مرد اور عورت دونوں نسل انسانی کے ایسے ستون ہیں کہ جن میں سے ایک کو بھی اس کی جگہ سے سرکا دیا جائے تو انسانی معاشرہ کا ڈھانچہ قائم نہیں رہتا۔ اللہ رب العزت نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کو اپنی قدرت خاص سے پیدا فرمایا اور ان دونوں کے ذریعے نسل انسانی کو دنیا میں بڑھا پھیلا کر مرد اور عورت کے درمیان ذمہ داریوں اور فرائض کی فطری تقسیم کر دی، دونوں کا دائرہ کار متعین کر دیا اور دونوں کے باہمی حقوق کو ایک توازن اور تناسب کے ساتھ طے فرما دیا۔
مرد اور عورت کے درمیان حقوق و فرائض کی اس تقسیم کا تعلق تکوینی امور سے بھی ہے جو نسل انسانی کی تخلیق کے ساتھ ہی طے کر دیے گئے ہیں اور ان میں انسان کوشش بھی کرے تو کسی قسم کی تبدیلی نہیں کر سکتا۔ مثلاً مرد کو اللہ تعالیٰ نے قوت و جاہ، جرأت و بہادری اور سختی و مضبوطی کا پیکر بنایا ہے جبکہ عورت اپنی جسمانی ساخت کے لحاظ سے اس کے برعکس ہے، اس میں ملائمت ہے، انفعال ہے، کمزوری ہے اور کسی مضبوط پناہ کے حصار میں رہنے کا فطری جذبہ ہے۔ یہ ایک ایسا واضح فرق ہے جو زندگی کے تمام افعال و احوال میں جاری و ساری نظر آتا ہے اور جسے کوئی منطق، کوئی سائنس اور کوئی خودساختہ معاشرتی فلسفہ تبدیل نہیں کر سکتا۔
نسل انسانی کی نشوونما کے لیے خالقِ کائنات نے مرد اور عورت کے جنسی ملاپ کو ذریعہ بنایا اور اس ملاپ کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے دونوں میں محبت کا جذبہ پیدا کیا۔ مرد اور عورت کے درمیان محبت کے اظہار میں اللہ تعالیٰ نے مرد کی بالادستی اور عورت کے انفعال کے فطری فرق کو قائم رکھا اور ملاپ میں بھی مرد کو بالادستی بخشی۔ یہ بھی ایسا واضح اور محسوس فرق ہے جس کا نہ انکار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی منطقی یا سائنسی فارمولا کے ذریعے اسے بدلا جا سکتا ہے۔
نسل انسانی کو بڑھانے کے مشترکہ عمل میں بھی اللہ رب العزت نے دونوں کے فرائض الگ الگ متعین کر دیے۔ عورت کے ذمے بچہ کے بوجھ کو پیٹ میں اٹھانا، پیدائش کے بعد اس کو گود میں لینا اور ہوش سنبھالنے تک اس کی تمام چھوٹی موٹی ضروریات و حوائج خود سرانجام دینا ہے۔ جبکہ مرد کو ان تینوں کاموں سے رب العزت نے آزاد رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ باقی امور اس کے ذمہ ہیں کہ وہ بچہ اور اس کی ماں کے اخراجات کا بوجھ اٹھائے گا، ان کی حفاظت و نگرانی کرے گا اور معاشرہ کے ساتھ ان کے رابطہ و تعلق کا ذریعہ بنے گا۔ یہ فرق اور تقسیم بھی ایسی ٹھوس ہے کہ تبدیلی اور تغیر کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
یورپی معاشرت نے عورت کی آزادی اور اس کے احترام کی بحالی کے نام سے اس فرق کو مٹانے کی سرتوڑ کوشش کی ہے لیکن اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکلا کہ عورت کی ذمہ داریوں اور فرائض میں اضافہ ہوگیا ہے۔ عورت خود کو بچے کی پیدائش اور پرورش کے بوجھ سے تو آزاد نہیں کرا سکی البتہ اخراجات کی کفالت کی ذمہ داری میں مرد کے ساتھ شریک ہوگئی ہے۔ اس طرح دنیا بھر میں یورپی معاشرت کے پیروکار مردوں نے مزید کسی ذمہ داری کا بوجھ اپنے اوپر لیے بغیر اپنی ذمہ داریوں کا نصف بوجھ بھی عورت پر ڈال دیا ہے اور ناقص العقل سادہ عورت آزادیٔ مساوات اور زندگی کی دوڑ میں کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کے خوشنما اور دلفریب نعروں سے دھوکا کھا کر دوہری ذمہ داریوں کے چکر میں پھنس کر رہ گئی ہے۔
اسلام ایک فطری نظامِ حیات ہے جو اسی خالق و مالک نے عطا فرمایا ہے جس نے مرد اور عورت کے درمیان فرائض و حقوق کی تکوینی تقسیم کی ہے، اسی لیے اسلام کے شرعی اور قانونی احکام کی بنیاد بھی اس تکوینی تقسیم کے فطری تقاضوں پر ہے۔ اور اس وقت دنیا میں اسلام ہی ایک ایسا نظام ہے جو عورت اور مرد کے درمیان حقوق و فرائض کی شرعی اور قانونی تقسیم دونوں کے تخلیقی فرق اور تکوینی ذمہ داریوں کے عین مطابق کرتا ہے اور اس کے ذریعے ایک خوشحال، پرسکون اور پر امن معاشرہ کی ضمانت دیتا ہے۔ ورنہ بیشتر مروجہ معاشرتی اقدار کی بنیاد اس فطری اور تکوینی فرق سے فرار اور انحراف پر ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ فرق تو کسی سے مٹ نہیں پا رہا مگر اس سے انحراف اور فرار پر مبنی معاشرتی بے چینی، نفسیاتی پیچیدگیوں اور ذہنی الجھنوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
یورپی تہذیب و معاشرت نے آزادی اور مساوات کے نام پر جہاں عورت کو اس غلط فہمی میں ڈالا کہ ملازمت کرنا اس کا حق ہے، حالانکہ ملازمت حق نہیں ذمہ داری ہے، اسی طرح حکمرانی اور قیادت کو حقوق کی فہرست میں شامل کر کے عورت کو اس دوڑ میں بھی شریک کر دیا۔ جبکہ اسلام اس فلسفہ کو تسلیم نہیں کرتا، اسلام یہ کہتا ہے کہ گھر کے اخراجات فراہم کرنے کے لیے ملازمت کرنا حقوق سے نہیں بلکہ ذمہ داریوں سے تعلق رکھتا ہے، اور مرد اور عورت کے درمیان ذمہ داریوں کی فطری تقسیم میں یہ ذمہ داری مرد کے کھاتے میں ہے۔ اسی طرح حکمرانی اور قیادت کا شمار بھی حقوق میں نہیں بلکہ ذمہ داریوں اور فرائض میں ہوتا ہے اور اسلام عورت کے طبعی اور فطری فرائض اور ذمہ داریوں سے زائد کسی ذمہ داری اور فرض کا بوجھ اس کے نازک کندھوں پر نہیں ڈالنا چاہتا۔ یہی وجہ ہے کہ حکمرانی کی ذمہ داری مرد پر ڈالی گئی ہے اور عورت کو اس سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے۔ انسانی معاشرت کے اسلامی فلسفہ اور آج کے مروجہ نظریات میں یہی بنیادی فرق ہے کہ اسلام حکمرانی کو ذمہ داری قرار دیتا ہے جبکہ موجودہ سیاسی نظاموں نے اسے حقوق میں شامل کر کے اس خودساختہ حق کے لیے مختلف انسانی طبقات کو مسابقت کی دوڑ میں اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ حقوق و فرائض کے درمیان کوئی خطِ امتیاز باقی نہیں رہا۔
