آزادئ فکر، آزادئ اظہار، قانون کی بالادستی، خود احتسابی، عدل وانصاف، قومی خزانہ کی حفاظت، خوشامدیوں سے دوری، ہدیہ قبول کرنے سے انکار، سادگی، خوف خدا، اچھے رفقا کی عہدوں پر تقرری، اصول مساوات، عوام کی تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا ایک اچھے مسلمان حکمران کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ اسلامی تاریخ کے نامور حکمران خلیفہ راشد حضرت سیدنا عمربن خطابؓ ان تمام مذکورہ اوصاف سے متصف تھے۔ ذیل میں ان کے زمانہ خلافت کی چند جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں۔ یہ واقعات سید عمر تلسانی کی کتاب’’عمر بن الخطاب‘‘ کے اردو ترجمہ اور علامہ شبلی نعمانی کی ’’الفاروق‘‘ سے منتخب کیے گئے ہیں۔
خود احتسابی
آپ کے دل میں اگر کبھی کوئی غیر پسندیدہ خیال آتا تو اسے سختی سے جھٹک دیتے، اپنے آپ کو ڈانٹ پلاتے اور اپنا محاسبہ خود کرتے تھے۔ ایک مرتبہ سورہ عبس کی آیت ’فاکہۃً وابّا‘ پڑھی تو دل نے کہا یہ ’ابا‘ کیاہے؟ فوراً سنبھلے۔ دل سے کہا یہ تکلیف کیوں؟ تجھے اگر یہ معلوم نہ ہو کہ ’ابا‘ کیاہے تو اس سے تیرا کون سا عمل ناقص رہ جائے گا۔ یعنی قیامت کو جن باتوں کے بارے میں پوچھ ہوگی، وہ معلوم ہیں تو اپنا عمل درست کر لو اور اس باز پرس کی فکر کرو۔
قانون کی بالادستی
آپ نے فرمایا کہ جس کسی پر کوئی امیر یا گورنر کوئی زیادتی کرے، وہ مجھے اس کی اطلاع دے، میں اس سے بدلہ دلواؤں گا، چنانچہ جب امرا کسی شخص پر زیادتی کرتے تو ضرور ان سے بدلہ دلوایا جاتاتھا۔ آپ نے بطور حاکم اپنی ذمہ داری ور رعایا کے بنیادی حقوق کا اعلان فرماتے ہوئے کہا: ’’اگر میرے کسی عامل نے کسی شخص پر ظلم کیا اور مجھے اس کی اطلاع مل گئی اور ا س کے باوجود میں نے مظلوم کی داد رسی نہ کی تو سمجھو میں اس ظلم میں نہ صرف شریک ہوں بلکہ حقیقت میں ظلم کا مرتکب ہوں۔‘‘
اس احساس فرض اور پاکیزہ تصور کا یہ نتیجہ تھا کہ آپ لوگوں کو تاکید فرمایا کرتے تھے کہ ظلم وزیادتی پر خاموشی اختیار کرنے کی بجائے وہ اس پر احتجاج کیا کریں تاکہ ظلم کا خاتمہ کیاجاسکے۔ یہ حاکم وقت کے فہم سلیم اور احساس ذمہ داری کی قابل رشک مثال ہے۔
قومی خزانے کی حفاظت
قومی خزانہ ایک امانت کی حیثیت رکھتا ہے۔ حاکم وقت اور ذمہ داران اس کے امین ہوتے ہیں اور اس کے بارے میں ان سے باز پرس بھی سخت ہوگی۔ حضرت عمر فرمایا کرتے تھے: ’’بیت المال کے ساتھ میرا معاملہ ایساہی ہے جیسا یتیم کے مال کے ساتھ اس کے سرپرست کا ہوتا ہے۔ اگر میں محتاج ہوا تو حسب ضرورت بیت المال سے لوں گا، حالات درست ہوگئے تو واپس کردوں گا اور اگر مال دار ہوگیاتو بیت المال سے کچھ نہ لوں گا ۔‘‘
اس اہم اور نازک معاملہ کی مزید وضاحت یوں فرمائی: ’’اس بیت المال سے میں اسی قدر وصول کروں گاجس قدر میں اپنے کمائے ہوئے مال سے خرچ کیاکرتاتھا۔‘‘ حضرت عمر مسلمانوں کے بیت المال کے بارے میں اللہ سے بہت ڈرتے تھے۔ ایک مرتبہ حج کے لیے گئے اور مدینہ سے مکہ اور وہاں سے واپسی کا سفر حضر تک ۸۰ دراہم میں مکمل کرلیا۔ اس کے باوجود اپنا محاسبہ کرنے لگے اور کف افسوس ملتے ہوئے کہا: ’’ہم کتنے بے خوف ہوگئے ہیں کہ بیت المال میں اسراف کرنے لگے ہیں۔‘‘
خوشامد سے نفرت
حضرت عمر لوگوں کو اجاز ت نہیں دیتے تھے کہ وہ ان کی ذات کی تعریف میں رطب اللسان ہوجائیں۔ فرماتے تھے : ممکن ہے میں تمہیں ایسے کاموں سے منع کروں جس میں تمہارا فائدہ اور مصلحت ہو اورتمہیں ایسے کاموں کا حکم دے دوں جس سے تمہیں نقصان ہونے کا احتمال ہو، اس لیے تم میری اصلاح کرتے رہا کرو۔
