خروج اور تکفیر کے حوالے سے علمائے امت میں ہمیشہ سے کئی ایشوز زیر بحث رہے ہیں۔ آج کل کے حالات کے تناظر میں بالخصوص ہمارے خطے کے تناظرمیں جوسب سے اہم سوال ہے وہ یہ ہے کہ ایک طبقے کے خیال میں پاکستان جیسے ملک نہ تودارالاسلام ہیں اورنہ اسلامی ریاست کہلانے کے قابل ۔اس طرح کے ملکوں کے نظام کفریہ ہیں،اس لئے ان میں حصہ لینے والے، ان کے مدداگار بننے والے ،یا ان کی حفاظت کرنے والے سب کے سب کفریہ نظام کاحصہ ہیں ،اس لئے وہ بھی کافرہیں۔ایک سوچ یہ بھی موجود ہے کہ ایسے لوگ واجب القتل ہیں ۔چنانچہ ایسے خاص طبقے کے لٹریچر میں پاکستان اورافغانستان کے ریاستی اداروں کے ملازمین کے لئے مرتد کالفظ بکثرت استعمال ہوتا ہے۔ ایسی تصریحات بھی ملتی ہیں کہ پاکستان کے آئین کی بعض غلطیاں صرف فسق نہیں ،کفر کی حدتک پہنچی ہوئی ہیں(۱)۔اس سوچ کا اس امر سے کوئی تعلق نہیں کہ کسی ملک پرکسی غیرمسلم فوج کاقبضہ ہے یانہیں ،اس لئے کہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اوران کی اصطلاح میں ’’تحکیم بغیر ماأنزل اﷲ ‘‘کی وجہ سے انہیں اوران کے نظام میں شامل لوگوں کوکافر کہنے کی سوچ افغانستان اورعراق پرامریکی حملے سے پہلے موجود ہے ۔چنانچہ جماعۃ التکفیر والہجرۃ کے عنوان سے معروف جماعت ساٹھ کی دہائی میں جمال عبدالناصر کے اسلام پسندوں پربے پناہ تشدد اورمظالم کے ردّ عمل کے طورپر وجودمیں آئی ،ابتدامیں اس کوجوکچھ پذیرائی ملی وہ بھی زیادہ تر مصرکے علاقے صعید میں تھی ،خودمصرسے باہریہ سوچ بہت زیادہ قبولیت حاصل نہیں کرسکی(۲)۔
ہمارے خطے میں اس سوچ کوتقویت اس وقت حاصل ہوناشروع ہوئی جب امریکا کی سربراہی میں کئی ملکوں کی افواج نے افغانستان پر حملہ کرکے وہاں موجود مقامی لوگوں کی حکومت کوختم کردیااورحکومت کے خلاکوپرکرنے کے لئے ایک بڑے جرگے کے ذریعے افغانستان ہی کے ایک باشندے کوملک کاصدرمقررکیاگیا اوراس کی سربراہی میں افغانوں پر مشتمل ایک کابینہ معرضِ وجود میں لائی گئی،پھرباقاعدہ ایک آئین بناکر جس میں اسلامی دفعات بھی شامل ہیں انتخابات کرائے گئے ۔اب تک دومرتبہ انتخابات ہوچکے ہیں جن کی مصداقیت (crediblity)پرسوالات موجود ہیں۔افغانستان میں غیر ملکی افواج کی آمد سے پہلے مذکورہ تکفیری سوچ کو کسی بھی اسلامی ملک میں خصوصاً پاکستان اورافغانستان میں خاص پذیرائی نہیں ملی۔تاہم غیرملکی افواج کی موجودگی کی وجہ سے بہت سے نوجوانوں میں اس سوچ کوپذیرائی حاصل ہوئی ،اس لئے یہ کہاجاسکتاہے کہ ہمارے خطے میں موجود اس تکفیری سوچ کی پذیرائی کاافغٖانستان میں مغربی فوجوں کی موجودگی کے ساتھ گہراتعلق ہے ، اس لئے کہ نوجوانوں کاایک طبقہ اس سوچ کواجنبی افواج کے خلاف مزاحمت کاایک مظہر سمجھ رہاہے ،جبکہ بنیادی طورپر اس سو چ کاتعلق اس امر سے ہے کہ کیاکسی کی غلط پالیسی یا اس کا غلط عمل اسے دائرہ اسلام سے خارج کردیتاہے ؟ شاید یہ اندازہ درست ہوکہ خطے سے اجنبی افواج کے انخلاکے بعد بھی ’’تحکیم بغیر ماأنزل اﷲ ‘‘کے عنوان سے یہ تکفیری سوچ موجود رہے ،لیکن اس کی شدت اورپذیرائی میں ضرور کمی واقع ہوگی۔
جہاں تک اہل السنۃ والجماعۃ کے نقطۂ نظر کاتعلق ہے تواس کے مطابق کسی کوکافر یادائرہ اسلام سے خارج قراردینے کے لئے بہت سی سخت شرائط ہیں ۔اہل السنۃ الجماعۃ کاایک بنیادی اصول یہ ہے کہ کسی بھی کلمہ گو کواس کی بدعملی کی وجہ سے خواہ وہ کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہواس کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج قرارنہیں دیاجاسکتا۔حضرت انسؓ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادنقل کیاگیاہے کہ آپ نے فرمایاکہ تین چیزیں ایمان کی جڑ (اصل) ہیں، ان میں سے پہلی بات ہے: الکف عمن قال لاإلہ إلااﷲ ،لانکفرہ بذنب ولانخرجہ من الإسلام بعمل(۳)۔ اس حدیث کی اسنادی حیثیت پر بات ہوسکتی ہے ،لیکن اس کایہ مضمون بہرحال اہل السنۃ ولجماعۃ کامسلمہ اصول ہے۔ کسی معاملے میں کسی بھی غلط طاقت کاساتھ دینا پالیسی کی غلطی ہوسکتی ہے ،اسے کسی حالت میں بہت بڑاگناہ بھی قراردیاجاسکتاہے ، لیکن اس کی وجہ سے ایسی پالیسی اختیارکرنے والادائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا۔یہ بات بھی بعض اوقات کہی جاتی ہے کہ کسی غلط پالیسی کا نفاذجبکہ اسے دستور کاحصہ بنالیاگیاہوبعض اوقات حرام کوحلال سمجھنے کے زمرے میں آتاہے ،اوراستحلالِ حرام کفرہے۔لیکن اس اصول کا اطلاق بھی اس صورت میں ہوتاہے جبکہ ایک توجس چیز کوحرام کہاجارہاہے اس کی حرمت بالکل قطعی ہو،دوسرے اس میں کسی تاویل کی گنجائش نہ ہو تیسرے متعلقہ شخص کی نیت واقعی حکمِ شارع کاانکار کرنے کی ہو۔پاکستانی دستورکے تناظر میں تاویل کے دیگر پہلوؤں کے علاوہ سامنے کی بات یہ ہے کہ اس دستوراوراس کی بنیادوں کوپاکستان کے جلیل القدر علمانے نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کے تحت کئی مرتبہ حلف بھی اٹھایا ۔ یہاں تکفیر کی بات خروج کے تناظر میں ہورہی ہے ۔حدیث کی روشنی میں خروج کے لیے کفربواح شرط ہے۔ کیادستورمنظورکرنے اورکرانے والے اوراس کے تحت حلف اٹھانے والے تمام جلیل القدر علماکوکفربواح کامرتکب یا کم از کم اس کا حامی یا اس کے بارے میں مداہنت کا مرتکب قراردے دیاجائے۔کیاشیخ الحدیث مولاناعبدالحق رحمہ اللہ بانی دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کو بھی، جوبہت سے مجاہدین اورطالبان راہ نماؤں کے شیخ یاشیخ الشیوخ ہیں، کفر بواح کاحصہ مان لیا جائے ؟
