ازدواج بہت سے نشیب و فراز سے گزرا ہے۔ انقلاب کے بعد طلاق کو نہایت آسان کر دیا گیا تھا۔ نپولین کے قانون میں اس پر کچھ پابندیاں لگائی گئیں۔ 1816ء میں طلاق قطعاً ممنوع کر دی گئی۔ 1884ء میں طلاق پھر جائز کی گئی۔ اس کے بعد 1886ء، 1907ء اور 1924ء میں طلاق کے لیے مختلف قانون بنائے گئے جس میں طلاق کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے
- زوجین میں سے کسی کا ارتکابِ زنا،
- زوجین میں سے کسی کا ایسا فعل جس سے اس کے ساتھی کی عزت پر حرف آئے،
- حقوقِ زوجیت ادا کرنے سے انکار،
- شراب نوشی کی لت،
- اور عدالت سے موجب ذلت سزا وجوہِ طلاق قرار دیے گئے۔
اس قانون میں اسلامی قانون کے قانونِ عدت کی ناقص نقل کرتے ہوئے طلاق کے بعد تین سو دن کی عدت مقرر کی گئی۔ اسلام میں عدت کی اصل غرض براءتِ رحم ہے کہ مرد سے الگ ہونے کے بعد یہ اطمینان کر لیا جائے کہ عورت حاملہ تو نہیں ہے۔ اس کے لیے اسلام نے فطری صورت تین حیض اختیار کی ہے۔ البتہ حاملہ کی عدت وضعِ حمل ہے۔ اس فطری صورت کے مقابلہ میں تین سو دن یا دس ماہ کی عدت کے لیے فطری بنیاد کیا ہے؟
آسٹریلیا، بیلجیم، سوئزر لینڈ اور ناروے میں مرد اور عورت صرف باہمی رضا مندی سے ہی طلاق کی ڈگری حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ بھی اسلام کے قانونِ ضلع کی ایک ناقص سی نقل ہے۔
جرمنی میں زوجین اگر مسلسل ایک سال تک ایک دوسرے سے لاتعلق رہیں تو طلاق ہو سکتی ہے۔ اس میں اسلام کے قانونِ ایلاء کا ایک دھندلا سا عکس ہے۔
سوئزر لینڈ میں یہ مدت تین سال ہے اور ہالینڈ میں پانچ سال۔ دوسرے ملکوں کے قانون اس باب میں خاموش ہیں۔
سویڈن میں شوہر کے لاپتہ ہونے پر مدتِ انتظار چھ سال ہے اور ہالینڈ میں دس سال۔ دوسرے ملکوں نے اس سلسلہ میں کوئی قانون وضع نہیں کیا۔
پاگل پن کی صورت میں جرمنی، سویڈن اور سوئزر لینڈ میں تین سال کی مہلت ہے، باقی ملکوں میں اس کے لیے کوئی قانون نہیں ہے۔ بیلجیم میں مطلقہ کی عدت دس ماہ ہے، فرانس میں تین سو دن۔ باقی ملکوں میں عدت کا کوئی قانون نہیں ہے۔
آسٹریلیا کا قانون یہ ہے کہ اگر مرد یا عورت میں سے کسی کو پانچ سال قید کی سزا ہو جائے تو طلاق کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے۔ بیلجیم میں صرف سزایاب ہونا طلاق کے دعوے کے لیے کافی ہے۔ سویڈن اور ہالینڈ میں اس کے لیے حبسِ دوام کی شرط ہے۔
یورپ کے ملکوں میں طلاق کے قانون ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں مگر ناقص اور غیر معتدل ہونے میں سب متفق ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی ایک مکمل اور معتدل قانون بنانے میں کامیابی نہیں مل سکی۔
اس کے مقابلے میں اسلامی قانون کو جو شخص انصاف کی نظر سے دیکھے گا اس کو ماننا پڑے گا کہ عدل، توازن، فطرتِ انسانی کی رعایت، فتنوں کا سدباب، اخلاق کی حفاظت، تمدنی مصالح کی نگہداشت اور ازدواجی زندگی کے تمام مسائل و معاملات میں اسلامی قانون حدِ کمال کو پہنچا ہوا ہے۔ پھر اس نمایاں فرق کے باوجود اگر انسان اپنے زندگی کے معاملات میں ہدایتِ الہٰی کی ضرورت سے انکار کرے تو اس کو حماقت کے سوا اور کیا عنوان دیا جا سکتا ہے؟
ایک نظر کامن سول کوڈ پر
یورپ کے مختلف ملکوں کے قوانین کے ساتھ ایک نظر کامن سول کوڈ پر بھی ڈال لی جائے جو ہندوستانی آئین کے رہنما اصولوں میں جگہ پا چکا ہے۔ بھارت کا آئین حصہ 4 مملکت کی حکمت عملی کے ہدایتی اصول (Directive Principles) کے عنوان کے تحت دفعہ 44 میں کہا گیا ہے کہ
The State shall endeavor to secure for citizens a uniform civil code throughout the territory of India.
