معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (دوسری مجلس مذاکرہ)

ادارہ

(پاکستان مرکز برائے مطالعات امن (PIPS) اسلام آباد کے زیر اہتمام مجالس مذاکرہ کی روداد)


خروج کے جواز کے حق میں اہم استدلالات:

اصولی طور پر:

۱۔خروج کی ممانعت کا تعلق یا تو عادل حکمرانوں سے ہے یا ایسے حکمرانوں سے جو اپنی ذاتی حیثیت میں ظلم وجبر اور فسق کے مرتکب ہوں، لیکن ریاست کا نظام بحیثیت مجموعی شریعت پر مبنی ہو اور ریاست کے دیگر تمام ادارے شرعی نظام کے مطابق کام کر رہے ہوں۔ اگر نظام ریاست کفر پر مبنی ہو یا کفریہ قوانین کو تحفظ دیتا ہو یا شرعی قوانین کی عمل داری میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہو تو اس صورت سے ممانعتِ خروج کی احادیث بالکل غیر متعلق ہیں۔

۲۔ ظالم وجابر اور فاسق حکمرانوں کے خلاف خروج کی ممانعت بھی شرعی اور اصولی لحاظ سے فی نفسہ حرام نہیں، بلکہ یہ ہدایت زیادہ بڑی خرابی سے بچنے کے لیے دی گئی ہے۔ اگر حکمرانوں کا ظلم وجبر اور بگاڑ حد سے بڑھ جائے اور مسلح جدوجہد سے استبدال اقتدار کا امکان بھی دکھائی دیتا ہو، جس کا فیصلہ کرنا ایک اجتہادی امر ہے، تو خروج کا جواز موجود ہے۔ اگر خروج کو مطلقاً حرام کہا جائے تو اسلامی تاریخ کی جلیل القدر شخصیات مثلاً امام حسین، عبد اللہ بن زبیر ، زید بن علی اور نفس زکیہ کے اقدامات کی کیا توجیہ کی جائے گی، جبکہ بہت سے ائمہ اسلام نے ان اقدامات کی تائید بھی کی؟

۳۔ موجودہ جمہوری نظام کے تحت، جس کی بنیاد پر عصر حاضر کی مسلم ریاستیں قائم ہیں، مسلم ممالک میں معیاری اسلامی معاشرہ اور ریاست قائم نہیں ہو سکتی، کیونکہ یہ نظام بنیادی طور پر انسانی حقوق کے مغربی فلسفے پر مبنی ہے جو اسلام کے تصور حقوق وفرائض سے متصادم ہے۔ مسلم ریاستیں بین الاقوامی معاہدوں، اداروں اور قوانین کے ایک مضبوط جال میں جکڑی ہوئی ہیں جن کا مقصد انسانی حقوق کے ضمن میں مغربی تصورات اور اقدار کا تحفظ ہے، اس لیے اس نظام کے اندر رہتے ہوئے صرف حکومت تبدیل کی جا سکتی ہے، جبکہ پورے نظام کی تبدیلی مسلح انقلابی جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں۔

پاکستان کے تناظر میں:

پاکستان کا دستوری اور قانونی ڈھانچہ غیر مشروط طور پر شریعت کی مکمل بالادستی کی ضمانت نہیں دیتا، بلکہ اس کے برعکس بعض خلاف اسلام امور کو تحفظ دیتا ہے، اس لیے نفاذ اسلام سے متعلق بعض آئینی شقوں اور قانون سازی کے باوجود یہ ایک ’کفریہ دستور‘ ہے، کیونکہ کسی غیر شرعی امور کو قانون کا درجہ یا قانونی تحفظ دینا ’کفر‘ ہے۔ مثلاً:

  • دستور میں ایک طرف شریعت کی بالادستی کی بات کی گئی ہے اور دوسری طرف مروجہ تصورات کے مطابق ’انسانی حقوق‘ کے تحفظ کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔ اس تضاد کا نتیجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ ایک مقدمے میں مجرم کو کھلے عام پھانسی دینے کے حکم کو انسانی حقوق کے منافی ہونے کی بنیاد پر کالعدم قرار دے چکی ہے۔
  • حاکم خان کیس میں سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا ہے کہ دستور کی کوئی شق اگر شریعت کے خلاف ہو تو اسے شریعت کی پابندی کو لازم قرار دینے والی شق روشنی میں کالعدم نہیں کیا جا سکتا، یعنی دستور کی ان دونوں شقوں میں تضاد کی صورت میں شریعت کی بالادستی کی شق کو برتری حاصل نہیں ہے۔
  • پاکستان میں سودی نظام کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ 
  • دستور کی رو سے عورت کی حکمرانی جائز ہے جبکہ بہت سے کلیدی سیاسی، عدالتی اور انتظامی مناصب پر غیر مسلموں کا تقرر کرنا بھی جائز ہے۔
  • مالیاتی قوانین کو وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار سے باہر رکھا گیا ہے، جبکہ ۱۹۹۱ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی کے منظور کردہ شریعت بل میں شریعت کی بالادستی کو اس شرط کے ساتھ مشروط کیا گیا کہ اس سے موجودہ سیاسی نظام اور حکومتی ڈھانچہ متاثر نہ ہو۔
  • پاکستان کا کوئی قانون حکمرانوں کو غیر شرعی سیاسی پالیسیاں بنانے سے نہیں روکتا جس کی وجہ سے افغانستان کے مظلوم مسلمانوں کے خلاف امریکی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا گیا جو ابھی تک قائم ہے۔

مزید برآں:

  • اگر افغانستان میں امریکی افواج اور ان کی معاونت کرنے والی افغان فوج کے خلاف لڑنا اور مظلوم طالبان کی مدد کرنا پاکستان کے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے، جس کا فتویٰ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد اکابر علماء نے دیا تھا، تو اسی اصول پر پاکستانی فوج کے خلاف لڑنا کیوں جائز نہیں؟

محمد مجتبیٰ راٹھور ― (پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز)

معزز علماء کرام ومہمانان گرامی

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کی جانب سے میں آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ ہم آپ سب حضرات کے تہہ دل سے مشکور ہیں کہ آپ نے انتہائی قیمتی موٖضوع پر اپنا وقت میں دیا۔ اس سے پہلے تکفیر وخروج پر ہونے والے ایک مکالمہ کی مختصر رپورٹ آپ کوبھجوائی گئی تھی۔ اسی سلسلے کا دوسرا پروگرام ہم یہاں منعقد کر رہے ہیں۔ میں جناب مولانا عمار خان ناصر صاحب سے درخواست کروں گا کہ وہ نشست کے میزبان کے طورپر پروگرام کا باقاعدہ آغاز فرمائیں۔

محمد عمار خان ناصر

جس اہم موضوع پر یہ مذاکراہ منعقد کیا جا رہا ہے، اس پرمذاکرے میں شریک اہل علم کو گفتگو کی دعوت دینے سے پہلے میں اس طرح کے مسائل کو اس فورم پر زیر بحث لانے کا مختصر پس منظر بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں تاکہ اس سے بحث کا رخ اور سمت متعین ہو جائے۔

خروج کی بحث ہمارے قدیم فقہی ذخیرے میں بھی ہوتی ہے، فقہا بھی اس کو زیر بحث لائے ہیں اور دور جدید میں بھی اسلامی احیا کی جو تحریکیں ہیں اور اسلام کی بالادستی کے لیے جدوجہد کرنے والے جو حلقے ہیں، ان کے سامنے بھی یہ بحث اہم مباحث میں سے ایک ہے۔ ایک فرق دور جدید میں اس بحث کو خاصا اہم بنادیتا ہے۔ قدیم فقہی لٹریچر میں یہ بحث ایک محدود فقہی مفہوم میں بیان کی گئی ہے۔ ایک مسلمان حکومت ہو جہاں اسلامی نظام معاشرت قائم ہو، اگر وہاں مسلمان حکمرانوں کی طرف سے ایسا رویہ اختیار کیا جائے جو ظلم وجبر پر اور فسق ومعصیت پر مبنی ہو تو اس صورت میں مسلح جدوجہد کر کے ان کو ہٹانا جائز ہے یا ناجائز؟ اس کے برعکس دور جدید میں خروج کی بحث کا تناظر اس محدود دائرے سے خاصا وسیع ہے۔ یہ بنیادی طور پر متعلق ہے اس تہذیبی زوال سے جس کا پوری امت مسلمہ اور عالم اسلام کو پچھلی دو صدیوں سے سامنا ہے۔ مغرب کے تہذیبی غلبے نے بہت سے اہم سوالات مسلمان مفکرین کے سامنے کھڑے کر دیے ہیں۔ خروج کی بحث بڑی حد تک انھی سوالات کے دائرے میں آتی ہے اور اس بنیادی تناظر سے الگ کر کے شاید اس بحث کو دور جدید میں سمجھنا ممکن نہ ہو۔ 

مغرب کے تہذیبی غلبے کے ضمن میں امت مسلمہ اور مسلم مفکرین کو جن بنیادی سوالات کا سامنا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس تہذیبی غلبے سے نمٹا کیسے جائے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے کہ مغرب نے اپنا جو فکر وفلسفہ اور اپنا جو نظام سیاست اپنی معاشی وعسکری طاقت کے زور پر پوری دنیا پر مسلط کر دیا ہے، اس کے ساتھ مسلمانوں کے تعلق کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ آیا اسے مسترد کر دیا جائے یا اس سے استفادہ کیا جائے؟ پھر یہ کہ اس نظام کے تحت پوری دنیا میں بظاہر جو آزاد مسلمان ریاستیں قائم ہیں، ان کی شرعی حیثیت کیا ہے او ایک مسلم ریاست کے حقوق وفرائض کے حوالے سے دور قدیم میں جو تصورات بیان کیے جاتے تھے، آج ان کا انطباق کیسے ہوگا؟ اسی طرح دور جدید میں استبدال اقتدار کے بعض طریقے جائز مانے جاتے ہیں اور بعض جائز تسلیم نہیں کیے جاتے۔ اس بحث کو قدیم فقہی لٹریچر کے ساتھ کیسے تطبیق دی جائے؟ خاص طور پر جمہوریت جو سیاسی سطح پر اس وقت پوری دنیا میں ایک مسلمہ نظام مانا جاتا ہے اور عرب ریاستوں میں بھی بڑی حد تک اس کو اپنایا گیا ہے، وہ حکمرانوں کے انتخاب اور ریاستی معاملات کو چلانے کا ایک خاص ڈھانچہ دیتا ہے۔ یہ کس حد تک اسلام کے مطابق ہے؟ یہ وہ اہم اور بنیادی سوالات ہیں جن کا جو بھی جواب متعین کیا جائے گا، اس سے ایک ذہنی فریم ورک بنے گا جس سے خروج کی ضمنی بحث کا جواب بھی ملے گا۔میرے خیال میں یہ دور جدید میں خروج کی بحث کا وہ پس منظر ہے جسے ملحوظ رکھے بغیر محض محدود فقہی مفہوم میں شاید اسے صحیح طور پر سمجھا نہ جا سکے۔

یہ بحث مسلمان ریاستوں کے آزاد ہونے کے بعد سب سے پہلے مرحلے پر بعض عرب ممالک میں پیدا ہوئی اور وہاں اس کے کچھ خاص پہلو نمایاں ہوئے۔ ہمارے ہاں بھی پچھلے دس سال کے عرصے میں ایک خاص طرح کی سیاسی صورت حال نے اس بحث کو جنم دیا ۔میرا طالب علمانہ تجزیہ یہ ہے کہ عرب ممالک میں بھی اور ہمارے ہاں بھی خروج کی بحث کا اصل محرک حکمرانوں کی طرف سے اختیار کردہ جبر واستبداد کی پالیسیاں ہیں جن کا رد عمل پیدا ہوا اور پھر تکفیر اور خروج جیسی اصولی بحثوں کی صورت میں اس رد عمل کو نظری تائید فراہم کی گئی۔ تاہم اگرچہ بحث کے عملی محرکات زیادہ تر سیاسی ہیں، لیکن جب ایک نقطہ نظر کو اصولی اور شرعی بنیاد پر پیش کیا جا رہا ہو تو پھر اہل علم کی یہ ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اس پر غور کریں کہ اس میں کتنا وزن ہے۔ 

یہاں ہم جس فورم پر اس موضوع پر گفتگو کے لیے جمع ہوئے ہیں، یہ بنیادی طور پر اسلام آباد میں based ایک تنظیم ہے۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کا بنیادی دائرۂ کار اس نوعیت کی علمی اور فقہی بحثیں نہیں۔ ان کا مطالعاتی اختصاص اس دائرے میں ہے کہ امن میں خلل انداز ہونے والے اسباب کیا ہیں؟ یہ اسٹریٹجک اسٹڈیز کا ایک ادارہ ہے، لیکن خروج سے متعلق علمی اور شرعی بحث بھی موجودہ حالات میں امن وامان کی صورت حال سے گہرے طو رپر متعلق ہے، اس لحاظ سے اس ادارے نے مختلف مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کے ایک فورم کی تجویز پر اس میں دلچسپی محسوس کی کہ پاکستان میں امن وامان پر اثر انداز ہونے والے اس موضوع کا علمی وشرعی تناظر میں تجزیہ کرنے کے لیے اہل علم کو ایک فورم پر دعوت دی جائے جس میں بیٹھ کر وہ آپس میں مذاکرہ کریں۔ اس ضمن میں ایک مذاکرہ اس سے قبل اسلام آباد میں منعقد ہو چکا ہے۔ اس میں بھی اسی طرح ملک کے مختلف اہل دانش نے شرکت کی تھی اور خروج، کفر بواح اور موضوع سے متعلق دیگر سوالات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ آج کا مکالمہ دراصل اسی مکالمے کی ایک توسیع ہے۔ گزشتہ مکالمے میں جو بحثیں سامنے آئی تھیں، ان پر اہل علم نے اپنے نقطہ نظر کا اظہار کیا۔ اس کی ایک تلخیص آپ سب حضرات کو مہیا کی گئی ہے۔ اس کی روشنی میں اس بحث کو آگے بڑھانے کے لیے مزید سوالات کو ہم آج زیر غور لانے کی کوشش کریں گے اور توقع ہے کہ کچھ مزید پہلووں کی تنقیح ہو جائے گی۔

ترتیب کچھ یوں رکھی گئی ہے کہ پروگرام کے دو سیشن ہیں۔ بحث کو ہم نے د وحصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلی بحث تکفیر سے متعلق ہے اور پہلے سیشن میں ہم ان سوالات پر اپنی توجہ کو مرکوز کریں گے کہ کفر بواح کا مفہوم کیا ہے؟ اس کے اطلاق اور انطباق کے حدود وشرائط کیا ہیں؟ کیا موجودہ جمہوریت کفر ہے یا نہیں؟ اور جمہوری نظام میں کفر بواح کے تحقق کا فیصلہ کیسے جائے گا؟ وغیرہ۔ پھر کھانے کے وقفے کے بعد دوسرا سیشن ہوگا جس میں خروج سے متعلق سوالات کا جائزہ لیا جائے گا۔ 

اس مختصر تمہیدی وضاحت کے بعد اب میں دعوت دوں گا مولانا مفتی منصور احمد کو کہ وہ اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔

مفتی منصور احمد

سب سے پہلے میں تو اکابر کی موجودگی میں مجھ جیسے طالب علم کو اظہار خیال کی دعوت دینے پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں موضوع کے متعلق چند طالب علمانہ گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔

ہمارے ماحول میں دین کے اکثر معاملات میں جو افراط وتفریط پائی جاتی ہے، یہ موضوع بھی اسی کا شکار ہے۔ اسلامی تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طبقے نے ارتکاب کبیرہ کو بھی کفر قرار دیا اور دوسرے طبقے نے اس معاملے میں اتنی وسعت نظری اور وسعت مشرب کا مظاہرہ کیا کہ جب تک کوئی بندہ اپنی زبان سے یہ نہ کہہ دے کہ میں نے اسلام کو چھوڑ دیا، اس وقت تک اس کو کافر کہنے سے توقف ظاہر کیا۔ ظاہر ہے کہ یہ دو انتہائیں ہیں اور دونوں صحیح نہیں۔ ملت کا جو دائرہ ہے، جو اس دائرے کے اندر ہے، وہ اندر ہے اور جو باہر ہے، وہ باہر ہے۔ ان دونوں چیزوں کا اظہار ضروری ہے۔ آج بھی یہی مسئلہ ہے کہ ایک بہت بڑا طبقہ ایسا ہے جس نے تکفیر کی فیکٹری لگا رکھی ہے کہ جو بات ان کی سوچ، فکر اور نظریے کے مطابق نہیں ہے، فقہی طور پر وہ چاہے جیسی بھی ہو، وہ اسے کفر قرار دیتے ہیں۔ دوسرا بہت بڑا طبقہ دین، فکر اور دانش کے نام پر مرجۂ والی وسعت مشربی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ وہ کسی کو بھی کافر کہنے کے لیے تیار نہیں، حتیٰ کہ ایسے امور کے انکار پر بھی جو مسلمہ اور متفق علیہ ہیں اور جن کے بارے میں امت میں کبھی دو رائیں نہیں رہی ہیں کہ ان کا انکار کفر ہے۔ مثال کے طور پر ختم نبوت جیسے مسائل کا جو لوگ انکار کر رہے ہیں، یہ طبقہ ان کو بھی کافر کہنے سے ہچکچا رہا ہے اور توقف کر رہا ہے۔ اس رویے کو آج فیشن بنایا جا رہا ہے اور اسی کو آج علم سمجھا جا رہا ہے۔ تو بنیادی طور پر اس سلسلے میں رویوں کی اصلاح کی ضرورت ہے کہ ہم دیانت داری سے ملت اسلام کے دائرے سے، جو کتاب وسنت اور جمہور اہل علم کی آرا سے متفق علیہ ہے، اس سے باہر نکلنے والے کو کافر کہیں اور جو اس دائرے کے اندر ہو، اس کو مسلمان مانیں، اگرچہ وہ ہمارے نظریے اور ہماری سوچ سے اختلاف رکھتا ہو۔

میری دوسری گزارش اس سوال سے متعلق ہے کہ کفر بواح کی تعریف اور مفہوم کیا ہے اور اس کے اطلاق کا فیصلہ کون کرے گا؟ میرے خیال میں یہ چیزیں بہت پہلے سے متعین ہیں۔ اس میں سوالات اٹھانے کی اور بحث ومباحثہ کی چنداں ضرورت نہیں سمجھتا۔ محدثین اور فقہا نے اس سلسلے میں اپنی تحقیقات پیش کی ہیں۔ میں جو بات خاص طور پر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس موضوع پر یہ بزم سجانے کی ضرورت جن مسائل کی وجہ سے پیش آئی ہے، اگر ہم ان مسائل پر بھی غور کر لیں تو شاید اس کا زیادہ فائدہ ہوگا۔ مثال کے طور پر مولانا عمار صاحب نے کہا کہ ہمارے ملک پاکستان میں پچھلے دس سال سے احیاے اسلام کے نام پر جو مختلف تحریکیں عملاً خروج کر رہی ہیں، اس بات کی ضرورت ہے کہ ان کے رویوں کو، ان کے کام کو اور ان کے دلائل کو شریعت کی کسوٹی پر پرکھا جائے اور اہل علم دیکھیں کہ آیا ان کے پاس اس کا جواز تھا یا نہیں اور انھوں نے جو راستہ اختیار کیا، وہ درست تھا یا نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم اس بات پر بھی غور کریں کو جو اسباب انھیں اس جگہ پر لے گئے ہیں اور ہماری جو پالیسیاں اور غلط فیصلے انھیں اس حد تک لے گئے ہیں، ان فیصلوں کے بارے میں بھی بات کی جائے۔ ہم ایک فکری رائے متعین کرنی چاہیے کہ یہ طبقے جس ظلم، جبر اور استبداد کے نتیجے میں خروج کے اقدام پر مجبور ہوئے ہیں، اس کے بارے میں ہماری متفقہ رائے اور فکر یہ ہے اور پھر جس طبقے نے خروج کیا، اس سے بھی کچھ کہا جائے تاکہ آئندہ یہ صورت حال رونما نہ ہو۔ تو ہمیں دونوں پہلووں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک اور بات کی طرف بھی میں توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ آج کے تناظر میں یہ بحث کھڑی ہو گئی ہے جو پہلے بھی رہی ہے، خاص طور پر شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور ان کے حلقہ فکر میں یہ بحث ماضی میں بھی رہی ہے کہ تشریع کا اور قانون دینے کا اختیار شریعت کے پاس ہے۔ ان الحکم الا للہ۔ تو آج ہماری قانون سازمجالس کو جو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ چاہیں تو اسلام کے خلاف بھی قانون بنا لیں اور جمہوریت اکثریت کو مطلقاً قانون بنانے کا حق دے دیا گیا ہے، ہمارا وہ طبقہ جو خروج پر آمادہ ہے، وہ اس نظام کو طاغوت کے زمرے میں شامل کرتا ہے اور کتاب وسنت میں کفر بالطاغوت اور انکار طاغوت کے جو احکامات واضح طور پر دیے گئے ہیں، وہ ان کا انطباق موجوہ نظام پر کرتا ہے۔ ہمیں اس سلسلے میں بھی اپنی آرا اور اپنے افکار سے قوم کو آگاہ کرنا چاہیے کہ آیا یہ طاغوت ہے یا نہیں اور یہ کہ آیا ہر طاغوت کفر ہی ہوتا ہے یا کفر سے نیچے بھی طاغوت کچھ درجات ہیں؟

یہ وہ سوالات ہیں جو میں سردست اس مجلس کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔

محمد عمار خان ناصر

مفتی صاحب کی گفتگو سے چند سوالات میرے ذہن میں آئے ہیں جن پر گفتگو کے لیے میں کچھ دیر کے بعد دوبارہ انھیں زحمت دینا چاہوں گا۔ 

ایک بڑی اہم بات انھوں نے یہ کہی کہ تکفیر اور عدم تکفیر، دونوں کا اپنا اپنا دائرہ ہے اور دونوں کی اپنی اہمیت ہے۔ ان میں کسی بھی طرف آپ انتہا پر چلے جائیں تو شریعت کے جو تقاضے ہیں، وہ ملحوظ نہیں رہیں گے۔ دوسری اہم بات انھوں نے یہ کہی کہ خروج تک لے جانے والے اسباب وعوامل، مثلاً سیاسی پالیسیوں اور ان اقدامات کی شرعی حیثیت پر بھی بات ہونی چاہیے جن کے رد عمل کے طور پر خروج کا رویہ پیدا ہوا ہے۔ تیسری اہم بات جو انھوں نے کہی، وہ میرے خیال میں اس بحث کو آگے بڑھانے کے لیے ایک بڑا اہم نکتہ ہے۔ مفتی صاحب کی یہ بات درست ہے کہ خروج کا رویہ کچھ پالیسیوں کے رد عمل کے طور پر پیدا ہوا ہے، لیکن اس نے اپنے حق میں جو استدلال وضع کیا ہے، وہ ان مخصوص پالیسیوں تک محدود نہیں رہتا۔ یہ پالیسیاں اگر ختم ہو جائیں تو بھی استدلال نہیں رکتا۔ وہ یہ کہتا ہے کہ جس جمہوری نظام کے تحت ہم رہ رہے ہیں اور جس کو تمام مذہبی جماعتوں نے قبول کیا ہوا ہے اور جس کو وہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ایک بہتر راستہ سمجھتے ہیں، وہ بنیادی طور پر کفر پر مبنی ہے، اس لیے اگر وہ پالیسیاں ختم ہو جائیں ، تب بھی یہ سوال قائم رہتا ہے کہ کیا ہمیں اسی نظام کے دائرے میں رہ کر جدوجہد کرنی چاہیے؟ ا س طبقے کے خیال میں تو یہ کفر پر مبنی نظام ہے اور اس کی اصلاح کی کوئی صورت اس کے اندر رہتے ہوئے ممکن نہیں۔ اس کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ آئندہ مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا جائے۔ تو یہ ایک سوال ہے جو اہل علم سے جواب مانگتا ہے اور میں چاہوں گا کہ اس سوال پر آج کی اس نشست کے شرکا خاص طورپر گفتگو کریں۔

علامہ خلیل الرحمن قادری

سب سے پہلے تو ایک سنجیدہ علمی موضوع پر مکالمہ منعقد کرنے اور پھر اس میں ہمیں مدعوکرنے کا شکریہ!

کفر بواح کی تعریف کے بارے میں، جس حدیث مبارکہ میں کفر بواح کا ذکر آیا ہے، اس کے ساتھ ہی آگے یہ تصریح موجود ہے کہ ’عندکم من اللہ فیہ برہان‘۔ یعنی کفر بواح وہ ہے جس پر آپ کے پاس اللہ کی طرف سے برہان یعنی کوئی واضح دلیل شرعی موجود ہو۔ البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہم نے کفر کا جو ایک مفہوم بالعموم لے لیا ہے کہ تکفیر صرف اس وقت کی جائے گی جب کوئی شخص ضروریات دین یا قطعیات اسلام میں سے کسی کا انکار کرے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک محدود مفہوم ہے۔ فقہاء امت نے بہت سی دیگر وجوہ کفر کو بھی وضاحت سے بیان کیا ہے۔ مثلاً استخفاف شریعت، یہ وجہ کفر ہے۔ اسی طرح رضا بالکفر کو فقہا نے کفر کہا ہے۔ یہ ساری چیزیں کفر کے دائرے میں آتی ہیں۔ 

مفتی منصور احمد صاحب نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ یہ معاملہ افراط وتفریط کا شکار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض ایسے حضرات بھی موجود ہیں، آج بھی ہے اورپہلے بھی نظر آتے ہیں جوتکفیر میں اس حزم واحتیاط کا مظاہرہ نہیں کرتے جو کہ شریعت کو مطلوب ہے۔ مخبر صادق نے خود وضاحت فرمادی ہے کہ جب تم کسی مسلمان کی تکفیر کرتے ہو جو فی الواقع کافر نہیں تو کفر تمھاری طرف لوٹ آتا ہے، یعنی اس میں خود تکفیر کرنے والے کے ایمان کے جانے کا اندیشہ ہے۔ یہی اس میں حزم واحتیاط کا پہلو ہے۔ لیکن اس کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ حزم واحتیاط کا مظاہرہ یوں کیا جائے کہ کسی کی تکفیر کی ہی نہ جائے، خواہ اس سے کفر صریح کا ارتکاب ہو جائے۔ میں یہ طالب علمانہ رائے رکھتا ہوں کہ اگر آپ بلاوجہ کسی کی تکفیر کرتے ہیں تو بلاشبہ اس میں خود تکفیر کرنے والے کا نقصان ہے کیونکہ اس کا اپنا ایمان نہیں رہتا۔ اسی طرح جس کی تکفیر کی جاتی ہے، اس کے لیے بھی ضرر ہے کہ اس پر ارتداد آ جائے گا اور ارتداد کے بعد یا اس کو سزا دیں گے یا وہ توبہ کرے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جب آپ کسی تکفیر سے بلاوجہ ہاتھ روکتے ہیں تو اس کا ضرر زیادہ ہے۔ وہ اس اعتبار سے کہ اس میں پوری ملت کے لیے ضرر ہے کیونکہ اس میں نماز کی امامت کا مسئلہ آ جاتا ہے، اس کا ذبیحہ کھانے کا مسئلہ آ جاتا ہے، نکاح ووراثت کے معاملات آ جاتے ہیں اور دیگر بہت سے معاشرتی معاملات اس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے جب آپ کسی ایسے بندے کی تکفیر سے ہاتھ روکتے ہیں جس سے کفر صریح کا صدور ہوا ہو تو اس سے امت کے لحاظ سے ضرر زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ کسی صحیح العقیدہ مسلمان کی تکفیر کر دینا یا کسی ایسے آدمی کی تکفیر سے رک جانا جس نے کفر صریح کا ارتکاب کیا ہو ، یہ دونوں بڑی بھاری چیزیں ہیں، البتہ ضرر کے اعتبار سے دوسری صورت میں مضرت زیادہ پائی جاتی ہے۔

