(مصنف کی زیر ترتیب کتاب ’’حدود وتعزیرات: چند اہم مباحث‘‘ کا ایک باب۔)
زنا کی سزا سے متعلق دوسری آیت سورۂ نور میں آئی ہے۔ ارشاد ہوا ہے:
اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِاءَۃَ جَلْدَۃٍ وَلَا تَأْخُذْکُم بِہِمَا رَأْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَاءِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ. (النور۲۴: ۲)
’’زانی عورت اور زانی مرد، ان میں سے ہر ایک کو سو سو کوڑے مارو۔ اور اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر فی الواقع ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے دین کے معاملے میں ان دونوں کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ تم پر حاوی نہ ہو جائے۔ اور ان دونوں کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود ہونا چاہیے۔‘‘
آیت، جیسا کہ واضح ہے، کسی قسم کی تخصیص کے بغیر زنا کی سزا صرف سو کوڑے بیان کرتی ہے۔ یہاں قرآن مجید کا سو کوڑوں کی سزا کے بیان پر اکتفا کرنا اور اس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ میں کسی فرق کی تصریح نہ کرنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ہر طرح کے زانی کو بس یہی سزا دینا چاہتا ہے۔ مزید برآں اسی سلسلہ بیان میں چند آیتوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے تعیین کے ساتھ شادی شدہ زانی کے لیے بھی سو کوڑوں ہی کی سزا کی تصریح فرمائی ہے۔ چنانچہ آیت ۲ و۳ میں زنا کی سزا بیان کرنے کے بعد آیت ۴و۵ میں پاک دامن عورتوں پر بدکاری کا الزام لگانے والوں کے لیے قذف کی سزا بیان ہوئی ہے اور اس کے بعد آیت ۶ تا ۱۰ میں میاں بیوی کے مابین لعان کا حکم بیان کیا گیا ہے جس کی رو سے اگر شوہر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے اور چار گواہ پیش نہ کر سکے تو اسے اپنے الزام کے سچا ہونے پر پانچ قسمیں کھانا ہوں گی۔ اس کے بعد بیوی اگر زنا کی سزا سے بچنا چاہتی ہے تو اسے بھی اس الزام کے جھوٹا ہونے پر پانچ قسمیں کھانا ہوں گی۔ ارشاد ہوا ہے:
وَیَدْرَؤُا عَنْہَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْہَدَ اَرْبَعَ شَہٰدٰتٍ بِاللّٰہِ اِنَّہُ لَمِنَ الْکٰذِبِیْنَ (آیت ۸)
’’اور (مرد کے قسمیں کھانے کے بعد) عورت سے یہ سزا اس صورت میں ٹلے گی جب وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ گواہی دے کہ اس کا خاوند جھوٹا ہے۔‘‘
یہاں شادی شدہ عورت کی سزا کے لیے ’العذاب‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو معرفہ ہے اور عربی زبان کے قواعد کی رو سے اس سے مراد وہی سزا یعنی ۱۰۰ کوڑے ہو سکتی ہے جس کا ذکر اس سے پیچھے آیت ۲ میں ’ولیشہد عذابہما طائفۃ من المومنین‘ کے الفاظ سے ہوا ہے۔ رازی لکھتے ہیں:
الالف واللام الداخلان علی العذاب لا یفیدان العموم لانہ لم یجب علیہا جمیع انواع العذاب فوجب صرفہما الی المعہود السابق والمعہود السابق ہو الحد لانہ تعالیٰ ذکر فی اول السورۃ ولیشہد عذابہما طائفۃ من المومنین والمراد منہ الحد (التفسیر الکبیر، ۲۳/۱۴۶)
’’العذاب پر داخل الف لام عموم کا فائدہ نہیں دیتا، کیونکہ اس عورت پر ہر نوع کاعذاب لازم نہیں، اس لیے العذابسے وہی عذاب مراد لینا ضروری ہے جس کا پیچھے ذکر ہو چکا ہے اور وہ ’حد‘ کا عذاب ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ کے آغاز میں فرمایا ہے کہ ’ولیشہد عذابہما طائفۃ من المومنین‘ اور یہاں عذاب سے مراد حد ہی کا عذاب ہے۔‘‘
رازی نے یہ بات اصلاً اس تناظر میں لکھی ہے کہ ’العذاب‘ کا لفظ لعان سے انکار کرنے والی خاتون کے لیے جس سزا کو بیان کر رہا ہے، اس سے مراد آیا دنیوی سزا ہے یا آخرت کا عذاب، اور ان کی بات کا مطلب یہ ہے کہ ’العذاب‘ کا الف لام اسی عذاب یعنی دنیوی سزا پر دلالت کر رہا ہے جس کا ذکر سیاق کلام میں ’عذابہما‘ کے لفظ سے ہو چکا ہے۔ تاہم عربیت کی رو سے ’العذاب‘ کا الف لام صرف عذاب کی نوعیت کے حوالے سے نہیں بلکہ سزا کی متعین صورت کے حوالے سے بھی اسی سزا پر دلالت کرتا ہے جو ’عذابہما‘ میں بیان ہوئی ہے۔ ابن قیم نے اس نکتے کو یوں واضح کیا ہے:
والعذاب المدفوع عنہا بلعانہا ہو المذکور فی قولہ تعالیٰ ولیشہد عذابہما طائفۃ من المومنین وہذا عذاب الحد قطعا فذکرہ مضافا ومعرفا بلام العہد فلا یجوز ان ینصرف الی عقوبۃ لم تذکر فی اللفظ ولا دل علیہا بوجہ ما من حبس او غیرہ (زاد المعاد، ۹۷۸)
’’یہاں لعان کے ذریعے سے عورت سے جس سزا کے ٹلنے کا ذکر کیا گیا ہے، وہ وہی ہے جو اس سے قبل ’ولیشہد عذابہما طائفۃ من المومنین‘ میں مذکور ہے۔ اس سے مراد لازماً زنا کی مقررہ سزا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے اس کا ذکر اضافت کے ساتھ (عذابہما) کیا ہے اور اس کے بعد لام عہد (العذاب) کے ساتھ، چنانچہ ’العذاب‘ سے مراد کوئی ایسی سزا مثلاً عورت کو قید کر دینا وغیرہ ہو ہی نہیں سکتی جس کا پیچھے نہ الفاظ میں ذکر ہوا ہے اور نہ اس پر کسی قسم کا کوئی قرینہ پایا جاتا ہے۔ ‘‘
سورۂ نور کی مذکورہ آیت کی طرح سورۂ نساء کی آیت ۲۵ سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی اجازت بیان کی ہے کہ اگر کوئی شخص آزاد عورت سے نکاح کی مقدرت نہ رکھتا ہو تو وہ کسی مسلمان لونڈی سے نکاح کر سکتا ہے۔ یہاں شادی شدہ لونڈی کے لیے بدکاری کی سزا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
فَاِذَا اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ (نساء ۴:۲۵)
’پھر جب وہ قید نکاح میں آ جائیں اور اس کے بعد بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان کو اس سے آدھی سزا دی جائے جو آزاد عورتوں کو دی جاتی ہے۔‘‘
آیت میں ’نصف ما علی المحصنات من العذاب‘ کے الفاظ اس مفہوم میں صریح ہیں کہ متکلم کے نزدیک آزاد عورتوں کے لیے زنا کی ایک ہی سزا ہے اور وہ ایسی ہے جس کی تنصیف ہو سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ رجم کی سزا اس کا مصداق نہیں ہو سکتی۔
مفسرین نے کلام کی کسی داخلی دلالت کے بغیر شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا کو پیشگی فرض کرتے ہوئے بالعموم اس آیت کی تاویل یہ بیان کی ہے کہ چونکہ رجم کی تنصیف نہیں ہوسکتی، اس لیے لونڈیوں کے لیے نصف سزا بیان کرنا اس بات کا قرینہ ہے کہ اس سے مراد کوڑوں ہی کی سزا ہے۔ (زمخشری، الکشاف، ۱/۵۳۲۔ ابن عطیہ، المحرر الوجیز، ۲/۳۹۔ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ۱/۴۷۸) لیکن یہ بات کلام کے مدعا کی توضیح کے بجائے اس کو الٹ دینے کے مترادف ہے، کیونکہ کلام کے اسلوب سے واضح ہے کہ متکلم زنا کی دو سزائیں فرض کرتے ہوئے ان میں سے ایک کا انتخاب کر کے اس کی تنصیف کرنے کی بات نہیں کہہ رہا، بلکہ ’العذاب‘ یعنی زنا کی ایک متعین اور معہود سزا سے آدھی سزا دینے کی بات کر رہا ہے۔ بالبداہت واضح ہے کہ اس کا اشارہ سورۂ نور میں بیان کردہ سزا کی طرف ہے جہاں کسی قسم کی تفریق کے بغیر زنا کی ایک ہی سزا بیان کی گئی ہے۔ فرض کر لیجیے کہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں فرق متکلم کے ذہن میں پہلے سے موجود ہے، پھر بھی ’نصف ما علی المحصنت‘ کے الفاظ شادی شدہ زانی کی سزا رجم نہ ہونے پر ہی دلالت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں شادی شدہ لونڈیوں کو آزاد عورتوں کے مقابلے میں نصف سزا دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ اب اگر آزاد عورتوں میں زنا کی سزا کے اعتبار سے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی تقسیم موجود ہے تو ظاہر ہے کہ شادی شدہ لونڈی کا تقابل شادی شدہ آزاد عورت ہی کے ساتھ کیا جائے گا نہ کہ غیر شادی شدہ کے ساتھ، اس لیے کہ تقابل اسی صورت میں بامعنی قرار پاتا ہے ۔ اگر متکلم اس متبادر مفہوم سے مختلف کسی مفہوم کا ابلاغ کرنا چاہتا ہے تو بلاغت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے لیے کوئی قرینہ کلام میں بہم پہنچایا جائے جو یہاں موجود نہیں۔