اس تکفیری سوچ پر اب تک بہت کچھ لکھاجاچکاہے ،بالخصوص عرب دنیامیں ،تاہم ہمارے خطے میں اس سوچ نے جونیاجنم لیاہے، اس کوسامنے رکھ کراس پرمزیدکام کی ضرورت ہے۔زیرنظر سطورمیں اس سوچ کا صرف ایک پہلوسے جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی اوروہ یہ کہ برِّصغیر میں مسلمانوں بالخصوص علماءِ اسلام کی جوسیاسی سوچ چلی آرہی ہے، اور جس اندازمیں انہوں نے پچھلی دوصدیوں کے دوران جدو جہد کی ہے، کیااس میں اس تکفیری سوچ کاکوئی سراغ ملتا ہے؟ یہ سوال ایک تواس لئے اہم ہے کہ برصغیر کے ان علماء کے پیشِ نظر جوصورتِ حال تھی، اس میں اصل مسئلہ حکام کی بے راہ روی کانہیں تھاجیساکہ جماعۃ التکفیر والہجرۃ کی جائے ولادت مصرمیں تھا ،بلکہ اصل مسئلہ غیر ملکی تسلط تھااوریہی نکتہ ہمارے خطے میں اس سوچ کی پذیرائی کاسبب بناہے ۔ دوسرے اس لیے کہ کسی نہ کسی اندازسے اس سوچ سے متاثر ہونے والے یااس کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے پرجوش نوجوانوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جوبرصغیر کی سیاسی جدوجہد میں حصہ لینے والے علما بالخصوص شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے لے کر جمعیت علمائے ہند سے وابستہ آخری دورکے اکابرتک سے والہانہ عقیدت ومحبت رکھتے ،انہیں سچا مجاہدِ اسلام شمارکرتے ،ان کے نام کے نعرے لگاتے اوران سے انسپائریشن لیتے ہیں ۔ان نوجوانوں کے نقطۂ نظر سے یہ سوال بہت زیادہ اہمیت رکھتاہے کہ امریکا اوراس کے اتحادیوں اورمسلمان ملکوں کے حکمرانوں کے حوالے سے پائی جانے والی آج کی سوچ کاان بزرگوں کی سوچ اورطرزِ عمل سے کوئی تعلق واسطہ بنتاہے یانہیں۔
آنے والی سطورمیں برصغیر کے علماکی اس جدوجہد کاجائزہ مندرجہ ذیل سوالات کی روشنی میں لیاجائے گا:
- کیاکسی ملک پرغیرملکی تسلط ہونے کے فوراًبعد یااصطلاحی لفظوں میں دارالاسلام کے دارالحرب بنتے ہی فوراًجہاد ضروری ہوجاتا ہے اورعلماکی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ فوری طورپرجہاد کافتوی جاری کریں بلکہ عملاًاعلانِ جہاد بھی کردیں؟
- کیاایسی صورت میں مسلمانوں بالخصوص ان ملکوں یاآس پاس کے ملکوں کے مسلمانوں کے پاس صرف یہی اختیارباقی رہ جاتاہے کہ وہ اس غیر ملکی قوت کے خلاف عسکری جدوجہد کاراستہ اختیار کریں ،یاکوئی متبادل راستہ بھی ممکن ہے؟
- اگرکوئی متبادل راستہ بھی ممکن ہو اورعسکری اختیاربھی موجود ہواورکچھ حضرات عسکری راستے کوترجیح دیں لیکن کچھ حضرات کی رائے اس سے مختلف ہواوروہ شرعی مسئلے کے لحاظ سے یاپالیسی کے نقطۂ نظر سے عسکری جدوجہد سے اختلاف کااظہارکریں توان پرکیاحکم لگایاجائے گا؟کیاوہ دائرۂ اسلام سے خارج اورمباح الدم ہوجائیں گے۔ دوسرے لفظوں میں ایسے موقع پر اختیارکی جانے والی مختلف لائنیں پالیسی کااختلاف سمجھی جائیں گی یاایمان اورکفر کی بحث؟
- مسلط غیرملکی طاقت کو ئی نظام بناکر ملک میں اسے نافذکردیتی ہے توکیااس کاحصہ بنناگناہ یاموجب کفر ہوگا اورکیا اس کی وجہ سے انسان دائرہ اسلام سے خارج اورمباح الدم ہوجائے گا؟
- اگرکسی کی دیانت دارانہ رائے ہوکہ وقتی طورپرہمیں اس غاصب قوت کی ضرورت ہے اورہمیں اس سے اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں ۔قطع نظربذاتِ خود اس رائے کے صحیح یاغلط ہونے سے ۔کیاایسی رائے یاعمل رکھنے والامحض اس رائے اورعمل کی وجہ سے تکفیر ،تفسیق یاقتل کامستحق ہوگا۔
برصغیر کے علماکی سیاسی جدوجہد کاآغازشاہ عبدالعزیزؒ کے اس فتوے کوقراردیاجاتاہے جس میں انہوں نے ہندوستان کودارالاسلام کی بجائے دارالحرب قراردیااوراس کی تفصیلی وجوہات ذکرکیں ،جن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ برائے نام مغلیہ بادشاہت موجود ہے ،لیکن ان بادشاہوں کی عمل داری کہیں موجود نہیں ہے ،یہ کوئی حکم جاری نہیں کرسکتے ،یہ کوئی عزل ونصب کافیصلہ نہیں کرسکتے ،اصل عمل داری نصاری یعنی ایسٹ انڈیاکمپنی کی ہے ۔اس سلسلے میں شاہ عبدالعزیزؒ کے متعدد فتاوی موجودہیں(۴)۔ لیکن دلچسپ امریہ ہے کہ ان فتووں میں ہندوستان کودارالحرب قراردینے کے باوجود ان میں سے کسی بھی فتوے میں نہ تومسلمانوں کوانگریزوں کے خلاف جہاد کاکہاگیا ہے اورنہ ہی انہیں دار الحرب بن جانے والے ہندوستان سے ہجرت کرنے کامشورہ دیاگیا ہے ۔