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ تکفیر کا اختیار کس کے پاس ہونا چاہیے تو بالعموم یہ اختیار ہمارے ہاں صاحب فتویٰ لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ لیکن سیدھی سی بات ہے کہ اگر ان کے ہاتھ میں یہ اختیار دیتے ہیں تو اس میں کئی قباحتیں سامنے آتی ہیں۔ وہی بے احتیاطی والی صورت حال جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آپ کے پاس پارلیمنٹ ہے، اس کو یہ اختیار دے دیا جائے، لیکن یہ اس صورت میں موزوں ہے جب معاملہ کسی گروہ کا ہو۔ یعنی اگر کوئی گروہ کفر کو اختیار کر کے مسلمانوں سے کٹ جاتا ہے تو اس میں زیادہ بہتر اور محفوظ راستہ یہی ہے کہ اس کی تکفیر کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے۔ لیکن یہاں یہ سوال آ جاتا ہے کہ کون سی پارلیمنٹ؟ پارلیمنٹ میں بھی تو یہ صلاحیت ہو نا کہ وہ یہ دیکھ سکے کہ اس گروہ کے عقائد اسلام سے کس طرح انحراف کرتے ہیں۔ مثلاًہمارے سامنے احمدیوں کو اقلیت قرار دلوانے کا معاملہ ہے۔ یہ فیصلہ پارلیمنٹ نے کیا، لیکن وہ کیسی پارلیمنٹ تھی؟ اس میں فکری اعتبار سے علما کا غلبہ تھا اور جتنے بھی باقی پارلیمنٹیرین تھے، وہ ان کی علمی آرا کا احترام کرتے تھے اور اس معاملے میں ان کو اپنا بڑامانتے تھے۔ لیکن آج کی پارلیمنٹ اور کل کو آنے والی پارلیمنٹ کا معلوم نہیں کیا حال ہوگا جہاں اگر لوگوں کوسورۂ اخلاص پڑھنے کے لیے کہا جائے تو وہ بھی نہیں پڑھ سکتے۔ اس صورت حال میں یہ واقعتا ہمارے لیے بڑا قابل غور مسئلہ ہے کہ تکفیر کا اختیار کس کے پاس ہو؟ فرد کی تکفیر کا معاملہ اور ہے کہ اگر کسی آدمی سے کفریہ کلمہ کا صدور ہوا ہے تو کئی صاحب فتویٰ جو متقی، متدین اور مخلص ہو وہ اس پر فتویٰ دے سکتا ہے یا زیادہ سے زیادہ آپ یہ کر سکتے ہیں کہ تمام مکاتب فکر کی ایک باڈی تشکیل دے دیں جو افراد کے معاملے میں کفر کا فتویٰ دے سکتی ہو، یہ دیکھنے کے بعد کہ اس سے واقعی کفر صریح کا ارتکاب ہوا ہے۔ جو گروہی معاملہ ہے، اس میں بھی پارلیمنٹ کو اختیار دیتے ہوئے کچھ قیود آپ کے ضرور رکھنی پڑیں گی۔ یا تو پارلیمنٹ کی معاونت کے لیے علما کا کوئی بورڈ وہاں جائے تاکہ علمی اور فکری طور پر پارلیمنٹ کی راہنمائی کر سکے۔ تب اس بات کا اطمینان ہو سکتا ہے کہ پارلیمنٹ صحیح طور پر اس معاملے کا فیصلہ کرے گی، ورنہ موجودہ شکل میں پارلیمنٹ اس کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

محمد عمار خان ناصر

تکفیر کے حوالے سے علامہ خلیل الرحمن قادری صاحب نے بڑی مفیداصولی گفتگو فرمائی ہے۔ یہاں اس فورم پر جو تکفیر کی بحث اٹھائی گئی ہے، وہ افراد یا گروہوں کی عمومی تکفیر سے اتنی متعلق نہیں ہے جتنی ریاست کے نظام سے متعلق ہے۔ یہ دراصل خروج کی بحث کی تمہید ہے۔ یہ جو استدلال پیش کیا گیا ہے کہ موجودہ مسلم ریاستوں کا نظام سیاست بنیادی طور پر کفر پر مبنی ہے، اس کے متعلق ہم جو زاویہ نگاہ اختیار کریں گے، اسی سے اگلے سوال کا جواب ملے گا کہ ان ریاستوں میں نظام کی اطاعت کی شرعی حیثیت کیا ہے اور اسی سے فقہی طور پر خروج کا حکم بھی متعین ہوگا۔ میں چاہوں گا کہ اگلے مرحلے میں آپ اس پہلو پر بھی روشنی ڈالیں۔

ڈاکٹر حافظ حسن مدنی

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے: شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراہیم وموسی وعیسی ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ۔ اللہ تعالیٰ کایہ ہمیشہ سے سنت اور قانون رہا ہے کہ اس نے انبیا کے لیے اقامت دین کو لازمی رکھا ہے اور کہا ہے کہ اس میں افتراق سے بچو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کشتی میں کچھ لوگ سوار ہیں تو وہ لوگ جو کشتی میں نیچے موجود ہیں، وہ پانی لینے کے لیے ہر روز اوپر جائیں اور اوپر والے لوگ اس سے تکلیف محسوس کریں جس سے نیچے والے لوگ اپنی آسانی کے لیے کشتی میں سوراخ کر کے نیچے سے ہی پانی حاصل کرنا چاہیں تو اس صورت حال میں کشتی میں سوار تمام لوگوں کا فرض ہے کہ وہ ان کو روکیں۔ اگر نہیں روکیں گے تو سب کے سب غرق ہو جائیں گے۔یہی مثال مسلمانوں کے معاشرے کی ہے۔ اگر کچھ لوگ معاشرے کی کشتی میں سوراخ کریں گے اور باقی لوگ انھیں نہیں روکیں گے تو سب کے سب ہلاکت کے سمندر میں ڈوب جائیں گے۔ علماء کرام نے اس حدیث کو حدود اللہ اور احکام دین کی اقامت کے واجب ہونے کے باب میں بیان کیا ہے کہ حدود کو قائم کرنا اتنا ضروری ہے کہ اگر دین کو قائم نہ کیا گیا تو پورا معاشرہ ہلاکت کا شکار ہو جائے گا۔ جس طرح کشتی میں اوپر رہنے والوں پر واجب ہے کہ وہ نیچے والوں کو کشتی میں سوراخ کرنے سے روکیں، اسی طرح مسلمان حکمرانوں پر دین کو قائم کرنا واجب ہے۔آج ہم جن مسائل کا شکار ہیں، ان کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے من حیث المجموع اس معاملے میں کوتاہی کا ارتکاب کیا ہے۔

جہاں تک موجودہ بحث کا تعلق ہے تو سب سے پہلے ہمیں اس کا پس منظر واضح کرنا چاہیے۔ جب تک وہ واضح نہیں ہوگا اور اس پر گفتگو نہیں ہوگی، خروج کی بحث واضح نہیں ہو سکتی۔ 

اس وقت ہم پاکستان میں جس معاشرے میں رہ رہے ہیں، کیا ہمیں اس موضوع پر گفتگو کرنی ہے کہ ہمیں پرویز مشرف کے خلاف خروج کرنا ہے یا اس بات پر گفتگو کرنی ہے کہ ہم نے آصف علی زرداری کے خلاف خرج کرنا ہے۔ پرویز مشرف کے خلاف خروج کرنا شرعی مسئلے سے بڑھ کر ایک قابض کا مسئلہ تھا، ایک آمر کا مسئلہ تھا اور وہ معاشرے کی ایک خالص ضرورت تھی۔ وہاں پر شرعی مسئلے میں آنا تو کجا، جمہوریت کے کسی تقاضے کے مطابق بھی وہ بات درست نہ تھی۔ آج آصف علی زرداری کا جو نظام حکومت ہے، جمہوریت کو تو صرف نام ہے۔ عملاً اس میں امت مسلمہ پر جو ظلم ہے، وہ اس سے بھی بڑھا ہوا ہے۔ اس پریہ بنیادی سوال ہے کہ خروج کی آج جو بحث کر رہے ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی جو مسئلہ ہے، شریعت کا کوئی بھی مسئلہ ہو تو جب تک حالات کو نہ دیکھا جائے، فقہ الواقع کو نہ دیکھا جائے تو فقہ الاحکام کی طرف بڑھنا ہی سمجھ نہیں آتا۔ ہم نے فقہ الاحکام کی طرف بعد میں بڑھنا ہے، پہلے ہم کن حالات میں گزر رہے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں اور آمریت کے دور میں اس کے خلاف خروج کرنا چاہیے یا نہیں، میرے خیال میں خروج کا مسئلہ نہیں بلکہ تدبیر اور امکانات کا مسئلہ ہے اور ہم سے بڑھ کر، دین سے بڑھ کر سول سوسائٹی کا بھی موضوع ہے کہ اس کے خلاف ہم سب کو متحد ہو کر کوشش کرنی چاہے تھی۔ پوری دنیا کا یہی تقاضا تھا۔ ایک آمر جب قابض ہو جاتا ہے تو سب کو یہی کرنا آتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت شرعی موضوع کو لانا خلط مبحث ہے۔

خلافت راشدہ تو بہت دورکی بات ہے، خلافت راشدہ کے بعد بارہ صدیوں تک مسلمانوں میں جو ایک نظام چلا ہے، اس کی کوئی ایک شکل بھی موجود نہیں ہے۔ اس معاملے کو اگر ہم بحث میں لائیں تو ہمیں اس تناظر میں چلنا چاہیے۔ 

جہاں تک اس کا پس منظر ہے، اس میں ایک اور بات بھی قابل غور ہے کہ یہ امت مسلمہ میں جو تکفیر کا مسئلہ ہے، یہ خالصتاً رد عمل کی پیداوار ہے۔ اگر یہ پاکستان میں نظر آتا ہے تو یہ نائن الیون کے بعد امریکہ کی جارحیت کے بعد نظر آتا ہے۔ اگر سعودی عرب میں نظر آتا ہے تو امریکی استعمار کے وہاں آنے کے بعد آتا ہے۔ ۱۹۹۰ء سے پہلے یہ بحثیں ہمیں وہاں نہیں ملتیں۔ تکفیر کی بحث مصر میں نظر آتی ہے، جماعت الہجرۃ والتکفیر کے ہاں تو وہ ان پر شدید ظلم وستم کے بعد نظر آتی ہے۔ ان مخصوص تناظروں کے علاوہ یہ بحث کہیں ہوتی ہی نہیں۔ یہ خالصتاًرد عمل کا مسئلہ ہے۔ جب مسلمانوں پر ظلم وستم کیا جاتا ہے تو وہ لوگ جو حساسیت رکھتے ہیں، غیرت رکھتے ہیں، وہ پھر اسلام کے کسی مسئلے سے اپنے لیے استدلال اور گنجائش نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر مصر میں الاخوان المسلمون پر ظلم ہوا تو وہاں جماعت الہجرۃ والتفکیر بن گئی۔ پاکستان میں جماعت اسلامی موجود ہے اور دوسری بڑی جماعتیں موجود ہیں۔ الحمد للہ یہاں وہ ظلم وستم نہیں ہوا، اس لیے وہ لوگ جو اقامت دین کا نظریہ رکھتے ہیں، ان کے ہاں تکفیر کا موضوع بھی نہیں شروع ہوا۔ تکفیرکا موضوع وہاں شروع ہوا جو روایتی مکتب فکر تھا۔ میری مراد حنفی مکتب فکر سے ہے۔ اصولاً اقامت دین کا جو نظریہ ہے، بظاہر وہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ اقامت دین کے لیے جدوجہد کرنے والے اس موضوع کو اٹھائیں، لیکن پاکستان میں جماعت اسلامی آج تک اس مسئلے کا شکار نہیں ہوئی۔ یہ موضوع وہاں چھڑا ہے جہاں ظلم ہوا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ جب امریکہ افغانستان میں آیا ہے تو سرحد میں لوگوں نے اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔ آپ دیکھ لیجیے کہ یہ خالص رد عمل ہے۔ اب ہم یہاں اس مجلس میں بیٹھ کر اس مزاحمت اور اس رد عمل کی مذمت کریں کہ اس خروج کا جواز کہیں نہیں ملتا۔ موجودہ جمہوری نظام میں دیکھیے تو وہ تو اس کا جواز دے گی ہی نہیں۔ اس کے بعد اسلامی نظام میں دیکھیے ۔پہلے اسلامی نظام کی بحث کی جائے۔ اس کے بعد اسلامی نظام میں جو خروج کا مسئلہ ہے، بہت ہی قیود وشروط کے ساتھ مقید ہے۔ دونوں جگہ جواز نہیں ملتا تو ہم کیا پوری مجلس کا حاصل یہ بنائیں کہ ان کی مزاحمت کی مذمت کرنی ہے؟ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ناقص مقصد ہے، یہ درست ہیں ہے۔

اصل میں ہمار اس سے بڑا فرض یہ ہے کہ اس رد عمل کو جس غلط عمل نے یپدا کیا ہے، اس غلط عمل کی مذمت کریں۔ جو لوگ یہاں کوشش کرتے ہیں کہ معاشرے میں امن قائم ہونا چاہیے، انھیں امن کی کوشش ان لوگوں سے متاثر ہو کر کرنی چاہیے جو مظلوم ہیں۔ انھیں نشان دہی کرنے کا خیال آتا ہے۔ اس کے بجائے جو اس ظلم کو قائم کرنے والے ہیں، عالمی استعمار ہے یا ہمارے حکمران ہیں، ان سے پہلے ان کو ان کے بارے میں گفتگو کرنی چاہیے جہاں سے ظلم شروع ہوا ہے ۔اس ظلم کا رد عمل شروع ہو رہا ہے۔ امن کا اصل جو قیام ہے، وہ مظلوم کو یا متاثرین کو امن کی تلقین کرنے سے نہیں ہوگا۔ میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ امن کے جو ادارے ہیں، ان کی پالیسی دست نہیں ہے کہ وہ ان لوگوں کو امن کی تلقین کرتے ہیں جو اس معاملے میں مظلوم ہونے کی حیثیت رکھتے ہیں اور خالص رد عمل میں سارے معاملے کو کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں کوئی بھی کسی قسم کی مزاحمت کی جائے تو اس مزاحمت کا حاصل ہم یہ نکال لیں؟ کیونکہ خروج کے جواز کی طرف کوئی بھی نہیں جا سکتا، نہ سیاسی طورپر اور نہ شرعی طور پر۔ تو میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ہمیں سب سے پہلے فقہ الواقع کا تعین کرنا چاہیے۔

امت مسلمہ پر شدید ظلم ہو رہا ہے۔ بعض ممالک ایسے ہیں کہ جن کی صنعت ہی عسکریت ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں یہ رویہ چلتا رہا ہے کہ وہ لوگ جنھوں نے خرابی کی، انھوں نے اس کے تدارک کے لیے متبادل نعرے بھی اختیار کیے۔ معتزلہ نے اپنا نام اہل العدل والتوحید رکھا۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو انتشار پیدا کریں آپس میں اختلاف ہو اور اتحاد بین المسلمین کی کوشش کو اپنا نعرہ اور سلوگن بناتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو دنای بھر میں عسکریت پیدا کرتے ہیں اور دنیا بھر میں اس کے ادارے ہی اس کو پروموٹ کرتے ہیں۔ بعض حکومتیں اس دور میں بھی ایسی ہیں۔ مجھے امریکہ کے ادارے ؟؟ میں جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ یہ ادارہ آج کا نہیں، یہ نائن الیون کے بعد کا بنا ہوا ہے۔ تو اس کا پرچار کون سے ممالک کرتے ہیں؟ وہ لوگ جو دنیا بھر میں استعمار اور جارحیت کو پیدا کرنے کے اس وقت سب سے بڑے مجرم ہیں۔

میں اپنی بات کے پس منظر کو اس موڑ پر ختم کرتے ہوئے شرعی موضوع کی طرف بڑھتا ہوں۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ ہمیں منظر نامہ پورا واضح کرنا چاہیے اور مزاحمت کرنے والے مظلوموں کی جائز آوز کو دبانے کی ہر کوشش سے پیچھے ہٹ کر ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ سب سے پہلے جو امن کو غارت کرنے کے اسباب ہیں، ان پر بات کی جائے۔ اس کے بعد جو حکمران پالیسیاں بنانے والے ہیں، ان پر بات کی جائے۔ اور یہ طریقہ جو مظلوم لوگوں نے اختیار کیا ہے، یہ بھی ٹھیک نہیں ہے لیکن یہ وہ آواز ہے جو غیرت اور حمیت کی بڑی پسی ہوئی باریک سی آاز ہے اور وہ شدید انتہا پسندی کا شکار ہیں، کیونکہ پوری امت میں اس ظلم کو ختم کرنے کے لیے کوئی امتی یا کوئی حکمران بھی اس کا ساتھ نہیں دے رہا، اس لیے فقہ الواقع میں ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے۔

اگلا نکتہ جو میں پیش کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ہم خروج کی گفتگو جمہوریت کے تناظر میں کر رہے ہیں۔ جمہوریت کا بذات خود اسلامی ہونا، اس کے بارے میں بھی گفتگو کی جا سکتی ہے اور اس پر آرا موجود ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ بہت سے لوگ اس وقت جمہوریت پر مطمئن ہو کر بیٹھے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ پاکستان کے تمام لوگ اس سے متفق ہیں اور دستوری جدوجہد کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ واقعہ میں ایسا نہیں ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ جو دستوری جدوجہد کر رہے ہیں، وہ اس بنا پر کر رہے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں۔ امن کی حالت میں یہی ایک قابل عمل شکل بن سکتی ہے نہ کہ یہی ایک مثالی شکل ہے۔ اس وقت جو قانونی، دستوری جدوجہد پاکستان میں ہو رہی ہے، یہ خوشی اور پسند سے یا مثالی طریقے پر نہیں ہو رہی بلکہ یہ اس لیے ہو رہی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی طریقہ بچا نہیں ہے۔ رینڈ کارپوریشن نے پوری دنیا میں جن جماعتوں کو اعتدال کا سرٹیفکیٹ دینا ہو یا جن حکومتوں کو اعتدال پسند اور روشن خیال قرار دینا ہو، اس کا جو معیار بنایا ہے، اس میں چھ چیزیں ہیں۔ 

۱۔ کیا وہ جماعت اپنے داخل میں جمہوری نظام کو پروموٹ کرتی ہے؟

۲۔ اس جماعت یا تنظیم کو اعتدال پسند کہا جائے گا جو مساوات مرد وزن پر یقین رکھتی ہو۔

۳۔ کیا وہ جماعت اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کرتی ہے؟

۴۔ کیا وہ جماعت تشدد اور دہشت گردی کی نفی کرتی ہے؟

یہ وہ بنیادی معیار ہے جسے کوئی جماعت پورا کرے گی تو اس کے بعد عالمی استعمار اسے کہے گا کہ یہ معتدل جماعت ہے۔ اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ جمہوریت کے نظریہ کو عالمی استعمار ہمارے لیے بنیادی امتحان قرار دیتا ہے اور ہم یہ سمجھیں کہ جمہوریت جسے عالمی استعمار ہمارے لیے معیار قرار دیتا ہے، وہی اسلام کا مثالی نظام ہے۔ میری ذاتی رائے کے مطابق جمہوریت اسلام کا کوئی مثالی نظام نہیں، بلکہ اس نظام پر سنگین ترین اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ ماضی میں اس نظام پر صرف یہ اعتراض کیا گیا کہ یہ صرف نمائندگی ہے۔ اس نظام پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ شریعت یا خلافت اسلامیہ شریعت کے نفاذ اور قیام کے لیے ہوتی ہے، اس میں مقننہ کوئی نہیں ہے۔ اللہ کی کتاب اور سنت موجود ہے اور کتاب وسنت کو ہم نے نافذ کرنا ہے اور جمہوریت جو ہے، وہ اللہ کی شریعت کے بجائے انسانوں کے جو فیصلے ہیں، ان کے نفاذ کے لیے ہوتی ہے جس کے لیے مقننہ کا پورا ایک ادارہ ہے۔ یہ بنیادی فرق ہے کہ ریاست کا مقصد کیا ہے؟ جمہوریت کا مقصد یہ ہے کہ انسانوں کے فیصلے نافذ کیے جائیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہم نے اس میں یہ شرط ڈال دی ہے کہ کوئی فیصلہ اسلام کے خلاف نہ ہو، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسلام صرف ایک منفی رکاوٹ پیدا کرتا ہے یا اسلام کا مثبت طور پر کوئی اپنا سیاسی نظام بھی ہے؟ کیا اسلام کی صرف یہ حیثیت ہے کہ کوئی بات اسلام کے خلاف نہ ہو یا اسلام کے اپنے بھی قوانین ہیں جن کو نافذ کرنا ہے؟ یہ بہت ہی محدود تصور ہے جو ہم نے اختیار کیا ہے۔

جمہوریت کے اندر قانون سازی کا جو نظریہ ہے یا قانون سازی کے مسئلے میں احناف کے ہاں یہ بحث ملتی ہے کہ جہاں شریعت میں ایک مسئلے پر تین چار دلائل وامکانات موجود ہیں تعزیر کے باب میں تو حاکم ان میں سے کسی ایک کو متعین کر سکتا ہے اور یہ حاکم کا اختیار ہے جسے ہم کہتے ہیں کہ جمہوریت اس اختیار کو استعمال کرتی ہے، لیکن احناف کے ہاں یہ بحث اس دائرے میں ہے جن میں شریعت کے اندر گنجائش موجود ہے۔ مسلمہ معاملات میں احناف کے ہاں بھی قانون سازی کی گنجائش نہیں ہے۔ کچھ ابواب ایسے ہیں کہ جہاں پر گنجائش موجود ہے اور کچھ ابواب شریعت کے ایسے ہیں جہاں واضح موقف موجود ہے۔ ہماری جمہوریت، شریعت کے جو واضح موقف ہیں، ان پر بھی قانون سازی کرتی ہے تو احناف کے قانون سازی کے تصور سے اس کی تائید پیش نہیں کی جا سکتی۔ 

جمہوریت خالص طور پر ایک وطنی ریاست ہے جو مختلف الخیال لوگوں سے وجود میں آتی ہے۔ اسلام ایک وطنی ریاست نہیں، بلکہ ایک نظریاتی ریاست کا نام ہے جس کے اندر اک نظریے کا غلبہ ہو۔ اسلام میں یہ کہاں موجود ہے کہ مختلف الخیال لوگ مل کر رہیں گے؟ اسلام میں ایک نظریہ ہے۔ اس نظریے کو ماننے والے اس کے تحت آتے ہیں اور اس نظریے کو آگے بڑھایا جاتا ہے۔ تو خلاصہ یہ ہے کہ جمہوریت کا اسلام سے الگ ہونا اور اس کے مخالف اور متصام ہونا ایک واضح حقیقت ہے اور ماضی میں یہ حقیقت اگر واضح نہیں ہو سکی یا علما اس کو کہہ نہیں سکے تو اس کی بڑی وجہ تو یہ ہے کہ طریقہ اس کے علاوہ کوئی موجود نہیں ہے یا یہ ایک ایسا نظام ہے جو اس وقت تمام حکومتوں کے لیے اساس اور مجبوری بن چکا ہے۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس نظام کو جدوجہد کے ذریعے ختم کر لیں گے تو ایسا نہیں ہے۔ اس جمہوری نظام کو جس وقت بدلنے کی کوشش کی جائے گی، اس وقت اس کے تحفظ کے لیے نیٹو، امریکا کی قوتیں اور دنیا بھر کا میڈیا آ پ کے بالمقابل آ جائے گا۔ 

تو اس نظام میں خرابی کوئی ایک نہیں ہے۔ دستور کی خرابی نہیں ہے، مقننہ کی خرابی نہیں، پورا ایک نظام ہی مختلف ہے۔ اس بات کو واضح کرنے کے لیے میں صرف ایک نکتہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے ہاں یہ مغالطہ پایا جاتا ہے کہ مسلم ریاستیں ۱۹۴۷ء میں آزاد ہوئیں، حالانکہ امر واقعہ یہ نہیں۔ میں جس طرح صورت حال کو دیکھتا ہوں، وہ یہ ہے کہ دراصل دو سو سال میں مغرب نے اپنا عروج دیکھا۔ اس دور عروج میں ان کے درمیان اختلافات ہوئے۔ جنگ عظیم اول اور دوم میں انھیں جو کمزوری ہوئی، اس کے نتیجے میں مسلم ریاستیں بنائے بغیر ان کے لیے چارہ نہیں تھا۔ مسلمان اپنی قوت کی بنیاد پر آزاد نہیں ہوئے بلکہ دوسروں کی کمزوری کی بنا پر آزاد ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نظریاتی نظم تو ان ریاستوں میں پورے کا پورا وہی رہا جو جمہوری نظام ہے۔ ہمارے لیے آزاد ہونے کے بعد بھی کوئی چارہ نہیں تھا۔ ہم اسی کو اسلامی بنانے کی کوشش کرتے رہے، حالانکہ ہمارا ایک مستقل نظام ہے جس کا نام خلافت ہے۔ عجیب بات ہے کہ حضرت عمر کے جب کسی موقف کا ذکر آتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر کا رویہ کتنا شاندار اور جمہوری ہے، جبکہ حضرت عمر کے جو رویے ہیں، وہ خلافت کے رویے ہیں اور خلافت کے اندر بھی آزادئ رائے ہے۔ اس کو جمہوریت سے منسوب کر کے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ جمہوری رویہ ہے، گویا کہ جمہوریت ہی ایک واحد معیار ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ہمیں کا صحیح تناظر متعین کرنا پڑے گا۔ جمہوریت کا مظہر آج آصف علی زرداری صاحب ہیں۔ اب ان کے بارے میں شخصی طور پر بات کریں یا نظام کی بات کریں؟ مسئلہ کسی ایک فرد کو پیچھے ہٹانے کا نہیں ہے۔ایک فرد کو ہٹایا جائے تو پورا نظام اس سے بدتر آدمی کو سامنے لے آتاہے۔ اس تناظر میں ہمیں اس بات کو واضح کرنا چاہیے۔ میں یہ کہہ کر اپنی گفتگو کو سمیٹنا چاہوں گاکہ تکفیر ہو، تفجیر ہو یا توحید حاکمیت ہو، یہ سارے سیاسی ہتھکنڈے ہیں۔ یہ ساری چیزیں صرف ایک مظلوم کی آواز ہیں۔ علامہ ناصر الدین البانی کی ایک کتاب کا عنوان ہے کہ توحید حاکمیت ایک سیاسی ہتھکنڈا ہے۔ سیاسی ہتھکنڈے کا مطلب یہ ہے کہ جب مظلوموں کو کوئی راستہ نہیں ملتا تو وہ کوئی شرعی دلیل ڈھونڈنا شروع کر دیتے ہیں۔ بہرحال اسلام کا طریق دعوت یہ نہیں ہے کہ ہم فلاں یا فلاں کو کافر کہیں، بم دھماکے کریں۔ یہ سارے کام غلط ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے، لیکن اس کے سوا کرنے کا طریقہ بھی کیا ہے؟ ظلم ہو رہا ہے اور مسلمانوں کے حکمران اس ظلم میں ظالموں کے ساتھ کھڑے ہیں تو مسلمانوں کے کچھ مخلص لوگ جن کے اندر غیرت اور حمیت ہے، وہ کیا کریں؟ جب وہ پوری امت کو اپنے خلاف دیکھتے ہیں تو وہ انتہا پسندی کا شکار ہو کر بم دھماکوں کی تربیت دیتے ہیں جو سو فی صد غلط کام ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں۔ 

یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ سعودی عرب کے علما جتنی اس کی تائید کرتے ہیں، ان کو اس سارے مسئلے کا اندازہ نہیں ہے۔ میں بحیثیت ایک طالب علم کے یہ سمجھتا ہوں کہ سعودی عرب کو توحید حاکمیت کے مسئلے سے کبھی واسطہ پیش نہیں آیا۔ وہاں پر دین کافی حد تک اور کافی وجوہ سے نافذ ہے۔ وہ علما نوجوانوں کو جتنی بھی تلقین کریں گے تو چونکہ ان کا اپنا تجربہ نہیں ہے۔ سعودی عرب کے علما جتنی بھی تعبیرات کر رہے ہیں، وہ اپنے مقامی حالات کے تناظر میں کر رہے ہیں۔ جس طرح ہم آج سے آٹھ سو سال پہلے کے محدثین وفقہا کی آرا کو آج کے حالات پر پوری طرح منطبق نہیں کر سکتے، اسی طرح سعودی عرب کے علما کی آرا کو ہم یہاں اپنے حالات پر منطبق نہیں کر سکتے۔ سعودی عرب کے لوگوں کو اس صورت حال سے واسطہ نہیں۔ 

دوسری بات یہ کہ سعودی عرب کے جو علما ہیں، وہ حنبلی ہیں اور حنبلیت کے اندر خروج نہیں ہے۔ دوسرے فقہا خروج کا جواز بتاتے ہیں جبکہ حنبلیت خرج کے خلاف سب سے شد ید موقف رکھتی ہے۔ سعودی عرب کے سلفی علما کے ہاں جو موقف پایا جاتا ہے، چونکہ انھیں حالات کا تجربہ نہیں ہے، اس لیے ان کی رائے اس سارے معاملے میں زیاہ وقیع نہیں ہے۔ یہ سارا تجربہ پاکستان میں رہنے والوں کا ہے، مصر اور شام میں رہنے والوں کا ہے، حتیٰ کہ کویت کے جو سلفی علما ہیں، وہ بھی توحید حاکمیت کی یہ ساری بحثیں کرتے ہیں۔

محمد عمار خان ناصر

بہت شکریہ۔ ڈاکٹر حسن مدنی صاحب نے براہ راست موضوع پر تفصیلی اظہار خیال کیا ہے۔ ایک بات تو انھوں نے وہی ارشاد فرمائی جو مفتی منصور احمد صاحب کہہ چکے ہیں کہ موجودہ صورت حال میں خروج کی تمام بحثیں رد عمل کا اظہار ہیں جبکہ شرعی جوازات واستدلالات اس رد عمل کو تائید فراہم کرنے کے لیے ہیں۔ اگر ہم ان اسباب پر گفتگو کریں گے اور ان کو دورکرنے کی کوشش کریں گے تو ان کے خیال میں شاید یہ استدلالات خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ دوسری بات جو ہمارے موضوع سے براہ راست متعلق ہے اور جس سے ان کا نقطہ نظر بہت واضح ہو جاتا ہے، انھوں نے یہ کہی کہ موجودہ جمہوری نظام یہ کوئی معیاری نظام نہیں ہے اور جن حضرات نے اس نظام کے دائرے میں جدوجہد کا راستہ اختیار کیا، ایسا نہیں وہ بھی اس کو کوئی معیاری نظام نہیں سمجھتے، بلکہ انھوں نے صرف اس پہلو سے ایسا کیا کہ موجودہ حالات میں جو امکانات ہمیں میسر ہیں، اس میں یہی زیادہ قابل عمل طریقہ ہے۔

