معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (تیسری مجلس مذاکرہ)

ادارہ

(پاکستان مرکز برائے مطالعات امن (PIPS) اسلام آباد کے زیر اہتمام مجالس مذاکرہ کی روداد)


ڈاکٹر خالد مسعود — (میزبان، سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل)

اس سے پہلے کہ ہم گفتگو شروع کریں، میں یہ شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ میں اس مسئلے کو کیسے دیکھتا ہوں۔ تکفیر اور خروج دو مختلف مسائل ہیں، لیکن دونوں کی نزاکت اور اہمیت جو ہے، وہ دینی سے زیادہ سیاسی ہے اور اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی طورپر ایسے کہ یہ سیاسی نظام کی ساخت میں کبھی شامل ہو جاتی ہے اور کبھی شامل سمجھی جاتی ہے اور دوسرا یہ کہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ ہمارا اس نشست میں یہ کام ہوگا کہ اس بات پر غورکریں کہ جو مباحث ہیں، ان میں مسائل کیا ہیں اور ان میں حدود وقیود ہم نے کیا طے کی ہیں۔ ان سے پھر ہم اخذ کریں کہ اصول کیا ہیں۔ یہ بھی طے کرنا ضروری ہے کہ اس پر گفتگو کرنے کے آداب کیا ہیں۔ اس کے بغیر مشکل ہوگا کہ اس پر کھل کربات کی جا سکے۔ 

اس موضوع پر گفتگو کے لیے یا تو آپ فقہی کتابوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ جو بحثیں ہمارے ہاں خاص طورپر جنوبی ایشیا میں رہی ہیں، ان کا علمی پس منظر تاریخی طور پر کیا تھا اور آج کے دور میں کیا ہے۔ پہلے یہ مسائل خالصتاً علمی تھے۔ علما کی محفلوں میں اس پر بات ہوتی تھی۔علما آپس میں بات کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جو فتاویٰ ہیں، اس کے مخاطب بھی علما ہی ہوتے تھے، اس لیے اس کی زبان بھی بڑی مشکل تھی اور اس زبان میں بہت سی اصطلاحات استعمال ہوتی تھیں۔ اب یہ ساری چیزیں آن لائن ہو گئی ہیں۔ عالم آن لائن، فتویٰ آن لائن اور اس میں جو نزاکتیں ہیں، وہ پوری طرح سامنے نہیں رہتیں، نہ سننے والوں کی نہ بولنے والوں کی۔ اس کی وجہ بھی ہمیں سمجھ لینی چاہیے۔ ایک ہمارے دوست ہیں پی ٹی وی میں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج کل مقابلہ ہے اسٹیٹ اور سیٹھ کے درمیان کہ سیٹھ جو ٹی وی کے مالکان ہیں، ان کو اس سے تعلق نہیں کہ نظریہ کیا ہے اور دین کیا ہے۔ ان کو اس سے تعلق ہے کہ زیادہ لوگ کس کو دیکھتے ہیں۔ rating کیا ہے۔ اگر کوئی بہت زیادہ ہنستا ہے تو اس کی ریٹنگ بھی زیادہ ہو جاتی ہے ، کوئی بہت زیادہ روتا ہے، بولتا ہے یا گالیاں دیتا ہے تو اس کی بھی ریٹنگ زیادہ ہو جاتی ہے۔ تو آج کا میڈیا سنجیدہ گفتگو کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے، لیکن تکفیر اور خروج ایسے مسائل ہیں کہ جن پر بہت زیادہ سنجیدگی کے ساتھ اور بہت زیادہ سوچ بچار کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں جو غلط فہمیاں ہیں، ان کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اتفاق رائے شاید نہ ہو سکے، لیکن اس کے ضابطہ اخلاق کی پابندی کرنی چاہیے۔

پہلے جو گفتگو ہوئی، اس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس کے لیے علماکا ایک فورم ہونا چاہیے۔ ایک ایسی مجلس ہونی چاہیے جس میں علما اس پر گفتگو کر سکیں۔ ایک ایسی مجلس ہونی چاہیے جس میں علما گفتگو کر سکیں، اس کی ضرورت کو دیکھ سکیں اور اس کے طریقہ کار پر گفتگو کر سکیں۔ میں جو بات آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر تاریخ اسلام میں بھی یہ بحثیں جب شروع ہوئی ہیں تو سیاسی پس منظر میں شروع ہوئی ہیں۔ دنیا بھر میں بھی، دین کی بنیاد پر بھی اوردوسرے مذاہب میں بھی جو تکفیر ار خروج کے مسائل ہیں، وہ تبھی پیدا ہوئے ہیں، قرون وسطیٰ میں بھی جب ان کو سیاسی حیثیت حاصل ہوئی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ قرون وسطیٰ میں جب بڑی بڑی ایمپائرز، سلطنتیں بنیں تو ان میں سیاسی وحدت کی بنیاد مذہب کو بنایا گیا۔ بادشاہ کی حمایت بھی دینی بنیادوں پر تھی اور بادشاہ نے جو justification اپنی ریاست کی، بادشاہت کی یا آئین کی بناتا تھا، وہ بھی دین کی بنیاد پر تھی۔ ایک تو بڑی وجہ یہ تھی۔ جو پرانی بڑی سلطنتیں تھیں سوائے رومن ایمپائر کے، ان کا اپنا مذہب، مذہب سے ہٹ کرتھا۔ باقی جتنی بھی سلطنتیں تھیں اور ایک طرح سے رومن ایمپائر کو بھی دیکھ لیں کہ ان کا اپنا مذہب بھی بت پرستی سے ہٹ کر تھا اور اس دین کو اس کی وحدت کی بنیاد اور اس کی justification کی بنیاد سمجھا جاتا تھا اور جو اس کے نہ ماننے والے ہوتے تھے، ان کے لیے قوانین بنائے جاتے تھے کہ ان کو کیسے رکھا جائے۔ 

اسلام نے ایک تو یہ کیا کہ جتنے بھی ادیان ہیں، ان کی اصل سماوی بتائی یا ان سب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے روحانی طورپر ان کی بنیاد رکھی اور یہ کہا گیا کہ تمام مذاہب میں جو بات مشترک ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدت پر ایمان اور انبیا کا سلسلہ یہ باتیں تمام مذاہب میں کسی نہ کسی شکل میں موجود تھیں۔ اسلام نے تمام مذاہب کو ایک پیغام کے لیے اکٹھا ہونے کی دعوت دی، لیکن ہمارے ہاں جو کلامی بحثیں شروع ہوئیں اور اسلام میں بھی ریاست کا وجود بنا اور فتوحات کی بنیاد پر سلطنت کا وجود بنا تو ہم نے بھی اسلام کی تعریف یہ کرنا شروع کر دی کہ وہ دین جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وجود میں آیا، حالانکہ قرآن کریم میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں جو تصور اسلام کا ہے، وہ ایسا دین فطرت ہے جو شروع سے ہی انسان میں ودیعت ہے۔ حضرت آدم سے لے کر جتنے بھی انبیاء آئے ہیں، سب اسی کی دعوت دیتے رہے۔ اس لحاظ سے ہمارا جو دین کا تصور تھا، وہ بہت وسعت والا تھا۔ اس میں جو دین کی آزادی تھی، اس کو قرآ ن کریم میں مکمل طور پر بتایا گیا اور یہ کہ جب تک وہ آزادی انسان کو نہ دی جائے ، جب تک انسان کو حریت اور اختیار نہ دیا جائے، تب تک دین کا اعتبار بھی نہیں ہے ، ورنہ وہ منافقت ہوگی۔ 

تو یہ ساری چیزیں موجود تھیں، لیکن اسلام کی تاریخ میں بھی یہ ہوا کہ جب فتوحات کا دور آیا اور سلطنتیں بنیں تو جو ابتدائی سلطنتیں تھیں، جیسے عباسی سلطنت، اس میں بھی اسلام کی بنیاد پر اس کی justification اور اسلام کی بنیاد پر خلیفۃ کے ظل اللہ فی الارض ہونااور یہ ساری چیزیں آئیں۔ اسی زمانے میں کلامی بحثیں اور فلسفے اور فکری بحثیں شروع ہوئیں اور ان میں یہ سب تکفیر کے مسائل ، ارتداد کے مسائل اور خروج کے مسائل سب اس زمانے میں بنے اور ان میں بھی اگر ہم دیکھیں تو دین کا تصور محدود ہوتا گیا اور ریاست کو دین سے وابستہ کر دیا گیا۔ پھر معاشی تاریخ میں بھی اگر ہم دیکھیں تو اس میں بھی دین کی بنیادوں پر جو زمین دارطبقہ تھا اور جن کی agricultural areas میں سیادت تھی، اس کو بھی دینی انداز میں پیش کیا گیا۔ ہمارے ہاں جو تین بڑی سلطنتیں بنیں، عثمانی سلطنت، صفوی سلطنت ایران میں اور مغلیہ سلطنت برصغیر میں، اس میں بھی یہ کوشش کی گئی کہ بادشاہ کو مذہبی راہ نما بنایا جائے، مذہب کا نمائندہ بنایا جائے اور مذہب کی بنیاد پر اس کو اور اس کی سلطنت کو justify کیا جائے۔ 

زرعی نظام کے بعد جب صنعتی نظام آیا تو اس میں تبدیلی آئی اور بہت بڑی تبدیلی یہ تھی کہ اب ان کی ضرورت بطور justification اور وحدت کے نہیں سمجھی جاتی تھی بلکہ مشینی نظام نے اس کے بجائے ایک ایسا نظام بنانے کی کوشش کی جس میں دین کی تفریق ختم ہو جائے اور کوئی بھی دین کی identity نہ رہے۔ قومی ریاستیں جو آئیں، ان میں دین کی مکمل طور پر نفی کی گئی، لیکن اس میں جو چیز سامنے آئی، وہ یہ کہ اب قانونی نظام سامنے آ گیا۔ آئین کا نظام اور قانونی سسٹم جس میں عدالتیں تھیں اور بادشاہ کا ایک رول طے کر دیا گیا۔ اس میں ہمارے لیے خاص طور پر فقہا کے جو طے کردہ اصول تھے تکفیر کے اور خروج کے، ان کے لیے اب ایک نیا مسئلہ تھا، لیکن اس مسئلے کو ہم حل نہیں کر سکے۔ ہمارا تکفیر اور خروج کا جو قانونی نظام اور فریم ورک تھا، وہ قرون وسطیٰ والا رہا اور ہم اس کو آئین کی زبان نہیں دے سکے۔ عدالتی نظام کی زبان نہیں دے سکے، بلکہ ہم نے اس میں اور زیادہ ابہامات پیدا کر دیے۔ ہم ابھی قومیت سے اور قومی ریاست کے اصولوں سے بھی نپٹ نہیں پائے تھے کہ گلوبل ورلڈ کا تصور آ گیا، عالمی نظام کا تصور آ گیا جس میںیہ حدود اور یہ قومی ریاستیں بلکہ خود ریاست اتنی بنیادی یا اتنی اہم نہیں رہی۔ ہمارا جو سیادت اور اقتدار اعلیٰ کا تصور تھا، وہ گلوبل ازم میں اب کمزور پڑ گیا، لیکن ابھی ہم چونکہ اس سے نہیں نکلے تھے بلکہ دینی تصورات میں ہم قرون وسطیٰ سے ابھی نہیں نکلے تو یہ دو بڑی وجوہات ابہامات کی بن گئیں۔

میں اس پر بات ختم کروں گا کہ آئندہ جس طرف ہم جا رہے ہیں، ہم اس گلوبل ورلڈ سے نکل کر کائنات کی طرف جا رہے ہیں، خلا کی طرف جا رہے ہیں اور اگلی صدی تک دوسرے سیاروں میں زمین خریدی جا رہی ہوگی۔ پلاٹ ابھی سے بکنا شروع ہو گئے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے وسائل بہت جلد ختم ہو رہے ہیں اور ان وسائل کے لیے ہماری سائنسی ترقی اس کو ممکن بنا دے گی کہ نو آبادیات کا جو نظام ہے، اس کی طرف آئیں۔ لیکن ابھی ہم اس کو نہیں سوچ رہے۔ گلوبل ازم نے ہمیں مجبور کیا ہے کہ ہم مذاہب کے درمیان بین الاقوامی طور پر ہم آہنگی کی بات کریں۔ میرا خیال ہے کہ ہم نے اس میں سرسری طور پراو ر سطحی طور پر تو شرکت کرنا شروع کر دی ہے، لیکن جو مسائل ہیں اور ان کی وجہ سے ہمارے لیے جو مشکلات ہیں، اس کی طرف ابھی ہم نہیں آ رہے، لیکن آئندہ صدی تک خلائی عالمی نظام آنے والا ہے۔ اس میں یہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا اور زمین کی مرکزیت کا تصور بھی چیلنج ہوگا اور بہت سے نئے تصورات آئیں گے۔ میرا خیال ہے کہ اگر قرآن مجید کا مطالعہ کیا جائے تو قرآن مجید جس کائنات کا تصور دیتا ہے، وہ وہ نہیں جس میں ہم اس وقت پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارا جو کائنات کا تصور ہے، وہ بہت ہی ارضی ہے۔ ہم عالمین کی تشریح وتفسیر کرتے ہیں تو زیادہ تر یہ کہتے ہیں کہ ایک عالم حیوانات ہے، ایک عالم نباتات ہے، ایک عالم فلاں ہے اور یہ سب اسی زمین سے متعلق ہے، حالانکہ عالمین کا جو تصور قرآن پاک نے دیا ہے، وہ بہت وسیع ہے۔

یہ مختصر سی باتیں میں اس لیے عرض کر رہا ہوں کہ جہاں ہم تکفیر اور خروج کے مسائل پر بحث کریں اور جہاں اس کے اصول طے کریں، وہاں یہ بھی دیکھیں کہ جن لوگوں نے یہ اصول طے کیے، انھوں نے اپنے زمانے میں جو اس وقت کا تصور تھا، ا س کے تحت انھوں نے بہترین طریقے سے طے کیے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ فریم ورک ہر دور میں قابل عمل ہو۔ جو بہت بڑی تبدیلی آئی، میں اس کی طرف اشارہ کر رہا ہوں کہ ہم اپنی تاریخ سے گزر چکے ہیں۔ ابھی ہم اس پر بھی غور نہیں کر پائے کہ بہت سے نئے چیلنجز بھی بہت جلد ہمارے سامنے آنے والے ہیں، اس لیے ہمارا جو طرز فکر ہے اور جو سوچ ہے، ہ خاصی وسیع ہونی چاہیے، تبھی ہم ان کو صرف آج کے لیے نہیں ، بلکہ کل کے لیے بھی حل کر سکیں گے۔ تو میںیہ چند خیالات شیئر کرنا چاہتا تھا کہ ہم نے اپنے آپ کو بہت ہی محدود کیا ہوا ہے۔ ہمیں ان مسائل پر مسلسل نظر ثانی اور مسلسل غور کرنا چاہیے اور ایک ایسا فورم پاکستان میں بننا چاہیے جس میں صرف وقتی طور پر نہیں بلکہ مسلسل اس پر غور ہوتا ہے ۔

آخر میں، میں یہ عرض کروں گا کہ عرب دنیا کے بارے میں جو تصور تھا کہ بہت ہی authoritarian معاشرہ ہے، یہاں بھی انقلاب نہیں آئے گا، کبھی تبدیلی نہیں آئے گی، وہاں بھی انقلابات آ رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں مغرب کا ہاتھ ہے، لیکن یہ تبدیلیاں آئی ہیں اور اس میں مغرب کا ہاتھ بھی ہے کہ جب اندر صورت حال ایسی موجود تھی۔ اور وہ ابہامات جو ابھی تک ہمارے ہاں ہیں اور ہمیںآگے بڑھنے نہیں دے رہے، وہ ابہامات عرب دنیا میں کافی عرصہ پہلے ٹوٹ چکے تھے۔ یہ بہت سی بحثیں جو آج ہم کر رہے ہیں، وہ بہت عرصہ پہلے اور بہت کھل کر ہو چکی تھیں، باوجود اس بات کے کہ وہ بہت authoritarian سوسائٹی ہے۔ تو اندازہ کیجیے کہ ہمارے ہاں جب انقلاب آئیں گے تو وہ کس طرح کے ہوں گے۔

محمد مجتبیٰ راٹھور — (پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز)

موضوع کے حوالے سے بحث دو طرح کا تقاضا کرتی ہے۔ (1 ) قرآن و سنت اور فقہاء کی آراء پر مبنی دلائل پیش کئے جائیں۔ (2) عقلی، منطقی اور واقعاتی دلائل پیش کئے جائیں، واقعاتی دلائل سے مُراد موجودہ دور اور حالات کے اعتبار سے اجتہادی رائے قائم کی جائے۔

اس بحث کا سب سے اہم نکتہ ’’الولاء والبراء‘‘ ہے۔ یعنی ’’دوستی اور دشمنی‘‘۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج مسلمان ممالک بالخصوص پاکستان کے حکمرانوں کو اس دلیل کے ساتھ مرتد قرار دیا جا رہا ہے کہ انہوں نے یہودی اور عیسائی ممالک امریکہ وغیرہ سے دوستیاں کر رکھی ہیں اور وہ اسلام کو ختم کرنے میں انکا ساتھ دے رہے ہیں۔ ایسے قول کے حامل افراد کا یہ کہنا ہے کہ صلیبی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے اور اس کفرواسلام کی جنگ میں جس نے کفر کا ساتھ دیا وہ مرتد ہوا۔ ان کے بقول یورپ و امریکہ کی اہل اسلام کے خلاف جنگ کا اصل مقصد نہ تو تیل یا زمین پر قبضہ ہے، اور نہ ہی سرمایہ دارانہ نظام کو غالب کرنا اس کا آخری ہدف ہے۔ یہ ایک خالص مذہبی جنگ ہے جس کا مقصد اللہ کے دین کو اور اس دین پر عمل کرنے والوں کو مٹانا یا کم از کم مغلوب کرکے رکھنا ہے۔‘‘ پاکستان نے چونکہ افغانستان میں امریکہ کو جنگ کے لئے لاجسٹک سپورٹ، انٹیلی جنس اور فضائی اڈے دئیے، اس لئے یہاں کے حکمران اور ادارے مرتد ہیں اور انکے خلاف جہاد بھی جہاد حقیقی ہے۔

جو دلائل انہوں نے پیش کیے ہیں، وہ درج ذیل ہیں:

(1) ’’اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بتاؤ۔ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا۔ وہ بھی انہی میں سے ہو گا۔‘‘ (سورۃالمائدۃ آیت 51 )

(2) اہل کتاب اور عام اہل کفر سے بھی دوستی نہ رکھنے کا حکم ہے: ’’اے ایمان والو! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتابیں دی گئی تھیں۔ ان کو اور کافروں کو جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے۔ دوست نہ بناؤ‘‘ (سورۃ المائدۃ آیت 57)

(3) ’’اور اگر وہ خدا پر اور پیغمبر پر اور جو کتاب ان پر نازل ہوئی تھی، اس پر یقین رکھتے تو ان لوگوں کو دوست نہ بناتے۔‘‘ (سورۃ المائدۃ آیت81 )

اسی طرح سورۃ النساء آیت 139&140 بھی اسی مفہوم کو بیان کرتی ہے۔

اسی طرح حضرت عمر فاروقؓ کا قول ’’ذمیوں کے ساتھ مکاتبت نہ رکھو، ورنہ تم میں اور ان میں محبت پیدا ہو جائے گی۔ ان کو پناہ مت دو، اور ان کو ذلیل رکھو، مگر ہاں ان پر ظلم نہ کرو‘‘۔

ان تمام دلائل کی بنا پر وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ہم نہ تو ان حکمرانوں کے خلاف خروج کر رہے ہیں اور نہ ہی کوئی اقدامی جہاد، بلکہ ہم تو دفاعی جہاد کر رہے ہیں۔ کیونکہ پاکستان ایک مقبوضہ ملک ہے جس کو ہم امریکی قبضے سے چھڑوا رہے ہیں اور چونکہ افغانستان میں امارت اسلامیہ قائم تھی۔ پاکستانی فوج نے امریکہ کے ساتھ مل کر امارت اسلامیہ کو گرایاہے، لہٰذا ہم اس کے دفاع میں یہ جنگ کر رہے ہیں۔دوسرے ان کا یہ کہنا ہے کہ اگر ہم اسے خروج مان لیتے ہیں تو پھر بھی ہم برحق ہیں، کیونکہ مرتد حاکم کو معزول کرنا واجب ہے۔ اور پاکستان کی افواج اور حکومت کے ارتداد کے اسباب میں یہ بھی ایک سبب ہے کہ انہوں نے کفرو اسلام کی جنگ میں کفار کی مدد کی اور صریح کفر یا کفر بواح کے مرتکب ٹھہرے۔ اس کے دلائل میں مذکورہ قرآنی آیات کو پیش کرتے ہیں۔ ان کی دوسری دلیل علمائے کرام کے ایک گروہ کا فتویٰ ہے جس نے اکتوبر2001 ؁ء میں امریکہ کا ساتھ دینے والوں کے خلا ف کفر کا فتویٰ جاری کیا۔ اس کے ساتھ وہ 500 علماء کے دستخطوں سے وانا جنوبی وزیرستان میں پاکستانی افواج کے پہلے آپریشن پر لال مسجد سے جاری ہونے والے فتویٰ بھی بطور دلیل استعمال کرتے ہیں۔

تیسری ان کی دلیل یہ ہے کہ یہ سارے کا سارا نظام کفر پر مبنی ہے اور یہاں تمام قوانین کفریہ ہیں۔ اس لئے ایسے نظام کے خلاف جہاد کرنا واجب ہے۔اور وہ تمام ایسے علماء اور مسلمان جو ہمارے اس جہاد کے مخالف ہیں وہ مرتد اور گمراہ ہیں۔

ان دلائل سے جو نکات سامنے آتے ہیں، ان میں سے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ کیا غیر مسلموں سے تعلقات قائم کرنا یا معاملات طے کرنا مطلقاً حرام قرار دے دیے گئے تو ایسا ہر گز نہیں ہے۔ اس حوالے سے ہمیں کتاب السیر کے عنوان سے بیان کی گئی احادیث اور فقہاء کی آراء کا مطالعہ کرنا ہو گا۔ امام فخر الدین رازی ان آیات کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’یہ جان لیجیے، جو مومن بھی کسی کافر سے دوستی کرتا ہے، اس کی تین صورتیں ہیں۔ 

(1) اگر کوئی مسلمان کسی کافر سے اس کے کفر کی بناء پر دوستی کرتا ہے تو یہ شخص ایسا کام کرتا ہے جس سے صاف طور پر قرآن و سنت نے منع کر دیا ہے۔اس صورت میں اس کا مومن ہونے کی حیثیت پر برقرار رہنا ناممکن ہے۔

(2) دنیا کے اندر رہتے ہوئے ایک خوبصورت معاشرے کے قیام میں صرف ظاہری طور پر ان کے ساتھ رابطہ اور وابستگی رکھنا۔ ایسی صورت میں باہمی میل ملاپ اور حسن معاشرت منع اور حرام نہیں۔ (اپنے دین اور مذہب ، عقائد و نظریات کو قائم اور ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے باہمی تعلقات قائم کیے جا سکتے ہیں)

(3) کافروں سے دوستی کی تیسری صورت پہلی دو صورتوں کے درمیان ہے۔ وہ یہ کہ اگر کافروں سے دوستی ان کی طرف مائل ہونے، ان کی مدد کرنے، ان کو سپورٹ کرنے اور ان سے تعاون کرنے کی حد تک ہو اور یہ جھکاؤ یا مدد بھی کسی نسبی قرابت یا محبت بھرے جذبات کے سبب ہو، لیکن عقیدے اور نظریے میں یہ بات شامل ہو کہ جس کافر سے میری دوستی ہے، اس کا دین اور مذہب غلط ہے۔ اگر اس قسم کی دوستی ہو تو اس دوستی سے بندہ کافر نہیں ہو جاتا، مگر یاد رکھیے۔ اس سے دوستی کرنا ویسے ممنوع، ناجائز اور حرام ہے۔ اس لئے کہ صرف اس حد تک دوستی بھی آہستہ آہستہ اس مقام پر لے جائے گی کہ وہ ان کے طریقہ کار اور طرزِ حیات کو پسند کرنے لگے گا اور بالآخر ان کے دین اور مذہب کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنے لگ جائے گا۔ صاف ظاہر ہے کہ اگر وہ اس حد تک پہنچ گیا۔ تو پھر یہ دوستی اس کو اسلام سے خارج کرکے کافرو مرتد بنا دے گی۔‘‘

اس تفسیر سے الولاء کے معنی کافی حد تک سمجھ میں آسکتے ہیں ۔ جبکہ البراء کے معنی کی طرف جائیں تو اسکا معنی ہے برأت کا اظہار کرنا، جسے دشمنی بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی مسلمانوں کو یہ کہا گیا کہ وہ کفار سے برأت کا اظہار کریں۔ صحابہ کرامؓ کے حوالے سے قرآن پاک کی اس آیت ’’أشداء علی الکفار‘‘ کوا لبراء کے مفہوم میں بیان کیا جاتا ہے۔

قرآن پاک کی جن آیات سے الولاء والبراء ’’یعنی دوستی اور دشمنی کا مفہوم تصور کیا گیا ہے، ان کے اسباب نزول یاسیاق و سباق کو اگر ہم مدنظر نہ بھی رکھیں اور اسے ظاہری معنی پر محمول کریں تو پھر بھی قرآن پاک کی دیگر آیات جن میں کفارومشرکین اور أہل کتاب سے معاملات کا ذکر ہے، ان کے درمیان مطابقت قائم کرنے کے لئے ہمیں دوستی اور دشمنی کے معیار مقرر کرنا ہوں گے جیسا کہ امام فخرالدین رازی نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا۔ قرآن پاک کی یہ آیات جن میں کفارومشرکین کے ساتھ دوستی کے انجام کا ذکر ہے، وہ یقیناًیہی صورت ہے جب ان سے ان کے کفر کی بناء پر یا ان کے مذہب کو درست سمجھتے ہوئے ان سے دوستی کی جائے۔اگر یہ تعلقات مستقل مخاصمت اور دشمنی پر مبنی ہوں، جیسا کہ ایک گروہ نے اس سے مفہوم اخذ کیا ہے، تو یہ صراحۃً اسلام کے اس آفاتی پیغام کی نفی ہے جس نے اسے تمام کائنات کا سب سے افضل مذہب قرار دیا ہے کہ یہ تمام انسانوں کے لئے باعث سلامتی ہے۔ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو تمام کائنات کے لئے امن و سلامتی کا پیغام اور روشنی لے کر آیا۔ اسلام نے یہ قرار دیا کہ قوموں کے درمیان تعلقات کی بنیاد اسی طرح سلامتی پر مبنی ہو، جیسے افراد کے تعلقات ایک دوسرے کے ساتھ سلامتی پر مبنی ہیں۔ اسلام نے بہت سے ایسے قواعد بیان کیے ہیں جن میں تمام انسانیت کے تخفظ کی بات کی گئی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات عامہ کے قوانین اور میشاق انسانی حقوق اسلام کے پیغام کے آئینہ دار ہیں۔ ڈاکٹر وہبۃ الزحیلی اپنی کتاب ’’آثارالحرب فی الفقہ الاسلامی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ یہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین جس اصول کی آج پیروی کر رہے ہیں اس کا اعلان اسلام نے 14 صدیاں پہلے کر دیا۔ 

ملکی قوانین کے ماہرین کہتے ہیں کہ دو ممالک کے درمیان فطری طور پر ہی امن ہوتا ہے۔ اس امن کو تقویت اس وقت ملتی ہے جب دونوں ممالک کی تجارت شروع ہوتی ہے۔ حقیقت میں اسلام معاہدات کو فروغ دیتا ہے تاکہ عملی طور پر سلامتی ممکن ہو سکے۔ اس سلامتی کو برقرار رکھنے کے لئے بہت سی تدابیر اور حدود اختیار کرنی پڑتی ہیں۔اسلام نے فرد اور معاشرے کے درمیان تعلق کی بنیاد محبت پر رکھی۔ پھر تعاون اور امن سے اس کو مضبوط کیا تاکہ تمام افراد اور معاشرہ کے درمیان تعلق مضبوط ہو سکے۔در حقیقت دین اسلام امت مسلمہ کو امن و سکون کے ساتھ رہنے کے لئے تیار کرتا ہے۔ اسلام مسلمانوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ دوسری اقوام کے ساتھ تعلقات میں سلامتی کو ترجیح دیں اور ظلم و زیادتی نہ کریں۔ اور انہیں اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ زیادتی کا جواب بقدر زیادتی دیں۔ اسلامی ممالک کے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کئی صدیوں سے قائم ہیں اور اسلام نے اپنے ابتدائی زمانے میں ہی سفارتی تعلقات کا ایک بہترین نظام مرتب کیا، یہ اسی طرح تھا جیسے آج کل سفیروں کا تبادلہ، وزراء کے وفود کا تبادلہ، مختلف معاہدات پر دستخط یہ ساری باتیں اسلام کے ابتدائی دور میں موجود تھیں۔ خاص طور پر جب دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد اقوام متحدہ کی تشکیل ہوئی تو تمام اسلامی ممالک نے اس کی تائید کی اور اس کا حصّہ بنے اور بین الاقوامی قوانین کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ 

