نفاذِ شریعت کی ضرورت و اہمیت

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

جب تک برصغیر پر انگریز حکمران رہا اہلِ ایمان اس کے قانون کی پابندی پر مجبور تھے۔ سیاسی، اقتصادی، معاشرتی، تجارتی قوانین سب انگریز کے وضع کردہ تھے۔ البتہ اس نے مسلمانوں کو بعض رعایات دے رکھی تھیں جن کو پرسنل لاء کہا جاتا تھا اور مسلمان اپنے عقیدہ کے مطابق ان کو اختیار کر سکتے تھے۔ مگر آزادی کے بعد تو انگریزی قانون کے نفاذ کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستان کے قیام کے فورًا بعد تمام قوانین کو اسلامی قوانین میں تبدیل کر لیا جاتا مگر افسوس کہ آج تک ایسا نہیں ہو سکا۔ اس ضمن میں کارپردازانِ حکومت خاص طور پر اور عام مسلمان عام طور پر گنہگار ہیں کہ وہ شریعتِ اسلامیہ کو نافذ نہیں کر پائے۔ آج تک وہی ملعون قوانین چل رہے ہیں۔ مثلاً حادثاتی موت کی صورت میں لاش کا پوسٹ مارٹم ضروری ہے حالانکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ سودی کاروبار بالکل اسی طرح چل رہا ہے جیسے انگریزوں کے زمانے میں تھا۔ عدالتی نظام میں کوئی اصلاح نہیں ہوئی بلکہ وہی غلامانہ تعزیراتی قانون رائج ہے۔

دیکھیں، ترکی میں شریعت کا قانون ختم ہوا تو ملکی قانون بھی بدل دیے گئے اور پھر کوئی قانون جرمنی کا، کوئی برطانیہ کا، اور کوئی فرانس کا لے لیا گیا۔ اور اس طرح آدھا تیتر آدھا بٹیر والی مثال صادق آئی۔ خود ہمارے ملک میں شریعت کا نفاذ اس بہانے سے نہیں کیا جا رہا کہ اس پر تمام مذاہب متفق نہیں ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ کسی طرح چور دروازے سے حکومت پر قابض رہیں۔ اگر خدا کا قانون جاری ہوتا ہے تو ان کا اپنا اقتدار خطرے میں پڑ جاتا ہے لہٰذا خیریت اسی میں ہے کہ جس طرح کا نظام چل رہا ہے اسے چلنے دیا جائے۔ تعزیراتی قوانین میں شرع کے مطابق کچھ ردوبدل کیا گیا ہے مگر اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

سعودی عرب میں حدود کا نفاذ ہے تو وہاں جرائم بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ وہ بدو تھے جو کبھی مسافر کے پاؤں سے جوتا بھی اتروا لیا کرتے تھے، مگر آج اسلامی تعزیرات کے نفاذ کا یہ اثر ہے کہ سڑک پر سونے کی ڈلی بھی پڑی ہو تو کوئی ہاتھ لگانے کی جرأت نہیں کر سکتا بلکہ پولیس کو دور سے ہی بتا دیتا ہے کہ وہاں کسی کا مال پڑا ہے۔ آج لوگ دکانیں کھلی چھوڑ کر نماز کے لیے چلے جاتے ہیں مگر کسی کی کیا مجال ہے کہ چوری تصور بھی کر سکے۔ اب تک زیادہ سے زیادہ پچاس ساٹھ آدمیوں کے ہاتھ کٹے ہوں گے مگر چوری بالکل ختم ہو گئی ہے۔ اور ہمارے ہاں شرعی قوانین سے انحراف کی وجہ سے لوگ مسجد سے جوتے تک چوری کر لیتے ہیں۔

باقی رہا یہ اعتراض کہ کون سا فقہی قانون نافذ کیا جائے تو یہ بھی کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک مسلّمہ اصول ہے کہ جس ملک میں جس فقہ کے ماننے والوں کی اکثریت ہو وہاں اسی فقہ کا قانون نافذ کیا جائے۔ اسپین میں مالکی فقہ کی اکثریت تھی تو وہاں مالکی فقہ رائج رہی۔ برصغیر، افغانستان، ترکی، خراسان وغیرہ میں حنفی لوگوں کی اکثریت ہے تو یہاں حنفی فقہ کے مطابق قانون جاری ہونا چاہیے۔ افسوس ہے کہ بعض لوگ حنفی قانون کے نام سے بدکتے ہیں حالانکہ یہ بھی قرآن و سنت سے ہی ماخوذ ہے اور قرآن و سنت کے خلاف کوئی چیز قابل قبول نہیں۔ فتاوٰی اور دیگر کتب کی تمام باتیں قابلِ عمل نہیں ہوتیں بلکہ یہ محض معلومات ہوتی ہیں جن پر قانون کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ ’’عالمگیری‘‘ سے لوگوں کو خواہ مخواہ چڑ ہے۔ یہ تو پانچ سو علماء کا تدوین کردہ قانون ہے جس کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے، اس کی مخالفت کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

اگر لوگوں کی اکثریت کا قانون جاری کر دیا جائے تو دوسرے لوگ بھی محروم نہیں رہتے۔ حنفی فقہ ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک دنیا میں رائج رہی ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی نے اپنے آپ کو شافعی ظاہر کیا ہے تو اس کا فیصلہ شافعی مسلک کے مطابق کر دیا گیا اور اس میں کسی مسلک والے کو دقت پیش نہیں آئی۔ مختلف فقہی مسالک میں مکمل اتفاق تو شاید کبھی ممکن نہ ہو۔ انگریزی قانون میں بھی کبھی جج کسی فیصلہ پر متفق نہیں ہوئے۔ بھٹو کی پھانسی کے مسئلے پر سارے جج متفق نہیں ہوئے تھے بلکہ ان میں بھی اختلافِ رائے تھا۔ بڑی عجیب بات ہے کہ دنیاوی قوانین میں تو اس قسم کے اختلافات برداشت کر لیے جاتے ہیں مگر فقہی جزئیات میں ایسے اختلافات کو برداشت نہیں کیا جاتا اور مکمل اتفاقِ رائے تک نفاذِ شریعت کے عمل کو پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچنے دیا جاتا۔ بہرحال شریعت کا قانون من جانب اللہ ہے جس میں تمام کلیات اور جزئیات آ گئے ہیں اور پاکستان جیسے نظریاتی ملک میں اس کے نفاذ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔

اسلامی شریعت

(نومبر ۲۰۰۱ء)

نومبر ۲۰۰۱ء

جلد ۱۲ ۔ شمارہ ۱۱

دنیا میں معاشی توازن قائم کرنے کا واحد راستہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نفاذِ شریعت کی ضرورت و اہمیت
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

عصرِ حاضر میں اسلام کی تعبیر و تشریح
مولانا محمد عیسٰی منصوری

فریاد نہیں ۔۔۔ دین کی دعوت
ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری

تفسیرِ کبیر اور اس کی خصوصیات
محمد عمار خان ناصر

امریکی اِکسپوژر کی نئی جہتیں
پروفیسر میاں انعام الرحمن

امریکی معاشرہ۔ سوچ میں تبدیلی کی جانب گامزن
ہَک گَٹمین

ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا المیہ ۔۔ اصل گیم
عبد الرشید ارشد

امتِ محمدیہ کا امتیاز
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ

شہید کا درجہ
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

تلاش

Flag Counter