اس پس منظر میں جب ہم عورت کی حکمرانی کے بارے میں اسلام کے احکام پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان لوگوں کی منطق میں کوئی وزن دکھائی نہیں دیتا جو مغرب کی معاشرتی اقدار کو اپنے معاشرے پر منطبق کرنے کے شوق میں نہ صرف مرد اور عورت کے درمیان مساوات اور عورت کی نام نہاد آزادی کا پرچار کر رہے ہیں بلکہ اس کے لیے اسلام کے واضح احکام کو توڑ موڑ کر پیش کرنے اور انہیں خودساختہ معانی پہنانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ چنانچہ ان دنوں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک خاتون کی حکمرانی کے حوالہ سے یہ بحث چل رہی ہے کہ شرعاً کسی عورت کو حکمران بنانا درست ہے یا نہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن و سنت اور اجماع امت کی واضح تصریحات کے باوجود کچھ حضرات اس کوشش میں مصروف دکھائی دیتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں سے عورت کی حکمرانی کے جواز میں دلائل کشید کیے جائیں تاکہ مغربی تہذیب و معاشرت کی پیروی کے شوق اور عمل کو شرعی جواز کی چھتری بھی فراہم کی جا سکے۔ اسی لیے یہ ضروری محسوس ہوا کہ عورت کی حکمرانی کے بارے میں شرعی احکام کو وضاحت کے ساتھ قارئین کے سامنے لایا جائے اور ان خودساختہ دلائل کی حقیقت بے نقاب کر دی جائے جو اس مسلمہ اجماعی مسئلہ کو مشکوک بنانے کے لیے مختلف حلقوں کی طرف سے پیش کیے جا رہے ہیں۔
اسلام میں کسی بھی مسئلہ کے شرعی ثبوت کے لیے مسلمہ اصول چار ہیں جنہیں دلیل کے طور ر پیش کیا جاتا ہے۔
- قرآن کریم
- سنتِ نبویؐ
- اجماع امت
- اجتہاد و قیاس
ہم ترتیب کے ساتھ اپنے اس دعویٰ کے ثبوت میں ان چاروں دلائل کو پیش کریں گے کہ کسی عورت کو حکمران بنانا شرعاً جائز نہیں ہے۔
(۱) قرآن کریم
اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر مرد اور عورت کے درمیان حقوق و فرائض کی اس فطری تقسیم کو واضح کا ہے۔ ان سب آیات کریمہ کو اس موقف کے حق میں منطقی استدلال کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ہم ان میں سے دو آیات کریمہ کا حوالہ دیں گے۔
(1) حکمرانی کا تصور اسلام میں ’’خلافت‘‘ کا ہے کہ انسانی معاشرہ میں کوئی بھی حکمران خودمختار نہیں بلکہ حکمرانی میں خدا تعالیٰ کا نائب ہے۔ اصل حکمرانی اللہ تعالیٰ کی ہے اور انسان اس کا نائب ہے جو اپنی مرضی سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے احکام و قوانین کے مطابق انسانی معاشرہ پر حکومت کرتا ہے، اسی کا نام ’’خلافت‘‘ ہے۔ جب تک انبیاء کرام علیہم السلام کی تشریف آوری کا سلسلہ جاری رہا، خلافت کا یہ منصب زیادہ تر حضرات انبیاء کرامؑ ہی کے پاس رہا۔ چنانچہ امام بخاریؒ نے کتاب الامارۃ میں حضرت ابوہریرہؓ سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حقیقت کا اظہار یوں فرمایا ہے کہ
’’بنی اسرائیل میں سیاسی قیادت کا فریضہ انبیاء کرام علیہم السلام سرانجام دیتے تھے، جب ایک نبیؑ دنیا سے چلے جاتے تو دوسرے نبیؑ ان کی جگہ لے لیتے۔ لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا البتہ میرے بعد خلفاء ہوں گے۔‘‘
یعنی خلافت و حکومت دراصل انبیاء کرامؑ کی نیابت کا نام ہے اور اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں صراحت کر دی ہے کہ دنیا میں جتنے بھی پیغمبر بھیجے گئے وہ سب مرد تھے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ۔
’’اور ہم نے آپؐ سے قبل رسول بنا کر نہیں بھیجا مگر صرف مردوں کو جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔‘‘
اس لیے جب نبی صرف اور صرف مرد آئے ہیں تو ان کی نیابت بھی صرف مردوں میں ہی محدود رہے گی۔
(2) اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰەُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ۔
’’مرد حکمران ہیں عورتوں پر، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔‘‘
یہ آیت کریمہ اس بارے میں صریح ہے کہ جہاں مردوں اور عورتوں کا مشترکہ معاملہ ہوگا وہاں حکمرانی مردوں ہی کے حصہ میں آئے گی اور یہی وہ فضیلت ہے جو اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر عطا فرمائی ہے۔
اس آیت کریمہ کے بارے میں بعض حضرات کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ آیت کریمہ خاندانی احکام و قوانین کے سیاق و سباق میں ہے اس لیے اس سے مراد مطلق حکمرانی نہیں بلکہ خاندان کی سربراہی ہے جو ظاہر ہے کہ مرد ہی کے پاس ہے۔ لیکن ان کا یہ استدلال دو وجہ سے غلط ہے۔ ایک اس وجہ سے کہ عورت کی حکمرانی کے بارے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ارشادات کی روشنی میں جب ہم اس آیت کریمہ کا مفہوم متعین کریں گے تو اسے خاندان کی سربراہی تک محدود رکھنا ممکن نہیں رہے گا بلکہ خاندان کی سربراہی کے ساتھ مطلق حکمرانی بھی اس کے مفہوم میں شامل ہوگی۔ یہ ارشادات نبویؐ ہم آگے چل کر نقل کر رہے ہیں۔ دوسرا اس وجہ سے کہ امت کے معروف مفسرین کرامؒ نے اس آیت کریمہ کی جو تفسیر کی ہے اس میں علی الاطلاق ہر قسم کی حکمرانی عورت کے لیے نفی کی ہے۔ چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:
ولھذا کانت النبوۃ مختصۃ بالرجال وکذلک الملک الاعظم وکذا منصب القضاء وغیر ذلک۔ (تفسیر ابن کثیر ج ۱ ص ۴۹۱)