ایک اور اہم نکتہ کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کی کوئی حیثیت نہیں یا یہ کہ یہ اسلام کے منافی ہیں یا یہ بات کہ چونکہ اقوام متحدہ میں بڑے ممالک کی اجارہ داری ہے، اس لئے ہم اسے نہیں مانتے۔ تو پہلی بات یہ کہ تمام اسلامی ممالک اقوام متحدہ کے ممبر کی حیثیت سے ان تمام قوانین کے بنانے اور انہیں تحریری شکل میں لانے کے تمام عمل میں شریک ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ایسا قانون جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہے اور اسلامی ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ اس کو منظور نہیں ہونا چاہیے تو بین الاقوامی قانون نے ریاستوں کا یہ حق تسلیم کیا ہے کہ وہ چاہیں تو اس مسّودے کو مسترد یا اس کی بعض دفعات کو ماننے سے انکار کر دیں اور اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کریں۔

دوسری بات یہ کہ بین الاقوامی قانون یا تو عرف یعنی رسم ورواج پر مبنی ہیں اور یا معاہدات کی شکل میں ہیں اور دونوں مآخذ کو غیر اسلامی نہیں قرار دیا جا سکتا۔ بین الاقوامی عرف اور رسم و وراج میں تو بہت سی باتیں ایسی ہیں جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان مشترک ہیں۔ جیسے سفیروں کی حفاظت کا اصول شریعت نے خود فراہم کیا اور غیر مسلموں نے بھی تسلیم کیا۔ (اس بارے میں تفصیلی بحث پروفیسر محمد مشتاق احمد نے اپنی کتاب ’’جہاد، مزاحمت اور بغاوت‘‘ میں کی ہے)۔

دوسرے گروہ کا یہ استدلال کہ حکمرانوں نے یہودی یا عیسائیوں سے دوستیاں کر رکھی ہیں، ایک خام خیالی ہے۔ یہ دور ایسا آچکا ہے کہ یہاں مسلمان ممالک بھی آپس میں دوستیاں نہیں کرتے بلکہ اپنے اپنے ملک کا مفاد دیکھتے ہیں، چہ جائیکہ پاکستان کسی غیر مسلم ملک کے مفاد کے تحت کام کرے۔ آج کے حالات کی فہم رکھنے والا شخص کبھی بھی یہ بات نہیں کرے گا۔رہی بات صلیبی جنگ یا کفرواسلام کے معرکے کی تو ہمیں دنیا میں اس قسم کی کوئی صورتحال نظر نہیں آتی، وگرنہ غیر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمان ہم سے زیادہ سہولت میں نہ رہ رہے ہوتے۔ جب کوئی ایسا معرکہ آیا تو دنیا خود پکارے گی۔

پاکستان کا امریکہ یا NATO کا ساتھ دینا درست تھا یا غلط ،بین الاقوامی معاہدات کے تحت پاکستان اس بات کا پابند تھا کہ وہ اس موقع پر اقوام عالم کا ساتھ دیتا، لیکن اس تعاون کی حدود کا تعین یقیناًہماری حکومت کے اختیار میں تھا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حکومت کے اس وقت کچھ فیصلے درست نہیں ہوں گے۔ لیکن قومی مفاد کے تناظر میں ہماری مذہبی اور سیاسی قیادت بھی حکومت وقت کے ساتھ ان فیصلوں میں شریک رہی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہماری قیادت اس بات پر متفق ہے کہ جو لوگ پاکستان پر حملے کر رہے ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی جائے اگر وہ حکومت کے ساتھ مذکرات پر آمادہ نہ ہوں یا راہ راست پر نہ آئیں۔ سوات آپریشن اس کی واضح مثال ہے جب ساری قیادت نے اس کی تائید کی، البتہ کچھ مذہبی حلقے اس وقت بھی مخالفت میں تھے۔ لیکن ایک بڑا مذہبی طبقہ حمایت میں بھی تھاجس میں تمام مکاتب فکر شامل تھے۔ تو یہ کہنا کہ ساری زیادتی یا ظلم حکومت کی طرف سے ہو رہا ہے تو ہمارے مذہبی طبقہ کو اس جنگ کا کوئی نہ کوئی حل پیش کرنا ہو گا۔ اسی حوالے سے حکومت یا اداروں کے خلاف مرتد ہونے کا جو فتویٰ جاری کیا گیا ہے، ہمارے مذہبی راہنماؤں کو یقیناًاس کا موثر طور پر جواب دینا چاہیے۔

تکفیر کا جو مسئلہ ہے، فقہاء اور علمائے کرام کو اس پر بھی روشنی ڈالنی ہو گی کہ اگر کسی موقع پر ہمارے حکمران یاافواج کفرکے مرتکب ہوئے تو ہماری مذہبی قیادت میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ خود اس معاملہ کو دیکھ سکیں۔

اسی بحث کادوسرا اہم موضوع ’’شریعت کا نفاذ یا نظام کی تبدیلی ہے‘‘۔ ایک گروہ مسلسل یہ دلیل پیش کر رہا ہے کہ چونکہ پاکستان میں سارے کا سارا نظام ہی کفریہ ہے، یہاں تک کہ جمہوریت بھی کفریہ نظام ہے، یہاں کی عدلیہ، ادارے، حکمران اسی کفریہ نظام کا حصّہ ہیں اور وہ اس ملک میں اسلام کے نفاذ کی سب سے بڑے رکاوٹ ہیں، اس لیے ہم جہاد کے ذریعے اس نظام کو بدلنا چاہتے ہیں اور اسلامی نظام لانا چاہتے ہیں۔ جو دلیل حق میں پیش کی جاتی ہے، وہ أمربالمعروف و نہی عن المنکر ہے کہ چونکہ یہ علمائے کرام کا فریضہ ہے، اس لئے حدود اللہ اور اقامت دین ہم پر واجب ہے اور اس کے لئے جہاد کرنا ہم پر فرض ہے۔ اسی حوالے سے حدیث مبارکہ ’’تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روکے، اگر اسکی اسطاعت نہ ہو تو زبان سے اور اگر زبان سے روکنے کی قدرت نہ ہو تو دل میں برا خیال کرے‘‘ پیش کی جاتی ہے۔ 

جمہوریت، جمہوری نظام یا پاکستانی آئین کو غیر اسلامی ثابت کرنے کے لئے بے شمار کتابیں لکھی کی جا چکی ہیں، لیکن متبادل کے طور پر جو خلافت کا تصور پیش کیا جاتا ہے، اس کا حصول آج کے دور اور حالات میں دور دور تک نظر نہیں آتا۔ جب تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں توہمارے سامنے نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے جس کا مفہوم ہے کہ میرے بعد خلافت تیس سال تک جاری رہے گی، اس کے بعد ملوکیت ہو گی۔ خلافت راشدہ کا دور تو آنا ناممکن ہے، جیسا کہ ایک اور حدیث کے مطابق فقہائے کرام مختلف ادوار کو اس طرح تقسیم کرتے ہیں کہ سب سے بہترین دور نبی کریم کا ہے، پھر اس کے بعد خلافت راشدہ کا ہے۔ پھر اس کے بعد کا دور ہے۔ تو اس اعتبار سے دیکھا جائے تو آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اگر قرآن پاک کے اس حکم کو دیکھا جائے کہ أطیعوا اللہ وأ طیعوا الرسول واودلی الأمر منکم۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ولی أمر جو ہو گا، وہ لوگوں میں سے ہی ہو گا۔ تو آج کے دور کے جو مسلمان ہیں، اسی اعتبار سے وہ حکمران بھی ہو گا۔ اگر کوئی فرشتہ آ بھی جائے، تو امور سلطنت چلانے کے لیے کیا ایک آدمی کافی ہوتا ہے؟ یا تو ایسا نظام لانے کے لئے افراد کی اس نہج پر تیاری کی جائے یا پھر موجودہ حالات کے مطابق کوئی ایسا نظام وضع کیا جائے جو شریعت سے مطابقت رکھتا ہو۔

رہی بات افراد کی تیاری کی، تو افراد تیار کرنے کے لیے ہمیں ایسے باکردار علماء کی ضرورت ہو گی جو دوسرے لوگوں کے لیے ایک نمونہ ہوں۔ کیونکہ جو راہنما ہوتا ہے، وہ عبادات، اخلاقیات، معاملات میں سب سے یکتا اور منفرد ہوتا ہے۔ مگر ہم یا تو عبادات پر زور دیتے رہتے ہیں اور اخلاق سے عاری ہوتے ہیں۔ یا اخلاق تو اچھا بنانے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن عبادات اور معاملات پر توجہ نہیں دیتے۔دوسری بات اگر موجودہ حالات کے مطابق نظام وضع کیا جائے تو کیا ہم اتنی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کہ اس ملک میں ایسا نظام لے آئیں جو تمام طبقات کے لئے قابلِ قبول ہو یا جس کے خلاف بغاوت کا امکان نہ ہو یا ہمارے پاس اتنی عوامی حمایت ہے کہ ہم وہ نظام لا بھی سکیں گے۔اگر نہیں تو ہمیں اس پر غور کرنا ہو گا کہ جس طرح ہمارے مذہبی قائدین موجودہ جمہوری نظام کے اندر رہ کر جدوجہد میں مصروف ہیں۔ اور ساتھ ساتھ اگر عوامی رائے عامہ ہموار کر رہے ہیں۔ تو ان لوگوں کو بھی اپنے رویوں پر غور کرنا ہو گا جو تشدد کے ذریعے نظام کی تبدیلی کے حق میں ہیں۔اس بارے میں جماعت اسلامی کے راہنما مولانا گوہر رحمن صاحب مرحوم کا ایک کتابچہ نفاذ شریعت کا راستہ ’’مسلح یا دعوتی اور انتخابی‘‘ کا اگر مطالعہ کریں تو انہوں نے دلائل کے ساتھ کچھ حقیقتیں بیان کی ہیں۔

اب اگر ان شرعی دلائل کا موازنہ کیاجائے جو عسکری جدوجہد کے حق میں پیش کئے جاتے ہیں تو خروج کی بحث میں علمائے کرام اور فقہائے کرام نے بالتفصیل اس بات کا ذکر کیا ہے کہ کیا نفاذ شریعت کے لئے مسلم معاشرے میں خروج جائز ہے؟ فقہائے کرام نے کہا ہے کہ کفر بواح کی صورت میں بھی خروج اس وقت ضروری ہے جب دو شرطیں پائی جائیں۔ (1) تغییر بالید کی صحیح طاقت ہو، یعنی اس کے استعمال کے نتیجے میں اس سے بڑا کوئی فتنہ کھڑا ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ (2) جو شرعی حدود ہیں ان کا پورا لحاظ رکھا جائے اور رائے عامہ ہموار کی جائے۔

اسی بحث کا دوسرا پہلو ’’أمربالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ ہے۔ اس حوالے سے اگر ہم قرآن و سنت کا مطالعہ کریں تو اسلام نے ’’امربالمعروف ونہی عن المنکر‘‘ کو مسلمانوں کے لئے فرض کفایہ قرار دیا ہے۔ 

’’اور چاہئے کہ تم میں ایک گروہ ایسا ہو جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائے اور اچھائی کا حکم دے اور برائی سے روکے‘‘ (سورۃ آل عمران آیت104)

فقہائے کرام نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آج کے دور میں علماء، فقہاء اور دین اسلام کی مکمل سمجھ بوجھ رکھنے والے مسلمان یہ فریضہ ادا کر سکتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انفرادی سطح پر بھی ہر مسلمان پر یہ لازمی ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار کے اندر اچھائی کی تلقین کرے اور برائی سے روکے، جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اس سے اسکی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘

بعض مسلمانوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ’’من رأی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ‘‘ سے استدلال کرتے ہوئے طاقت کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے۔ فقہائے کرام اس سلسلے میں بنیادی اصول یہ بیان کرتے ہیں کہ نہی عن المنکر کے حکم کے لیے طاقت کے استعمال کے لئے ولایۃ یعنی قانونی اختیار کی موجودگی شرط ہے اور صاحب ولایہ صرف ان لوگوں کے خلاف طاقت استعمال کر سکتا ہے جن کے اوپر اسے ولایہ حاصل ہے۔یہ ولایہ یا تو باہمی تعلق کی بنا پر قائم ہوتی ہے، جیسے باپ کی اپنے بیٹے پر اور کفیل یا وکیل کی عقد کفالت اور وکالت میں اپنے نمائندے کے لئے ہوتی ہے، یا شریعت نے ولایہ کا اختیار حکومت کے سپرد کیا ہے جو مختلف عدالتوں کے ذمے یہ سونپ دیتی ہے۔ اب ان عدالتوں اور قاضیوں کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی حکم کو جبری نافذ کر سکیں۔ اگر کوئی عام شخص ایسا کرے گا تو وہ معاشرے میں فتنہ و فساد برپا کرنے کا سبب بنے گا۔

تاریخ اسلام بھی اس بات کی شاہد ہے کہ علمائے حق نے جابر حکمرانوں کے ظلم و ستم کا سامنا کیا اور کلمہ حق بلند کرتے رہے، مگر انہوں نے کبھی بھی عوام کو ہتھیار اٹھانے کے لئے نہیں کہا۔

بحث کاتیسرا اہم موضوع ’’فرضیت جہاد‘‘ ہے۔ جہاد کی فرضیت میں کسی مسلمان کو شک نہیں اور شک ہونا بھی نہیں چاہئے۔ علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ جہاد کب فرض عین ہوتا اور کب فرض کفایہ لیکن اختلاف اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مسلمانوں کا کوئی گروہ کسی جنگ میں کود پڑتا ہے اور اسے جہاد کا نام دے دیا جاتا ہے اور پھر جہاد فی سبیل اللہ کے نام پرسارے مسلمانوں کو اس جنگ کی ترغیب دی جاتی ہے۔ تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو ہمیں جنگوں کی ایک لمبی تاریخ ملتی ہے، لیکن ہر جنگ پر جہاد کا اطلاق نہیں کیا گیا۔ لیکن ہمارے ہاں جہاد اتنا منفعت بخش کاروبار بن چکا ہے کہ آپ اس کا اطلاق کہیں بھی کر سکتے ہیں۔ جہاد افغانستان کے نام سے اس کی ابتداء1980 ؁ء میں ہوئی۔ پھر جہاد کشمیر سامنے آیا اور اب کئی محاذوں پر جہاد کا نام استعمال ہو رہا ہے۔ افغانستان میں جہاد، پاکستان میں جہاد، امریکہ کے خلاف جہاد، ہندؤں کے خلاف جہاد، اسرائیل کے خلاف جہاد، شیعہ کے خلاف جہاد، شرک کے خلاف جہاد، سنیوں کے خلاف جہاد، اور پھر اسی تناظر میں جہاد کی اہمیت کے موضوع پر لاتعداد کتابیں تصنیف ہوئیں۔ آج کا مسلمان اسی مخمصے کا شکار ہے کہ وہ کس جنگ کو جہاد کہے اور کس کو نہ کہے۔ 

جہاد کے حوالے سے ایک گروہ کا یہ خیال ہے کہ ہمیں جہاد ہر حال میں جاری رکھنا چاہئے تاکہ دنیا سے کفر کا خاتمہ ہو، اور یہی منشائے اسلام ہے۔ الأقرب فالأقرب کے تحت وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دینا چاہئے اور اسی طرح اس جہاد کو پھیلاتے ہوئے ہندوستان کو فتح کرنا ہوگا اور پھر امریکہ، اسرائیل، برطانیہ وغیرہ کو جہاد کی بدولت حاصل کرنا ہے۔ اسی نقطۂ نظر کو عالمی جہادی ایجنڈے کا نام دیا جاتا ہے۔ اگر ہمارے علمائے کرام اور مذہبی طبقہ جہاد کے تمام اصول وضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی جنگ کو جہاد قرار دیتے تو صورتحال یکسر مختلف ہوتی اور مسلمان بھی یوں نہ غوطے کھاتے، مگر ریاستی دباؤ اور مصلحت کے پیش نظرمسائل جنم لیتے رہے۔ 

آخر میں اس تمام بحث کے نتیجے میں یہ بات قابل غور ہوگی کہ جو لوگ یا گروہ اس وقت پاکستانی حکومت ، اداروں اور عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، ان پر کیا حکم لگایا جائے؟ اگرچہ کچھ لوگ تو اسے بدلے کی جنگ یا ردعمل قرار دیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود کیا ان کا یہ عمل بغاوت اور خروج کے ضمن میں نہیں آئے گا؟ دینی اور مذہبی راہنما اور مفکر اس بارے میں عوام کو ضرور راہنمائی فراہم کریں۔ 

محمد زاہد صدیق مغل

آج کی جو گفتگو ہے تکفیر وخروج موجودہ حالات کے تناظر میں، میں جن نکات پر گفتگو کرنے کی کوشش کروں گا، وہ ہے عصر حاضر میں خروج کا جواز اور شبہات کا جائزہ۔ قبل اس کے کہ میں موضوع کی طرف آؤں، مناسب ہوگا کہ میں اپنی گفتگو کا اسٹرکچر آپ کے سامنے رکھ دوں۔ 

پہلے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ جو عمومی رویہ ہے خروج کے بارے میں، وہ کیا ہے؟ جیسا کہ ابھی ایک مضمون پڑھا گیا، اس میں بھی ایک رائے سامنے آ گئی، لہٰذا میں اس پر کوئی خاص گفتگو نہیں کروں گا۔ دوسری چیز ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ موجودہ دور میں جو خروج کی تحریکیں ہیں، وہ کیوں عام ہوئیں اور جیسا کہ ابتداء میں اس پر گفتگو بھی ہوئی کہ عالمی تناظر میں کچھ ایسی تبدیلیاں آئیں کہ جس نے وہ فقہی تناظر جو فقہاء کرام نے ڈویلپ کیا تھا، وہ آج کیو ں relevant بظاہر نظر آتا ہے ۔ اور تیسرے مرحلے پر میں یہ گفتگو کروں گا کہ فقہاء کرام کے جن اقوال کو خروج کے خلاف بطو دلیل پیش کیا جاتا ہے، اس میں کیا بنیادی خامی ہے۔ خروج کے لیے علماء کرام نے بحیثیت مجموعی جو پوزیشن اختیار کی ہے اسلامی تاریخ میں اور ان کے جو دلائل ہیں، وہ کیا ہیں۔ اور آخری حصے میں عام طور پر جو خروج کے خلاف گفتگو کی جاتی ہے اور اس پر جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں اور جو اعتراضات اور شبہات پیش کیے جاتے ہیں، اس میں کیا ابہامات ہیں اور کیا مسائل ہیں۔

جیسا کہ میں نے کہا، پہلے ضروری ہے کہ خروج کی بحث کو موجودہ context میں سمجھنے کے لیے آج کی جو کچھ اصولی تبدیلیاں یں اور اصولی مباحث ہیں، انھیں سمجھ لیں۔ پہلی بات جو کہ بہت اہم ہے اور سمجھنے کی ہے کہ ریاست اور حکومت میں بڑا بنیادی فرق ہوتا ہے۔ اس بنیادی فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ریاست سے مراد نظام اقتدار ہے۔ یہ system of obedience کا نام ہوتا ہے، جبکہ حکومت محض اس کا ایک جزو ہے۔ اس بات کو اگر ہم نے سمجھنا ہے تو جمہوریت سے اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ ویسے تو جمہوریت کے بارے میں ہماری جو عام understandingہے، وہ بھی درست نہیں کہ ہم عام طور پر جمہوریت کو محدود کر دیتے ہیں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ تک، جبکہ جمہوریت بطور نظام ایک بڑے وسیع سسٹم کا نام ہے۔ تفصیل میں جانے کا وقت نہیں، کیونکہ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے کہ جمہوریت اصل میں ہے کیا؟ جمہوری نظام کے اگر کلیدی اداروں کا نام لوں جن کے ذریعے کسی معاشرے میں جمہوری نظام اطاعت قائم کیا جاتا ہے تو اس میں مقننہ، بیورو کریسی، ٹیکنو کریسی، سرمایہ دار طبقہ اور وہ علوم جن کو ہم social sciences کے نام سے جانتے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح کرتا جاؤں کہ ہمارے نزدیک جن علوم کوہم سوشل سائنسز کہتے ہیں، ان کا سرمایہ داری سے وہی تعلق ہے جو کہ فقہ کا اسلام کے ساتھ ہے۔ 

فوج، پولیس، کارپوریشن اور فنانشل ادارے جن کو ہم محض معاشرتی ادارے کہتے ہیں، یہ بھی جمہوریت کے کلیدی ادارے ہیں جن کے ذریعے سے جمہوری system of obedience کی معاشرے پر مسلط کیا جاتا ہے۔ پھر اگر ہم وہ افراد دیکھیں جو جمہوری نظام کی عقلیت کو معاشرے میں فروغ دیتے ہیں، اس میں جو اہم لوگ ہیں، وہ دانش ور ہوتے ہیں جو سرمایہ دارانہ rationality کو فروغ دیتے ہیں۔ کلچرل ہیروز مثلاً سپورٹس مین، سائنس دان یہ وہ لوگ ہیں جو علما اور صوفیاء کی جگہ لے لیتے ہیں۔ جمہوریت کے اندر ٹیکنو کریٹ اور سرمایہ دار استعماری ایجنٹ ہوتے ہیں۔ نکتہ یہ ہے کہ جمہوریت صرف حکومت کی بالائی سطح کا نام نہیں ہے جس کو ہم مقننہ کہتے ہیں، بلکہ جمہوریت ان تمام اداروں کے ذریعے سے کسی معاشرے میں سرمایہ دارانہ عقلیت کو غالب کرنے کی کوشش کرنے کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر آپ ڈیما کریسی پر لٹریچر پڑھیں تو یہ بات بالکل واضح ہے، جمہوریت کے سیاسی نظریے کے جو طالب علم ہیں، وہ جانتے ہیں کہ جمہوریت کی دو شکلیں ہیں۔ ہم عام طور پر جمہوریت کو contrastکرنے کی کوشش کرتے ہیں ڈکٹیٹر شپ کے ساتھ جبکہ یہ غلط ہے۔ جمہوریت کی دو شکلیں ہیں۔ ایک ہے لبرل جمہوریت جس میں یہ ووٹنگ کا عمل ہوتا ہے اور ایک ہے آمرانہ جمہوریت جس کو illiberal democracyکہتے ہیں۔ illiberal democracy یہ ہوتی ہے کہ ادارے تو یہی ہوتے ہیں جن کے ذریعے سے system of obedience کو قائم کیا جاتا ہے، بس یہ ووٹنگ کا عمل ختم کر دیا جاتا ہے۔ وہ کیوں ختم کیا جاتا ہے، یہ ایک مستقل موضوع ہے۔ 

کسی انسانی تاریخ میں human beingکا کوئی تصور موجود نہیں رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی دنیا میں کسی معاشرے پر جمہوری نظام لایا گیا ہے، جبر اور قتل وغارت کے بغیر تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں دی جا سکتی کہ جمہوری نظام کو بغیر جبر کے مسلط کر دیا گیا ہو۔ اگر ہم اپنی تاریخ دیکھیں برصغیر کی تو ہمارے ہاں بھی جمہوریت ایسے نہیں آئی کہ ایک دن ہمیں احساس ہوا کہ بادشاہ بہت کرپٹ ہیں، ہم نے کتابیں لکھی ہیں اور اس کے بعد شعور بیدار ہوا اور جمہوریت آ گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم پر ایک استعمار آیا جس نے بذریعہ قوت وہ تمام ادارے جو system of obedience کو قائم کرتے ہیں، ہم پر بذریعہ جبر مسلط کیے گئے اور جیسے جیسے سرمایہ دارانہ عقلیت فروغ پاتی چلی جاتی ہے، لوگ human being ہوتے چلے جاتے ہیں، سول سوسائٹی عام ہوتی چلی جاتی ہے، اسی رفتار سے جمہوریت کو آمریت سے لبرل جمہوریت میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ یہ جو حالیہ عرب دنیا میں تبدیلی آ رہی ہے، یہ illiberal ڈیماکریسی کو لبرل ڈیما کریسی میں تبدیل کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔

یہ گفتگو کرنے کامقصد یہ ہے کہ حکومت اور ریاست میں بڑا بنیادی فرق ہے۔ دوسری بات یہ سمجھ لینی چاہیے کہ جو جمہوری ریاست ہوتی ہے، وہ کوئی شخصی ریاست نہیں ہوتی۔ وہ institutional ریاست ہوتی ہے۔ تحریک تنویر کے بعد جو ایک سیاسی فکر ڈویلپ ہوئی ہے اور جو اس سے پہلے کی سیاسی فکر ہے، اس میں یہ ایک بڑا بنیادی فرق ہے۔ پہلے ہمیشہ بحث یہ ہوتی تھی کہ حکومت کن لوگوں کے ذریعے سے کی جا رہی ہے اور جو حکومت کر رہا ہے، وہ کیسا ہے جبکہ تنویری فکر کے بعد جو بات سیاسی کلچر کا جو محور ومرکز بن گئی، وہ یہ تھی کہ جن اداروں کے ذریعے حکومت ہو رہی ہے، وہ ادارے کیا ہیں قطع نظر اس سے کہ ان میں جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، وہ کیا ہیں۔ یہ ایک بنیادی فرق ہے جو حکومت اور ریاست کے فرق کو اور خلافت اور ریاست کے فرق کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ 

جب ہم خروج کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں اور فقہاء کرام کے اقوال پیش کرتے ہیں تو یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ خلافت اسلامی کے جو درجات ہیں، وہ کس طرح بیان کیے گئے ہیں اور ہمارے جو کلاسیکل یا متقدمین فقہا اور علما ہیں، انھوں نے اس کو کیسے دیکھا ہے؟ خلافت کا مطلب ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی نیابت یعنی اس بنیاد پر اجتماعی دائرے میں فیصلے کرنا کہ شارع کی رضا کیا ہے۔ خلیفہ خود بھی اس پر عمل کرے گا اور عوام کو بھی اس پر عمل کرانے کا پابند ہے۔ جب ہم خلافت کی درجہ بندی کی بات کرتے ہیں تو اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے مسلمانوں میں ایمان کے درجات ہیں۔ کچھ ایمان میں ابوبکر وعمر جیسے ہیں۔ کچھ دوسرے صحابہ جیسے ہیں۔ کچھ آج کے دور والے مسلمانوں جیسے بھی ہیں۔ خلافت کی مثال بالکل ایسے ہی ہے۔ اس کے سب سے اعلیٰ درجے کو خلافت راشدہ کہتے ہیں اور خلافت راشدہ سے مراد نیابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اجتماعی معاملات کو اسلامی طریقے سے حل کرتے وقت توسع اور رخصتوں کے بجائے تقویٰ کے اعلیٰ معیار کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ اس کی مثال میں یوں عرض کرتا ہوں کہ خلفائے راشدین کو، بعد میں جو ریاستیں قائم ہوئیں، ان سے ممیز کرنے والی اصل چیز جس کی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ اس کو اپنایا جائے، وہ یہ ہے کہ خلفاے راشدین نے خلافت کواپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے کی ادنیٰ کوشش نہیں کی۔ مثلاً خلیفہ کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے لیے ایک کم سے کم معیار کا وظیفہ قبول کرے، لیکن خلفاے راشدین نے ہمیشہ کم سے کم تر پر اکتفا کیا۔ اسی طرح اپنی حفاظت کا بندوبست کرنا بھی جائز ہے، لیکن خلفاے راشدین نے اس کا کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔ تو یہ جو ان کا مزاج ہے کہ نیابت رسول میں کوئی ادنیٰ درجے میں بھی اپنا کوئی ذاتی مقصد پورا نہیں کرنا چاہتے، یہ وہ بنیادی فرق ہے جو محض خلافت کو خلافت راشدہ سے ممیز کرتا ہے۔ 