قرآن مجید کے نصوص کی وضاحت کے بعد اب ہم بحث کے دوسرے نکتے کی طرف آتے ہیں۔ روایات سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ ہونے کی بنیاد پر زانی کی سزا میں فرق کیا اور قرآن کی بیان کردہ سزا کے علاوہ کنوارے زانی کے لیے ایک سال کی جلاوطنی جبکہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی اضافی سزا مقرر فرمائی۔ اس ضمن میں روایات دو طرح کی ہیں: ایک وہ جن میں شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کا قولی حکم مذکور ہے اور دوسری وہ جن میں مختلف مقدمات کے حوالے سے بعض مجرموں کو عملاً رجم کی سزا دینے کا ذکر ہوا ہے۔
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
کان نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا انزل علیہ کرب لذلک وتربد لہ وجہہ قال فانزل علیہ ذات یوم فلقی کذلک فلما سری عنہ قال خذوا عنی فقد جعل اللّٰہ لہن سبیلا: الثیب بالثیب والبکر بالبکر، الثیب جلد ماءۃ ثم رجم بالحجارۃ، والبکر جلد ماءۃ ثم نفی سنۃ. (مسلم، رقم ۳۲۰۰)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی تو آپ کو تکلیف ہوتی اور اس کی شدت سے آپ کا چہرہ کسی قدر سیاہ ہو جاتا۔ ایک دن آپ پر وحی نازل ہوئی اور یہی کیفیت آپ پر طاری ہو گئی۔ جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا: مجھ سے لے لو۔ اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کے لیے راہ پیدا کر دی ہے۔ شادی شدہ زانی شادی شدہ زانیہ کے ساتھ ہے اور کنوارا زانی کنواری زانیہ کے ساتھ۔ شادی شدہ کو سو کوڑے مارنے کے بعد سنگسار کیا جائے، جبکہ کنوارے کو سو کوڑے مارنے کے بعد ایک سال کے لیے جلاوطن کر دیا جائے۔‘‘
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:
لا یحل دم امرئ مسلم یشہد ان لا الٰہ الا اللّٰہ وانی رسول اللّٰہ الا باحدی ثلاث: النفس بالنفس والثیب الزانی والمارق من الدین التارک للجماعۃ. (بخاری، رقم ۶۳۷۰)
’’کسی مسلمان کی، جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، جان لینا تین صورتوں کے سوا جائز نہیں: جان کے بدلے جان، شادی شدہ زانی اور وہ شخص جو دین سے نکل کر مسلمانوں کی جماعت کا ساتھ چھوڑ دے۔‘‘
بعض روایات کے مطابق رجم کا حکم قرآن مجید میں باقاعدہ ایک آیت کی صورت میں نازل ہوا تھا۔ ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر نے ایک موقع پر اپنے خطبے میں فرمایا :
ان اللہ بعث محمدا بالحق وانزل علیہ الکتاب فکان مما انزل اللہ آیۃ الرجم فقراناہا وعقلناہا ووعیناہا رجم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورجمنا بعدہ فاخشی ان طال بالناس زمان ان یقول قائل واللہ ما نجد آیۃ الرجم فی کتاب اللہ فیضلوا بترک فریضۃ انزلہا اللہ والرجم فی کتاب اللہ حق علی من زنی اذا احصن من الرجال والنساء اذا قامت البینۃ او کان الحبل او الاعتراف (بخاری، ۶۳۲۸)
’’اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ پر کتاب نازل کی۔ اللہ تعالیٰ نے جو وحی نازل کی، اس میں رجم کی آیت بھی تھی، چنانچہ ہم نے اسے پڑھا اور سمجھا اور اسے یاد کیا۔ (اس پر عمل کرتے ہوئے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کی سزا دی اور آپ کے بعد ہم نے بھی اس پر عمل کیا۔ مجھے خدشہ ہے کہ زیادہ وقت گزرنے کے بعد کوئی شخص یہ کہے گا کہ بخدا ہم کتاب اللہ میں رجم کی آیت کو موجود نہیں پاتے۔ اس طرح وہ اللہ کے اتارے ہوئے ایک فریضے کو چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں گے۔ جو مرد یا عورت محصن ہونے کی حالت میں زنا کا ارتکاب کرے اور اس پر گواہ موجود ہوں یا حمل ظاہر ہو جائے یا وہ خود اعتراف کر لے تو اللہ کی کتاب میں اس کے لیے رجم کی سزا ثابت ہے ۔‘‘
رجم کا حکم قرآن میں نازل ہونے کی روایات سیدنا عمر کے علاوہ ابی بن کعب اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہیں اور ان میں یہ آیت ’الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموہما البتۃ‘ (بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت جب زنا کریں تو ان کو لازماً سنگ سار کردو)کے الفاظ میں نقل ہوئی ہے۔ (مسند احمد، رقم ۲۰۶۱۳۔ موطا امام مالک، رقم ۲۵۶۸)
اس باب میں نقل ہونے والے مقدمات میں ماعز اسلمی (بخاری، رقم ۴۸۶۵)، قبیلۂ غامد کی ایک خاتون (مسلم، رقم ۳۲۰۸)، اپنے مالک کی بیوی سے بدکاری کرنے والے مزدور (بخاری، رقم ۲۵۲۳)، زنا کا ارتکاب کرنے والے ایک یہودی جوڑے، (بخاری، رقم ۳۳۶۳) اور نماز کے لیے جاتی ہوئی خاتون کو راستے میں پکڑ کر اس سے زیادتی کرنے والے ایک شخص (ابو داؤد، رقم ۴۳۷۹۔ ترمذی، رقم ۱۴۵۴) کے واقعات معروف ہیں۔
مذکورہ روایات کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی میں فرق کیا اور دونوں کے لیے جلا وطنی اور رجم کی اضافی سزائیں مقرر کی ہیں جو بظاہر قرآن مجید کے مدعا سے متجاوز دکھائی دیتی ہیں۔ قرآن مجید کی بیان کردہ سزا اور مذکورہ روایات میں تطبیق وتوفیق کی صورت کیا ہو؟ یہ سوال ہمیشہ سے اہل علم کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ صدر اول میں خوارج اور بعض معتزلہ نے رجم کو قرآن مجید کے منافی قرار دیتے ہوئے شرعی حکم کے طور پر تسلیم کرنے سے ہی سرے سے انکار کر دیا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ نہ صرف ’الزانیۃ والزانی‘ کا عموم اس کا مقتضی ہے کہ ہر قسم کے زانی کے لیے سو کوڑے ہی شرعی حد ہو، بلکہ قرآن مجید نے جس قدر تفصیل کے ساتھ زنا سے متعلق احکام وقوانین کو موضوع بنایا ہے، اتنا کسی دوسرے جرم کو نہیں بنایا اور اگر رجم کی سزا بھی زنا کی سزاؤں میں شامل ہوتی تو قرآن مجید لازماً اس کا ذکر کرتا۔ (رازی، التفسیر الکبیر ۲۳/۱۱۷، ۱۱۸) خوارج وغیرہ نے اس بنیاد پر رجم کی روایات کو سرے سے ناقابل اعتنا قرار دیا، تاہم یہ نقطۂ نظر امت کے جمہور اہل علم کے ہاں پذیرائی حاصل نہیں کر سکا اور انھوں نے رجم کی روایات کو قبول کرتے ہوئے قرآن مجید کے ساتھ اس حکم کی توفیق وتطبیق کی راہ اختیار کی۔ اس ضمن میں جو مختلف علمی توجیہات پیش کی گئیں ہیں، ذیل کی سطور میں ہم ان کا ایک تنقیدی مطالعہ کریں گے۔
۱۔ ایک نقطہ نظر یہ پیش کیا گیا ہے کہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی آیت خود قرآن مجید میں نازل ہوئی تھی جو بعد میں الفاظ کے اعتبار سے تو منسوخ ہو گئی، لیکن اس کا حکم باقی رہ گیا۔ (ابن حزم، المحلیٰ ۱۱/۲۳۴۔ ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ ۲۰/۳۹۸، ۳۹۹) اس موقف کے حق میں بناے استدلال بالعموم سیدنا عمر کے اس خطبے کوبنایا جاتا ہے جس کا متن ہم نے اوپر رجم سے متعلق روایات کے ضمن میں نقل کیا ہے۔**
اس مفہوم کی روایات اس حوالے سے باہم متعارض ہیں کہ رجم کا حکم آیا قرآن مجید کی کسی باقاعدہ آیت کے طور پر نازل ہوا تھا یا قرآن سے باہر کسی الگ حکم کے طور پر۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت باقاعدہ قرآن مجید کے ایک حصے کے طور پر نازل ہوئی تھی اور اسی حیثیت سے پڑھی جاتی تھی، چنانچہ زر بن حبیش ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا کہ سورہ احزاب اپنے حجم میں سورۂ بقرہ کے برابر ہوا کرتی تھی اور اس میں یہ آیت بھی تھی: ’الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموہما البتۃ نکالا من اللہ واللہ عزیز حکیم‘ (بیہقی، ۱۶۶۸۸۔ نسائی، السنن الکبریٰ، ۷۱۵۰) اس کے برعکس بعض دوسری روایات یہ بتاتی ہیں کہ کہ یہ قرآن مجید سے الگ ایک حکم تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حین حیات میں اسے قرآن مجید میں لکھنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ کثیر بن ا لصلت روایت کرتے ہیں کہ زید بن ثابت نے ایک موقع پر مروان کی مجلس میں یہ کہا کہ ہم ’الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموہما البتۃ ‘ کی آیت پڑھا کرتے تھے۔ اس پر مروان نے کہا کہ کیا ہم اسے مصحف میں درج نہ کر لیں؟ زید نے کہا کہ نہیں، دیکھتے نہیں کہ جوان شادی شدہ مرد عورت بھی اگر زنا کریں تو انھیں رجم کیا جاتا ہے۔ پھر انھوں نے بتایا کہ یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں صحابہ کے مابین زیر بحث آئی تو سیدنا عمر نبی صلی اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ، مجھے رجم کی آیت لکھوا دیجیے، لیکن آپ نے فرمایا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا۔ (بیہقی، ۱۶۶۹۰۔ نسائی، السنن الکبریٰ، ۷۱۴۸)
