تمہارے علماء ہیں کہ ان کی نظریں محض پہلے سے لکھی ہوئی کتابوں میں پھنس کر رہ گئی ہیں۔ وہ اپنے گرد و پیش دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے، اگر کبھی دیکھتے ہیں تو بس کتابی نظر۔ وہ زندگی سے کٹ چکے ہیں، اس لیے جن علوم کو وہ پڑھتے اور پڑھاتے ہیں ان علوم میں اس بنا پر نہ تو خود میں کوئی زندگی کی رمق باقی ہے اور نہ وہ علوم پڑھنے اور پڑھانے والوں میں زندگی کی حرارت و تڑپ پیدا کرتے ہیں۔
تمہارے سیاست دان بڑی بڑی سکیمیں بناتے ہیں، لیکن ان کی نظر خاص طبقوں سے آگے نہیں بڑھتی۔ وہ قوم اور وطن کا نام لیتے ہیں، مذہب اور کلچر پر زور دیتے ہیں، لیکن ان کی قوم، وطن، مذہب اور کلچر کا تصور یا تو سرے سے موہوم ہے یا ان کا اطلاق ایک خاص طبقے کے اغراض اور مصالح پر ہوتا ہے۔ (مولانا سندھیؒ کے علوم و افکار: 154)