اعلم ان من المعاصی ما شرع اللہ فیہ الحد و ذلک کل معصیۃ جمعۃ وجوھا من المفسدۃ بان کانت فسادا فی الارض واقتضا با علی طمانینۃ المسلمین و کانت لھا داعیۃ فی نفوس بنی اٰدم لا تزال تہیج فیھا ولھا ضراوۃ لا یستطیعون الا قلاع منھا بعد ان اشربت قلوبھم لھا وکان فیہ ضرر لا یستطیع المظلوم دفعہ عن نفسہ فی کثیر من الاحیان و کان کثیر الوقوع فیما بین الناس فمثل ھٰذہ المعاصی لا یکفی فیھا الترھیب بعذاب الآخرۃ بل لابد من اقامۃ ملامۃ شدیدۃ وایلام لیکون بین اعینھم ذلک فیردعھم عما یریدونہ۔ (حجۃ اللہ البالغۃ مبحث فی الحدود)
ترجمہ: ’’جان لو کہ کچھ گناہ ایسے ہیں جن میں اللہ تعالٰی نے حد (دنیاوی سزا) مقرر فرمائی ہے۔ اس لیے کہ ہر گناہ فساد کے کچھ اسباب پر مشتمل ہوتا ہے جس سے زمین میں خرابی ہوتی ہے اور مسلمانوں کا امن و سکون غارت ہوتا ہے۔ اس گناہ کی خواہش انسانوں کے دلوں میں ہوتی ہے جو برابر بڑھتی رہتی ہے اور دلوں میں خواہش کے جڑ پکڑ جانے کے بعد وہ اس بری عادت سے نکلنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اور اس میں ایسا ضرر ہے جسے مظلوم اپنے آپ سے دور رکھنے کی اکثر اوقات طاقت نہیں پاتا اور یہ صورت بہت زیادہ لوگوں میں وقوع پذیر رہتی ہے۔ پس اس قسم کے گناہوں میں صرف آخرت کے عذاب سے ڈرانا کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ شدید قسم کی سزا اور ملامت قائم کی جائے تاکہ وہ (سزا) ان کی آنکھوں کے سامنے ہو اور انہیں ان کے (برے) ارادوں سے باز رکھ سکے۔‘‘