اس پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے جو ہمارے موضوع کے دوسرے حصے یعنی خروج سے متعلق ہے۔ میں وہ سوال اٹھا دیتا ہوں تاکہ اگلے مرحلے میں جب حسن مدنی صاحب گفتگو کریں تو اس سوال کے حوالے سے بھی ان کا جواب سامنے آ جائے۔ ڈاکٹرصاحب نے کہا ہے کہ موجودہ جمہوری نظام کوئی مثالی نظام نہیں ہے اور اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اسے جوہری طور پر تبدیل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں اور اس کو پورے عالمی سیاسی نظام اور بین الاقوامی اداروں اور عالمی استعمار کی جو تائید میسر ہے، وہ بھی اس میں تبدیلی کی اجازت نہیں دیتی۔ اس صورت حال میں یہ سوال بہت اہم بن جاتا ہے کہ دور حاضر میں جبکہ ایک خاص نظام ہم پر مسلط کر دیا گیا ہے، استبدال نظام کے ممکنہ شرعی طرق کیا ہو سکتے ہیں تاکہ اسلام جو ایک مثالی نظام پیش کرتا ہے، اس کے مطابق ایک معیاری اسلامی ریاست وجود میں لائی جا سکے؟ کیا موجودہ دور میں جمہوری نظام کے تحت جو کچھ ممکن ہے، اسی پر اکتفا کیا جائے گا یا کوئی مرحلہ ایسا بھی ہے جب اس نظام سے باہر نکلنے کی کوشش کی جائے گی اور پھر اس کا طریقہ کیا ہوگا؟ 

مفتی محمد خان قادری

سب سے پہلے تو ہم اس ادارے کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے بڑے اہم مسائل پر گفتگو کے لیے اہل علم کو پہلے اسلام آباد میں اور اب لاہور میں جمع کیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اہل علم سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل کو لیں اور یہ ہمارا فریضہ ہے کہ ہم ان کا جواب قرآن وسنت سے فراہم کریں۔

ڈاکٹر حسن مدنی صاحب نے بڑی تفصیل کے ساتھ ہم سب کو ان حالات کی طرف متوجہ کیا ہے۔ یہ مسائل موجود ہیں اور اس کی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ ہم لوگوں نے سستی کا مظاہرہ کیا اور ہماری گرفت معاشرے پر کمزور ہو گئی۔ جن اہل علم کے ہم حوالے دیتے ہیں، وہ ہر دور میں اپنی رائے کو دلائل کے ساتھ قوم کے سامنے رکھتے تھے، چاہے ان کی رائے سے کسی نے اختلاف کیا ہو یا نہ کیا ہو اور الحمد للہ جلد یا بدیر لوگ اس طرف آ جاتے تھے۔ بہرصورت ہم لوگ سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل پر غور کرنے کے لیے یہاں بیٹھے ہیں تو مجھے امید ہے کہ ہمیں قرآن وسنت میں ان کا حل بھی ضرور ملے گا۔ مسائل کا ایک انبار ہے، بگڑے ہوئے معاملات ہیں، ہم شکست خوردہ لوگ ہیں۔ دوسری تہذیبیں غالب ہو چکی ہے۔ کفار غالب ہیں، ان کی چلتی ہے، جبکہ بارہ سو سال تک ہماری چلتی تھی۔ ان حالات میں آپ سنجیدگی کے ساتھ مکی دور کو پڑھ لیں تو بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔

مثلاً تکفیر کا ہی مسئلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے پر امت مسلمہ میں کافی عرصے سے اندھیر مچا ہوا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد تو یہ ملتا ہے کہ اجرؤکم علی الفتوی اجرؤکم علی النار کہ تم جتنی جلد بازی فتوے میں کرو گے، اتنا ہی تم جہنم میں جلدی جاؤ گے۔ ہم یہاں جتنے مسلمان بیٹھے نہیں، پتہ نہیں فتوے کے اعتبار سے ایک دوسرے کے نزدیک کیا ہیں۔ مدنی صاحب نے حقیقتیں بیان کی ہیں جن سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، لیکن آخر ہم نے بہرحال ان مسائل پر بیٹھنا تو ہے اور ان مسائل پر غور وخوض کرنا ہے۔ 

تکفیر کے مسئلے پر میرا ذہن یہ بنتا ہے کہ ہم کوشش کریں کہ سب مل جل کر نصوص پر زیادہ قائم رہیں، کیونکہ ہم جتنا نصوص سے نیچے اترتے ہیں تو اقوال تو آپ جانتے ہیں کہ ہر قسم کے مل جاتے ہیں۔ ہر دور میں ثقہ علما بھی موجود رہے ہیں اور غیر سنجیدہ لوگ بھی ہر دور میں رہے ہیں۔ ان کی آرا آپ نے بھی پڑھی ہوں گی اور میں نے بھی پڑھی ہیں۔ یہاں تک لکھا ہے کہ حنفیوں اور شافعیوں کی آپس میں شادیاں نہیں ہو سکتیں۔ تو کیا ہم انھی اقوال کو لے کر چلتے رہیں گے؟ کس عالم نے آج اس قول کو پسند کیا ہے؟

دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اسلام کی جتنی فکر اللہ اور اس کے رسول کو ہے، اتنی ہمیں نہیں ہو سکتی۔ ہم بہت سے کام کرتے تو اسلام کے نام پر ہیں، لیکن ہو سکتا ہے اس کے پس منظر میں ہماری جہالت ہو۔ 

علامہ خلیل الرحمن قادری صاحب نے یہ بات فرمائی ہے کہ ہمارے ہاں کفر ضروریات دین کے انکار تک محدود ہے، حالانکہ اس کے علاوہ کوئی سات آٹھ صورتیں میں نے پڑھی ہیں جو علما نے بیان کی ہیں۔ مثلاً سید انور شاہ کاشمیری کی اس موضوع پر مستقل کتاب ہے، اکفار الملحدین۔ مثلاً کچھ لوگ کہتے تو خود کو مسلمان ہیں اور کرتے سب کچھ اس کے خلاف ہیں۔ میں نے یہ جملے سنے ہیں کہ اسلام کی سزائیں وحشیانہ سزائیں ہیں۔ اختلاف اس میں تو ہوا ہے کہ کبیرہ کے مرتکب کو مسلمان کہیں گے یا نہیں۔ یہ اختلاف تو کسی نے نہیں کیا کہ جو اسلام کا مذاق اڑائے، اس پر بھی کفر کا فتویٰ نہیں لگتا۔ یہ تو آج تک کسی نے نہیں کہا اور اس پر تو سارے متفق ہیں۔ باب المرتدین یا باب الکفر فقہ کا نکالیں، وہ تو چھوٹے چھوٹے معاملات میں بتاتے ہیں کہ اس سے کفر لازم آتا ہے۔

یہ جو توحید حاکمیت کا مسئلہ ہے، یہ بھی کہتے ہیں کہ سعودیہ میں پیدا ہوا ہے تو سعودیہ نے اقتدار کن لوگوں سے لیا تھا؟ اس وقت توحید حاکمیت کا مسئلہ نہیں تھا۔ اس پر سارے لوگ آئے ہیں، سعودیہ کے بھی اور اسلاف بھی کہ وہ مستحل کا لفظ بولتے ہیں کہ جو شریعت کے خلاف بات کرے اور وہ اسے حلال سمجھے، یہ شرط سبھی نے تسلیم کی ہے۔ شیخ ابن تیمیہ ہوں یا محمد بن عبد الوہاب ہوں۔ 

ایک چیز اس میں بھی کھٹکتی ہے کہ آپ ذرا اوپر سے نیچے تک آئیں تو امت مسلمہ زوال ہی کی طرف گئی ہے اور جب بھی لوگ کامیابی کی طرف بڑھے ہیں اور کچھ روشنی دکھائی تووہ امام حسین کا راستہ ہی ہے۔ اور تو کوئی راستہ ہمیں دکھائی نہیں دیتا، ورنہ رخصت کے راستے تو ہر کوئی نکالتا پھرتا ہے۔ جو چیز آپ کو فسق وفجور نظر آتی ہے، ہو سکتا ہے امام عالی مقام کو وہ کفر نظر آتی ہو۔ جتنی کسی کے اندر غیرت ہوتی ہے، اتنا ہی وہ مسئلہ اس کو چبھتا ہے۔ ہم ہر بات کو اپنے پیمانے سے سوچتے ہیں جس کی وجہ سے پریشانی بنتی ہے۔ مثلاً کئی لوگ ہیں جو غیرت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو بھئی، غیرت ایمانی بھی تو کہیں جاگنی چاہیے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کفر بواح کی تصریح فرمائی اور یہ بھی کہہ دیا کہ تمھارے پاس کوئی دلیل ہونی چاہیے۔ ہم تو افواہوں پر چلتے ہیں۔ پھر حدیث میں برہان کا لفظ ہے اور برہان کے بارے میں ہم سب جانتے ہو کہ اس پر کوئی قطعی دلیل ہے۔ میری گزارش یہ ہے کہ کفر کو ضروریات دین کے انکار تک محدود نہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ بھی سات آٹھ شکلیں بنتی ہیں۔ مثلاً رضا بالکفر کی بات ہے یا کوئی شریعت کا استحقار کرتا ہے یا کوئی شریعت کو نافذ کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔

رہ گیا جمہوریت کا مسئلہ تو اس میں مغربی جمہوریت کا لفظ بڑھانا چاہیے۔ ہمارے ہاں جو مسلط ہے، وہ مغربی جمہوریت ہے۔ ہمیں اسلام کا جو شورائی نظام ہے، اس کی طرف بڑھنا چاہیے۔ ہمارے دستور میں شق ۶۲ اور ۶۳ میں رکن پارلیمنٹ کے لیے جو صفات لکھی ہیں، ان پر عمل نہیں ہوتا ۔کم از کم انھی شرائط پر عمل ہو جائے تو کچھ اچھے لوگ آ سکتے ہیں۔

باقی رہ گیا اتھارٹی کا مسئلہ تو قرآن کریم کی یہ تصریح کہ فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون اس مسئلے کو کافی حل فرما دیتی ہے کہ اہل علم ہی، بلکہ اہل علم سے اگلا جو درجہ ہے، جو خوف خدا رکھنے والے ہیں، ان کا کوئی بورڈ بن سکتا ہے۔ پاکستان میں ہر قسم کے لوگ موجود ہیں۔ مسئلے پر غور وفکر کریں کہ یہ تکفیر کا مستحق ہے یا نہیں تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔

ڈاکٹر سید محمدنجفی

بنیادی طور پر ہماری گفتگو اس مجلس میں تکفیر کے موضوع پر ہے۔ اس بنیادی اور اہم ترین گفتگو میں داخل ہونے سے پہلے تھوڑا سا ضروری ہے کہ ہم کفر کا مفہوم ذہن میں لے آئیں کہ کفر کہتے کسے ہیں اور پھر جب کفر میں جائیں گے تو کفر کی کئی اقسام ہیں جن میں سے ایک کفر بواح ہے۔ اس کے متعلق خصوصیت کے ساتھ تذکرہ کریں گے۔

جہاں تک کفر کا تعلق ہے، یہ ایمان کے مقابلے میں ہے اور ایمان بالارکان نہیں ہوتا، بالجنان ہوتا ہے۔ قلبی طور پر دل میں اگر انسان شہادتین کا اقرار کرتا ہے، توحید ورسالت کا اقرار کرتا ہے تو اس کو مسلمان کہا جاتا ہے، البتہ ارکان کے ذریعے سے اس کے احکام ظاہر ہوتے ہیں۔ اس کے امور ظاہر ہوتے ہیں اور چیزوں کا پتہ چلتا ہے۔ لیکن جب جنان کے ساتھ، دل میں وہ اقرار کر لیتا ہے تو وہ مومن کہلاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں کافر ہے۔ سادہ لفظوں میں جو شہادتین کا منکر ہے، توحید کا یا رسالت کا منکر ہے، وہ کفر کے زمرے میں آ جائے گا۔ اس کو ہم مسلمان قطعاً نہیں کہہ سکیں گے۔ یہ کفر کے حوالے سے ہماری اصل بنیاد ہے۔ 

لغوی طورپر اگرہم دیکھیں تو ہر قسم کا انکار کفر ہے۔ ہرچیز سے رکاوٹ پیدا کرنا کفر ہے، لیکن ان میں بعض رکاوٹیں احسن ہیں اور بعض غیر احسن ہیں۔ بہرحال جب ہم اس تعریف سے ہٹ کر اصطلاحی کفر پر آئیں گے تو اس کے بعد میدان اتنا وسیع ہو جاتا ہے کہ، جیسا کہ محترم مفتی محمد خان قادری صاحب نے فرمایا، ان وسعتوں کو انسان جہاں تک لے جانا چاہے، لے جا سکتا ہے۔ مثلاً سب سے پہلے تو عدم اقرار شہادتین والا کافر ہو گیا۔ پھر جو اقرار کرتا شہادتین کا، اس کے لیے کفر کی کئی قسمیں نکل آئیں۔ بعض روایات میں تارک الصلوٰۃ کو کافر کہا گیا ہے۔ یہ اقرار شہادتین کے بعد گویا کفر کی ایک علیحدہ صورت ہے۔ ہمارے ہاں جس پہلو پربحث ہو رہی ہے، وہ شہادتین کا انکار کرنے والے کافر کی نہیں ہو رہی۔ ہم نے جس کفر بواح کو تلاش کرنا ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی شہادتین کا تو اقرار کر رہا ہے، لیکن مثلاً تارک الصلوٰۃ ہے، کبائر کا ارتکاب کر رہا ہے۔ تو اس کی کئی قسمیں اور کئی صورتیں ہیں۔ اس وسعت کو اگر ہم مدنظر رکھیں تو جب ہم یہاں پہنچیں گے کہ کافر کون ہے اور کس کو کافر کہنا ہے اور کس کو کافر نہیں کہنا اور پھرجب معاملہ اور آگے جائے گا تو وسیع تر ہو جائے گا۔ اتنا وسیع باب ہے کہ آپ گنتی نہیں کر سکتے کہ یہ دس کام کرے گا تو کافر ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ گیارہواں بھی کسی روایت میں نکل آئے۔ اس کے لیے کوئی عدد نہیں ہے۔

سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ جسے ہم کافر کہہ رہے ہیں، وہ پہلی اصطلاح کے لحاظ سے ہے یعنی جو شہادتین کا اقرار نہیں کر رہا یا دوسری اصطلاح کے مطابق ہے؟ پھر یہ دیکھنا ہے کہ ان دونوں میں آیا کوئی فرق بھی ہے یا نہیں؟ ان دونوں کے احکام میں بھی کوئی فرق ہے یا نہیں؟ ان دونوں کی حیثیات میں بھی کوئی فرق ہے یا نہیں؟ جب اس صورت حال میں جائیں گے تو ہمارے لیے بحث میں تھوڑی سی دقت ہو جائے گی کہ ہم اگر کسی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں کفر کے عنوان سے تو کس حیثیت سے لگے ہوئے ہیں اور اس میں ہم کیا کہنا چاہتے ہیں؟

اگر ہم تاریخی طور پر بھی نظر ڈال لیں، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی، مدنی زندگی اور خلفاے راشدین کے دور کو اگر ہم غور سے دیکھیں ، بالاخص سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو تو انسان حیران ہو جاتا ہے۔ میرے بزرگان تشریف فرما ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ میری اصلاح ہو جائے، لیکن مجھے ابھی تک کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی کہ سرور کائنات نے کسی کو کہا ہو کہ تم کافر ہو کیونکہ تم نے یہ کام کیا ہے۔ ہاں منافق کی اصطلاح آئی ہے۔ قرآن مجید میں بھی آئی ہے۔ مسجد ضرار کے افراد کا بھی پتہ ہے۔تاریخوں میں ان افراد کے نام بھی لکھے ہیں۔ اگرچہ کفرا وتفریقا کے الفاظ آئے ہیں، لیکن وہ اس اصطلاحی مفہوم میں نہیں آئے۔ سرور کائنات کی زندگی میں اور خلفاے راشدین کی زندگی میں چاہے لوگوں کو ملک بدر کیا گیا، لیکن میرے ذہن میں نہیں کہ یہ اصطلاح ان معنوں میں استعمال ہوئی ہو جس میں آج ہم استعمال کر رہے ہیں یا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

خروج کی بحث سے ہٹ کر کہہ رہا ہوں کیونکہ وہ تو متبرک ہستیاں تھیں، وہاں پر تو خروج کا تصور ہی نہیں ہے۔ خلفاے راشدین کے دور تک ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم خروج کی بحث کریں۔ ہاں اکا دکا چھوٹے چھوٹے واقعات ہو سکتے ہیں، ان کی بھی توجیہات اور تاویلات کی جا سکتی ہیں۔ بہرحال پہلی بات تو یہ ہو گئی کہ اس موضوع میں وسعت پائی جاتی ہے۔ شہادتین کا اقرار کرنے والے کو جب ہم کافر کہتے ہیں تو ہماری کیا ذمہ داری بنتی ے؟ دوسری بات یہ کہ ائمہ معصومین اور بالاخص خلفاے راشدین کے دور اور زمانے تک ہمیں یہ اصطلاح استعمال ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی، حالانکہ اس زمانے میں بھی لوگ تارک الصلوٰۃ تھے، کبائر کا ارتکاب بھی کرتے تھے۔ وہ جو خامیاں جن کا آج تذکرہ کیا گیا، اصطلاحاً بیان ہوئی ہیں اور روایات میں بھی ان کا تذکرہ ہے۔ ان سب کے باوجود سرور کائنات نے کسی کو کافر کہا نہ حضرت ابوبکر صدیق نے کسی کو کافر کہا نہ حضرت عمر فاروق نے کسی کو کافر کہا اور نہ کسی اور نے۔ اس دور میں میری نظر میں نہیں آیا کہ کسی نے کسی کو کافر کہا ہو۔ ہاں اس کے بعد یہ سلسلہ اور یہ گفتگو شروع ہوئی۔

ہم بحث کر رہے ہیں کہ جو شہادتین کا اقرار کر رہا ہو، اپنے آپ کو توحید اور رسالت کا کلمہ پڑھنے والا کہہ رہا ہو، اس میں ہم کفر کو تلاش کرنے جا رہے ہیں اور اس پر وہ سارے احکام لاگو کرنا چاہتے ہیں جو شہادتین کے منکر کے احکام ہیں۔ ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

اب کفر بواح کے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ کم از کم آٹھ سے دس موارد حدیث میں آئے ہیں جن میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مثلاً ذات اللہ کا کسی حوالے سے انکار کرتا ہے، وہ تو اقرار بالشہادتین کے انکار میں آ جاتا ہے۔ اقرار ایک دفعہ کرتا ہے، لیکن کام ایسے کرتا ہے جو توحید کے منافی ہیں۔ نظام اس کا ایسا ہے جو ذات اللہ کی نفی کرتا ہے۔ تو چونکہ اس میں بہت وسعت ہے، اس لیے متعین نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً میں ذات خدا کا تو منکر نہیں ہوں، لیکن نماز میں تاخیر کرتا ہوں، کسی کا حق کھا لیتاہوں، اگر اس موضوع کو وسعت دیں تو ذات خدا کا انکار پتہ نہیں کہاں تک چلا جاتا ہے۔ آج کی اس مجلس میں ہمیں یہ بھی تعین کرنا پڑے گا کہ ذات خداکی نفی سے کیا مرادہے؟ آیا ذات خدا کی نفی سے مراد ی ہے کہ خدا خالق نہیں ہے، مالک نہیں ہے، رزاق نہیں ہے، وہ جو صفات ثبوتیہ اور صفات سلبیہ ہم پڑھتے ہیں، اس حد تک محدود ہے یا یہ کہ ہر وہ کام جو توحید چاہتی ہے اور میں اس کے خلاف سرانجام دیتا ہوں، وہ ذات خدا کی نفی ہے؟ اگر یہ ہے تو یہ کفر بواح میں آتا ہے؟ یقیناًاس کے اندر آ جائے گا۔ تو اس کی تعیین ہمارے لیے ضروری ہے۔

دوسرا موضوع آ جاتا ہے کتاب کا۔ کتاب جس کا خداوند تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے، وہ یقیناًمحفوظ ہے، تاقیامت محفوظ رہے گی۔ اس کی آیات میں نہ کوئی تحریف ہے، نہ تحریف بالزیادۃ اور نہ تحریف بالنقص۔بہرحال اگر کوئی کتاب کا منکر ہے تو کفر بواح میں وہ بھی آ جائے گا۔ اسی طریقے سے سرور کائنات کی ذات کی کسی بھی حوالے سے نفی کرتا ہے، اس موضوع میں بھی ذات اللہ کی طرح بہت وسعت پائی جاتی ہے۔ سرور کائنا ت کے فرمان کو نہ ماننا کیا یہ سرور کائنات کی نفی ہے؟ سرور کائنات کہہ رہے ہیں کہ ہم یہ گناہ نہ کریں۔ ہم کر رہے ہیں تو کیا یہ نفی ہے یا نفی نہیں ہے؟ اس کی تعیین بھی آپ جیسے بزرگان کی موجودگی میں ہی ہمارے لیے ممکن ہو سکتی ہے۔

اس کے بعد زیادہ روایات جو کثرت سے اس موضوع کو آگے لے کر گئی ہیں، وہ ہے خداکے حوالے سے ۔ مثلاً دین خدا کا انسان منکر ہے، دین کا خیال نہیں کرتا۔ یہ اصطلاحیں بہت زیادہ استعمال ہوئی یں۔ اس سے موضوع میں اور زیادہ وسعت آ جائے گی، لیکن جب ہم دین تک پہنچیں گے تو معاملہ پھر اگلی وسعت میں چلا جائے گا۔ پہلے ہماری گفتگو ہو رہی تھی عدم اقرار بالشہادتین پر۔ فرض یہ کیا گیا ہے کہ آدمی شہادتین کا اقرار کر رہا ہے، کتاب کا اقرار کر رہا ہے۔ اب موضوع وہ کافر ہے جو دین میں رخنے ڈال رہا ہے، دین میں کمزوریاں ڈال رہا ہے، دین میں آ کر اس طرح کے امور سرانجام دے رہا ہے۔ یہاں پر بھی بنیادی طور پر روایات کہتی ہیں کہ دو طرح کے اشخاص ہیں۔ ایک تو دین کا منکر ہے، وہ تو یقیناًکافر ہے۔ اس کی تو بحث ہی نہیں۔ ایک بے چارہ منکر نہیں، غلط کار ہے۔ اس کی اصلاح ہونے والی ہے۔ وہ گناہ کر بیٹھتا ہے۔ گناہ کرنا بھی تو دین کا انکار ہے۔ گناہ کرنے والے کو منکر دین نہیں کہا جاتا۔ نماز نہ پڑھنے والا منکر دین نہیں۔ ہاں ضروریات دین کا انکار کرنا اور چیز ہے، ان کو انجام نہ دینا اور چیز ہے۔ وہ منکر نہیں ہے، کوتاہی وسستی کرتا ہے، انجام نہیں دیتا تو کیا دونوں کو ایک کٹہرے میں لائیں گے؟ ایک لائن میں کھڑا کریں گے یا نہیں؟ بنیادی طور پر یہ ہے کہ گناہ کرنا کفر نہیں ہے۔ اگرچہ بعض اصطلاحیں ایسی ہیں کہ لفظ کفر استعمال ہوا ہے لیکن وہ کفر اس اصطلاحی مفہوم میں نہیں ہے کہ وہ اقرار بالشہادتین نہیں کر رہا۔ ہاں حلالِ محمد کو حرام قرار دیتا اور حرامِ محمد کو حلال قرار دینا، یہ واضح کفر ہے اور اس کا کسی نے بھی انکار نہیں کیا۔ علماء کرام اس موقع پر بحث کرتے ہیں کہ حلال محمد کو حرام قرار دینے والا گویا محمد کو نہیں مانتا اور رسالت کا اقرار نہ کرنے والا کافر ہے۔ اور حرام محمد کو حلال قرار دینے والا گویا توحید کو نہیں مانتا او ر توحید کے منکر کوہم پہلے کافر کہہ چکے ہیں۔ یہ کفر بواح کے حوالے سے ہے۔ 

تیسرا موضوع ہے عالم گیریت اورجمہوریت اور عصر حاضر میں کفر بواح کا اطلاق۔ یہ موضوع مل جاتا ہے اس سوال کے ساتھ کہ کفر بواح کے لیے اتھارٹی کیا ہے؟ آیا یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں لوگوں کے اندر کفر کی باتیں تلاش کرں یا کسی کا خود کفر کا اظہار کرنا اس بات کی بنیاد بنے گا کہ اس کو کافر کہا جائے؟ یہ اہم ترین سوال ہے کہ کیا یہ میری ذمہ داری ہے کہ جاؤں اور جا کر تلاش کروں کہ پرویزمشرف میں کیا کیا خامیاں ہیں اور ان کو قوم کے سامنے لے آؤں یا یہ کہ پرویز مشرف کہتا ہے کہ میں یہ غلط کام کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔ یہ دو چیزیں بالکل علیحدہ ہیں۔ یہاں اگر ہم نے کفر بواح کا اطلاق تلاش کرنا ہے تو لزوم کفر اور التزام کفر کا فرق ہمیں مد نظر رکھنا ہوگا، کیونکہ لازم تو ہر ہر چیز کا ہوتا ہے اور ہر لازم کا ایک جیسا عمل نہیں ہوتا۔ بعض لزوم ایسے ہیں کہ اس کے سامنے ہمیں نکلنا اور کھڑا ہونا پڑتا ہے اور بعض لزوم ایسے ہیں کہ ان کے سامنے ہمیں کھڑا نہیں ہونا پڑتا۔

آخری سوال کے حوالے سے کہ کافر قرار دینے کے لیے اتھارٹی کون ہے تو میرے بھائی جناب خلیل الرحمن قادری صاحب نے بڑی خوب صورت بات کہی کہ آج جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں، ان میں تو ایک گلی سے اٹھنے والا بچہ کہہ دیتا ہے کہ فلاں کافر، فلاں کافر۔ اس کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔ قاعدے کی روشنی میں تو یہ مسئلہ علما نے حل کرنا ہے، فقہا نے بتانا ہے کہ کس کے پاس اتھارٹی ہونی چاہیے، لیکن عوام اور جہلا کے پاس نہیں ہونی چاہیے، بازاروں میں پھرنے والے بازاری لوگوں کے پاس نہیں ہونی چاہیے۔ جب نہیں ہونی چاہیے تو میرے برادر جناب حسن مدنی صاحب اور قادری صاحب نے بڑی خوب صورت بات کہی کہ جب آپ پر کوئی کفر کا فتویٰ لاگو کرتا ہے تو یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ جب ظلم ہے تو کیا میں اس ظلم کے خلاف اٹھتا ہوں؟یہ تو ایک نعرہ لگتا ہے اور میں بھاگ اٹھتا ہوں کہ فلاں شخص مزار پر جاتا ہے اور فلاں یہ کرا ہے۔ ہمیں بیٹھ کر یہ طے کرنا ہے کہ اگر ہمیں فقہ جعفر کے متعلق اشکال ہو تو فقہ جعفری والے سے پوچھیں۔ فقہ حنفی پر کوئی اشکال ہے تو ان کو وضاحت کا موقع دیں۔ فقہ حنفی کی وضاحت فقہ جعفری والا نہ کرے۔ فقہ جعفر ی کی وضاحت ٰشافعی نہ کرے اور شافعی کی وضاحت مالکی نہ کرے۔ اگر وہ خود وضاحت کریں تو یہ سارا موضوع خود بخود سمٹ جائے گا۔

بہرحال اتھارٹی سمجھ میں نہیں آتی سوائے اس کے کہ آپ فقہا کو کہیں کہ ان کے پاس اتھارٹی ہونی چاہیے، مجتہدین کے پاس ہونی چاہیے۔ قادری صاحب نے پارلیمنٹ کا نام لیا ہے تو پارلیمنٹ وہ ہونی چاہیے جو خلفاے راشدین کے دور میں تھی، معصومین اور سرورکائنات کے دور میں تھی۔ پھر اس کے بارے میں کچھ کہا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں کو لکھنا نہیں آتا، انگوٹھے لگاتے ہیں، سراسر بے دین ہیں، پھر بھی ہم ان کو منتخب کرتے ہیں، وہ یہ بیٹھ کرکیا طے کریں گے کہ فلاں کافر ہے اور فلاں کافر نہیں ہے۔

محمد عمار خان ناصر

مجھے شاید دوبارہ موضوع کے اصل دائرے کی طرف توجہ دلانا پڑے گی۔ غالباً ہمیں عام معاشرتی سطح پر کفر اور تکفیر کے مسئلے کا اتنا سامنا ہے کہ توجہ زیادہ اسی پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ خہاں کفر کا جو خاص دائرہ زیر بحث ہے جس کے حوالے سے ہم چاہ رہے ہیں کہ اس کی تنقیح ہو، وہ ہے کفر بواح جو ریاست یا حکمران سے کفر کے صدور کے لیے بولا گیا ہے۔ 