’’مملکت یہ کوشش کرے گی کہ بھارت کے پورے علاقہ میں شہریوں کے لیے یکساں مجموعۂ قانونِ دیوانی کی ضمانت ہو۔‘‘ (صفحہ 58 بھارت کا آئین، شائع کردہ ترقئ اردو بیورو 1982ء)
اس یکساں قانونِ دیوانی کے بظاہر چار نشانے ہوں گے:
- نسلِ انسانی کی بقا۔ (مگر اقتصادی خوشحالی کی خاطر کثرتِ آبادی پر کنٹرول کے ساتھ)
- ایک متحد قوم اور متحدہ وطنی قومیت کی تشکیل۔
- معاشرتی معاملات میں ہر مرد اور ہر عورت کی مکمل اور مساوی آزادی۔
- معاشرتی معاملات سے مذہب کی بے دخلی۔
یہ یکساں قانون اپنے اصول اور مقاصد دونوں میں اسلامی قانون سے بالکل مختلف بلکہ متضاد ہوگا۔ مثلاً:
- اسلامی قانون کہتا ہے کہ نکاح ان معاملات میں سے ہے جو دین و شریعت کے دائرہ بحث میں شامل ہے اور اسی لیے یہ فعل عبادت بھی ہے۔ کامن سول کوڈ کہتا ہے کہ نکاح کا معاملہ خالص دنیوی اور تمدنی معاملہ ہے، اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
- اسلامی قانون کہتا ہے کہ نکاح کے جائز ہونے کے لیے ہم دینی کی شرط لازم ہے۔ کامن سولی کوڈ کہتا ہے کہ جوازِ نکاح کے لیے ہم دینی کی کوئی اہمیت نہیں ہے، مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان بلاتامل شادی ہو سکتی ہے۔
- اسلامی قانون کہتا ہے کہ لڑکیوں اور عورتوں کے نکاح کے معاملہ میں ان کے سرپرستوں کو بھی ایک حد تک دخل حاصل ہے۔ کامن سول کوڈ کہتا ہے کہ لڑکیوں اور عورتوں کے معاملہ میں ان کے سرپرستوں کو مداخلت کا کوئی حق حاصل نہیں ہے، وہ بھی مردوں کی طرح اپنے نکاح کے معاملے میں آزاد اور خودمختار ہیں۔
- اسلامی قانون کہتا ہے کہ بعض اہم چیزوں خصوصاً دین و تقویٰ کے معاملہ میں مرد کو عورت کا کفو اور ہمسر ہونا چاہیے۔ کامن سول کوڈ کہتا ہے کہ کفاءت اور ہمسری کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
- اسلامی قانون کہتا ہے کہ اگرچہ عام معمول یہی ہونا چاہیے کہ شادیاں بلوغ کے بعد کی جائیں مگر نابالغی میں بھی نکاح کی اجازت ہے۔ کامن سول کوڈ کہتا ہے کہ بلوغ ہی نہیں، قانونی بلوغ سے پہلے نکاح خلافِ قانون ہے۔
- اسلامی قانون کہتا ہے کہ نکاح کے صحیح ہونے کے لیے کم از کم دو مسلمان گواہوں کی موجودگی ضروری ہے۔ کامن سول کوڈ کہتا ہے کہ نکاح کے صحیح اور قانونی طور پر جائز ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ مرد اور عورت میرج آفیسر کے دفتر میں جا کر شادی کا اندراج کرا دیں۔
اسلامی قانون اور کامن سول کوڈ کے اصول و مقاصد پر ایک سرسری نظر ڈال کر ہی سمجھا جا سکتا ہے کہ اسلامی قانون کس قسم کا معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے اور کامن سول کوڈ کس قسم کا معاشرہ تیار کرے گا۔ اسلامی قانون ایسا معاشرہ بناتا ہے جو بنیادی اکائی سے لے کر اوپر کے وسیع خاندان تک ایک زنجیر کی کڑیوں کی طرح آپس میں جڑا ہوا ہو۔ ایک ایسا پاکیزہ معاشرہ جس کے اندر جنسی بے راہ روی کے امکانات کم سے کم ہوں۔ ایسا آزاد اور منضبط معاشرہ جس میں اپنے نکاح کے معاملہ میں افراد کی مصلحتوں کی پابندی بھی ہے۔ اس معاشرہ کے افراد آپس کے حقوق اندرونی داعیہ اور مذہبی ذمہ داری کے ساتھ ادا کریں، نہ کہ صرف قانون کا مطالبہ سمجھ کر۔ کیا کامن سول کوڈ ان اہم معاشرتی تقاضوں کو پورا کر سکے گا، بلکہ کیا وہ خود اپنے مقرر کردہ نشانے بھی حاصل کر سکے گا؟