نص کی تعبیر میں جو چیزیں مفسر یا فقیہ کے فہم پر اثر انداز ہوتی ہیں، ان میں ایک اہم چیز وہ عملی صورت حال ہوتی ہے جس میں کھڑے ہو کر مفسر یا فقیہ نص پر غور کرتا اور مختلف تفسیری امکانات کا جائزہ لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عملی حالات کے بدل جانے سے انھی نصوص کی تعبیر کے کچھ ایسے امکانات سامنے آتے ہیں جو سابق مفسرین کے پیش نظر نہیں تھے۔ گویا حکم کی تعبیر کے مختلف امکانات عملی حالات سے مجرد ہو کر صرف متن پر غور کرنے سے سامنے نہیں آتے، بلکہ حکم کو عملی صورت واقعہ کے ساتھ جوڑنے سے وہ اصل تناظر بنتا ہے جس میں مجتہد مختلف تعبیری امکانات کا جائزہ لیتا ہے اور پھر ان میں سے کسی امکان کو اجتہادی طور پر ترجیح دیتا ہے۔ اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ ایک واقعاتی تناظر میں حکم پر غور کرنے والے اور اس سے مختلف ایک دوسرے واقعاتی تناظر میں حکم پر غور کرنے والے مجتہدین کے سامنے تعبیراتی امکانات کا دائرہ مختلف ہو سکتا ہے۔
اس نکتے کو چند مثالوں سے سمجھا جا سکتا ہے۔
سیدنا عمر کے دور میں عراق کی فتح سے پہلے عمومی پریکٹس یہ تھی کہ مفتوحہ زمینوں کا ایک خمس بیت المال کے لیے رکھ کر باقی زمینیں قرآن مجید میں بیان ہونے والے مال غنیمت کے عام ضابطے کے تحت مجاہدین میں تقسیم کر دی جائیں۔ عراق فتح ہوا تو اسی اصول کے تحت فتح میں شریک صحابہ نے زمینوں کی تقسیم کا مطالبہ کیا، لیکن سیدنا عمر کے ذہن میں تردد پیدا ہو گیا جس کا عملی باعث نئی صورت حال تھی۔ سیدنا عمر کا خیال تھا کہ عراق کے بعد ایسی مزید زرخیز زمینیں مفتوح نہیں ہوں گی جن سے اتنی بڑی مقدار میں غلہ حاصل ہو سکے۔ اب اگر یہ زمینیں بھی انفرادی طور پر مجاہدین میں تقسیم کر دی گئیں تو ریاست کے پاس اجتماعی ضروریات کے بندوبست کے لیے مستقبل میں ذرائع باقی نہیں رہیں گے۔ چنانچہ انھوں نے اس پر طویل غور وفکر کیا، صحابہ سے مشاورت کی، اختلاف کرنے والے حضرات سے بحث ومباحثہ ہوا اور آخر عمومی اتفاق سے یہ طے پایا کہ یہ زمینیں تقسیم نہیں کی جائیں گی۔
یہاں دیکھیے، زمینوں کی تقسیم کے حکم کی تعبیر میں ایک نیا پہلو شامل کیا گیا کہ یہ مطلق اور حتمی حکم نہیں، بلکہ اس کا فیصلہ اجتماعی مصلحت کو پیش نظر رکھ کر کیا جائے گا۔ حکم کو اس قید سے مقید کرنے کا امکان پہلے دن سے موجود تھا، لیکن عملاً اس کی طرف مجتہدین کی توجہ تب مبذول ہوئی جب ایک خاص صورت حال نے مطلق حکم کے valid ہونے پر سوال کھڑا کر دیا۔ یہ بھی پیش نظر رہے کہ یہ تعبیر اجتہادی تھی جس سے اس وقت بھی اختلاف کیا گیا اور بعد میں امام شافعی نے بھی مفتوحہ زمینوں کی تقسیم کے باب میں قرآن کی بظاہر مطلق ہدایت ہی کو حکم شرعی قرار دینے پر اصرار کیا۔