اس کے بعد جو ریاستیں قائم ہوئیں، ان کو علماے کرام مختلف درجات میں تقسیم کرتے ہیں۔ امارت عادلہ سے مراد یہ ہے کہ خلیفہ عادل ہے، کبائر میں مبتلا نہ ہوتا ہو اور اگر کبائر ہو بھی جائیں تو اس پر وہ کبھی دوام اختیار نہیں کرتا۔ امارت جبر اور امارت ضالہ سے مراد ہے ایک ایسی امارت جس میں فساق مسلمانوں کے حکمران بن جائیں ، لیکن یہ فرق بہت اہم ہے کہ جو فساق ہیں، آیا ان کا فسق متعدی نوعیت کا ہے یا لازم نوعیت کا۔ آیا وہ اپنی ذات میں فسق وفجور کو اختیار کیے ہوئے ہیں یا وہ system of obedience کو بھی تہہ تیغ کرنے کے درپے ہیں۔ یہ بڑا بنیادی فرق ہے۔ اس کے بعد امارت کفر ہے جو بالکل واضح ہے کہ اس میں ریاست کی بنیاد شریعت کی بجائے کسی اور بنیاد پر قائم ہو جیسے ہیومن رائٹس ہیں، کیونکہ ہم ہیومن رائٹس کے بارے میں سمجھتے ہیں کہ یہ لبرل سرمایہ دارانہ نظام کی سیاسی صف بندی کا دوسرا نام ہے۔

قومی ریاستیں ابھی ہم نے آج قائم کی ہیں۔ قومی ریاستیں اسلام کی تاریخ میں کبھی پیش نہیں کی جا سکتیں جہاں یہ دعویٰ کیا جاتا ہو کہ ایک مخصوص جغرافیے کے اندر موجود لوگ کے مادی مفادات کا حصول اور وہ بھی لبرل سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے ان کو محفوظ کرنا، یہ کبھی اسلامی تاریخ کے اندر اس کی مثال موجود نہیں ہے کہ ایک عالمی نظام کے اندر غیر اسلامی بنیادوں پر قائم ہو۔ اسلامی نظام نیابت رسول کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے نہ کہ عوام کی نمائندگی کی بنیاد پر۔ یہ ہمارے ہاں ایک بڑی خلط مبحث کر دی جاتی ہے کہ ہمارے آئین میں یہ لکھا ہوا ہے۔ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے۔ عوام کے لیے تو تقلید ہے نہ یہ کہ وہ مجتہد بن کر قانون سازی کے لیے نمائندے بھیجتے پھریں۔

تیسری بات یہ ہے کہ اسلامی نظام خلافت میں جن علوم کی بالادستی ہوتی ہے، وہ علوم شرعیہ کی ہوتی ہے یعنی فیصلے اس وقت تک اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ہو سکتے جب تک کلام، فقہ، تصوف کی معاشرتی بالادستی قائم نہ ہو جائے۔ جن معاشروں میں ہم رہتے ہیں، جس ریاستی تناظر میں ہم رہتے ہیں اور جو ہماری پالیسیاں ہیں بالکل علمی نوعیت کی، اس میں ہماری سوشل سائنسز کی بالادستی کی بنیاد پر ہمارے سارے سیاسی اور معاشرتی فیصلے ہو رہے ہیں۔ جو دستور ہے جس کو ہم ہیومن رائٹس کہتے ہیں، یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ نظام قضا جسے ہم شریعت کہتے ہیں اور ہیومن رائٹس یا دستور، یہ بالکل ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اسی طرح ایک بہت اہم فرق جس کو ہم undermine کرتے ہیں، وہ یہ کہ سول سوسائٹی یہ بالکل ضد ہے مذہبی معاشرت کی کیونکہ سول سوسائٹی جس rationality کو پروموٹ کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ ذاتی اغراض کی بنا پر، قطع نظر اس سے کہ جس سے میری اغراض پوری ہو رہی ہیں، وہ کافر ہے، فاسق وفاجر ہے یا کیسا ہے۔ تو یہ ایک بڑا بنیادی فرق ہے۔

یہاں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ جو اکثر کہا جاتا ہے کہ ہمارے آئین میں بہت سی اسلامی چیزیں موجود ہیں تو جیسا کہ میں نے کہا کہ جمہوریت کی دو شکلیں ہیں۔ illiberal ڈیما کریسی کے اندر جمہوریت جہاں پہلے دن جاتی ہے، وہاں کبھی پہلے دن peneterate نہیں کر پاتی، کیونکہ مقامی لوگوں کا تناظر ابھی ان کی زبان میں enlightenedنہیں ہوا ہوتا، وہ ابھی پوری طرح human being نہیں بنے ہوتے۔ ان کا تناظر یا تو ان کی روایات کے ساتھ موجود ہوتا ہے یا مذہبی وابستگیاں ہوتی ہیں یا ان کے کچھ اور تعصبات ہوتے ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ ان کے لیے جمہوری نظام کو قابل قبول بنانے کے لیے ایسی لفظی اور نفسیاتی چیزیں ہوں جو ان کی تسکین کا سامان کر سکیں۔ ان کو کچھ ایسی چیزیں فراہم کریں کہ ان کے لیے وہ نظام قابل قبول ہو اور جیسے جیسے یہ نظام جبراً مسلط کیا جاتا ہے، یہ peneterate کرتا چلا جاتا ہے اور ان لوگوں کی وابستگیاں روایات کے ساتھ کمزور ہوتی چلی جاتی ہیں، اسی رفتار سے جمہوری نظام کو illiberal سے لبرل کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔

یہ چار باتیں ہیں جو میرے نزدیک اصولی ہیں اور خروج کو سمجھنے کے یے بہت ضروری ہیں کہ امت مسلمہ میں خروج کی حالیہ جدوجہد کی وجوہات کیا ہیں۔ کیا وجوہات ہیں کہ امت مسلمہ میں خروج کی لہر بیسویں صدی میں اتنی تیز ہو گئی جو اس سے پہلے نہیں تھی۔ اگر ہم تاریخ میں جائیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۲۴ء سے قبل جب خلافت کسی نہ کسی صورت میں اسلامی معاشروں میں قائم تھی اور خلیفہ ریاست کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کی بنا پر حاصل کرتا تھا تو خروج کی مثالیں آپ کو نظر آئیں گی، لیکن شاذ۔ لیکن جب ایک بیرونی قوت نے فوجی، قانونی، سیاسی، سماجی، نظریاتی استبدادی نظام کے ذریعے مسلمان دنیا پراپنا نظام مسلط کر دیا جس کا مقصد مسلمانوں کو روایت پسندانہ اسلام سے enlightened اسلام کی طرف convert کرنا تھا، یہ امت مسلمہ کے لیے پہلی تبدیلی اس نوعیت کی تھی کہ اس سے قبل اسلامی دنیا میں کبھی ایسا دور نہیں گزرا کہ اسلامی ریاستوں اور معاشروں کی بنیاد اسلام کے علاوہ کوئی اور چیز بن گئی ہو اور یقیناًجب استعمار یہاں سے جاتا ہے تو واضح نظر آٹا ہے کہ تقریباً تمام مسلم دنیا میں ایسے لوگ جو سیکولر نظام کے اور لبرل سرمایہ دارانہ نظام کے حامی تھے، اقتدار ان کے ہاتھ میں سونپ دیا جاتا ہے جو اسلام پسند قوتوں کو دبا کر رکھیں۔ ان کے دو بنیادی کام تھے۔ ایک طرف وہ سرمایہ دارانہ نظام کے مقامی رکھوالے بنے اورساتھ ہی ساتھ انھوں نے اسلام پسند طاقتوں کو دیوار سے لگانے کا کام شروع کر دیا اور ایک بہت طویل عرصے تک اسلامی تحریکات کو جھانسا دیا گیا کہ اگر آپ ووٹنگ کے ذریعے سے رائے عامہ کو ہموار کر لیں گے تو اسلام آ جائے گا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ کہیں غلطی سے اگر ایسا ہو بھی گیا، جیسا کہ ہم الجزائر میں دیکھتے ہیں تو وہاں پر اسلامی تحریکات کو اجتماعی نظام میں جو کامیابی حاصل ہوئی، اس کو کالعدم قرار دے کر ان کو اقتدار پر فائز ہونے کی اجازت نہیں دی گئی؟ 

یہاں پر ایک بڑی بحث ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت will of allکی حکومت کا نام ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جمہوریت will of all کی حکومت کا نہیں، یہ general will کی حکومت کا نام ہے۔ یعنی آپ آزادی، مساوات اور ترقی کو ریاست کی بنیاد کے طور پر قبول کریں۔ آزادی کے مختلف طریقے اختیار کرنے کی تو آپ کو جمہوریت میں اجازت ہے لیکن آزادی کو رد کر کے کسی اور بنیاد پر حکومت کی جمہوریت میں کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہیومن رائٹس کسی بھی دستور کا preamble ہوتے ہیں جو کسی بھی طریقے سے ناقابل رد ہوتے ہیں۔ الجزائر میں اسلامک فرنٹ کی حکومت اسی بنیاد پر کالعدم قرار دی گئی کہ اس سے جمہوری نظام کے اور ہیومن رائٹس کے فریم ورک کا جو پورا نظام موجود تھا، اس کو خطرہ تھا، لہٰذا جمہوری مفکرین اس کو بالکل تضاد نہیں سمجھتے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کے تضادات ہیں۔ نہیں، یہ بالکل تضاد نہیں ہے۔ ان کے نزدیک illiberal ڈیما کریسی جائز ہوتی ہے جب جمہوری نظام کو خطرہ ہو، لہٰذا ان کے نزدیک will of all نے general will کو respond نہیں کیا۔ اس کو رد کرنا ان کے نزدیک کوئی جرم اور کوئی تضاد نہیں ہے۔

چنانچہ ایک طرف جب ان کا یہ عمل سامنے آیا اور دوسری طرف ہم نے مغربی فکر کا تفصیلی مطالعہ کیا تو یہ بات بالکل دو اور دو چار کی طرح واضح ہو گئی کہ جمہوریت will of all کی حکومت کا نام نہیں، بلکہ جنرل ول کی حکومت کا نام ہے۔ جس طرح اسلام نام ہے خدا تعالیٰ کی حاکمیت کا، نہ کہ اس بات کا کہ عوام کیا چاہتے ہیں، بالکل اسی طرح جمہوریت اس بنیاد پر حکومت کرنے کا نام نہیں ہے کہ عوام کیا چاہتے ہیں، بلکہ حکومت اس بنیاد پر کی جائے گی کہ عوام کو آزادی چاہنا ہے۔ اگر عوام آزادی نہیں چاہتے تو اس بنیاد پر ان پر ہرقسم کا جبر کرنا یعنی جمہوریت لانے کے لیے ہر قسم کا انقلاب لانا ان کے نزدیک جائز ہے، لیکن جمہوریت کے خلاف انقلاب یا خروج کی بنیاد پر جدوجہد کرنا ان کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ 

اب اگر یہ تناظر واضح ہو جائے تو ہم فقہاء کرام کے اقوال کو بالکل سمجھ سکتے ہیں۔ فقہاء کرام نے امارت عادلہ کے خلاف خروج کو حرام قرار دیا ہے اور یہ بالکل جائز بات ہے کہ جب خلیفہ عادل ہے تو ایسے عادل خلیفہ کے خلاف جو خروج کرتا ہے، وہ یقیناًباغی ہے۔ اس کے ساتھ وہی معاملہ ہوگا جو باغیوں کے ساتھ ہوگا۔ اسی طرح سے خروج کے کچھ expected مفاسد ہوتے ہیں کہ قتل وغارت ہو سکتی ہے، اسلامی system of obedience کو نقصان پہنچ سکتا ہے، اسلام اور مسلمانوں کی شان وشوکت اپنے مخالفین کے مقابلے میں کم ہو سکتی ہے۔ اس تناظر میں فقہاء کرام نے ایسے بادشاہوں کے خلاف خروج سے بھی منع کیا ہے جن کے ہم نے امارت جابر کی اصطلاح استعمال کی ہے، یعنی جن کے مظالم یا ان کی خرابیاں ان کی اپنی ذاتی حیثیت میں ہیں اور وہ نظام اطاعت کو، اسلامی علوم کے غلبے کو اور اس نظام قضا کی بنیاد پر جو پورا نظام اطاعت قائم تھا، اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔ البتہ جب امارت جابرہ کا حاکم ایسا ہو جس کا فسق متعدی نوعیت کا ہو اور صرف اس کی ذات کے اعتبار سے نقصان دہ نہ ہو بلکہ اسلامی نظام کو بحیثیت مجموعی بھی نقصان پہنچ رہا ہو، اس کے متعلق فقہاء کرام کے درمیان شدید اختلاف ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فقہاء کرام کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جنھوں نے اس کے خلاف بھی خروج کرنے سے منع کیا ہے اور وجہ وہی ہے جو بیان کر دی گئی ہے کہ جب قوت اتنی نہیں ہے کہ آپ ان کو تبدیل کر سکتے ہوں تو عقل کا تقاضا یہ ہے کہ خروج نہ کیا جائے۔ بہرحال وہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کو شریعت کے خلاف گزارنے پر مجبور نہیں کر رہے۔ بہرحال ایک اسلامی نظام قضا موجود ہے، اسلامی علوم کا غلبہ ہے، علما اور فقہا کی معاشرتی اور سیاسی بالادستی موجود ہے، لہٰذا ایسے نظام میں حکمرانوں کی جو چھوٹی برائیاں ہیں، وہ خروج سے پیدا ہونے والی متوقع بڑی برائیوں کے پیش نظر قبول کر لینی چاہییں۔ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ فقہاء کرام کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو ان حالات میں امارت ضالہ کے خلاف خروج کو جائز سمجھتی ہے۔ ان کے سرخیل امام ابوحنیفہؒ ہیں۔

جہاں تک ان کے دلائل کا تعلق ہے تو قرآن مجید میں آیت ہے کہ واجتنبوا الطاغوت، یعنی طاغوت سے الگ رہو۔ طاغوت سے مراد علماے مفسرین نے بیان کیا یہ کہ ایسا شخص بھی ہے جو اللہ کے دین کے مقابلے میں کسی اور بنیاد پر نظام اطاعت یعنی دین قائم کرے۔ اسی طرح قرآن مجید میں ارشاد ہوا: تعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان، یعنی برائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد مت کرو۔ ایک ایسی ریاست جو برائی کی بنیادپر اور طاغوت کی بنیاد پر قائم ہوئی ہو، اس کے ساتھ برضا ورغبت تعلق قائم کرنااس کے ساتھ تعاون ہی شمار ہوگا۔ اسی طرح مسلمانوں کی امامت کااصل حق دار کون ہے؟ تو قرآن مجید میں حضرت ابراہم علیہ السلام کا قول نقل ہوا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو امام بنایا تو انھوں نے کہا کہ 

قَالَ وَمِن ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لاَ یَنَالُ عَہْدِیْ الظَّالِمِیْنَ (البقرہ: ۱۲۴)

’’کیا میری اولاد بھی امام بنے گی؟اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں، ظالمین اس کے حق دار نہیں ہوں گے۔ ‘‘

اس سے علماے مفسرین مثلاً رازی، جصاص اور قرطبی نے یہ استدلال کیا ہے کہ ظالم اس منصب کا اصولاً حق دار ہے ہی نہیں اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ:

إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا وَإِذَا حَکَمْتُم بَیْْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللّہَ نِعِمَّا یَعِظُکُم بِہِ إِنَّ اللّہَ کَانَ سَمِیْعاً بَصِیْراً (النساء: ۵۸)

’’یعنی امانتوں کو ان کے اہل لوگوں کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلے کرو تو وہ عدل کی بنیاد پر ہونے چاہییں۔ ‘‘

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ:

کُونُوا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاء لِلّٰہِ (النساء: ۱۳۵)

’’مضبوطی سے عدل پر قائم رہنے والے بنو۔‘‘

اسی طرح اولو الامر کی اطاعت کو ’اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول‘ کے ساتھ مشروط کیا ہے اور یہ مشہور اصول سب کے سامنے ہے کہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ اللہ۔ اسی بات کو قرآن مجید نے یوں ارشاد فرمایا کہ:

وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَن ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ (الکہف: ۲۸)

’’اس شخص کی پیروی مت کرنا جس کے قلب کو ہم نے اپنی یا د سے غافل کر دیا اور وہ اپنی خواہشات نفس کی پیروی کرتا ہے۔‘‘

اسی طرح قرآن مجید میں ارشاد ہوا:

وَلَا تُطِیْعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَ الَّذِیْنَ یُفْسِدُونَ فِیْ الْأَرْضِ وَلَا یُصْلِحُونَ (الشعراء ۱۵۱، ۱۵۲) 

’’حد سے گزرنے والوں کے حکم کی پیروی مت کرو جو زمین میں فساد اور فتنہ برپا کرتے ہیں۔‘‘

یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہم اکثر یہ کہتے ہیں کہ ظلم کے خلاف جہاد ہے تو ظلم کی تعریف ہم نے متعین نہیں کرنی، بلکہ یہ وہی ہے جو قرآن وسنت میں بیان ہوئی ہے۔ ظلم مخالف ہے عدل کا اور عدل کا مطلب ہے شریعت۔ شریعت کے علاوہ عدل کی کوئی اور تعریف ممکن ہی نہیں۔ کفر اپنی تمام تشریحات میں ظلم کے اندر شامل ہے، کیونکہ ظلم کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات کے علاوہ کسی اور بنیاد پر اجتماعی معاملات کو چلانا جس میں اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت ہو جائے۔ اسی طریقے سے یہ حدیث مبارک بڑی مشہور ہے، متفق علیہ حدیث ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آخری دور میں ایسے حکمران ہوں گے جن کو تم پہچانو گے اور تم انکار کرو گے۔ پس جس کسی نے ان کی حقیقت پہچان لی، وہ بری ہوگا اور جس کسی نے انکار کر دیا، وہ سلامتی کے راستے پر ہوگا، سوائے ان کے جو راضی ہو گیا اور ان کی اطاعت کرنے لگا۔ صحابہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ، کیا ایسے لوگوں کے خلاف ہمیں قتال نہیں کرنا چاہیے؟ آپ نے فرمایاکہ ’لا ما صلوا‘۔ جب تک وہ نماز کا نظام قائم رکھیں اور خود بھی نماز پڑھیں، تم ان کے خلاف قتال مت کرنا۔ علما نے یہاں بیان کیا ہے کہ یہاں صلوٰۃ کا لفظ صرف نماز کے لیے نہیں ہے بلکہ ان معنوں میں استعمال ہوا ہے کہ جو شعائر اسلام ہیں، ان کا اہتمام نہ کریں اور ان کے خلاف کام کریں۔ جو ایسا کریں، ان کے خلاف صرف احتجاج ہی نہیں، قتال کی بھی اجازت ہے، جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ’افلا نقاتلہم‘ کا لفظ استعمال ہواہے۔

اسی طریقے سے خیر القرون میں خروج کے جو سب سے اعلیٰ نظائر ہمارے سامنے ہیں، حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ اور حضرت امام حسینؓ کے خروج کی صورت میں موجودہیں جن کی جدوجہد کا مقصد اسلامی خلافت راشدہ کو جو خلافت سے ملوکیت میں تبدیل ہو رہی تھی، ان کا مقصد اس کو خلافت راشدہ کی طرف پلٹا دینے کی جدوجہد کرنا تھا۔ اسی طرح امام ابوحنیفہ نے بھی عباسی خلیفہ کے خلاف جو جہاد ہو رہا تھا، خروج کی جدوجہد ہو رہی تھی، اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ خروج کی جدوجہد کا ساتھ دینا یا خروج کرنا یہ اسلامی تاریخ میں کوئی معدوم چیز نہیں ہے کہ جو کبھی نہ پائی گئی ہو۔ اسی طرح قواعد فقہ کی روشنی میں بھی خروج پر استدلال کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ قواعد فقہ میں ہے کہ ’الضرر یزال‘ یعنی نقصان کا ازالہ کرنا لازم ہے۔ اسی طرح فرمایا گیا ہے کہ ’یزال الضر ر الاکبر بالاصغر‘ یعنی اگر بڑی نوعیت کی خرابی پیدا ہو رہی ہو تو اس کو چھوٹے ضرر کے ذریعے تبدیل کرنا لازم ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ علماے کرام نے خروج کی جدوجہد کو شرائط کا پابند کیا ہے جن میں سے دو شرطیں یہ ہیں کہ خروج کب کیا جائے۔ امام اابویوسف، محمد، سرخسی، کاسانی، شاہ ولی اللہ اور علامہ شامی کی اگر تصانیف دیکھیں تو انھوں نے یہ بات بالکل واضح لکھی ہے کہ خروج اس وقت کیا جائے جب اسلامی نظام بالکل معطل ہو کر اسلامی احکامات کی جگہ غیر اسلامی احکامات کا اجرا ہو جائے۔ اسی طرح میں امام ابن تیمیہ کو پڑھتا ہوں تو وہ فرماتے ہیں کہ جب دین یعنی نظم اطاعت غیر اللہ کے لیے ہو جائے تو قتال واجب ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جو لوگ اسلام کے واضح اور متواتر احکامات کی پابندی نہیں کرتے، ان سے قتال کے واجب ہونے پر میں علماے اسلام میں کوئی اختلاف نہیں جانتا۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ جلد ۲۸)

دوسری شرط یہ ہے کہ حالات اتنے سازگار ہوں اور اتنی قوت ہو کہ ان کو یہ لگے کہ اگر جدوجہد کی جائے تو کامیابی ہو سکتی ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ یہ ایک اجتہادی امر ہوتا ہے کہ آیا حالات ایسے ہیں اور قوت اتنی موجود ہے کہ نہیں، البتہ علامہ ابن تیمیہؒ نے بہت خوب صورت بات لکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انکار منکر کے چار درجات ہیں۔ ایک درجہ یہ ہے کہ منکر ختم ہو جائے اور اس کی جگہ معروف قائم ہو جائے۔ ایسا کرنا مشروع ہے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ منکر ختم نہ ہو لیکن کم ہو جائے۔ یہ بھی مشروع ہے۔ تیسرا یہ کہ ایک منکر ختم ہو جائے اور اس کی جگہ دوسرا ویسا ہی منکر پیدا ہو جائے۔ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے کہ واقعی ایسا ہوگا یا نہیں۔ چوتھا یہ کہ ایک منکر ختم ہو جائے اور اس کی جگہ اس سے بڑا منکر پیدا ہو جائے۔ ایسا کرنا حرام ہے۔ رہی یہ بات کہ جب خروج کرنے کی استعداد نہ ہو تو اس کا جواب یہ نہیں کہ اس کو روز محشر تک کے لیے خیربادکہہ دیا جائے، بلکہ یہ ہے کہ مناسب تیاری کی جائے۔ شیخ عبد المنعم المصطفیٰ حلیم نے اس کے مختلف درجات بیان کیے ہیں۔ ایک تو یہ کہ حسب استطاعت فکری وعملی تیاری کی جائے۔ دوسرا یہ کہ حکمرانوں سے علیحدگی اختیار کر کے نظام باطل کی مضبوطی نہ بنا جائے یعنی ایسے امور ترک کر دیے جاءں جن سے ان کی سلطنت مضبوط ہو اور اس کا اثر ورسوخ بڑھے۔ اس کی مثال امام ابوحنیفہؒ کی زندگی میں نظر آتی ہے جنھوں نے باوجود سرکاری جبر کے منصور کی سلطنت میں قاضی القضاۃ کا عہدہ قبول نہ کیا۔ تیسرا یہ کہ ان کے آئین وقانون کو برضا ورغبت تسلیم نہ کیا جائے اور نہ ہی ایسی بات کی جائے جو اعتراف حق میں قبولیت نظام کا فائدہ دے۔ اگر کچھ لوگ متفق ہو کر ان سے علیحدہ ہونے یا تیاری کرنے کا طریقہ اپنائیں تو ان کا فکری اور عملی سطح پر ساتھ دیا جائے۔

خلاصہ بحث کا یہ ہو اکہ فقہا کی آرا کے مطابق تمام احادیث جن میں خروج سے منع کیا گیا ہے،ان کا تعلق یا تو انفرادی اور شخصی حقوق کے پامال ہونے سے ہے یا پھر خلیفہ کی انفرادی برائیوں سے۔ اس بات کا قرینہ اس حدیث مبارکہ میں موجود ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے بیعت لی تو فرمایا کہ آپ امیر کی بات سنیں گے اور اطاعت کریں گے، خوشی کی حالت میں بھی اور تنگی کی حالت میں بھی، آسانی میں بھی اور اس حالت میں بھی کہ ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے۔ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہو رہا ہے کہ اگر ذاتی نوعیت کے اختلافات ہوں تو اس میں خلیفہ کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ اس قبیل کی احادیث کو یہ معنی پہنانا کہ دین سے منحرف اور سرمایہ داری کی ایجنٹ ریاست کے ساتھ بھی التزام جماعت شریعت کا تقاضا ہے، یہ درحقیقت نصوص میں تضاد پیدا کرنے کی ایک صورت ہے۔ اسی طرح اصول حدیث کا ایک اصول ہے کہ احادیث ایک دوسرے کی تشریح کرتی ہیں۔ اس اصول کی رو سے ایسی تمام احادیث جن میں اطاعت امیر کے لیے اطاعت شارع کی شرط لگائی گئی ہے، وہ ان تمام احادیث کی تشریح کرتی ہیں جن میں بظاہر اس قید کا ذکر موجود نہیں ہے۔ امام قرطبی فرماتے ہیں کہ امام وہ ہوتا ہے جس کا دامن گناہ کبیرہ سے داغ دار نہ ہو، احسان کی صفت سے متصف ہو اور اس میں حکومتی ذمہ داریوں کو بجا لانے کی صلاحیت بھی ہو۔ ان خوبیوں والے امام کے متعلق ہی نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ ان سے مت جھگڑو، لیکن جو فاسق وفاجر ہوں، وہ امامت کے حق دار ہی نہیں۔

علماء کرام کے اقوال میں تطبیق دینے کی صورت یہ ہے کہ اصولاً خلاف خروج اقوال کو امارت عادلہ اور جابرہ کے خلاف خروج پر محمول کیا جائے اور اگر علماے کرام کے خلاف خروج اقوال کو امارت ضالہ پر محمول کیا بھی جائے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ اصولاً خروج کے خلاف ہیں اور اس کو حرام سمجھتے ہیں، بلکہ وہ متوقع نقصانات ہیں جن کی جہ سے اور قوت کی عدم دست یابی کی وجہ سے وہ حکم دیتے ہیں کہ ایسا نہ کیا جائے، کیونکہ ریاستی نظام بحیثیت مجموعی مسلمانوں کو اپنی زندگیاں شریعت کے مطابق گزارنے سے نہیں روکا بلکہ ممد ومددگار ہی ہوتا ہے، البتہ فقہا کے ان اقوال کو غیر اسلامی ریاستوں کے ساتھ جوڑنا کسی صورت میں علمی بات نہیں ہے۔ پھر فقہا کے اقوال ایک دوسرا بہت اہم پہلو یہ ہے کہ فقہاء کرام نے جو خروج کے خلاف گفتگو کی ہے، وہ اسلامی ریاست کو pre-suppose کر تے ہوئے کی ہے اور اگر اسلامی ریاست ہی موجود نہ ہو اور ایک نظام اطاعت معاشروں پر مسلط ہو جو سرمایہ دارانہ خطوط پر قائم ہو تو فقہا کے اقوال کے ذریعے اس کو defend کرنے کا کوئی تناظر موجود نہیں رہ جاتا۔

یہاں میں سرمایہ داری کے لفظ کے بارے میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ الحمد للہ مجھے شرح صدر ہے کہ سرمایہ دری ایک نظام زندگی ہے اور جب ہم کہتے ہیں کہ یہ چیز ایک نظام زندگی ہے تو اس میں تین باتیں ہیں۔ ہر نظام زندگی کا اپنا ایک تصور فرد ہوتا ہے، اپنا تصور معاشر ہ ہوتا ہے اور اپنا تصور ریاست ہوتا ہے۔ سرمایہ داری ان معنوں میں ایک پورا نظام زندگی ہے۔وہ مذہبی انفرادیت کو بدل دینا چاہتی ہے human being میں اور مذہبی معاشرت کو تبدیل کرتی ہے سول سوسائٹی میں اور خلافت کو تبدیل کرتی ہے جمہوریت میں۔ ہم کہتے ہیں کہ اس وقت جو ریاستی تناظر ہے تو یہاں اسلامی ریاست موجود ہی نہیں جس کے تناظر میں فقہا نے عدم خروج کے فتوے دیے ہیں۔ یہ ایک بنیادی غلطی ہے۔ جب اسلامی ریاست موجود ہی نہیں تو فقہا کے اقوال کا حوالہ بھی نہیں دیا جا سکتا۔

ڈاکٹر خالد مسعود

آپ نے بہت عمدگی سے اپنا موقف بیان کیا کہ عصر حاضر میں فقہا کے اقوال کو کیسے سمجھا جائے۔ البتہ اس میں میرے لیے کچھ مزید ابہامات پیدا ہو گئے ہیں، وہ میں سوال کے طورپر رکھتا ہوں۔جب بات آگے چلے گی تو جواب دیجیے گا۔ آپ نے کہا کہ ۱۹۲۴ء سے پہلے خروج کی مثالیں نہیں ملتیں۔ میرا خیال ہے کہ اس میں تاریخی طو رپر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح آپ نے سوشل سائنسز کو بہت زیادہ مطعون قرار دیا تو میرا خیال ہے کہ سوشل سائنسز کو تھوڑا سا اسلام کی طرف لے آئیں یا دیکھیں کہ اس میں کتنی گنجائش ہے۔ بہرحال آپ کی گفتگو ہمارے لیے بے حد مفید ہے۔ آپ نے بنیادی طور پر یہ بات کی کہ فقہا نے جو خروج کے خلاف فتوے دیے، وہ اسلامی ریاست کے تناظر میں دیے ہیں جبکہ موجودہ مسلم ریاستوں کو اسلامی ریاستیں نہیں کہا جا سکتا۔ یہ بات ہمارے لیے قابل غور ہے۔ بہت بہت شکریہ!