قحط سالی میں حضرت عمرکا طرز عمل
آپ جب رعایا کو کسی بات کا حکم دیتے تو خود اس پر پہلے کاربند ہوجاتے تاکہ عامۃ الناس کے لیے اچھا نمونہ پیش کریں۔ آپ نے لوگوں سے سادگی اور قناعت اختیار کرنے کا مطالبہ کیا تو خود اس کی بہتر ین عملی مثال بن گئے۔ قحط سالی میں اپنے لیے ہر وہ چیز ممنوع سمجھ لی تھی جس تک عام لوگوں کی رسائی ممکن نہ تھی۔ قحط کے زمانے میں رعایا کی بھوک اور تنگی کا اس قدر احساس تھا کہ یوں معلوم ہونے لگا کہ اس فکر سے ہلکان ہو جائیں گے۔ یہ زمانہ پانچ چھ سال کے عرصہ پر محیط تھا۔ اس پورے دور میں آپ نے زندگی کی ہر پرلطف چیز کو خیر باد کہہ دیاتھا۔
ہدیہ قبول کرنے سے انکار
ہدیے لینا اور دینا اسلامی نقطہ نظر سے جائزبلکہ مستحسن ہے، مگر حکمرانوں کو عموماً ہدیے غلط انداز میں دیے جاتے ہیں۔ صاف ستھرے نظام حکومت میں، جہاں قانون کی حکمرانی ہو، حکمرانوں کا ہدیوں سے کیا واسطہ؟ عام حکمران اگر بہت قابل رشک مثال بھی پیش کریں تو ان کا حال یہ ہوتاہے کہ اپنی ذات کے لیے تو ہدیہ قبول نہیں کرتے مگر اپنے اہل وعیال کے لیے بخوشی وصول کرلیتے ہیں۔ مگر سیدنا عمر کا معاملہ یہ تھا کہ نہ تو اپنے لیے کوئی تحفہ قبول کرتے تھے اور نہ اپنے اہل وعیال کے لیے اور اگر کوئی عزیز ایسا ہدیہ قبول کر لیتاتھا تو اس پر مناسب انداز میں سرزنش فرماتے تھے۔
سادگی اور زہد
آپ اتنے ساد ہ مزاج اور دنیا داری سے دور تھے کہ اپنی خلافت کے دور میں آپ حج کے لیے نکلے اور کوئی خیمہ نہیں لگایا۔ دھوپ سے بچنے کے لیے کسی جھاڑی کی اوٹ میں بیٹھ جاتے تھے۔ چمڑے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ساتھ تھا۔ کبھی اس سے سایہ کرلیتے تھے۔ تپتے ہوئے ریگستان میں وہ سایہ کیا حیثیت رکھتاتھا۔ آپ اس بات سے خائف تھے کہ اپنے لیے کوئی ایسا سایہ فراہم کریں جس کا مہیا کرنا رعایا کے ہر فرد کے لیے ممکن نہ ہو۔
اچھے رفقا کی تلاش
حضرت عمر نوجوانوں کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق ذمہ داریاں سونپ دیاکرتے تھے۔ اس سے ان میں خود اعتمادی بھی پیدا ہوتی تھی اور ان کی صلاحیتیں بھی مزید پروان چڑھتی تھیں۔ مثلاً آپ حضرت عبداللہ بن عباس کو اپنی مجلس میں بٹھایا کرتے اور مشکل مسائل میں ان سے مشورہ لیا کرتے تھے اور کئی مرتبہ ان کی رائے کو قبول کر لیا کرتے تھے۔ آپ ہر میدان کے لیے مردانِ کار کی تلاش میں رہتے تھے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت فوراً مناسب آدمی کو ڈھونڈ لیتے تھے۔
اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دینا
ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں کہیں سے مال غنیمت آیا جس میں بہت سے قیمتی پارچہ جات تھے۔ آپ نے سب صحابہ کرام کو لباس دیا۔ ایک قیمتی جوڑا بچ گیا تو آپ نے صحابہؓ سے کہا: ’’کسی ایسے نوجوان کی نشان دہی کرو جس نے ہجرت کی ہو اور ا س کے باپ نے بھی ہجرت کی ہو تاکہ میں یہ جوڑا اسے دے دوں۔ ‘‘لوگوں نے بلاتوقف کہا: عبداللہ بن عمرؓ۔ آپ نے فرمایا: نہیں، وہ تو اس کا مستحق نہیں ہوسکتا۔ پھر آپ نے سلیط بن سلیط کو حلہ عطا کر دیا۔
مقدمات کے فیصلے اور انصاف کے تقاضے