بہرحال رجم کا حکم قرآن مجید میں نازل کیے جانے کے بعد اس سے نکال لیا گیا ہو یا ابتدا ہی سے اسے قرآن کا حصہ بنانے سے گریز کیا گیا ہو، دونوں صورتوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر شارع کے پیش نظر اس کو ایک مستقل حکم کے طور پر برقرار رکھنا تھا تو مذکورہ طریقہ کیوں اختیارکیا گیا؟ اگر یہ مانا جائے کہ شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کی آیت قرآن میں نازل ہونے کے بعد اس سے نکال لی گئی تو اس کی واحد معقول توجیہ یہی ہو سکتی ہے کہ اب یہ حکم بھی منسوخ ہو چکا ہے، ورنہ حکم کو باقی رکھتے ہوئے آیت کے الفاظ کو منسوخ کر دینے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ اور اگر یہ فرض کیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی یہ حکم تو دیا گیا تھا لیکن اسے قرآن مجید کا حصہ بنانے سے بالقصد گریز کیا گیا تو بظاہر یہ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ ایک وقتی نوعیت کا حکم تھا جسے ابدی شرعی احکام کی حیثیت سے برقرار رکھنا اللہ تعالیٰ کے پیش نظر نہیں تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صرف اسی سزا کے بیان پر اکتفا کی جسے ابدی طور پر باقی رکھنا ضروری تھا۔ مذکورہ دونوں صورتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رجم کے حکم کے منسوخ ہو جانے کی بات بظاہر معقول دکھائی دیتی ہے، لیکن اس امر کی توجیہ کسی طرح نہیں ہو پاتی کہ یہ بات صحابہ سے کیسے مخفی رہ گئی، کیونکہ نہ صرف سیدنا عمر جیسے بلند پایہ فقیہ رجم کے ایک شرعی حکم کے طورپر باقی ہونے کے قائل ہیں، بلکہ خلفاے راشدین اور دوسرے اکابر صحابہ کے ہاں بھی متفقہ طور پر یہی تصور پایا جاتا ہے۔
۲۔ امام شافعی نے یہ زاویۂ نگاہ پیش کیا ہے کہ اگرچہ قرآن مجید کے الفاظ بظاہر عام ہیں اور ان کو غیر شادی شدہ زانی کے ساتھ خاص کرنے کا کوئی قرینہ کلام میں موجود نہیں، تاہم قرآن مجید کا حقیقی مدعا اس کے ظاہر الفاظ کے بجائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کی روشنی میں زیادہ درست طور پر متعین کیا جا سکتا ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر کرنا گویا اس بات کی وضاحت ہے کہ قرآن میں ’الزانیۃ والزانی‘ کے الفاظ درحقیقت صرف کنوارے زانیوں کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ (الشافعی، الرسالہ، ۶۶، ۶۷، ۷۲)
امام صاحب کے نقطہ نظر پر ہمارا بنیادی اشکال یہ ہے کہ امام صاحب نے اس مسئلے کو سنت کے ذریعے سے قرآن مجید کی تخصیص کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے، جبکہ یہ درحقیقت تخصیص کی نہیں بلکہ قرآن پر زیادت کی مثال ہے، چنانچہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی روایت میں، جو زنا کی سزا کے قانونی بیان کا بنیادی ماخذ ہے، کوڑوں کی سزا کے حوالے سے شادی شدہ اور کنوارے زانی میں کوئی فرق نہیں کیا گیا، بلکہ اسے دونوں پر یکساں قابل اطلاق قرار دیا گیا ہے، البتہ اس کے ساتھ ساتھ کنوارے زانی کے لیے ایک سال کی جلاوطنی کی جبکہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی اضافی سزا بھی بیان کی گئی ہے۔ امام شافعی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ سورۂ نساء میں زنا کی عبوری سزا مقرر کیے جانے کے بعد سورۂ نور کی آیات نازل ہوئیں جن میں زنا کی مستقل سزا مقرر کی گئی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حکم کی وضاحت میں وہ تفصیل بیان کی جو عبادہ بن صامت کی روایت میں نقل ہوئی ہے، البتہ امام صاحب کی رائے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے یہ واضح فرمایا ہے کہ شادی شدہ زانی کو صرف رجم کی سزا دی جائے گی جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو سو کوڑوں کی سزا دینا منسوخ ہو چکا ہے۔ تاہم اس سے صورت حال میں کوئی ایسا فرق واقع نہیں ہوتا جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ یہ سنت کے ذریعے سے قرآن پر زیادت کی نہیں بلکہ تخصیص کی مثال ہے، اس لیے کہ عبادہ بن صامت کی روایت سے واضح ہے کہ یہ حکم سورۂ نساء میں زنا کی عبوری سزا کے بیان کے بعد نازل ہونے والا پہلا مستقل حکم ہے اور اس میں شادی شدہ زانی کے لیے رجم کے ساتھ ساتھ کوڑوں کی سزا بھی بیان ہوئی ہے، اس لیے اگر امام شافعی کی رائے کے مطابق یہ تسلیم کر لیا جائے کہ کوڑوں کی سزا بعد میں منسوخ ہو گئی تھی تو بھی عبادہ بن صامت کی روایت کی حد تک یہ ’زیادت‘ ہی ہے، اسے کسی طرح بھی ’تخصیص‘ نہیں کہا جا سکتا۔
برسبیل تنزل اسے ’تخصیص‘ کی مثال مان لیا جائے تو بھی امام صاحب کی اس بات سے اتفاق کرنا ممکن نہیں کہ قرآن مجید شادی شدہ زانی کی سزا بیان کرنے کے معاملے میں قطعی نہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا مقرر کرنا قرآن کے محتمل اور ظنی الدلالۃ الفاظ کی وضاحت اور بیان کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہم واضح کر چکے ہیں کہ ’الزانیۃ والزانی‘ کے ظاہری عموم کے علاوہ سورۂ نور میں ’یدرؤ عنہا العذاب‘ اور سورۂ نساء میں ’نصف ما علی المحصنت من العذاب‘ کے الفاظ صریحاً یہ بتاتے ہیں کہ شادی شدہ زانی کے لیے بھی سو کوڑے ہی کی سزا ہے۔ چنانچہ روایت نے اگر قرآن کی ’تخصیص‘ کی ہے تو شرح ووضاحت اور ’بیان‘ کے طریقے پر نہیں بلکہ نسخ اور تغییر کے طریقے پر کی ہے جس کے جواز کے خود امام شافعی بھی قائل نہیں۔ ان وجوہ سے امام شافعی کی رائے ہمارے نزدیک معاملے کو ضرورت سے زیادہ سادہ بنا کر پیش کرنے (oversimplification) کی ایک مثال ہے جسے علمی بنیادوں پر قبول کرنا ممکن نہیں۔
مولانامودودی نے امام شافعی کے زاویہ نگاہ کو ایک دوسرے انداز سے پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن مجید صرف غیر شادی شدہ زانی کی سزا بیان کرتا ہے اور اس کے لیے خود قرآن مجید میں قرائن موجود ہیں۔ مولانا نے اس ضمن میں جو استدلال پیش کیا ہے، اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
استدلال کا پہلا مقدمہ یہ ہے کہ سورۂ نساء کی آیت ۱۵ میں اللہ تعالیٰ نے زنا کی جو مستقل سزا مقرر کرنے کا وعدہ کیا اور پھر اسی سورہ کی آیت ۲۵ میں شادی شدہ لونڈی کے لیے جس سزا کا ذکر کیا ہے، وہ وہی ہے جو سورۂ نور کی آیت ۲ میں بیان کی گئی ہے۔ دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ ’نصف ما علی المحصنت‘ (نساء ۲۵) میں ’محصنات‘ کا لفظ شادی شدہ آزاد عورتوں کے مفہوم میں نہیں بلکہ غیر شادی شدہ آزاد عورتوں کے مفہوم میں ہے اور مطلب یہ ہے کہ لونڈیوں کو غیر شادی شدہ آزاد عورتوں کی سزا سے آدھی سزا دی جائے۔ ان دو مقدموں سے مولانا یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ چونکہ سورۂ نساء کی آیت ۲۵ میں لونڈیوں کو غیر شادی شدہ آزاد عورتوں کی سزا سے آدھی سزا دینے کا حکم دیا گیا ہے، جبکہ اصل سزا سورۂ نور میں بیان ہوئی ہے، اس لیے سورۂ نور میں بیان ہونے والی سزا بھی لازماً غیر شادی شدہ آزاد عورتوں ہی سے متعلق ہے۔ (تفہیم القرآن، ۳/۳۲۶)
دوسرے مقدمے کے حق میں مولانا نے دو دلیلیں پیش کی ہیں: ایک کہ اسی آیت کے شروع میں ’من لم یستطع منکم طولا ان ینکح المحصنات المومنات‘ میں محصنات کا لفظ غیر شادی شدہ آزاد عورتوں کے لیے آیا ہے، اس لیے اسی سیاق میں جب یہ لفظ دوبارہ استعمال ہوا ہے تو اس سے مراد بھی غیر شادی شدہ عورتیں ہی ہو سکتی ہیں۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ زنا کی سزا دراصل اس حفاظت کو توڑنے کی سزا ہے جو عورت کو خاندان یا نکاح کی صورت میں حاصل ہوتی ہے۔ شادی شدہ آزاد عورت کو دونوں حفاظتیں میسر ہوتی ہیں جبکہ غیر شادی شدہ کو صرف ایک۔ اس کے برعکس لونڈی خاندان کی حفاظت سے بالکل محروم ہوتی ہے ، جبکہ شادی شدہ ہونے کی صورت میں اسے صرف ایک حفاظت حاصل ہوتی ہے اور وہ بھی ادھوری، چنانچہ لونڈی کا تقابل شادی شدہ آزاد عورت سے نہیں، جس کو دوہری حفاظت حاصل ہوتی ہے، بلکہ غیر شادی شدہ آزاد عورت سے ہونا چاہیے جسے لونڈی کی طرح ایک ہی حفاظت میسر ہوتی ہے۔ (تفہیم القرآن، ۱/۳۴۲، ۳۴۳)