اسی نوعیت کی ایک مثال جنگ میں مقتول دشمن سے چھینے گئے اسباب کو اس کے قاتل کا حق قرار دینے کی ہدایت ہے۔ عہد نبوی وعہد صحابہ میں جنگوں کے موقع پر عموماً یہی طریقہ اختیار کیا جاتا تھا کہ جنگ میں جو شخص جتنے دشمنوں کو مار کر ان کا اسباب چھین لے گا، وہ انفرادی طور پر اسی کا حق ہوگا، یعنی اسے اجتماعی مال غنیمت کا حصہ شمار نہیں کیا جائے گا۔ تاہم سیدنا عمر کے دور میں ایک جنگ میں حضرت خالد بن ولید کی سربراہی میں مسلمانوں نے ایک جنگ لڑی اور براء بن مالک نے ایک دشمن پر حملہ کر کے اس کو قتل کر دیا۔ اس کے سامان کی قیمت لگائی گئی تو وہ تیس ہزار تھی۔ سیدنا عمر کو اس کی اطلاع ملی تو انھوں نے فرمایا کہ اس سے قبل ہم سلب کو خمس میں شمار نہیں کرتے تھے، لیکن براء کا سلب قیمت میں بہت زیادہ ہے، اس لیے میرا ارادہ یہ ہے کہ میں اسے خمس میں شمار کروں۔ چنانچہ یہ سلب کو خمس میں شمار کرنے کا پہلا فیصلہ تھا جو اسلام میں کیا گیا۔
یہاں بھی دیکھیے، سلب کو قاتل کا حق قرار دینے کے حکم میں یہ قید لگانے کا امکان کہ اس کی قیمت بہت غیر معمولی نہیں ہونی چاہیے، فقہی طور پر پہلے بھی موجود تھا، لیکن اس کی طرف توجہ تب ہوئی جب عملاً ایک واقعہ پیش آ گیا جس میں اتنے قیمتی مال کو صرف قاتل کے سپرد کر دینے کا فیصلہ قابل اشکال محسوس ہوااور حکم کی ایسی تعبیر کی گئی جو بظاہر نئی اور مختلف تھی۔
اسی کی ایک مثال خلافت کے تاقیامت قریش میں محصور ہونے کا مسئلہ ہے۔ حضرت معاویہ، قریش کی خلافت سے متعلق احادیث کا مطلب یہ سمجھتے تھے کہ یہ سلسلہ قیامت تک قائم رہے گا، اس لیے کہ اس وقت کے حالات کے لحاظ سے ان کے ذہن میں مستقبل کی جو تصویر تھی، وہ انھیں اسی تعبیر کی صحت پر مطمئن کرتی تھی۔ چنانچہ انھوں نے ایسی روایات سن کر سخت ناراضی کا اظہار کیا جن میں قریش کے اقتدار کے خاتمے کی بات بیان کی گئی ہے۔ (صحیح بخاری)
چھٹی صدی ہجری سے پہلے کے فقہاء ومتکلمین بھی عموماً ’’الائمۃ من قریش‘‘ کی روایت کو ایک غیر مشروط شرعی فقہی حکم کا بیان قرار دیتے تھے اور اسے صرف فقہ نہیں، بلکہ علم کلام کے ایک امتیازی مسئلے کی حیثیت دی جاتی تھی اور خوارج کے ’’انحرافات‘‘ میں ایک بات یہ بھی شمار کی جاتی تھی کہ وہ خلافت کو قریش تک محدود نہیں مانتے تھے۔ تاہم جب عملاً قریش کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا تو شارحین کی توجہ ان احادیث کی تعبیر کے دوسرے امکانات کی طرف بھی مبذول ہوئی اور رفتہ رفتہ انھیں پیشین گوئی پر محمول کرنے اور بعض شرائط کے ساتھ مشروط سمجھنے کا رجحان عام ہوتا چلا گیا۔ یہ دوسرا امکان اصولی اور نظری طور پر پہلے بھی موجود تھا، لیکن مجتہدین کی توجہ پہلے امکان پر مرکوز رہی اور اس اختلاف نظر کی وجہ بدیہی طور پر واقعاتی تناظر کا فرق تھا۔
اب اسی نکتے کو دور جدید کے بعض اجتہادات کے حوالے سے دیکھیے:
علامہ انور شاہ کشمیریؒ سے پہلے سبھی شارحین سیدنا مسیح علیہ السلام کے نزول کے بعد غلبہ اسلام کی پیشین گوئی کو پوری دنیا سے متعلق قرار دیتے ہیں، لیکن شاہ صاحب نے ’’فیض الباری‘‘ میں اس سے شدید اختلاف کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جنگ ایک خاص علاقے میں ہوگی اور اسلام کا غلبہ بھی اسی محدود خطے میں قائم ہوگا، نہ کہ ساری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو جائے گا۔ فہم کے اس اختلاف کی وجہ بھی بدیہی طور پر دنیا کے حالات میں تبدیلی کا وہ پہلو ہے جو قدیم شارحین کے سامنے نہیں تھا۔