’’اور اسی وجہ سے نبوت مردوں کے ساتھ مخصوص ہے اور اسی طرح حکومت اور قضا کا منصب بھی انہی کے لیے خاص ہے۔‘‘
حافظ ابن کثیرؒ کے علاوہ امام رازیؒ (تفسیر کبیر ج ۱۰ ص ۸۸)، امام قرطبیؒ (ص ۱۶۸ ج ۵)، علامہ سید محمود آلوسیؒ (روح المعانی ص ۵ ص ۲۳) اور قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ (مظہری ج ۲ ص ۹۸) نے اس آیت کی یہی تفسیر لکھی ہے۔ اور ان کے علاوہ بھی کم و بیش تمام مفسرین نے اس آیت کریمہ سے عورت کی حکمرانی کے عدم جواز پر استدلال کیا ہے۔
(۲) حدیث رسولؐ
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بہت سے ارشادات میں اس امر کی صراحت کی ہے کہ عورت کی حکمرانی نہ صرف عدم فلاح اور ہلاکت کا موجب ہے بلکہ مردوں کے لیے موت سے بدتر ہے۔ ان میں سے چند احادیث ذیل میں درج کی جا رہی ہیں:
(1) امام بخاریؒ کتاب المغازی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس بات کی خبر دی گئی کہ فارس کے لوگوں نے کسریٰ کی بیٹی کو اپنا حکمران بنا لیا ہے تو آنحضرتؐ نے فرمایا:
لَنْ یُّـفْلِحَ قَوْم وَّلَوْ اَمْرَھُمْ اِمْرَاَۃً۔
’’وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوگی جس نے اپنا حکمران عورت کو بنا لیا۔‘‘
(2) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تمہارے حکمران تم میں سے اچھے لوگ ہوں، تمہارے مالدار سخی ہوں اور تمہارے معاملات باہمی مشورہ سے طے پائیں تو تمہارے لیے زمین کی پشت اس کے پیٹ سے بہتر ہے۔ اور جب تمہارے حکمران تم میں سے برے لوگ ہوں، تمہارے مال دار بخیل ہوں اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہو جائیں تو تمہارے لیے زمین کا پیٹ اس کی پشت سے بہتر ہے۔‘‘ (ترمذی ج ۲ ص ۵۲)
(3) امام حاکمؒ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے اور اس کی سند کو امام ذہبی نے صحیح تسلیم کیا ہے کہ جناب رسول اکرمؐ کی خدمت میں مسلمانوں کا ایک لشکر فتح و نصرت حاصل کر کے آیا اور اپنی فتح کی رپورٹ پیش کی۔ آنحضرتؐ نے مجاہدین سے جنگ کے احوال اور ان کی فتح کے ظاہری اسباب دریافت کیے تو آپؐ کو بتایا گیا کہ کفار کے لشکر کی قیادت ایک خاتون کر رہی تھی۔ اس پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ھَلَکَتِ الـرِّجَالُ حِـیْنَ اَطَاعَتِ النِّسَآءَ۔ (مستدرک حاکم ج ۴ ص ۲۹۱)
’’مرد جب عورتوں کی اطاعت قبول کریں گے تو ہلاکت میں پڑیں گے۔‘‘
(4) علامہ ابن حجر الہتیمیؒ حضرت ابوبکرؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ کی مجلس میں ملکہ سبا بلقیسؓ کا ایک دفعہ ذکر ہوا تو آنحضرتؐ نے فرمایا:
لَا یُـقْدِسَ اللّٰہؑ اُمَّـۃً قَادَتْـھُمْ اِمْـرَاَۃ۔ (مجمع الزوائد ج ۵ ص ۲۱۰)
’’اللہ تعالیٰ اس قوم کو پاکیزگی عطا نہیں فرماتے جس کی قیادت عورت کر رہی ہو۔‘‘
(5) امام طبرانیؒ حضرت جابر بن سمرۃؓ سے نقل کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا:
لَنْ یُّـفْلِحَ قَوْم یَمْلِکُ رَاْبَـھُمْ اِمْرَاَۃ۔ (مجمع الزوائد ج ۵ ص ۲۰۹)
’’وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوگی جن کی رائے کی مالک عورت ہو۔‘‘
(6) امام ابوداؤد طیاسیؒ حضرت ابوبکرؓ سے نقل کرتے ہیں کہ جناب رسالت مآبؐ نے فرمایا:
لَنْ یُّـفْلِحَ قَوْم اَسْنَدُوْا اَمْرَھُمْ اِلٰی اِمْرَاَۃٍ۔ (طیاسی ص ۱۱۸)
’’وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوگی جس نے اپنی حکمرانی عورت کے حوالہ کر دی۔‘‘
(7) امام ابن الاثیرؒ اس روایت کو ان الفاظ سے نقل کرتے ہیں:
مَا اَفْلَحَ قَوْم قَیِّمُھُمْ اِمْرَاَۃ۔ (النہایۃ ج ۴ ص ۱۳۵)
’’وہ قوم کامیاب نہیں ہوگی جس کی منتظم عورت ہو۔‘‘
(8) مسند احمد میں ہے:
لَنْ یُّـفْلِحَ قَوْم تَمْلِکُھُمْ اِمْرَاَۃ۔ (مسند احمد ج ۵ ص ۴۳)
’’وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوگی جس کی حکمران عورت ہو۔‘‘
(9) اہل تشیع کی معروف کتاب ’’مستدرک الرسائل‘‘ میں، جو الحاج مرزا حسین نوری طبرسی کی لکھی ہوئی ہے اور قم سے طبع ہوئی ہے، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کو جنت سے نکلنے کا حکم دیا تو حضرت حوا کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میں نے تمہیں ناقص العقل والدین بنایا ہے اور
لَمْ اَجْعَلْ مِنْکُنَّ حَاکِمًا وَّلَمْ ابْعَث مِنْکُـنَّ نَبِـیـًّا۔ (مستدرک الرسائل باب ان المراۃ لا تولی القضاء)
’’میں نے تم عورتوں میں سے کوئی حاکم نہیں بنایا اور نہ تم میں سے کسی کو نبی بنا کر بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
یہاں حاکم نہیں بنایا کا معنیٰ یہ ہوگا کہ حاکم بننے کی اجازت نہیں دی، اس لیے جو عورتیں کسی دور میں حاکم بن گئی ہیں ان کی حیثیت وہی ہوگی جو نبوت کا دعویٰ کرنے والی عورتوں کی ہے۔
(10) اسی مستدرک الرسائل میں یہ روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن سلامؓ نے جناب رسول اللہؐ سے کچھ سوالات کیے، ان میں سے ایک سوال حضرت آدمؑ کی پسلی سے حضرت حواؑ کو پیدا کرنے کے بارے میں بھی تھا۔ سوال یہ تھا کہ حضرت حواؑ کو حضرت آدمؑ کے پورے وجود سے پیدا کیا گیا یا وجود کے کچھ حصہ سے بنایا گیا تو جناب سرور کائناتؐ نے فرمایا کہ
بَلْ مِنْ بَعْضِہ وَلَوْ خُلِقَتْ مِنْ کُلِّہ لَجَازَ الْقَضَاءُ فِی النِّسَآءِ کَمَا یَجُوْزُ فِی الرِّجَالِ۔
’’بلکہ حضرت حواؓ کو حضرت آدمؑ کے وجود کے بعض حصہ سے پیدا کیا گیا اور اگر انہیں پورے وجود سے پیدا کیا جاتا تو قضا کا منصب عورتوں کے لیے بھی اسی طرح جائز ہو جاتا جس طرح مردوں کے لیے جائز ہے۔‘‘