مولانا کا پیش کردہ یہ استدلال واقعہ یہ ہے کہ ہر لحاظ سے بالکل بے بنیاد ہے۔ اول تو ان کا یہ استنتاج عجیب ہے کہ چونکہ نساء میں لونڈیوں کو غیر شادی شدہ آزاد عورتوں سے آدھی سزا دینے کا حکم دیا گیا ہے، اس لیے سورۂ نور میں بیان ہونے والی سزا بھی کنوارے زانیوں ہی سے متعلق ہے۔ نساء کی آیت سے واضح ہے کہ سورۂ نور کی آیت اس سے پہلے نازل ہو چکی تھی، چنانچہ یہ بات طے کرنے کے قرائن کہ سورۂ نور میں کون سے زانی زیر بحث ہیں، خود سورۂ نور میں موجود ہونے چاہییں اور انھی روشنی میں اس کا فیصلہ کرنا چاہیے، نہ کہ سورۂ نور کے احکام کا دائرۂ اطلاق سورۂ نساء کی آیات سے متعین کرنا چاہیے۔ اگر سورۂ نور کے احکام کے دائرۂ اطلاق کی تعیین کے لیے نساء کی آیت ۲۵ ہی قرآن مجید میں واحد بنیاد ہے تو سوال یہ ہے کہ جب تک اس آیت میں مذکورہ قرینہ اگر اسے کوئی قرینہ کہا جا سکے بہم نہیں پہنچایا گیا تھا، اس وقت تک سورۂ نور میں اللہ تعالیٰ کے منشا تک رسائی کا ذریعہ کیا تھا؟ حکم کو بیان کر دینا لیکن اس کے ایک نہایت بنیادی پہلو کے فہم کو معلق رکھتے ہوئے اس کے قرائن کو بعد میں کسی دوسری جگہ پر الگ رکھ دینا آخر زبان وبیان اور بلاغت کا کون سا اسلوب ہے؟
مولانا نے سورۂ نساء کی آیت ۲۵ میں جس قرینے کی نشان دہی کی ہے، وہ بھی دلچسپ ہے۔ عربی زبان میں ’محصنات‘ کا لفظ ’’آزاد عورتوں‘‘کے مفہوم میں استعمال ہو تو اس کا مصداق بننے والے افراد اپنی حالت کے لحاظ سے شادی شدہ بھی ہو سکتے ہیں اور غیر شادی شدہ بھی، لیکن اس فرق پر کوئی دلالت لفظ کے اپنے مفہوم میں داخل نہیں۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ کسی مخصوص سیاق کلام میں قرینے کی بنا پر اس لفظ کا اطلاق صرف شادی شدہ یا غیر شادی شدہ عورتوں تک محدود ہو جائے، لیکن ’محصنات‘ کا لفظ موقع کلام سے پیدا ہونے والی اس تخصیص سے قطع نظر فی نفسہ محض ’’آزاد عورتوں‘‘ کے مفہوم پر دلالت کرتا ہے۔ زیر بحث آیت میں بھی ’من لم یستطع منکم ان ینکح المحصنات‘ میں لفظ ’محصنات‘ محض ’’آزاد عورتوں‘‘ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ’’غیر شادی شدہ آزاد عورت‘‘ ہونا اس کا معنی یا اس کے استعمالات میں سے کوئی استعمال نہیں، بلکہ اس میں یہ مفہوم اس کے ساتھ متعلق ہونے والے فعل یعنی ’ینکح‘ کے تقاضے سے پیدا ہوا ہے اور عربیت کی رو سے یہ تخصیص اسی جملے تک محدود ہے۔ اس کے بعد جب یہ لفظ ’فعلیہن نصف ما علی المحصنات من العذاب‘ میں دوبارہ استعمال ہوا ہے تو یہاں بھی اس کا مفہوم محض ’’آزاد عورتیں‘‘ ہے، جبکہ ’ینکح المحصنات‘ میں فعل ’ینکح‘ کے تقاضے سے پیدا ہونے والی تخصیص کو یہاں موثر ماننے کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ قرینہ۔
مولانا نے اس ضمن میں اکہرے اور دوہرے احصان کا جو نکتہ بیان کیا ہے، وہ ذہانت آمیز ہے لیکن اس کا عربی زبان یا قرآن مجید کے مدعا سے کوئی تعلق نہیں۔ عربی زبان میں ’محصنات‘ کا لفظ، جیسا کہ ہم نے واضح کیا، سادہ طور پر ’’آزاد عورتوں‘‘ یا ’’شادی شدہ خواتین‘‘ کے مفہوم پر دلالت کرتا ہے۔ ان دونوں استعمالات کی لسانی تحقیق کے تناظر میں یہ نکتہ بالکل درست ہے کہ آزاد عورتوں کو خاندان کی حفاظت حاصل ہوتی ہے اور شادی شدہ عورتوں کو نکاح کی۔ اسی طرح عقلی استدلال کی حد تک یہ بات بھی درست ہے کہ شادی شدہ آزاد عورت کو دو حفاظتیں حاصل ہوتی ہیں جبکہ غیر شادی شدہ کو صرف ایک، لیکن جہاں تک عربی زبان کے استعمال کا تعلق ہے تو اہل زبان اس لفظ کو ’’آزاد عورت‘‘ یا ’’شادی شدہ عورت‘‘ کے بالکل سادہ مفہوم میں استعمال کرتے ہیں۔ اکہرے یا دوہرے احصان کا کوئی تصور نہ اہل زبان کے استعمال میں موجود ہے اور نہ قرآن کے الفاظ میں اس بات کی طرف کوئی اشارہ موجود ہے۔ اس لیے یہ ایک دقیق نکتہ آفرینی تو ہو سکتی ہے، لیکن الفاظ کا مفہوم ومدلول اور متکلم کا مدعا ومنشا متعین کرنے کا یہ طریقہ زبان وبیان کے لیے ایک اجنبی چیز ہے۔
مولاناکی یہ رائے کہ نساء کی آیت ۱۵ غیر شادی شدہ زانیوں ہی سے متعلق تھی، اس وجہ سے بھی محل نظر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث عبادہ میں ’او یجعل اللہ لہن سبیلا‘ کاحوالہ دیتے ہوئے صرف کنوارے زانیوں کے ساتھ شادی شدہ زانیوں کی سزا بھی بیان کی ہے جو اس کی دلیل ہے کہ مذکورہ آیت میں بیان ہونے والی عبوری سزا بھی دونوں ہی سے متعلق تھی۔ مولانا کی بات درست مان لی جائے تویہ سوال تشنہ جواب رہتا ہے کہ اگر یہ آیت صرف غیر شادی شدہ زانیوں سے متعلق تھی تو عبوری سزا بیان کرتے ہوئے صرف انھیں کیوں مدنظر رکھا گیا اور شادی شدہ زانیوں کو کیوں نظر انداز کر دیا گیا۔
مذکورہ بحث کا حاصل یہ ہے کہ جہاں تک قرآن مجید کا تعلق ہے تو اس میں کسی ابہام یا احتمال کے بغیر پوری وضاحت کے ساتھ شادی شدہ اور کنوارے زانی کے لیے ایک ہی سزا یعنی سو کوڑے کی تصریح کی گئی ہے، اس لیے قرآن مجید اور روایات کے مابین تطبیق وتوفیق پیدا کرنے کے لیے قرآن مجید کے بیان کو محتمل اور اس کی دلالت کو ظنی قرار دینے کا نقطہ نظر درست نہیں۔ قرآن کے بیان کا واضح، غیر مبہم اور غیر محتمل ہونا اس بحث کا بنیادی نکتہ ہے اور اس کو نظر انداز کر کے کی جانے والی توجیہ وتطبیق کی ہر کوشش محض دفع الوقتی ہوگی۔
۳۔ اصولیین کے ایک گروہ نے رجم کے حکم کو آیت نور کی ’تخصیص‘ کے بجائے اس پر ’زیادت‘ قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی بیان کردہ سزا ہر قسم کے زانی کے لیے عام ہے، البتہ ان میں سے شادی شدہ زانیوں کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کی صورت میں ایک اضافی سزا بھی مقرر فرمائی ہے۔ اس نقطۂ نظر کے حامل اہل علم میں سے بعض شادی شدہ زانی پر دونوں سزائیں نافذ کرنے کے قائل ہیں، (ابن عبد البر، الاستذکار ۲۴/۴۹) جبکہ بعض کی رائے میں رجم کی سزا نافذ کرنے کی صورت میں چونکہ کوڑے لگانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی، اس لیے عملاً ایک ہی سزا نافذ کی جائے گی۔ (شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ ۲/ ۴۲۷)
اس رائے پر بنیادی اشکال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کی بیان کردہ سزا میں یہ اضافہ آیا سورۂ نور کے نزول کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کے پیش نظر تھا یا اسے بعد میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا؟ اگر دوسری صورت فرض کی جائے تو روایت اسے قبول نہیں کرتی، کیونکہ وہ یہ بتاتی ہے کہ سورۂ نساء کی آیت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جانے والا پہلا حکم یہی تھا، چنانچہ سورۂ نور کا نزول اس حکم کے ساتھ یا اس کے بعد تو مانا جا سکتا ہے، لیکن اس سے پہلے نہیں۔ اس کے برعکس پہلی صورت مانی جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ سو کوڑے لگوانے کے ساتھ ساتھ کنوارے زانی کو جلاوطن جبکہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کروانا چاہتے ہیں تو دونوں حکموں کے ایک ہی موقع پر نازل کیے جانے کے باوجود قرآن مجید کے اس پوری بات کو خود بیان کرنے سے گریز کرنے اور سزا کا ایک جزو قرآن میں جبکہ دوسرا جزو اس سے باہر نازل کی جانے والی وحی میں بیان کرنے کی وجہ اور حکمت کیا ہے اور جب قرآن نے زنا کی سزا کے بیان کو باقاعدہ موضوع بنایا ہے تو مجرم کے حالات کے لحاظ سے اس جرم کی جو مختلف سزائیں دینا اللہ تعالیٰ کے پیش نظر تھا، ان کی وضاحت میں کیا چیز مانع تھی؟ قرآن کے اسلوب کا ایجاز مسلم ہے، لیکن عدت، وراثت اور قتل خطا وغیرہ کی مختلف صورتوں اور ان کے الگ الگ احکام کی تفصیل کا طریقہ خود قرآن میں اختیار کیا گیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ زنا کی سزا کے معاملے میں اس معروف اور مانوس طریقے کو چھوڑ کر ایک ایسا انداز اختیار کیا گیا جو نہ صرف زبان وبیان کے عمومی اسلوب بلکہ خود قرآن کے اپنے طرز گفتگو سے بھی بالکل ہٹ کر ہے؟