ڈاکٹر نجفی

بنیادی طور پر میرے ذہن میں یہ مسئلہ تھا کہ خروج کی بحث ابھی ہونی ہے۔ میں نے جتنی بھی گفتگو کی ہے، وہ ایک رئیس وحاکم کے حوالے سے کی ہے، اگرچہ الفاظ میں نے عمومی استعمال کیے ہیں۔ چونکہ خروج پر گفتگو بعد میں کرنی ہے، اس لیے میں نے چاہا کہ اس موضوع کو ابھی نہ چھیڑا جائے۔

عمار خان ناصر

جو سوال اصل میں یہاں زیر بحث ہے اور جس کی تنقیح مطلوب ہے، وہ یہ ہے کہ ہم نے جس جمہوری نظام کو اپنایا ہوا ہے، کیا یہ کفر ہے اور کفر پر مبنی ہے؟ جمہوری نظام میں ظاہر ہے کہ افراد کی اہمیت نہیں ہوتی۔ فرد کو بدلا جا سکتا ہے۔ کم سے کم یہ بات تو یہاں موجود سبھی حضرات مان رہے ہیں کہ یہ کوئی معیاری اسلامی نظام نہیں ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اگرچہ ہم کہہ رہے ہیں کہ اسی نظام کے اندر کام کرنا بہتر ہے، لیکن اس بنیادی مقدمے کو ماننے کے بعد یہ سوال لازماً پیدا ہوتا ہے کہ ایک گروہ یہ کہتا ہے کہ یہ نظام کفر ہے یا کفر پر مبنی ہے یا اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے کوئی معیاری ڈھانچہ ہمیں نہیں دیتا، اس لیے ہم اس کی اطاعت کو شرعاً لازم نہیں سمجھتے اور اس کو بدلنے کے لیے مسلح جدوجہد کرنا چاہتے ہیں۔ تو اس سوال پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ استدلال کیا ہے اور جو حضرات یہاں تشریف لائے ہیں، ان کا اس کے متعلق نقطہ نظر کیا ہے؟

مولانا احمد علی قصوری

میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ آپ کے ایجنڈے کے اندر اتنی شقیں رکھ دی گئی ہیں اور اتنی ان کے اندر وسعت ہے کہ اس محدود سے وقت کے اندر ان کا احاطہ کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ بہرحال میں چند گزارشات آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

ڈاکٹر سید محمد نجفی صاحب کی گفتگو ابھی سنی ہے جو کفر بواح کے حوالے سے تھی۔ شہادتین کے حوالے سے تو انھوں نے درست کہا کہ ان کے منکر کے کافر ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں، لیکن میری طالب علمانہ نگاہ میں اللہ تعالیٰ کا پہلا فتویٰ جو قرآن کریم میں آیا ہے، وہ یہ ہے کہ ومن الناس من یقول آمنا باللہ وبالیوم الآخر وما ہم بمومنین۔ اس کے اندر صرف شہادتین کا ذکر نہیں بلکہ آخرت تک کا ذکر ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اے ٹو زیڈ سب مان لیا، لیکن اللہ تعالیٰ کا فتویٰ یہ ہے کہ وما ھم بمومنین۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شہادتین کی اہمیت اولیت کے اعتبار سے ہے۔ ترتیب ہی یہی بنتی ہے۔ ایمان اور کفر کی بنیاد ہی یہی بنتی ہے کہ سب سے پہلے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اور اس کے بعد ترتیب میں اور امور بھی ہیں۔ لہٰذا ہمیں یہ نکتہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ بنیادی عقائد، اس کے اندر آخرت کا عقیدہ بھی، قدر کا مسئلہ بھی اور دیگر امور بھی آ جائیں گے۔

موجودہ حالات کے تناظر میں جب آپ بات کرتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ چاہے انفرادی زندگی ہے چاہے اجتماعی زندگی ہو، حالات اور موقع محل کو ملحوظ خاطر رکھنا بڑا ضروری ہے۔ ایمرجنسی کے اند ایک مریض آجاتا ہے۔ اس کا خون بہہ رہا ہے یا اس کو ہارٹ اٹیک ہو چکا ہے۔ اسی مریض کو کچھ کان میں بھی درد ہے، دانت میں بھی درد ہے، اس کے جسم پر کچھ پھوڑے پھنسیاں بھی ہیں تو کیا اس وقت جب علاج کے لیے اطبا priorities طے کریں گے تو وہ اس کے پھوڑے پھنسی ، دانت درد اور کان درد کا علاج کریں گے یایہ دیکھا جائے گا کہ اس وقت اس کی ضرورت کیا ہے؟ اس سادہ سے اشارے کے ساتھ میں یہ عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ ہم نے جو موضوع کا انتخاب کیا ہے، اس موضوع کی جزئیات اور تفصیلات کی اپنی جگہ کافی اہمیت ہے، لیکن اس سے پہلے چند امور ایسے ہیں کہ ان پر پہلے گفتگو کی ضرور ہے اور ترجیحات کا جب آپ تعین کریں تو ان کو پہلے لایا جائے۔

ایک تو یہ کہ کفر بواح کے صدور کا فیصلہ کون کرے گا، اتھارٹی کون ہے؟ یہ گفتگو کے اندر ایک اہم نکتہ ہے۔ میں اس میں تجزیے کے بجائے تجویز کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ اس وقت جو معروضی عالمی حالات ہیں، ان میں خاص طور پر ابلیسی، طاغوتی، لادینی استعماری قوتوں کا غلبہ ہے اور ان کا آپس میں اتحاد واتفاق بھی ہے۔ کم از کم امت مسلمہ اور عالم اسلام کے خلاف ان کا اتحاد واتفاق اس حد تک ہے کہ ہم پاکستان کے پڑوس میں چلے جائیں تو ستاون ممالک کی فوجیں یہاں بیٹھی ہوئی ہیں۔ ان کے آئین مختلف ہیں، دساتیر مختلف ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اسلام دشمنی کے اندر ایک ہیں۔ ایسے حالات میں امت مسلمہ کے اس طرح کے جو علمی وفکری اور اعتقادی مسائل ہیں، ان میں اتھارٹی کس کو ہونا چاہیے؟ اس میں تو کوئی شک وشبہ نہیں کہ آج تک کی اسلامی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بھی کسی دور میں کوئی فتنہ پیدا ہوا ہے تو ہمارے اکابر واسلاف نے اس دور کے فتنے کو پہچانا اور موقع ومحل کے مطابق تشخیص، علاج اور پرہیز انھوں نے بتایا اور ان فتنوں کا مقابلہ کیا ۔آج بڑے بڑے فتنوں کے اندر یہ بات خاص طور پر شامل ہے کہ میڈیا ایک سائنسی ذریعہ بن چکا ہے۔ اس دور میں بڑی سرعت پیدا ہو چکی ہے اور میڈیا کے ذریعے باطل پنے نظریات کو اس طریقے سے انجیکٹ کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اہل علم نے حالات کے مطابق تیاری نہیں کی۔ اعدوا لہم ما استطعتم، ادھر ہم تیر کی جگہ سے میزائل پر آ گئے ہیں تو درست، اگر ہم گھوڑے اور اونٹ کی جگہ سے ٹینک پر آ گئے ہیں تو درست، لیکن یہ جو دینی ومذہبی امور تھے، ان میں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ تقاضا یہ بنتا تھا اور ہے جس کی طرف ہم جب بھی آئیں گے تو مسائل حل ہوں گے۔ وہ یہ کہ تمام مکاتب فکر کے مشترکات زیادہ ہیں اور مختلفات کی تعداد بہت کم ہے۔ ہو یہ رہا ہے کہ غیروں کی جو کچھ سازشیں ہیں، وہ تو غیر ہیں۔ انھوں نے divide and rule کے اور تخویف وتحریص کے سارے حربے استعمال کرنے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کے مقابلے پر ہماے اہل علم اپنے تمام مشترکات ایک پلیٹ فارم پر لے آتے۔ اگرکوئی ایسی حکومت موجودہ ہوتی جس کو اسلامی کہا جا سکتا تو میں یہ عرض کرتا کہ وہ حکومت یہ کام کرے۔ اگر بدقسمتی سے کوئی حکومت اس معیار پر پورا نہیں اترتی تو اہل علم یہ کام کریں۔ 

اہل علم سے مراد صرف دینی اور مذہبی علما نہیں ہیں۔ قیادت ان کی ہو، سیادت ان کی ہو، باقی شعبہ ہاے حیا ت کے جو ماہرین ہیں، ان کو بھی معاون کے طور پر ساتھ شامل رکھا جائے اور جب فیصلہ کیا جائے تو غلبہ انھی کا ہو، راہ نمائی انھی کی ہو کیونکہ یہ انھی کا استحقاق اور انھی کا فریضہ ہے۔ وہ lead کریں اور باقی جو شعبہ ہاے حیات ہیں، ان کے ماہرین کو ساتھ رکھ کر مسائل کو حل کیا جائے۔ مفتی محمد خان صاحب فرما رہے تھے کہ کوئی بورڈ بن جائے۔ میں تو کہوں گا کہ وہ صرف پاکستان کا بورڈ نہ ہو بلکہ اس سے آگے کوشش کی جائے کہ مختلف ممالک کے اندر اسی طرح کے کچھ بورڈ تشکیل پائیں اور یہاں اگر ایک مسئلے پر بحث ہو رہی ہے تو آپ اپنی رائے تجویز کے لیے دیگر ممالک کے بورڈوں کے سامنے رکھیں۔ پھر آپ کے پاس خلاصہ آ جائے گا۔ جہاں اتفاق رائے ہو جائے، اس کو بنیاد بنا لیں اور جس جز پر اتفاق رائے نہ ہو سکے، اس جز کو pending کر دیا جائے۔

اس کے ساتھ ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ یہاں جمہوریت کی بات ہوئی۔ آپ کو غور کرنا ہوگا کہ مروجہ جمہوریت کے پورے لٹو کی جو سوئی ہے جس پر وہ چلتا ہے، وہ ہے اکثریت کی رائے کی بنیاد پر فیصلہ، جب کہ اسلام میں یہ نہیں ہے۔ اسلام میں تو اللہ اور اس کے رسول کے احکام ہیں اور مستقل بالذات جو مراجع اطاعت ہیں، وہ اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول ہیں۔ علما بہتر طو رپر جانتے ہیں کہ واولی الامر منکم جب آیا ہے تو وہاں پر اطیعوا کا لفظ نہیں ہے ۔ پہلی دو اطاعتیں unconditional ہیں، غیر مشروط ہیں، ہر قیمت پر اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی اطاعت کی جائے گی۔ وہاں بھلے کسی کی عقل کچھ کہہ رہی ہو، کسی کی خواہش کچھ کہہ رہی ہو۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا وہ بڑا حکیمانہ قول ہے کہ اگر میں نے عقل محض کے ساتھ فیصلہ کرنا ہوتا تو میں عورت کو دوگنا دیتا اور مرد کو وراثت میں آدھا حصہ دیتا۔ تو مروجہ جمہوریت کی بنیاد اکثریت پر ہے اور قرآن کریم میں آپ بہت سے مقامات پر یہ لفظ دیکھیں گے کہ اکثرہم لایعقلون۔ اسلام میں اکثریت کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہوتے۔ اس نکتے پر موجودہ جمہوریت کے ساتھ اسلام کا بنیادی تصادم ہے۔ لہٰذا اللہ اور رسول کے علاوہ جو مشروط اطاعت ہے، اس شرط کا مفہوم ہی یہ ہے کہ جو بنیادی مراجع اطاعت ہیں، ان کی اطاعت اگر کی جائے گی تو پھر تیسرے نمبر پر اولی الامر کی اطاعت ہوگی، ورنہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق۔

عوام الناس کی سطح پر، عام ائمہ وخطبا اور واعظین کی سطح پر کفر کا اطلاق کاکیا جاتا ہے اور کسی ایک طبقے کو، کسی ایک مکتب فکر کو مطلقاً کافر کہہ دیا جاتا ہے۔ ان چیزوں کو روکنا بھی ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ وقت کے دامن میں تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں، اتنی بات ضرور ہے کہ اس میں ’علما‘ کے لفظ کا جو اطلاق ہے، اس کا دائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اعتقادی اور فکری امور ہیں۔ جس طرح فقہی امور کے اندر اختلاف کی مقدار کم ہے، مشترکات زیادہ ہیں ، اسی طرح یہ بھی جائزہ لینا چاہیے کہ جو آپ کا علم الکلام ہے، جو اجتہادی سطح کی صلاحیت رکھنے والے اہل علم موجود ہیں مختلف مکاتب فکر کے۔ پاکستان کی تاریخ کے اندر ایک واقعاتی شہادت موجود ہے کہ جب بھی کچھ ایسے مسائل پیدا ہوئے، علما نے راہ نمائی کی۔ پہلا دستور سازی کا مرحلہ ایا تو علماء کے بائیس نکات پاکستان کی دستوری تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اکابر علما بیٹھے اور انھوں نے آئین اور دستور سے متعلق معاملات طے کیے۔ پھر ختم نبوت کا مسئلہ آیا تو علما علمی سطح پر بیٹھے۔ ان کا باہمی مکالمہ ومذاکرہ ہوا اور مشترکہ ومتفقہ نتائج سامنے آئے۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے کئی ایسا ادارہ معرض وجود میں آنا چاہیے جو ان امور کو بہتر طورپر دیکھے۔

تکفیر کے متعلق میں بس یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن پاک نے کہا ہے کہ ولا تنابزوا بالالقاب۔ ایک دوسرے کو برے القاب سے مت پکارو۔ کفر کا فتویٰ توسب سے آخری اسٹیج ہے۔ اس کی تہہ میں جائے بغیر، اس کے سمجھے بغیر کہ اس کا اطلاق کہاں ہو سکتا ہے اور کہاں نہیں ہو سکتا، یہ تو کفر سازی ہے۔ تبلیغ بنیادی طور پر دو حصوں میں ہے۔ غیر مسلم کو اسلام کی دعوت دینا اور مسلمان کہلانے والوں کو اسلام پر برقرار رکھنا۔ یہ جو تکفیر کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے، اس کا ان دونوں کے ساتھ ہی کوئی تعلق نہیں بنتا ۔جب ہم کفر کا فتویٰ دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان کہلانے والے تھے، ان کو ہم اسلام سے خارج کر رہے ہیں۔ ایک حدیث مبارکہ پیش کر کے میں اپنی گفتگو کو سمیٹتا ہوں۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من رمی مومنا بکفر فہو کقتلہ۔ جس نے کسی مومن کے اوپر کفر کا الزام لگایا، گویا اس نے اسے قتل کر دیا۔ اسی طرح بخاری شریف میں ہے کہ من دعا رجلا بالکفر او قال عدو اللہ ولیس کذالک الا عاد علیہ۔ اگر کسی نے کسی شخص کو کہا کہ وہ کافر ہے یا اسے کہا کہ یہ اللہ کا دشمن ہے حالا نکہ وہ ایسا نہیں تھا تو وہ الزام اسی پر پلٹ کر آ جائے گا۔ یہ بڑا نازک معاملہ ہے۔ کسی کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دینا ایسے ہی ہے جیسے ہم قصابوں کو دل کے آپریشن کے لیے انسانوں کے ہسپتالوں میں متعین کر دیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم تو دل کے ایکسپرٹ ہیں۔ انسانی جسم بھی ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ جانوروں کا۔ ہم تو ایک ایک بوٹی کو جانتے ہیں۔ تو ایسے دعوے داروں کاراستہ روکنا ہوگا اور امت مسلمہ کو اس معاملے میں اجتہاد کی ضرورت ہے۔

علامہ خلیل الرحمن قادری

تکفیر کے متعلق ایک جز ہماری اس بحث میں نہیں آیا۔ اس کو بھی کسی وقت شامل کرنا چاہیے کہ اسلام نے کہا ہے کہ جو قطعی کافر ہے، وہ ہم کسی کے مرنے کے بعد ہی اس کو کہہ سکتے ہیں۔ ورنہ ایک شخص مسلمان ہے۔ اس کے بارے میں ہمیں شک پڑا کہ ہ کافر ہے۔ اب وہ فوت ہو جاتا ہے تو اس کو ہم قطعی کافر نہیں کہہ سکتے۔ کیا پتہ وہ ایمان پر فوت ہوا ہو۔ یعنی اگر کسی مسلمان کے بارے میں ہم نے فتویٰ دیا ہے تو کیا وہ مرنے کے بعد بھی قائم رہے گا؟ اس سوال کو بھی کسی وقت ہمیں ڈسکس کرنا چاہیے۔

محمد عمار خان ناصر

میں اس سیشن کے آخری مقرر مولانا زاہد الراشدی صاحب کو دعوت دینے سے پہلے یہ چاہوں گا کہ مفتی منصور احمد صاحب اور علامہ خلیل الرحمن قادری صاحب کی گفتگو میں جو کچھ پہلو تشنہ رہ گئے تھے، وہ اگر ان پر اظہار خیال کرنا چاہیں تو کر لیں۔

علامہ خلیل الرحمن قادری

محترم عمار صاحب نے متوجہ کیا کہ تکفیر کے حوالے سے آج کی گفتگو کا اصل تناظر ریاستی نظام کا کفر ہونا یا نہ ہونا ہے۔ اصل میں جو سوالات ہمارے سامنے رکھے گئے، ان سے کچھ اشتباہ پیدا ہوا، اس لیے میں نے جو گفتگو کی، وہ شخصی اور گروہی تکفیر کے حوالے سے تھی۔ حال امن وامان کے تناظر میں اس بحث کی بھی relevance بنتی ہے، اس لیے کہ جتنا تشدد اور باہمی جنگ وجدال اس بے احتیاطی کی وجہ سے معاشرے میں نظر آتا ہے تو وہ بھی ایک امن کی بحث ہے۔ بہرحال میں اصل سوال پر مختصر طور پر اپنی گزارشات پیش کرتا ہوں۔

حکمرانوں کے حوالے سے دو صورتیں ہیں۔ پہلی صورت تو یہ ہے کہ کسی حکمران سے ذاتی طور پر کفر کا صدور ہو۔ دوسری صورت نظام کے حوالے سے ہے یعنی جس نظام کے تحت فیصلے کیے جا رہے ہیں اور معاملات چلا ئے جا رہے ہیں، وہ نظام کیا ہے؟ اس کے بارے میں قرآن حکیم کی تصریحات موجود ہیں اور ظالم اورفاسق اور کافر کے الفاظ اس حوالے سے کہے گئے ہیں کہ جو بما انزل اللہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتے۔ فقہا کے مابین اگر اختلاف ہے تو وہ خروج کی صورت میں ہے۔ کفر بواح کے بارے میں تو سارے متفق ہیں کہ خروج ہوگا، لیکن امام ابوحنیفہ کا موقف یہ ہے اور دلائل کی بنیاد پر انھوں نے یہ بات واضح فرمائی ہے کہ فاسق وفاجر اور ظالم امام کے خلاف بھی خروج کیا جا سکتا ہے اور عملاً آپ نے اپنے دور میں ایسے خروجوں کی تائید بھی کی۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد کے فقہاے احناف جمہور کے ساتھ موافق ہو گئے اور اس کی بنیاد یہ نہیں کہ دلائل شرعی میں کوئی کمزوری واقع ہو گئی تھی۔ دلائل شرعی موجود تھے، مصالح کے پیش نظر ایسا کیا گیا۔ ان مصلحتوں میں یہ معاملہ تھا کہ ایک طرف حکمران ہیں،ان کی فوجیں ہیں، ان کا سرمایہ اور ذرائع ہیں۔ دوسری طرف چند لوگ جو خروج کے لیے نکلے ہیں توخروج کے ان واقعات میں مال وانفس کا جو اتلاف ہوا، اس کے بعد جمہور کے ساتھ موافقت والی بات آئی کہ خروج سے ہاتھ روکا جائے۔ لیکن میں یہ بات پھر دہرا دیتا ہوں کہ کفر بواح کی صورت میں نہیں، صرف ظلم اور فسق کی صورت میں ہاتھ روکا جائے۔ ظلم کو برداشت کیا جائے، فسق کو برداشت کیا جائے یا جو دیگرمعاملات ہیں، نرم صورتیں ہیں، ان میں مسلح خروج سے گریز کیا جائے۔ آپ وعظ وتلقین کی بات کرتے ہیں، نصیحت کی بات کرتے ہیں، پرامن احتجاج کی بات بھی کرتے ہیں تو یہ ساری چیزیں ان کا دائرہ خروج سے ہٹ کر ہے۔ 

اس ضمن میں آج کے حالات میں دو چیزیں خاص طور پر قابل غور ہیں۔ پہلی چیز یہ ہے کہ آج کے حالات عدم خروج کے حوالے سے اور زیادہ شدید ہیں۔ اس وقت جو فوجیں ہیں، وہ زیادہ مسلح اور زیادہ منظم ہیں اور ان کے پاس زیادہ قوت اور زیادہ جدید اور بہتر اسلحہ ہے، جبکہ عوام جو خروج کے لیے نکلیں گے تو وہ اس سے محروم ہیں، لہٰذا جان ومال کا اتلاف جس کو دیکھتے ہوئے فقہاے احناف اس کی طرف گئے، وہ یہاں بدرجہ اتم موجود ہے، لہٰذا ہمارے لیے زیادہ ضروری ہے کہ ہم خروج کا راستہ اختیار کرنے سے بچیں۔ دوسری بات جو اس حوالے سے بڑی ضروری ہے، وہ یہ کہ جمہوری ریاست کا قیام، اس کے ارکان پارلیمنٹ، صدر اور وزیر اعظم کا انتخاب جس نظام کے تحت ہوتا ہے، اس نظام کو تو آپ سب قبول کیے بیٹھے ہیں۔ جب آپ اسی نظام کو قبول کر کے اپنے نمائندے منتخب کر کے اندر بھیج دیتے ہیں تو اس کے بعد آپ کیسے نظام کی بنیاد پر خروج کو سوچ سکتے ہیں۔ یہ تو بڑی عجیب بات لگتی ہے۔ میرے خیال میں اصل صورت حال یہ ہے کہ ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمیں حکمرانوں سے ہٹ کر نظام کے خلاف بات کرنی ہے کہ یہ نظام ہم نہیں چلنے دیں گے اور اس نظام کو ہم بدلیں گے، ورنہ افراد تو بدلتے رہیں گے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ایک تو یہ چیز ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے۔

دوسری یہ کہ جو متبادل صورتیں ہیں، متبادل صورتوں میں یہ ہے کہ دستور موجود ہے، آپ عدم اعتماد لے آئیں۔ اس حوالے سے میرا تحفظ یہ ہے کہ جو لوگ کسی شخص کو مامور کرتے ہیں، ان کو اسے معزول کرنے کا اختیار بھی ہونا چاہیے۔ یہ ہمارا اسلامی فلسفہ ہے۔ اب بات نمائندگان پر آ جاتی ہے۔ آپ سیاسی جماعتوں کے ارکان اسمبلی سے ان کی پارٹی کے کسی منتخب حکمران کی معزولی کی بات کریں گے تو وہ تو کبھی اس طرف نہیں آئیں گے۔ تو معزولی کی کوئی ایسی صورت جو جمہوری بھی ہو، پر امن بھی ہو ، اس کے لیے ریفرنڈم کی طرز کی کوئی شکل سوچنی پڑے گی تاکہ براہ راست عوام اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔ یہ کیا ہوا کہ عوام نے ایم این اے منتخب کر کے بھیج دیے اور ایم این اے سارے وزیر اعظم کی جیب میں ہیں۔ وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ عدم اعتماد آئے۔ تو معزولی کی کوئی صورت اگر بنانی ہے تو ریفرنڈم کی بنائیں۔

مفتی منصور احمد

میزبان صاحب کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ اگرچہ خروج کا مسئلہ رد عمل کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے، لیکن اس کے حق میں جو استدلال پیش کیا جا رہا ہے، وہ یہاں رکتا نہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو اسلامی ریاست کی جگہ مسلم ریاست اور جمہوری ریاست، یہ کوئی معیاری اسلامی نظام نہیں ہے۔ اس حوالے سے دو رائیں نہیں ہیں۔ ایک طبقہ جمہوریت پر مبنی ہمارے نظام حکومت کو کفر پر مبنی نظام کہتا ہے۔ سیدھی بات ہے کہ جمہوری نظام اور ڈیموکریسی اسلام کے متوازی ایک نظام ہے۔ آج جو نظام قائم ہے، اس کو ہم اگر اسلامی جمہوری بھی کہہ لیں تو اس سے یہ اسلامی نہیں ہو جاتا۔ یہاں تو اکثریت کا فیصلہ ہے۔ آج یہ اسلامی جمہوریہ ہے، کل وہ اکثریت کی رائے سے مسیحی جمہوریہ رکھ سکتے ہیں۔ بات تو اکثریت کی ہے۔ تو اسلامی نظام اور جمہوری نظام کا جو عمود ہے، وہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ اسلامی نظام قرآن وسنت کی حاکمیت کو خلق خدا پر نافذکرنا چاہتا ہے، جبکہ جمہوریت اس سے الگ سوچ اور فکر لے کر آئی ہے۔ پاکستان کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں تو میں معذرت کے ساتھ یہ بات عرض کرنا چاہوں گا کہ کوئی بھی اس کو اسلامی جمہوری نظام نہیں کہہ سکتا۔ اس کے ساتھ اسلامی کی قید لگانے سے یہ اسلامی نہیں ہو جاتا۔ آپ دیکھیں کہ یہاں جب سود کی حرمت کا فیصلہ آتا ہے تو اس کے مقابلے میں حکومت عدالت میں اپیل دائر کر دیتی ہے۔ یہاں پارلیمنٹ تحفظ حقوق نسواں کے نام پر غیر شرعی قوانین منظور کرتی ہے۔ حکمران اسلامی حدود اور اسلامی شعائر کا مذاق اڑاتے ہیں۔ تحفظ ناموس رسالت کا مسئلہ زیر بحث آتا ہے تو یہاں کا حکمران طبقہ اس کو ’’کالا قانون‘‘ کہتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس نظام کو اسلامی کہنا کہاں تک درست ہے!