ڈاکٹر رشید احمد — (شعبہ اسلامیات، پشاور یونیورسٹی)

تکفیر اور خروج کے مسئلے میں، میں تھوڑا سا علمی انداز میں کچھ پوائنٹس شیئر کرنا چاہوں گا۔ صدر مجلس نے ابتدا میں ایک دو باتیں سامنے رکھیں جو واقعی قابل غور باتیں ہیں کہ تکفیر کا جو مسئلہ ہے، کیا وہ صرف سیاسی مسئلہ ہے یااس کا کوئی مذہبی بیک گراؤنڈبھی تھا؟ ہم دیکھتے ہیں کہ فرقہ مرجۂ، قدریہ اور معتزلہ پیدا ہوئے تو میں اس حد تک آپ کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں کہ ابتداءً اس کی سیاسی وجوہات تھیں، لیکن بعد میں یہ اچھا خاصا علم کا مسئلہ بن گئے اور اس میں مختلف فرقے پیدا ہوئے۔ اس میں خلود فی النار اور یہ چیزیں شامل تھیں۔ 

مفتی صاحب نے بھی اشارہ کیا کہ جب ایک اسلامی ریاست ہوتی ہے تو آئین اور دستور کے لحاظ سے اس کے خلاف تکفیر اور خرج کی کیا حیثیت ہوگی؟ میرے خیال میں آج بھی یہ مسئلہ اتنا ہی relevant ہے جتنا کہ پہلے کسی زمانے میں تھا۔ تکفیر کے مسئلے میں ہمیں دو چیزیں determineکرنی ہیں۔ ایک انفرادی لحاظ سے تکفیر ہے کہ آج کل انفرادی طور پر جو لوگ تکفیر کرتے ہیں تو اس کی حیثیت کیا ہوگی اور تکفیر کے میدان کون کون سے ہیں جہاں تکفیر کی جا سکتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اجتماعی طور پر جب ہم تکفیر کرتے ہیں تو اس میں ’الولاء والبراء‘ کا جو تصور ہے اور اسلامی ریاست کی جو خارجہ پالیسی ہے، وہ بھی اس میں آ جائے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ تکفیر اور خروج ایک دوسرے سے الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ تکفیر کے نتیجے میں ہی خروج ہوتا ہے۔ 

تکفیر کے حوالے سے سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ قرآن وحدیث میں ایمان کی تعریف کیا ہے اور ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ سورۂ بقرہ میں دوسرے پارے میں ’لیس البر ان تولوا وجوہکم قبل المشرق والمغرب‘ اور اس قسم کی جو آیات ہیں، ان کا کیا مفہوم ہے؟ یا ایک کافر مسلمان کیسے بنتا ہے، اسلام میں کیسے داخل ہوتا ہے؟وہ کیا کہے کہ مسلمان ہو جائے؟ یا جو مومن ہوتا ہے، وہ کافر کیسے بن جاتا ہے؟ کون سے امور ہیں جن کے ارتکاب سے وہ کافر بن جاتا ہے؟ استصحاب اصول فقہ کا ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ ہر شخص بری ہے، اس کو مجرم نہیں کہا جا سکتا جب تک اس کے خلاف یہ ثابت نہ کر دیا جائے کہ اس نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ تو ہم دیکھیں گے کہ جس شخص کی طرف کفر کو منسوب کیا جاتا ہے، اس نے کس سطح پر اور کس انداز میں اس کا ارتکاب کیا ہے؟ عقیدہ طحاویہ میںیہ صراحت موجود ہے کہ لا نکفر اہل القبلۃ، بلکہ السیر الکبیر میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’ثلاث من اصل الایمان الکف عمن قال لا الہ الا اللہ ان تکفروہ بذنب ولا تخرجوہ من الاسلام بعمل والجہاد ماض منذ بعثنی اللہ‘۔ 

اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ ایما ن کے نواقض چار قسم کے ہیں۔ ہمیں عملی طور پر دیکھنا چاہیے کہ وہ دائرے کون سے ہیں جن میں ہم کفر کا فتویٰ لگائیں۔ پھر میں وہی بات کہوں گا کہ انفرادی طور پرتکفیر کی حیثیت کیا ہوگی اور اجتماعی لحاظ سے تکفیر کی کیا حیثیت ہوگی؟ اگر ایک شخص اللہ کی ربوبیت کا انکارکرتاہے یا وہ اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات میں کوئی کمی یا زیادتی کرتا ہے، اللہ کے علم میں کوئی نفی کرتا ہے یا عیب لگاتا ہے نعوذ باللہ یا اللہ کے لیے کوئی ایسی بات ثابت کرتا ہے کہ اس کا بیٹا یا بیٹی ہے یا الوہیت کا انکار کرتا ہے اور الوہیت پر کوئی طعن کرتا ہے تو اس سے تکفیر کی جائے گی۔ انبیاء کرام کی شان میں گستاخی ، یہ بھی تکفیر کا باعث ہے، لیکن اس کی تفصیل میں جانا ہوگا۔ یہ طے کرنا ہوگا کہ کون کون سی باتیں ہیں جن سے توہین ہوتی ہے۔ امام ابن تیمیہ نے ’’الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول‘‘ لکھی، لیکن خود ان پر توہین رسول کا الزام لگا۔ تو یہ اہم سوال ہے کہ یہ کیسے طے ہوگا کہ واقعی توہین ہوئی ہے۔ تکفیر کے ضمن میں صحابہ کرام کے خلاف بات کرنے اور گالی دینے کی بات بھی آتی ہے۔ اگر کوئی شخص تمام صحابہ کرام کو گالی دیتا ہے تو تمام فقہا کا اس پر اتفاق ہے کہ اس کے کفر میں کوئی شک نہیں۔ بعض صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرنا اور بعض کی نہ کرنا، اس کے بارے میں طے کرنا ہوگا۔ ہم سنی یا شیعہ کا نام نہ لیں، بلکہ اصولی طور پر بات کریں کہ جس کے یہ یہ خیالات ہوں تو یہ کفر کے خیالات ہیں اور یہ فسق کے خیالات ہیں اور یہ افکار اسلام کے خلاف ہیں، بجائے اس کے کہ ہم افراد کو یا فرقوں کو ہدف بنائیں۔

آپ نے ایک بہت اچھی بات کہی کہ ایک باڈی ہونی چاہیے جس میں یہ سارا کام ہونا چاہیے۔ ہماری تو اسلامی نظریاتی کونسل سے بہت توقعات تھیں کہ یہ کام وہاں سے ہونا چاہیے کہ یہ ایک ایسا فورم ہے کہ اس قسم کے فتوے وہاں سے ایک اجتماعی شکل میں جاری ہونے چاہییں۔ 

اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ تکفیر کے جو عواقب ہیں، دو قسم کے ہیں۔ ایک تکفیر کرنے والے کے لیے اور دوسرا جس کی تکفیر کی جاتی ہے، اس کے لیے۔ جس کی تکفیر کی گئی ہے، اس کے لیے عواقب یہ ہوں گے کہ اس کا عمل حبط ہو جاتا ہے، عمل ضائع ہوجاتا ہے۔ وَمَن یَرْتَدِدْ مِنکُمْ عَن دِیْنِہِ فَیَمُتْ وَہُوَ کَافِرٌ فَأُوْلَءِکَ حَبِطَتْ أَعْمَالُہُمْ فِیْ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ وَأُوْلَءِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ (البقرہ ۲۱۷)۔ یہ تو آخرت کے لحاظ سے ہے۔ اور دنیا میں اس پر ارتداد کی سزا ہوگی۔ اب ارتداد کی سزا دینا کس کا کام ہے؟یعنی انفرادی طور پر ایک شخص کسی کو کہے کہ وہ کافر ہے تو یہ کون طے کرے گا کہ واقعی کافر ہو گیا ہے؟ یہ کام عدالت کے پاس جائے گا، ریاست کے پاس جائے گا۔ تو اس کے عواقب پر بھی ہمیں بحث کرنی چاہیے۔ ایک فریم ورک اس کے لیے بھی وضع کرنا ہوگا۔

کفر اگر کسی کے اعتقاد میں ہوگا تو اللہ کو پتہ ہوگا۔ اگر وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کہتا ہے، نماز پڑھتا ہے تو دل سے اس پر ایمان رکھتا ہے یا نہیں، اس کے اعتقاد کے حوالے سے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ قول کے لحاظ سے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک شخص نے انکار ربوبیت یا انکار الوہیت کیا ہے یا انبیاء کرام یا صحابہ کو طعن کیا ہے، لیکن ایک خطرناک کام ہے تکفیر بالافعال جو آج کے حوالے سے بہت relevant ہے۔ مثلاً آج کے زمانے میں کوئی قرآن کو جلائے تو اس کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں۔ بعض دفعہ قرآن مجید کے بہت سے بوسیدہ اوراق جمع ہو جاتے ہیں۔ میں اس کو کسی پاک جگہ پر جمع کر کے آگ لگا دیتا ہوں پھر اس پر پانی ڈال دیتا ہوں تو اس میں یہ دیکھنا پڑے گا کہ میری نیت کیا ہے۔

خروج پر بہت اچھی باتیں کہی گئی ہیں، میں ان کی تائید کرتا ہوں۔ تھوڑا اختلاف اس میں ہے کہ ضروری نہیں کہ خروج پہلے زمانے میں کم تھے اور آج زیادہ ہو گئے ہیں۔ اس پر بحث ہو سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ خروج اگر تاویل کے ساتھ ہو تو اس کا حکم مختلف ہے۔ خارجی فرقہ نے تاویل کے ساتھ خروج کیا، اس کی حیثیت اور ہوگی، اور جو بغیر تاویل کے کرتا ہے تو وہ راہ زن اور ڈاکو ہے۔ فتح القدیر میں تفصیل سے ان خواج کی چار categories بیان کی ہیں۔ تو یہ دیکھنا ہوگا کہ کس خروج کو ہم کس انداز میں لیں اور پھر کسی نتیجے پر پہنچیں۔

اسلامی ریاست کے خلاف جو لوگ مسلح جدوجہد کرتے ہیں، ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ میرے خیال میں تمام فقہا کا اس پر اتفاق ہے کہ فاسق کے خلاف خروج ہرگز نہیں ہے۔ حدیث میں صرف کفر بواح آیا ہے کہ جب تک وہ کفر بواح نہ کرے۔ فقہا نے یہ بات بہت تفصیل کے ساتھ لکھی ہے کہ جب تک کسی بات کو کسی بھی طریقے سے اچھے محمل پر محمول کر سکتے ہیں تو اس کو کرنا چاہیے، بجائے اس کے کہ ہم اسلام کے دائرے سے اس کونکال دیں۔ ابن انشا نے ’’اردو کی آخری کتاب‘‘ میں بہت اچھا لکھا ہے کہ پہلے اسلام کا دائرہ ہوا کرتا ہے اور ہم اس میں لوگوں کو داخل کرتے تھے، آج ہم لوگوں کو نکال رہے ہیں۔ اس پر غور کرنا چاہیے کہ ہر چیز پر ہم کفر کی مہر نہ لگائیں۔ جہاں تاویل کی گنجائش موجود ہے، اس کو دیں تو میرے خیال میں یہ زیادہ مناسب ہوگا۔

مولانا مفتی محمد زاہد

موجودہ حالات کے تناظر میں جس انداز سے تکفیر اور خروج کی بات ہو رہی ہے، اس کا فکری پس منظر یہ ہے کہ مسلمانوں کے جو موجودہ حکمران ہیں، وہ تحکیم بغیر ما انزل اللہ کی وجہ سے مرتد ہو چکے ہیں اور صرف یہ نہیں کہ حکمران مرتد ہیں، بلکہ پورے کے پورے ریاستی ڈھانچے ور ادارے بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہیں، لہٰذا یہ افواج بھی اور دوسرے ریاستی ادارے بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہیں، اس لیے ان کے خلاف جو خروج ہے، یہ ہم ایک کفریہ نظام کے خلاف خروج کر رہے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ جو بحث ہے کہ فاسق کے خلاف خروج ہوگا یا نہیں ہوگا، وہ موجودہ حالات میں جو لوگ مسلح ہیں، ہتھیار اٹھانے والے ہیں، ان کے نقطہ نظر سے کافی حد تک غیر متعلق ہے۔ 

میں سمجھتا ہوں کہ برصغیر کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو یہ سوچ یہاں کے حالات کے اعتبار سے imported ہے۔ آج سے دس پندرہ سال پہلے اس کا یہاں کوئی وجود نظر نہیں آتا۔ اصل میں التکفیر والہجرۃ کی جو فکر ہے، یہ بنیادی طور پر مصر میں پیدا ہوئی۔ ۶۰ء کی دہائی میں جمال عبد الناصر کی طرف سے جو زیادتیاں ہوئیں، جو جبر ہوا، جو تشدد ہوا، اس کے نتیجے میں مصر کی جیلوں میں یہ فکر پروان چڑھی اور آگے بڑھی۔ یہ اخوان المسلمین سے نکلے ہوئے لوگ تھے، خود الاخوان کے لوگوں کی طرف سے ان کے خلاف لکھا گیا۔ ان میں مثال کے طور پر حسن الہضیبی کی کتاب ’’دعاۃ لا قضاۃ‘‘ بڑی مشہور ہے اور اس کے بعد بھی عرب دنیا میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ ہمارے ہاں اس سوچ کو جو نشو ونما ملی ہے اور جو پذیرائی ملی ہے، وہ نائن الیون کے بعد ملی ہے۔ نائن الیون کے بعد کتوبر ۲۰۰۱ء میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو ا س کے نتیجے میں تحکیم بغیر ما انزل اللہ کا جو عنصر تھا، جو اس تکفیری سوچ کی اصل بنیاد تھی، اس کے ساتھ ایک دوسری چیز شامل ہو گئی کہ ہمارے جو حکمران ہیں، یہ ہمارے ایک علاقے پر ایک غیر مسلم طاقت نے قبضہ کر لیا ہے و اس کے خلاف نکلنا ضروری ہے اور جو ان سے اختلاف کرتا ہے، وہ گویا ایک طرح سے جہاد کے منکر ہیں۔ ’الولاء والبراء‘ کے نقطہ نظر کے مطابق ان کا لٹریچر اگر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ اس کو بہت ہی اہم اور بنیادی مسئلہ سمجھتے ہیں اور اس کی بنیاد پر افغانستان اور پاکستان کی افواج کو بھی مرتد افواج کہتے ہیں۔ مرتد سے کم لفظ تو شاید ان کے لٹریچر میں موجود نہیں۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ سوچ اور اس سوچ کو جو پذیرائی ملی ہے، یہ پچھلے دس پندرہ سال کے درمیان ملی ہے۔ اس سے پہلے یہ موجود نہیں تھی۔ برصغیر کی سیاسی تاریخ میں علما کی جو جدوجہد ہے، اس کے تناظر میں، میں نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آیا اس میں بھی اس فکر کے اثرات یا کوئی سراغ ملتا ہے تو شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے انیسویں صدی کے شروع میں ہندوستان کے دار الحرب ہونے کا فتویٰ دیا۔ اس وقت سے لے کر ۱۹۴۷ء تک کا جو دور ہے، اس دور میں اگر برصغیر کے علما کی جدوجہد کو، سیاسی جدوجہد کو اور عسکری جدوجہد کو دیکھیں اور اس کی فکری بنیادوں کو دیکھیں تو اس میں ہمیں اس سوچ کا سراغ نہیں ملتا۔ خود شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے جس دور میں ہندوستان کے دار الحرب ہونے کا فتویٰ دیا تو اس میں ہندوستان کے دار الحرب ہونے کا تو ذکر ہے، جہاد کا کوئی ذکر نہیں ہے اور اس کے بعد کے بھی کافی فتوے ایسے ملتے ہیں جن سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ شاہ صاحب کے پیش نظر صرف ہندوستان کی فقہی حیثیت کومتعین کرنا تھا۔ اس سے زیادہ شاید ان کی بات نہیں تھی۔ 

ہمارے ہاں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اگر کسی خطے پر غیر ملکی فوج یا غیر مسلم طاقت قابض ہو جائے تو فور ی طور پر عسکری آپشن اختیار کرنا ضروری ہو جاتا ہے، اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہوتا۔ فوری طور پر ایسا فتویٰ دینا علما پر لازم ہو جاتا ہے اور اسی وجہ سے جلد بازی میں بھی ہمارے ہاں فتوے دیے گئے، جبکہ شاہ عبد العزیز اور ان کے بعد کے جو اسی لائن کے علما ہیں، ان کے انداز کو اگر دیکھیں تو اس میں ہمیں یہ چیز نہیں ملتی۔ انھوں نے فقہی طور پر ایک اصطلاحی انداز میں بتا دیا کہ یہ دار الحرب ہے، لیکن آگے کی بات انھوں نے نہیں کی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس فتوے سے بہت سے مفکرین اور علما نے اختلاف بھی کیا۔ خود شاہ صاحب کے شاگردوں کے جو حلقے تھے، مثلاً شاہ محمد اسحاق صاحب کے شاگردوں میں مولانا نذیر حسین دہلوی نے اختلاف کیا، مولانا عبد الحئی لکھنوی فرنگی محلی نے اختلاف کیا۔ ان کا بڑا مفصل فتویٰ مجموعۃ الفتاویٰ میں موجود ہے۔ اس میں انھوں نے ہندوستان کو دار الحرب قرار دینے کی رائے سے اختلاف کیا ہے۔

اسی طریقے سے جب ۱۸۵۷ء کے حالات پیدا ہوئے تو ہم سب جانتے ہیں کہ وہ باقاعدہ کسی منصوبے کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ اتفاقاً یہ چیزیں وہاں سے پھوٹ پڑی تھیں، حتیٰ کہ مولانامناظر احسن گیلانی نے ۱۹۵۰ء کے لگ بھگ ’’سوانح قاسمی‘‘ لکھی ہے۔ اس میں انھوں نے لکھاکہ آج سے کچھ عرصہ قبل ۱۸۵۷ء کے واقعے کو لوگوں نے جنگ آزادی کہنا شروع کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو جہاد آزادی یا جنگ آزادی کا جو لقب ملا، یہ بھی بہت بعد میں ملا ہے۔ میں اس تفصیل میں نہیں جاتا کہ اس کی حیثیت کیا تھی۔ میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اس وقت بھی علما میں یہ مان لیا گیا تھا کہ ہمارے ہاں انگریزوں کی عمل داری قائم ہو چکی ہے۔ اس کے باوجود علما کے ایک حلقے میں اس پر غور کرنے کی باقاعدہ ضرورت محسوس کی گئی کہ آیا میں ہتھیار اٹھانے چاہییں یا نہیں اٹھانے چاہییں؟ خاص طور پرحاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کا جو ایک حلقہ تھا اور ان کا تھانہ بھون میں جو اجتماع ہوا اور مشاورت ہوئی، اس میں ابتدا کے اندر مولانا نانوتوی کے علاوہ تقریباً سب کی رائے یہ تھی کہ ہمیں ہتھیار نہیں اٹھانے چاہییں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی غیر ملکی عمل داری قائم ہو جانے کا یہ لازمی اور منطقی تقاضا نہیں ہے کہ ہتھیار اٹھا لیے جائیں، بلکہ ہتھیار اٹھانا یا نہ اٹھانا یہ الگ مسئلہ ہے۔ اگر کوئی لازمی تقاضا ہوتا تو کسی غور وفکر کی ضرورت ہی نہیں تھی، ویسے ہی اٹھا لیتے۔ 

اس کے بعد جو اہم بات ہے ، وہ یہ ہے جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں، الولاء والبراء کے حوالے سے خاص طور پر کہ اسی دور میں انگریز کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے والے، ان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے، انگریزی حکومت کو سایہ رحمت قرار دینے والے یا ان کی تعریفیں کرنے والے ، یہ ایک فکر موجود تھی۔ ان میں سرسید احمد خان اور ان کا حلقہ سرفہرست ہے اور یہ فکر موجود تھی، لیکن اس بنیاد پر ان کے خلاف کبھی کفر کا فتویٰ آیا ہو، کم از کم میرے ناقص مطالعے میں اس طرح کی کوئی بات نہیں آئی۔ اس دور میں انگریز فوج کے اندر ہندوستانی بھرتی ہوتے تھے، مسلمان بھی بھرتی ہوتے تھے۔ خاص طور پر جہلم سے لے کر اوپر تک ہماری جو پوری لائن ہے، یہ اس زمانے میں اس حوالے سے بھی بڑی معروف تھی۔ انگریزوں کی باقاعدہ چھاؤنیاں تھیں۔انگریز افسر تو بہت تھوڑے ہوتے تھے۔ سپاہی اور چھوٹے رینک کے افسر زیادہ تر دیسی ہوتے تھے۔ ا ن میں مسلمان بھی ہوتے تھے۔ چھاؤنیاں بھی موجود تھیں، لیکن ان فوجی چھاؤنیوں کو اس طرح کے خطرات نہیں تھے اور برطانوی دور میں اتنے سکیورٹی کے انتظامات نہیں کرنے پڑے جو آج ہمیں اپنی چھاؤنیوں کے اندر نظر آتے ہیں، جبکہ یہ جو فوج ہے، بہرحال مسلمانوں کی کمان کے اندر ہے،اور اس وقت جو فوج تھی، وہ باقاعدہ برطانوی فوج کے اندر بھرتی ہورہے تھے۔ یہ فتوے تو ملتے ہیں کہ برطانوی فوج میں بھرتی ہونے کو ناجائز قرار دیا گیا، لیکن اس بنیاد پر تکفیر کی گئی ہو کہ فوج مرتد ہو گئی ہے، اس لیے جہاں بھی چھاؤنی ملے، جا کرخود کش حملہ کر دو، اس طرح کی سوچ ہمیں نہیں ملتی۔

ایک اور چیز کا میں ذکر کروں گا۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی جب مالٹا سے واپس آئے تو جہاز سے اترتے ہی ایک عالم نے ان سے ملاقات کی اور ملاقات کا مقصد شیخ الہند کو یہ سمجھانا تھا کہ آپ جو انگریزوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں، اس کو ترک کر دیں اور اطمینان سے گھر میں بیٹھیں۔یہ مشورہ دینے والے صاحب مولانا رحیم بخش صاحب تھے جو بہاولپور کی ریاست میں بڑے عہدے پر فائز تھے۔ ان کے بارے میں مولانا حسین احمد مدنی کے ایک سوانح نگار نے جو انھی کے خاندان کے ہیں، مولانا فرید الوحیدی، انھوں نے ان کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ریاست بہاولپور میں مدار المہام تھے۔ حضرت گنگوہی کے متوسلین میں اور علماے کرام کے بڑے معتقد تھے، تاہم حکومت برطانیہ کے خیر خواہ اور معتقد تھے۔‘‘ اس کے ساتھ انھی کے بارے میں ایک اور بات بھی ملتی ہے۔ مولانا مدنی کے والد، مولانا حبیب احمد صاحب کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے جب وہ کسی زمانے میں حج کے لیے آئے تو اتفاق سے اسی زمانے میں نواب صاحب بہاولپور بھی حج وزیارت کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ اس دور میں حضرت مدنی کے والد کے حالات کافی کمزور تھے۔ لکھتے ہیں کہ نواب بہاولپور کے وزیر اعظم مولانا رحیم بخش (وہی جو حکومت برطانیہ کے معتمداور خیر خواہ تھے) ’’بڑے عالم، متقی اور باخدا شخص تھے۔‘‘ ان کو مولانا حبیب احمد صاحب سے خصوصی تعلق اور عقیدت ہو گئی اور نواب صاحب آئے تو موصوف نے ان کی جانب سے بھی دس روپیہ ماہوار کا وظیفہ مقرر کروادیا۔

ایک دو باتوں کی طرف توجہ دلا کر اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔ ہمارا جو دور ہے، ظاہر ہے کہ یہ وطنی ریاستوں کا دور ہے اور فوری طور پر ہم اس صورت حال سے نکل نہیں سکتے۔ دوسرا یہ بھی ظاہر ہے کہ جمہوریت کا دور ہے۔ جمہوریت میں بڑی خرابیاں، بڑے مفاسد بیان کیے جاتے ہیں اور بڑی تنقید کی جاتی ہے۔ وہ ساری تنقید اپنی جگہ، لیکن میں جس چیز کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ہمارا جو اسلامی قرون وسطیٰ کا دور ہے، اس میں جو ہمارے حکومتی نظام تھے، ان کا جمہوریت کے ساتھ ایک تقابلی مطالعہ کرنا چاہیے کہ کیا وہ واقعی جمہوریت سے بہتر تھے اور کیا ان میں موجودہ جمہوریت سے کم مفاسد تھے؟ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس طرح کی کوئی ریاست ہو جس طرح کی عثمانیوں کے دور میں تھی، عباسیوں کے دور میں تھی یا سلجوقی تھے، صفوی تھے، مغل تھے، اگر اس طرح کا ہمارے ہاں سسٹم آ جائے تو اس کے خلاف خروج کی ممانعت والی بات درست متعلقہ بحث ہوگی اور جمہوری دور میں یہ غیر متعلقہ ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں ان دونوں نظاموں کا ایک تقابلی مطالعہ کرنا چاہیے اور جتنا ہم اپنے حال کا تنقیدی جائزہ لے رہے ہیں کہ جمہوریت میں کیا کیا خرابیاں ہیں، اسی طرح ہمیں اپنی تاریخ کا بھی تنقیدی مطالعہ کرنے یا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

مولانا مناظر احسن گیلانی کی تصوف پر جو کتاب ہے ’’مقالات احسانی‘‘، اس میں انھوں نے بڑی عجیب وغریب مثالیں ذکر کی ہیں اس دور کے حکمرانوں کے اللے تللے کی۔ ایک عباسی خلیفہ کے بیٹے کی شادی ہوئی سلجوقیوں کی طرف تو اس کی بارات کے موقع پر فضول خرچی کے حالات لکھے ہیں۔ اندلس کے ایک امیر کا واقعہ المنتظم لابن الجوزی کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس کی بیوی نے دیکھا کہ ایک مزدور عورت عمارت کے لیے گارا بنا رہی ہے اور اس کے اندر گھسی ہوئی ہے۔ وہ اپنے پاؤں سے اس میں گھس کر گارا بنا رہی تھی۔ امیر کی بیوی کو بھی شوق ہوا کہ میں نے بھی ایسا کرنا ہے تو امیر اندلس نے باقاعدہ منوں کے حساب سے کستوری منگوائی اور اس میں پتہ نہیں کون سا عرق ڈلوایا اور بیوی سے کہا کہ لو، اس میں تم بھی گھس جاؤ۔ آج ہمارے صدر زرداری صاحب کے گھر میں اس طرح کی عیش وعشرت کا ایک لاکھواں حصہ بھی اگر ہو رہا ہو تو میرا خیال ہے کہ سارے چینل چیخ رہے ہوں گے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسلمان معاشرے میں منکر کے خلاف ایک الرجی ہونی چاہیے۔ ا س الرجی کا اظہار جمہوریت میں زیادہ ہوتا ہے بہ نسبت اس طرحکی آمریتوں کے یا اس طرح کی مطلق العنان بادشاہتوں کے جن میں اینٹی الرجک گولیاں اور دوائیاں دے دی جاتی ہیں۔ اینٹی الرجک دوائیاں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ خواب آور بھی ہوتی ہے اور غیر خواب آور بھی۔ تو وہ گولیاں لوگوں کو دے دی جاتی ہیں اور ہم آج تک ان گولیوں سے مسحور ہیں کہ ان کے خلاف تو خروج جائز نہیں تھا اور آج ہماری جمہوریت چونکہ بہت گندی ہے، بہت بری ہے، اس لیے اس کے خلاف خروج جائز ہے۔ ٹھیک ہے، جہاں سے یہ جمہوریت آئی ہے، اس کی فکری بنیادیں الگ ہوں گی، لیکن جس معاشرے میں کوئی نظام جاتا ہے تو وہ اپنی فکری بنیادوں کو ساتھ لے کر نہیں جاتا۔ وہاں جا کر اپنے آپ کو بدلتا ہے، وہاں کے حالات کو اپنے سامنے رکھتا ہے۔ اس بات کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے۔ اسی پر میں اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