ایک احتمال یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید نے تو زنا کی سزا سو کوڑے ہی مقرر کی تھی، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اجتہاد کی بنا پر یہ فیصلہ فرمایا کہ اس پر جلا وطنی اور سنگساری کی سزا کا بھی اضافہ ہونا چاہیے۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت امت پر مطلقاً فرض کی گئی ہے، اس لیے آپ نے قرآن کے علاوہ اپنے اجتہاد کی بنیاد پر جو حکم دیا، امت کے لیے اسے بھی ایک شرعی حکم کی حیثیت سے تسلیم کرنا لازم ہے۔ تاہم یہ مفروضہ بھی اصل الجھن کو حل کرنے میں کسی طور پر مددگار نہیں، اس لیے کہ اصل سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریعی حیثیت کو ماننے یا نہ ماننے یا آپ کی اطاعت کے دائرے کو مطلق یا مقید قرار دینے کا نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ اگر جلاوطنی اور رجم کی اضافی سزائیں مقرر کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا اجتہاد تھا تو کیا آپ کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ جس معاملے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی واضح حکم دیا گیا ہو، اس میں اپنے اجتہاد سے کام لیتے ہوئے نفس حکم میں کوئی ترمیم یا اضافہ کر لیں اور کیا آپ کے اجتہادات میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟ ان سزاؤں کے اضافے کو آپ کے اجتہاد پر مبنی ماننے سے دوسرا اہم اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شرعی سزاؤں کے معاملے میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا رجحان یہ تھا کہ مجرم کو سزا سے بچنے کا موقع دیا جائے، چنانچہ آپ نے زنا کے اعتراف کے ساتھ پیش ہونے والے مجرموں کو اپنے رویے سے واپس پلٹ جانے اور توبہ واصلاح پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اور عمومی طور پر بھی مسلمانوں کو یہی ہدایت کی کہ وہ جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے حتی الامکان سزا سے بچنے کا راستہ تلاش کریں۔ اس تناظر میں یہ بات ایک تضاد دکھائی دیتی ہے کہ ایک طرف آپ مجرموں سے سزا کے نفاذ کو ٹالنے کا رجحان ظاہر کر رہے ہوں اور دوسری طرف انھی مجرموں کے لیے قرآن کی بیان کردہ سزاؤں کو ناکافی سمجھتے ہوئے اپنے اجتہاد سے ان پر مزید اور زیادہ سنگین سزاؤں کا اضافہ فرما رہے ہوں۔ ان وجوہ سے جلاوطنی اور رجم کی اضافی سزاؤں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد پر مبنی قرار دینے کی بات کسی طرح قرین قیاس دکھائی نہیں دیتی۔
ایک مزید احتمال یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید نے صرف نفس زنا کی سزا بیان کی ہے، جبکہ سزا کے نفاذ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ اگر اس میں مجرم کے حالات یا جرم کی نوعیت کے لحاظ سے شناعت کا کوئی مزید پہلو شامل ہو جائے تو اس کی رعایت سے کوئی اضافی سزا بھی اصل سزا کے ساتھ شامل کی جا سکتی ہے۔ چونکہ شادی شدہ زانی جائز طریقے سے جنسی تسکین کی سہولت موجود ہوتے ہوئے ایک ناجائز راستہ اختیار کرتا اور اپنے رفیق حیات کے ساتھ بھی بے وفائی اور عہد شکنی کا مرتکب ہوتا ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے زانی کے لیے اضافی سزا مقرر کرنے سے قرآن مجید کے حکم پر کوئی زد نہیں پڑتی۔
تاہم یہ احتمال بھی اشکال سے خالی نہیں، ا س لیے کہ قرآن نے محض ’الزانیۃ والزانی‘ کے ظاہری عموم پر اکتفا نہیں کیا بلکہ، جیسا کہ ہم واضح کر چکے ہیں، شادی شدہ زانی کے لیے بھی سو کوڑوں ہی کی سزا بیان کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے نزدیک اصل سزا یہی ہے۔ اب اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اضافی پہلو کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی زائد سزا بیان کی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ ’حد‘ نہیں بلکہ ایک تعزیری سزا ہوگی، کیونکہ اسے اصل سزا کا لازمی حصہ تصور کرنے کا مطلب اس معاملے میں قرآن کے صریح بیان کو ناکافی قرار دینا ہوگا۔ ویسے بھی مجرم کے حالات کے لحاظ سے دی جانے والی اضافی سزا اپنی نوعیت کے لحاظ سے تعزیری سزا ہی ہو سکتی ہے اور اس کے نفاذ میں یہ بات ملحوظ رکھنا پڑتی ہے کہ سزا میں جس بنیاد پر اضافہ کیا جا رہا ہے، وہ عملاً موجود بھی ہے یا نہیں۔ اس طرح اس توجیہ کا منطقی تقاضا یہ ہوگا کہ مثال کے طور پر رجم کی اضافی سزا کا نفاذ صرف ایسے شادی شدہ زانی پر کیا جائے جس کے لیے ارتکاب زنا کے وقت بھی شرعی طریقے سے اپنی بیوی یا شوہر سے جنسی استمتاع کا امکان موجود ہو۔ اگر نکاح کے بعد جدائی ہو چکی ہو یا زوجین میں سے کوئی ایک انتقال کر چکا ہو یا خاوند گھر سے دور ہو تو ازروے علت ان صورتوں میں زنا کے ارتکاب پر مجرم کے شادی شدہ ہونے کے باوجود اسے رجم کی سزا نہیں دی جانی چاہیے۔ چنانچہ یہ توجیہ اصل مقصود یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ سزاؤں کے ’حد‘ یعنی سزا کا لازمی حصہ ہونے کوکسی طرح واضح نہیں کرتی۔ مزید برآں اگر اس کو درست مانا جائے تو اس سے صرف شادی شدہ زانی کی سزا میں اضافے کی توجیہ ہوتی ہے، جبکہ کنوارے زانی کی سزا میں جلاوطنی کا اضافہ کرنے کی کوئی وجہ واضح نہیں ہو پاتی۔
واقعہ یہ ہے کہ روایت میں بیان ہونے والی اضافی سزاؤں کی اگر زنا کے علاوہ کوئی اضافی وجہ فرض نہ کی جائے اور ان سزاؤں کو قرآن ہی کی بیان کردہ سزا کے دائرۂ اطلاق میں مساوی طور پر لازم مانا جائے تو آیت اور روایت کے باہمی تعلق کی کوئی معقول توجیہ کرنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ فقہاے احناف نے کم از کم روایت کے ایک حصے یعنی کنوارے زانی کی سزا کی حد تک قرآن مجید اور روایت میں تطبیق کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا ہے۔ ان کی رائے میں جلاوطنی کی سزا محض ایک تعزیری سزا ہے اور اس کے نفاذ کا مدار قاضی کی صواب دید پر ہے۔ اس ضمن میں احناف کا اصولی استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید مطلقاً ہر قسم کے زانی کے لیے صرف سو کوڑوں کی سزا بیان کے حوالے سے بالکل واضح اور قطعی ہے اور اس کے دائرۂ اطلاق میں کوئی تخصیص یا اس سزا پر کوئی اضافہ کسی قطعی دلیل کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ وہ کنوارے زانی کے لیے حدیث میں بیان ہونے والی اضافی سزا یعنی ایک سال کی جلاوطنی کو، خبر واحد سے ثابت ہونے کی بنا پر، سزا کا لازمی حصہ تسلیم نہیں کرتے۔ ان کی رائے میں قرآن نے جس سزا کے بیان پر اکتفا کی ہے، وہی اصل سزا ہے اور اس پر کوئی اضافہ کرنا قرآن کے نسخ کو مستلزم ہے جو خبر واحد سے نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ وہ زانی کو جلا وطن کرنے کو ایک صواب دیدی سزا کے طور پر قبول کرتے ہیں اور ان کے نزدیک اگر قاضی کسی مجرم کی آوارہ منشی کو دیکھتے ہوئے اس کے اس علاقے میں رہنے کو خطرے کا باعث سمجھے یا مزید تنبیہ کی غرض سے اسے گھر در سے دور اور اعزہ واقربا کی حمایت سے محروم کرنے کو بھی قرین مصلحت دیکھے تو وہ سو کوڑے لگانے کے بعد اسے جلا وطن بھی کر سکتا ہے۔ (سرخسی، المبسوط ۹/۵۰، ۵۱۔ جصاص، احکام القرآن ۳/۲۵۵، ۲۵۶۔ طحاوی، شرح معانی الآثار ۴۴۷۹)
امام طحاوی نے اس پر یہ استدلال پیش کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں لونڈیوں کے بارے میں یہ حکم دیا ہے کہ اگر وہ زنا کا ارتکاب کریں تو انھیں آزاد عورتوں سے نصف سزا دی جائے: ’فنصف ما علی المحصنت من العذاب‘۔ ادھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈیوں کی سزا بیان کرتے ہوئے صرف کوڑے لگانے کا ذکر کیا ہے اور انھیں جلاوطن کرنے کا حکم نہیں دیا۔ آپ نے فرمایا:
اذا زنت الامۃ فاجلدوہا ثم اذا زنت فاجلدوہا ثم اذا زنت فاجلدوہا فی الثالثۃ او الرابعۃ بیعوہا ولو بضفیر (بخاری، ۲۳۶۹)
’’جب لونڈی زنا کرے تو اس کو کوڑے لگاؤ۔ پھر زنا کرے تو کوڑے لگاؤ۔ پھر زنا کرے تو کوڑے لگاؤ۔ تیسری یا چوتھی مرتبہ زنا کے بارے میں فرمایا کہ اب اسے بیچ دو، چاہے قیمت میں ایک معمولی رسی ہی ملے۔‘‘
تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ شریعت کی رو سے زنا کے ارتکاب کی صورت میں لونڈی کو جلاوطن نہیں کیا جائے گا۔ چونکہ قرآن مجیدنے لونڈیوں کی سزا آزاد عورتوں سے نصف بیان کی ہے، اس لیے اگر جلا وطن کرنا آزاد عورتوں کی سزا کا لازمی حصہ ہوتا تو قرآن مجید کے مذکورہ حکم کی رو سے لونڈیوں کو بھی چھ ماہ کے لیے جلا وطن کرنا ضروری ہوتا، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈیوں کے لیے یہ سزا بیان نہیں فرمائی اور نہ اہل علم میں سے کوئی اس کا قائل ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آزاد عورتوں کے لیے بھی جلا وطن کرنا زنا کی سزا کا کوئی لازمی حصہ نہیں ہے۔ پھر چونکہ زنا کی سزا کے معاملے میں آزاد عورتوں اور آزاد مردوں کی سزا میں کوئی فرق نصوص سے ثابت نہیں، اس لیے مردوں کے بارے میں بھی لازماً یہی موقف اختیار کرنا پڑے گا۔ (طحاوی، شرح معانی الآثار، ۴۴۷۹)