بحیثیتِ مجموعی ان فتاوی کامقصدیہ معلوم ہوتاہے کہ ہندوستان کی فقہی حیثیت متعین کی جائے ،اس لئے کہ جہاد کے علاوہ بھی کئی احکام کاتعلق اس فقہی حیثیت کے ساتھ ہے ،مثلاً فقہا کے ایک قول کے مطابق غیر مسلموں سے مسلمان کے سودلینے کا مسئلہ، جس کاذکر مذکورہ بالافتاویٰ میں سے متعدد فتاوی میں موجودبھی ہے۔ یہ کہنا کہ یہ فتوی انگریزوں کے خلاف جہاد ہی کی ایک تمہید تھی ایک تجزیہ توہوسکتاہے خودشاہ صاحب کے فتویٰ میں اس طرح کاکوئی اشارہ موجود نہیں ہے۔ بہرحال شاہ عبدالعزیزکا اس موقع پرہندوستان کے دارالحرب ہونے کے باوجود وجوبِ جہاد کافتویٰ صادرنہ کرنابلکہ جہادکاسرے سے تذکرہ ہی نہ کرناایک بہت بڑا سوال جنم دیتاہے۔ کیااس سے یہ نتیجہ اخذنہیں ہوتاکہ کم ازکم ولی اللٰہی خانوادے کی فکر کے مطابق یہ تاثردرست نہیں ہے کہ غیرملکی تسلط کے فوراًبعد علماکی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حالات کے تمام پہلوؤں کاتجزیہ کئے بغیر فوری طورپر نہ صرف جہاد کی فرضیت بلکہ اس کے فرضِ عین ہونے کا اعلان کریں۔ آگے چل کرہم ذکرکریں گے ایک وقت ایسابھی آیاکہ علماء کی اسی لڑی نے جن کے نزدیک ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا یہ فتویٰ بنیادی اہمیت رکھتاتھا ۱۹۱۵ء اور۱۹۲۰ء کے درمیانی عرصے میں عسکری جدوجہد کوچھوڑ کرپرامن سیاسی اورآئینی جدوجہد کاراستہ اختیار کیا جس کامطلب اس بات کوتسلیم کرناہے کہ غیر ملکی تسلط کی صورت میں اس کے خلاف ہتھیار اٹھاناہی واحد آپشن نہیں ہے ،بلکہ شرعی لحاظ سے اوربھی راستے ممکن ہیں۔
یہاں جودوسرانکتہ قابلِ توجہ ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان تودارالحرب بن گیا ،لیکن کیوں بنا؟کس کی وجہ سے بنا،اس کے اصل ذمہ دار کون تھے؟ظاہر ہے کہ اس میں جہاں ایسٹ انڈیاکمپنی کی سازشوں ،چالاکیوں اورجبرکادخل تھاوہیں اس وقت کے مغلیہ بادشاہوں سمیت باستثنائے چند ،مسلمان حکمران بھی ذمہ دارتھے ،ایسٹ انڈیاکمپنی کو مراعات دینے بلکہ اس کی چاپلوسی کرنے میں مغلیہ بادشاہ پیش پیش تھے۔ انہوں نے کبھی بھی اس ابھرتی ہوئی طاقت کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچا۔۱۶۱۲ء میں جہانگیر نے اپنے تمام گورنرزاورفوجی حکام کوحکم جاری کیاکہ وہ ایسٹ انڈیاکمپنی کے لوگوں کوبلاروک ہرجگہ آنے جانے ،کاروبارکرنے اورصنعتیں لگانے کی اجازت دیں ،اس کے بدلے میں یہ طے ہواکہ کمپنی کے لوگ نوادرات اورقیمتی اشیاء بادشاہ کے محل کے لئے پیش کریں گے(۵)۔ سوال یہ ہے کہ کیااس زمانے میں یہ بحث اٹھی کہ ہمارے یہ حکمران چونکہ نااہل ،اپنی ذمہ داریوں سے ناآشناغیروں کے آگے گھٹنے ٹیکنے والے ان کے اشاروں پرناچنے والے او ر کٹھ پتلی ہیں اس لئے سب سے پہلے ان ’’منافقوں ‘‘کے خلاف ہتھیاراٹھاکران سے جان چھڑائی جائے۔ یہاں اختصار کے پیش نظر بات مخصوص تناظر میں ہورہی ہے وگرنہ اسی سوال کوذراوسیع پیمانے پربھی موضوعِ بحث بنایاجاسکتاہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں جب اس طرح کے نااہل حکمران مسلط رہے ، ان کے ہاں بعض غیر اسلامی چیزیں رواج کاایساحصہ رہیں کہ انہیں اس دور کے غیر تحریری دستوراورآئین کاحصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔اگرواقعتا ایساہی تھاتوکیاان ادوار میں اس طرح کے غلط دستوروں کی وجہ سے تکفیر کی مہم چلی۔
پھرہندوستان کے دارالحرب ہونے کاجوفتویٰ شاہ عبدالعزیزؒ نے جاری کیاتھا اس کی جہاں اس زمانے اوربعد کے زمانے کے بے شمار علمانے تائید کی وہیں شاہ صاحب کے شاگردوں اوران کے بھی بعد کے طبقے کے متعدد علمانے اس سے اختلاف بھی کیا،جن میں مثال کے طورپر مولاناسید نذیرحسین دہلوی ؒ اورعبدالحی لکھنوی فرنگی محلیؒ قابلِ ذکر ہیں۔مولانافرنگی محلی کاایک مفصل فتویٰ ان کے ’’مجموعۃ الفتاویٰ‘‘ میں شامل ہے ،جس میں انہوں نے فقہ حنفی کی عبارات کی روشنی میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ حالات میں ہندوستان دارالحرب نہیں ہے(۶)۔ اسی طرح سید احمدشہیدؒ کے ایک خلیفہ مولاناکرامت علی جون پوریؒ کلکتہ محمڈن لٹریری سوسائٹی کے اہم رکن رہے ، یہ سوسائٹی ہندوستان کے دارالحرب ہونے اورانگریزوں کے خلاف جہاد کے نظریات کے برعکس کام کررہی تھی ،اس پلیٹ فارم کے ذریعے مولاناکرامت علی جون پوریؒ نے کھل کر ہندوستان کے دارالحرب ہونے اوراس میں جہاد کرنے کے نظریے کی مخالفت کی،یہاں تک کہ انہوں نے بنگال کی فرائضی تحریک کے لوگوں کواپنے زمانے کے خوارج قرار دیا(۷)۔ کیاان علماکواس اختلافِ رائے کی بنیادپر جان کے خطرات کبھی لاحق ہوئے ،ظاہر ہے کہ نہیں۔