بڑی مفید گفتگو ہو رہی ہے اور سچی بات ہے کہ بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم لازماً یہ اعزاز عامر رانا صاحب اور مجتبیٰ راٹھور صاحب کو دیں گے کہ اس قسم کے حالات میں جب کہ پاکستان میں خوف کی وجہ سے یا عدم دلچسپی کی وجہ سے اہل علم کا ایک ساتھ بیٹھنا مشکل ہو گیا ہے، انھوں نے ایک جدید موضوع پر بہت ہی قابل قدر دانش ور، علماء کرام کو جمع کیا ہے۔ 

اس وقت جو صورت حال ہے مسئلہ تکفیر وخروج کے حوالے سے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ اسی طرح متعلق ہے جس طرح ۱۹۲۴ء سے پہلے تھی۔ چونکہ جس جانب سے تکفیر وخروج کی بحث آ رہی ہے، وہ بھی اس مسئلے کے لیے فقہی دلائل ہی دے رہے ہیں تو جب وہاں سے دلائل فقہی ہیں تو ظاہر ہے کہ ہمیں اس موضوع کو فقہی تناظر میں ہی دیکھنا ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ۱۹۲۴ء کے پہلے کے جو حالات تھے، اگر ہم اس کو صحیح اسلامی میزان میں دیکھیں تو وہ نام کی خلافت تو بے شک تھی، لیکن خلافت علیٰ منہاج النبوۃ نہیں تھی۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس وقت جو خلفا تھے، خواہ وہ اموی ہوں یا عباسی یا عثمانی، اور ہمارے جو مسلم حکمران تھے، صفوی تھے، سلجوقی تھے، غوری تھے، غزنوی تھے، وہ خالصتاً اسلامی طرز خلافت کے مطابق آئے تھے یا اس کے مطابق حکومت کر رہے تھے؟ لیکن ہمارے فقہا نے اسی تناظر میں اور انھی حالات میں کام کیا اور فقہا نے انھی حالات کے اندر رہ کر اصلاح کی کوشش کی۔انھوں نے جس طریقے سے توسع سے کام لے کر مسلمانوں کی راہنمائی کی، اس میں ہمارے لیے ۱۹۲۴ء کے بعد بھی راہ نما اصول موجود ہیں۔

اس وقت جو تکفیر وخروج کا موجودہ تناظر ہے، ہم یہ دیکھیں گے کہ خطے کے حالات میں پاکستان میں بھی تکفیر اس وقت موجود ہے۔ ہم اپنے آپ کو افغانستان سے لاتعلق نہیں رکھ سکتے۔ پاکستان میں یہ سوچ نائن الیون سے بھی پہلے موجود ہے۔ جب بحیثیت جماعت ایک بہت بڑا فتویٰ آیا کہ شیعہ کافر ہیں اور دیواروں پر لکھا گیا کہ شیعہ کافر ہے اور پھر اس کے لیے یہ بڑے بڑے علما کے پاس گئے اور ان کے دستخط بھی حاصل کیے۔ کچھ علما ایسے تھے جنھوں نے حکمت اور مصلحت کے ساتھ اس فتوے سے اپنے آپ کو محفوظ کر لیا، لیکن وہ بھی یہ جرات نہ کر سکے کہ کھلم کھلا ان سے کہہ دیں کہ آپ کے فتوے سے ہمیں اتفاق نہیں ہے۔ انھوں نے یہ کہا کہ بھئی، آپ نے یہ فتویٰ اگر لکھنا ہے تو پھر اس کو ذرا وضاحت سے لکھو اور اس میں وہ بڑے بڑے نام بھی شامل کر لو جو شیعہ تھے، لیکن ہمارے قائدین تھے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس میں بڑے بڑے نام آتے ہیں۔ جب معذرت کی گئی کہ ہم نام شامل نہیں کریں گے تو اس طرح فتویٰ دینے والوں کی جان چھوٹ گئی جو نہیں چاہتے تھے کہ اس فتوے پر دستخط کریں۔

نائن الیون سے پہلے تکفیر وخروج کا جو مسئلہ تھا، یہ افغانستان میں بھی موجود تھا۔ نائن الیون سے پہلے طالبان کی حکومت تھی تو طالبان نے ان لوگوں کو جو ان کی حکومت سے اختلاف کرتے تھے، ان کو باقاعدہ باغی قرار دیا اور یہ کہا کہ یہ ہمارے خلاف خروج کر رہے ہیں۔ ان میں پھر کچھ ایسے لوگ تھے کہ جن کو انھوں نے جہاز میں بٹھا کر جہاز سے پھینک دیا۔ وہ جہاز سے گر کر مر گئے۔ تو یہ تکفیر وخروج کا جو مسئلہ ہے، یہ اس وقت سے موجود ہے۔ پھر ماضی قریب میں یہ ہوا کہ ایک بندہ آیا اور اس نے خود ہی یہ فیصلہ کیا کہ فلاں بندہ اہانت رسول کا مرتکب ہوا ہے۔ وہ خود مدعی بنا، خود ہی وکیل بنا، خود قاضی بنا اور خود ہی اس نے جلاد کا کام کیا اور سزا نافذ کر دی۔ تو یہ تکفیر کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔

ہم نے یہ سوچنا ہے کہ بعد از امریکہ جو افغانستان کے حالات آنے والے ہیں، اس میں کیا صورت ہونی چاہیے؟ کیا اس میں بھی یہ تکفیر اور خروج کا سوال آئے گا یا نہیں کہ بعد ا زامریکہ افغانستان میں کس قسم کی حکومت ہونی چاہیے اور کس قسم کی نہیں؟ ظاہر ہے کہ پاکستان میں ہمارے جو علما ہیں، انھوں نے اب سے اس حوالے سے سوچنا ہے ، کیونکہ امریکہ نے ساری عمر یہاں نہیں رہنا۔ ایک نہ ایک دن جانا ہے۔ جس طرح انھوں نے عراق سے نکلنے کی راہ اختیارکی، ایسے ہی افغانستان میں بھی وہ نکلنے کے حالات بنانے کی کوشش کریں گے۔ یہاں سے بہرحال امریکہ نے ایک نہ ایک دن نکلنا ہے۔ تو علمائے کرام اس حوالے سے ہماری راہنمائی کریں۔

حضرت نے فرمایا کہ مسلح جدوجہد انگریزوں کے دور میں تھی، لیکن ہم نے دیکھا کہ وہی علما جنھوں نے مسلح جدوجہد کی حمایت کی، ان کے لیے مددطلب کی، بلکہ ہمارے ہاں بالخصوص وزیرستان میں کچھ علما تھے، ان کا انگریزوں کے خلاف جرمنوں سے رابطہ تھا او ر اس وقت کی جو دستاویزات سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق جرمن باقاعدہ ان کی مدد کرتے تھے۔ وہ علما بھی بہرحال بعد کی دہائی میں پرامن جدوجہدکی طرف آئے اور انھوں نے باقاعدہ کانگریس سے الحاق کر کے اور آئینی ودستوری جدوجہد کے راستے سے اپنے ملک کی آزادی کے لیے اپنا کردار اداکیا۔ 

ایک بات جو میں اس مجلس کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ اس وقت تکفیری ذہن کے لوگ جو خیبر پختون خوا سے متصل قبائلی علاقوں میں ہیں، ان کے بارے میں یہ بات ہمارے ذہن میں ہونی چاہیے کہ ان میں علما کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ میں ایک ایک کا نام آپ کو بتا سکتا ہوں۔ مثلاً بیت اللہ محسود عالم نہیں تھا۔ حکیم اللہ محسود عالم نہیں ہے۔ منگل باغ ایک بس کا کنڈکٹر تھا۔ سوات کا فضل اللہ وہ کشتی کا ملاح تھا اور ایک کنارے سے دوسرے کنارے پر لوگوں کو لے جاتا تھا۔ کوئی عالم نہیں تھا۔ اگر کوئی مسجد میں بیٹھ کر چند کتابیں پڑھ لے تو اس کو آپ ہرگز عالم نہیں کہہ سکتے۔ تو یہ جو تکفیری معاملات ہیں، یہ ہرگز علما کے پاس نہیں ہیں۔ یہ نیم حکیم خطرۂ جان نیم ملا خطرۂ ایمان والے لوگ ہیں۔ علما وہ تھے جنھوں نے ان کو سمجھانے کی کوشش کی اور پھر وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔مولانا حسن جان ہیں، کراچی کے کچھ علما ہیں جن میں مفتی نظام الدین شامزئی ہیں۔ ایک اور بہت بڑے عالم آئینی جدوجہد کے ذریعے تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان پر قاتلانہ حملے ہوئے اور حملے کرنے والے لوگ انھی دینی مدرسوں میں موجود اور محفوظ ہیں۔ ہمارے ہاں سب لوگ ان کو جانتے ہیں۔

اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ غیر محسوس طریقے سے ہمارے دینی طبقے اور ہمارے دینی مدارس میں حنفیت کی جگہ سلفیت کی سوچ آ گئی ہے۔ ان کو اس کا ادراک اور علم نہیں ہے۔ سلفیت کی سوچ آ گئی اور حنفیت کی سوچ تقریباً پس منظر میں جا چکی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حنفی سوچ کا احیا ہو اور ایک قسم کی سعی ہو۔ امام ابوحنیفہ کی جو سیاسی فکر ہے، اس میں اب تک صرف ایک کتاب مولانا مناظر احسن گیلانی کی ہے۔ میں خود کو ان کے پایے کا نہیں سمجھتا، ان کی خاک پا کے برابر ہوں، لیکن وہ کتاب ہمیں کسی نتیجے تک نہیں پہنچاتی۔ وہ کتاب بہت گنجلک ہے۔ اس کتاب میں دلائل کے درمیان ربط نہیں ہے۔ اس میں ثانوی مآخذ کو استعمال کیا گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جید علماء کرام کی ایک ٹیم ہو جو امام ابوحنیفہ کی فکر پر کام کرنے کی کوشش کرے۔ اسی طریقے سے امام ابن تیمیہ کی سوچ کا اگر عمیق جائزہ لیا جائے تو جس طرح یہ لوگ اس سے استنباط کرتے ہیں، اس استنباط کے اندر بھی بڑی خامیاں ہیں اور بہت کمزوریاں ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ازسرنو اس کا جائزہ لینے کی کوشش کریں۔

تیسری بات یہ کہ مجتہد کے بارے میں یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اس کے لیے اجتہاد کی گنجائش ہے، لیکن جو لوگ تکفیر کے حوالے سے کردار ادا کر رہے ہیں، وہ ہرگز مجتہد نہیں ہیں۔ ان کا علمی معیار میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے۔ اور اگر کوئی مجتہد ہو بھی تو ہمارے فقہا نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ اجتہاد میں خطا کا احتمال موجود ہوتا ہے اور مجتہد کو ہرگز اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے اجتہاد کی ’’تحمیل‘‘ یعنی زبردستی نفاذ کی ذمہ داری بھی اپنے کندھوں پر لے لے۔

ایک اور بات ذہن میں آ گئی کہ ہم اس وقت سرمایہ دارانہ نظام میں جی رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت جو دنیا ہے، گلوبلائزڈ دنیا یہ سرمایہ دارانہ نظام کے تحت جی رہی ہے۔ حال ہی میں مغرب میں چھوٹی سی ایک تحریک اٹھی وال اسٹریٹ کے خلاف، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ یہ تحریک کامیاب ہوگی۔ سرمایہ دارانہ نظام اس وقت موجود ہے اور اب ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ یہ جو سکہ رائج الوقت ہے، یہ جو نظام ہے، اس کے اندر رہتے ہوئے بہتری کی کیا صورت اور کیا کوشش ممکن ہے۔ عزیمت کا راستہ بے شک یہی ہے کہ کوئی ایسی صورت ہو کہ ہم اس نظام کی طرف دوبارہ لوٹ جائیں، لیکن جب تک نہ جا سکیں، اس وقت تک بہتری کی کیا صورت ہوگی؟ وہی ہوگی جو فقہا نے ہمیں بتائی ہے۔ ۱۹۲۴ء تک جو نظام تھا، خلافت راشدہ علیٰ منہاج النبوۃ نہیں تھا، لیکن اس میں اصلاح کی کوشش اور بہتری کی کوشش ہوئی۔ 

ڈاکٹر خالد مسعود

اب ہماری سوال وجواب کی نشست ہے۔ میں چاہوں گا کہ تفصیلی بحث کے بجائے اصولی بات کریں۔ چند سوالات میں اٹھاتا ہوں۔

ایک توہمارا جو بنیادی مسئلہ ہے تکفیر وخروج کا، اس کے اور بھی بہت سے تاریخی پہلو ہیں، لیکن اس کو موجودہ تناظر میں خاص طور پر رکھنا ہے۔ موجودہ تناظر میں یہ بات یاد رہے کہ یہ ایک بہت ہی مخصوص تناظر ہے۔ اس میں ہم فکری دلائل کو کس طرح عمومی حیثیت دیں گے اور کس طرح انھیں ان خاص حالات پر منطبق کریں گے۔ پاکستان کے بھی اپنے مخصوص حالات ہیں اور اس خطے کے بھی مخصوص حالات ہیں اور عالمی طور پر بھی۔ اس میں ہمیں یہ سوال ہوگا کہ کیا جو فقہی آرا ہیں یعنی فقہا کی آرا، وہ ایسی عمومی ہیں کہ ہر دور میں وہ آئیں گی اور اگر وہ ایسی ہیں تو پھر ہمارے جو خاص حالات ہیں، ان میں وہ کیسے آئیں گی؟ مثلاً کفر کے بارے میں مختصراً عرض کروں گا کہ قرآن کریم میں کفر دو اصطلاحوں میںآیا ہے۔ ایک تو کفر اس معنی میں کہ ایمان کے خلاف ہے۔ دوسرا جو زیادہ استعمال ہوا ہے، وہ کفر بمقابلہ شکر ہے اور ہم اس کو کبھی بھی زیر بحث نہیں لاتے۔ میرا خیال ہے کہ کفر کا جو کلامی اور خاص طور پر تاریخی پس منظر ہے، اس میں ان سب کے معانی بدل گئے ہیں۔ 

اسی طرح عدل ہے۔ عدل کے بارے میں جو یونانی فکر تھی اور اس میں جو ظلم کا تصور تھا، وہ یہ تھا کہ دنیا میں ایک نظام ہے اور ہر شخص کا ایک مقام ہے۔ اس کے مطابق اس کو جگہ دی جائے۔ یہ قرآن مجید کا تصور نہیں ہے۔ یہ وہاں سے لیا گیا ہے اور ہم نے اس کے لحاظ سے عدل کی تعریف کی۔ اس طرح کی بہت سی چیزیں ہمیں دیکھنی ہیں کہ جن کو آج کے دور میں ہم کیسے تطبیق دے سکتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کی بہت بات ہوئی، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ ہمارے دور جدید کی تاریخ میں علما نے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تو ضرور بات کی ہے لیکن چاہے اخوان المسلمون کی تحریکیں ہوں، چاہے جماعت اسلامی کی تحریک ہو، عالمی نظام میں انھوں نے جو خروج کیا، وہ سوشلسٹ نظام کے خلاف کیا، سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نہیں کیا۔ یہ جتنی بھی بحثیں ہیں، امام ابن تیمیہ کا احیاء اور ان کی فکر کا احیا اور سلفیت کا احیا، یہ سارا اس وقت ہوا جب سرمایہ دارانہ نظام کو خطرہ تھا جمال عبد الناصر سے اور سوشلسٹ سسٹم سے۔ اس وقت یہ تحریکیں اٹھیں اور انھوں نے پورے اسلام کی جو تعبیر تھی، وہ اس انداز سے کی کہ سرمایہ دارانہ نظام کو مدد ملی۔ مثلاً سید قطب کی کتاب ’’العدالۃ الاجتماعیۃ‘‘ کے بارے میں ان کے بھائی کہتے ہیں کہ میری یہ خواہش تھی کہ یہ کتاب نہ چھپتی۔ وہ کتاب اگر آپ دیکھیں تو سید قطب کے افکار میں اس کتاب کی اہمیت کا کہیں بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔ تومیرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت ضرور ہوئی ہے، لیکن اصلمیں وہ مخالفت سوشلسٹ نظام کے خلاف تی اور اس میں دراصل سپورٹ امریکا کو ہوئی، چاہے وہ عرب کا علاقہ ہو، چاہے افغانستان کا۔ وہ جو نظام تھا کولڈ وار کا، اس میں ہم نے حصہ لیا اور اس میں اسلام فریق بن گیا۔ چنانچہ اس نظام کولڈ وار ٹو پاور ختم ہونے کے بعد سارا نزلہ ہم پر گر گیا۔ 

اس بحث میں دوسرا سوال جو بہت اہم اٹھا ہے، وہ یہ کہ علما کا کردار کیا ہوگا؟ علما ہیں کون؟ زیادہ تر بحث کا جو اس وقت ابہام ہے، وہ اس وجہ سے ہے کہ جو بحث کے محرک ہیں اور جو بحث میں شامل لوگ ہیں، ان کا اپنا علم کا معیار یا اجتہاد کا معیار کیا ہے؟ اس کے بارے میں کوئی نہیں پوچھ رہا اور ان کے جو دلائل ہیں، وہ چونکہ ہمارے فقہا کے حوالے دیتے ہیں، قرآن وحدیث کے حوالے دیتے ہیں، اس لیے ہم اسے کافی سمجھتے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جو ہمارے فقہا تھے، ان کی ان selected دلیلوں کے پیچھے ان کا تصور کیا تھا۔ چنانچہ یہ بڑا اچھا سوال ہوا کہ دو قطب ہیں۔ ایک امام ابوحنیفہ اور ایک امام ابن تیمیہ۔ دونوں کی سیاسی فکر کا گہرا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ہمارا جو برصغیر کے علما کا جو کردار ہے، اس کو بھی بہت غور سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اس میں بدقسمتی سے دو قسم کی رائیں بن گئی ہیں۔ ا س لحاظ سے بھی ہم اس کو دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ ہیں جو اس ساری کوشش کو مسلح جدوجہد کے طور پر لیتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس کو دوسرے انداز سے لیتے ہیں، صلح کلی انداز سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ اس بات کو بھی explain کرتی ہے کہ علما پھر کانگریس کے ساتھ کیوں چلے گئے۔

یہ چیزیں سامنے آئی ہیں جو بہت ہی اہمیت کی حامل ہیں۔ یہ چند نکات میرے فہم میں آئے تھے۔ اب میں چاہوں گا کہ آج کی بحث میں جو اصولی نکتے اٹھے ہیں، باقی لوگ بھی ان پر بات کریں۔

محمد مجتبیٰ راٹھور

ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب سے ایک بات کی وضاحت چاہوں گا کہ انھوں نے فرمایا کہ جو لوگ یہ دلائل پیش کرتے ہیں یا جو لوگ ان کے حامی ہیں، وہ علما نہیں۔ آپ اہل علم حضرات بیٹھے ہیں۔ میں صرف یہ پوچھنا چاہوں گا کہ ان کو انھی نکات پر جو علماء کرام کی خاموش تائید حاصل ہے، کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اہل علم بھی ان کو سپورٹ کرتے ہیں یا نہیں؟ وہاں سے وہ فتوے جاری کرتے ہیں اور پاکستان میں جو حضرات بیٹھے ہیں اور جو بڑے بڑے لوگ ہیں، ان کے بارے میں جو خاموش تائید دیتے ہیں، ان کے بارے میں کیا رائے ہے؟

محمد عامر رانا

مفتی زاہد صاحب نے ایک مسئلہ اٹھایا ہے کہ یہ نائن الیون کے بعد کا مسئلہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ نائن الیون سے پہلے بھی یہ بحث شروع ہو گئی تھی۔ میرے محدود علم کے مطابق ۱۹۹۱ء اور ۱۹۹۳ء دو ایسے سال ہیں جب پشاور میں مختلف عرب مجاہدین کے گروپوں کے درمیان تصادم ہوا اور دونوں تصادموں کے نتیجے میں پاکستانی حکومت نے کچھ عرب مجاہدین کو یہاں سے نکالا جس پر بہت سی مذہبی جماعتوں سیاسی جماعتوں نے احتجاج بھی کیا۔ ایک واقعے میں سترہ عرب افراد کو جن میں دو سال کی بچی اور تین سال کا بچہ بھی تھا، ان کو دھماکے سے اڑا کر رکھ دیا گیا اور یہ مسئلہ وہی تھا کہ جو بحث مصر کی جیلوں میں چل رہی تھی، وہی بحث یہاں شروع ہوئی تھی تکفیر کے مسئلے پر تو لامحالہ ان کا تعلق جن افغانستان کے مجاہدین سے تھا اور پاکستان کے مجاہدین سے تھا، اس کے افراد اس میں آنا شروع ہو گئے۔عبد اللہ عزام کی شہادت کے پیچھے شبہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر اس کا محرک یہی بحث تھی۔ اس وقت جو عربی رسائل تھے، ’’بنیان مرصوص‘‘ اور عبداللہ عزام صاحب کا اپنا رسالہ ’’الجہاد‘‘ تھا، ان میں ان بحثوں کے ابتدائی نقوش واضح ہوتے ہیں کہ کس تناظر سے اس کو دیکھا جا رہا تھا۔ پھر بہت سے عربی اور مذہبی مدارس کے رسائل میں ایک بحث شروع ہوئی تھی۔ حسن مدنی صاحب کو پتہ ہوگا۔ وہ کشمیر کے جہاد پر ہوئی تھی اور اسی قسم کے دلائل دیے گئے تھے۔

جہاں تک ان کے علمی معیار کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت جو دو کمانڈر ہیں، ولی الرحمن اور مولوی فقیر محمد، ان کے علاوہ کوئی بھی مدرسے کا گریجویٹ نہیں ہے، لیکن ان کی طاقت ان کا اپنا علمی معیار نہیں ہے۔ ان کے پیچھے وہ لوگ ہیں۔ اگر ان کے ذرائع آپ کی پہنچ میں ہوں، چاہے وہ ’’نوائے افغان جہاد‘‘ کی صورت میں ہوں چاہے ’’حطین‘‘ کی صورت میں یا جو ویڈیوز آ رہی ہیں اور آن لائن مل جاتی ہیں، بے شک وہ طالبان کی ہوں یا القاعدہ کی یا عربوں کی ہوں، بنیادی طور پر اس پوری فکر کی قوت وہ ہیں۔ ’’حطین‘‘ اور ’’نوائے افغان جہاد‘‘ کے جو مضامین ہیں تکفیر اور خروج کے مسئلے پر، ان کے علمی دلائل اور ان کا اکیڈمک فریم ورک خاصا مضبوط ہے۔

ایک اور بحث جو خروج کے حوالے سے ہے، یہ سوال تمام شرکا سے بھی ہے کہ یہ بحث جو ہمارے ہاں آئی ہے، وہ بھی یہاں سے پیدا نہیں ہوئی۔ جیسا کہ تکفیر کی کہ مصر کے اثرات آئے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ حزب التحریر کے ذریعے آئی ہے یا المہاجرون کے ذریعے آئی ہے۔ جتنے بھی دلائل ہیں، وہ سارے وہی دلائل ہیں جن کا مفتی زاہد صاحب نے ذکر کیا ہے کہ ہمارے ہاں شاید تناظر مختلف تھا موضوعات کو دیکھنے کا۔ تو میری گزارش ہوگی تمام معزز علماء کرام سے کہ اس کو اس حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر حسن مدنی

خالد مسعود صاحب نے فرمایا ہے کہ اسلام میں عدل کا جو تصور ہے، وہ یونانی فلسفے کے تناظر میں آیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان جو حضرت علی نے بیان کیا ہے، وہ یہ ہے کہ ’کتاب اللہ فیہ نبا ما قبلکم وخبر ما بعدکم وحکم ما بینکم‘۔ اس کے آخر میں آتا ہے کہ: ’من حکم بہ عدل ومن دعا الیہ ہدی الی صراط مستقیم‘۔ تو اسلام میں عدل کا تصور موجود ہے۔ قرآن کریم کی آیت بھی ہے: ’ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ہم الظالمون‘۔ تو ظلم براہ راست مخالف ہے عدل کے۔ تو اسلام میں عدل کا ایک بڑا واضح تصور ہے بلکہ سعودی علما نے اس پر بڑی بحث کی ہے کہ مساوات کا جو لفظ ہے، وہ اسلامی نہیں ہے بلکہ اصل اسلامی اصطلاح تو عدل ہے۔ مساوات تو ایک مغربی اصطلاح ہے۔ مرد وزن کے درمیان عدل ہونا چاہیے، مساوات کی اصطلاح مناسب نہیں۔ شیخ محمد یاسین کی اس پر مستقل کتاب ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ ہمارے ہاں عدل کا کوئی مستقل تصور نہیں، میں اس بات پر جناب خالد مسعود صاحب سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام ہمیں عدل کا ایک واضح تصور دیتا ہے اور یہ یونانی فلسفے کے علاوہ مستقل بالذات ہے اور قرآن وسنت پر قائم ہے۔

عدل کا تصور جو ہمارے ہاں اہل سنت میں ہے، وہ یونانی فکر سے نہیں آیا۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ کن کے ہاں تصور عدل یونانی فکر سے آیا ہے۔ اسلامی تاریخ میں دو گروہ ایسے ہیں جنھوں نے عدل کو بطور independent اصول کے، اسلامی احکامات اخذ کرنے کے لیے قبول کیا۔ وہ ہیں معتزلہ اور اہل تشیع حضرات۔ ان دونوں کے ہاں عدل بطور ایک انڈی پینڈینٹ اصول کے موجود ہے اور اسلامی احکامات اخذ کرنے کے لیے اسے معیار ماناجاتا ہے کہ فلاں چیز شریعت میں جائز ہے یا نہیں۔ ان کے ہاں شریعت سے ماورا عدل کا ایک تصور موجود ہے جو انھوں نے یونانی فکر سے اخذ کیا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں آپ دیکھیں گے کہ اہل سنت والجماعت کے ہاں عدل بطور ایک انڈی پینڈنٹ اصول شریعت کے بالکل موجود نہیں ہے، حالانکہ اہل سنت نے عدل کو ہمیشہ شریعت ہی کے تناظر میں پیش کیا ہے۔ یہ بڑا بنیادی فرق ہے۔ شیعہ فکر پر جس طرح علم الکلام کا اور منطق کا اثر ہوا ہے، ورنہ ہمیں فخر ہے اس بات پر کہ ہمارے ہاں امام ابو الحسن الاشعری اور امام غزالی جیسے لوگ پیدا ہوئے جنھوں نے یونانی فکر کے تہافت واضح کر دیا تھا۔اہل سنت کے ہاں کوئی ایسی چیز موجود نہیں کہ انھوں نے اپنا تصور عدل یونانی فکر سے ماخوذ کیا ہو۔

ایک چھوٹا سا سوال اور بھی کہ یہاں ہمارے لیے کسی مخصوص مکتب فکر کے افکار کی تحقیق کے لیے کہ فلاں حوالہ فلاں مکتب فکر میں تھا، فلاں میں نہیں تھا، میرا خیال ہے کہ اہل علم کو یہ مناسب نہیں ہے۔ اگر کوئی حوالہ سلفیت کی طر ف سے آیا یاحنبلیت کی طرف سے آیا ہے تو اگر حالات ہمارے ہاں وہ آ گئے ہیں تو وہ استدلال بھی ہمارے پاس آ سکتا ہے۔ میں صرف ایک اشارہ کرنا چاہوں گا کہ وہ مسئلہ جو اخوان المسلمون میں ۱۹۶۵ء میں آیا تھا، اخوان المسلمین کا فکری رابطہ پاکستان میں جماعت اسلامی سے تھا، لیکن جماعت اسلامی میں وہ رابطہ آج پینتالیس سال میں بھی ہیں پہنچا۔ وہ اقامت دین اور تکفیر کے اس نظریے کے آج بھی قائل نہیں ہیں۔ اصل میں بنیادی رابطہ وہ حنفیت میں تھا۔ بعد میں حنفیت پر بھی ظلم ہوا۔ تو بنیادی قدر مشترک جو ہے، وہ نظریہ اقامت دین نہیں ۔ قدر مشترک نظریہ تحکیم بغیر ما انزل اللہ کا مسئلہ ہے۔ اصولی طور پر اخوان اور جماعت اسلامی کا یہ دعویٰ ہے۔ ۱۹۶۵ء میں اس کو پاکستان میں منتقل ہو جانا چاہیے تھا، لیکن یہ منتقل نہیں ہوا کیونکہ پاکستان میں ظلم ۱۹۹۰ء کے بعد یا براہ راست نائن الیون کے بعد آیا جب امریکہ یہاںآیا۔ تب اس حلقے میں جن کا یہ نظریہ اقامت دین کا براہ راست نہیں تھا، یہ سوچ پید اہوئی۔ اس کا حوالہ مفتی صاحب بھی دے چکے ہیں کہ حنفی مکتب فکر میں اس کی گنجائش اور ایسی بحثیں کم تھیں، لیکن جب وہ ظلم آیا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس طرح کی راہنمائی سلفیت یا عرب مجاہدین نے کی، لیکن کوئی صحیح بات اگر انھوں نے کی تو کیا کتاب وسنت کی بنا پر ایک دوسرے سے استفادہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ ہم صرف اس حوالے سے ان کو مطعون کریں کہ چونکہ یہ حوالہ فلاں کا تھا، اس لیے اس کو بحث میں نہیں لانا چاہیے، میرا خیال ہے کہ علما کے طبقے میں یہ رجحان بہتر نہیں ہے۔ہم اگر مکتب فکر کے تعصب میں بیٹھ کر بات کریں کہ یہ بات فلاں نے کی ہے تو یہ صحیح نہیں۔ بات اس تناظر میں ہونی چاہیے کہ اس کا معیار کیا ہے اور کتاب وسنت میں یہ بات ہے یا نہیں۔