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگرہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک نظام زندگی ہے جس میں رہنے پر ہم مجبور کر دیے گئے ہیں یا مجبوراً رہ رہے ہیں اور ہمارے پا س کوئی اور طریقہ نہیں تو آیا اس سے اقامت دین کا وہ حکم جسے قرآن نے سنت اللہ کہا اور سنت انبیا کہا اور جس کو فقہا نے اہم الفرائض بعد الایمان کہا۔ امام جصاص نے اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے واضح طوپر کہا کہ اہم الفرائض بعد الایمان اقامۃ الدین۔ تو اقامت دین کا وہ حکم جو ہر مسلمان کی طرف متوجہ ہے، آیا اس نظام پر راضی رہنے سے وہ حکم متاثر تو نہیں ہوتا؟ اسی کو ایک طبقہ طاغوت کی اصطلاح میں بیان کرتا ہے کہ یہ کفر کا نظام ہے، یہ طاغوت ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ الم تر الی الذین ..... ضلالا بعیدا۔ اسی طاغوت کے بارے میں اگلی آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ واذا قیل لہم تعالوا الی ما انزل اللہ والی الرسول قالوا حسبنا ما وجدنا علیہ آباءنا۔ تو آج کی جمہوریت بھی تویہی کہہ رہی ہے۔ پھر تکفیر کے سوال کے تناظر میں اس کو بھی دیکھا جائے کہ من یتولہم منکم فانہ منہم۔ آپ کے سامنے یہ کتابیں آئی ہیں کہ التبیان فی کفر امریکا عنان؟ ہماری حکومت، ہماری پارلیمنٹ ہمارا سارا بنیادی ڈھانچہ اور اسٹرکچر مسلمانوں کے خلاف عالمی استعمار کا ساتھی بنا ہوا ہے تو ہم ان کو کیسے مسلمان کی حیثیت سے دیکھیں؟ یہ الگ بات ہے کہ ہم اس نظام میں رہنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں، لیکن ہم اس کو کس حیثیت سے دیکھیں، یہ بہت واضح بات ہے۔

مولانا زاہد الراشدی

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔

سب سے پہلے تو میں پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کا شکر گزار ہوں کہ اس علمی وفکری محفل میں حاضری کا اور کچھ کہنے سننے کا موقع فراہم کیا۔ جو مسائل زیر بحث ہیں، ان میں اس وقت آج کے عالمی تناظر میں تکفیر پر بات ہو رہی ہے۔ خروج کی بحث دوسرے سیشن میں ہوگی، لیکن ہو سکتا ہے کہ اس وقت تک میں نہ رک سکوں، اس لیے میں اسی سیشن میں اس موضوع پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم جو بحث کر رہے ہیں، کیا وہ زیرو پوائنٹ سے کر رہے ہیں یا اس سے پہلے ہمارے اکابر نے جو بحثیں کی ہیں، وہ ہمارے سامنے ہیں؟ آزادی کے بعد ، پاکستان کے بننے کے بعد ساٹھ سال سے بحثیں ہو رہی ہیں، انھی سوالات پر بحثیں ہوئی ہیں۔ نتائج سامنے آئے ہیں، بات آگے بڑھی ہے۔ میرا پہلا سوال اور نکتہ یہ ہے کہ اس سے پہلے ساٹھ سال میں انھی مسائل پر ہمارے اکابر کے ہاں جو گفتگو ہو چکی ہے اور بعض مسائل میں ہم ایک نتیجے پر پہنچ چکے ہیں، کیا ہم اس کو نظر انداز کرکے زیرو پوائنٹ سے دوبارہ گفتگو کا آغاز کر رہے ہیں یا اس کو سامنے رکھ کر اس کی روشنی میں گفتگو کر رہے ہیں۔ اگر تو ہم اس سارے عمل کو ایک طرف رکھ کر زیرو پوائنٹ سے نئی بحث کا آغاز کر رہے ہیں تو ہماری ساری گفتگو ٹھیک ہے، لیکن اگر وہ ہمارے ماضی کا حصہ ہے اور ہماری بنیاد بنتا ہے تو ہمیں اس کو سامنے رکھ کر بات کرنی چاہیے۔

مثلاً تکفیر پر ہمارے ہاں ایک لمبی بحث چلی ہے اور وہ ایک نتیجے پر پہنچی ہے۔ جب ۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں قادیانیوں کے خلاف تحریکی چلی اور انکوائری کمیشن بنا تو اگر میرے دوستوں کی نظر سے جسٹس منیر انکوائری رپورٹ گزری ہو تو اس بحث کا آغاز وہاں سے ہوا تھا کہ قادیانیوں کو کافر کہنے سے پہلے اپنے بارے میں فیصلہ کریں کہ آپ میں سے کون مسلمان ہے اور کون کافر؟ اس بحث کا آغاز ہوا اور یہ بحث بڑھتے بڑھتے ایک نتیجے تک پہنچی۔ پھر جب ۱۹۷۳ء کا دستور تشکیل پا رہا تھا تو دستور ساز اسمبلی میں یہ سوال کھڑا ہو گیا اور تحدی کے طورپر کھڑا ہو گیا۔ اس وقت کے وزیر اطلاعات مولانا کوثرنیازی مرحوم نے اسمبلی کے فلور پر، جہاں مولانا نورانی اور مولانا مفتی محمود بھی بیٹھے تھے، کھڑے ہو کر کہا کہ اگر آپ لوگ مسلمان کی دستوری تعریف پر متفق ہو جائیں تو ہم آپ کے مطالبات مان لیں گے۔ آپ مسلمان کی ایسی تعریف کر دیں کہ دونوں طرف کے فتووں کے باوجود آپ دونوں مسلمان سمجھے جائیں۔ یہ سوال اسمبلی کے فلور پر چیلنج کے انداز میں مولانا کوثر نیازی نے کیا تھا۔ اس وقت اس پربڑی بحث ہوئی تھی۔ دو بڑے بزرگ، شیخ الحدیث مولانا عبد الحق آف اکوڑہ خٹک اور جامعہ امجدیہ کے شیخ الحدیث مولانا عبد المصطفیٰ ازہری، رات کو اکٹھے ہوئے اور بیٹھ کر مسلمان کی متفقہ تعریف متعین کی کہ مسلمان وہ ہے جو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور جو دین آپ لے کر آئے، اس پر ایمان رکھتا ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ’تبعا لما جئت بہ‘ کو ایک دستوری رنگ دے کر ان حضرات نے مسلمان کی تعریف بیان کی۔

میں یہ تفصیلات اس لیے پیش کر رہا ہوں کہ ہمیں اپنے ماضی کے مباحث کو سامنے رکھنا چاہیے۔ ہم جب کسی مسئلے پر گفتگو کا آغاز کرتے ہیں تو زیرو پوائنٹ سے کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے ماضی اوراپنے اکابر کے مباحث کو سامنے رکھنا چاہیے کہ ہم کچھ مسائل میں نتیجے پر پہنچ چکے ہیں اور نتیجے پر پہنچنے کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔ اب اس کو ری اوپن کر کے پینڈورا باکس کھولنا میرے خیال میں ٹھیک نہیں ہے۔ ہمیں اس بحث کو سامنے رکھ کر اس کے تناظر میں بات کرنی چاہیے۔

اس حوالے سے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جمہوریت اور اسلام کی بات کیا ہے؟ جمہوریت دو چیزوں پرمشتمل ہے۔ ایک تو یہ کہ فیصلوں کی اتھارٹی کون ہے؟ مغربی سیکولر فلسفے کے نزدیک اتھارٹی سوسائٹی ہے۔ سوسائٹی یا اس کے نمائندے جو کچھ کہتے ہیں، وہی حق وباطل کا معیار ہے، وہی حلال وحرام کا معیار ہے۔ اسلام ایک لمحے کے لیے بھی اس کو سوچنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ لیکن جمہوریت کا ایک اور پہلو ہے کہ حق حکمرانی کس کو ہے؟ ایک حاکم ، حاکم بنتا ہے تو وہ کس بنیاد پر بنتا ہے؟ حکومت کی تشکیل کس بنیاد پر ہوگی؟ حق حکمرانی کس بنیاد پر ملے گا؟ طاقت اور قوت کے بل بوتے پر یا کسی اور بنیاد پر؟ اگر ہم اپنے آغاز کو لیں تو میں سمجھتا ہوں کہ جناب صدیق اکبر کا انتخاب طاقت کی بنیاد پر نہیں ہوا، بلکہ ان کا انتخاب عوامی رائے کی بنیاد پراور عوامی بحث ومباحثہ کے بعد ہوا ہے۔ انھوں نے کھڑے ہو کر پہلا جو اعلان کیا، وہ یہ ہے کہ میں قرآن وسنت کے تابع ہوں۔ اس کے مطابق چلوں تو میرا ساتھ دو۔ اگر اس کے مطابق نہ چلوں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں ہے۔ میں یہ عرض کرتا ہوں کہ سوسائٹی کا یا سوسائٹی کے نمائندوں کا حرف آخر ہونا، اس کی تو اسلام مکمل نفی کرتا ہے، لیکن دوسرا سوال یہ ہے کہ حق حکمرانی عوام کی رائے سے ہوگا یا طاقت کے بل بوتے پر؟ اسلام ان میں سے کس بات کو قبول کرتا ہے؟ ہماری تاریخ کیا ہے؟ خلافت کا آغاز کیا کہتا ہے؟ ان دونوں باتوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا میرے خیال میں مناسب نہیں ہے۔ ہمارے ہاں قرارداد مقاصد اسی بنیاد پر طے ہوئی تھی کہ حکومت کا حق تو عوام کے منتخب نمائندوں کو ہوگا، لیکن وہ حکومت میں پابند ہوں گے اللہ اور اس کے رسول کی مرضی کے۔ یہ ایک اصول ہم طے کر چکے ہیں، اس کا اعلان کر چکے ہیں، اس پر ہمارا دستور بنا ہے، اس پر ہم اب تک چلے آ رہے ہیں۔ اب اگر اس کو ری اوپن کرنا ہے تو پھر ہمیں جمہوریت کی بحث دوبارہ چھیڑنی چاہیے او ر اگرہم اس کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر ہمیں اس دائرے میں آگے بڑھنا ہوگا۔

تیسری بات میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہاں یہ بات ہوئی کہ ہم مذہب سے اپنے حق میں دلیلیں کشید کرتے ہیں۔ میرے نزدیک اصل مسئلہ یہ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ ہمارے سماجی رویے ہیں جو قانون میں بھی وہی ہیں، سیاست اور مذہب میں بھی وہی ہیں۔ میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ ہمیں اصل میں اپنے سماجی رویوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ مثلاً سیاست میں ہمارا سماجی رویہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اپنے مخالف کے لیے غدار اور وطن دشمن سے کم کوئی فتویٰ نہیں ہے۔ وہی وطن دشمن کل میرے پیروں میں بیٹھا ہوتا ہے اور پرسوں میں اس کے پیروں میں بیٹھا ہوتا ہوں۔ یہ ہمارا عمومی رویہ ہے۔ وطن دشمن، غدار، ایجنٹ، سیاست میں اس سے کم کوئی فتویٰ ہمارے پاس اپنے مخالفین کے لیے نہیں ہے۔ قانون میں چلے جائیں، وہاں بھی ہمارا رویہ یہی ہے۔ ہمارے ہاں کسی قانون کا اطلاق کسی شخص پر اس لیے نہیں ہوتا کہ یہ قانون کا تقاضا ہے، بلکہ اس لیے ہوتا ہے کہ میں اس قانون کا اطلاق اس پر کرنا چاہتا ہوں۔ میں ایف آئی آر درج کرواتے ہوئے دنیا کی ہر اس دفعہ کا اندراج کرواتا ہوں جس کے تحت میں مخالف کو سخت ترین سزا دلوا سکوں۔ میں ایک لطیفے کی بات عرض کرتا ہوں۔ آج سے دس بارہ سال پہلے مجھے کسی کیس میں ایک ایف آئی آ ر درج کروانے کی ضرورت پیش آئی تو میں شہر کے ایک معروف اور ذمہ دار وکیل کے پاس گیا جو بار کے صدر رہ چکے ہیں۔ ان سے میں نے کہاکہ میں یہ کیس درج کروانا چاہتا ہوں۔ انھوں نے ایف آئی آر لکھوائی کہ اس میں یہ لکھو، یہ لکھو، یہ لکھو۔ جب لکھوائی تو میں نے کہا کہ میرے بھائی، اس میں کم از کم پچاس فی صد تو سچ ہو۔ آپ مجھ سے جو ایف آئی آر درج کروانا چاہتے ہیں کہ میرے ساتھ یہ ہوا، فلاں کے ساتھ یہ ہوا، میں نے فلاں کو یوں دیکھا، فلاں نے یہ کیا، خدا کے بندے ! پچاس فی صد تو سچ ہو ۔ آپ مجھ سے سو فی صد جھوٹ ایف آئی آر کے اندر درج کروانا چاہتے ہیں۔ وکیل صاحب نے کہا کہ مولوی صاحب، اس کے بغیر مقدمہ نہیں لڑا جائے گا۔ میں نے کہاکہ میں لڑتا ہی نہیں۔

یہ اصل میں ہمارے سماجی رویے ہیں۔ قانون کی بات ہو، وہاں بھی ہمارے پاس ہائی پوٹینسی دوا ہوتی ہے۔ سیاست میں بھی ہا ئی پوٹینسی کے سوا کوئی دوائی نہیں اور مذہب میں بھی ہمارا رویہ یہی ہے۔ اگرہم نے کسی کو ٹارگٹ کرنا ہے تو ہلکی پھلکی بات سے تو وہ ہوگا نہیں، کافر کافر کی بات سے ہی قابو میں آئے گا، ورنہ قابو میں نہیں آئے گا۔ اس میں مذہب ہمارا معاون بنتا ہے یا ہم اسے بنا لیے ہیں، یہ ہمارے سماجی رویے ہیں جن کو تبدیل کرنے کے لیے کچھ محنت کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان سماجی رویوں کو بھی اپنے ان مباحث میں شامل کرنا چاہیے۔

ایک بات اور عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ جو کفر اور اسلام کی بحث ہے، اس پر مجھے ایک بہت پرانی بات یاد آگئی۔ ۱۹۳۰ ء میں جب انگریزوں کا زمانہ تھا، قادیانیوں کے خلاف بہاولپور میں پہلا کیس چلا۔ بہاولپور کے سیشن جج نے قادیانیوں کے خلاف کفر کا عدالتی فیصلہ دیا۔ اس وقت علامہ انور شاہ کشمیری دیوبند سے گئے تھے اور مولانا غلام محمد گھوٹوی بریلوی مکتب فکر کی طرف سے پیش ہوئے تھے۔ وہاں جرح کے دوران قادیانی وکیل نے سوال کیا کہ مولانا، آپ دونوں یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپ ان کو کافرکہتے ہیں، یہ آپ کوکافر کہتے ہیں۔ آپ بتائیے کہ ہم آپ کو کیا کہیں؟ عدالتی جرح میں مولانا انور شاہ کشمیری سے سوال ہوا کہ یہ بریلوی تو آپ کو کافر کہتے ہیں، آپ اسلام کی وکالت کے لیے کیسے آ گئے؟ مولانا انور شاہ کشمیری نے دو باتیں بڑی عجیب کہیں۔ ایک یہ کہ میں دیوبندی جماعت کے وکیل کے طور پر پورے دیوبندیوں کی طرف سے عدالت میں اعلان کرتا ہوں کہ ہم بریلوی علما کی تکفیر نہیں کرتے۔ دوسری بات انھوں نے یہ کی کہ ایک فرق ہے۔ قادیانیوں کے ساتھ ہمارا اختلاف نفس قانون پر ہے اور بریلوی حضرات کے ساتھ ہمارا اختلاف واقعہ پر ہے۔ اس کی تعبیر میں یوں کرتا ہوں کہ قادیانیوں کے ساتھ ہمارا اختلاف اصول پر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نبی آئے گا، ہم کہتے ہیں کہ نہیں آئے گا۔ بریلویوں او ر دیوبندیوں کا جھگڑا تطبیق پر ہے۔ گستاخی رسول کو دونوں کفر کہتے ہیں۔ جھگڑا یہ ہے کہ فلاں عبارت پر اس کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں۔ شرک کو دونوں کفر کہتے ہیں۔ جھگڑا یہ ہے کہ فلاں بات پر شرک کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں۔ تو شاہ صاحب نے کہا کہ قادیانیوں کے ساتھ ہمارا جھگڑا قانون اور ضابطے پر ہے اور بریلویوں اور دیوبندیوں کا جھگڑا قانون کی تطبیق پر ہے۔ اصول پر ہم دونوں متفق ہیں۔ تو ہمارے ہاں یہ بحث ہو چکی ہے۔ ماضی کے اس سارے تناظر کو سامنے رکھ کر ہمیں بات کرنی چاہیے۔ 

ڈاکٹر سید محمد نجفی نے ایک بات فرمائی ہے کہ حضور کے زمانے میں اور خلفائے راشدین کے دور میں بھی کسی کی تکفیر نہیں کی گئی۔ میرے خیال میں تکفیر ہوئی ہے۔ حضرت صدیق اکبر کے دور میں مرتدین سے جو جنگیں ہوئی ہیں، ساری تکفیر کی بنیاد پر ہوئی ہیں۔ مانعین زکوٰۃ اگرچہ شہادتین کا اقرار کرتے تھے، اس کے باوجود ان کی تکفیر ہوئی۔ مسیلمہ کذاب پہلے کلمہ پڑھاتا ہی یہ تھا کہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ مسیلمۃ رسول اللہ۔ شہادتین کا وہ اقرار کرتا تھا۔ نہ صرف یہ کہ واقعاتی طو رپر تکفیر ہوئی ہے بلکہ اس بنا پر جنگیں ہوئی ہیں۔

اب میں آخری بات عرض کرنا چاہوں گا۔ اگرہم اپنے اکابر کے اجتماعی رویوں اور ان کے طے کردہ اصولوں کو سامنے رکھ کر چلیں تو ہمارے لیے آج کے تناظر میں بھی کسی نتیجے پر پہنچنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ ہم ان فیصلوں کا احترام کرتے ہوئے ان کو آگے بڑھائیں اور ایک متفقہ فارمولے پر لوگوں کو لانے کی کوشش کریں۔ اس بات کی ضرورت ہے، لیکن اپنے بزرگوں اور اپنے اکابر کے فیصلوں اور ان کے اجتماعی رویوں کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہیے اور اس پرکوئی فارمولا ایسا پیش کرنا چاہیے جس پر ہم تمام مکاتب فکر کی طرف سے اتفاق کا اظہار کر سکیں۔ میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ اسلام اور جمہوریت کے تناظر میں ہمارے بزرگوں نے جو فیصلہ ۱۹۵۱ء میں علماء کے بائیس دستوری نکات کی صورت میں اور قرارداد مقاصد کی صورت میں کیا گیا، ہمیں اس سے انحراف نہیں کرنا چاہیے اور انحراف کے راستے بھی تلاش نہیں کرنے چاہییں۔ ہمارے لیے سلامتی کا راستہ کل بھی وہی تھا، آج بھی وہی ہے اور آئندہ بھی وہی ہوگا۔ ان شاء اللہ

مولانا احمد علی قصوری

ایک نکتے کی طرف میں چاہوں گاکہ آپ حضرات توجہ کریں۔ میں یہ بات پہلے بھی ایک دو مواقع پر مشترکہ اجتماعات میں عرض کر چکا ہوں لیکن اس کوپذیرائی نہیں ملی۔ میں اس کو غیر معمولی طور پر اہم سمجھتا ہوں ، اس لیے آپ حضرات کے غور وفکر کے لیے دہرانا چاہتا ہوں۔ ۱۹۵۶ء کے دستور میں، ۱۹۷۳ء کے دستور میں حتیٰ کہ قرارداد مقاصد کے اندر بھی حق حکومت کے اہم ترین نکتے کوبیان کرتے ہوئے جو الفاظ موجود ہیں، ان کے اندر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ عقیدہ جو بنتا ہے، اس کی حیثیت بیج کی سی ہے۔ بیج کے اندر اگر کوئی خرابی ہوگی، کیڑا لگا ہوا ہوگا تو آگے فصل بھی خراب آئے گا۔ اس میں خرابی یہ ہے کہ آئین، دستور اور قرارداد مقاصد کی عبارت یہ کہہ رہی ہے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے اور اس کے بعد ڈائریکٹ عوام پر آ جاتے ہیں۔ درمیان میں جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا، آپ کے منصب رسالت کا اور تشریع اور آئینی حاکمیت کے حوالے سے جو آپ کا منصب ہے، اس کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ محض خوش اعتقادی کی بات نہیں، بلکہ آئینی اور دستوری تقاضا بنتا ہے کہ اطیعوا اللہ کے ساتھ اطیعوا الرسول کا بھی ذکر ہو۔ آگے جا کر اہل تشیع اور اہل تسنن کے اندر دو نظریے پائے جاتے ہیں۔ ادھر خلافت کا اور ادھر وصیت کا۔ لیکن ایک نکتے پر دونوں کا اتفاق ہے کہ اہل سنت کے ہاں خلیفہ کا جب انتخاب کیا جائے گا تو وہ بھی نیابت کرے گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اہل تشیع کے ہاں وصیت ہوگی تو وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہوگی۔ تو دونوں مکاتب فکر کا اس بنیادی نکتے پر اتفاق ہے۔ لیکن ہماری دستوری دستاویزات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حاکمیت کا ذکر ہی نہیں۔ مجھے آج تک ایک طالب علم کی حیثیت سے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ہمارے علما اور اکابر کی اس طرف توجہ کیوں نہیں گئی۔ اگر میں غلط سمجھ رہا ہوں تو میر ی اصلاح کی جائے اور اگر یہ بات درست ہے تو دستور کے اندر اس خرابی کو دور کرنے کے لیے کاوش اور کوشش کی جائے۔ یہ ہم سب کا مشترکہ فریضہ بنتا ہے۔

مولانا زاہد الراشدی

میں آپ کی تائید کرتے ہوئے یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ فقہا نے جو خلافت کی تعریف کی ہے، وہ بھی یہی ہے کہ امور اجتماعی کو انجام دینا نیابۃً عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔

ڈاکٹر حسن مدنی

میں اس فورم کا بہت شکر گزار ہوں کہ اس نے ہم جیسے نوجوانوں اور طالب علموں کو ان شخصیات کے سامنے بیٹھنے کا موقع دیا جن کے سامنے بات کرتے ہوئے ہماری نگاہیں جھک جاتی ہیں۔ ان کا احترام اور ان کی دینی خدمات بہت عظیم ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کی توفیق دے، لیکن بہرحال جو اپنا نقطہ نظر ہے اور جو ایک مستقل فکر ہے، مکالمے کا تقاضا ہی یہ ہے کہ اس کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

اس وقت تکفیر کی جو ساری بحث ہے، وہ خروج کے مسئلے اور پاکستان کے موجودہ حالات سے جڑی ہوئی ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ تکفیر کی جو صورت حال ماضی قریب میں اہل تشیع اور اہل تسنن کے مابین رہی ہے، وہ غالباً اس مجلس کا موضوع نہیں۔ 

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب نے فرمایا ہے کہ ہمارے اکابر پہلے ایک بات کا تعین کر چکے ہیں۔ ہمارے اکابر نے ایک راستے کا تعین پاکستان کے قیام کے موقع پر کیا ہے تو ایک راستے کا تعین افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے موقع پر بھی کیا ہے اور اس کے نتائج بھی ہمارے سامنے ہیں۔ تین چار سال افغانستان میں طالبان کی حکومت رہی ہے اور وہاں اسلام کی برکات اور امن وامان کا دنیا بھر نے مشاہدہ کیا ہے۔ میری ناقص رائے میں، جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں، پاکستان کا قیام جس صورت حال میں ہوا، اس میں علما کو درکار گنجائش ہی وہ میسر تھی جس میں وہ قرارداد مقاصد کی طرف آ سکتے تھے۔ جب طالبان نے اس کو زور بازو پر یا اپنے اختیار سے حاصل کیا تو انھوں نے مثالی طریقہ کو حاصل کیا۔ اس لیے ماضی میں یا آج کے حالات میں دیکھ لیں کہ امت مسلمہ میں اگر کسی جگہ امن وامان اور اسلام کا نظام نافذ ہوا ہے تو وہ یا طالبان میں نظر آتا ہے یا اس کا کچھ حصہ سعودی عرب میں نظر آتا ہے۔ جس نظام جمہوریت پر ہم چل رہے ہیں، اس نظام نے اور اسلامی قانون سازی نے امت کو کسی ملک میں چین اور سکون نہیں دیا۔ اس لیے اکابرکا جو معاملہ ہے، اکابر کا احترام اپنی جگہ، لیکن جو حالات کا جبر ہے اور جو حالات کی پیچیدگی ہے، اس کو بھی ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ میں اس پہلو کو ترجیح دیتا ہوں کہ غالباً وہ حالات کا جبر تھا، ورنہ امت مسلمہ ہمیشہ خلافت کے نظریے پر قائم رہی ہے۔ کیا یہ مانا جائے کہ پاکستان کے علما نے خلافت کے نظام کو چھوڑ کر اسلامی جمہوریت کے اسلام کا سیاسی نظام ہونے پر اجماع کر لیا؟ میرا خیال ہے کہ یہ ایک مجبوری تھی۔ آج بھی مجبوری کی شکل یہی ہے کہ اسی دستوری جدوجہد کو کرنا ہے۔ 

اس سے اگلا مسئلہ یہ آتا ہے کہ آج ہم خروج کی بحث اسلامی جمہوریت کے تناظر میں کر رہے ہیں یا اسلامی خلافت کا جو ایک تصور ہے، اس کے تناظر میں کر رہے ہیں؟ دونوں الگ الگ پیرا ڈائم ہیں۔ جو نظام خلافت کا تصور ہے، وہ اسلامی جمہوریت کا تصور ہی نہیں ہے۔ جمہوریت میں تو دستوری تبدیلی کا تصور ہے۔ جب تناظر بدل جاتا ہے تو بحث کا پورا منظر نامہ ہی بدل جاتا ہے۔ یہ ایک بنیادی اختلاف ہے۔ میںیہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت تکفیر کا جو منظرنامہ ہے، وہ سارے کا سارا توحید حاکمیت کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور توحید حاکمیت کے بارے میں میرا جو مختصر اور ناقص مطالعہ ہے، اس کی روشنی میں، میں کہہ سکتاہوں کہ تیرہ سو سال میں ملت اسلامیہ میں کوئی دستور نہیں رہا۔ قانون سازی سب سے پہلے مجلۃ الاحکام العدلیہ کی صورت میں فرانس سے خلافت عثمانیہ میں کروائی ہے۔ امت اسلامیہ میں اگر کبھی چین اور سکون آیا ہے تو وہ کتاب وسنت کی بنا پر آیا ہے جس پر افغانستان کا نظام عدل شاہد ہے۔ یہ ہمارے سامنے کی شہادت ہے۔ کتاب وسنت ہی وہ برکت رکھتے ہیں کہ ان کی بنا پر کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو امت اسلامیہ اس پر عمل کر کے امن وامان حاصل کرتی ہے۔

تو یہ قانون سازی کا جو سارا معاملہ ہے، اس میں اس وقت تکفیر کی بحث جو ہمارے ہاں پندرہ بیس سال سے چلی ہوئی ہے، یہ ساری توحید حاکمیت کے تناظر میں ہے اور توحید حاکمیت کی بحث سعودی عرب میں سلفی علما میں سب سے پہلے محمد بن ابراہیم نے شروع کی۔ انھوں نے اس کی دو قسمیں کی ہیں۔ ایک ہے کفر عملی اور ایک ہے کفر اعتقادی۔ کفر اعتقادی کی چار شکلوں کو انھوں نے کفر اکبر قرار دیا اور بعد کے علما نے وہاں یہ بات نہیں کی کہ ہمارے اکابر یہ کہہ گئے ہیں۔ شیخ ابن عباس نے بعد میں یہ بات کہی کہ ہمارے اکابر سے غلطی ہو سکتی ہے۔ انھوں نے یہ بات کہی تھی کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے۔ ہم اس کے بجائے جتنی بھی اس وقت عدالتیں موجود ہیں، ان تمام عدالتوں کے اقدام کو کفر اصغر کہیں گے، عملی کوتاہی کہیں گے۔ یہ تقسیم اور ساری بحث مجلہ ’’الاحیاء‘‘ میں تقریباً ستر صفحات میں موجود ہے۔

پاکستان میں اس وقت توحید حاکمیت کے تناظر میں جو تکفیر کی بحث ہے،اس میں تین طرح کے نقطہ نظر پائے جاتے ہیں۔ ایک نقطہ نظر ان لوگوں کا ہے جو عملاً اس وقت جہادی یا مزاحمتی مراحل میں ہیں۔ ان کا نقطہ نظریہ ہے کہ فوج اور حکومت کے تمام ادارے عین اسی طرح ہیں جس طرح کہ خود حکمران، اور اس کو وہ طاغوت قرار دیتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر وہ موحدین کے نام سے پیش کر رہے ہیں۔ دوسرا نقطہ نظر اصلی اہل سنت کے نام سے پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ کراچی کا ایک ادارہ ہے اور سعودی موقف کو آگے لے کر آ رہے ہیں۔ وہ اس طرح کی کسی بات کو سرے سے تسلیم نہیں کرتے۔ تیسرا نقطہ نظر مجلہ ’’ایقاظ‘‘ میں شائع ہوا ہے۔ اس میں یہ ہے کہ ہم حکمرانوں کی تکفیر کرتے ہیں، عوام کی تکفیر نہیں کرتے۔ تو اس منظر نامے میں تکفیر براہ راست ہمارا موضوع نہیں ہے، توحید حاکمیت کے تناظر میں تکفیر اس وقت ہمارا موضوع ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ توحید حاکمیت کے تناظر میں جو ساری گفتگو ان تحریکوں نے کی ہے، وہ رد عمل اور ایک سیاسی مجبوری کی بنا پر ہے۔ اس ہمدردی کی نظر سے دیکھنا چاہیے، لیکن یہ اس بنا پر نہیں ہے کہ ہم یہ موقف رکھتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر اس پورے نظام کے بارے میں ایک موقف رکھتا ہوں، لیکن اس کو صحیح نہیں سمجھتا کہ کسی حکومت کو اس بنا پر طاغوت قرار دے کر قتل وقتال کا سلسلہ شروع کر دیا جائے۔

ہم ایک مجبوری کی حالت سے گزر رہے ہیں اور ہمیں پورے نظام کے بارے میں سوچنا چاہیے کہ کیا اس سے ہمیں اسلام حاصل ہو سکتا ہے یا نہیں؟ ہمارے ماضی کے بارہ سو سال اس طرح کی قانون سازی سے خالی ہیں۔ میثاق مدینہ یہود اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین ایک معاہدہ تھا جو یہود کے مدینے سے نکل جانے کے بعد ختم ہو گیا۔ اس کا تذکرہ بعد میں خلافت راشدہ کے کسی دور میں نہیں ملتا۔ علما کے ہاں قانون سازی ایک مستقل موضوع ہے۔ نہ صرف قانون سازی بلکہ جمہوریت کے تمام تصورات کی بنا پر جمہوریت ایک بالکل متوازی نظام ہے۔ یہ کہنا کہ عوامی اعتماد واحدچیز ہے، درست نہیں۔ اسلامی خلافت کا اصل نکتہ جو ہے، وہ نفاذ شریعت ہے اور عوامی اعتماد بھی اس کے اندر موجود ہے۔ حکمران کتاب وسنت کو نافذ کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتا ہو، یہ اصل نکتہ ہے اور اس کے ساتھ دیگر نکات میں یہ بھی آتا ہے کہ اسے عوامی اعتماد بھی حاصل ہونا چاہیے۔ یہی اسلام اور جمہوریت کے مابین مابہ الامتیاز ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ ہمارے ہاں بھی عوامی اعتماد ہی اصل چیز ہے تو ہم میں اور مغرب کے جمہوریت کے بنیادی نظریے میں فرق کہاں ہوا؟ مغربی جمہوریت عوامی اعتماد اور عوام کی حاکمیت کی بات کرتی ہے اور اسلام، اللہ کی حاکمیت کی۔ ہمارے ہاں اللہ کی حاکمیت دستور کا زیب عنواں ہے، عملاً اللہ کی حاکمیت کا نظام کہیں نہیں ہے۔ جس طرح مولانا احمد علی قصور ی نے فرمایا کہ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا پورا نظام آنا چاہیے۔ 

بہرحال اس بحث کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو بہتر ہے۔ اس وقت جو سیاسی مجبوری ہے، اس مجبوری کی بنیاد پر خروج کی بحثوں کو جواز یا تکفیر کے نظریے کی تائید نہیں کی جا سکتی، لیکن ہمیں اس ظلم کو جس نے ان لوگوں کو کھڑا کیا ہے، اسے بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ وہ ظلم اصل وجہ ہے جس کی بناپر آج کچھ لوگ مجبور ہو کر انتہا پسندی کا راستہ اختیار کر چکے ہیں۔