ارضی وسماوی ہر قانون میں ایک بنیادی اصول مسلم ہے کہ کوئی بھی فیصلہ اس وقت تک صادر نہ کیا جائے جب تک طرفین کی بات پوری طرح نہ سن لی جائے۔ شریعت اسلامیہ میں جب معاملہ مشتبہ ہوجائے تو حد جاری نہیں کی جا سکتی۔ ایک حدیث کی تاویل میں فقہا اور مسلم ماہرین قانون نے یہ موقف اختیا ر کیا ہے۔ بدقسمتی سے مسلمان ممالک کے حکمرانوں نے دور انحطاط میں ان اصولوں کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ کیا بلندی تھی اور اب کیا پستی ہے! شکوک وشبہات کو بنیاد بنا کر اپنے مخالفین کو فوری اور ناقابل برداشت سزائیں سنا دینے کی ایسی روایت چلی ہے کہ خدا کی پناہ! استغاثہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ الزام کا ثبوت پیش کرے مگر ہمارے ممالک میں اس اصول کو الٹ دیاگیا کہ ملزم اپنی بے گناہی ثابت کرے۔ اگر ملزم اس سکھا شاہی نظام میں اپنی بے گناہی ثابت کربھی دے تو ضروری نہیں کہ عقوبت سے بچ نکلے کیونکہ انصاف کا گلا گھونٹنے والوں سے انصاف کی توقع عبث ہے۔
حضرت عمر کا دور حکومت انصاف کے مذکورہ تقاضوں پر عمل درآمد کا آئینہ دار تھا۔ اصول مساوات کی بنا پر وہ کسی شخص کے لیے کسی قسم کا امتیاز پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک فعہ ابی بن کعب سے کچھ نزاع ہوئی۔ زیدبن ثابت کے ہاں مقدمہ پیش ہوا۔ حضرت عمرؓ ا ن کے پاس گئے تو انہوں نے تعظیم کے لیے جگہ خالی کر دی۔ حضرت عمرؓ نے کہا: یہ پہلی ناانصافی ہے جو تم نے اس مقدمہ میں کی۔ یہ کہہ کر اپنے فریق کے برابر بیٹھ گئے۔
یہی بھید تھا کہ طرز معاشرت نہایت سادہ اور غریبانہ رکھی تھی۔ سفر وحضر میں، جلوت وخلوت میں، مکان اور بازار میں کوئی شخص ان کو کسی علامت سے پہچان نہیں سکتاتھا کہ یہ خلیفہ وقت ہیں۔
آزادی اور حق گوئی کا قائم رکھنا
اخلاق کی پختگی اور استواری کا اصل سرچشمہ آزادی اورخود داری ہے۔ حضرت عمرؓ نے ا س پر بہت توجہ کی۔ آپ نے مختلف موقعوں پر تحریر وتقریر سے جتا دیا کہ ہر شخص ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوا ہے اور ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی بھی کسی کے آگے ذلیل ہو کر نہیں رہ سکتا۔ حضرت عمروبن العاصؓ کے معزز فرزند نے جب ایک قبطی کو بے وجہ مارا تو خود اسی قبطی کے ہاتھ سے مجمع عام میں سزادلوائی اور ’مذ کم تعبدتم الناس وقد ولدتھم امھاتھم احرارا‘ کا تاریخی جملہ ارشاد فرمایا، یعنی تم لوگوں نے آدمیوں کو غلام کب سے بنا لیا ہے؟ ان کی ماؤں نے تو ان کوآزاد جنا تھا۔
ایک دفعہ انہوں نے منبر پر چڑھ کر کہا: صاحبو! اگر میں دنیا کی طرف جھک جاؤں تو تم لوگ کیاکروگے؟ ایک شخص وہیں کھڑا ہوگیا اور تلوار میان سے کھینچ کر بولا کہ تمہارا سر اڑا دیں گے۔ حضرت عمرؓ نے اس کے آزمانے کو ڈانٹ کر کہا: کیا میری شان میں تویہ لفظ کہتاہے! اس نے کہا: ہاں، تمہاری شان میں۔ حضرت عمرؓ نے کہا: الحمد للہ قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ میں کج ہوں گا تو مجھ کو سیدھا کر دیں گے۔
تقسیم ہند کے بعد بھارتی کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر گاندھی نے (غیر مسلم ہونے کے باوجود) حضرت ابوبکر وعمر کو خراج تحسین پیش کیاتھا اور وزرا سے کہاتھا کہ اگر تم ابوبکر وعمرکی پیروی کروگے تو ایک کامیاب حکمران ثابت ہوگے۔
آج وطن عزیز میں ہر طرف لاقانونیت کا راج ہے، اقربا پروری، ناقدین سے بے مروتی اور مظالم، روزافزوں مہنگائی، قتل وغارت، چوری وڈکیتی، رشوت واستحصال کا دور دورہ ہے۔ سیاسی، معاشی اور معاشرتی سکون عنقا ہے۔ کیا ہمارے سیاستدان بالخصوص حکمران ایک آئیڈیل مسلم حکمران کی خصوصیات سے بہرہ ور ہیں؟ ان کو اپنے گریبانوں میں جھانکنے اور اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تاریخ میں ان کو اچھے الفاظ سے یاد کیا جائے اور عوام الناس سکھ کا سانس لے سکیں۔