خورشید احمد ندیم

بہت سی چیزیں ہیں جو کہنے کی ہیں، وہ میں روکتا ہوں اگلی نشست کے لیے جب آپ اپنی بات کہنے کا موقع دیں گے۔ دو باتیں یہاں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ 

ایک تو جمہوریت کے ضمن میں جو گفتگو ہوئی، اس میں ایک سوال اٹھ آیا اور میں چاہتا ہوں کہ مغل صاحب اس کا جواب دے سکیں تو شاید ساری بحث سمجھ میں آ جائے۔ ایک یہ کہ یہ فیصلہ کہ ایک مسلمان معاشرے میں حکومت کون کرے گا،ایک ریاست میں حکومت کون کرے گا، یہ کس کو حق حاصل ہے کہ یہ فیصلہ کرے؟ ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ سلطان کو عادل ہونا چاہیے، خلیفہ میں یہ خوبیاں ہونی چاہییں، لیکن یہ فیصلہ کہ فلاں شخص میں یہ خوبیاں ہیں اور اس کو آپ حق اقتدار منتقل کر دیں، یہ فیصلہ کون کرے گا؟ اس میں قرآن وسنت کی راہنمائی کیا ہے اور ان کا جو فہم دین ہے، وہ کیا کہتا ہے؟

دوسری چیز جو حسن مدنی صاحب نے فرمائی، اس کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اصولی بات جو انھوں نے کی ہے، وہ بالکل صحیح ہے کہ چیزوں کو سلفی یا حنفی تناظر میں دیکھنے کے بجائے براہ راست دین کے تناظر میں دیکھا جائے تو مناسب ہے۔ اگرچہ اس کو ہم ایک narrative کے طور پر لیتے ہیں کہ یہ حنفی نیریٹو ہے اور یہ سلفی نیریٹو تو علمی طور پر اس میں کوئی برائی نہیں ہے، لیکن اس کو ایک بڑے تناظر یں دیکھا جانا چاہیے۔ البتہ انھوں نے اس کا جو اطلاق کیا ہے، مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے کہ ۶۰ء کی دہائی میں مصر کا پس منظر کچھ اور تھا اور پاکستان کا کچھ اور تھا، لہٰذا اخوان اور جماعت کے رد عمل میں فرق رہا۔ میرے نزدیک ماحول ایک تھا، صرف ردعمل میں فرق رہا اور اس کا تعلق تفہیم دین سے تھا۔ ۶۰ء کی دہائی میں وہاں جمال عبد الناصر کی آمریت تھی اور پاکستان میں ایوب خان کی آمریت تھی۔ وہاں اگر سید قطب کو سزائے موت دی گئی تو یہاں ایک دور میں مولانا مودودی کو بھی سزائے موت سنائی گئی۔ تو یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ وہ کیسی مسلمان حکومت ہے جس نے مولانا موددی جیسے عالم دین کو سزائے موت سنا دی؟ آپ اس بنیاد پر مقدمہ کھڑا کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں ۔پاکستان میں بھی ریاست جو تھی، وہ مخالف تھی اور آپ کو یاد ہے کہ ۶۳ء میں جماعت اسلامی کے اجتماع میں جب ریاست کی طرف سے حملہ ہوا اور ایک آدمی مار دیا گیا تو اس کے بعد رد عمل کیا ہوا جماعت اسلامی کا؟ ۶۲ء جماعت اسلامی پر پابندی لگ گئی تھی اور رد عمل یہ رہا کہ انھوں نے کہا کہ ہم عدالت میں جائیں گے اور اس کو چیلنج کریں گے۔ ہم ریاست کے خلاف کوئی اقدام نہیں کریں گے۔ یہ انھوں نے طے کیا اور یہ مولانا مودودی کا فہم دین تھا۔ آپ اس سے اختلاف کر سکتے ہیں۔ میں رد عمل کا فرق بتا رہا ہوں۔ وہاں مصر میں رد عمل یہ تھا کہ آپ ریاست سے ٹکرا جائیں، اس لیے کہ ریاست یہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہاں رد عمل مختلف تھا۔

جماعت اسلامی نے اپنے دستور میں لکھ دیا کہ ہم کوئی خفیہ سرگرمی اس ملک میں نہیں کریں گے۔ انھوں نے طے کر لیا اپنے دستور میں کہ ہم کوئی خلاف آئین اقدام نہیں کریں گے۔ یہ ان کی تفہیم دین ہے۔ ایک تفہیم دین اخوان کے لوگوں کی ہے۔ یہ دونوں میں فرق تھا، ریاست کے رویے میں فرق نہیں تھا۔ فرق علما کا یا دینی تحریکوں کے رد عمل کا تھا اور اس میں ان کی تفہیم دین کا بنیادی رول ہے۔

عبد السبوح سید — (نمائندہ جیو نیوز، راولپنڈی)

میرے دو سوال ہیں۔ ایک مفتی زاہد صاحب سے کہ جب نوشہرہ میں دار العلوم دیوبند کی ڈیڑھ سو سالہ کانفرنس ہوئی تھی تو اس کا جو اشتہار چھپا تھا، اس میں باقاعدہ جو سب سے پہلا کردار لکھا گیا تھا، وہ انگریز کے خلاف جہاد تھا اور تحریک ریشمی رومال کو بھی اس میں بتایا گیا تھا کہ یہ دار العلوم کی کارکردگی ہے۔ اسی طرح شاملی کے میدان میں جو کچھ ہو، وہ سارا انھوں نے اپنے کریڈٹ میں ڈالنے کی کوشش کی۔ اس میں سارے دیوبندکے علما تھے۔ 

دوسرا سوال میرا اپنے استاد محترم ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب سے ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ طالبان کی قیادت اور تکفیری فتوے دینے والے علما نہیں ہیں۔ مجھے ایسے لوگوں سے براہ راست ملنے کا اتفاق ہوا ہے۔ وہ باقاعدہ مدرسوں سے فارغ لوگ ہیں۔ میں مفتی منیر شاکر صاحب سے ملا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب خود بھی ان کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ عالم دین ہیں۔ مولانا صوفی محمد جنھوں نے کہا کہ جمہوریت بھی کفر ہے اور یہ سارا عدالتی نظام بھی کفر ہے، وہ باقاعدہ عالم دین ہیں۔ قاری حسین بھی عالم دین ہے، ولی الرحمن بھی عالم دین ہے، مولوی فقیر محمد صاحب بھی عالم دین ہیں۔ منگل باغ کے پاس جب ہم گئے تو اس کے پاس اکیس رکنی علما کا بورڈ بیٹھا ہوا تھا۔ جب ہم کوئی مذہبی مسئلہ ڈسکس کرتے تو وہ علما سے کہتا تھاکہ آپ اس کا جواب دیں۔ بیت اللہ محسود کے پاس بیس رکنی علما کی ٹیم ہے جو فتویٰ دیتی ہے۔ احمد الیاس خان صاحب کو جانتے ہوں گے۔ جب وہ کسی کے قتل کے بارے میں فتویٰ دیتے ہیں تو باقاعدہ ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور اس کے بعد باقاعدہ اس کو نافذ کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گڑھی شاہو خیل جو ہنگو سے اوپر علاقہ ہے، جہاں مفتی امین صاحب تھے جو بنوری ٹاؤن سے فارغ تھے۔ جب ان کے مدرسے پر بمباری ہوئی، اس کے بعد میں وہاں گیا تو وہاں ایسے لوگ موجود تھے جنھوں نے انٹرویو کے لیے پیش کش کی کہ ہم آپ کو آگے لے جاتے ہیں اور آپ کا انٹرویو بھی کرواتے ہیں۔ 

مفتی نظام الدین شامزئی صاحب کے بارے میں میرے استاد محترم ڈاکٹر رشید احمد صاحب نے کہا کہ وہ اس قسم کی بات نہیں کرتے تھے، لیکن مفتی صاحب نے پاکستان میں موجود امریکیوں کے خلاف فتویٰ دیا تھا کہ ان کو مار دیا جائے۔ ا س کے نتیجے میں ۱۹۹۶ء میں مانسہرہ میں ایک بٹ پل ہے، اس کے قریب سیاحوں کی ای بس جا رہی تھی، اس پر حملہ ہوا۔ یہ ساری چیزیں جوہیں، ان کے پیچھے سوچ علما کی ہے۔ باقی عام لوگ جب متحرک ہوتے ہیں تو پھر وہ آگے بڑھ کر کارروائیاں کرتے ہیں۔ پیچھے علما موجود ہیں۔

محمد عمار خان ناصر

کچھ سوالات تو مجتبیٰ راٹھور صاحب کی گفتگو سے متعلق ہیں اور کچھ زاہد صدیق صاحب کی گفتگو سے متعلق ہیں۔

مجتبیٰ راٹھور صاحب نے اپنی گفتگو میں اپنا نقطہ نظر پورا بیان کر دیا ہے۔ میرا یہ احساس ہے کہ جب آپ کسی کے نقطہ نظر پر تنقید کرتے ہیں اور اس کا جائزہ لیتے ہیں تو اس فریق کی جگہ پر کھڑے ہو کر اگر آپ صورت حال کو دیکھیں اور اس کے احساسات کو محسوس کرنے کی کوشش کریں تو شاید زیادہ بہتر تنقید ہو سکتی ہے۔ مثلاً ولاء وبراء کے بارے میں آپ نے القاعدہ کا نقطہ نظر بیان کیا کہ وہ ’ومن یتولہم منکم فانہ منہم‘ اور اس مفہوم کی جو دوسری نصوص ہیں، ان کی بنیاد پر وہ اس وقت حکمرانوں کی اور خاص طور پر پاکستانی حکمرانوں کی تکفیر کرتے ہیں۔ آپ نے اس کا جواب دیتے ہوئے رازی کی تفسیر سے ایک اقتباس پڑھا جس میں وہ کفار کے ساتھ تعلق کے تین درجے بیان کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اتنی بات سے ان لوگوں کا اشکال دور نہیں ہوتا، اس لیے کہ ان کے فہم کے لحاظ سے ہمارے حکمرانوں نے جو معاملہ کیا ہے، وہ رازی نے جو دو تین درجات بیان کیے ہیں، وہ ان کے دائرے میں نہیںآتا۔ خاص طور پر یہ بات جس میں ہمارے فقہا قریب قریب بالکل واضح ہیں کہ کسی مسلمان گروہ کے خلاف کسی غیر مسلم کی مدد کرنا اور ان کے ساتھ تعاون کرنا جائز نہیں۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ایسا کرنا کفر کے درجے تک چلا جاتا ہے یا نہیں، لیکن میرے علم کی حد تک فقہا اتنی بات کی حد تک بہت واضح ہیں کہ مسلمان اور مسلمان کا جو آپس میں رشتہ ہے اور اسلامی اخوت کی رو سے شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی کہ ایک مسلمان گروہ پر ایک غیر مسلم گروہ حملہ کرے اور آپ اس کا ساتھ دیں، چاہے اس سے کچھ زیادتی ہوئی ہو اور چاہے وہ باغی ہو۔ باغیوں کے بارے میں بھی فقہا بہت وضاحت سے کہتے ہیں کہ باغی جومسلمان ریاست کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تو گو انھوں نے ظلم بھی کیا ہے اور ناحق لوگوں کو مارا بھی ہے، لیکن ان کے خلاف کوئی غیرمسلم ملک حملہ کر دے تو آپ اس کا ساتھ نہیں دیں گے۔

اس لحاظ سے تکفیری گروہ کی جگہ پر کھڑے ہو کر اگر ہم سوچیں تو کہہ سکتے ہیں کہ امریکا کا ساتھ دینے کے معاملے پر وہ جو تکفیری فتویٰ لگاتے ہیں، اس کے متعلق یہ تو دیکھا جا سکتا ہے کہ اس میں کچھ بے احتیاطی پائی جاتی ہے یا نہیں پائی جاتی، لیکن ان کا بنیادی مقدمہ میرے خیال میں جینوئن ہے کہ افغانستان کے مسلمانوں کے خلاف امریکہ کو مدد فراہم کرنے کی اجازت ہم ازروئے شریعت کیسے دے سکتے ہیں؟ یا تو اس بنیاد کو واضح کرنا چاہیے کہ کیا شریعت خاص حالات میں مخصوص شرائط کے ساتھ اس کی اجازت دیتی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کوئی غیر مسلم ملک حملہ کرے اور آپ اس کا تعاون کریں؟ میرا خیال ہے کہ آپ کے استدلال سے یہ بات واضح نہیں ہوتی۔

دوسرا سوال علۃ القتال سے متعلق آپ کی گفتگو سے ہے۔ مجھے جہاں تک اس بحث کو پڑھنے کاموقع ملا ہے، مجھے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ فقہا کے ہاں جو یہ بحث اٹھی ہے کہ قتال کی علت کفر ہے یا کچھ اور، وہ بنیادی طورپر جنگ شروع کرنے کے تناظر میں نہیں ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ فقہا کا ایک گروہ یہ کہتا ہو کہ اگر آپ نے غیر مسلموں کے خلاف جنگ شروع کرنی ہے تو اس کی وجہ کفر ہے اور دوسرا کہتا ہو کہ اس کی وجہ ظلم ہے۔ اس پر سب متفق ہیں کہ غیر مسلم ملک کے خلاف جنگ کرنے کا ابتداءً آپ کو حق حاصل ہے۔ ہاں، اس کے بعد آپ نے جنگ ختم کہاں کرنی ہے، غایت کیا ہے؟ یہاں وہ فرق کرتے ہیں کہ کیا آپ نے ان کو لازماً اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنا ہے یا اگر وہ اسلام قبول کیے بغیر مسلمانوں کی محکومیت قبول کر لیں تو آپ جنگ کو روک دیں گے۔ تو یہ بحث ابتداے قتال کے حوالے سے نہیں، انتہاے قتال کے تناظر میں ہوئی ہے۔ میری سمجھ میں فقہا کا موقف یہی آیا ہے۔ اگر آپ نے ا س سے مختلف کوئی چیز اخذ کی ہے تو اس کی وضاحت فرما دیں۔

زاہد صدیق مغل صاحب کی گفتگو سے متعلق ایک سوال تو یہ سامنے آتا ہے کہ انھوں نے جمہوریت کی، سرمایہ دارانہ نظام کے تناظر میں پورے سسٹم کی اور اس کے اداروں کی ایک تفہیم پیش کی کہ یہ بنیادی طو رپر ایک خاص تصور ہے اور ایک پورا پیکج ہے، اس کے اجزا کو آپ الگ الگ نہیں کر سکتے۔ اس مقدمے پر الگ سے بہت سے سوالات ہیں جن کو اس وقت عرض کرنا میں مناسب نہیں سمجھتا کہ وہ کافی تفصیل چاہتے ہیں۔ جو سوال اس وقت کی بحث سے متعلق ہے، وہ یہ ہے کہ آپ یہ بات کہہ رہے ہیں خروج کے جواز اور عدم جواز کے تناظر میں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت کے پورے سسٹم کی ایک تفہیم ہے اور اس پر کچھ نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ یہ نکتہ کہ جمہوریت کا نظام کیا ہے اور کیا نہیں ہے اور یہ کہ وہ کس حد تک اسام کے موافق ہے یایا نہیں ہے اور یہ بھی فرض کر لیں کہ وہ بہت سے پہلووں سے اسلام کے مخالف ہے تو بھی اس کے حوالے سے ہمیں عملاً کیا رویہ اختیار کرنا ہے، یہ تینوں چیزیں اجتہادی ہیں۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان تینوں سوالات کے حوالے سے جو نتائج فکر آپ نے پیش کیے ہیں، وہ اتنے قطعی اور واضح ہیں کہ اس پرکسی اجتہادی اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ اس وقت پاکستان میں جو علما جمہوریت کی تائید کر رہے ہیں، ان کا جمہوری نظام کی تفہیم کے حوالے سے مختلف نقطہ نظر موجود ہے۔ ا س نظام میں سے کتنا قابل اخذ ہے اور کتنا قابل ترک ہے، اس کے متعلق بھی آرا مختلف ہیں۔ اسی طرح اس میں جتنا قابل اعتراض ہے، ا س کے حوالے سے ہمیں عملی طورپر کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے، یہ تینوں اجتہادی بحثیں ہیں۔

اب آپ نے جس طرح اپنی بات کوبیان کیا ہے، اس سے مجھے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگرچہ مسلمان معاشرے کی اکثریت، وہاں کے علما اور مذہبی طبقات ایک اجتہادی نقطہ نظر رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر معاشرے کو تشکیل دینا چاہتے ہیں، اس کے باوجود آپ کسی خاص گروہ کو یہ حق دیتے ہیں جو اس اجتہادی تعبیر سے مختلف رائے رکھتا ہے کہ وہ اپنی تعبیر کے درست ہونے کے یقین کی بنیاد پر اٹھے اور خروج کر کے ایک دوسرا نظام پورے معاشر ے پر مسلط کرنے کی کوشش کرے۔ میں ا س امکان کو مانتا ہوں کہ ان کی بات ٹھیک ہی ہو اور ان کا سارا مقدمہ درست ہو، لیکن وہ یہی اجتہادی اختیار معاشرے کی اکثریت کو کیوں نہیں دیتے کہ وہ ان سے مختلف تعبیر کو اختیار کرے؟ وہ نظری بحث کریں، لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کریں، استدلال کریں، لیکن جب تک مسلمان معاشرہ ان کے استدلال کا قائل نہیں ہو جاتا، اس سے پہلے کیا آپ اس کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ اپنے فہم کو بالجبر نافذ کرنے کے لیے خروج کرے؟ یہ ایک سوال ہے۔

اسی طرح دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ نے یہ کہا کہ قومی ریاست کا اسلام میں کوئی تصور نہیں۔ اگر تو یہ بات اس مفہوم میں ہے کہ قومی ریاست کے ساتھ عام طور پر جو تعصبات نتھی ہو جاتے ہیں جو اس کو حق وباطل کا معیار بنا دیتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس کا اسلام میں کوئی تصور نہیں۔ یہ ایک بالکل قابل فہم بات ہے۔ لیکن اگر قومی ریاست کی تقسیم کچھ انتظامی مصالح کے تحت ہو، مثلاً مسلمانوں کے دو الگ الگ خطے ہیں، وہ اپنے لیے حکمرانوں کا انتخاب الگ الگ کرنا چاہتے ہیں یا مثال کے طور پر قانونی دائرۂ اختیار (Jurisdiction) کا مسئلہ ہے، اس میں فرق کرنا چاہتے ہیں یا اس دنیا میں رہتے ہوئے اجتماعی سیاسی ذمہ داریوں کامسئلہ ہے، اس میں تقسیم چاہتے ہیں تو ان پہلووں کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں؟ کیا ان بنیادوں پر بھی الگ الگ ریاستوں کا وجود غیر اسلامی ہے؟ 

اگر یہ بات ہے تو اس پر کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ بات کہ مسلمانوں کے ایک ہی وقت میں دو الگ الگ سیاسی مراکز اطاعت ہوں، یہ تو صحابہ کے دور میں موجود رہا ہے۔ حضرت علی کی الگ حکومت تھی، حضرت معاویہ کی الگ تھی۔ ا س کے بعد کے دور میں بھی اسلامی تاریخ میں ہمیشہ یہ صورت موجود رہی ہے۔ جیورس ڈکشن کے لحاظ سے یہ فرق مانا گیا، ذمہ داریوں کے لحاظ سے بھی فرق مانا گیا کہ ایک مسلمان گروہ پر جو انتظامی لحاظ سے الگ منظم ہے، کچھ ذمہ داریاں عائد ہوں اور دوسرے گروہ پر عائد نہ ہوں۔ تو یہ کچھ انتظامی اور عملی پہلو ہیں۔ اگر آپ اس لحاظ سے بھی یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں اس کا کوئی تصور نہیں تو اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔

ایک خاص سوال یہ ہے کہ آپ نے خروج کے جائز ہونے پر یہ دلیل دی کہ صحابہ کے دور میں خروج ہوا۔ مجھے جہاں تک فقہی لٹریچر پڑھنے کا موقع ملا ہے تو اس دور میں جتنے بھی خروج ہوئے، ان کے بارے میں فقہا نے یہ تو بیان کیا ہے کہ ان حضرات کے لیے یہ راستہ اختیار کرنے کی ایک اجتہادی گنجائش تھی، لیکن اس سے مثبت طور پر کوئی جواز اخذ نہیں کیا گیا۔ امام حسین نے جس صورت حال میں یہ کیا، ان کے لیے اجتہادی گنجائش ہے کہ انھوں نے ان نصوص کو کس محمل پر محمول کیا جن میں ممانعت بیان کی گئی ہے یا ان کے سامنے کیا صورت حال تھی یا ان کو کیا صورت حال بتائی گئی تھی، لیکن میرے علم کی حد تک ان کے خروج سے عام طور پر فقہا یہ بات اخذ نہیں کرتے کہ چونکہ امام حسین نے خروج کیا تھا، اس وجہ سے یہ درست ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے حضرت علی کی اطاعت حضرت امیر معاویہؓ نے قبول نہیں کی تو اس ضمن میں اہل سنت کا عمومی موقف یہ رہا ہے کہ وہ حضرت معاویہ کے اس عمل کے لیے ایک اجتہادی گنجائش تو مانتے ہیں لیکن اس سے جواز اخذ نہیں کرتے کہ ان کا اقدام کوئی معیاری اقدام تھا۔

ڈاکٹر حسن مدنی

میرے خیال میں سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ کیا اس وقت دنیا میں کوئی دار الاسلام موجود ہے؟ اگر موجود ہے اور ہم کسی جگہ کو دار الاسلام مانتے ہیں تو سارے احکامات اس کی بنیاد پر تبدیل ہوں گے۔ اس سوال کا تعلق اس بات سے ہے کہ کیا ہم اسلام کا کوئی نظام سیاست بھی مانتے ہیں؟ کیا اسلام کا نظام سیاست جمہوریت کے آنے کا منتظر تھا کہ مغرب کا ارتقا ہوگا اور جمہوریت کے نام پر ایک نظام وجود میں آئے گا تو اس کے بعد اسلام کا سیاسی نظام بنے گا اور ا س سے پہلے مکمل نہیں ہوگا؟ تو اس مجلس کے شرکا کے سامنے یہ بنیادی سوال ہے کہ کیا وہ کسی خطے کو اس وقت شرعی وفقہی نقطہ نگاہ کے مطابق دار الاسلام مانتے ہیں؟

ڈاکٹر خالد مسعود

مجھ سے جو سوال کیا گیا، اس کا جواب یہ ہے کہ عدل کے دو مفہوم ہیں۔ ایک تو اس کا کلامی مفہوم ہے جس طرح کہ معتزلہ اور شیعہ کے ہاں ہے اور اس میں زیادہ تر بحث اللہ تعالیٰ کی صفات کے حوالے سے ہے۔ دوسرا مفہوم اس کا اطلاقی ہے اور اس میں عام طور پر عدل، ظلم کے مقابلے میں آتا ہے۔ جب بھی آپ عدل کی تعریف پوچھتے ہیں تو وہ ظلم کی تعریف کرتے ہیں اور ظلم کی تعریف جو عام طور پر میں نے پڑھی ہے، وضع الشئ فی غیر محلہ۔ یہ بالکل لفظی طور پر یونانیوں سے لیا گیا ہے۔ ارسطو جیسا مفکر اس بات کا قائل تھا کہ غلامی فطری چیز ہے، غلام فطری طو رپر غلام پیدا ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں وہ فکر اس طرح آئی کہ معاشرے میں جس کا جو بھی مقام ہے، اس کے مطابق احکام ہوں گے۔ چنانچہ وضع الشئ فی غیر محلہ جو ظلم کی تعریف ہے، وہ ہمارے ہاں عدل کے لیے آ گئی اور سیاست عادلہ اور سیاست ظالمہ کی اس لحاظ سے تعریف کی گئی۔ آپ نے مساوات کی جو مثال دی، اس سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ ہم خواتین کو برابر کے حقوق اس لیے نہیں دیتے کہ خواتین کامقام ہمارے معاشرے میں مختلف ہے، اسی طرح جس طرح کہ غلام کامقام مختلف تھا۔ تو یہ جو تصور ہے، یہ اسلام اور قرآن کا تصور نہیں تھا۔ فقہ میں اور علم الکلام میں جب یہ بحثیں شروع ہوئیں تو یہ ساری چیزیں باہر سے ہم نے لیں۔ یقیناًایران سے لی ہوں گے۔ میں بحث کو صرف وہاں تک رکھنا چاہتا ہوں کہ یہ تصور چونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ آج کے تصور کے خلاف ہے، اس لیے ہم عوام کو وہ دیتے ہوئے کتراتے ہیں کہ ہمارے ہاں ابھی تک ظلم کا وہی تصور ہے۔ ایک hierarchy ہے، کچھ مراتب ہیں اور ان کو ہمیں ا س لحاظ سے ٹریٹ کرنا ہے۔

ڈاکٹر رشید احمد

مدنی صاحب نے اسلامی ریاست کے حوالے سے بہت اہم نکات اٹھائے ہیں اور اس کاموضوع سے بہت گہرا تعلق ہے کہ آج کے زمانے میں کوئی اسلامی ریاست ہے یا نہیں، کیونکہ یہ جو دار الاسلام اور دا الکفر کا تصور تھا، یہ اصل میں امر واقع کے طور پر تھا، شرعی حکم نہیں تھا کہ قرآن وحدیث میں یہ کہا گیا ہو کہ یہ دار الاسلام ہے اور یہ دار الکفر ہے۔ امام شافعی سرے سے اس بات کے قائل ہی نہیں کہ کوئی دوسرا دار ہو۔ وہ ساری دنیا کو ایک ہی دار سمجھتے ہیں۔ تو اس بات پر بہت زیادہ بحث کی گنجائش موجود ہے کہ کوئی ریاست کب یہ دار الاسلام سے دار الحرب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ برصغیر پاک وہند کو ایک خاص موقع پر دار الحرب قرار دیا گیا، یعنی اس سے پہلے یہ دار الحرب نہیں تھا۔ تو میرے خیال میں آج کے حالات کے حوالے سے یہ ایک اصولی بحث ہے کہ جب کسی ریاست میں حکومت مسلمانوں کی ہو، اقتدار اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے لیے ہو، وہاں آئین ودستور اسلامی ہو تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ اسی کے ضمن میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ا س حکومت کے خلاف کوئی خروج کرتا ہے تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہوگی اور اسلامی ریاست کو ہم کیسے دیکھتے ہیں۔ تو میرے خیال میں یہ بہت اچھا نکتہ ہے اور اس پر بات ہونی چاہیے۔

جماعت اسلامی نے جو طریق کار اختیار کیا اور مصر میں اخوان المسلمون نے جو طریقہ اختیار کیا، اس کے متعلق خورشید ندیم صاحب نے جو کہا، میں اس کی تائید کرتا ہوں۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے اور میرے خیال میں بہت relevant ہے اور اس پر مزید بات ہونی چاہیے کہ یہ جو رد عمل کا فرق ہے، اس کا پس منظر کیا ہے۔ دونوں حوالوں سے ہم ان لوگوں کو appreciate کرتے ہیں باوجود اس کے کہ ان پر ظلم ہوا۔ یہ قرآن وحدیث کے مطابق ہے کہ جب ظالم وجابر حکمران ہوں تو آپ پر صبر لازم ہے۔ تو یہ جو دو باتیں ہیں، ان کا ہمارے موضوع سے بہت گہرا تعلق بنتا ہے۔