مولانا زاہد الراشدی

میں نے وضاحت کی تھی کہ جمہوریت کا یہ پہلو کہ حق حکمرانی عوام کے اعتماد سے حاصل ہوگا، اس کا آغاز تو ہم نے خلافت صدیق اکبر سے کیا تھا۔ عوامی اعتماد سے حکومت تشکیل پائی تھی اور حاکم کا انتخاب عوام کی مرضی سے ہوا تھا۔

مولانا احمد علی قصوری

میں عرض کرتا ہوں کہ اس کی بنیاد یہ نہیں بنی تھی۔ جب بہت سے امیدوار سامنے آ گئے تو جس دلیل کی بنیاد پر اس سارے اجتماع نے سرنڈرکیا تھا، وہ قرآن کریم کی آیت ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم کی روشنی میں سیدنا فاروق اعظم کی پیش کردہ حدیث مبارکہ تھی۔ انھوں نے ایک واقعاتی اشارہ دیا تھا کہ جس شخصیت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے مذہبی ودینی امور کی امامت کے لیے عملاً کھڑا کیا، کیوں نہ ہم اپنے دنیوی امور بھی اسی شخصیت کے سپرد کر دیں، لہٰذا بنیاد یہ دلیل بنی تھی۔

مولانا زاہد الراشدی

بنیاد یہی دلیل بنی تھی، لیکن فیصلہ لوگوں نے کیا تھا۔

دوسری گزارش یہ ہے کہ ہمارے عزیز فاضل ڈاکٹر حسن مدنی نے فرمایا کہ قانون سازی کا ہمارے ہاں تصور نہیں ملتا۔ میرے خیال میں پہلی قانون سازی امام ابویوسف نے کی تھی۔ ہارون الرشید کے کہنے پر کی تھی اور کتاب الخراج معاشیات کا قانون تھا جو ہارون الرشید کے کہنے پر لکھا گیا تھا اور عباسی سلطنت میں نافذ ہوا تھا۔ قانون سازی کی روایت ہمارے ہاں بہت پرانی ہے۔

محمد عمار خان ناصر

حسن مدنی صاحب نے جو نکتہ اٹھایا ہے، وہ میرے خیال میں خاصا تکنیکی ہے۔ ان کی اپنی بات بھی پوری طرح شاید ان کی گفتگو سے واضح نہیں ہوئی اور وہ ہمارے موضوع سے براہ راست متعلق بھی نہیں ہے۔ ان کی بات کا تعلق بنیادی طورپر اس پہلو سے ہے کہ جب ایک اسلامی ریاست موجود ہو تو وہ اپنے ہاں نفاذ قانون کا اور قانون کی تعبیر وتشریح کا عمل کیسے انجام دے گی۔ اس کے متعلق یہ ایک تکنیکی نکتہ ہے۔ تکفیر کی جو بحث ہم کر رہے ہیں، غالباً اس سے بہت زیادہ متعلق نہیں ہے۔ اگر اس کو کسی مستقل نشست کا موضوع بنایا جائے تو بہتر ہوگا۔ 

مفتی منصور احمد

عوامی اعتماد حاصل ہونے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ خلیفہ طے ہو جائے، اسلامی حکمران طے ہو جائے تو عوام اس کے ہاتھ پر یا اس کے نمائندوں کے ہاتھ پر بیعت کر لیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اعتماد پہلے حاصل ہو اور اس کے بعد ان کو حکمران متعین کیا جائے۔ ان دونوں میں فرق ہے اور اسلام اور جمہوریت میں غالباً یہی فرق ہے۔

محمد عمار خان ناصر 

میں چاہوں گا کہ اس سیشن میں جو گفتگو ہوئی ہے، اس کا اب خلاصہکر لیا جائے تاکہ ہم آگے کی طرف بڑھ سکیں۔ 

ایک بات تو یہ ہوئی کہ جہاں تک جمہوریت کے فلسفے کا تعلق ہے جس میں عوام کو حتمی حاکمیت حاصل ہے، اس سے کوئی اتفاق نہیں کر رہا۔ البتہ جمہوریت میں حکمرانوں کے انتخاب اور ان کے عزل ونصب کا جو نظام وضع کیا گیا ہے، اس کی ہمارے ہاں علما کی اکثریت نے تائید کی ہے اور ان کے خیال میں یہ اسلام سے متصادم نہیں ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسی طریقے سے ہم نفاذ اسلام کی طرف آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ایک دوسرا نقطہ نظر بھی موجود ہے جس کی نمائندگی حسن مدنی صاحب اور مفتی منصور احمد صاحب نے کی۔ میں جس بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اگرچہ ہمارے ہاں جمہوریت کو بطور سیاسی نظام کے قبول کرنے کا ایک عمل ہو چکا ہے اور ہماری مذہبی قیادت کے ہاں اس کو عملاً قبولیت بھی حاصل ہے، لیکن میری طالب علمانہ رائے میں چونکہ اس پورے عمل پر جس طرح سے علمی اور فکری مباحثہ ہونا چاہیے تھا اور مکالمہ ہونا چاہیے تھا اور اس کے مختلف گوشوں کی تنقیح ہونی چاہیے تھی، وہ نہیں ہوئی جس کی وجہ سے اس کے بارے میں اب تک سوالات بھی موجودہیں، اس کے متبادل تصورات بھی موجود ہیں اور عملاً ایک چیز رائج ہو جانے کے باوجود علمی وفکری سطح پر وہ اس طرح سے متفق علیہ نہیں بن سکی۔ اس سے ہمارے سامنے گفتگو اور بحث ومباحثہ کا ایک گوشہ سامنے آتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں بحث ومباحثہ نہ ہونے کی وجہ سے ابہامات بھی موجود ہیں اور کنفیوژن بھی پیدا ہوتا ہے اور پھر اسی کنفیوژن سے بعض ایسے راستے بھی نکلتے ہیں جن کے بارے میں شاید ہم سب لوگ اتفاق کر رہے ہیں کہ وہ بہتر راستے نہیں ہیں۔ میرے خیال میں ایک تو ہمیں اس ضرورت کا احساس کرنا ہوگا کہ علمی وفکری طور پر ایک ایسا گوشہ موجود ہے جس پر مباحثے کی اور مکالمے کی ضرورت ہے۔ اگلے سیشن کاموضوع بھی کسی حد تک اس سے متعلق ہے اور اس پر بات ہوگی۔

دوسری بات جو ہمیں اس سیشن کی ساری گفتگو کے حاصل کے طور پر اگلے سیشن کی بحث کی طرف لے جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ جمہوریت کو خالص کفر جسے کفر بواح کہتے ہیں، شاید یہاں کوئی نہیں کہہ رہا۔ یہ بات بھی سب مان رہے ہیں کہ یہ اس طرح سے کوئی معیاری نظام نہیں ہے کہ اس کی مدد سے اسلام کے اجتماعی آئیڈیلز کو رو بہ عمل کیا جا سکے۔ اس صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہم یہ مان رہے ہیں کہ جمہوریت کے اس نظام میں ہم اسلامی تصورات کو اس طرح سے رو بہ عمل نہیں کر سکتے، اس میں بہت سی رکاوٹیں ہیں، بہت سی تحدیدات ہیں، عالمی نظام کا جبر ہے، مسلمانوں کے اندر فکر وعمل کی جو کجیاں آ چکی ہیں، اس کے اثرات ہیں تو اس صورت حال میں آگے بڑھنے کے لیے اور بہتری لانے کے لیے بہتر راستہ کون سا ہے؟ اس سوال کا جواب اس لیے ضروری ہے کہ جمہوریت کے بارے میں اسی بنیادی مقدمے کی بنیاد پر ایک گروہ بہرحال یہ استدلال بھی رکھتا ہے اور اس کو تجویز بھی کر رہا ہے کہ چونکہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے اس میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی، اس لیے بہتر راستہ یہ ہے کہ ہم متبادل طریقوں کو اختیار کریں جن میں سے ایک خروج بھی ہے۔ توکیا یہ استدلال درست ہے؟ اس پر غور ہونا چاہیے۔ اور اگر یہ استدلال درست نہیں ہے تو پھر جو حضرات پرامن راستے سے اور موجودہ جمہوری نظام کے دائرے میں رہتے ہوئے جدوجہد کا طریقہ تجویز کر رہے ہیں، ان کے ذہن میں کیا لائحہ عمل ہے کہ خروج اور تصادم سے بچتے ہوئے اور موجودہ نظام کے بنیادی اسٹرکچر کو چیلنج کیے بغیر ایسی بہتری لائی جا سکے کہ شریعت کا معیاری ماڈل نافذ ہو سکے؟

میرے خیال میں یہ وہ سوالات ہیں جو اس گفتگو سے پیدا ہوتے ہیں اور یہ اگلے سیشن کا موضوع بھی ہیں۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ اگلے سیشن میں بھی آپ حضرات کا تعاون ہمیں حاصل رہے گا۔

مولانا احمد علی قصوری

آپ نے فرمایا کہ جمہوریت کو کسی نے کفر بواح نہیں کہا۔ جب آپ جمہوریت کا لفظ اس طرح مطلقاً بولیں گے اور اس کے ساتھ اس کی definition نہیں ہوگی تو پھر یہ بات نہیں کہی جا سکتی۔ جمہوریت کی کوئی تعریف کر کے پھر اگلی بات کرنی چاہیے۔ جمہوریت کی بہت سی شکلیں کفر بواح میں آتی ہیں۔ جیسے اکثریت کی رائے کو، شریعت کے احکام سے قطع نظر، معیار ماننا یہ کفر بواح ہے۔

محمدعمار خان ناصر

آپ کی بات درست ہے۔ جمہوریت سے مراد یہ تھی کہ جس طرح ہم نے پاکستان میں اسلام اور جمہوریت کا ایک ملغوبہ تیار کیا ہے، اس کو میرے خیال میں کسی نے کفر بواح نہیں کہا۔ ہاں اگر جمہوریت سے مراد مغرب کا فلسفہ ہے تو پھر آپ کی بات ٹھیک ہے۔ پاکستان میں ہم نے جمہوریت کو جس طرح سے اختیار کیا ہے، اس میں دستوری طور پر اسلام کی پابندی کو لازم قرار دیا گیا ہے اور عوام کو حکمرانوں کے انتخاب کا حق دیا گیا ہے۔ اس سے آپ اختلاف توکر سکتے ہیں، لیکن اس کو کفر بواح آپ نہیں کہہ سکتے۔ 

دوسرا سیشن

محمد عمار خان ناصر

تکفیر او ر خروج کے مسئلے پر صبح سے گفتگو چل رہی ہے۔ پچھلی نشستوں میں جو گفتگو ہوئی، اس سے بحث کو مربوط کرتے ہوئے میں وہ نکتہ عرض کرنا چاہوں گا جو دونوں موضوعات کو آپس میں جوڑ دیتا ہے۔ موجودہ دور میں مغرب نے دنیا کو ایک جمہوری نظام دیا اور بہت سی مسلمان ریاستوں میں خاص طور پر پاکستان میں علما نے جمہوریت کے ساتھ اسلامی شریعت کی بالادستی کی کچھ شرائط اور شقیں شامل کر کے اس کو اسلامائز کرنے کی کوشش کی اور یہ راستہ اختیار کیا کہ اس جمہوری نظام کے دائرے میں ہی سوسائٹی میں اسلام کی اقدار اور اسلام کی تعلیمات کی عمل داری کو قائم کرنے کی کوشش کرنا بہتر ہے۔ گزشتہ نشست میں اس نکتے پر ایک عمومی اتفاق دکھائی دیا کہ یہ کوئی معیاری ماڈل نہیں ہے اور معاشرے اور ریاست کی پالیسیوں کے حوالے سے اسلام کی جو ترجیحات ہیں، ان کو اس نظام میں پورے طو رپر رو بہ عمل کرنا مشکل ہے۔ اس نظام کے اندر کچھ نقائص ہیں۔ پھر یہ نظام ایک بین الاقوامی سیاسی نظام کا حصہ ہے جس کا اپنا ایک دباؤ ہے۔ اس وجہ سے بامر مجبوری دستیاب حالات میں اسے ایک قابل عمل طریقے کے طور پر اختیار کیا گیا۔

اس بنیادی مقدمے کو ماننے کے بعد دو سوال پیدا ہوتے ہیں جن پر ہم چاہتے ہیں کہ ا س سیشن میں اہل علم توجہ مرکوز کریں۔ ایک یہ کہ اگر یہ ایک معیاری نظام نہیں ہے اور بظاہر یہی لگتا ہے کہ اس کے ذریعے سے کبھی بھی ایک معیاری اسلامی معاشرہ اور اسلامی ریاست قائم کرنا ممکن نہیں ہوگا تو اس کو ہم کس اصول پر اور کب تک اختیار کیے رکھیں گے؟ یعنی جو حضرات پرامن طریقے سے اسی نظام کے دائرے میں جدوجہد کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں، ان کے ذمے اس سوال کا جواب بنتا ہے کہ جب آپ یہ مان رہے ہیں کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے وہ تبدیلیاں نہیں لائی جا سکتیں جو کہ مطلوب ہیں تو پھر آخر ہم کیوں اور کب تک اس کے پیچھے چلتے رہیں گے اور کیا وہ مرحلہ آنے کا امکان ہے یا ہم اس مرحلے کا انتظار کر رہے ہیں کہ جب ہمارے لیے اس کو بدلنا ممکن ہوگا؟ 

دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی گروہ یا طبقہ اس سے مختلف کوئی راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے کہ چونکہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور علما نے بھی اجتہاد کر کے ہی اس نظام کے اندر جدوجہد کا راستہ اختیار کیا ہے تو اگر ایک دوسرا گروہ اس سے مختلف اجتہاد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم اس جمہوری نظام کی پابندی کو قبول کیے بغیر یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ذہن میں جو اسلامی ریاست کا ایک نقشہ ہے، اس کو نافذ کریں اور اس کے لیے ہم جان کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار ہیں اور تکلیفیں جھیلنے کے لیے بھی تیار ہیں، جیسا کہ ہمارے ہاں سوات میں اس کی ایک کوشش کی گئی تو اس استدلال کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر کیا ہے؟ 

یوں یہ دو سوال بنتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہم اس جمہوری نظام کو کیوں اختیار کیے رکھیں اور کب تک کیے رکھیں جبکہ اسلامی ریاست کا تصور موجودہ نظام کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ اگر کوئی گروہ اجتہاداً یہ فیصلہ کرنا چاہتا ہے کہ جیسے افغانستان میں طالبان نے کیا، اسی طرح ہم دنیا کے دوسرے ملکوں میں، مثلاً پاکستان کے کسی خطے میں یا کسی اور جگہ پر اسی طرز کا کوئی تجربہ کرنا چاہتے ہیں تو ان کے اس موقف کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر کیا ہوگا؟

مفتی منصور احمد

نہایت اختصار کے ساتھ دو تین باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔

پہلی بات تو وہی ہے جو پچھلی نشست میں بار بار دہرائی گئی کہ خروج کی اصطلاح اور خروج کا مسئلہ خالصتاً اسلامی نظام خلافت سے تعلق رکھتا ہے۔ جس جمہوری نظام میں ہم رہ رہے ہیں، یہاں اگر کوئی استبدال نظام کی مسلح جدوجہد کرتا ہے تو یہ سرے سے خروج ہے ہی نہیں۔ اس کو بغاوت کہیں یاکچھ اور، یہ خروج نہیں ہے۔ جیسے بلوچستان کے مسئلے کو کوئی بھی خروج نہیں کہتا، کراچی کے مسئلے کو بھی کوئی خروج نہیں کہتا، جناح پور کی بات کرنے کو کوئی بھی خروج نہیں کہتا ۔ تو یہ بنیادی طور پر خروج کی بحث ہی نہیں ہے۔ ہمارا مفروضہ یہ ہے کہ ہم جمہوری نظام میں رہ رہے ہیں جو کہ معیاری بھی نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ مجبوری کے عالم میں رہ رہے ہیں۔ اسے ایک اسلامی نظام نہیں کہہ سکتے۔

دوسری بات یہ ہے کہ بالفرض یہ مان لیا جائے کہ یہ اسلامی نہیں، لیکن مسلمان حکومت تو ہے تو اس صورت میں خروج صرف مسلح جدوجہد کانام نہیں ہے۔ خروج تو اس چیز کا نام ہے کہ اطاعت سے نکل جایا جائے۔ حکومت کی اطاعت جو ہم نے بحیثیت شہری کے اختیار کی ہوئی ہے، اس سے نکل کر ایک نیا نظام، ایک نیا اسٹرکچر، ریاست کے اندر ریاست کا نظام بنانا، یہ خروج کی تعریف میں شامل ہے۔ علامہ نووی نے حدیث ردۃ کے ذیل میں اسے انکار اور احتجاج سے تعبیر کیا ہے اور اسی خروج کا بڑا درجہ مسلح جدوجہد اور قتال ہے۔ 

اب اگر حکمران کافر ہیں اور نظام کافرانہ ہے تو اس حوالے سے علما میں دورائیں نہیں ہیں کہ اقامت دین اور غلبہ اسلام کے لیے ان کے خلاف جنگ کو آپ خروج یا جہاد یا جو بھی نام دے لیں، وہ جائز ہے۔ بات یہاں مختلف فیہ ہوتی ہے کہ اگر حکمران کو ہم مسلمان سمجھتے ہیں اور وہ فاسق فاجر اور جائر ہیں، اسلامی نظام کے راستے میں رکاوٹ ہیں تو ظاہر ہے کہ یہاں فقہا کی آرا شدت کے ساتھ اس خروج کے عدم جواز ہی کی طرف گئی ہیں، جبکہ جواز کی جو شکلیں ہیں، وہ اتنی حدود، شروط اور قیود کے ساتھ ہیں کہ عدم جواز تک ہی لے گئی ہیں۔ بہرحال ان ساری حدود وقیود وشروط کے ساتھ جو جواز کا احتمال یا جواز کا امکان ہے، وہ ظاہر ہے کہ باقی ہے اور باقی رہنا بھی چاہیے، ورنہ ظالم حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھانا اگر کلمہ حق ہے تو اگلی بات بھی واضح ہے۔ البتہ احادیث وروایات میں خروج کی جو ممانعت آئی ہے، اس کی حکمت یہ ہے کہ مسلمانو ں کا نقصان ہوگا اور جانوں کا ضیاع ہوگا۔ یہ ساری چیزیں بہرحال ملحوظ رہنی چاہییں۔ یہ نہ ہو کہ خروج کا فتنہ حکومت کے فتنے سے بڑھ جائے۔ یہ بہرحال علما کی بیان کردہ شرائط ہیں۔

پاکستان کے تناظر میں یہ بات عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے ماحول میں جیسا کہ حضرت مولانا زاہدالراشدی نے فرمایا کہ ہمارے معاشرتی رویوں میں سے ایک رویہ ہے کہ ہم ایک بات پہلے طے کر لیتے ہیں یا حالات کا جبر ہمیں اس بات کی طرف لے جاتا ہے تو اس کے لیے ہم شریعت کو سہارا بناتے ہیں اور اپنے لیے دلائل تلاش کرتے ہیں اور دلائل کشید کرتے ہیں۔ دلائل کی روشنی میں اس نتیجے تک نہیں پہنچتے۔ عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے۔ 

ہمارے ہاں بھی یہ مسئلہ ہے کہ ہم نے افغانستان کے معاملے میں امریکا کا ساتھ دیا ور اس حد تک دیا کہ پاکستان کے قبائل جو پاکستان کے محافظ بھی تھے، پاکستان کی پناہ بھی تھے اور پاکستانی ہونے پر فخر بھی کرتے تھے اور پاکستان کے خلاف انھوں نے کبھی پٹاخہ بھی نہیں چلایا، ہم نے امریکا کے کہنے پر ان کو ہدف بنا لیا۔ افغان بارڈر کے ساتھ ملحق ہونے کی وجہ سے فطری طور پر یہ علاقے مجاہدین کی یا افغانستان کے طالبان کی پناہ گاہ بھی تھے، گزرگاہ بھی تھے اور آمد ورفت کا ذریعہ بھی تھے تو افغانستان کے بارڈر کو غیر محفوظ کرنا یہ امریکی مفاد تھا۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس میں ہمارے ملک کا یا مسلمانوں کا کوئی مفاد ہے۔ ہم نے وہاں ان کو ڈرون حملوں کی اجازت دی اور صرف اجازت نہیں، بلکہ ہمارے طیارے وہاں بمباری کرتے رہے۔ ہماری فوج کی سات میں سے چھے ایجنسیوں نے آپریشن کیا۔ اس کا رد عمل یہ ہوا کہ جن کے بچے یتیم ہوئے، عورتیں بیوہ ہوئیں اور گھر تباہ ہوئے، وہ پھر رد عمل میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہاں جو لوگ کھڑے ہیں، ان کے سامنے شریعت کے احکام نہیں ہیں۔ یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگوں کی اپنی ذاتی زندگی میں بھی شریعت نہیں ہے، لیکن وہ انتقام کے طور پر کھڑے ہیں،رد عمل کے طو ر پر کھڑے ہیں اور اپنے لیے انھوں نے چھتری بنایا ہے شریعت کو۔ ہمیں ان کے رویے کا بھی جائزہ لینا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے غلط رویوں اور غلط فیصلوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ ہم غیر ملکی مفاد میں اپنے ہی بھائی بندوں کے خلاف اور اپنی ہی ملت کے خلاف، اپنے ہی لوگوں پر بم برسا رہے ہیں۔ تو ایک بنیادی مسئلہ تو یہ ہے جو ہمارے ہاں پیدا ہوا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے علمی سطح پر اور اہل علم ہونے کے تقاضے سے جو ذمہ داری ہماری بنتی تھی، وہ بھی ہم نے پوری نہیں کی۔ کسی بھی طبقے نے سوات والوں سے جا کر یہ نہیں پوچھا کہ تمھارا مسئلہ کیا ہے؟ ہم آپ کی بات کرواتے ہیں۔ جو کر سکتے تھے، انھوں نے بھی نہیں کیا اور جن کے لیے مشکل تھا، انھوں نے بھی نہیں کیا۔ کوئی بھی جا کر وزیرستان والوں سے نہیں پوچھتا کہ تمھارا مسئلہ کیا ہے؟ تواہل علم ہونے کی حیثیت سے جو ہماری ذمہ داری بنتی تھی، وہ بھی نہیں ادا کی گئی۔ ہمیں اس سلسلے میں بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے۔ شرعی نقطہ نظر سے ان لوگوں کے ساتھ مکالمے کی ضرورت تھی اور ایک متفقہ رائے امت کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت تھی، وہ نہیں کی گئی۔ اگر کبھی کوئی بات سامنے آئی ہے تو وہ حکومتی فورم سے ایسے انداز میں آئی ہے کہ اس کو ہم جیسے اس ماحول میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے بھی قبول نہیں کیا تو جن کے اوپر بم برس رہے تھے اور جو مظلوم تھے، وہ کیسے اس کو قبول کرتے؟ 

اس کے ساتھ یہ بھی ہماری ایک کمزوری ہے کہ ہم نے بہت سے درست اور صحیح معاملات پر بھی اپنے موقف کی کماحقہ وضاحت نہیں کی۔ مثال کے طور پر افغانستان میں ایک حکومت قائم تھی جسے امارت اسلامیہ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے معیار کے مابق بھی وہ وہاں حکومت کے حق دار تھے۔ نوے فی صد علاقہ ان کے قبضے میں تھا اور ۸۰ فیصد لوگوں کی حمایت انھیں حاصل تھی۔ جمہوری نظام کے تحت بھی وہ وہاں حکومت کا استحقاق رکھتے تھے۔ اس جائز حکومت کو عالمی استعمار نے ظلم، زیادتی، جبر اور استبداد کے ذریعے ختم کر دیا اور ستاون غیر مسلم ممالک نے مل کر حملہ کیا۔ ان کے ساتھ کچھ مسلم ممالک نے اور ہم نے بھی اپنا گھر، اپنا ملک،اپنے کندھے ان مسلمانوں کو مارنے کے لیے اور ان کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے پیش کر دیے اور ان کے خلاف جو مجاہدین اٹھے اور وہ طالبان جنھوں نے امریکی استعمار کے خلاف آواز اٹھائی، ہم نے ان کو بھی اسی تناظر میں دیکھا اور جو اسلام آباد میں اور سوات اور وزیرستان میں حملہ آور تھے، ہم نے ان کو بھی اسی تناظر میں دیکھا۔ افغان مجاہدین کے بارے میں ہم نے اپنا موقف بالکل واضح نہیں کیا۔ اس کی وجہ سے بھی کنفیوژن اور بہت سے مسائل پیدا ہوئے۔ تو یہ اہل علم کی ذمہ داریاں ہیں۔

میں ایک طالب علم ہوں۔ اس مجلس میں آپ سب سے علم میں، عمل میں، عمر میں سب سے کم ہوں۔ میرا یہ ایک استفتا ہے کہ آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ایک ملک پر ستاون غیر مسلم ممالک حملہ آور ہوئے ہیں اور وہاں کے مسلمان اپنے ملک سے کافروں کو نکالنے اور وہاں اسلامی حکومت کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں تو کیا اس میں دو رائیں ہو سکتی ہیں کہ یہ جہاد نہیں ہے؟ لیکن اس جہاد کے بارے میں جو ہمارے بالکل قریب ہو رہا ہے، ہم نے کیا کیا؟ یہ تو فقہا نے بھی لکھا ہے کہ جس جگہ کفار نے حملہ کیا ہو، اگر وہاں کے مسلمان غفلت اور سستی کا مظاہرہ کریں یا وہ تعداد اور وسائل کے اعتبار سے کم ہوں تو الاقرب فالاقرب کے تحت ساری دنیا کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہو جاتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے بھی ہم دیکھیں کہ ہمارا اتنا بھی فرض نہیں تھا کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوتے؟ حکومت نے ا س سلسلے میں جو غلط فیصلہ کیا، اہل علم کی ذمہ داری تھی کہ اس سلسلے میں اپنی کوئی متفقہ رائے پیش کرتے۔

تو یہ وہ مسائل ہیں جنھوں نے یہ بحثیں پیدا کی ہیں۔ اس سلسلے میں جو ذمہ داریاں ہماری بنتی ہیں، وہ ہم ادا کریں اور جو ذمہ داریاں حکومت کی ہیں، ہمیں حکومت کو اس پر مجبور کرنا چاہیے اور اس کے لیے جو اقدامات ہو سکتے ہیں، ہمیں وہ کرنے چاہییں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات میرے اور آپ کے اور ان طبقات کے بھی سوچنے کی ہے جو پاکستانی فوج اور حکومت کے خلاف برسرپیکار ہیں اور انھوں نے خروج کا راستہ اختیار کر لیا ہے کہ اس خروج اور اس لڑائی کا فائدہ کس کو ہے؟ اگر وزیرستان میں ایک قبائلی شہید ہوتا ہے، ایک مجاہد شہید ہوتا ہے یا ایک فوجی شہید ہوتا ہے، تینوں صورتوں میں نقصان کس کا ہے اور فائدہ کس کا ہے؟ ہم اپنے گھر کی لڑائی سے باہر کے دشمن کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ اگر ہم اسلام کی بالادستی اور اسلام کی سربلندی کے لیے محنت کر رہے ہیں تو میرا موقف یہ ہے کہ اس وقت ساری دنیا کے مسلمانوں کو اپنی اخلاقی، مالی اور عملی تائید کا وزن طالبان کے پلڑے میں ڈالنا چاہیے کہ وہاں ایسی صورت حال ہے کہ عالمی استعمار کی حکومت جائے گی تو اس کی جگہ اسلامی حکومت آ جائے گی۔ درمیان میں کوئی بات نہیں ہے۔ وہاں ایک آئیڈیل اورایک نمونہ سامنے آ جائے گا تو اس کے بعد دوسرے ممالک کے لیے بھی اس کو کو قابل عمل سمجھنا اور اس کو اختیار کرنا ممکن ہو جائے گا۔ یہی ایک طریقہ ہے۔

ڈاکٹر محمد نجفی

اس نشست میں ہماری گفتگو اس نکتے پر ہے کہ اگر حکومت میں یا حاکم میں وہ خرابی نظر آ رہی ہے جس کو ہم نے کفر بواح کا نام دیا ہے تو اب ہماری ذمہ داری کیا ہے؟ اس ذمہ داری کے تعین کے مختلف راستے ہیں جن میں سے ایک راستہ خروج کا ہے۔ جہاں تک خروج کا تعلق ہے تو میرے ناقص ذہن کے مطابق یہ لفظ صدر اسلام میں مثبت معنی میں نہیں تھا۔ اس وقت خروج کا لفظ ان لوگوں کے لیے بولا گیا جو حضرت امیر المومنین علی کے خلاف نکلے اور کچھ لوگ امیر شام کو قتل کرنے کے لیے نکلے تو ان کو خارجی کہا گیا۔ وہاں سے یہ اصطلاح جنگ صفین میں آئی۔ تو گویا اس وقت اس کا کوئی مثبت مفہوم نہیں تھا، بلکہ یہ تھا کہ اچھے حاکموں کے خلاف کچھ برے لوگ نکل کھڑے ہوئے۔ اب ہم اس کا استعمال جس صورت حال میں کرنا چاہتے ہیں، وہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ حاکم غلط کار ہے اور جو لوگ ٹھیک ہیں، وہ حکمرانوں کو ٹھیک کرنے کے لیے ان کے خلاف نکلنا چاہتے ہیں۔ وہاں تو یہ تھا کہ حاکم اچھا ہے اور اس کے خلاف نکلنے والا باغی ہے، بغاوت کر رہا ہے، غلط کام کر رہا ہے۔ اس کو باغی کہا گیا، چاہے وہ جنگ صفین میں آیا یا اس کے علاوہ۔ آج ہم جس معنی میں لفظ خروج کو استعمال کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے لفظ قیام استعمال ہوتا تھا کہ فلاں نے اس کے خلاف قیام کیا۔ آج تو مفروضہ یہ ہے کہ حاکم خرابیوں کا مالک ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ان خرابیوں کو دور کریں اور اس سے جان چھڑوائیں۔ تو دو بالکل الگ مفہوم ہیں۔