ہندوستان کی تاریخ کاایک بہت ہی اہم واقعہ ۱۸۵۷ء کی جنگ کاہے جوبنیادی طورپرکسی طے شدہ پروگرام اور منصوبے کانتیجہ نہیں تھا ،بلکہ بعض وقتی واقعات یاافواہوں کانتیجہ تھا۔تاہم ایسٹ انڈیاکمپنی کی عمل داری اوراس کی حاکمیت کے خلاف پہلے سے موجود جذبات نے اس سلسلے میں بڑاہم کرداراداکیا۔اس موقع پرکئی راہ نما ؤں کو خیال ہواکہ شاید اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان سے غیر ملکی تسلط کوختم اوربادشاہ کومضبوط کیاجاسکے۔اسی لئے بعدکے ادوارمیں اسے جنگِ آزادی سے بھی تعبیر کیاگیا۔مولانامناظراحسن گیلانی نے سوانح قاسمی پچاس کے عشرے میں لکھی ہے ،اس کتاب میں ان کاکہنایہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے سے ۱۸۵۷ء کے ان واقعات کوجنگِ آزادی یاجہادِ آزادی سے تعبیر کیاجانے لگاہے(۸)۔ ۱۸۵۷ء سے پہلے انگریزوں کے مکمل تسلط کی وجہ سے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کافتوی آئے کافی عرصہ گذرچکاتھالیکن غیرملکی تسلط کایہاں بھی یہ منطقی اورلازمی نتیجہ نہیں سمجھاگیا کہ اس غیر ملکی طاقت کے خلاف عسکری آپشن استعمال کیا جائے، ۱۸۵۷ء میں جب از خود ایک محاذ کھڑا ہوگیا تو اس بات پر الگ سے غور ہواکہ ازخوداٹھ کھڑے ہونے والے اس محاذ میں انگریزوں کے خلاف اپناحصہ ڈالا جائے یانہیں۔ اس سلسلے میں اختلافِ رائے بھی ہوا۔ اورآگے چل کر ذکرکیاجائے گاکہ عسکری آپشن اختیارکرنے والے حضرات کے اخلاف نے بھی ۱۹۱۵ء اور۱۹۲۰ء کے درمیانی عرصے میں اسے ترک کرنے کا باقاعدہ فیصلہ کرلیا۔مولانامناظراحسن گیلانی نے تویہ بھی لکھاہے کہ جب تھانہ بھون میں علماکے ایک طبقے کا۱۸۵۷ء میں اجلاس ہوا۔جواصل واقعات شروع ہونے کے کافی بعد ہواتھا۔تو’’اس موقع پر جہاد کے سب خلاف تھے ،صرف حضرت نانوتوی ؒ مدعیانہ طریقہ پر اس میں پیش پیش تھے‘‘(۹)۔ بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ جوبھی فیصلہ ہوا وہ درحقیقت مولانا نانوتوی ؒ کی قادر الکلامی اورقوتِ استدلال کانتیجہ تھا۔ چنانچہ چند سطروں بعدمولاناگیلانی نقل کرتے ہیں: ’’سب نے جوحجتیں خلاف پیش کیں، حضرت نانوتوی نے جوش کے ساتھ سب کامسکت جواب دیا‘‘۔ بہرحال کہنے کامقصد یہ کہ ایسے وقت میں جبکہ غیرملکی تسلط یقینی طورپر موجود ہے اورکچھ لوگ اس کے خلاف اٹھ بھی کھڑے ہوئے ہیں ،ایسی حالت کابھی یہ لازمی اورمنطقی تقاضا نہیں سمجھاگیاکہ فوری طورپر اعلانِ جہاد کردیاجائے بلکہ اس کے لئے الگ سے غور کرنے کی ضرورت سمجھی گئی۔جن لوگوں نے عسکری آپشن کی مخالفت کی یاکسی بھی طریقے سے سرکاری نظام کاحصہ رہے، ان کے بارے میں کبھی یہ نہیں سمجھا گیاکہ جس طرح انگریزی فوج سے قتال کیاجائے، اسی طرح اس فوج کامعاون ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کوبھی نشانہ بنایاجائے گا، بلکہ عسکری آپشن سے اختلاف کرنے والوں میں ایسی شخصیات بھی ہیں جن کانام ہمیشہ عقیدت واحترام سے لیاگیا۔مولاناعبیداللہ سندھی فرماتے ہیں:
’’اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مولانامحمداسحاق [شاہ محمد اسحاق دہلوی]کے متبعین کی پہلی صف میں سے علمااورصوفیہ کا کثیرحصہ سلطانِ دہلی کی لڑائی میں غیرجانب داربن گیا‘‘(۱۰)۔
غیر جانب دارہونے کامطلب عسکری راستے سے اختلاف کرناہی ہے۔
جن حضرات نے عسکری راستہ اختیار کرنے سے انکار کیاتھا، ان میں مولانامحبوب علیؒ کانام قابلِ ذکر ہے جوکہ شاہ عبدالعزیزکے نمایاں شاگردوں میں سے تھے ۔یہ سید احمد شہید کے لشکر میں بھی شامل ہوئے تھے ،لیکن مزاج نہ ملنے یاشرحِ صدرنہ ہونے کی وجہ سے واپس آگئے تھے (۱۱)۔ ۱۸۵۷ء کے واقعات میں بھی ان کانقطۂ نظرمجاہدین سے مختلف تھا۔ انگریزوں نے کامیابی کے بعد بطورِانعام انہیں جاگیردینے کی پیشکش کی ،لیکن یہ انہوں نے اس پیش کش کویہ کہہ کرٹھکرادیاکہ میں نے جوموقف اختیار کیااپنی دیانت دارانہ رائے کی وجہ سے کیا،کسی انعام کے لالچ یاکسی کوخوش کرنے کے لئے نہیں(۱۲)۔
جب شیخ الہند مولانامحمودحسن ؒ مالٹا کی اسارت سے واپس آئے توان سے ملاقات کرنے والوں اورانہیں انگریز کے خلاف جدوجہد سے الگ ہونے کامشورہ دینے والوں میں ایک نام مولانارحیم بخش ؒ کابھی ہے۔مولاناسید حسین احمدمدنیؒ کے سوانح نگارمولانافریدالوحیدی ان کے تعارف میں لکھتے ہیں:’’ریاست بہاولپورکے مدارالمہام تھے، حضرت گنگوہی کے متوسلین میں اورعلماء کرام کے بڑے معتقدتھے ، تاہم حکومتِ برطانیہ کے خیرخواہ اورمعتمد تھے‘‘(۱۳)۔انہی مولانارحیم بخش کے بارے میں مولانامدنی کے والد ماجد مولوی سید حبیب اللہ صاحبؒ کے حالات میں لکھاہے:
’’اتفاق سے اسی زمانے میں نواب صاحب بہاولپور بھی حج وزیارت کے لئے حاضر ہوئے ۔ان کے وزیراعظم مولانارحیم بخش صاحب بڑے عالم،متقی اورباخداشخص تھے اورحضرت قطب عالم گنگوہی ؒ کے متوسلین میں سے تھے ۔انتظامات کے لئے وہ نواب صاحب کی آمد سے پہلے ہی مدینہ طیبہ حاضر ہوئے ۔قدرتی طورپران کومولوی صاحب[مولوی حبیب اللہ ]اوران کے حضرت گنگوہی کے خلفا صاحبزادگا ن سے خصوصی تعلق اورعقیدت ہوگئی اورنواب صاحب آئے توموصوف نے ان کی جانب سے دس روپیہ ماہوار کاوظیفہ مقررکرا دیا،یہ ساری مستقل آمدنیاں تھیں‘‘ (۱۴)
گویاایک طرف تومولانارحیم بخش حکومتِ برطانیہ کے’’ خیرخواہ اورمعتمد ‘‘تھے دوسری طرف وہ ’’بڑے عالم،متقی اورباخداشخص ‘‘تھے اور ان کے ساتھ تعلقات کی نوعیت وہ ہے جواقتباس بالاسے سمجھ میں آرہی ہے ۔