ڈاکٹر خالد مسعود

میرے خیال میں بہت اچھا نکتہ ہے۔ خلافت راشدہ کے بعد پوری اسلامی تاریخ میں ہم سمجھتے ہیں کہ خلافت کا صحیح نظام نہیں تھا تو یہ بھی سوال ہے کہ دار الاسلام سے کیا مراد ہے؟

ڈاکٹر قبلہ ایاز

کچھ نکات کی طرف عامر رانا صاحب نے اشارہ کیا اور ایک سوال ہمارے شاگرد عبد السبوح صاحب کی طرف سے آیا۔ میرے خیال میں بڑی خوشی کی بات استاد کے لیے یہ ہوتی ہے کہ شاگرد اپنے استاد کی گرفت کرے اور ایسے شاگردوں پر استاد کو فخر ہونا چاہیے۔

میں نے یہ بھی تھا کہ ہمارے خیبر پختون خوا اور قبائلی علاقوں کے جو ہمارے علما ہیں، وہی ہیں جو ہمارے دینی مدرسوں سے جاتے ہیں تو ان میں حنفیت سے زیادہ لاشعوری طو رپر ، نہ جانتے ہوئے بھی سلفیت کا اثر آ رہا ہے۔ جب میں حنفیت اور سلفیت کی بات کر رہا ہوں تو ہرگز کسی فرقہ وارانہ تناظر میں یا تنگ نظری کے حوالے سے نہیں کر رہا، بلکہ اس پورے مسئلے کے موجودہ تناظر اور مذہب اور بشریات ، ان تینوں کو ملانے کی کوشش کر رہا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہم مانیں یا نہ مانیں، اس وقت مسئلے کی جو جڑ ہے، باقی اس کا collateral damage ہے، وہ پشتون بیلٹ میں ہے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، پوری دنیا کی سیاست اس وقت پشتون بیلٹ کے گرد گھوم رہی ہے۔ یہ باقی باتیں بعد میں آئی ہیں۔ طالبان کی بھی غالب اکثریت پشتون ہے۔ قبائلی علاقہ مکمل پشتون ہے۔ پھر خیبر پختون خوا میں جو پشتون علاقہ ہے، مسئلہ اس میں ہے۔ ہزارہ میں نہیں ہے، چترال میں نہیں ہے۔ مسئلہ پشتون بیلٹ میں ہے۔ 

اب پشتون جو ہیں، اس میں آپ نے لازماً بشریات کے حوالے سے اس مسئلے کو دیکھنا ہوگا۔ میں نہیں سمجھتا کہ سلفیت کوئی بری چیز ہے۔ قرآن وسنت کے حوالے سے ایک تعبیر حنفی حوالے سے ہے اور ایک سلفی حوالے سے۔ اسے ہمیں ایک صحت مند انداز سے لینا چاہیے، لیکن پشتون جو ہیں، وہ ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد حنفی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ تنگ نظری کے حوالے سے نہیں، بلکہ پشتون مزاج کے لحاظ سے حنفی تعبیر ہی اس کے لیے بہترین تعبیر ہے۔ یہ بات میں بشریا کے حوالے سے کہہ رہا ہوں۔ اگر پشتون سلفی نقطہ نگاہ کے ہوتے تو شاید اور بہت سے مسائل کھڑے ہو جاتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ پشتونوں پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ حنفی ہیں، کیونکہ حنفیت میں correction of authority ہے اور سلفیت میں rejection of authority ہے۔ یہ میں ایک سادہ تعبیر کر رہا ہوں۔ اب چونکہ نہ جانتے ہوئے بھی ہماری مذہبی سوچ میں rejection of authority کا اثر زیادہ آرہا ہے جو حنفی تعبیر نہیں، اس وجہ سے مسئلے پیدا ہو رہے ہیں۔

ایک بات میں نے یہ کہی تھی کہ خیبر پختون خوا کے ساتھ متصل جو قبائلی علاقہ ہے، اس میں جو لوگ اس وقت باغی عناصر کی قیادت کر رہے ہیں، ان کی اکثریت عالم نہیں ہے۔ البتہ یہ آپ نے درست کہا کہ وہ اتھارٹی علما کو بناتے ہیں۔ جو عالم ہیں، وہ استنباط کرتے ہیں۔ لٹریچر ان کی پشت پر ہے۔ اس لٹریچر پر جو اثرات ہیں، وہ عبد اللہ عزام، القاعدہ، الولاء والبراء کے تصور کے ہیں جو سلفی تصور ہے۔ تکفیری حوالے سے بھی جو کچھ پنجاب میں ہوا اور جس طریقے سے وہ بندہ مقبول ہوا۔ اس وقت آپ پشتونوں کے دینی مدارس میں حنفی تعبیر بیان نہیں کر سکتے۔ وہاں پر اس پورے مسئلے کی سلفی تعبیر ہی مانی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کو آپ حنفی میزان پر پرکھیں گے تو کچھ اور نتائج سامنے آئیں گے۔

مولانا مفتی محمد زاہد

مجتبیٰ راٹھور صاحب نے بڑا دکھتا ہوا سوال کیا ہے کہ علماء خاموش کیوں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ قبلہ ایاز صاحب نے اس جملے میں اس کا جواب دے دیا ہے کہ وہ حضرت حسین نہیں بننا چاہتے۔ بہرحال یہ ایک بڑا سنجیدہ سوال ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ کوئی حضرت حسین بننے کے لیے تیار نہیں ہے، لیکن بہرحال کسی نہ کسی وقت تو یہ بات کرنی پڑے گی۔ دوسرا ، میں یہ سمجھتا ہوں کہ ابھی علما کے حلقوں میں کافی کنفیوژن ہے اور صورت حال پر باقاعدہ debate سرے سے ان حلقوں میں ہوئی ہی نہیں۔ اب جو نوجوان علما آ رہے ہیں، شاید ان میں کچھ کہنے سننے کا حوصلہ ہے، لیکن وہ جو status quo کا جو ایک ذہن ہوتا ہے کہ میرا ایک ادارہ چل رہا ہے، میری ایک شخصیت بنی ہوئی ہے تو مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں خواہ مخواہ اپنے آپ کو کسی دباؤ میں لاؤں! یہ بھی ایک نفسیاتی سی چیز ہوتی ہے۔ ان ساری چیزوں پر ہمیں سوچنا چاہیے۔ بہرحال یہ ایک اہم سوال ہے۔

جناب عامر رانا صاحب نے بڑی تفصیل سے ہمارے علم میں اضافہ فرمایا کہ نائن الیون سے بھی پہلے یہ تکفیری سوچ پاکستان میں موجود تھی اور انھوں نے باقاعدہ واقعاتی حوالے بھی دیے۔ یقیناًایسے ہی ہے، لیکن میرا اصل مدعا یہی تھا کہ ہمارا جو ان معاملات کو دیکھنے کا برصغیر کا اصل تناظر تھا، وہ پس منظر میں چلا گیا اور میں سلفیت نہیں کہوں گا، سلفیت کا ایک version غالب آ گیا۔ یہ ۹۰ء سے پہلے ہو یا ۸۰ء کی دہائی میں ہوا ہو، بہرحال برصغیر کے اعتبار سے یہ سوچ imported ہے۔ یہاں کا جو ایک تاریخی تناظر ہے علما کا، اس کے لحاظ سے بہرحال یہ ایک غیر متعلقہ سوچ ہے اور یہ بات لوگوں کے سامنے واضح کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ نوجوان خاص طور سے جو پشتون ہیں، وہ برصغیر کے علما سے بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں اور ان کو مجاہد اسلام سمجھتے ہیں اور خاص طو رپر علما کی جو ایک خاص لائن ہے، اس سے خاص عقیدت رکھتے ہیں۔ اگر ان علما کی تاریخ کو صحیح طور پر پڑھ لیا جائے اور ان کے سامنے رکھ دیا جائے تو میرا خیال ہے کہ بہت سے مسائل کو حل کرنے میں یا بہت سے نوجوانوں کو راہ راست پر لانے میں ہمیں مدد مل سکتی ہے۔

ایک اور پہلو جس کو میں زیادہ اہم سمجھتا ہوں، وہ یہ ہے کہ ۱۹۱۷ء تک عسکری آپشن پرکام کرنے کے بعد برصغیر میں علما کی وہ لائن جو دار الحرب والے تصور کے تحت کام کرتی چلی آ رہی تھی، انھوں نے ایک مشاورت کے نتیجے میں اپنے لائحہ عمل میں شعوری طور پر تبدیلی کی اور یہ فیصلہ کیا کہ ہم عدم تشدد پر مبنی آئینی جدوجہد کا راستہ اختیار کریں گے۔ ہمارے ہاں یہ کہا جاتا ہے کہ جو لوگ کسی کافرانہ نظام حکومت کا حصہ بن گئے، وہ کافر ہیں۔ انگریزوں نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء میں نافذ کیا اور اس کے تحت انتخابات کرائے اور مختلف مراحل پر الیکشن ہوتے رہے تو یہ ایک کافروں کا بنایا ہوا نظام تھا اور کافر ہی اسے چلا رہے تھے، لیکن اس کے باوجود علما اس میں شریک ہوئے ۔ وہ ہندووں کے ساتھ بھی بیٹھے اور ان لوگوں کے ساتھ بھی بیٹھے جو بعض لوگوں کے نقطہ نظر کے مطابق فاسق وفاجر تھے۔ جناح صاحب کے ساتھ بھی بیٹھے۔ اب لائحہ عمل میں جو تبدیلی ہوئی تو اس کے بعد اس تبدیلی کی حمایت میں بہت کچھ لکھا گیا۔ مولانا محمد میاںؒ نے بڑی تفصیل سے لکھا، مولانا حسین احمد مدنی نے بڑی تفصیل سے لکھا۔ وہ آج اگر ہم اکٹھا کر کے آج کی نوجوان نسل اور خاص طور پر ایک مخصوص طبقے کے سامنے رکھ دیں تو میرا خیال ہے کہ اس سے مسئلے کے حل میں بہت مدد مل سکتی ہے۔

سبوح سید صاحب نے سوال اٹھایا کہ کیا علماء دیوبند نے جہاد میں حصہ نہیں لیا تھا؟ میں نے یہ بات نہیں کہی۔ میں نے جو عرض کیا، وہ یہ تھا کہ انھوں نے جو لائن اختیار کی، اگر اس سے ہٹ کر کسی نے لائن اختیار کی تو اس کی تکفیر نہیں کی گئی حتیٰ کہ سرسید کی بھی اس بات پر تکفیر نہیں کی گئی کہ وہ گورنمنٹ کے حامی ہیں۔ جو فوج میں بھرتی ہونے والے تھے، ان کی بھی تکفیر نہیں کی گئی۔ باقی رہی یہ بات کہ فلاں جلسے کے فلاں اشتہار میں یہ بات لکھی ہوئی ہے تو جلسوں کا اپنا ایک ماحول ہوتا ہے اور میں یہ بات کئی اور جگہوں پر بھی عرض کر چکا ہوں کہ ہمارے ہاں جلسوں کے ماحول میں تقریروں میں نعروں کے ساتھ جس انداز سے برصغیر کے علما کی جدوجہد کو بیان کیا جاتا ہے، اس تاریخ کو صحیح طور پر سمجھنے اور اس کی صحیح تفہیم کی ضرورت ہے کہ اس سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ آئینی جدوجہد والا جو پہلو ہے، یہ آج کے دور میں کسی کے ذہن میں موجود ہی نہیں ہے۔ مولانا مدنی اور اس طبقے کے دوسرے علما نے اس پر بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔

دار الاسلام کے حوالے سے بھی ایک سوال اٹھایا گیا ہے۔ اول تو جیسا کہ ڈاکٹر رشید احمد صاحب نے کہا، یہ جو دار الاسلام اور دار الکفر کی تقسیم ہے، یہ بذات خود قابل بحث ہے۔ ہمارے دور کے فقہا نے کافی تفصیل سے اس پر لکھا بھی ہے کہ یہ تقسیم فقہا نے اپنے زمانے کے حالات کے اعتبار سے کی ہے۔ لیکن فقہا نے جو دار الاسلام کی تعبیر کی ہے، اس حوالے سے بھی دیکھیں تو جہاں جہاں مسلمانوں کی عمل داری قائم ہے، اس کو ہم دار الاسلام ہی کہیں گے، حتیٰ کہ علما کا ایک طبقہ، جیسا کہ میں نے عرض کیا، مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ ، مولانا عبد الحئی لکھنوی اور مولانا احمد رضا خان بریلوی برصغیر میں اس زمانے میں بھی جبکہ انگریزوں کی عمل داری قائم ہو چکی تھی، اس زمانے میں بھی ہندوستان کو دار الحرب ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ جو لوگ ہندوستان کو دار الحرب کہتے تھے، ان میں علما کی وہ لائن جو آگے چل کر جمعیت علماء ہند کی شکل میں سامنے آئی، میں اس کے ایک دو حوالے آپ کے سامنے پیش کر دوں۔

مولانا مدنی نے ’’نقش حیات‘‘ میں ایک جگہ اس پر بحث کی ہے۔ غالباً ان کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ ہم دارالحرب کی بنیاد پر جو آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں، جب کانگریس کے ساتھ مل کر ہندوستان آزاد ہو گیا تو پھر ہم اس کی کیا حیثیت متعین کریں گے؟ مولانا مدنی نے بڑی ذہانت سے اس کا جواب دیا ہے۔ یہ ایک لمبا اقتباس ہے۔ میں اس کا تھوڑا سا حصہ پڑھتا ہوں۔ شاہ عبد العزیز کا ایک اقتباس نقل کرنے کے بعد مولانا مدنی لکھتے ہیں کہ 

’’اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کسی ملک میں سیاسی اقتدار اعلیٰ کسی غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں ہو، لیکن مسلمان بھی بہرحال اس اقتدار میں شریک ہوں اور ان کے دینی ومذہبی شعائر کا احترام کیا جاتا ہو، تو وہ ملک حضرت شاہ عبدالعزیزؒ کے نزدیک بے شبہ دار الاسلام ہوگا اور ازروئے شرع مسلمانوں کا فرض ہوگا کہ اس ملک کو اپنا ملک سمجھ کر اس کے لیے ہر نوع کی خیر خواہی اور خیر اندیشی کا معاملہ کریں۔‘‘

ایک اور اقتباس بھی ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوی نے بھی دار الحرب ہونے کا فتویٰ دیا، اگرچہ اس موضوع پر ان کے دو متضاد فتوے ہیں، لیکن جو ذرا تفصیلی فتویٰ ہے، اس میں وہ لکھتے ہیں کہ:

’’کفار کا غلبہ تو ہوا، لیکن بعض حیثیات سے اس میں اسلام کا غلبہ بھی باقی ہے تو اس کو اب بھی دار الاسلام ہی کہا جائے گا نہ کہ دار الحرب۔ اتنی بات پر سب ائمہ کا اتفاق ہے۔‘‘

میں عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ فقہا کی جو روایتی تعبیر ہے دار الحرب اور دار الاسلام کی، اس کو بھی اگر پیش نظر رکھیں تو اس وقت جہاں جہاں مسلمانوں کی عمل داری قائم ہے، بشمول پاکستان اور افغانستان کے کہ وہاں ان کی اپنی پارلیمنٹ ہے، انتخابات ہوتے ہیں، جیسے کیسے بھی ہوتے ہیں، منتخب صدر بھی موجود ہے، ان سب چیزوں کی موجودگی میں ہم افغانستان کو دار الحرب نہیں کہہ سکتے، دار الاسلام ہی کہیں گے۔ میں کسی جنگ کے حوالے سے نہیں کہہ رہا کہ کون صحیح ہے اور کون غلط ہے، لیکن یہ بات میں آخر میں ضرور عرض کروں گا کہ ہم بات کرتے ہوئے افغانستان اور پاکستان، ان دونوں کو الگ الگ نہیں کر سکتے۔ اگر یہ کہیں گے کہ پاکستان فوج کے خلاف لڑنا تو گناہ ہے، یہ خروج ہے اور دوسری طرف اسی طرح کا کام کیا جائے تو اس کے بارے میں ہم کچھ اور انداز اختیار کر لیں تو میرا خیال ہے کہ یہ درست نہیں ہوگا۔ ہمیں دونوں کو اکٹھے ہی دیکھنا چاہیے۔

محمد مجتبیٰ راٹھور

عمار صاحب نے دو تین باتیں کیں۔ ایک تو شاید انھوں نے میرے انداز بیان پر بات کی ہے کہ دوسرے فریق کی جگہ پر کھڑے ہو کر اس کے موقف کو سمجھنا چاہیے۔ میں نے اس فورم پر صرف ان لوگوں کا موقف دلائل کے ساتھ علما کے بیان کیا ہے تاکہ جو نکات اٹھائے جائیں، ان پر مناسب انداز میں بات ہو سکے۔ دوسری چیز جو الولاء والبراء کا تصور ہے، میں نے امام رازی کے جو تین تصورات پیش کیے، ا س سے بالکل یہ مقصود نہیں تھا کہ حکمران ان تین صورتوں میں آتے ہیں یا نہیں آتے۔ جو ایک بحث چل رہی ہے کہ اس کا رد عمل کیا ہے، یا ظلم کی بحث چل رہی ہے، اس پر کیا موقف علماے کرام یامذہبی طبقہ لے سکتا ہے۔ اسی سے یہ بحث نکلتی ہے۔ مقصد صرف یہ تھا کہ جو تین صورتیں بیان کی گئی ہیں، وہ اس حوالے سے بہت زبردست ہیں کہ علماء کرام اس پر متفق ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے میں نے بات کی تھی۔

تیسری چیز کہ علۃ القتال کی جو بحث میں نے بیان کی، صرف اس نقطہ نظر سے تھی کہ یہ لوگ جو موقف اختیار کرتے ہیں کفر کے علۃ القتا ل ہونے کی بنا پر اور ہر ایک سے لڑتے ہیں، تو اس پر فقہا نے یہ لکھا ہے کہ کفر کی بنیاد پر ہر کسی سے نہیں لڑنا چاہیے۔ وجوہات کیا ہیں؟ وہ کفرمحاربہ ہے۔ کسی غیر مسلم ملک پر حملے کی وجہ محاربہ ہی ہے۔ یا وہ آپ کے ملک کے خلاف جنگ کرنے کی سازش کر رہے ہوتے ہیں یا ڈائریکٹ آ کر آپ پر حملہ کرتے ہیں تو آپ پر جہاد فرض عین ہو جاتا ہے۔ تو یہ علۃ القتال کی بحث صرف اس وجہ سے فقہا نے بیان کی ہے تاکہ یہ مفہوم واضح ہو سکے۔ کچھ آیات کی تفسیر کی جس سے یہ استدلال ہوتا ہے کہ یہ صرف کفر کی وجہ سے ہے۔

زاہد صدیق مغل

ایک نکتہ یہ اٹھایا گیا کہ جب سرمایہ دارانہ نظام کے حوالے سے ہماری گفتگو ہوتی ہے تو جو جہادی تحریکات ہیں، انھوں نے بالعموم سوشل ازم کے خلاف تو خروج کیا، لیکن لبرل ازم کے خلاف نہیں کیا۔ میں یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ سرمایہ داری کی تین بڑی تشریحیں ہیں۔ ہمارے ہاں عام طو رپر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ سوشلزم سرمایہ داری سے الگ کوئی چیز ہے۔ سرمایہ داری کا مطلب ہے آزادی اور مساوات کی بنیاد پر معارتی وریاستی نظم قائم کیا جائے۔ اب یہ ریاستی نظم کیسے قائم کیا جائے گا، اس کی تین بڑی تشریحیں ہیں۔ ایک وہ جس کو ہم لبرل ازم یا مارکیٹ اکانومی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ سرمایہ داری کی دوسری تشریح وہ ہے جس کو مارکسزم کے نام سے پیش کیا جاتا ہے۔ ایک مارکیٹ کیپٹل ازم ہے اور ایک اسٹیٹ کیپٹل ازم۔ مارکس نے کبھی اس بات سے انکار نہیں کیا کہ آزادی اور مساوات کی بنیاد پر اسٹیٹ قائم ہو۔ اس کی تنقید یہ تھی کہ مارکیٹ اکانومی میں آزادی اور مساوات نہیں ملتی۔ مارکس ازم اور لبرل ازم میں بنیادی فرق صرف یہ ہے کہ ایک آزادی کی انفرادی تشریح کرتا ہے اور دوسرا آزادی کی collective تشریح کرتا ہے، اس لیے ایک اسٹیٹ کیپٹل ازم ہے اور دوسری لبرل کیپٹل ازم۔ سرمایہ داری کی تیسری بڑی تشریح قوم پرستی ہے۔ قوم پرستی کے تناظر میں جو سوال پوچھا گیا، اس کے جواب میں یہ نکتہ اہم ہے کہ سرمایہ داری کی ایک تیسری تشریح ہے قوم پرستانہ نظریہ اختیار کرنا۔ ان تینوں کے درمیان اپنے اپنے فرق موجود ہیں۔

جہاں تک یہ بات ہے کہ عام طور پر جہادی تحریکات نے سوشل ازم کے خلاف جدوجہد کی تو اس کے دو تین تناظر ہیں جس میں یہ بات سمجھی جا سکتی ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ لبرل ازم کے اندر مذہبی انفرادیت کے اظہار کے جس قدر مواقع موجود ہیں، سوشل ازم اتنے بھی نہیں دیتا۔ یعنی اگر آپ سوشل ازم کی تاریخ دیکھیں تو یے پناہ مظالم انھوں نے روس میں کیے، چین میں کیے۔ سوشل ازم مذہبی آزادی اتنی بھی نہیں دیتا جتنی لبرل ازم دیتا ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے جس کی وجہ سے علماء کرام نے بالعموم سوشل ازم کو شیطان بزرگ کے طو رپر دیکھا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہماری رائے یہ ہے کہ ہمارے ہاں دار الحرب اور دار الاسلام کی جو کنفیوژن ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ علماء کرام نے سرمایہ داری کو بحیثیت ایک نظام زندگی کے ان معنوں میں نہیں لیا۔ انھوں نے یہ سمجھا کہ یہ جو لبرل ازم میں آزادیاں ہیں، یہ اسلامی آزادیاں ہیں ، جبکہ لبرل ازم جس طرح بہت سے لوگوں کو کھلاڑی بننے کی اجازت دیتا ہے، اسی طرح مسلمان ہونے اور عیسائی بننے کی بھی اجازت دیتا ہے۔ لبرل ازم کے بارے میں عام طور پرعلما کے ہاں نرم گوشہ اس وجہ سے نہیں پایا جاتا کہ معاذ اللہ ان کی نیت میں شک ہے یا وہ لبرل ازم کو حق سمجھتے ہیں، بلکہ ہمارے خیال میں لبرل ازم کے بارے میں ان کے ذہن میں کنفیوژن ہے اور جس دن یہ کنفیوژن دور ہو جائے گی، علماء کرام نے جس طریقے سے سوشل ازم کے خلاف خروج کیا، اسی طریقے سے لبرل ازم کے خلاف بھی ہو جائے گا۔

تیسری بات یہ کہ عام طور پر جہاد افغانستان کے تناظر میں بھی یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ مجاہدین نے امریکہ سے مدد لی۔ بات یہ ہے کہ انٹر نیشنل تناظر میں ہر ملک کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور جہاں آپ کے مفادات کسی کے ساتھ reconcile کرتے ہیں، آپ کو فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ ہر شخص اٹھاتا ہے۔ اگر مجاہدین ایک زمانے میں سوشل ازم کے خلاف جہاد کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ گئے اور اس کا ساتھ دیا تو یہ ان کے لاجسٹک مفاد میں تھا۔ اگر تو تاریخ ہمیں یہ بتاتی کہ جن مجاہدین نے امریکہ کے ساتھ مل کر جہاد کیا، وہ بعد میں امریکہ کے اتحادی بن گئے تو یہ الزام بالکل ان پر بجا تھا کہ وہ ایک زمانے میں امریکہ کے Tool بن گئے، لیکن ہم تو دیکھتے ہیں کہ جو لوگ امریکہ کے ساتھ مل کر جہاد کرنے میں پیش پیش تھے، آج وہی لوگ ہیں جو امریکہ کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ یہ ان کا صرف ایک لاجسٹک فیصلہ تھا ۔ ہم اسلامی تاریخ میں دیکھیں تو اس کی بے شمار مثالیں مل جائیں گی کہ کفار کے ساتھ بظاہر لاجسٹک مفاد کے لیے تعلق بنایا گیا۔ آپ لاجسٹک مفاد کے لیے ساتھ ’’لے‘‘ سکتے ہیں، ’’دے‘‘ نہیں سکتے۔ میرے خیال میں ساتھ لینے اور ساتھ دینے میں بڑا بنیادی فرق ہے۔ ہاں، ہر فریق اپنے زاویہ سے یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم نے فائدہ اٹھایا۔ امریکہ کہتا ہے کہ اس نے فائدہ اٹھا لیا اور ہم کہتے ہیں کہ ہم نے فائدہ اٹھایا۔ تو یہ دو طرفہ رائے تو بہرحال پائی جا سکتی ہے۔

ایک سوال خورشید ندیم صاحب کی طرف سے آیا تھا کہ مسلمان معاشروں میں حکومت کیسے قائم ہوگی۔ اس پر میرا ایک تفصیلی مضمون ہے جس میں، میں نے ان دلائل کا تجزیہ کیا ہے جو عام طو رپر جمہوریت کے حق میں دیے جاتے ہیں۔ مثلاً قرآن مجید کی ایک آیت ہے جسے rhetorically پڑھا جاتا ہے کہ امرہم شوری بینہم۔ اس آیت سے استدلال میں جتنے مسائل ہیں، وہ سب میں نے اپنے مضمون میں بیان کر دیے ہیں۔ بنیادی غلطی یہ ہے کہ ہم جمہوریت کو محض تبدیلی حکومت کا ایک نظام سمجھتے ہیں، جبکہ جمہوریت صرف حکومت تبدیل کرنے کا نام نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا کہ جمہوریت تو illiberal بھی ہوتی ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں جو فوج اقتدار میں آ جاتی ہے تو وہ جمہوریت نہیں رہتی؟ ایسا نہیں ہے، وہ illiberal democracy ہو جاتی ہے۔ جمہوریت تو اس اداراتی صف بندی کا نام ہے جس کے ذریعے سے نظام اطاعت قائم کیا جاتا ہے۔ سو جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم جمہوریت کے خلاف ہیں تو اس سے مراد یہ نہیں کہ حکومت بدلنے کا یہ طریقہ چھوڑ کر کوئی اور طریقہ اختیار کر لیا جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا یا کوئی اسلامی جماعت جیت کر اقتدار میں آ جائے گی تو اسلامی نظام قائم ہو جائے گا۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ جن اداروں کے ذریعے سے حکومت کی جا رہی ہے، ان کے ذریعے سے سرمایہ دارانہ نظام کے مقاصد کو تو محفوظ کیا جا سکتا ہے، لیکن شریعت کی بالادستی کبھی قائم نہیں کی جا سکتی۔ نظام کے اسٹرکچر میں اور اس کے مقاصد میں ایک in-built relationship ہوتا ہے۔ آپ ان کو علیحدہ نہیں کر سکتے۔ Form اور Essence دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ تو یہ جو جمہوری اسٹرکچر میں حکومت کے جتنے ادارے ہیں، وہ آزادی، مساوات اور ترقی میں لا محدود اضافے کے ایجنٹ ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ ایک بڑی بنیادی بات ہے جو کاش ہماری سمجھ میں آ جائے۔

رہ گیا یہ سوال کہ اگر جمہوریت نہیں ہوگی تو حکومت کیسے آئے گی تو میں اس کے الزامی جواب کے طو رپر ایک سوال کرتا ہوں کہ کالج اور یونی ورسٹی میں یہ کیسے طے ہوتا ہے کہ ڈین کسے مقرر کرناہے؟ کیا چپڑاسی سے لے کر سینئر اساتذہ تک، سب کی رائے لی جاتی ہے کہ جس کے حق میں زیادہ لوگ رائے دے دیں گے، اس کا فیصلہ ہو جائے گا؟ ایسا کبھی بھی نہیں ہوتا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں جتنے ادارے ہیں، وہ اسی طرح کام کر رہے ہیں، سوائے چھوٹی سی حکومت کے اور میں واضح کر سکتا ہوں کہ گلوبلائزیشن کے نتیجے میں جس ادارے کا جمہوریت میں سب سے کم کردار رہ جاتا ہے، وہ مقننہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری حکومتوں میں حکومتیں بدلتی ہیں، پالیسیاں کبھی نہیں بدلتیں۔ یہ صرف پاکستان میں نہیں، امریکا میں بھی ایسے ہی ہے اور اس کا براہ راست نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ جمہوری عمل میں حصہ لینا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ ٹرن آؤٹ پچاس فی صد سے کم ہو جاتا ہے۔ تو بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارے جتنے بھی معاشرتی اور ریاستی ادارے ہیں، ان میں ہم کہیں بھی جمہوری بنیاد پر فیصلے نہیں کرتے کہ سربراہی کس کو ملے گی، لیکن اس کے باوجود کبھی خلا پیدا نہیں ہوا اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ یونیورسٹیوں میں لوگوں نے ڈنڈے اٹھائے ہوئے ہوں اور لڑ رہے ہوں کہ ڈین کون بنے گا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ڈین بھی بن جاتے ہیں، کالجوں کے پروفیسر بھی طے ہا جاتے ہیں، مسجدوں کے امام مقرر کرتے وقت کبھی ایسا جھگڑا نہیں ہوا کہ کہ لوگ ڈنڈے لے کر آ گئے ہوں۔ کچھ مثالیں ایسی مل جاتی ہیں جہاں لوگ فرقہ وارانہ بنیاد پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے انکار نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مساجد اسلامی ریاست کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ 