دوسرا سوال یہ دیکھنے کا ہے کہ خروج کا فیصلہ کون کرے گا اور کون لوگ اس میں اتھارٹی ہوں گے اور نکلنے والے افراد کون ہوں گے؟ آیا وہ عام لوگ ہیں یا فوج ہے یا علماہیں؟ تو جتنی قسم کے افراد ہوں گے، اتنے ہی اس کے مراتب بنتے جائیں گے اور کئی مصداقات ہوں گے۔ کہیں علما کے ذریعے سے ہو رہا ہے اور کہیں دوسرے لوگوں کے ذریعے سے ہو رہا ہے۔ اسی طرح خروج کے مراتب بھی ہیں۔ اگر کسی کا زبان سے برا بھلا کہنا زبان سے روک رہے ہیں تو ایک معنی خروج کا یہ ہو جائے گا۔ ایک معنی یہ ہے کہ تلوار اور بندو ق اٹھائی جائے اور حاکم کے ساتھ جا کر ہم مقابلہ کریں۔ 

اس بحث میں داخل ہونے سے پہلے جب ہماری نگاہ روایات پر پڑتی ہے تو وہ ہمیں روک رہی ہیں کہ آپ نے کچھ نہیں کرنا، خاص طور پر آپ حضرات کے نظریے کے مطابق۔ ہمارے ہاں اور آپ کے ہاں اولی الامر کے مفہوم میں بہت زیادہ فرق ہے۔ ہم اولی الامر سے مراد ائمہ معصومین لیتے ہیں، تمام حاکم مراد نہیں لیتے۔ اس لیے ہمارے معاملہ تھوڑا سا آسان ہے کہ اولی الامر چونکہ غلط کام نہیں کرتے، معصوم ہیں، اس لیے ان کی غیر مشروط اطاعت کی جائے۔ آپ کے ہاں اولی الامر کے مفہوم میں وسعت پائی اتی ہے، اچھاحاکم بھی آ سکتا ہے اور برا حاکم بھی آ سکتا ہے۔ تو حاکم کے حوالے سے ہمارے ہاں بھی روایات ہیں، اگرچہ وہ اولی الامر کے زمرے میں نہیں آتا۔ کہا گیا ہے کہ اس کے خلاف تلوار اٹھانے کی ممانعت ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ طاعتہ خیر من الخروج اور بعض روایات میں الفتنۃ اشد من القتل کے الفاظ آئے ہیں کہ آپ اس کے خلاف اٹھیں گے تویہ فتنہ بن جائے گا۔ یہ ساری چیزیں جب ہمارے سامنے آتی ہیں تو یہ گویا روک رہی ہیں کہ آپ خروج نہیں کریں گے۔

البتہ جب اس عام سے آپ استثنا کریں گے تو کہیں گے کہ اگر حاکم میں کفر بواح پایا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ فرضاً کافر ہو گیا ہے تو ہمیں یہ اجازت ملتی ہے کہ اس کے خلاف نکل سکتے ہیں۔ یہاں اگر فتنے والی بات ہے تو اہون البلیتین ہے۔ ایک بلا یہ ہے کہ خون بہے گا اور فتنہ ہوگا اور دوسری بلا سر پر بیٹھی ہے جو کفر کر رہی ہے جس کی وجہ سے شریعت میں خلل آ رہا ہے۔ ہمارے ہاں آئین میں کچھ ا س طرح کی چیزیں شامل ہو گئی ہیں جن کی وجہ سے کفریہ نظریات آ گئے ہیں۔ سود کا تحفظ اور دیگر معاملات اسی کا مصداق بنیں گے۔ 

بہرحال خروج کے حوالے سے یہ سارے سوال قابل غور ہیں کہ اگر کفر بواح کا تحقق ہو جائے تو خروج کا آرڈر ہمیں کون دے گا؟ پہلے کس درجے کا خروج ہم نے کرنا ہے؟ جو خروج ہم کرنا چاہتے ہیں، وہ وجوب کی حد تک ہے یا استحباب کی حد تک؟ ان سب باتوں کی تعیین ضروری ہے۔ وجوب کی حد تک فقط اس وقت جاتا ہے جب کفر صریح کا صدور حاکم سے ہوا ہو، لیکن اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ پہلے تو نبی، امام یا صحابی تھے۔ اب اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ آیا پارلیمنٹ کرے گی، مفتی صاحبان کریں گے، مجتہدین حضرات کریں گے یا عوام کریں گے؟ یہ سب سوالات قابل غور ہیں۔

ڈاکٹر فرید احمد پراچہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ آپ کا شکریہ۔ یہ ایک بڑی علمی بحث ہے۔ اس کے ایک پہلو پر، جو آپ کے موضوع کا پہلا حصہ ہے، اس کے بارے میں تو میں وقت بچانے کے لیے ایک کتابچہ آپ کو پیش کر دوں گا تاکہ اسے آپ اپنی گفتگو میں شامل کرلیں کہ نفاذ شریعت کا راستہ کیا ہے۔ گفتگو کا دوسر احصہ کہ متبا دل راستے کیا ہیں، اس کے بارے میں مختصراً عرض کروں گاکہ عام طور پر ایسے مذاکروں اور ایسے مباحثوں میں بحث کے صرف ایک ہی فریق کو بلایا جاتا ہے، یعنی اہل علم، لیکن اہل حکومت جن کے پاس زمام اقتدار ہے اور جن کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ہیں، ان ان میں کسی کو ان میں شریک نہیں کیا جاتا۔ یہ ساری بحثیں جو آج ہم کر رہے ہیں، یہ بحثں علمی سے زیادہ عملی ہیں، جبکہ ارباب اقتدار کو شامل نہ کرنے سے یہ بحثیں عام طو رپر علمی نکات کے اظہار کی حد تک رہ جاتی ہیں جو کتابوں میں پہلے ہی موجود ہیں، لیکن اس سے صورت حال کی تبدیلی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 

آج جتنی بھی اصطلاحیں استعمال ہو رہی ہیں، تکفیر ہے یا دار الحرب ہے، یہ ظلم کے رد عمل کے طور پر کچھ لوگ اٹھے ہیں جو ان اصطلاحوں کا سہارا لے رہے ہیں، اس لیے پس منظر کو سامنے رکھے بغیر سمجھ میں نہیں آئے گی۔ جماعۃ التکفیر والہجرۃ ۱۹۶۵ء میں مصر کی جیلوں کے اندر بنی جہاں جمال عبد الناصر نے ظلم کی انتہا کر دی تھی۔ اس نے اسلامی نظام اور حکومت الٰہیہ کا مطالبہ کرنے والوں سے جیلیں بھر دیں، ان پرکتے چھوڑے گئے اور ان کی عورتوں کو بے پناہ اذیتیں دی گئیں۔ یہ ایک لمبی داستان ہے۔ پھر اس کے بعد سید قطب اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی دی گئی۔ ان کے ساتھ شہید ہونے والوں میں ایک علی اسماعیل بھی تھے۔ ان کے بھائی عبد الفتاح اسماعیل نے جماعۃ الہجرۃ والتکفیر قائم کی اور پھر اس کے اندر انتہا پسندی آتی چلی گئی۔ انھوں نے کہا کہ ہر ایک کافر ہے اور سلام کرنے کے بارے میں بھی توقف اختیار کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ دنیا کے اندر مساجد بھی صرف چار ہیں، باقی سب مساجد ضرار ہیں۔ یہ ساری چیزیں وہیں پیدا ہوئی ہیں۔

اگرہم اپنے ہاں دیکھیں تو ایک طبقہ ہے جس نے یہاں امریکہ کو آنے کی اجازت دی، اس کو اڈے دیے، اس کو تمام تر سہولتیں دیں اور اس کو ایک مسلمان ملک افغانستان پر حملے کے لیے اپنی زمین پیش کر دی، اس کو انٹیلی جنس سپورٹ دی، لوگوں کو پکڑ پکڑ کر حوالے کیا۔ اب یہ ساری بات کہیں زیر بحث ہی نہیں۔ اس کے نتیجے میں آج ڈرون حملے بھی ہو رہے ہیں۔ ڈرون حملوں کے نتیجے میں بے گناہ لوگ بھی مارے جا رہے ہیں۔ یہ دونوں پہلے اتنے ہی اہم ہیں۔ جتنا رد عمل کے طو رپر غلط راستہ چننے والے، بے گناہوں کو مارنے والے، مساجدکو نقصان پہنچانے والے اور عام گزر گاہوں پر حملے کرنے والے قصور وار ہیں، اتنا ہی وہ لوگ بھی جو اس ساری صورت حال کا سبب بنے ہیں اور امریکا کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ اس لیے ایک تو یہ بات انتہائی اہم ہے۔

دوسری بات اس کے ساتھ یہ ہے کہ کشمیر، افغانستان، عراق اور فلسطین، ان سب جگہوں پر جدوجہد کی بالکل مختلف صورتیں ہیں۔ پاکستان کے اندر تمام اہل علم کو اس بات کی طرف توجہ دینی چاہیے کہ متبادل راستوں کے اندر ایک اہم ترین چیز خود آئین پاکستان ہے جو تمام علماء کرام کی جدوجہد سے بنا ہے۔ اس سے پہلے تمام مکاتب فکر کے اکتیس جید علماء کرام بائیس نکات پر اکٹھے ہوئے تھے۔ یہ ایک لمبی جدوجہد ہے۔ اس کے بعد اگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا تو اس کے ذمہ دار آئین پر عمل نہ کرنے والے ہیں اور وہ تمام تحریکیں ذمہ دار ہیں جو جمہوریت کے منافی اٹھتی ہیں۔ اس پر عمل درآمد کے لیے بھی اہل علم، علما اور دینی جماعتوں کو پور ی کوشش کرنی چاہیے۔

آج کے دور میں متبادل ذرائع کے طو رپر عام طور پر انتخابات ہی ہیں۔ یہ ایک نقطہ نظر ہے، اس سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ قرآن پاک کی آیت: اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم میں جہاں اللہ کی اطاعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے لیے اطیعوا کا لفظ آیا ہے، اولی الامر کے ساتھ اطیعوا کا لفظ نہیں ہے جس سے ایک تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اولی الامر کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے تابع ہے۔ دوسری یہ کہ یہاں اولی الامر علیکم نہیں ہے، اولی الامر منکم ہے یعنی جو تم میں سے اولی الامر بنے، جو تم میں سے چنے جائیں۔ تو اول الامر کا معاملہ بادشاہت کی طرز کی آمریت کا، خاندانوں کے مسلط ہونے کا اور اس طرز کی تمام حکومتوں کی نفی کرتا ہے۔ دنیا کے اندر یہ انتخابات کے ذریعے سے تبدیلی لانے کا طریقہ کامیاب بھی ہوا ہے۔ ترکی میں ہوا ہے، فلسطین میں ہوا ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک میں اسلامی نظام چاہنے والے ووٹ کے ذریعے سے ان کے قدم آگے بڑھ رہے ہیں۔ ابھی تیونس میں ایسے ہوا ہے، مصر کے اندر حالات اس طرف جا رہے ہیں۔ انڈونیشیا اور ملائشیا میں اور خود پاکستان میں بھی اہل دین انتخابات کے ذریعے سے برسر اقتدار آئے ہیں۔ 

میں یہ عرض کروں گا کہ آج ہماری جو سفارشات ہوں، ان میں یہ بات بھی ہو کہ عوامی تائید سے آگے آنے کو ہمارے حکمران ناقابل عمل نہ بنائیں۔ یہ جو جاگیردارانہ نظام ہے، یہ جو فوج اور بیورو کریسی کا گٹھ جوڑ ہے، یہ کسی بھی صورت میں نہ اہل علم کو آگے آنے دیتا ہے نہ اہل دین کو آگے آنے دیتا ہے نہ ان کے ہاں مڈل کلاس کی یا کسی پڑھے لکھے کی کوئی گنجائش ہے۔ اس نظام کو بدلنے کے لیے متناسب نمائندگی کا جو نظام ہے، وہ بڑی حد تک بہتر ہے۔ ترکی اور تیونس میں یہی متناسب نمائندگی کا نظام ہے۔ کم سے کم ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے اور یہ جو روکنے کی کوشش ہے کہ کسی طرح سے بھی دینی لوگ آگے نہ آ سکیں اور اپنی مرضی کی متبادل قیادتیں پیدا کی جاتی ہیں تو اس سلسلے میں بھی توجہ دلانی چاہیے۔ اسی طرح مغرب تک بھی یہ پیغام جانا چاہیے کہ مسلمان ممالک کے اندر تمھیں نہ بلٹ کا فیصلہ قبول ہے نہ بیلٹ کا فیصلہ قبول ہے، نہ صندوق کا فیصلہ قبول ہے اور نہ بندوق کا فیصلہ قبول ہے تو کیوں آپ بند گلی کے اندر دھکیل رہے ہیں کہ لوگ پھر خود کش حملہ آور بنیں۔ تو کم از کم بیلٹ کا فیصلہ تو قبول کریں۔ بیلٹ کا فیصلہ فلسطین میں تسلیم نہیں کیا گیا، جہاں جہاں بھی بیلٹ کا فیصلہ اہل دین کے حق میں ہوا، مغرب نے اس کو قبول نہیں کیا۔ ہمارے بارے میں اس نے طے کیاہوا ہے کہ مسلمان ممالک اسی طرح سے اسی حالت میں رہیں گے۔ تو ہمیں اپنی سفارشات میں ان این جی اوز کے ذریعے یہ پیغام بھی مغرب تک پہنچانا چاہیے کہ مغرب بھی اپنا دہرا معیار ختم کرے۔ اس دہرے معیار کی وجہ سے ہی یہ سارا رد عمل پیدا ہو رہا ہے۔

مولانا طاہر محمود اشرفی

سب سے پہلے تو میں مفتی منصور احمد صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ خروج کی اصطلاح ہم وہاں استعمال کریں جہاں خلافت اسلامیہ اور اسلامی نظام حکومت قائم ہو اور اس کے خلاف کچھ لو گ نکل کھڑے ہوں۔ 

جہاں تک پاکستان کے حالات کا تعلق ہے اور ہمیں جو حالات درپیش ہیں تو مجھے چونکہ جہاد سے اور مجاہدین سے بھی تعلق رہا ہے تو میں اپنے تجربات کی روشنی میں سب چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہوں گا کہ ہمارے اہل علم اور ہمارا دینی طبقہ اگر اپنی ذمہ داریاں پوری کرتا تو ممکن ہے کہ آج کا نوجوان جیکٹ پہننے سے پہلے کچھ سوچتا۔ ہم نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں اور آج بھی نہیں کر رہے۔ جب ہمارے پاس تنہائی میں آ کر نوجوان بیٹھتے ہیں توہم انھیں کچھ اور کہتے ہیں اور جب ہم اس طرح کی کسی محفل میں آتے ہیں یا کسی ٹاک شو میں جاتے ہیں یا جلسوں میں جاتے ہیں تو ہمارا رویہ کچھ اور ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اہل علم ایک طرف رہ گئے ہیں اور وہ لوگ جو تکفیری سوچ لے کر آرہے ہیں، وہ اب مدارس سے زیادہ جدید تعلیمی اداروں میں موثر انداز سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ میں گزشتہ دو ماہ سے کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبہ کے ساتھ ہفتے میں دو نشستیں کر رہا ہوں۔ میں تو پریشان ہو گیا ہوں کہ جو ڈائریکشن وہ اختیار کر رہے ہیں، وہاں نہ کوئی دیوبندی کھڑا ہے، نہ بریلوی کھڑا ہے، نہ کوئی اہل حدیث کھڑا ہے۔ ان کی اپنی ڈائریکشن ہے اور اپنا راستہ ہے جو ممکن ہے کل ہم تبدیل کرنے کی کوشش کریں تو نہ کر سکیں۔ ہم میں سے کوئی بھی ان کا آئیڈیل نہیں ہے۔ تو یہ تکفیری سوچ ہمارے ہاں نائن الیون سے پہلے نہیں تھی۔

میں اس اجتماع میں موجود تھا جو نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے بلایا تھا اور جس میں یہ بات طے کی جانی تھی کہ ہم نے کس کا ساتھ دینا ہے۔ اٹھارہ جماعتوں کے نمائندے وہاں موجود تھے جن میں سے پندرہ پارٹیوں کے نمائندوں نے کہا تھا کہ ہمیں امریکا کا ساتھ دینا چاہیے۔ قاضی حسین احمد، مولانا سمیع الحق اور نواب زادہ نصر اللہ خان، یہ تین لوگ تھے جنھوں نے کھل کر کہا تھا کہ ہمیں طالبان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ باقی جتنی بھی مذہبی یا غیر مذہبی جماعتیں تھیں، ان کا رویہ دوسرا تھا۔ تو ہمیں یہ بات بھی دیکھنی چاہیے۔

دوسری بات میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ نائن الیون کے حملے کے بعد ملا عمر نے پاکستان کی جہادی تنظیموں سے کہا تھا کہ ہمیں آپ کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ہمیںآپ کی مدد نہیں چاہیے۔ ہم یہ جنگ خود لڑیں گے۔ پھر ہم کیسے یہ جواز پیش کر سکتے ہیں کہ یہاں سے اٹھیں اور جا کر وہاں جنگ کرنا شروع کر دیں۔ ایک طرف ہم ملا عمر کو امیر المومنین بھی مانتے ہیں اور ان کی حکم عدولی بھی کریں اور یہ کہیں کہ ہمیں افغانستان جا کر لڑنا ہے۔ 

پاکستان کے کسی عالم نے پاکستان کے اندر خود کش حملوں کو جائز نہیں کہا۔ جب عبد القیوم ذاکر کو جو کہ طالبان کا کمانڈر انچیف ہے، ملا عمر نے ان کی قیادت میں بیت اللہ محسود کوپیغام بھجوایا کہ آپ پاکستان میں یہ کام بند کر دیں تو اس نے جواب میں کہا کہ میں یہ اسلام کے لیے نہیں بلکہ انتقام کے لیے کر رہا ہوں۔

اب جب ہم سوات کے حالات کو دیکھتے ہیں تو وہاں صوفی محمد کے پاس اکابرین کو بھجوانے اور ان سے ملاقات کرانے کا میں نے انتظام کیا تھا۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہمیں جتنی بھی شریعت نافذ کرنے کا موقع مل جائے، اس کے اثرات جب دنیا دیکھے گی اور جب یہ اثرات پاکستان میں آئیں گے تو پاکستانی قوم بھی خود بخود شریعت کی طرف آئے گی۔ مولانا صوفی محمد کے ساتھ ڈاکٹر شیر علی شاہ، مولانا سمیع الحق ور دیگر بزرگوں کی چھے گھنٹے کی نشست ہوئی، لیکن مولانا صوفی محمد کسی بھی درمیانی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔

میں اس بات کو کیسے جائز قرار دے دوں کہ میری جدوجہد اگر شریعت کے لیے ہے تو میں ان غریب یتیم بچوں کوجو بے چارے بازار میں ریڑھیاں لگائے بیٹھے ہیں اور ان عورتوں کو جو وہاں خریداری کرنے کے لیے گئی ہوئی ہیں، ان کے متعلق یہ کہوں کہ ان کا قتل جائز ہے اور یہ فتویٰ دے دوں کہ یہ لوگ تو مرنے کے بعد جنت میں چلے جائیں گے اور اگر کوئی سرکاری اہل کار مر گیا تو وہ جہنم میں جائے گا؟ کیا ہم نے کبھی اس امر پر غور کا ہے اور کبھی اس پر سوچا ہے کہ ہمارے اوپر اور بالخصوص مذہبی طبقے کے اوپر جو سٹمپ لگتی جا رہی ہے۔ آج ایسے ایسے لوگ مفسر قرآن بن کر آ گئے ہیں کہ جن بے چاروں کو قرآن کی آیت بھی تلاوت کرنا نہیں آتی۔ یہ جو خلا پیدا ہو رہا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے اندر ابھی خروج کی نوبت نہیں آئی، لیکن تکفیری سوچ بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ مدارس کے طلبہ کی تو پھر کوئی ڈائریکشن ہے، وہاں تو پھر ان کے لیے کوئی مفتی، کوئی شیخ الحدیث، کوئی جماعت مشعل راہ بن رہی ہے۔ یونیورسٹیز کے جو طلبہ ہیں، ان میں حزب التحریر ٹائپ کی جو جماعتیں آ گئی ہیں، میں معذرت سے عرض کروں گا کہ کیا ہم نے اور اس ملک کے بڑوں نے سوچا ہے کہ ہم ان کو کہاں سٹاپ لگا سکتے ہیں؟ ان طلبہ کو جس انداز سے گمراہ کیا جا رہا ہے اور زید حامد جیسے فتنے جو اس وقت اٹھ رہے ہیں، کیا ہم نے ان کے تقابل میں اور ان کو جواب دینے کے لیے کوئی تیاری کی ہے؟

غزوۂ ہند کے بارے میں ایک حدیث بیان کی جاتی ہے جس پر کلام بھی ہے۔ آپ ماشاء اللہ اہل علم ہیں۔ میں تو طالب علم ہوں۔ کیا غزوۂ ہند کے حالات پیدا ہو گئے ہیں؟ نوجوانوں کو گمراہ کیا جا رہا ہے کہ امام مہدی پیدا ہو گئے ہیں، بس کل آئے کہ پرسوں آئے۔ ہر کوئی امام مہدی کا قافلہ بنا کر نوجوانوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ کیا ہم نے اس پر بھی سوچا ہے؟ دھڑا دھڑ کتابیں آ رہی ہیں۔ امریکی ڈالرکو رکھ کر بتایا جا رہا ہے کہ کانا دجال آ گیا۔ یہاں مفتی حضرات اور علما بیٹھے ہیں۔ وہ بتائیں کہ کیا وہ حالات اس وقت پیدا ہو چکے ہیں؟ تو یہ بنیادی اسباب ہیں اور ہمیں ان چیزوں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

جہاں تک افغانستان کے حالات کی بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ افغانستان کی جنگ ملا عمر نے جیت لی ہوئی ہے۔ وہ اس کا مسئلہ ہے اور وہ کہہ رہا ہے۔ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ اصل بات کو کوئی پھیلانے کے لیے تیار نہیں۔ آپ یہ دیکھیں کہ ملا عمر نے عید الفطر کے موقع پر جو پیغام دیا ہے، وہ یہ ہے کہ افغانستان کے باہر ہمارا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔ ہمارا ایجنڈا افغانستان ہے۔ عید الاضحیٰ کا پیغام دیکھیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارا ایجنڈا افغانستان ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے یہاں پاکستان میں بیٹھ کر ایک عالمی ایجنڈا بنایا ہوا ہے اور ہم عالمی طور پر سب کچھ کرنا چاہتے ہیں۔

جہاں تک ہمارے قبائل کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر کچھ لوگ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں تو انھیں کس کی تائید حاصل ہے؟ کیا انھیں پاکستانی فوج یا آئی ایس آئی کی تائید حاصل ہے؟ نہیں، انھیں ان قوتوں کی تائید حاصل ہے جو افغانستان میں بیٹھی ہوئی ہیں اور وہ وہاں سے لوگوں کو تیار کر کے بھیج رہے ہیں۔ چودہ کیمپ ہیں افغانستان میں جو خود کش حملوں کی تربیت دیتے ہیں۔ وہ کس کے ہیں اور کس کی کمان میں چل رہے ہیں؟ جب تک ہم مرض کو جڑ سے نہیں پکڑیں گے، اس وقت تک ہم معاملات کو حل نہیں کر سکتے۔ معاملات کے حل کے لیے سب سے اہم چیز جو ضروری ہے، وہ یہ کہ ہم اپنے قول وفعل کا تضاد ختم کریں۔

جنرل پرویز مشرف ایک بہت بڑے مفتی صاحب سے بڑی محبت رکھتے تھے اور جنرل معین الدین حیدر اور جنرل پرویز مشرف دونوں ان مفتی صاحب کے پاس بڑی عقیدت اور احترام سے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ بڑے اعلیٰ مفتی ہیں۔ جب پرویز مشرف پر حملہ ہوا اور لوگ گرفتار ہوئے تو ایک نوجوان نے بتایا کہ میں نے اس حملے کا فتویٰ انھی مفتی صاحب سے لیا تھا اور انھوں نے نہ صرف فتویٰ دیا بلکہ ساتھ پچاس ہزار روپے بھی دیے تھے اور یہ بھی کہا تھا کہ اگر اس کو مارتے ہوئے دو چار سو بندہ مر بھی جائے تو کوئی حرج نہیں۔ تو یہ تضاد بھی ہمیں ختم کرنا ہے۔ ہمارے جو لشکر جھنگوی کے لوگ تھے، جب میں ایڈوائزر تھا تو میں ان سے جیلوں میں جا کر ملا ہوں۔ انھوں نے مجھے فتوے دکھائے کہ جناب شیعہ اور قادیانیوں کی جو عورتیں ہیں، یہ باندیاں ہیں اور ان کا مال، مال غنیمت ہے اور یہ واجب القتل ہیں۔ ہم نے تو ان فتووں کی بنیاد پر ایسا کیا ہے۔ جب میں نے انھیں اسی دار الافتاء کا فتویٰ دکھایا کہ دیکھیں، وہ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ناجائز ہے تو ان نوجوانوں نے کہا کہ ہمیں بتائیں، نہ ہماری دنیا رہی نہ آخرت رہی۔ تو ہمیں اس طرف بھی توجہ کرنی چاہیے اور اس طرف بھی دیکھنا چاہیے کہ ہم جا کیسے رہے ہیں۔

یہاں ہمیں خروج کا معاملہ اتنا درپیش نہیں ہے اور نہ آصف علی زرداری کی قیادت میں کوئی خلافت اسلامیہ قائم ہے جس کے خلاف باغی کھڑے ہو گئے ہیں۔ بڑی معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ جب تک دینی طبقہ اپنے رویے ٹھیک نہیں کرے گا، جب تک مذہبی قوتیں اپنے رویے ٹھیک نہیں کریں گی، حالات درست نہیں ہوں گے۔ اس وقت تک یہاں نہ اسلامی نظام آ سکتا ہے، نہ خلافت اسلامیہ آ سکتی ہے اور نہ ہم یہاں بندوق سے خلافت اسلامیہ لا سکتے ہیں۔ یہاں اگر بندوق کی بات چلے گی تو اگر حرکت المجاہدین کے پاس دس ہزار نوجوان ہیں تو لشکر طیبہ کے پاس بھی دس ہزار ہوں گے۔ یہ خانہ جنگی کی صورت ہوگی جو ابھی ہم نے سال ڈیڑھ سال پہلے قبائل میں دیکھی بھی ہے۔ 

تو میں یہ گزارش کروں گا کہ اپنے نوجوانوں کو بچانے کے لیے اگر آپ نے توجہ کرنی ہے تو اس تکفیری مہم کی طرف کیجیے جو آپ کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے نوجوانوں کو تباہ کر رہی ہے اور ان میں اس طرح سرایت کر رہی ہے کہ آپ اور میں اس کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔ میں چاہوں گا کہ آپ ان نوجوانوں میں سے بھی چند لوگوں کو بلائیے، ان کے دلائل اور گفتگو سنیے، آپ مبہوت ہو جائیں گے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ کے علاوہ جو طلبہ تنظیمیں تھیں، وہ ویسے ہی ختم ہو چکی ہیں۔

جہاں تک مغرب اور برطانیہ کی بات ہے تو میں نے بارہ چودہ سال میں ہمارے ہاں جو فرقہ وارانہ تشدد آیاہے، ہم نے تو کہیں نہیں دیکھا کہ کسی کو امریکا نے پیسے دیے ہوں اور اس نے آکر کسی امام بارگاہ میں دھماکا کیا ہو یا کسی مسجد میں لوگوں کو قتل کیا ہو۔ یہاں ہم نے خود ایک دوسرے کے گریبان پکڑے ہوئے ہیں اور اس کا سبب یہی سوچ ہے۔ کیا اس کے خاتمے کے لیے ہم کوشش نہیں کر سکتے؟ اب یہ مرض کینسر کی طرح بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کوجڑ سے کاٹنا ہوگا، لیکن اس کے لیے کون آگے بڑھے گا، اللہ ہی جانتا ہے۔

تو میں گزارش کروں گا کہ اس طرح کی گفتگو ایک بڑے سیمینار کی صورت میں ہونی چاہیے اور پراچہ صاحب کی بات سے بھی اتفاق کروں گا کہ ان لوگوں کو بھی موقع ملنا چاہیے جن کا نقطہ نظر مختلف ہو۔