زانی کو جلا وطن کرنے کی احادیث کو روایت کرنے والے بعض صحابہ کے اسلوب بیان سے بھی یہ بات نکلتی ہے کہ وہ اس سزا کو اصل حد کا حصہ نہیں، بلکہ ایک اضافی سزا سمجھتے ہیں۔ چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
قضی فی من زنی ولم یحصن ان ینفی عاما مع اقامۃ الحد علیہ (نسائی، السنن الکبریٰ، ۷۲۳۷)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر شادی شدہ زانی کے بارے میں حد جاری کرنے کے ساتھ ساتھ ایک سال کے لیے جلاوطن کرنے کاحکم دیا۔‘‘
گویا جلا وطن کرنے کی سزا فی نفسہ کسی جرم کی مستقل اور باقاعدہ سزا نہیں ہے، بلکہ اسے جرم کی نوعیت اور حالات کی مناسبت سے کسی بھی جرم کی اصل سزا کے ساتھ تعزیری طور پر شامل کیا جا سکتا ہے، اور اسی حکمت ومصلحت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر مجرم کو جلا وطن کرنے میں بہتری کے بجائے فساد کا خدشہ ہو تو اسے جلاوطن نہ کیا جائے۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ابراہیم نخعی کی رائے یہ نقل ہوئی ہے کہ زانی مرد وعورت کو جلاوطن کرنا ’فتنہ‘ ہے، (کتاب الآثار، ۶۱۴، ۶۱۵) یعنی اس سے ان کی اصلاح کے بجائے مزید برائی میں مبتلا ہونے کا خدشہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رائے اصلاً جلا وطن کرنے کے جواز کی نفی نہیں کرتی، بلکہ معروضی حالات میں اس سزا کے مفید یا موثر ہونے کے بجائے الٹا نقصان دہ ہونے کے امکان کو بیان کرتی ہے۔
فقہاے احناف نے مذکورہ طریقہ تطبیق کو روایت کے پہلے حصے تک محدود رکھا ہے اور شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا پر اس کا اطلاق نہیں کیا بلکہ اس حوالے سے قرآن مجید اور روایت کے باہمی تعارض کونسخ کے اصول پر حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں ان کے ہاں دو زاویہ ہائے نگاہ پائے جاتے ہیں: ایک رائے کے مطابق رجم کا حکم سورۂ نور کی آیت کے لیے ناسخ کی حیثیت رکھتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اولاً ہر قسم کے زانی کے لیے سو کوڑوں ہی کی سزا مشروع کی گئی تھی، لیکن بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حکم کو صرف کنوارے زانیوں کے ساتھ مخصوص کرتے ہوئے شادی شدہ زانیوں کے لیے رجم کی سزا مقرر کر دی۔ (ابن الہمام، فتح القدیر ۵/۲۳۰) دوسری رائے کی رو سے شادی شدہ اور کنوارے زانی کی سزا میں فرق سورۂ نور کی مذکورہ آیت سے پہلے ہی قائم کیا جا چکا تھا اور کنوارے زانی کو سو کوڑوں کے ساتھ جلا وطن کرنے جبکہ شادی شدہ زانی کو کوڑے مارنے کے ساتھ رجم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سورۂ نور کی آیت نازل ہوئی اور کنوارے زانی کو جلا وطن کرنے اور شادی شدہ زانی کو رجم سے پہلے سو کوڑے مارنے کی سزا منسوخ قرار پائی۔ (سرخسی، المبسوط ۹/۴۱، ۴۲)
ہم یہاں اصول فقہ کی اس بحث سے صرف نظر کر لیتے ہیں کہ سنت کے ذریعے سے قرآن یا قرآن کے ذریعے سے سنت کے کسی حکم کو کلی یا جزوی طور پر منسوخ کیا جا سکتا یا نہیں۔ اس بات کو فرضاً درست مان لیا جائے تو بھی زیربحث مسئلے میں نسخ کے اصول کا اطلاق کرنا مشکل ہے، اس لیے کہ اگر یہ کہا جائے کہ سورۂ نور کی آیت حدیث عبادہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی سے پہلے نازل ہو چکی تھی اور حدیث عبادہ اس کے لیے ناسخ ہے تو اس کی نفی خود روایت کے داخلی شواہد سے ہو جاتی ہے، کیونکہ روایت سے واضح ہے کہ سورۂ نساء میں زنا کی عبوری سزا کے بیان کے بعد اس موقع سے پہلے زنا سے متعلق کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا اور ’او یجعل اللہ لہن سبیلا‘ کے وعدے کی تکمیل پہلی مرتبہ اسی حکم کے ذریعے سے کی جا رہی تھی۔ اس لیے یہ فرض کرنا درست نہیں ہوگا کہ سورۂ نور کی آیت اس سے پہلے نازل ہو چکی تھی اور حدیث عبادہ اس کے لیے ناسخ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور اگر اس کے برعکس سورۂ نورکی آیت کو حدیث عبادہ کے لیے ناسخ مانا جائے تو یہ لازم آئے گا کہ شادی شدہ اور کنوارے، دونوں طرح کے زانیوں کے لیے سو کوڑے ہی حد شرعی قرار پائے، اس لیے کہ سورۂ نور میں، جیسا کہ واضح ہے، شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ یہ کہنا کہ سورۂ نور کی آیت کے ناسخ ہونے کا اثر کنوارے زانی کے لیے جلاوطنی اور شادی شدہ کے لیے سو کوڑوں کی سزا تک محدود ہے اور رجم کی سزا اس کے تحت نہیں آتی، محض ایک تحکم ہوگا جس کے لیے آیت کے الفاظ اور سیاق وسباق میں کوئی بعید ترین قرینہ بھی موجود نہیں۔ مزید برآں روایت کا اسلوب یہ تقاضا کرتا ہے کہ کنوارے زانی اور شادی شدہ زانی، دونوں کے لیے بیان کی جانے والی اضافی سزا کی نوعیت ایک جیسی ہو۔ اگر کنوارے زانی کی اضافی سزا تعزیری نوعیت کی ہے تو شادی شدہ زانی کی اضافی سزا کو اس سے مختلف نوعیت پرمحمول کرنے کے لیے کوئی قرینہ ہونا چاہیے جو بظاہر روایت میں موجود نہیں۔
روایتی علمی ذخیرے میں زیر بحث سوال کے حوالے سے پیش کی جانے والی توجیہات کے غیر اطمینان بخش ہونے کے تناظر میں متاخرین میں سے بعض اہل علم نے ان سے ہٹ کر بعض نئی توجیہات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک الجھن موجود ہے، مزید غور وفکر اور تحقیق کی گنجایش بلکہ ضرورت بھی موجود رہے گی اور اہل علم اگر اس ضمن میں نئی اور متبادل آرا پیش کرتے ہیں تو ان کو سنجیدہ توجہ کا مستحق سمجھا جانا چاہیے۔ یہ توجیہات حسب ذیل ہیں:
۴۔ مولانا انور شاہ کشمیریؒ نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ قرآن مجید میں رجم کا حکم کسی واضح آیت کی صورت میں نہیں، بلکہ سورۂ مائدہ کی آیات ۴۱۔۴۳ میں مذکور اس واقعے کے ضمن میں نازل ہوا ہے جس میں یہود کے، منافقانہ اغراض کے تحت، ایک مقدمے کے فیصلے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنے کا ذکر ہے۔ روایات کے مطابق یہ زنا کا مقدمہ تھا اور یہود نے نرم سزا کی توقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کیا تھا، لیکن آپ نے ان پر تورات ہی کی سزا یعنی رجم کو نافذ کر دیا۔ (بخاری، رقم ۴۱۹۰) مولانا کی رائے میں قرآن مجید میں اس واقعے کا ذکر اس کو حکم کا ماخذ بنانے کے لیے کافی ہے، تاہم اس کا مبہم انداز اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ قرآن مجید کے نزدیک شادی شدہ زانی کے لیے بھی اصل سزا ۱۰۰ کوڑے ہی ہے اور وہ عمومی طور پر اسے رجم کی سزا نہیں دینا چاہتا۔ اسی وجہ سے اس نے اس کے نفاذ کی شرائط، یعنی مجرم کے شادی شدہ اور مسلمان ہونے کی وضاحت نہیں کی تاکہ ان کی تعیین میں اجتہادی اختلاف کی گنجایش باقی رہے، اور اسی لیے معمولی شبہات اور اعذار کی بنا پر رجم کی سزا کو ساقط کر کے سو کوڑے کی سزا دینے پر اکتفا کی جاتی ہے۔ (فیض الباری ۵/۲۳۰۔ مشکلات القرآن ۱۶۵، ۱۶۶، ۲۱۳)
شاہ صاحب کی توجیہ سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ وہ شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا کو عملاً کیا حیثیت دیتے ہیں؟ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس پر اس سزا کے نفاذ کو لازم سمجھتے ہیں اور اس طرح ان کی توجیہ میں ایک تضاد پیدا ہو جاتا ہے، کیونکہ اگر قرآن مجید کے رجم کی سزا کو مبہم طور پر بیان کرنے سے سے مقصود یہ تھاکہ عمومی طور پر رجم کی سزا نافذ نہ کی جائے اور اس کے نفاذ میں اجتہادی اختلاف کی گنجایش باقی رہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کے منشا کے برعکس شادی شدہ زانی کے لیے متعین طور پر رجم کی سزا کیوں مقرر کر دی؟ اگر قرآن کی منشا آپ پر بھی واضح نہیں ہو سکی تو بلاغت کے پہلو سے ابہام کا یہ اسلوب کمال نہیں بلکہ نقص کہلائے جانے کا مستحق ہے۔ اور اگر خود قرآن کا منشاوہی ہے جو روایت میں بیان ہوا ہے تووہی سوال عود کر آتا ہے کہ قرآن خود صاف لفظوں میں اس کی تصریح کیوں نہیں کرتا اور اس کے لیے ایک جگہ زنا کی سزا مطلقاً سو کوڑے مقرر کرنے اور دوسری جگہ رجم کی سزا کا مبہم انداز میں ذکر کرنے اور پھر اس کے نفاذ کی شرائط وتفصیلات کو روایات ومقدمات پر، جو اس وقت تک وجود میں بھی نہیں آئے تھے، منحصر چھوڑ دینے کا پر پیچ طریقہ کیوں اختیارکرتا ہے؟