اس کے علاوہ بے شمار مسلمان سرکاری ملازمتیں اختیارکرکے اس برطانوی نظام کاحصہ بن چکے تھے ،ان میں کئی لوگ پولیس اور انتظامی مشینری کے دیگراداروں میں شامل تھے جوکسی نہ کسی طرح اس حکومت ونظام کی مضبوطی کاذریعہ تھے ۔لیکن خاص ملازمتوں کوان میں ادا کئے جانے والے بعض افعال کی وجہ سے توناجائز کہاگیالیکن محض اس کافرانہ نظام کاحصہ ہونے کی وجہ سے اس طرح کی کسی ملازمت کو ناجائز نہیں کہاگیا ۔پھرجیسی بھی ملازمت ہواس کے کرنے والے کی جان کومحض اس وجہ سے خطرہ لاحق نہیں ہواکہ وہ سرکار کے فلاں شعبے میں کام کررہاہے۔ اور تو اور، سرسید احمدخان نے جس انداز سے کھل کر نہ صرف عسکری آپشن کے خلاف رائے دی بلکہ مسلمانوں کوانگریزوں سے بہتر تعلقات کابھی مشورہ دیا، لیکن کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ اس طرح کی باتوں کی وجہ سے ان کے خلاف کوئی ایسی بات کہی گئی ہو یا فتویٰ د یا گیا ہوجس سے ان کی جان کوخطرات لاحق ہوجائیں۔سب سے بڑھ کریہ کہ مسلمانوں کی خاصی تعدادبرطانوی ہندکی فوج میں بھی شامل تھی،جوبنیادی طورپرتاجِ برطانیہ کی وفادارتھی۔جائزناجائز کامسئلہ توالگ ہے، لیکن فوج میں ان بھرتی ہونے والوں کوکبھی بھی مرتد نہیں کہا گیا جس طرح آج ان مسلمان افواج کوکہاجارہاہے جوبراہِ راست کسی کافر طاقت کے ماتحت نہیں ہیں۔برطانوی ہند میں جگہ جگہ فوجی چھاؤنیاں موجودتھیں ،یہ چھاؤنیاں مسلمان اکثریت والے علاقوں میں بھی موجودرہیں۔لیکن انہیں کبھی اس طرح کے سیکورٹی انتظامات کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی جیسے آ ج کل ان فوجوں کے بارے میں نظرآتی ہے جوبراہِ راست کسی کافر طاقت کی کمان میں نہیں ہیں۔
۱۹۱۷ء کے لگ بھگ جمعیت علماءِ ہند سے وابستہ علمانے باقاعدہ یہ فیصلہ کیاکہ اب آزادی کی جنگ عسکری کی بجائے سیاسی میدان میں جمہوری انداز میں لڑی جائے گی۔ انہوں نے گاندھی کے فلسفۂ عدمِ تشدد کواختیار کیا اوراسے اسلامی تعلیمات کاتقاضا قرار دیا۔ جمعیت علماء ہند کے ناظمِ اعلیٰ اوراس کے مؤرخ مولانامحمدمیاں نے لائحہ عمل کی اس تبدیلی کے حق میں تفصیلی دلائل ذکر کئے(۱۵)۔
مولانا محمد میاں کی گفتگو سے معلوم ہوتاہے کہ اُس زمانے میں اس تبدیلی کے خلاف آوازیں اٹھ رہی تھیں ،چنانچہ وہ لکھتے ہیں : ’’ایک عام پروپیگنڈاہے کہ علماآیاتِ جہاد کوبھول گئے، وغیرہ وغیرہ ‘‘۔اس کے جواب میں انہوں نے نئے پر امن سیاسی راستے کی وکالت کرتے ہوئے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ’’علمائے ملت نے اس راستے کو نادانی یا بزدلی یاغفلت سے اختیار نہیں کیا‘‘(۱۶)۔
مولانا مزید لکھتے ہیں:’’حضرت سید صاحب شہیدؒ کی تحریک کے آغازسے ۱۹۱۵ء تک یعنی صرف ۸۵سال کے عرصے میں ہندوستان کی صرف یہی ایک جماعت ہے جس نے چارمرتبہ انقلاب کی جدوجہد کی‘‘مطلب یہ کہ اب لائحہ عمل میں جوتبدیلی ہورہی ہے سابقہ تجربات کے تجزیے پر مبنی ہے۔مولانانے ثابت کیاہے کہ عدمِ تشددپرمبنی طریقہ کار بھی جہاد ہی کی ایک شکل ہے بلکہ حدیث افضل الجہاد کلمۃ عدل عند سلطان جائز کی روسے جہاد کی افضل شکل ہے ،اوریہ کہ مکی دور میں نازل ہونے والی صبر وغیرہ کی آیات منسوخ نہیں بلکہ آج بھی ان کاحکم باقی ہے ۔ مولانانے یہ بھی تسلیم کیاہے کہ عسکری جدوجہد کسی بیرونی طاقت کے تعاون کے بغیرممکن نہیں ،وہ لکھتے ہیں:’’جب کہ کوئی بیرونی طاقت پشت پرنہ ہوتوسوال یہ پیداہوتاہے کہ اسلحہ اورقوت کے ساتھ انقلابی جدوجہد کے لئے خرچ کاکیاانتظام ہو‘‘۔ یہاں اب تک کن بیرونی طاقتوں کی مددحاصل تھی اس کاجواب مولاناکے ان لفظوں میں ملتاہے:
’’جنگِ عمومی نے جرمنی اورترکی کوشکست دے کر ان تمام واقعات کوختم کردیاجن کی بنیاد پر ۱۹۱۵ء تک انقلابی سازشیں ہوتی رہیں اوراب انگریزکی طاقت پہلے کی طرح نسبتاًکئی گنابڑھ گئی اورحدودِ سلطنت اتنے وسیع ہوگئے کہ ان میں آفتاب نہیں چھپتا‘‘۔
مزیدلکھتے ہیں:’’جلیانوالہ باغ اورپنجاب کے مارشل لانے ہندوستانیوں کوکافی سبق دے دیاکہ شورشِ بغاوت کوایک جابراورقاہر حکومت کس طرح کچل سکتی ہے ‘‘۔اس کامطلب یہ بھی ہواکہ پالیسی امورپر غوراوربحث میں اپنے مدمقابل کی طاقت وقوت اوراپنی کمزوریوں کادرست ادراک اوراظہار کسی قسم کی بزدلی کے زمرے میں نہیں آتا۔ چونکہ دشمن طاقت ورہے، اس لئے جنگی محاذ پرہمیں اس کے مد مقابل نہیں آناچاہیے۔یہ وہ استدلال ہے جو ۱۹۱۵ء کے بعدپیش کیا جا رہا ہے ۔بعینہٖ یہ وہی استدلال ہے جو ۱۸۵۷ء میں ان حضرات نے پیش کیاتھا جواس وقت عسکری جدوجہد کی رائے نہیں رکھتے تھے،اب وہی بات وہ حضرات بھی کہہ رہے ہیں جواب تک عسکری راستے پر گامزن تھے۔ اس کامطلب یہ ہواکہ فرق نتیجۂ فکر کانہیں وقت کاہے ۔ کچھ حضرات نے وہی بات نصف صدی پہلے کہہ دی تھی جوباقی حضرات نصف صدی کے تجربات کے بعدکہہ رہے ہیں ۔
مولانامحمدمیاںؒ کی اسی کتاب میں ڈاکٹرابوسلمان شاہ جہاں پوری نے مفتی کفایت اللہؒ کے حالات پر مشتمل اپناایک مضمون شامل کیا ہے ، اس میں وہ لکھتے ہیں:
’’بیسویں صدی کی پہلی دودہائیوں کے اختتام تک پرجوش نوجوانوں کے سامنے قوت کے زورپر آزادی چھین لینے کاپروگرام تھا ، لیکن زمانہ بہت آگے بڑھ گیاتھا۔وقت کاتقاضا دوسراتھا۔ملک کے نہتے اورمسائل میں گرفتار عوام کے لئے کسی ایسے پر امن پروگرام کی ضرورت تھی ،جسے اختیارکرکے دنیاکی سب سے بڑی اورجابرقوت کو رولٹ ایکٹ کے جابرانہ قوانین اوران کے تحت حکومت کونہایت ظالمانہ اختیارات واپس لینے پر مجبور کردیاجائے ۔یہی طریقہ آزادی کے حصول کاتھا۔اگرچہ یہ ایک طویل اورصبرآزماطریقہ تھا ۔ہندی میں اس کے لئے ستیہ گرہ اوراردومیں مقاومت بالصبر کی ترکیب استعمال کی گئی تھی ۔۔۔
’’حضرت مفتی صاحبؒ [مفتی کفایت اللہ]اوران کے رفقانے ازخوداس پروگرام کی اہمیت اورافادیت وقت کے حالات میں محسوس کرکے جمعیت علمائے ہند کے قیام سے پہلے حصہ لیاتھا۔۱۹۲۰اوراس کے بعدتویہ [پرامن پروگرام]ہندوستان کی ایک معروف تحریک بن گئی تھی اورعام طورپرحریت پسند جماعتوں نے اسے اختیار کرلیاتھااوررفتہ رفتہ انقلابی اورخفیہ جماعتیں بھی اس کی قائل ہوتی چلی گئیں‘‘(۱۷)۔
اس کامطلب یہ ہواکہ کوئی جماعت اگرایک وقت عسکری راہ اختیار کرنے کوضروری سمجھ رہی ہوتوتاریخی تجربہ ہمیں بتاتاہے کہ یہ امکان ذہن سے اوجھل نہیں ہوناچاہیے کہ شاید یہی جماعت کچھ عرصہ کے تجربات کے بعداپنی راہ بدلنے پرمجبورہوجائے۔ ان حضرات کی طرف سے عدمِ تشددپرمبنی آئینی جدوجہد کاراستہ اختیارکرنے کے بعد اس لائحہ عمل یایوں کہیے کہ پرامن سیاسی جدوجہد کی تائید میں انہوں نے تفصیل سے لکھا،اورعدمِ تشددکوبھی جہادہی کی ایک قسم بلکہ افضل قسم قراردیا،خصوصاًمولاناحسین احمد مدنیؒ ،مولانامحمدمیاں ؒ نے ۔ان حضرات کے کچھ اقتباسات راقم الحروف کے ایک مضمون مطبوعہ ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ میں بھی ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں(۱۸)۔
جب تاریخی تجربے کی بات چلی ہے توضمناًیہ عرض کرناغیر متعلق معلوم نہیں ہوتاکہ شیخ الہند مولانامحمودحسنؒ کے سفرِحجاز کے دوران جب شریفِ مکہ نے آپ کی گرفتاری کے احکام جاری کئے اوریہ بات تقریباًیقینی تھی کہ وہ آپ کوانگریزوں کے حوالے کرے گاتوابتدامیں آپ روپوش ہوگئے۔جب آپ کے متعددمتعلقین کوگرفتارکرلیاگیا اوران کے بارے میں سخت دھمکیاں دی گئیں توآپ نے ازخودروپوشی ختم کرکے گرفتاری دینے کافیصلہ کرلیااورجہ یہ بیان کی ’’مجھے گوارانہیں میرے باعث میرے کسی دوست کا بال بیکاہو‘‘(۱۹)۔ جیسا کہ عرض کیا کہ اول توآج کل کے نظریہ ’’الولاء والبراء ‘‘کے تحت شریفِ حجازانگریزوں کے ساتھ گٹھ جوڑکی وجہ سے خوددائرہ اسلام سے خارج تھا۔ دوسرے یہ یقینی تھاکہ وہ آپ کوپکڑکرانگریزوں کے حوالے کرے گا۔ گویاگرفتاری دیناہرحال میں خودکوکافروں یاان کے ایجنٹوں کے حوالے کرناتھا، لیکن شیخ الہندؒ نے یہ کام اپنے لوگوں کو بچانے کے لئے کیا۔ نائن الیون کے بعد جب امریکاکی طرف سے ایک شخصیت کی حوالگی کامطالبہ سامنے آیااوراس مطالبے کوماننے یانہ ماننے کے عواقب ونتائج بھی سامنے تھے توایک سوال تویہ تھاکہ آیااسے حوالے کرناجائز ہے یا نہیں۔ دوسراسوال یہ ہوسکتاتھاکہ وہ شخصیت اپنی میزبان اورمحسن اسلامی حکومت اورخطے کے عوام کوبچانے کے لئے خود کو امریکا یا اس کے ایجنٹوں کے حوالے کردیتی۔ اس وقت کا جو ماحول تھااور شاید بعض سطحوں پرابھی بھی باقی ہے، اس میں اس طرح کے سوال کوقابل غورسمجھنا کم ازکم الفاظ میں پرلے درجے کی بزدلی سمجھی جا رہی تھی۔ حیرت اس بات پر ہے کہ شیخ الہند کے پیروکاروں کواس وقت یہ مثال یادنہ آئی اوراس شخصیت کو اس مثال کی پیروی کرنے کانہیں کہاگیا۔ بلکہ شیخ الہندؒ کے بھی استاذ مولانامحمدقاسم نانوتویؒ کایہ واقعہ بکثرت بیان کیاجاتاہے کہ انہوں نے انگریزوں کی طرف سے گرفتاری کے خوف سے صرف تین دن تک روپوشی اختیارکی اور پھر روپوشی یہ کہہ کرترک کردی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن تک ہی روپوشی اختیارکی تھی۔ اگرمولانانانوتویؒ کے پیروکاروں میں سے کوئی ۲۰۰۱ء میں اس شخصیت کوبھی اس سنت کے اختیار کرنے کامشورہ دے دیتاتوشاید تاریخ کا دھاراآج کسی اوررخ پربہہ رہاہوتا۔
اسی طرح ۱۹۲۱ء میں مشہور مقدمہ کراچی میں جب مولاناحسین احمد مدنیؒ کوگرفتارکرنے کے لئے انگریز پولیس آفیسرزدیوبندآئے تو عوام شدیدمشتعل تھے ۔’’عوام میں اتناشدیدغم وغصہ تھاکہ ان انگریزافسروں کوجان سے مارنے پر تیار تھے‘‘۔ عوام قابوسے باہر ہورہے تھے اور مطالبہ کررہے تھے کہ انگریزوں کوہمارے حوالے کردو‘‘۔لیکن اس موقع پر مولانامدنیؒ نے ایک مفصل تقریرکی’’جس میں اپیل کی کہ عوام قانون کوہاتھ میں نہ لیں اورجوش وخروش کوہنگامہ آرائی اورغلط راستوں میں استعمال نہ کریں‘‘۔ آخر میں حضرت نے اپناعمامہ سرسے اتارا اورعوام کے سامنے کرکے فرمایاکہ آپ لوگ میری پگڑی کی لاج رکھ لیں اورخاموشی اورصبرکے ساتھ مجھے گرفتارہونے دیں‘‘(۲۰)۔ خود کو اس طرح کافروں کے قانون کے حوالے کرنا،لوگوں کوانگریزافسران کومارنے کے جذبات سے روکتے ہوئے قانون ہاتھ میں لینے سے منع کرناآج کے نظریہ ’’الولاء والبراء‘‘کے نامعلوم کس خانے میں فٹ بیٹھتاہے !