(11) اہل تشیع کے ہی ایک اور محقق الاستاذ الشیخ جعفر السبحانی اپنی کتاب ’’معالم الحکومۃ الاسلامیہ‘‘ میں، جو مکتبہ الامام امیر المومنین العامۃ اصفہان سے چھپی ہے، امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ نے عورتوں کے بارے میں احکام بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
وَلَا تَـوَلَّی الْقَضَآءِ۔ (المیزان ج ۱۸ ص ۹۳۔ معالم الحکومۃ الاسلامیہ ص ۲۷۷)
’’عورت قضا کے منصب پر فائز نہیں ہو سکتی۔‘‘
جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ان واضح ارشادات کے بعد اس امر میں اب شک و شبہ کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ شرعاً کسی عورت کے حکمران بننے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
(۳) اجماع امت
قرآن و سنت کے بعد دلائل شرعیہ میں اجماع کا درجہ ہے اور چودہ سو سال سے امت مسلمہ کا اس پر اجماع و اتفاق چلا آتا ہے کہ عورت شرعاً حکمران نہیں بن سکتی۔
(1) خلفاء راشدین کے مبارک دور سے آج تک امت مسلمہ کا اجماعی تعامل اس امر پر ہے کہ کوئی عورت کسی خطہ میں مسلمانوں کی حکمران نہیں بنی۔ اس لیے ہمارے نزدیک امت کا یہ عمل صرف اجماع نہیں بلکہ ’’تواتر عملی‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ عورت کو حکمران نہ بنانے کا یہ عمل اس قدر مسلسل اور متواتر ہے کہ چودہ سو سالہ تاریخ میں کہیں بھی اس کی قابل توجہ خلاف ورزی نظر نہیں آتی۔ بلکہ کسی موقع پر اگر جزوی طور پر اس کی خلاف ورزی ہوئی ہے تو مسلمانوں نے اس پر گرفت کی ہے جیسا کہ نویں صدی ہجری کا ایک واقعہ تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ مصر میں بنی ایوب خاندان کی ایک خاتون ’’شجرۃ الدر‘‘ حکمران بن گئی۔ اس وقت بغداد میں خلیفہ ابوجعفر مستنصر باللہؒ کی حکومت تھی، انہوں نے یہ واقعہ معلوم ہونے پر امراء کے نام تحریری پیغام بھیجا کہ
اعلمونا ان کان ما بقی عند کم فی مصر من الرجال من یصلح للسلطنۃ فنحن نرسل لکم من یصلح لھا اما سمعتم فی الحدیث عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال لا افلح قوم ولوا امرھم امراۃ۔ (اعلام السناء ج ۲ ص ۲۸۶)
’’ہمیں بتاؤ اگر تمہارے پاس مصر میں حکمرانی کے اہل مرد باقی نہیں رہے تو ہم یہاں سے بھیج دیتے ہیں۔ کیا تم نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نہیں سنا کہ وہ قوم کامیاب نہیں ہوگی جس نے اپنا حکمران عورت کو بنا لیا۔‘‘
خلیفہ وقت کے اس پیغام پر ’’شجرۃ الدر‘‘ منصب سے معزول ہوگئی اور اس کی جگہ سپہ سالار کو مصر کا حکمران بنا لیا گیا۔
(2) امام بغویؒ (شرح السنۃ ج ۷۷) میں فرماتے ہیں کہ سب علماء کا اتفاق ہے کہ عورت حکمران نہیں بن سکتی۔
(3) امام ابوبکر بن العربیؒ (احکام القرآن ج ۳ ص ۴۴۵) حضرت ابوبکرؓ والی حدیث نقل کر کے فرماتے ہیں:
وھذا نص فی الامراۃ لا تکون خلیفۃ ولا خلاف فیہ۔
’’یہ حدیث اس بارے میں نص ہے کہ عورت خلیفہ نہیں بن سکتی اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔‘‘
(4) امام ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں:
اجمع المسلمون علیہ۔ (حجۃ اللہ البالغہ ج ۲ ص ۱۴۹)
’’مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے۔‘‘
(5) امام الحرمین الجوینیؒ فرماتے ہیں:
واجمعوا ان المراۃ لایجوز ان تکونا اماما۔ (الارشاد فی اصول الاعتقاد ص ۲۵۹)
’’اور علماء کا اس پر اجماع ہے کہ عورت کا حکمران بننا جائز نہیں۔‘‘
(6) حافظ ابن حزمؒ امت کے اجماعی مسائل کے بارے میں اپنی معروف کتاب ’’مراتب الاجماع‘‘ میں فرماتے ہیں:
واتفقوا ان الامامۃ لا تجوز لامراۃ۔ (مراتب الاجماع ص ۱۲۶)
’’اور علماء کا اتفاق ہے کہ حکمرانی عورت کے لیے جائز نہیں ہے۔‘‘
(7) دورِ حاضر کے معروف محقق ڈاکٹر منیر عجلانی لکھتے ہیں کہ ہم مسلمانوں میں سے کسی عالم کو نہیں جانتے جس نے عورت کی حکمرانی کو جائز کہا ہو۔
فالاجماع فی ھذہ القضیۃ تام لم یشذ عنہ۔ (عبقریۃ الاسلام فی اصول الحکم ص ۷۰)
’’اس مسئلہ میں اجتماع اتنا مکمل ہے کہ اس سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔‘‘
(8) پاکستان میں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے ۱۹۵۱ء میں ۲۲ دستوری نکات پر اتفاق کیا اور ان میں حکومت کے سربراہ کے لیے مرد کی شرط کو لازمی قرار دیا۔
(۴) اجتہاد و قیاس
دلائل شرعیہ میں چوتھا درجہ اجتہاد اور قیاس کا ہے۔ اجتہاد اور قیاس کا اصل محل اگرچہ غیرمنصوص مسائل ہیں کیونکہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی مسائل میں اجتہاد کی اجازت دی ہے جن میں قرآن و سنت کی واضح ہدایات موجود نہ ہوں۔ لیکن چونکہ قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح اور ان سے احکام و مسائل کا استنباط بھی اجتہاد اور قیاس سے تعلق رکھنے والے امور ہیں اس لیے شاید کسی ذہن میں یہ شبہ پیدا ہو جائے کہ ممکن ہے فقہائے اسلام اور مجتہدین نے احکام و مسائل کے استنباط میں عورت کی حکمرانی کے لیے کوئی گنجائش کسی درجہ میں دیکھ لی ہو۔ لیکن یہ شبہ بھی وہم و تخیل سے زیادہ کچھ حقیقت نہیں رکھتا کیونکہ امت کے تمام مسلمہ فقہی مکاتب فکر کے مجتہدین نے اس امر کی صراحت کی ہے کہ حکمرانی کے منصب کے لیے دیگر شرائط کے علاوہ مرد ہونا بھی ضروری ہے اور عورت کے حکمران بننے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
فقہ حنفی
فقہ حنفی کی معروف و مستند کتاب ’’الدر المختار‘‘ اور اس کی شرح ’’رد المحتار‘‘ میں اس امر کی تصریح ہے کہ حکمران کے لیے دوسری شرائط کے ساتھ مرد ہونا بھی ضروری ہے اور
لا یصح تقریر المراۃ فی وظیفۃ الامامۃ۔ (شامی ج ۴ ص ۳۹۵، ج ۱ ص ۵۱۲)
’’عورت کو حکمرانی کے کام پر مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘
فقہ شافعی
فقہ شافعیؒ کی مستند کتاب ’’المجموع شرح المہذب‘‘ میں لکھا ہے:
القضاء لایجوز لامراۃ۔
’’قضا کا منصب عورت کے لیے جائز نہیں ہے۔‘‘
فقہ حنبلی
فقہ حنبلیؒ کی مستند کتاب المغنی (ج ۱۱ ص ۳۸۰) میں ہے:
المراۃ لا تصلح للامامۃ ولا لتولیۃ البلد ان ولھذا لم یول النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولا احد من خلفاء ولا من بعدھم قضاء ولا ولایۃ ولو جاز ذلک لم تخل منہ جمیع الزمان غالباً۔
’’عورت نہ ملک کی حاکم بن سکتی ہے اور نہ شہروں کی حاکم بن سکتی ہے۔ اسی لیے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عورت کو مقرر نہیں کیا، نہ ان کے خلفاء نے کسی کو مقرر کیا اور نہ ہی ان کے بعد والوں نے قضا یا حکمرانی کے کسی منصب پر کسی عورت کو فائز کیا اور اگر اس کا کوئی جواز ہوتا تو یہ سارا زمانہ اس سے خالی نہ ہوتا۔‘‘
فقہ مالکی
فقہ مالکیؒ کی مستند کتاب ’’منحۃ الجلیل‘‘ میں نماز کی امامت، لوگوں کے درمیان فیصلوں، اسلام کی حفاظت، حدود شرعیہ کے نفاذ اور جہاد جیسے احکام کی بجا آوری کے لیے شرائط بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
فیشترط فیہ العدالہ والذکورۃ والفطنۃ والعلم۔
’’پس اس کے لیے شرط ہے کہ عادل ہو، مرد ہو، سمجھدار ہو اور عالم ہو۔‘‘
فقہ ظاہری
اہل ظاہر کے معروف امام حافظ ابن حزمؒ فرماتے ہیں:
ولا خلاف بین واحد فی انھا لاتجوز لامراۃ۔ (المحلی ج ۹ ص ۳۶۰۔ الملل ج ۴ ص ۱۶۷)
’’اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ حکمرانی عورت کے لیے جائز نہیں ہے۔‘‘
اہل تشیع
معروف شیعہ محقق الاستاذ الشیخ جعفر السبحانی لکھتے ہیں:
فقد اجمع علماء الامامیۃ کلھم علی عدم انعقاد القضاء للمراۃ وان استکملت جمیع الشرائط الاخریٰ۔ (معالم الحکومۃ الاسلامیۃ ص ۲۷۸)
’’امامیہ مکتب فکر کے تمام علماء کا اس امر پر اجماع ہے کہ قضاء کا منصب عورت کے سپرد کرنا جائز نہیں ہے اگرچہ اس میں دوسری تمام شرائط پائی جاتی ہوں۔‘‘
اہل حدیث
معروف اہلحدیث عالم قاضی شوکانیؒ حضرت ابوبکرؓ والی روایت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فیہ دلیل علی ان المراۃ لیست من اھل الولایات ولایحل لقوم تولیتھا۔ (نیل الاوطار ج ۸ ص ۲۷۴)
’’اس میں دلیل ہے کہ عورت حکمرانی کے امور کی اہل نہیں ہے اور کسی قوم کے لیے اس کو حکمران بنانا جائز نہیں ہے۔‘‘
جامعہ ازہر
عالمِ اسلام کے قدیم علمی مرکز جامعہ ازہر قاہرہ کے سربراہ معالی الدکتور الشیخ جاد الحق علی جاد الحق اور دیگر علماء ازہر کا متفقہ فتوٰی کویت کے معروف جریدہ ’’المجتمع‘‘ نے گزشتہ سال نومبر میں شائع کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عورت کو حکمران بنانا شرعاً جائز نہیں ہے۔
دارالعلوم دیوبند
ایشیا کی سب سے بڑی اسلامی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے ترجمان ماہنامہ ’’دارالعلوم‘‘ نے نومبر ۱۹۸۹ء کے شمارہ میں مفتی دارالعلوم دیوبند مولانا مفتی حبیب الرحمٰن خیرآبادی کا مفصل فتوٰی شائع کیا ہے جس میں دلائل کے ساتھ واضح کیا گیا ہے کہ عورت کو حکمران بنانے کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔
الشیخ بن باز
سعودی عرب کے مفتی اعظم معالی الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ الباز کا فتوٰی ہفت روزہ ’’تنظیم اہل حدیث‘‘ لاہور کے ۲۰ اکتوبر ۱۹۸۹ء کے شمارہ میں شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ
ان الاحکام الشرعیۃ العامۃ تتعارض مع تولیۃ النسآء الولایات العامۃ۔
’’شریعت کے عام احکام عورتوں کو حکمرانی کے معاملات سپرد کرنے کی نفی کرتے ہیں۔‘‘
الغرض عورت کی حکمرانی کے بارے میں علماء کا موقف قرآن و سنت اور اجماعِ امت کی روشنی میں اس قدر واضح اور مبرہن ہو کر سامنے آ چکا ہے کہ اب اس میں مزید کلام کی گنجائش نظر نہیں آتی اور نہ ہی اہلِ علم و دانش اور اصحابِ فہم و فراست کے لیے اس مسئلہ میں کسی قسم کا کوئی ابہام باقی رہ گیا ہے کہ قرآن و سنت کے صریح احکام اور امتِ مسلمہ کے چودہ سو سالہ تواتر عملی کی رو سے کسی مسلم ریاست میں خاتون کے حکمران بننے کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔ البتہ اس موقف اور اس کے مطابق علماء کرام کی اجتماعی جدوجہد کے بارے میں مختلف شکوک و شبہات اور اعتراضات سامنے آ رہے ہیں جن کا ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ جائزہ لینا ہے۔
ملکہ سبا
یہ بات کہی جاتی ہے کہ قرآن کریم میں ملکہ سبا حضرت بلقیس رضی اللہ عنہا کا ذکر موجود ہے جو سبا کی حکمران تھیں اور جنہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا، اگر عورت کی حکمرانی ناجائز ہوتی تو ان کا ملکہ کی حیثیت سے قرآن کریم میں ذکر نہ ہوتا۔ لیکن جب ہم اس واقعہ کے حوالہ سے قرآن کریم کے ارشادات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ اعتراض بے وزن نظر آتا ہے اس لیے کہ
- قرآن کریم نے ملکہ سبا کی حکومت کا جس دور کے حوالہ سے ذکر کیا ہے وہ ان کا کفر کا دور ہے اور قرآن پاک کا ارشاد ہے کہ وہ اس دور میں سورج کی پجاری تھیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھ پر مسلمان ہونے کے بعد ملکہ سبا کی حکومت کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔
- حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہدہد کے ہاتھ جو خط ملکہ سبا کو ارسال کیا تھا اس میں اسے مسلمان ہونے کی دعوت ان الفاظ میں دی تھی کہ اَلَّا تَعْلُوْا عَلَیّ وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْن (النمل) ’’مجھ سے سرکشی نہ کرو اور مطیع ہو کر میرے پاس چلے آؤ‘‘۔ یہ دعوت ملکہ سبا اور اس کی قوم کو تھی اور اس دعوت کو قبول کرتے ہوئے ملکہ سبا ایمان لائی تھیں۔ اس لیے سرکشی نہ کرنے اور مطیع ہو کر چلے آنے کا مفہوم یہی تھا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی الگ اور مستقل حکومت باقی نہیں رہی تھی۔
- اگر بالفرض اسلام قبول کرنے کے بعد ملکہ سبا کی حکومت باقی رہی ہو تو بھی ان کا یہ عمل ہمارے لیے حجت نہیں ہے کیونکہ بنی اسرائیل کے جو احکام اور واقعات قرآن میں مذکور ہوئے ہیں اور قرآن کریم نے مسلمانوں کو ان کے خلاف حکم دیا ہے تو وہ احکام باقی نہیں رہے بلکہ منسوخ ہو گئے ہیں۔ جیسا کہ ملا جیون رحمہ اللہ تعالیٰ نے اصولِ فقہ کی معروف کتاب ’’نور الانوار‘‘ میں صراحت کی ہے اور اسی بنیاد پر معروف مفسر قرآن علامہ آلوسیؒ نے ملکہ سبا کی حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اس سے عورت کی حکمرانی کے جواز میں استدلال کرنا درست نہیں‘‘۔ (روح المعانی ج ۱۹ ص ۱۸۹)
ام المؤمنین حضرت عائشہؓ
یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ اگر عورت کی حکمرانی جائز نہ ہوتی تو ام المؤمنین حضرت عائشہؓ جنگِ جمل میں صحابہ کرامؓ کے ایک گروہ کی قیادت کیوں کرتیں؟ مگر یہ اعتراض بھی غلط اور بے بنیاد ہے اس لیے کہ
- ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے امارت اور حکمرانی کا کوئی دعوٰی نہیں کیا تھا اور نہ اس کے لیے جنگ لڑی تھی بلکہ وہ صرف حضرت عثمانؓ کے خون کے بدلہ کا مطالبہ لے کر میدان میں آئی تھیں، اس کے علاوہ ان کا کوئی مقصد نہیں تھا۔
- حضرت عائشہؓ کا یہ عمل ان کی اجتہادی خطا تھی جس پر خود ام المومنینؓ نے کئی بار پشیمانی کا اظہار فرمایا، مثلاً ’’طبقات ابن سعد‘‘ ج ۸ ص ۸۱ میں ہے کہ ام المومنینؓ جب قرآن کریم کی آیت کریمہ ’’وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُم‘‘ کی تلاوت کرتیں تو روتے روتے ان کا آنچل آنسوؤں سے تر ہو جاتا۔ اس آیت کریمہ میں ازواج مطہراتؓ کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ گھروں میں بیٹھی رہیں۔ اسی طرح امام مالکؒ (مستدرک ج ۴ ص ۸) میں نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وصیت فرمائی کہ انہیں وفات کے بعد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روضۂ اطہر میں دفن نہ کیا جائے کیونکہ ان سے حضور علیہ السلام کے بعد ایک غلطی سرزد ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ ج ۱۵ ص ۲۷۷ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول منقول ہے کہ ’’اے کاش! میرے دس بیٹے مر جاتے لیکن میں یہ سفر نہ کرتی‘‘۔ اس لیے حضرت ام المومنین کے اس عمل کو دلیل بنانا درست نہیں ہے۔
فقہائے احناف
یہ اشکال پیش کیا جاتا ہے کہ فقہائے احناف عورت کو قاضی بنانے کے حق میں ہیں اس لیے عورت قاضی بن سکتی ہے تو حاکم کیوں نہیں بن سکتی؟ لیکن یہ کہنا بھی درست نہیں ہے اور اس سلسلہ میں فقہائے احناف کے موقف کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے کیونکہ یہ فتوٰی علی الاطلاق فقہائے احناف نے نہیں دیا کہ عورت کو قاضی بنایا جا سکتا ہے بلکہ ان کا موقف یہ ہے کہ اگر کسی حاکم نے عورت کو قاضی بنا دیا ہے اور اس عورت نے قاضی کی حیثیت سے فیصلے کیے ہیں تو اس کے فیصلے ان مقدمات میں نافذ ہوں گے جن کا تعلق حدود و قصاص سے نہیں ہے، اور حدود و قصاص کے مقدمات میں اس کے فیصلے نافذ نہیں ہوں گے۔ چنانچہ علامہ شامیؒ ’’رد المحتار‘‘ ج ۴ ص ۲۹۵ میں صراحت کرتے ہیں کہ غیر حدود و قصاص میں عورت کی قضا نافذ ہو گی لیکن اس کو قاضی بنانے والا گنہگار ہو گا۔ اس لیے فقہائے احناف کے موقف کی عملی صورت یوں بنتی ہے کہ
- حدود و قصاص کے مقدمات میں عورت قاضی نہیں بن سکتی اور نہ ہی اس کے فیصلے نافذ ہوتے ہیں۔
- باقی ماندہ مقدمات میں بھی عورت کو قاضی بنانے والا گنہگار ہو گا لیکن اس کے فیصلے نافذ ہو جائیں گے۔
اس لیے فقہائے احناف کے اس موقف کو عورت کی حکمرانی کے جواز کے لیے دلیل بنانے کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
امام ابن جریر طبریؒ
مشہور مفسر قرآن امام ابن جریر طبریؒ کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے عورت کو قاضی بنانے کے جواز کا فتوٰی دیا تھا لیکن علامہ آلوسیؒ نے اس کی تردید کرتے ہیں اور ’’روح المعانی‘‘ ج ۱۹ ص ۱۸۹ میں فرماتے ہیں کہ امام ابن جریرؒ کی طرف سے اس فتوٰی کی نسبت درست نہیں ہے۔
حضرت تھانویؒ
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک فتوٰی بڑے شدومد کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے جو ’’امداد الفتاوٰی‘‘ میں موجود ہے اور جس میں بھوپال کی بیگمات کی نسبت کے حوالہ سے یہ فتوٰی دیا گیا ہے کہ عورت کو حکمران بنانا جائز ہے۔ لیکن اس فتوٰی کا سہارا لینا بھی بے سود ہے اس لیے کہ حضرت تھانویؒ نے اس فتوٰی سے رجوع کر لیا تھا جس کا ثبوت یہ ہے کہ
- اس فتوٰی میں ملکہ سبا کی حکومت کو استدلال کی بنیاد بنایا گیا ہے مگر حضرت تھانویؒ نے خود اپنی تفسیر ’’بیان القرآن‘‘ میں اس استدلال کو رد کر دیا ہے اور صراحت کی ہے کہ ہماری شریعت میں عورت کو بادشاہ بنانے کی ممانعت ہے۔ (بیان القرآن ج ۸ ص ۸۵)
- حضرت تھانویؒ نے آخری عمر میں ’’احکام القرآن‘‘ خود اپنی نگرانی میں تحریر کرائی جس کا سورۃ النمل والا حصہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ نے لکھا جو حضرت تھانویؒ کو پڑھ کر سنایا گیا اور ان کی منظوری سے شائع ہوا۔ اس میں دلائل کے ساتھ اس مسئلہ کی وضاحت کی گئی ہے کہ عورت شرعاً حکمران نہیں بن سکتی۔