۵۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ روایت میں جلا وطنی یا رجم کی سزا آیت محاربہ پر مبنی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے محاربہ اور فساد فی الارض کے مجرموں کے لیے عبرت ناک طریقے سے قتل کرنے، سولی چڑھانے، ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دینے اور جلا وطن کر دینے کی سزائیں بیان کی ہیں۔ مولانا کا کہنا ہے کہ شادی شدہ زانی کے لیے بھی اصل سزا سو کوڑے ہی ہے، جبکہ جلاوطنی یا رجم دراصل اوباشی اور آوارہ منشی کی سزا ہے جو ’فساد فی الارض‘ کے تحت آتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی نوعیت کے بعض مجرموں پر زنا کی سزا کے ساتھ ساتھ، مائدہ کی مذکورہ آیت کے تحت فساد فی الارض کی پاداش میں جلا وطن کرنے یا سنگ سار کرنے کی سزا بھی نافذ کی تھی۔ (تدبر قرآن ۵/۳۶۷ ۔ ۳۶۹) اس ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ’الثیب بالثیب جلد مائۃ والرجم‘ کے بارے میں مولانا اصلاحی کی رائے یہ ہے کہ یہاں حرف ’و‘ جمع کے لیے نہیں، بلکہ تقسیم کے مفہوم میں ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ زانی کی اصل سزا تو تازیانہ ہی ہے، البتہ آیت محاربہ کے تحت مصلحت کے پہلو سے اسے جلاوطن یا سنگ سار بھی کیا جا سکتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح آیت مائدہ کے تحت ازروے مصلحت بعض مجرموں کو جلاوطنی کی سزا دی، اسی طرح بعض سنگین نوعیت کے مجرموں کے شر وفساد سے بچنے کے لیے آیت مائدہ ہی کے تحت انھیں رجم کی سزا بھی دی۔ (تدبر قرآن ۵/۳۷۴)
جناب جاوید احمد غامدی نے رجم کی سزا کے زنا کے عادی مجرموں سے متعلق ہونے کے حق میں یہ استدلال کیا ہے کہ عبادہ بن صامت کی روایت میں ’خذوا عنی خذوا عنی قد جعل اللّٰہ لہن سبیلا‘کے الفاظ اس کو صریحاً سورۂ نساء کی آیت ۱۵ اور ۱۶ سے متعلق کر رہے ہیں جہاں قحبہ عورتوں اور یاری آشنائی کا تعلق قائم کر لینے والے جوڑوں کے لیے عبوری سزا بیان کی گئی ہے اور ’حَتّٰی یَجْعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیْلاً‘ کے الفاظ میں ان کے لیے بعد میں باقاعدہ اور مستقل سزا مقرر کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ان کی رائے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ نور میں زنا اور سورۂ مائدہ میں محاربہ کے احکام نازل ہونے کے بعد زیر بحث روایت میں انھی قحبہ عورتوں کے لیے زنا کی پاداش میں سو کوڑوں اور ’فساد فی الارض‘ کی پاداش میں جلا وطنی یا سنگ ساری کی سزا مقرر کر کے اس وعدے کی تکمیل کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (جاوید احمد غامدی، حدود وتعزیرات، ۱۶)
اس رائے کو درست ماننے کے نتیجے میں ’رجم‘ کی بنیاد زانی کا شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہونا نہیں، بلکہ اس کے جرم کی نوعیت قرار پاتی ہے۔ اس طرح نہ ہر شادی شدہ زانی کو رجم کرنا لازم رہتا ہے اور نہ کوئی غیر شادی شدہ محض اپنے کنوارے ہونے کی بنا پر اس سزا سے محفوظ قرار پاتا ہے، بلکہ اگر زنا کے جرم میں سنگینی یا شناعت کا مذکورہ اضافی پہلو پایا جائے تو مجرم کی ازدواجی حیثیت سے قطع نظر، اسے رجم کیا جا سکتا ہے۔
رجم کی سزا کو زنا کے عام مجرموں کے بجائے زیادہ سنگین نوعیت کے مجرموں سے متعلق قرار دینے کی مذکورہ توجیہ کو قبول کر لیا جائے تو قرآن مجید اور روایات کا ظاہری تعارض باقی نہیں رہتا، اور ’البکر بالبکر‘ کی روایت کی حد تک یہ توجیہ بظاہر الجھن کو حل کر دیتی ہے، اس لیے کہ یہ روایت اصلاً زنا کے عام مجرموں سے متعلق نہیں بلکہ، جیسا کہ ’خذوا عنی خذوا عنی قد جعل اللہ لہن سبیلا‘ کے الفاظ سے واضح ہے، قحبہ عورتوں اور ان زانیوں سے متعلق ہے جن کے ہاں یاری آشنائی نے ایک مستقل تعلق کی صورت اختیار کر لی ہو۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مستقل وحی سے راہنمائی پا کر یا آیت محاربہ سے استنباط کرتے ہوئے ایسے مجرموں میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی سزا میں تفریق کرنے اور قرآن مجید میں بیان کردہ سو کوڑوں کی سزا کے علاوہ جلا وطنی اور رجم کی اضافی سزا دینے کا حکم بھی دیا ہو تو اس سے قرآن مجید کے ساتھ تعارض کا سوال پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ وہاں زنا کے عام مجرم زیر بحث ہیں۔
اسی طرح آیت محاربہ کو رجم اور جلاوطنی کی سزا کا ماخذ قرار دینے کی رائے اس پہلو سے بھی قابل توجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زنا کے ایک مقدمے میں فیصلہ کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ ’لاقضین بینکما بکتاب اللہ‘، یعنی میں تمھارے مابین کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کروں گا، اور پھر آپ نے زانی کو سو کوڑے مارنے اور جلا وطن کرنے کاحکم دیا۔ (بخاری، رقم ۲۴۹۸) قرآن مجید میں زانی کی سزا کے ساتھ جلاوطن کرنے کا کوئی ذکرنہیں، جبکہ سورہ مائدہ کی مذکورہ آیت ہی وہ واحد مقام ہے جہاں مجرموں کو سزا کے طور پر جلا وطن کردینے کا ذکر ہوا ہے۔ شارحین حدیث نے اس اشکال سے بچنے کے لیے ’کتاب اللہ‘ سے اللہ کا حکم یا اس کا قانون مراد لیا ہے، لیکن اگر زانی کو جلا وطن یا سنگسار کرنے کا ماخذ سورۂ مائدہ کی آیت محاربہ کو قرار دینے کی رائے درست تسلیم کر لی جائے تو مذکورہ تاویل کی ضرورت نہیں رہتی۔
البتہ جہاں تک ان روایات کا تعلق ہے جن میں زنا کے بعض مقدمات میں عملاً رجم کی سزا کے نفاذ کا ذکر ہوا ہے تو اس امر کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں کہ یہ توجیہ ان پر پوری طرح منطبق نہیں ہوتی، کیونکہ اس توجیہ کی رو سے یہ محض زنا کے سادہ مقدمات نہیں تھے، بلکہ ان میں سزا پانے والے مجرموں کو درحقیقت آوارہ منشی اور بدکاری کو ایک پیشے اور عادت کے طور پر اختیار کر لینے کی پاداش میں آیت محاربہ کے تحت رجم کیا گیا۔ اب اگر آیت محاربہ کو رجم کا ماخذ مانا جائے تو یہ ضروری تھا کہ احساس ندامت کے تحت اپنے آپ کو خود قانون کے حوالے کرنے والے مجرم سے درگزر کیا جائے یا کم ازکم سنگین سزا دینے کے بجائے ہلکی سزا پر اکتفا کی جائے، جبکہ قبیلۂ غامد سے تعلق رکھنے والی خاتون کو خود عدالت میں پیش ہونے اور سزا پانے پر خود اصرار کرنے کے باوجود رجم کیا گیا۔ ماعز اسلمی کے جرم کی نوعیت اور ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں خود پیش ہونے یا پکڑ کر لائے جانے کے حوالے سے روایات الجھی ہوئی ہیں اور تفصیلی تحقیق وتنقید کا تقاضا کرتی ہیں۔ بعض روایات کے مطابق ماعز کو رجم کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس سے اس کا ایک عادی مجرم ہونا واضح ہوتا ہے، (مسلم، ۳۲۰۳، ۳۲۰۶) جبکہ بعض دیگر روایات کے مطابق آپ نے نہ صرف ماعز کو رجم کرنے والوں سے فرمایا کہ اگر وہ رجم سے بچنے کے لیے بھاگ کھڑا ہوا تھا تو تم نے اسے چھوڑ کیوں نہ دیا، بلکہ اس کے سرپرست ہزال سے بھی کہا کہ ’’اگر تم اس کے جرم پر پردہ ڈال دیتے تو یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہوتا‘‘۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ماعز کا آیت محاربہ کے تحت ماخوذ ہونا قابل فہم نہیں رہتا۔ ’لا یحل دم امرئ مسلم‘ کی روایت میں بھی شادی شدہ کے لیے رجم کی سزا بیان کی گئی ہے اور روایت میں اسے عادی مجرموں کے ساتھ مخصوص قراردینے کا کوئی قرینہ بظاہرموجود نہیں۔
اسی طرح یہ بات بھی بعض روایات سے بظاہر لگا نہیں کھاتی کہ مجرم کا شادی شدہ ہونا اس سزا کے نفاذ میں محض ’ایک‘ عامل کی حیثیت رکھتا تھا نہ کہ ’واحد‘ فیصلہ کن بنیاد کی۔ مثال کے طور پر مزدور کے مقدمے میں اس کے مالک کی بیوی کو رجم کی جبکہ خود مزدور کو سو کوڑوں کی سزا دی گئی اور روایت سے اس فرق کی وجہ بظاہر شادی شدہ اور غیر شادی شدہ ہونا ہی سمجھ میں آتی ہے۔ ’لا یحل دم امرئ مسلم الا باحدی ثلاث‘ میں بھی زانی کے شادی شدہ ہونے کو قتل کے جواز کی بنیاد قرار دیا گیا ہے، جبکہ کسی اضافی پہلو کو بیان کرنے کے لیے یہ اسلوب بدیہی طور پر موزوں نہیں۔ مزید برآں صحابہ کے ہاں، جنھیں رجم کے ان واقعات کے عینی شاہد ہونے کی وجہ سے مقدمے کے احوال وشرائط اور سزا کی نوعیت سے پوری طرح واقف ہونا چاہیے، اس سزا کے بارے میں جو مجموعی فہم پایا جاتا ہے، وہ بھی اس فرق کے اضافی نہیں، بلکہ اساسی اور حقیقی ہونے ہی پر دلالت کرتا ہے۔