بہرحال ۱۹۱۵ء اور۱۹۲۰ء درمیان لائحہ عمل کی اس تبدیلی کے بعد علماکی یہ جماعت اس وقت کے رائج سیاسی نظام کانہ صرف حصہ بن گئی بلکہ یہ حضرات انڈین نیشنل کانگریس کی صورت میں ہندؤوں اورمسلم لیگ کی صورت میں ’’فساق‘‘ کے ساتھ بھی بیٹھے۔اس کے بعد خود انگریزوں کے وضع کردہ دستوری نظام کے تحت مثلا Government of Idia Act 1935کے تحت جس سطح پرجوانتخابات بھی ہوئے علماء کی اس جماعت سمیت تقریباًہرطبقۂ خیال کے مسلمانوں نے ان میں حصہ لیااس طرح اس ’’کافرانہ نظام ‘‘کاحصہ بنے جسے چلا بھی خودانگریزہی رہے تھے ۔حالانکہ آج کی پاکستان اورافغانستان کی صورتِ حال اس وقت کے سسٹم سے کہیں بہترہے۔ اس لئے اس وقت نظام تکنیکی طورپربھی تاجِ برطانیہ کے ماتحت تھا،اورمتحدہ قومیت کے حامی علماکے نقطۂ نظر کے مطابق توخالص مسلمانوں کے نظام کے آنے کاسرے سے کوئی امکان ہی نہیں تھا۔یہاں ہمارااصل مقصود اس بات کاجائز ہ لیناہے کہ غیرشرعی نظام یاغیرمسلم افواج کی موجودگی کی بنیادپر جوتکفیری سوچ اس وقت بعض حلقوں کی طرف سے پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے اورمسئلہ ’’الولاء والبراء‘‘کے عنوان سے کہاجارہا ہے کہ فلاں نظام کاحصہ یا بالواسطہ معاون بننے والے کافرہیں وغیرہ وغیرہ اس سوچ کابرصغیر میں پہلے سے موجوددینی سیاسی فکرسے کوئی تعلق بنتاہے یانہیں ۔ نیز یہ کہ ’’الولاء والبراء‘کایابہادری اورعزیمت کے آج کے معیارکاان علماپراطلاق کیاجائے تونتیجہ کیاسامنے آئے گا۔
اس سارے تاریخی جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ موجودہ دورکے نظاموں میں شرکت یاان نظاموں کے اداروں سے وابستگی کوکفر وارتدادقراردینابالکل نئی سوچ ہے ۔خصوصاًبرصغیر کے تناظر میں اگردیکھاجائے تویہ سوچ اس خطے کی پہلے سے چلی آرہی کسی بھی معروف دینی سیاسی سوچ سے موافقت نہیں رکھتی۔ اس تناظر میں یہ سوال بڑااہم ہے کہ پاکستان میں توتقریباًہرمکتبِ فکر کے دینی راہ نما کسی نہ کسی سطح پرسیاسی عمل کاحصہ بنتے ہیں ،کم ازکم اس کوجائز توسب سمجھتے ہیں لیکن افغانستان میں کسی انتخابی عمل میں حصہ لینے یاکسی اور طریقے سے نظام کاحصہ بننے کاکیاحکم ہوگا۔’’الولاء والبراء‘‘کے نظریے کی خاص تشریح رکھنے والوں کامعاملہ تو اپنی جگہ پر،پاکستان کے علماء جو یہاں کے سیاسی عمل میں شریک ہیں یااس کوجائز کہتے ہیں، ان کے نقطۂ نظر سے افغانستان کی صورتِ حال کاکیاحکم ہوگا۔ظاہر ہے کہ موجودہ افغانستان ۱۹۴۷ء سے پہلے کے ہندوستان سے توکہیں بہترہے ۔جب وہاں اپنے نظریات اورہندوستان کی مکمل آزادی کے مطالبے کے ساتھ سیاسی عمل کاحصہ بننادرست فیصلہ تھا تویہی کام کرنے کامشورہ یاکم ازکم اس کی اجازت افغانستان کے دینی حلقوں کودینے میں کیاحرج ہے ۔ افغانستان میں جولوگ یہ سوچ کر کہ اچھے لوگوں کوبھی اس نظام کاحصہ بنناچاہیے، اس طرف آناچاہتے ہوں، ان کے لیے بھی کوئی واضح بات پاکستان کے علماکی طرف سے آنی چاہیے۔ اس لئے کہ اگرعسکری راہ اختیارکرنے والوں کے پاس پاکستان ہی کے بعض فتاویٰ کی تائید موجودہے تواگردینی طبقے کے کچھ لوگ برصغیرکے مذکورہ بالا علماکی اتباع میں اجنبی افواج کے مکمل انخلاکے مطالبے کے ساتھ وہاں کی آئینی سیاسی جدوجہد میں بھی حصہ لیناچاہتے ہوں تو انہیں بھی انہی بزرگوں کے پیروکاراہلِ افتاکی طرف سے کسی واضح فتوے کی تائید حاصل ہوجائے تواس میں کیاقباحت ہے ۔وگرنہ یہ سوال ہوگا کہ پاکستان اورافغانستان کے لئے معیارالگ الگ ہونے کی کیادلیل ہے ۔
یہ درست ہے کہ ۲۰۰۱ء میں طالبان کی حکومت کوانتہائی غلط طریقے سے ختم کیاگیا تھا۔ جن ایشوزکاسہارالے کریہ ساراکچھ کیاگیا، ان کے حل کے لئے جنگ کے علاوہ بیسیوں راستے اوربھی ہوسکتے تھے ۔کسی بھی حکومت کے خاتمے کااختیار خوداس ملک کی فوج کے لئے جب مہذب دنیا میں تسلیم نہیں کیاجاتاتوغیر ملکی افواج کے لئے کیسے تسلیم کیاجاسکتاہے ۔ اس لحاظ سے طالبان اپنی ختم شدہ حکومت کی بحالی کے لئے کوشاں ہیں،لیکن اسی کے ساتھ کوئی اس انداز سے بھی سوچ سکتاہے کہ جب کسی واقعے پرکچھ وقت گذرجاتاہے تووقت کو پیچھے کی طرف چلانے کا مطالبہ مشکل ہو جاتا ہے۔ ہندوستان کی آزادی کے مطالبے میں یہ نہیں کہاگیا تھاکہ پہلے مغلیہ خاندان کے کسی چشم وچراغ کوتخت پر بٹھا کر ۱۸۵۷ء والی پوزیشن بحال کی جائے اس کے بعدکچھ اورسوچاجائے ۔یا۲۰۰۸ء میں پرویز مشرف سے یہ مطالبہ نہیں کیا گیاتھاکہ ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء والی پوزیشن بحال کی جائے ۔اسی طرح اگرکسی کایہ خیال ہوکہ افغانستان کی قسمت کے اصل مالک اوراصل سٹیک ہولڈرز عوام ہیں، اس لئے ہمیں عوام کے پاس جاناچاہئے تواس خیال کے بارے میں پاکستان کے کم ازکم ان علماکوتوضروراپنی رائے کاواضح اظہارکرناچاہئے جو پاکستان میں قراردادِ مقاصد سے لے کر مختلف دستاویزات میں اللہ تعالیٰ کے بعدعوام کے حق حاکمیت کومان چکے ہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہاں یہ عرض کرنامناسب معلوم ہوتاہے کہ شاہ عبدالعزیزؒ نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتوی صادر کیا۔ علما کا جو طبقہ اس فتوے کولے کرآگے چلا، ان کے نزدیک یہ سوال اہم تھاکہ اب یہ دوبارہ دارالاسلام کیسے بنے گا؟ اس سلسلے میں مولانا حسین احمد ؒ کاجواب یہاں قابلِ ذکر ہے ۔وہ تحریرفرماتے ہیں:
’’شاہ صاحب (شاہ عبدالعزیز)کسی ملک کے دارالاسلام ہونے کے لئے اس میں محض مسلمانوں کی آبادی کوکافی نہیں سمجھتے،بلکہ اس کے لئے وہ یہ بھی ضروری جانتے ہیں کہ مسلمان باعزت طریقہ پررہیں اوران کے شعارِ مذہبی کااحترام کیاجائے۔اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگرکسی ملک میں سیاسی اقتدارِاعلیٰ کسی غیرمسلم جماعت کے ہاتھوں میں ہو، لیکن مسلمان بھی بہرحال اس اقتدارمیں شریک ہوں اوران کے مذہبی ودینی شعائر کااحترام کیاجاتاہوتو وہ ملک حضرت شاہ [شاہ عبدالعزیز] صاحب کے نزدیک بے شبہ دارالاسلام ہوگااورازروئے شرع مسلمانوں کافرض ہوگاکہ وہ اس ملک کواپنا ملک سمجھ کر اس کے لئے ہرنوع کی خیرخواہی اورخیراندیشی کامعاملہ کریں‘‘(۲۱)۔