عورت اور پارلیمنٹ
یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ خواتین کو پارلیمنٹ کی رکنیت دینے کے مسئلہ پر علماء نے مخالفت نہیں کی بلکہ خود علماء کی طرف سے بعض خواتین کو اسمبلیوں کا رکن بنوایا گیا، اس لیے جب عورت اسمبلی کی ممبر بن سکتی ہے تو اسی اسمبلی میں قائد ایوان کیوں نہیں بن سکتی؟ مگر یہ سوال بھی لاعلمی پر مبنی ہے کیونکہ اسمبلی کی رکنیت اور چیز ہے اور حکمرانی کے اختیارات اس سے بالکل مختلف ہیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات خلفاء راشدینؓ نے خواتین کو مشاورت میں شریک کرنے سے منع نہیں کیا بلکہ خود بھی متعلقہ امور میں عورتوں سے مشاورت کرتے رہے ہیں۔ اس لیے علمی اور عوامی دونوں امور میں عورت کو اسمبلی کی رکن کی حیثیت سے مشاورت میں شریک کیا جا سکتا ہے البتہ اس کے لیے پردہ کے شرعی احکام کی پابندی ضروری ہو گی مگر حکمرانی کے اختیارات عورت کے حوالے کرنے سے قرآن و سنت میں صراحت کے ساتھ منع کیا گیا ہے اس لیے اس کی گنجائش نہیں ہے۔
سربراہِ مملکت یا سربراہِ حکومت
یہ الجھن بھی پیش کی جا رہی ہے کہ قرآن و سنت میں عورت کو سربراہ مملکت بنانے کی ممانعت کی گئی ہے اور سربراہِ مملکت تو صدر ہوتا ہے جبکہ وزیراعظم سربراہِ حکومت ہوتا ہے، اس لیے اس ممانعت کا اطلاق صرف صدر پر ہوتا ہے وزیراعظم پر نہیں ہوتا۔ لیکن تھوڑے سے غور و فکر کے ساتھ یہ الجھن بھی ختم ہو جاتی ہے اس لیے کہ
- ابتدائے اسلام میں مملکت اور حکومت کی تقسیم کا کوئی تصور موجود نہیں تھا، سربراہِ مملکت اور سربراہِ حکومت کے عہدے ایک ہی شخصیت کے پاس ہوتے تھے اس لیے قرآن و سنت نے عورت کے حاکم ہونے کی جو ممانعت کی ہے وہ دونوں حیثیتوں کو شامل ہے، اور اگر ان دونوں حیثیتوں کو الگ الگ کر لیا جائے تو اس ممانعت کا اطلاق ہر ایک پر ہو گا۔ اس لیے اس اصول کے مطابق عورت نہ سربراہ مملکت بن سکتی ہے اور نہ ہی سربراہ حکومت کا منصب سنبھال سکتی ہے۔
- سربراہِ مملکت اور سربراہِ حکومت کی منصبی حیثیتوں کو الگ الگ کر کے بھی تجزیہ کیا جائے تو ممانعت کا پہلا مصداق سربراہِ حکومت کا منصب قرار پاتا ہے کیونکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات جو اس ضمن میں محدثین نے روایت کیے ہیں ان میں یہ بات فرمائی گئی ہے کہ وہ قوم کامیاب نہیں ہو گی جس نے اپنے امر کا والی عورت کو بنا دیا۔ یا یہ فرمایا کہ جب تمہارے امور عورتوں کے سپرد ہوں گے تو تمہارے لیے زمین کا پیٹ اس کی پشت سے بہتر ہو گا۔ اب یہ دیکھ لیجئے کہ ’’امر‘‘ اور ’’امور‘‘ کا تعلق مملکت اور حکومت میں سے کس کے ساتھ ہے؟ ظاہر بات ہے کہ امور کا طے کرنا تو حکومت کا کام ہوتا ہے۔ اس لیے ان احادیث کی روشنی میں عورت کے لیے حکمرانی کی ممانعت کا مصداق سب سے پہلے سربراہِ حکومت ہے اور کسی عورت کے وزیراعظم بننے کا شرعاً کوئی جواز نہیں ہے۔
جمہوری عمل اور علماء
یہ اعتراض بھی سامنے لایا گیا ہے کہ پاکستان میں خاتون کا وزیراعظم کے منصب پر فائز ہونا جمہوری عمل کا نتیجہ ہے اور یہ وہی جمہوری عمل ہے جس میں خود علماء کی جماعتیں حصہ لیتی رہی ہیں اور اب بھی اس میں شریک ہیں، اس لیے جب علماء اس جمہوری عمل کو تسلیم کرتے ہیں اور خود اس میں حصہ لیتے ہیں تو اس کے نتائج کو تسلیم کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟ اس کے جواب میں عرض ہے کہ علماء نے کسی دور میں بھی آزاد جمہوری عمل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی اب وہ اسے قبول کرتے ہیں، بلکہ علماء نے جدوجہد کر کے
- ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کی صورت میں جمہوری عمل کو قرآن و سنت کا پابند قرار دلوایا۔
- ۲۲ دستوری نکات کی صورت میں اسلامی اصولوں کے پابند جمہوری عمل کا تصور پیش کیا۔
- ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلام کو سرکاری مذہب قرار دینے اور قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہ بنائے جانے کی ضمانت کی دفعات شامل کرائیں۔
اس لیے جب علماء قیامِ پاکستان سے اب تک آزاد جمہوری عمل کو رد کرتے ہوئے قرآن و سنت کے دائرہ میں محدود جمہوری عمل کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں تو انہیں جمہوری عمل کے ہر اس فیصلے کو مسترد کرنے کا حق حاصل ہے جو قرآن و سنت کے احکام کے منافی ہو۔
دستور کی خلاف ورزی
بعض ذمہ دار حضرات کی طرف سے کہا گیا ہے کہ عورت کی حکمرانی کی مخالفت ملک کے آئین کی خلاف ورزی ہے اور اس پر سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن ان حضرات کا یہ کہنا مغالطہ پر مبنی ہے بلکہ اگر دستوری دفعات کا تجزیہ لیا جائے تو خود عورت کو حکمران بنانا آئین کی خلاف ورزی قرار پاتا ہے کیونکہ دستور میں کسی عورت کو صدر یا وزیراعظم بنائے جانے کا جواز صریحاً مذکور نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ یہ بات ہے کہ دستور اس بارے میں خاموش ہے۔ لیکن جب سے ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کو دستور کا باقاعدہ حصہ بنایا گیا ہے آئینی طور پر اس بات کی پابندی ضروری ہو گئی ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی فیصلہ یا حکم نافذ نہ کیا جائے۔ اس لیے جب عورت کو حکمران بنانا قرآن و سنت کی رو سے جائز نہیں ہے تو قراردادِ مقاصد کی روشنی میں خودبخود یہ پابندی ضروری ہو جاتی ہے کہ کسی عورت کو وزیراعظم نہ بنایا جائے۔ اس بنا پر عورت کی حکمرانی کی مخالفت آئین کی خلاف ورزی نہیں بلکہ عورت کو وزیراعظم بنانا ملک کے دستور کی خلاف ورزی قرار پاتا ہے۔