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے ارتداد کی سزا سے متعلق کلاسیکی فقہی موقف کی تائید میں مفصل تحریر لکھی جو ’’مرتد کی سزا‘‘ کے عنوان سے شائع شدہ ہے۔ اس میں مولانا نے نہ صرف نقلی دلائل سے بلکہ جدید قانونی وسیاسی تصورات کی روشنی میں عقلی دلائل سے بھی اس سزا کا جواز اور معقولیت واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم مولانا کو اس سوال کا بھی سامنا ہے کہ دور جدید میں اسلامی تعلیم وتربیت کے نظام میں نقص اور کافرانہ تعلیم وتربیت کے اثرات کے تحت نئی نسلوں میں اسلام سے فکری انحراف کا میلان اس درجے میں پھیل چکا ہے کہ انھیں قانون ارتداد کے تحت جبراً دائرہ اسلام میں مقید رکھنے سے ’’اسلام کے نظام اجتماعی میں منافقین کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہو جائے گی جس سے ہر وقت ہر غداری کا خطرہ رہے گا۔‘‘ مولانا نے اس سوال کے تناظر میں قانون ارتداد میں ایک نئی قید کا اضافہ کیا ہے جو کلاسیکی فقہی تعبیر سے متجاوز ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلامی ریاست کو ایسے عناصر سے بچنے کے لیے یہ کرنا ہوگا کہ وہ ایک خاص مدت مقرر کر دے جس میں ایسے تمام عناصر کو ریاست کی شہریت ترک کر دینے کا موقع دیا جائے اور اس کے بعد جو لوگ علیٰ وجہ البصیرت اسلامی ریاست میں سکونت پذیر ہونا پسند کریں، انھی پر سزائے ارتداد نافذ کی جائے۔ یہاں اس تعبیر کی معقولیت یا عملیت زیر بحث نہیں، صرف یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ حکم کی اس نئی تعبیر کا تعلق ان نئے حالات سے ہے جن سے آج کے مجتہدین کو واسطہ ہے اور وہ تقاضا کر رہے ہیں کہ کلاسیکی تعبیر کو بعینہ اختیار نہ کیا جائے، بلکہ اس میں ضروری شرائط وقیود کا اضافہ کیا جائے۔
اسی قانون کی نئی تعبیر سے متعلق دوسری مثال بھی مولانا مودودی کے ہاں ہی ملتی ہے۔ اس کا ماخذ مولانا کی براہ راست لکھی ہوئی کوئی تحریر نہیں، بلکہ مولانا مفتی محمود ؒ کی روایت ہے جو ان سے مفتی صاحب کے شاگرد اور ہمارے مرحوم استاذ مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی ؒ نے ’’فتاویٰ مفتی محمود‘‘ کی جلد پنجم کے مقدمے میں نقل کی ہے۔ اس کے مطابق مولانا نے پاکستان کے ضابطہ تعزیرات میں سزائے ارتداد کو شامل کرنے سے اختلاف فرمایا اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ اس سے غیر مسلم ممالک میں اسلام کی دعوت اور شیوع کے مواقع اور امکانات پر زد پڑے گی۔
یہاں دیکھیے، کسی شرعی حکم کو دینی مصالح کے تناظر میں دیکھنا اور ان کی روشنی میں اس کے نفاذ میں تحدیدات وقیود عائد کرنا اصولی طور پر ایک مسلمہ اجتہادی اصول ہے، لیکن ارتداد کی سزا کو اس تناظر میں دیکھنے اور قانون کی نئی تعبیر کا امکان عملاً اس نئی صورت حال کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جو دور جدید میں پائی جاتی ہے اور راسخ العقیدہ اہل اجتہاد کو متوجہ کرتی ہے کہ اسے اپنے تعبیراتی زاویہ نظر میں وزن دیں۔