غالباًمولانامدنی ؒ آزادی کے بعدکے ہندوستان کی بات کرناچاہتے اوراس کے بارے میں مذکورہ بالارائے کااظہار کررہے ہیں ۔ مولانامدنیؒ کے اس معیار کے مطابق پاکستان اورافغانستان توبطریقِ اولیٰ اس قابل ہیں کہ انہیں دارالاسلام سمجھ کر ان کے لئے ’’ہرنوع کی خیر خواہی اورخیر اندیشی ‘‘کامعاملہ کیاجائے ،کیونکہ یہاں مسلمانوں کو شراکتِ اقتدارسے بڑھ کر حیثیت حاصل ہے اورشعائرِ دین بھی قائم ہیں۔تقریباًاسی کے قریب قریب بات مولانارشید احمد گنگوہی ؒ نے بھی کہی ہے ۔ہندوستان کی حیثیت کے بارے میں ان کے دومختلف فتوے موجودہیں ۔ایک میں انہوں اس مسئلے میں ترددکااظہارکیاہے(۲۲)، لیکن ان کاایک دوسرامفصل فتویٰ موجودہے جس میں انہوں نے ہندوستان کادارالحرب ہوناثابت کیا۔اس فتوے میں وہ لکھتے ہیں:
’’اگرکفارکاغلبہ توہو،مگر بعض حیثیات سے اس میں اسلام کاغلبہ بھی باقی ہے اس کواب بھی دارالاسلام ہی کہاجائے گانہ کہ دارالحرب ۔اتنی بات پرسب ائمہ کااتفاق ہے‘‘(۲۳)۔
اب ظاہر ہے کہ پاکستان اورافغانستان کی حالت اتنی کئی گذری توبہرحال نہیں ہے کہ ان میں بعض حیثیات سے بھی اسلام کاغلبہ نہ رہاہو۔ شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ کے فتوی دارالحرب میں بھی اجرائے احکامِ کفرکامطلب یہ بیان کیا گیا کہ ’’کفار بطورخود حاکم شوند‘‘یعنی کفار براہِ راست تمام امورکوخود چلانے لگیں۔ظاہرہے کہ پاکستان اور افغانستان کی یہ صورتِ حال نہیں ہے ۔یہاں جیسے کیسے بھی ہیں مسلمانوں کے اپنے ادارے موجودہیں ،منتخب پارلیمنٹ موجودہے ، منتخب حکمران موجودہیں۔یہ الگ بات ہے کہ یہ بہت سے فیصلے اپنے پاؤں پرکھڑے ہوکرکرنے کی بجائے باہر کی ڈکٹیشن کی بنیادپرکرتے ہیں۔لیکن اس کاحل بھی صرف یہ ہے کہ دونوں ملک اندرسے مضبوط ہوں ،یہاں کے عوام زیادہ بااختیارہوں۔اگراندرکی کشمکش جاری رہی تو ظاہر ہے اس سے کمزوری آئے گی اوراس کمزوری سے دشمن فائدہ بھی اٹھائے گا۔اور اگر حکمرانوں کو یقین ہوگا کہ ہماری حکمرانی عوام کی مرہونِ منت ہے تو وہ حکمرانی کے لئے بیرونی آقاؤں کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے عوام کے جذبات کو مد نظر رکھیں گے۔
حاصل یہ کہ پاکستان اور افغانستان دارالحرب نہیں ہیں۔یہاں کے ریاستی اداروں اوربعض مسلح تنظیموں کے درمیان جو تصادم ہے وہ ایمان وکفرکانہیں بلکہ نئی پیداشدہ صورتِ حال میں پالیسی امورکااختلاف ہے ۔مقامی طورپرسارے فریق مسلمان ہیں۔ اس لئے اس کشمکش پرمسلم اورغیر مسلم کشمکش والے احکام جاری نہیں ہوں گے بلکہ مسلمانوں کے مختلف دھڑوں کے درمیان جوجنگ ہوتی ہے اس کے احکام جاری ہوں گے۔اس میں صحیح ،غلط ، ظالم، مظلوم کی بحث توہوسکتی ہے مسلمان اورمرتد ،کافریامنافق کی نہیں ۔اس سلسلے میں مقامی قوتیں خواہ وہ کوئی بھی ہوں ایک دوسرے کے وجودکوتسلیم کرکے جتنی ایک دوسرے کے قریب آئیں گی اتناہی بیرونی اثرورسوخ کم کرنے میں مدد ملے گی اورجتنی یہ ایک دوسرے سے دست وگریبان ہوں گی اتناہی اجنبی قوتوں کوفائدہ پہنچے گا۔مقامی اورخطے کی قوتوں کے ایک دوسرے کے قریب آنے والی بات اس لئے بھی اہم ہے کہ جن نظریات کی بنیاد پر مقامی ریاستی اداروں کے مسلمان ہونے ہی کوتسلیم نہیں کیاجارہاوہ نظریات بنیادی طورپر اس خطے کی مقامی سوچ سے دورہیں۔
حواشی
(۱) ملاحظہ ہو:أیمن الظواہری ،الصبح والقندیل،الباب الاول الفصل الاول۔
(۲) جماعۃ الہجرۃ والتکفیرکے بارے میں ملاحظہ ہوں:
http://www.saaid.net/feraq/mthahb/29.htm
visited: 12/12/2011
http://www.islamweb.net/fatwa/index.php?page=showfatwa&Option=FatwaId&Id=24860
visited: 12/12/2011
http://www.sandroses.com/abbs/t85841/
visited: 12/12/2011
مذکورہ بالاسائٹس پراس موضوع پرمزید مطالعے کے لئے کتابوں کے نام بھی دستیاب ہیں۔
(۳) سنن ابوداؤد ،حدیث نمبر ۲۵۳۲کتاب الجہاد:باب فی الغزمع ائمۃ الجور۔
(۴) ملاحظہ ہوفتاوی عزیزی(اردو)ص۵۵۲تا۵۵۷ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱۹۸۰ء
(۵) http://en.wikipedia.org/wiki/IndiaCompany
visited: 16/12/2011
(۶) مجموعۃالفتاوی(اردو)ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ج۱ص۱۲۳۔
(۷) مولاناکرامت علی جون پوری کے اس فتوی اوراس جیسے دیگرفتاوی کے لئے ملاحظہ ہو محمدارشدکامقالہ بعنوان ’’جدوجہد آزادی اورفتاوی‘‘پیش کردہ سیمنار :’’جنوبی ایشیامیں اسلامی قانون فکراورادارے‘‘ ،زیراہتمام ادارہ تحقیقاتِ اسلامی اسلام آباد۔
(۸) مناظر احسن گیلانی : سوانح قاسمی ،ج۲ص۸۱مکتبہ رحمانیہ لاہور۔
(۹) سوانح قاسمی ج۲ص۱۲۲۔
(۱۰) محمدمیاں ،مولانا: علماء ہند کاشاندارماضی ،مکتبہ رشیدیہ کراچی ۱۹۸۶ء ج۴ص۱۴۳و۱۶۵۔
(۱۱) ابوالحسن ندوی ،مولانا: تاریخ دعوت وعزیمت حصہ ششم (جلددوم)ص۵۳مجلس نشریات اسلام کراچی۔
(۱۲) علماء کاشاندارماضی ج۴ص۱۴۴۔
(۱۳) فرید الوحیدی،مولانا،شیخ الاسلام مولاناحسین احمدمدنی :ایک تاریخی وسوانحی مطالعہ ص۲۱۷مکتبہ محمودیہ لاہور۱۹۹۵ء۔
(۱۴) حوالہ بالاص۵۵۔
(۱۵) ملاحظہ ہو:علماء ہند کاشاندارماضی جلد پنجم باب نہم بعنوان’’ حصول آزادی کے لئے پروگرام:لائحہ عمل کی تبدیلی‘‘
(۱۶) علماء ہند کاشاندارماضی ج۵ص۳۲۱۔
(۱۷) علماء ہند کاشاندارماضی ج۵ص۵۲۲۔
(۱۸) الشریعہ جلد ۲۰شمارہ ۱۱۔۱۲نومبر،دسمبر ۲۰۰۹ء
(۱۹) علماء ہند کاشاندارماضی ج۵ص۲۴۶۔
(۲۰) مولانافریدالوحیدی :شیخ الاسلام مولاناحسین احمد مدنی ص۳۶۵۔
(۲۱) حسین احمدمدنی مولانا،نقش حیات ،المیزان لاہورج۲ص۱۷۔
(۲۲) فتاوی رشیدیہ،ادارہ اسلامیات لاہور۱۹۸۷ء ص۴۱۲۔
(۲۳) فتاویٰ رشیدیہ ص۶۵۹۔