اس ضمن میں ایک اور نکتہ کی وضاحت ضروری ہے کہ ۱۹۷۳ء کے دستور کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیونکہ عام طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ جب مولانا مفتی محمودؒ، مولانا شاہ احمد نورانی اور دیگر علماء نے اس دستور پر دستخط کر دیے تھے تو انہوں نے اسے اسلامی تسلیم کر لیا تھا اس لیے اس دستور کے مطابق جو کام ہو گا وہ اسلام کے مطابق ہی ہو گا۔ لیکن یہ سراسر مغالطہ ہے کیونکہ ۱۹۷۳ء کا دستور تیار کرنے والی دستور ساز اسمبلی میں جو ارکان تھے انہوں نے اس دستور پر غیر مشروط دستخط نہیں کیے تھے بلکہ طویل مذاکرات کے نتیجہ میں یہ آئینی ضمانت حاصل کی گئی تھی کہ ملک میں تمام قوانین کو سات سال کے اندر قرآن و سنت کے مطابق تبدیل کر دیا جائے گا۔ یہ ضمانت خود اسی آئین میں درج ہے اور اس ضمانت کے حصول کے بعد علماء نے آئین پر دستخط کیے تھے۔ اب بھی صورتحال یہ ہے کہ علماء ملک کے آئین و قانون کو اس طرح غیر مشروط ماننے کے لیے تیار نہیں کہ انہیں قرآن و سنت پر بالادستی حاصل ہو جائے بلکہ بالادستی قرآن و سنت کی ہے اور علماء کی تمام تر جدوجہد کا مرکزی ہدف یہی ہے کہ آئین و قانون کو قرآن و سنت کی بالادستی کا عملاً پابند بنایا جائے۔
محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت
یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ جو علماء آج عورت کے حکمران بننے پر مخالفت کر رہے ہیں ان کی اکثریت نے ۱۹۶۴ء کے صدارتی انتخابات میں محترم فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی۔ لیکن یہ بات بالکل خلاف واقعہ ہے کیونکہ اس وقت علماء کی تین بڑی جماعتیں تھیں۔ (۱) جمعیۃ علماء اسلام پاکستان جس کی قیادت مولانا عبد اللہ درخواستی، مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا غلام غوث ہزارویؒ کر رہے تھے۔ جمعیۃ اہل حدیث پاکستان جس کی قیادت مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ کے ہاتھ میں تھی۔ (۳) اور جمعیۃ العلماء پاکستان جس کے سربراہ صاحبزادہ سید فیض الحسنؒ تھے۔ ان تینوں جماعتوں نے باقاعدہ جماعتی فیصلوں کی صورت میں اعلان کیا تھا کہ چونکہ عورت کو ملک کا حکمران بنانا شرعاً جائز نہیں ہے اس لیے وہ محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت سے قاصر ہیں۔
علماء پہلے کہاں تھے؟
یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ علماء کو اچانک یہ بات سوجھی ہے کہ عورت کو وزیر بنانا درست نہیں ہے، اس سے قبل علماء خاموش رہے ہیں، ان کے سامنے دستور بنے ہیں اور ساری باتیں ہوتی رہی ہیں مگر علماء نے کبھی اس قسم کی مہم نہیں چلائی۔ اس سلسلہ میں گزارش ہے کہ یہ بھی محض مفروضہ ہے جو حالات اور واقعات کے تسلسل سے بے خبری کے باعث قائم کر لیا گیا ہے ورنہ
- جب قراردادِ مقاصد میں یہ بات طے کر دی گئی تھی کہ کوئی کام قرآن و سنت کے منافی نہیں ہو گا تو اس مسئلہ میں بھی علماء کے اطمینان کے لیے یہ بات کافی تھی۔
- اس کے باوجود تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء نے ۱۹۵۲ء کے طے کردہ ۲۲ متفقہ دستوری نکات میں یہ طے کر دیا تھا کہ سربراہِ حکومت کے لیے مرد ہونا ضروری ہے۔
- ۱۹۷۳ء کا دستور جب دستور ساز اسمبلی میں زیربحث آیا تو شیخ الحدیث مولانا عبد الحقؒ (اکوڑہ خٹک) نے اس مسئلہ پر مستقل دستوری ترمیم پیش کی تھی جو دستور ساز اسمبلی کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ اس پر مولانا مرحوم نے اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران دلائل کے ساتھ اس مسئلہ کو واضح کیا تھا کہ عورت کو حکمران بنانا شرعاً جائز نہیں ہے۔
- جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں وفاقی مجلس شورٰی نے آئینی ترامیم کے لیے محترم فدا محمد خان کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی تھی، اس کمیٹی کے رکن مولانا قاضی عبد اللطیف نے عورت کی حکمرانی کے مسئلہ کی وضاحت کی اور باقی ارکان کے نہ ماننے کی وجہ سے اپنا اختلافی نوٹ تحریر کرایا جو کمیٹی کے ریکارڈ میں موجود ہے۔
- حالیہ انتخابات کے بعد جب ایک خاتون کے وزیراعظم بننے کے امکانات واضح ہونے لگے تو جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا سمیع الحق نے صدر جناب غلام اسحاق خان سے ملاقات کر کے ان پر مسئلہ کی شرعی پوزیشن واضح کی اور پورے ملک کے علماء کی طرف سے اتمام حجت کا فریضہ ادا کیا۔ اس لیے یہ بات کہنا غلط ہے کہ علماء اس سے قبل خاموش رہے ہیں اور اب ایک خاص پارٹی کی ضد میں اس کی وزیراعظم کی مخالفت کر رہے ہیں۔
قوتِ فیصلہ پارلیمنٹ کے پاس ہے
یہ بات بھی بعض حلقے پیش کر رہے ہیں کہ جمہوری نظام میں قوتِ فیصلہ پارلیمنٹ کے پاس ہوتی ہے اور وزیراعظم صرف ان فیصلوں کے نفاذ کا ذمہ دار ہوتا ہے اس لیے وزیراعظم پر اس مطلق حکمرانی کا اطلاق نہیں ہوتا جس کی نفی قرآن و سنت میں عورت کے لیے کی گئی ہے۔ لیکن یہ بات بھی اصول کے خلاف ہے اس لیے کہ
- اکثر جمہوری ممالک بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں جمہوریت کی ہیئت کذائیہ یہ ہے کہ اکثریتی پارٹی پارلیمنٹ میں فیصلوں کا محور ہوتی ہے اور اکثریتی پارٹی کے فیصلوں کا محور اس کا لیڈر ہوتا ہے، اس لیے عملاً فیصلوں کی باگ ڈور بھی وزیراعظم کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔
- معروف مسلمان مفکر علامہ الماوردیؒ نے ’’الاحکام السلطانیہ‘‘ ص ۲۵ میں صراحت کی ہے کہ صرف (طے شدہ فیصلوں کو) نافذ کرنے والی وزارت اگرچہ کمزور وزارت ہے اور اس کی شرائط کم ہیں لیکن عورت کے لیے یہ وزارت بھی جائز نہیں ہے۔