مذکورہ بحث سے واضح ہے کہ اگر قرآن مجید کے ظاہر کو حکم مانا جائے تو زنا کے عام مجرموں کے حوالے سے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں فرق کرنا بے حد مشکل ہے۔ دوسری طرف اگر روایات اور ان پر مبنی تعامل کو فیصلہ کن ماخذ مانا جائے تو شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا میں فرق کی نفی یا اس کی ایسی توجیہ و تاویل بظاہر ممکن دکھائی نہیں دیتی جس سے روایات کے متبادر مفہوم ومدعا کو برقرار رکھتے ہوئے قرآن مجید کے ساتھ ان کا ظاہری تعارض فی الواقع دور ہو جائے۔ اس ضمن میں اب تک جو توجیہات سامنے آئی ہیں، وہ اصل سوال کا جواب کم دیتی اور مزید سوالات پیدا کرنے کا موجب زیادہ بنتی ہیں۔ اس وجہ سے ہماری طالب علمانہ رائے میں یہ بحث، ان چند مباحث میں سے ایک ہے جہاں توفیق وتطبیق کا اصول موثر طور پر کارگر نہیں اور جہاں ترجیح ہی کے اصول پر کوئی متعین رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ عقلاً اس صورت میں دو ہی طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں:
ایک یہ کہ روایات سے بظاہر جو صورت سامنے آتی ہے، اس کو فیصلہ کن مانتے ہوئے یہ قرار دیا جائے کہ قرآن مجید کا مدعا اگرچہ بظاہر واضح اور غیر محتمل ہے، تاہم یہ محض ہمارے فہم کی حد تک واضح ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ تفصیل اللہ تعالیٰ کے منشا کی تعیین کے حوالے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ قرآن کے ظاہر کو حکم مانتے ہوئے یہ فرض کیا جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا یقیناًکوئی ایسا محل ہوگا جو قرآن کے ظاہر کے منافی نہ ہو، لیکن چونکہ قرآن کا مدعا ہمارے لیے بالکل واضح ہے جبکہ روایات کا کوئی واضح محل بظاہر سمجھ میں نہیں آتا، اس لیے روایات اور ان پر مبنی تعامل کو توجیہ وتاویل یا توقف کے دائرے میں رکھتے ہوئے ان پر غور وفکر جاری رکھا جائے گا تاآنکہ ان کا مناسب محل واضح ہو جائے ۔
اس دوسرے زاویۂ نگاہ کے پس منظر میں یہ تصور کارفرما ہے کہ شریعت کے جو احکام قرآن مجید میں زیر بحث آئے ہیں، ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد یا عمل قرآن مجید کے برعکس یا اس سے متجاوز نہیں ہو سکتا اور اگر بظاہر کہیں ایسی صورت دکھائی دے تو اس کی بنیاد قرآن مجید ہی میں تلاش کرنی چاہیے یا توجیہ وتاویل کے ذریعے سے حتی الامکان اس کے صحیح محل کو واضح کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ تصور اصولی طور پر خود صحابہ کے ہاں موجود رہا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ جب قرآن مجید میں قصر نماز پڑھنے کی اجازت خوف کی حالت سے مشروط ہے تو امن کی حالت میں اس رعایت سے فائدہ کیوں اٹھایا جا رہا ہے؟ (مسلم، رقم ۶۸۶) ابن عباس رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول گھریلو گدھے کے گوشت کی ممانعت کو حرمت پر محمول کرنے میں تردد تھا، اس لیے کہ ان کے خیال میں یہ بات قرآن مجید کی آیت: ’قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا‘ (الانعام ۶: ۱۴۵) کے منافی تھی جس میں حصر کے ساتھ صرف چار چیزوں کو حرام کہا گیا ہے۔ (بخاری، رقم ۵۲۰۹۔ المستدرک، رقم ۳۲۳۶)
سنت کے جو احکام بظاہر قرآن مجید کے نصوص سے متجاوز دکھائی دیتے ہیں، ان کے بارے میں سوچ کا یہ زاویہ بھی صحابہ کے ہاں دکھائی دیتا ہے کہ شاید وہ قرآن مجید میں نازل ہونے والے حکم سے پہلے کے دور سے متعلق ہوں۔ مثال کے طور پر وضو میں پاؤں دھونے کے بجائے موزوں پر مسح کر لینے کے جواز کے بارے میں صحابہ کے مابین خاصی بحث موجود رہی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کے جواز کے قائل نہیں تھے اور ان کا اصرار تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا موزوں پر مسح کرنا سورۂ مائدہ میں وضو کی آیت نازل ہونے سے پہلے کا عمل تھا:
سلوا ہؤلاء الذین یزعمون ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مسح علی الخفین بعد سورۃ المائدۃ واللّٰہ ما مسح بعد المائدۃ. (طبرانی، المعجم الکبیر ۱۱/۴۵۴، ۱۲۲۸۷)
’’ان سے پوچھو جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ مائدہ کے نازل ہونے کے بعد موزوں پر مسح کیا۔ بخدا، آپ نے سورۂ مائدہ کے نازل ہونے کے بعد مسح نہیں کیا۔‘‘
خود رجم کی سزا کے معاملے میں بھی یہ سوال ذہنوں میں پیدا ہوا۔ ابو اسحاق شیبانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا؟ انھوں نے کہا: ہاں، میں نے پوچھا کہ سورۂ نور کے نازل ہونے سے پہلے یا اس کے بعد؟ انھوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں۔(بخاری، رقم ۱۷۰۲)
چنانچہ یہ بحث دو مختلف اصولی زاویہ ہاے نگاہ میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کی بحث ہے۔ ہماری رائے میں یہ دونوں زاویے عقلی اعتبار سے اپنے اندر کم وبیش یکساں کشش رکھتے ہیں اور اس باب میں انفرادی ذوق اور رجحان کے علاوہ کوئی چیز غالباً فیصلہ کن نہیں ہو سکتی۔
حواشی
** سیدنا عمر کی طرف اس قول کی نسبت کے صحیح ہونے میں ایک اہم اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے اس خطبے کے راوی عبد اللہ بن عباس ہیں، لیکن خود ان کی رائے قرآن مجید میں رجم کا کوئی باقاعدہ حکم نازل ہونے کے برعکس ہے۔ اس ضمن میں ان سے سے مروی دو آثار قابل توجہ ہیں۔
علی بن ابی طلحہ بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن عباس نے فرمایا کہ ابتدا میں زنا کی سزا یہ تھی کہ خاتون کو گھر میں محبوس کر دیا جائے اور مرد کو زبانی اور جسمانی طور پر اذیت دی جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ’الزانیۃ والزانی‘ کی آیت اتاردی، جبکہ مرد وعورت اگر محصن ہوں تو ان کے لیے حکم یہ ہے کہ انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی رو سے رجم کر دیا جائے۔ (تفسیر الطبری، ۴/۲۹۷۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۶۶۹۱)
عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ ابن عباس نے فرمایا کہ جو شخص رجم کا انکار کرتا ہے، وہ غیر شعوری طور پر قرآن کا انکار کرتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’یا اہل الکتاب قد جاء کم رسولنا یبین لکم کثیرا مما کنتم تخفون من الکتاب‘ (اے اہل کتاب، تمھارے پاس ہمارا رسول آیا ہے جو تمھارے لیے تورات کی ان بہت سی باتوں کو ظاہر کرتا ہے جنھیں تم چھپاتے تھے) اور رجم کا حکم بھی امور میں سے ہے جنھیں اہل کتاب چھپاتے تھے۔ (نسائی، السنن الکبریٰ، رقم ۷۱۶۲)
ان دونوں روایتوں سے واضح ہے کہ ابن عباس قرآن مجید میں واضح طور پر رجم کا حکم نازل ہونے کے قائل نہیں اور اس کے بجائے اسے اشارتاً قرآن میں مذکور مانتے اور اس کا اصل ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو قرار دیتے ہیں۔ اگر وہ فی الواقع سیدنا عمر کے مذکورہ خطبے کے راوی ہیں جس میں انھوں نے رجم کے قرآن مجید میں نازل ہونے کا ذکرکیا ہے تو پھر ان کا اس سے مختلف رائے قائم کرنا بظاہر سمجھ میں آنے والی بات نہیں۔
* رجم کو زنا کی سزا کا لازمی حصہ نہ سمجھنے والے بعض دیگر اہل علم نے اس سے مختلف ماخذ بھی متعین کیے ہیں۔ مثال کے طور پر مولانا عنایت اللہ سبحانی اور ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی نے اس حکم کا ماخذ سورۂ احزاب (۳۳)کی آیت ۶۱ کے الفاظ ’اَیْْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلاً‘ (یہ جہاں ملیں، ان کو پکڑ لیا جائے اور عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیا جائے) کو قرار دیا ہے جن میں مدینہ منورہ کے منافقین کی فتنہ پردازیوں اور بالخصوص مسلمان خواتین کے حوالے سے ان کے مفسدانہ اور شرانگیز طرز عمل سے نمٹنے کے لیے انھیں عبرت ناک طریقے سے قتل کر دینے کی دھمکی دی گئی ہے۔ (عنایت اللہ سبحانی، حقیقت رجم ۲۰۲ ۔۲۰۷۔ محمد طفیل ہاشمی، حدود آرڈی نینس کتاب وسنت کی روشنی میں ۱۲۷ ۔ ۱۳۶) جبکہ بعض اہل علم قرآن مجید میں رجم کا کوئی ماخذ متعین کیے بغیر اسے حد کے بجائے محض ایک تعزیری سزا قرار دیتے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مجرموں کو ان کے جرم کی نوعیت کے لحاظ سے دی۔ (عمر احمد عثمانی، فقہ القرآن: رجم اصل حد ہے یا تعزیر؟ ۵۵، ۹۳ ۔۹۵۔ فقہ القرآن: حدود و تعزیرات اور قصاص ۶۳۲ ۔ ۶۴۴)