مولانا احمد علی قصوری

خروج کے ساتھ ساتھ ایک اور سوال ہے جس کا جواب تلاش کیا جانا چاہیے کہ تمکن فی الارض،وہ فرض ہے خاص طور پر حکمرانوں کے لیے اور اس فرض کی نوعیت ایسے ہی ہے جیسے انفرادی زندگی میں مثلاً نماز فرض ہے۔ نماز کی فرضیت کے حوالے سے حدیث میں یہاں تک الفاظ موجود ہے کہ من ترک الصلوۃ فقد کفر، اگرچہ اس کے ساتھ تشریحاً متعمدا کا لفظ موجود ہے، لیکن اگر اس تشریحی لفظ کو الگ کر دیا جائے تو انفرادی زندگی میں جیسے ترک صلوٰۃ کفر کی حد تک پہنچ جاتا ہے، اسی طرح جن کو تمکن فی الارض کے وسائل اور مواقع میسر ہوں اور یہ فریضہ ادا نہ کریں اور ادا نہ کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے دور اقتدار میں اپنی زبان سے یا کسی اقدام سے کفر بواح کا اظہار نہ بھی کریں ، لیکن مسلم ریاست کے اندر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کر نے کی بجائے منکرات وفواحش کے نہ صرف خود مرتکب ہوں بلکہ ریاستی سطح پر ان کے فروغ اور استیلا کی بالواسطہ یا بلاواسطہ مسلسل سرپرستی کریں تو اس کاکیا حکم ہے؟ ماضی قریب میں ہم جائیں تو پرویزی دور حکومت میں قوم کی بیٹیوں کو نیکریں پہنا کر لاہور کی سرزمین پر دوڑایا گیا تھا تو ایسا کردار رکھنے والے افراد جب مسلط ہو جائیں، یہ الگ بحث ہے کہ وہ جبراً مسلط ہوں یا ایک فراڈ ریفرنڈم کے ذریعے سے یا کسی بھی عنوان سے آجائیں، تو ان کے خلاف اقدامات کرنے کا کیا حکم ہے؟ یہ سوالات بھی خروج کے حوالے سے قابل توجہ ہیں۔

دوسری طرف ہمیں یہ ملتا ہے کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من کرہ من امیرہ شیئا۔ اس کے مراحل بیان ہوئے ہیں۔ فلیصبر علیہ فانہ لیس احد من الناس خرج من السلطان شبرا فمات علیہ الا مات میتۃ جاہلیۃ۔ مسلم شریف میں یہ حدیث موجود ہے۔ تو ہمیں فرق کرنا ہوگا۔

تاریخ اسلام میں ہم دیکھتے ہیں کہ پہلی مرتبہ اس قسم کا اقدام جس کی ضرورت محسوس ہوئی اور جو سب سے پہلا عملی مظاہرہ ہوا، وہ کربلا کے میدان میں ہوا۔ خلافت راشدہ میں خلافت حق تھی۔ اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول کا سارا نظام موجود تھا۔ اگر کسی ایک گروہ نے زکوٰۃ کی ادائیگی اور فرضیت کا انکار کیا ہے تو صدیق اکبر نے ان کے خلاف جہاد کا حکم دیا ہے۔ جب یزید کا دور آتا ہے تو وہاں حضرت حسین کا جو کردار ہے، اس کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہے، اہل علم کو آج کے معروضی حالات کو بھی پیش نظر رکھنا ہے اور قرآن وسنت کی جو تعلیمات ہیں، ان کو بھی مدنظر رکھنا ہے اور تاریخ کے جو واقعات ہیں، ان کو بھی سامنے رکھنا ہے۔

جہاں تک مذہبی علما کی خامیوں کا تعلق ہے تو میں یہ عرض کروں گا کہ اگر دنیا کے نقشے پر جہاں بھی اسلام موجود ہے، کسی بھی رنگ میں موجود ہے، وہ سارے کا سارا، چند استثناء ات کے علاوہ، ان کے علما کے صدقے میں موجود ہے جن کو مطعون کیا گیا۔ کسی بھی طبقے کو نہ مکمل طور پر خراب کہا جا سکتا ہے نہ مکمل طور پر درست کہا جا سکتا ہے۔ میں عرض کروں گا کہ اس قسم کے تمام جتنے بھی مسائل ہیں، ان کے اندر بھی ترجیحات طے ہونی چاہییں کہ پہلے ہم کن مسائل کو لیں اور دوسرے نمبر پر کن مسائل کو لیں۔

اس وقت عالمی معروضی حالات میں ہمارے تین طبقات ہیں جو leading role ادا کرتے ہیں۔ بالخصوص اگر اسے امت مسلمہ کے اندر محدود کیا جائے تو وہ زیادہ درست بات ہوگی۔ نمبر ایک، حکمران اور سیاست دان۔ نمبر دو، سرمایہ دار طبقہ اور مترفین۔ نمبر تین، مذہبی طبقہ۔ پہلے دونوں طبقات اگر بگڑے ہوئے ہوں اور مذہبی طبقہ درست راہ پر چل رہا ہو تو پہلے جو دو بگڑے ہوئے ہیں، ان کی بھی اصلاح اور واپسی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ لیکن خدا نخواستہ خدا نخواستہ اگر تیسرا طبقہ بھی بگڑ جائے تو پھر اس قوم کو تباہی اور بربادی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اس وقت امت مسلمہ کے جو احوال ہیں، ان میں اتنی بات درست کہی گئی ہے کہ اگر علما کہلانے والوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور ان کے جو فرائض بنتے ہیں، ان کو ادا نہ کیا اور صحیح طو ر پر مشترکات کو اجاگر کر کے سیکولر لابیوں اور لادینی قوتوں کا مقابلہ نہ کیا جو اکٹھی ہو کر سب کچھ کر رہی ہیں تو صورت حال بگڑتی جائے گی۔ آپ دیکھ لیں، عملاً صورت حال اس وقت یہ ہے کہ کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں ان سامراجی طاقتوں کے دلال پیدا نہ ہو چکے ہوں، چاہے وہ الیکٹرانک میڈیا ہو، پرنٹ میڈیا ہو یا آپ کے اینکر پرسن ہوں۔ جب حالات معمول کے مطابق ہوں تو معمولی اقدامات سے کام چل جاتا ہے ، لیکن غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں زیادہ سے زیادہ مشترکات اور متفقات کو سامنے لانا چاہیے۔

آپ کے فورم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ایک درخواست بھی ہے کہ اتنے مختصر وقت میں اتنے لمبے موضوعات نہ رکھے جائیں۔ اس کا طریقہ یہ رکھا جائے کہ دو یا تین سوال رکھ کر ہر مکتب فکر کے ایک ایک نمائندے کو گفتگو کے لیے کہا جائے اور باقی حضرات سوال وجواب کے ذریعے سے شریک ہوں تو یہ طریقہ زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

علامہ خلیل الرحمن قادری

میں فی الجملہ اس بات کی تائید کروں گا کہ اگر اسباب سے ہٹ کر صورت حال کا تجزیہ کریں گے تو ہمارا تجزیہ غلط ہوگا۔ بات یہ ہے کہ ہر ملک کا حق ہے کہ وہ اپنے ہاں جس نظام کا چاہے، انتخاب کرے۔ وہ جمہوری نظام ہو، پارلیمانی ہو، صدارتی ہو، وفاقی ہو، وحدانی ہو، یہ اس کا حق ہے۔ ہاں جب اسلام کا تناظر سامنے آتا یہ تو اس میں نظام خلافت میں ترجیح دی جاتی ہے، لیکن کسی طاغوتی طاقت کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ آ کر یہ متعین کرے کہ کس ملک میں کیا نظام رائج ہونا چاہیے۔ اس ظلم اور تعدی کے بارے میں بھی سوچا جائے۔ طالبان نے اپنی حکومت کی بنیاد جیسے بھی رکھی تھی، جیسا کہ ہمارے بھائی نے کہا کہ ان کے پاس عددی اکثریت بھی تھی اور جمہوری نقطہ نظر سے بھی تمام تقاضے پورے تھے تو اس کے بعد ان کی حکومت کو destabilize کیوں کیا گیا؟ ایک ملک اٹھتا ہے اور عراق کے اوپر چڑھائی کر دیتا ہے۔ بیس لاکھ مسلمانوں کا قتل عام ہوتا ہے۔ بغداد شہر میں اس وقت پچیس ہزار یتیم بچے موجود ہیں اور وہاں کارپٹ بمبنگ کی گئی ہے۔ اتنا یورینیم پھینکا گیا ہے کہ ان کی آئندہ کئی نسلیں اس سے متاثر ہوں گی۔ ان ساری چیزوں کے بعد جب وہ طاقت وہاں سے جانے لگتی ہے تو رخصت ہوتے وقت کہہ دیتی ہے کہ اوہو، یہ تو غلطی تھی۔ یہ کیسی غلطی تھی جس کی پاداش میں بیس لاکھ مسلمان لقمہ اجل بن جاتے ہیں! تو ان اسباب کو جب ہم جوڑ کر نہیں دیکھیں گے تو ہم بالکل غلط نتائج پر پہنچیں گے۔

طالبان کی حکومت کے فہم اسلام سے پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو کاملاً اتفا نہیں تھا اور وہ ان پر تنقید بھی کرتے تھے، لیکن بہرحال یہ ان کاحق تھا کہ وہ کیسی حکومت بناتے ہیں۔ امریکہ کو کوئی حق نہیں تھا۔ یہی باتیں یو این او کے پلیٹ فارم پر دو سال پہلے قذافی نے کی تھیں اور اس نے شور مچایا تھا کہ کل کو ہماری طرف بھی بحری جہاز آ جائیں گے۔ بہتر ہے کہ تعین کرو اور کچھ پرانی فائلیں کھولو۔ اس کی اپنی فائل کھل گئی۔ تو یہ صورت حال ہے جس پر کوئی غیرت مند، باشعورمسلمان سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔

دوسری بات جس سے میں تھوڑا سا اختلاف کرتا ہوں، میں نہیں سمجھتا کہ یہ کلیتاً ایسے لوگوں کی شرارت ہے جن کے بارے میں ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ بزور بازوشریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں اور وہی دھماکے کرا رہے ہیں۔ اور بھی بہت سے عناصر ہیں جو دھماکوں میں ملوث ہیں، ان کی پہچان بھی ہمیں کرنی چاہیے۔

تیسری بات جس کی طرف میں نے خروج کے حوالے سے پہلی گفتگو میں اشارہ کیا تھا۔ میں ذاتی طور پر مسلح خروج کا قائل نہیں ہوں کسی بھی ایسے حکمران کے خلاف جو اسلام کی پیوند کاری سے موجودہ جمہوری نظام چلا رہا ہو، لیکن یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ جمہوری نظام کے بہت سے تقاضے ایسے ہیں جنھیں ہم اسلام اور جمہوریت کے مشترکہ تقاضے کہہ سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ کلیتاً نظام کفر ہے یا شق در شق کفر ہی ہے۔ یہ اکثریت کا جو فلسفہ ہے تو ہم جب مقننہ کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ان پر ہم اکثرہم لا یعقلون کا اطلاق نہیں کر سکتے، کیونکہ یہ بات قرآن مجید میں اور تناظر میں کہی گئی ہے۔ جن کو اختیار ہے، ان کے بارے میں آپ ایسا نہیں کہہ سکتے۔ اس کے اور بھی بہت سے پہلو ہیں۔ تاہم اسلام کے، جمہوریت کے فلسفے کے ساتھ اختلافات بھی ہیں۔ لیکن میں چونکہ اس سے اتفاق کرتا ہوں کہ پرامن جدوجہد ہونی چاہیے تو پھر مجھے کوئی نہ کوئی تجویز بھی دینی چاہیے۔ 

اس میں پہلی تجویز جو ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے دی ہے، میں اس سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہمارا جو نظام انتخاب ہے، وہ بہت مہنگا ہے۔ اس میں کسی شریف آدمی کے آنے کی امید ہی نہیں کی جا سکتی۔ جو پانچ دس کروڑ روپیہ لگائے گا، وہی ایم این اے یا ایم پی اے بن سکتا ہے، لہٰذا جو proportionate representation (متناسب نمائندگی) کا نظام ہے جو بہت سے مغربی ممالک میں رائج ہے اور جمہوریت کا حصہ سمجھا جاتا ہے، اسے پاکستان میں رائج ہونا چاہیے۔ 

دوسری بات یہ کہ ہم نے جمہوریت کے ساتھ اسلام کی پیوند کاری کی جو بات کی تو اس میں ایک معاملہ وفاقی شرعی عدالت کا تھا۔ وفاقی شرعی عدالت بنائی ہی اس لیے گئی تھی اور اس کو سوموٹو اختیار بھی دیا گیا تھا کہ وہ جن قوانین کو خلاف اسلام سمجھے، ان کا جائزہ لے اور ان کو اسلام کے مطابق بنانے کے لیے ہدایات دے، لیکن اس کے فیصلوں کے ساتھ جو مذاق ہو رہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ سود کا معاملہ ہی لے لیں۔ ۹۱ء میں وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ کیا تھا۔ اس کے بعد آپ کی حکومت نے ادھر ادھر سے کچھ فتوے لے لیے اور سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ میں اپیل دائر کر دی۔ اب بیس سال ہونے کو ہیں، اس اپیل کا کچھ نہیں بنا۔ سٹے آرڈر پر معاملہ چل رہا ہے۔ اسی طرح اور بھی بہت سی چیزیں ہیں۔ جاگیرداری کے نظام کے بارے میں جو فیصلے ہوئے، ان پر بھی خاصی تشویش ہے۔ توکہنے کا مقصد یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کا کردار، ججوں کا کردار، ان کا اسٹیٹس، ان کی تقرری کا طریقہ، یہ بالکل ہائی کورٹ کے معیار پر ہونا چاہیے۔ اس سے ہٹ کر نہیں ہونا چاہیے۔ پسند کے جج لگانے اور اس طرح کی چیزوں سے احتراز کرنا ہوگا۔

تیسری چیز اسلامی نظریاتی کونسل کا رول ہے۔ یہ بھی ایک پیوند کاری تھی۔ ہم کہتے تے کہ اسلامی نظریاتی کونسل سفارشات مرتب کرے گی۔ ان کی سفارشات کو دیکھ کر شرم آتی ہے۔ وہاں سیاسی لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، سارے علم سے بے بہرہ۔ کتنے اہل علم ہیں جو وہاں بیٹھے ہوئے ہیں؟ اور جو بیٹھے ہیں، وہ بھی کن کی بات کرتے ہیں؟ حکومت اوپر سے سفارشات impose کرتی ہے، یہ تائید کر دیتے ہیں۔ ایسی ایسی لایعنی باتیں ہیں اور ایسے ایسے لایعنی معاملات ہیں کہ جن کو دیکھ کر عقل پریشان ہوجاتی ہے۔ تو ان سارے انتظامات کوموثر بنانے کی ضرورت ہے۔

آخری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے دستور میں کچھ غیر اسلامی دفعات بھی شامل ہیں۔ بے شک ہم یہ کہتے ہیں کہ ۷۳ء کا آئین متفقہ آئین ہے، لیکن یہ کوئی مقدس گائے نہیں ہے جس پر رائے زنی کی جا سکے۔ ہمارے علما سے بھی غلطی اور خطا ہو سکتی ہے۔ ہم نشان دہی کر سکتے ہیں کہ اس دستور میں غیر اسلامی دفعات اور اسلام سے متعارض دفعات شامل ہیں۔ پہلے تو ان کا خاتمہ کیا جائے اور پھر کسی ایسی دستوری دفعہ کو اس کا حصہ بنایا جائے جس میں یہ صراحت ہو کہ اسلامی قانون کو ہمارے موجودہ قانون پر مکمل supermacy دی جائے گی۔ یہ ایک عبوری قانون کے طو رپر رہے، جب تک کہ چھان پھٹک کے بعد تمام قوانین کی تطہیر نہیں ہو جاتی۔ سپریم لا کتاب وسنت ہے۔ اگر اس طرح کے دستوری انتظامات پر لوگ متفق ہو جائیں اور اس کو ہم مطالبوں کے ذریعے، احتجاج تحریکوں کے ذریعے سے منوا سکیں تو صورت حال میں کافی بہتری آ سکتی ہے۔

ڈاکٹر حسن مدنی

محترم عمار صاحب نے یہاں یہ سوال پیش کیا تھا کہ متبادل کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ تو ایک صورت ہے نظام کے اندر رہتے ہوئے اور ایک صورت ہے نظام کے متبادل کے طور پر۔ میری اس بارے میں طالب علمانہ گزارش یہ ہے کہ نظام کے اندر رہتے ہوئے جو بھی علما دستوری جدوجہد کر رہے ہیں یا سیاسی طور پر تبدیلی کی کوشش کر رہے ہیں یا دعوت وتبلیغ کا کام کر رہے ہیں یا جس انداز میں بھی کوئی کام کر رہے ہیں، یہ سارے کے سارے کام ہونے چاہییں۔ نظام کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کی تمام شکلیں ٹھیک ہیں اور ان میں بہرحال تیزی آنی چاہیے۔ اس وقت جو غورطلب نکتہ ہے، وہ یہ ہے کہ امت مسلمہ کو پچھلے بیس سال سے باقاعدہ ایک جارحیت کا سامنا ہے اور ہمیں ابھی تک اس کا احساس نہیں ہے۔ ہم اس وقت معرض جنگ میں ہیں، لیکن معرض جنگ میں ہمارے رویے وہی ہیں جو رویے عام حالات میں ہوتے ہیں۔ 

جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو اس سارے نظام سے پریشان ہیں، ان کے لیے بھی ایک حل ہے۔ اصل میں اسلام کا تصور یہ ہے کہ اسلام زمین پر نافذ نہیں ہوتا، افراد پر نافذ ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ میں تھے، تب بھی دین افراد پر قائم تھا۔ افراد جب دین کواپنے اوپر قائم کر لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل ہوتی ہے۔ تو یہ بنیادی نکتہ ہے۔ جوحضرات یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سارا نظام ہی درست نہیں، انھیں اپنی ذات پر اور جو افراد ان کے ساتھ ہیں، انھیں بھی اپنی ذا ت پر دین کو بتمامہ نافذ کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ معاشرے پر نفاذ شریعت کے ان امکانات کو دیکھنا چاہیے جو عالمی سطح پر موجود ہیں اور ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ یہودی امریکا میں اپنے قانون پر عمل کر رہے ہیں۔ تو جہاں جہاں اس جدید نظام نے شرعی قوانین سے استفادہ کی گنجائش رکھی ہے، وہاں مسلمانوں کو بھی اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، جیسا کہ برطانیہ میں اس کی مثال موجود ہے، امریکا میں مثال موجود ہے کہ اگر فریقین کسی قانون پرمتفق ہو جاتے ہیں تو انھیں اس کے مطابق فیصلے کرنے کی اجازت ہے۔ 

اگر ہم دین کو اپنی ذات پر انفرادی اور اجتماعی سطح پر نافذ کر لیں اور ایسے پانچ سو کامل افراد بھی کام کرنے والے مل جائیں تو ان شاء اللہ اس کے بعد زمین کا حصول اللہ کے انعام کے طورپر ہو جاتا ہے۔ زمین کا حصول کوئی لازمی تو نہیں۔ ان تمام امکانات کے لیے کوشش کی جا سکتی ہے جس میں ہمیں آپس میں کسی نظام کو لاگو کرنے کا اختیار حکومتیں ہمیں دیتی ہیں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ تشدد کا راستہ اختیار کیا جائے؟ میری طالب علمانہ رائے یہی ہے بلکہ میں اصرار کے ساتھ کہوں گا کہ دعوت میں تشدد کے راستے کی اسلام میں بالکل گنجائش نہیں ہے۔ تکفیر یا تفجیر، یہ دونوں بالکل اسلامی راستے نہیں ہیں۔ یہ معاشرے کو انتشار میں او ر تخریب میں ڈالنے کے طریقے ہیں اور اسلام ان کی کبھی حمایت نہیں کرتا۔ اسلام کا نفاذ اور اسلام کا فروغ دعوت وتلقین کے ذریعے سے ہوتا ہے، عمل اور اخلاق کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی مساجد تک اور مخصوص افراد تک محدود ہو کر رہ جائیں، بلکہ دعوت کے دائرے کو فرد سے بڑھ کرمعاشرے کے تمام دائروں تک وسیع ہونا چاہیے اور اس کام میں پوری تیزی آنی چاہیے۔

اگر ہم تشدد کی کوئی شکل بھی اختیار کریں گے تو ایک حکمران بدل جائے گا لیکن اس سے بدتر حکمران سامنے آ جائے گا۔ یہ سارا مسئلہ نظام کا ہے اور نظام کی تبدیلی سے پہلے ہمیں اپنی تیاری اور اپنی محنت کی ضرورت ہے۔ جب محنت سے ایسے عمل کرنے والے لوگ بڑی تعداد میں مل جائیں گے تو اگلا مسئلہ بھی اللہ تعالیٰ حل کریں گے۔ مدینہ منورہ کی ریاست کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مطالبہ نہیں کیا۔ جب اتنے افراد جمع ہو گئے جنھوں نے اپنی ذات پر دین کو نافذ کر لیا تو ایک گروہ آیا اور اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ میں آنے کی دعوت دی اور تدریجاً وہاں اسلام نافذ ہو گیا۔

تو بہرحال متبادل کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ میری صرف اتنی گزارش ہے کہ تشدد کے ماسوا جن متبادلات پر کام ہو رہا ہے، وہ سارے ہی مناسب ہیں اور ان میں تیزی آنی چاہیے۔ تشدد کی شکلیں امت کے افتراق کی شکلیں ہیں اور یہ ساری غلط ہیں۔ 

ایک آخری بات یہ ہے کہ یہ کہنا کہ اسلام میں خروج کا تصور ہی نہیں، یہ بھی درست نہیں۔ اگر ہم یہ فرض کر بھی لیں کہ یہ ایک اسلامی ریاست ہے تو اسلام میں جس طرح حکمران کے خلاف خروج کی ممانعت موجودہے، وہاں تین شکلیں ایسی ہیں کہ جن میں خروج کے جواز پر اتفاق ہے۔ ایک یہ کہ کفر بواح کا ارتکاب اگر ہو تو خروج ہو سکتا ہے۔ دوسرا، نماز کو قائم نہ کرنے والے کے خلاف خروج ہو سکتا ہے ، یعنی جو اقامت دین نہ کرے۔ حدیث کے صریح الفاظ ہیں۔ شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں فرمایا ہے کہ وبالجملۃ فاذا کفر الخلیفۃ بانکار ضروری من الضروریات الدینیۃ حل قتالہ بل وجب والا لا۔ یعنی ہمارے نظریات میں یہ بات موجود ہے۔ امام اعظم امام ابو حنیفہ کا فرمان بھی غالباً امام جصاص نے نقل کیا ہے۔ ان کے حالات میں بھی یہی چیزیں موجود ہیں کہ انھوں نے خروج کی تائید کی۔ امام ابن تیمیہ کے حوالے سے اگر یہ بات کہی جاتی ہے کہ انھوں نے حکمرانوں کے اتباع کی بات کی ہے تو علامہ ابن تیمیہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی طائفہ اسلام کی کھلم کھلا مخالفت کرے تو اس کے خلاف جہاد واجب ہے۔ وایما طائفۃ انتسبت الی الاسلام وامتنعت عن بعض شرائعہ الظاہرۃ المتواترۃ فانہ یجب جہادہ باتفاق المسلمین۔ تو یہ بات درست نہیں کہ ہم صرف ایک ہی بات سے فائدہ اٹھانا چاہیں کہ علامہ ابن تیمیہ کے افکار یہ ہیں کہ ہ خروج کو جائز نہیں کہتے۔ 

خروج کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام نے خرو ج کیا۔ اگر صحابہ نے خروج کیا ہے تو یہ ایک امر مشروع ہے۔ مسئلہ حالات اور مصلحت کا ہے، لیکن یہ ساری بحث جیسا کہ میں شروع میں کہہ چکا ہوں، خلط مبحث ہے۔ خلط مبحث اس لیے کہ نہ یہ شرعی ریاست ہے اور نہ شرعی نظام۔ مفتی منصور احمد صاحب نے بڑی اچھی بات کہی کہ جس طرح گریٹر بلوچستان کی تحریک ہے، یہ بھی ویسا ہی ایک مسئلہ ہے۔ لیکن اگر خروج کی بات بھی ہے تو ایسا نہیں ہے کہ اسلام ہمیں کوئی راستہ نہیں دیتا۔

آخری بات کہہ کر بات ختم کرتا ہوں کہ ہماری اس مجلس کو محض خروج یا تکفیر کی مذمت پر ختم نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں خروج کے اسباب کا بھی تجزیہ کرنا چاہیے اور مثبت طور پر یہ بھی بتانا چاہیے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ وہ کام تو غلط ہے، لیکن ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ میں مکرر کہنا چاہوں گا کہ ہم پچھلے بیس سال سے حالت جنگ میں ہیں۔ عالم کفرکی جتنی جنگیں اور جتنے اختلافات ہیں، اس وقت امت مسلمہ کے ساتھ ہیں۔ ڈیڑھ سو سال کے بعد کفر اپنے داخلی جھگڑوں سے نمٹ کر، جنگ عظیم اول اور دوم اور پھر سرد جنگ کے بعد ۱۹۹۰ء میں اپنا نیا ورلڈ آرڈر لایا ہے اور میں اپنی سمجھ کے مطابق یہ سمجھتا ہوں کہ یہ نیو ورلڈ آرڈر اسلام کے بارے میں ہے، جبکہ ہم ابھی تک انھی حالات میں بیٹھے ہیں۔ ہم اس وقت کوتاہی کر رہے ہیں اور وہ آدمی اس وقت سب سے بڑا خادم ہے جو کسی بھی میدان میں دین کی خدمت کر رہا ہے، دین کو تقویت دینے والا ہے اور کفر کے راستے میں کسی بھی طرح سے مزاحمت کر رہا ہے۔ جو اسلام کو کسی بھی طرح خراب کرنے والا ہے، وہ اسلام کا مخالف ہے۔ اس میں ہمیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں اس جذبے کا نصف بھی نظر نہیں آتا اور یہ ہمارے لیے سب سے بڑی فکرمندی کی بات ہے۔ اگر اب بھی نظر نہیں آتا تو اس سے بڑی ذلت امت مسلمہ کے لیے کیا ہوگی؟

محمد عمار خان ناصر

میں دعا کے لیے مولانا مفتی محمد خان قادری صاحب سے درخواست کرنے سے پہلے محفل کے میزبان کے طور پر اپنی طرف سے اور اس مجلس کے منتظمین کی طرف سے آپ سب حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے پورا دن اس کے لیے فارغ فرمایا۔ بحث کے چونکہ کئی پہلو تھے اور یہ ایک طویل الذیل بحث ہے، کچھ نکات ہم نے مرتب کیے تھے، کچھ کا آپ نے اضافہ کیا۔ کچھ باہر کے نکات بھی آ گئے اور کئی باتیں تشنہ بھی رہ گئیں اور کچھ پر بالکل گفتگو نہیں ہو سکی۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ اس موضوع پر نہ پہلی نشست ہے اور نہ آخری۔ یہ سلسلہ آگے بڑھے گا۔ آپ حضرا ت نے آج کی نشست میں جو کچھ contribute کیا، امید ہے کہ وہ اس بحث کی تنقیح میں مددگار ثابت ہوگا۔ بے حد شکریہ!

اسلام اور سیاست

(مارچ ۲۰۱۲ء)

مارچ ۲۰۱۲ء

جلد ۲۳ ۔ شمارہ ۳

ابتدائیہ ’’جہاد۔کلاسیکی وعصری تناظر میں‘‘
محمد عمار خان ناصر

اسلام کا تصور جہاد ۔ چند توضیحات
مولانا محمد یحیی نعمانی

جہاد ۔ ایک مطالعہ
محمد عمار خان ناصر

’’پر امن طریق کار‘‘ بمقابلہ ’’پر تشدد طریق کار‘‘
محمد رشید

حکمرانوں کی تکفیر اور خروج کی بحث
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (پہلی مجلس مذاکرہ)
ادارہ

معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (دوسری مجلس مذاکرہ)
ادارہ

معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (تیسری مجلس مذاکرہ)
ادارہ

پاکستان ایک غیر اسلامی ریاست ہے
الشیخ ایمن الظواہری

عصر حاضر میں خروج کا جواز اور شبہات کا جائزہ
محمد زاہد صدیق مغل

غلط نظام میں شرکت کی بنا پر تکفیر کا مسئلہ ۔ خطے کے موجودہ حالات کے تناظر میں
مولانا مفتی محمد زاہد

تکفیر اور خروج : دستورِ پاکستان کے تناظر میں
محمد مشتاق احمد

کیا دستور پاکستان ایک ’کفریہ‘ دستور ہے؟ ایمن الظواہری کے موقف کا تنقیدی جائزہ
محمد عمار خان ناصر

پروفیسر مشتاق احمد کا مکتوب گرامی
محمد مشتاق احمد

خروج ۔ کلاسیکل اور معاصر موقف کا تجزیہ، فکر اقبال کے تناظر میں
محمد عمار خان ناصر

تعارف و تبصرہ
ادارہ

تلاش

Flag Counter