نام نہاد کمیونزم میں جس قدر مسکین نوازی ہے اس سے کہیں زیادہ امام ولی اللہ رحمہ اللہ تعالٰی کے فلسفے میں ہے، اور اس میں مزدور اور کاشتکار کے حقوق کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے۔ لیکن اس کی بنیاد خدا کے صحیح اور صاف تصور پر ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک کارکن اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس زندہ تصور کے ساتھ گزارتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہے، یا کم از کم یہ کہ اللہ تعالٰی اسے دیکھ رہا ہے۔وہ یہ تصور بھی ایک زندہ اور پائیدار شکل میں اپنے سامنے رکھتا ہے کہ اگر اس نے کم تولا یا کسی کے حق کو ناجائز طور پر پاؤں تلے روندا تو دنیا میں بھی سزا پائے گا اور مرنے کے بعد بھی اسے اللہ تعالٰی کے سامنے حاضر ہو کر اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہو گی۔امام ولی اللہ رحمہ اللہ تعالٰی کی حکمت اسے یہ بھی سکھاتی ہے کہ قرآنِ حکیم پر عمل کرنے والے کارکن کو اللہ تعالٰی کے سوا کسی سے اپنے عمل کا بدلہ لینا ضروری نہیں۔
انسان بے شک اس لیے پیدا ہوا ہے کہ دنیا میں قرآن حکیم کی حکومت بین الاقوامی درجہ پر چلائے، لیکن وہ اس حکومت کے ذریعے اپنے لیے یا اپنے خاندان کے لیے کوئی فائدہ حاصل کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ قرآن حکیم کی تعلیم کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدیق اکبرؓ اور فاروق اعظمؓ کی حکومتیں بے نظیر ثابت ہوئیں اور آج تک دنیا ان کی مثال پیدا نہیں کر سکی۔ اب اس دور میں بھی امیر المومنین سید احمد شہید رحمہ اللہ تعالٰی اور ان کے ساتھیوں نے انہی اصولوں پر اس نمونے کی حکومت پیدا کر کے ایک دفعہ پھر دکھا دی اور ثابت کر دیا کہ اس قسم کی حکومت پیدا کرنا ہر زمانے میں ممکن ہے۔ قرآن حکیم کے ماننے والوں کے لیے اس میں بہت بڑی عبرت اور ذمہ داری ہے۔
(عنوانِ انقلاب ص ۵۹)