تو میرا سوال یہ ہے کہ ان سب اداروں میں فیصلے کیسے ہو رہے ہیں؟ دیکھیں، ہر سسٹم کے اندر جو لوگ ٹاپ پر آتے ہیں، وہاں تک پہنچنے کے پروسس ہوتے ہیں۔ جب آپ اسلامی ریاست قائم کریں گے، اسلامی نظام قائم کریں گے تو تقویٰ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ پتہ ہی نہ چلے کہ کون متقی ہے اور اہل الرائے کون ہے اور لوگ پریشان ہو جائیں کہ اب عوام بتائیں کہ کون متقی ہے اور کس کو خلیفہ ہونا چاہیے۔ یہ فیصلہ اہل الرائے کریں گے۔ اگر آپ یہ سوال اٹھائیں کہ اہل رائے کیسے آئیں گے تو میرا جواب وہی ہوگا کہ صرف اس پراسس پر غور کر لیں جس کے ذریعے ہمار ے تمام اداروں میں وہ لوگ آ جاتے ہیں جن کو ہم اہل الرائے سمجھتے ہیں۔ اسلامی ریاست میں بھی بالکل اسی طرح لوگ آ جائیں گے۔

عمار صاحب نے یہ سوال اٹھایا کہ ہم جو بات کہہ رہے ہیں، وہ ظاہر بات ہے کہ ایک اجتہادی رائے ہے جبکہ جمہوریت کے بارے میں علماء کرام کی بھی ایک انڈر اسٹینڈنگ ہے۔ اس میں ہمیں کوئی کلام نہیں اور نہ ہی ہم یہ سمجھتے ہیں۔ انھوں نے خود واضح کر دیا کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے۔ جیسے علماء کرام نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد مدارس کے ذریعے سے ایک علمی جدوجہد برپا کی اور اسلامی علوم کا تحفظ کیا۔ ظاہر ہے کہ میں یہ سوال اٹھا سکتا ہوں کہ ان کو یہ نہیں کرنا چاہیے تھا، بلکہ لڑنا چاہیے تھا۔ تو اصل بات یہ ہے کہ ہر شخص اپنے حالات کے اعتبار سے کسی چیز کو ممکن سمجھتا ہے اور اپنے تجزیے کی بنیاد پر ایک نتیجے تک پہنچتا ہے۔ انیسویں صدی میں علماء کرام نے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک جدوجہد کی۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ وہ غلط تھی۔ وہ اپنی جگہ جائز تھی۔ تو جن علماء کرام کی انڈرسٹینڈنگ یہ ہے کہ اس جمہوری نظام کے اندر اسلام کا آنا ممکن ہے، ان کی نیت پر ہم شک نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر میں اسلامی بنکاری کے بھی خلاف ہوں، لیکن میں یہ نہیں کہتا کہ جو لوگ اسلامی بینکنگ کر رہے ہیں، وہ معاذ اللہ امت کے بدخواہ ہیں یا ان کی نیتوں میں فتور ہے۔ یہ ان کی انڈرسٹینڈنگ ہے اور ان شاء اللہ جس دن ان کو میری بات سمجھ میں آ جائے گی یا ان کی بات میری سمجھ میں آ جائے گی تو ہم ایک جگہ پر آ جائیں گے۔ 

میں بنیادی طور پر کسی کی تکفیر نہیں کر رہا اور نہ ہی خروج کی کسی مخصوص جدوجہد کو جواز دے رہا ہوں کہ فلاں خروج جائز تھا یا یہ خروج ناجائز ہے۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ جو لوگ یہ کہہ رہے کہ خروج ہے ہی ایک شجر ممنوعہ، ان کا استدلال غلط ہے۔ میرا یہ موقف ہے۔ آگے یہ سوال انھوں نے اٹھایا ہے کہ کیا ایک گروہ اپنی تفہیم کی بنیاد پر جدوجہد کر سکتا ہے اور کیا یہی حق اجتماعیت کو نہیں دینا چاہیے؟ اس کا جواب ایک تو یہ ہے کہ امام حسینؓ اور حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے جو خروج کیاہے، وہ ہماری تاریخ میں واضح ہے۔ ظاہری بات ہے کہ سارے صحابہ کرام ان کے ساتھ نہیں تھے۔ اب اس بنیاد پر ہمارے علما نے کبھی یہ نہیں لکھا کہ ان کا خروج ناجائز تھا۔ اہل سنت کی بات کر رہا ہوں۔ اگر اہل سنت سے باہر کسی کی رائے ہو تو میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں، لیکن اہل سنت والجماعت کے جو معتبر علماء کرام ہیں، کیا کسی نے اسلامی تاریخ میں یہ بات کہی ہے؟ ویسے معذرت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ اہل سنت میں اب ناصبی بھی آ گئے ہیں جو ان کے خلاف لکھ دیتے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ خروج کے لیے علما نے کبھی یہ شرط نہیں لکھی کہ وہ عوامی رائے کی بنیاد پر ہو۔ جو حضرات کہتے ہیں کہ خروج کے لیے عوامی رائے ہونی چاہیے تو اس کی بھی تو دلیل چاہیے۔ علما نے یہ شرط لکھی ہے کہ آیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے پاس اتنی افرادی قوت ہے کہ آپ کامیاب ہو جائیں گے؟ یہ شرط تو موجود ہے فقہا کے لٹریچر میں، لیکن یہ بات مجھے کہیں نظر نہیں آئی کہ فقہا نے یہ لکھا ہو کہ عوامی رائے بھی ساتھ ہونی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ جو گروہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے جدوجہد کرنی ہے، اسی کوفیصلہ بھی کرنا ہوگا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ۱۸۶۵ء میں یہ فیصلہ کس نے کیا کہ مدارس کا علمی تحفظ کرنا چاہیے؟ ظاہر ہے کہ جس گروہ کی یہ رائے تھی کہ آج یہ کرنے کا وقت ہے، انھوں نے وہی کر لیا۔ اسی طرح جو گروہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے طاقت اور قوت کو جمع کرنا ہے اور وہ اس کے لیے جدوجہد کر رہا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ میں لڑ پڑوں تو ظاہری بات ہے کہ فیصلہ تو اسی کا ہوگا۔ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ پورے پاکستان کو اس کے لیے تیار کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ جمہوریت اسی طریقے سے پوری دنیا میں نافذ کی گئی ہے؟ اگر میں آپ کو ہیومن رائٹس کی تاریخ بتاؤں کہ یہ کس نے لکھے تھے تو یہ ۵۴ سفید فام امریکی مردوں نے لکھے تھے جن کو پوری دنیا کے قانو ن کے طور پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ ساری دنیا کی رائے عامہ کو پہلے تیار کیا جائے اور پھر کوئی اقدام کیا جائے۔

ڈاکٹر رشید احمد

ہمارے ہاں سوات میں فوجی آپریشن کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کی جتنی جائیداد تھی، تباہ ہو گئی ور عورتیں سارے خیبر پختون خوا میں در بدر ہو گئیں۔ عورتوں کی بے عزتی ہوئی، اموال تلف ہو گئے۔ اللہ نہ کرے کہ یہاں پر بھی اس طرح کا کوئی آپریشن ہو، تب آپ لوگوں کو اس کا صحیح اندازہ ہوگا کہ خروج کتنا صحیح ہے اور اس کا شرعی جواز کتنا ہے!

مفتی محمد زاہد

ایک چھوٹی سی وضاحت کر دوں کہ جب ہم خروج کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد مسلح مزاحمت ہوتی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ حضرت امام حسین کو خروج کی اس بحث میں نہیں لانا چاہیے، اس لیے کہ وہ کوئی مسلح سعی نہیں تھی۔

ڈاکٹر خالد مسعود

میرے خیال میں بحث بہت سے اہم نکات کو کھول رہی ہے اور ہم کافی آگے چلے جائیں گے اور اس کے لیے بہت سی نشستوں کی ضرورت ہوگی۔ ایک سوال جو میرے ذہن میں اٹھتا ہے، وہ میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں کہ جس طرح اسلام میں آنے کے لیے نیت ضروری ہے اور ایک غیر مسلم آدمی نمازیں پڑھنا شروع کر دے تو اس کو اسلام قبول کرنا نہیں کہیں گے تو کفر کی بحث میں بھی اس کی نیت کا اعتبار کیا جائے گا یا نہیں؟ 

ڈاکٹر حسن مدنی

حدیث مبارکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام کا یہ مکالمہ موجود ہے۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ بایعنا علی السمع والطاعۃ فی منشطنا ومکرہنا وعسرنا ویسرنا وان لا ننازع الامر اہلہ ..... الا ان تروا کفرا بواحا۔

جہاں تک خروج کی بات ہے تو خروج خلافت اسلامیہ کا ایک مستقل تصور ہے۔ صحابہ کرام اور سیدنا حسین نے عملاً خروج کر کے خروج کی شرعی حیثیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے، ائمہ ثلاثہ خروج کے جواز کے قائل ہیں۔ احادیث میں امرا اور خلفا کی اطاعت کی واضح تاکید ملتی ہے، تاہم صحیح احادیث کی رو سے تین صورتوں میں اصولاً خروج پر اتفاق رائے پایا جاتاہے۔ خروج کی چار شکلیں ہیں جن میں سے تین اتفاقی ہیں۔ چوتھی صورت کے بارے میں اختلاف ہے۔ اتفاقی صورتوں میں کفر بواح ہے، اقامت صلوٰۃ نہ کرنا ہے اور اقامت دین نہ کرنا ہے۔ جو حکمرانوں کا فسق وفجور ہے، اس کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ حنابلہ اس کے قائل نہیں ہیں اور باقی تین ائمہ فسق وفجور کی صورت میں بھی اس کے قائل ہیں۔ علامہ ابن تیمیہ نے، امام ابوحنیفہ نے، شاہ ولی اللہ نے، حافظ ابن حجر نے خروج کی وجوہ پر صریح گفتگو کی ہے۔ یہ سب خروج بعض شکلوں میں خروج کو واجب بھی مانتے ہیں۔ 

ہمارے ہاں جو بنیادی نکتہ زیر بحث ہے، اس نکتے کے ساتھ ملا کر میں اس کو دیکھتا ہوں۔ بنیادی سوال جو غور طلب ہے کہ دار الاسلام کیا ہے؟ دار الاسلام کے بارے میں یہاں جو بات کہی گئی، بڑی معذرت کے ساتھ میں کہوں گا کہ اسے دار الاسلام نہیں، دار المسلمین کہنا چاہیے جہاں مسلمانوں کی حکومت ہے، جیسے بھی وہ حکومت کرتے ہیں۔ یہ دارالمسلمین ہے، دار الاسلام نہیں ہے۔ دار الاسلام کا اطلاق اس حکومت پر ہوتا ہے جو کتاب وسنت کو نافذ کرتی ہے اور اس کا دعویٰ کرتی ہے۔ یہی بات ہمارے ائمہ کرام پہلے کہہ چکے ہیں۔ شاہ ولی اللہ کی شخصیت مسلمہ ہے۔ ان کی ایک عبارت سے دونوں ہی استدلال ہوتے ہیں۔ حجۃ اللہ البالغہ میں ان کا فرمان موجود ہے کہ ’وبالجملۃ فاذا کفر الخلیفۃ بانکار ضروری من ضروریات الدین حل قتالہ بل وجب والا لا لانہ حینئذ فاتت مصلحۃ نصبہ بل یخاف مفسدتہ علی القوم فصار قتالہ الی الجہاد فی سبیل اللہ‘۔ جب خلیفہ ضروریات دین میں سے کسی کا انکار کر دے تو قتال کرنا حلال بلکہ واجب ہے۔ شاہ ولی اللہ نے اس عبارت میں ایک تو خلیفہ کے ضمن میں خروج کی بات کی ہے اور دوسرا انھوں نے یہ بتایا ہے کہ خروج کب کیا جائے گا۔ جب ضروریات دین کا خاتم ہو جائے۔ یعنی مسلمانوں کی حکومت کی بات نہیں ہے۔ نفاذ دین، ضروریات دین کا جہاں نفاذ ہوگا، اسے ہم اسلامی ریاست کہیں گے۔ شاہ ولی اللہ نے خروج کے بارے میں وجوب کی بات بھی کہی ہے اور وجوب کی واضح عبارت بھی موجود ہے۔

امام ابوحنیفہ کے بارے میں الموفق مکی نے ’’مناقب ابی حنیفہ‘‘ میں امام ابوحنیفہ کے بارے میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ خروج کو واجب سمجھتے تھے۔ امام ابوبکر جصاص کا بھی یہی قول ہے۔ جہاں تک یہ مسئلہ ہے کہ دار الاسلام کسے کہتے ہیں تو علامہ ابن تیمیہؒ کی بھی ایک عبارت سامنے رہنی چاہیے۔ وہ فرماتے ہیں: وایما طائفۃ انتسبت الی الاسلام وامتنعت عن بعض شرائطہ الظاہرۃ المتواترۃ فانہ یجب جہادہ باتفاق المسلمین۔ یعنی وہ جماعت جو اسلام کا نام لے، لیکن اسلام کے ظاہری اور متواتر احکامات سے رو گردانی کرے تو اس کے بارے میں امت کا اجماع ہے کہ اس کے خلاف خروج ہونا چاہیے۔

تو پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ دار الاسلام ہم کسے کہتے ہیں؟ میں بڑی معذرت کے ساتھ عرض کروں گاکہ اس وقت ہم مسلمان جو کچھ کر رہے ہیں، اگر یہی اسلام ہے تو اسلام پر اس سے بڑا طعن کوئی نہیں ہے۔ ہم مسلمانوں کے موجودہ رویے کو اسلام نہیں مانتے اور سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کا موجودہ طرز عمل اسلام کے لیے باعث شرم ہے، لیکن مسلمانوں کا یہی رویہ اگر سیاست کے میدان میں ہو تو وہ اسلام کی گارنٹی اور ضمانت کیسے دے سکتا ہے؟ مسلمان جب سیاسی میدان میں کام کر رہے ہیں تو وہ دار الاسلام بن گیا، یہ ایسی تعبیر ہے جس سے میں اتفاق نہیں کر سکتا۔ ہمارے ہاں یہ مسلمہ نظریہ رہا ہے کہ ہم مسلمانوں کی تاریخ اور ہے جبکہ اسلام کی تاریخ اور ہے۔ صرف اسلام کو عصمت حاصل ہے، پاکستان کے شہریوں کو عصمت حاصل نہیں ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ دار الاسلام وہ ہے جہاں کتاب وسنت کا نفاذ ہے اور جہاں اللہ کا دین قائم ہے۔ 

یہ دار الاسلام میرے نقطہ نظر کے مطابق خلافت عثمانیہ کے آخری دور تک، ۱۹۲۴ء تک کسی نہ کسی شکل میں قائم رہا ہے۔ کم تر شکل میں، کمی بیشی کے ساتھ، وہ ہمیشہ قائم رہا ہے۔ اس کے بعد یہ اللہ کی حکمت بالغہ ہے کہ وہاں سے سعودی عرب میں منتقل ہوا اور وہاں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے، کم تر شکل کہہ لیں۔ آج کے دور میں اگر اس کی کوئی بہتر شکل ملتی ہے تو وہ امارت اسلامیہ افغانستان کی ہے جہاں سعودی عرب سے بھی بہتر شکل میں دار الاسلام قائم کیا گیا۔ اگر ہم دعویٰ کر سکتے ہیں تو کسی نہ کسی درجے میں ان کے بارے میں دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ یہ کہنا کہ اموی اور عباسی خلفا میں بھی بہت سی خامیاں تھیں تو دراصل کسی بھی حکمران کا ذاتی کردار اصل مسئلہ نہیں ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ وظیفہ قیادت کیا ادا کر رہا ہے۔ آج اگر سعودی عرب کے حکمران ملوکیت پر قائم ہیں اور بہت زیادہ عیاشیاں کر رہے ہیں تو انھوں نے کتاب وسنت کا نظام بھی قائم کیا ہے۔ میں اس کو حکمرانوں کے ذاتی کردار کے بجائے اس تناظر میں دیکھوں گاکہ وہ وظیفہ حکومت کیا انجام دے رہے ہیں؟ اس پر انحصار ہے۔ 

علامہ ابن تیمیہ کا واضح نظریہ ہے سیاست شرعیہ میں کہ ایسا حکمران جو ذاتی طور پر فاسق ہو لیکن دین کو نافذ کرنے کی بہتر اہلیت رکھتا ہو تو ایسے فاسق کو حکومت دی جائے گی بجائے ایسے آدمی کے جو ذاتی طور پر تو بہت دین دار ہے، لیکن حکومت کی اہلیت نہیں رکھتا۔ آپ پاکستان کی مثال لے لیں۔ یہاں صدر فاروق لغاری رہے ہیں، رفیق تارڑ رہے ہیں، میاں محمد سومرو رہے ہیں۔ ذاتی طور پر دین دار ہیں، لیکن انھوں نے اپنے فرائض منصبی کے ساتھ انصاف نہیں برتا۔ تو ذاتی کردار واقعتا اہمیت رکھتا ہے۔ خلافت راشدہ کا یہ امتیاز تھا کہ اس میں ذاتی طور پر بھی خلفا میں یہ معیار موجود تھا جو بعد میں بہت کم ہوتا چلا گیا، لیکن اسلامی شریعت کسی نہ کسی درجے میں خلافت کے آخری دور تک قائم رہی ہے۔

اب میں اصل نکتے کی طرف آتا ہوں۔میرا نظریہ یہ ہے کہ پاکستان کے دستوری تناظر میں خروج کی بحث سرے سے ہی درست نہیں، کیونکہ ہمارے دستور میں خروج کے بارے میں کوئی بات موجود نہیں ہے۔ یہ دستور خروج کے متعلق کسی قسم کی گفتگو نہیں کرتا۔ اس میں خروج کا کوئی تصور نہیں، کیونکہ خروج خلافت اسلامیہ کا ایک تصور ہے۔ جہاں خلافت اسلامیہ ہوگی، وہاں خروج کی بات کریں گے۔ اس وقت اسلام کا سیاسی نظام، خلافت یا امارت، دنیا میں کسی بھی جگہ پر قائم نہیں۔ سعودی عرب کے بارے میں بھی میں کسی درجے میں کہہ رہا ہوں۔ کسی ملک کو حقیقی دار الاسلام اس وقت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہماری جو مسلم ریاستیں ہیں، وہ جدید مغربی تصورات پر قائم قومی ریاستیں ہیں۔ یہ وطنی بنیادوں پر قائم ہیں اور خلافت اسلامیہ ایک خالص نظریاتی ریاست ہوتی ہے جو اللہ کے دین کے نفاذ کے لیے ہوتی ہے۔ تو واقع کو اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں قرآن وسنت کے قوانین کو دیگر قوانین پر کوئی بالاتر حیثیت حاصل نہیں ہے۔ دستور پاکستان میں اسلامی دفعات کے خوش نما نعرے اور پالیسی بیانات بہت موجود ہیں، لیکن عملی طور پر ان کے نفاذ کا کوئی میکنزم نہیں ہے۔ حاکمیت اعلیٰ کا نعرہ محض زیب عنوان ہے۔ درون خانہ حاکمیت عوام کا پورا نقشہ قائم ہے اور ملک میں سرکاری سطح پر کوئی اسلام نظر نہیں آتا۔ اسلام کو اختیار کرنے یا ترک کرنے کی گنجائش تو موجود ہے، یعنی ایک فرد کے لیے تو یہ گنجائش ہے کہ اسلام کو لے لے یا چھوڑ دے، لیکن اسلام کو ریاستی سطح پر ٹکڑے ٹکڑے کر کے عوامی نمائندوں کی منظوری کے ساتھ اسلام کو نافذ کرنا، یہ تومنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض کے ضمن میں آتا ہے۔

پاکستان میں علماے کرام ابتدائی دور سے جو بھی دستوری جدوجہد کر رہے ہیں، بائیس نکات ہوں، ۱۹۷۳ء کا آئین ہو، قانون توہین رسالت ہو یا حدود قوانین ہوں، یہ ساری جدوجہد ایک مثالی لائحہ عمل کی بجائے قابل عمل یا ممکنہ طریق کار کے طور پر کی گئی۔ ہمارے پاس اس وقت ممکنہ طریقہ یہی ہے، یہ نہیں کہ ہم اس کو کوئی مثالی شکل سمجھتے ہیں۔ ہمارے دور میں اسلام کو اگر خالص شکل میں نافذ کیا گیا تو وہ افغانستان میں تھا۔ طالبان کو پورا موقع ملا اور انھوں نے اسلام کو خالص امارت اسلامیہ کے طور پر نافذ کیا۔ 

تو خلاصہ یہ ہے کہ خروج کے متعلق ہم فقہ الواقع کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے کہ صورت حال کیا ہے؟ جس صورت حال میں ہم کھڑے ہیں اور آج جو خروج ہو رہا ہے، اس کو ہم کیا کہتے ہیں؟ فقہ الواقع کے بغیر ہم فقہ الاحکام پر بات نہیں کر سکتے۔ میرے خیال میں پاکستان کے دستور میں خروج کی کوئی بحث ہی نہیں، یہاں بغاوت کی بحث ہے۔ یہاں خلافت تو کیا، جمہوریت بھی نہیں ہے۔ جمہوریت میں شمسی ایئر بیس اور جیکب آباد ایئر بیس غیروں کے حوالے کر کے اہل وطن پر ہلاکت اور بمباری مسلط نہیں کی جاتی۔ جمہوریت میں بادشاہانہ جانشینی نہیں ہوتی جو پاکستان کی نام نہاد جمہوری جماعتوں کا وتیرہ ہے۔ خروج کی بحث اگر کی جا سکتی ہے تو کسی درجے میں ملا عمر کے قائم کردہ نظام امارت اسلامیہ کے تناظر میں ہو سکتی تھی جو عالمی تقاضوں کے مطابق بھی ۸۰ فی صد علاقے پر قابض تھے، لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج ایسے لوگ موجود ہیں جو ماضی میں پرویز مشرف کے باغیانہ اقدامات کے حامی رہے ہیں اور انھوں نے نظریاتی اور علمی سطح پر پرویز مشرف کے ناجائز اقدامات کو سہارا دینے کی کوشش کی تھی جو غاصبانہ قبضے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ 

اپنے ملک کی سرزمین اور عوام کو دشمن کے حوالے کر کے اس سے تائید وتحفظ کی بھیک مانگنے والے مشرف کے خلاف شریعت اسلامیہ کے عاملین تو کجا، ہر طبقہ زندگی حتیٰ کہ سول سوسائٹی کو بھی میدان میں نکلنا چاہیے تھا جو اسلام سے کوئی دلچسپی اور تعارف رکھتی ہو۔ آج وہ لوگ جو پرویز مشرف کے اقدامات کو جائز قرار دیتے ہیں، امریکہ کے افغانستان پر قبضے کو مبنی بر انصاف باور کراتے ہیں، وہی لوگ ہیں جو فلسطین وکشمیر میں مسلمانوں کی مزاحمت کو دہشت گردی باور کرتے ہیں۔ انھیں اصل باغی کے خلاف جمہوری جدوجہد کی تو کوئی ضرور ت محسوس نہیں ہوتی، لیکن وہ ظالم اور غاصب کے ظلم کے نتیجے میں کھڑے ہونے والے عوام پر خروج کی بحثیں کر کے ان کی آہ کو بھی بند کرنا چاہتے ہیں۔ جو لوگ امن کے داعی ہیں، انھیں امن کے اصل مجرموں کے خلاف اپنی شکایت قائم کرنی چاہیے۔ پاکستان اور افغانستان میں امن کو تباہ کرنے والا سب سے پہلے عالمی استعمار ہے۔ امریکی قیادت نے پانچ ہزار افراد کی ہلاکت کا بدلہ ہزاروں دیہات اور لاکھوں انسانوں کو ہلاک کر کے لے لیا ہے اور اب بھی اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہو رہا۔ پھر امن کو پامال کرنے والے ہمارے حکمران ہیں جنھوں نے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملائی۔ اگر ہم امن کی دعوت میں مخلص ہیں تو ہمیں پہلے امن کے اصل مجرموں کے خلاف سیمینار منعقد کرنا چاہیے۔ آج یہ روایت پختہ ہو چکی ہے کہ جنگ کو export کرنے والے ممالک امن مشنوں اور انسانیت کو شرمندہ کرنے والے انسانی حقوق کا سرٹیفکیٹ بانٹ رہے ہیں۔ 

یہ سوال بھی غور طلب ہے کہ اس تکفیر وخروج کو سیاسی تکفیر وخروج سے تعبیر کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے، کیونکہ یہ کوئی مستقل مسئلہ نہیں ہے۔ مصر میں جمال عبد الناصر کے قتل عام کے نتیجے میں تکفیر وخروج کا مسئلہ پہلی مرتبہ پیدا ہوا۔ مختصراً میں یہ کہنا چاہوں گاکہ ہمارے اس دور میں سیاسی تکفیر وخروج کا جو مباحثہ ہے، یہ سارا خالصتاً رد عمل کے تناظر میں ہے۔ ۱۹۹۰ء کے بعد سعودی عرب میں امریکی اڈوں کے بعد اسامہ بن لادن اور ان کے ہم نوا مخلص نوجوان ملت اسلامیہ کے دفاع کے لیے سامنے آئے تھے۔ انھوں نے حکمرانوں کو بھی، کبار علما کو بھی کہا اور اس کے بعد تکفیر کی تحریک شروع ہو گئی۔ پاکستان میں تکفیر کی تحریک کا باضابطہ سلسلہ ۲۰۰۰ء کے بعد شروع ہوا ہے، اس سے پہلے شاذ ونادر ہی کہیں ملتا ہے۔ اس کا جو اصل تناظر ہے، وہ رد عمل اور ظلم ہے۔ اس سے پہلے یہ خطہ تکفیر وخروج کی بھاری بھرکم بحث سے ناآشنا ہے، حتیٰ کہ جہادی گروہ القاعدہ کا وجود بھی سراسر امریکی جارحیت کا رد عمل ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ملت اسلامیہ میں ۱۹۵۰ء سے ۱۹۹۰ء تک کوئی جہادی گروہ نہیں تھا۔ جب سے نیو ورلڈ آرڈر آیا ہے اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ نے تہذیبوں کے تصادم کا راستہ اختیار کیا ہے تاکہ اس کی اسلحہ سازی کی صنعت چلتی رہے، اس کے نتیجے میں اسلام اور ملت اسلامیہ امریکہ کا ہدف بن گئے ہیں۔

میرا موقف تکفیر وخروج کے سلسلے میں یہ ہے کہ یہ موجودہ تحریک خالصتاً سیاسی تناظر میں چل رہی ہے اور ان پر ظلم ہوا ہے۔ اس ظلم سے پہلے میرے علم کے مطابق تکفیر وخروج کی بحث مجھے نظر نہیں آتی۔ اگر جمال عبد الناصر نے ظلم کیا تو اس کے نتیجے میں یہ سلسلہ شروع ہوا ہے۔ تو ہمیں ظلم کرنے والوں کی مذمت بھی کرنی چاہیے اور یہ کام جو یہ لوگ کر رہے ہیں، وہ بھی اسلام نہیں ہے۔ اسلام میں تشدد کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اسلام میں فدائی حملوں کا کوئی نظام نہیں ہے، لیکن جس طرح طالبان کے نام پر ملک بھر میں دھماکے کیے جاتے ہیں اور طالبان خود جو غلط راستے اختیار کرتے ہیں، وہ غلط ہیں۔ اسی طرح خروج کی جو بحث ان کے ہاں شروع ہوئی ہے، یہ بھی خلط مبحث ہے۔ یہ موضوع ہی نہیں ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے بلوچستان کے اندر لوگ اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ جب ان پر ظلم ہوا ہے تو ظلم سے دفاع کے لیے انھوں نے شریعت کانام استعمال کیا ہے۔ یہ خروج کی بحث بنتی ہی نہیں۔ یہ تو کھلم کھلا ظلم اور اس سے دفاع کی بحث ہے اور ظلم اور اس سے دفاع کی بحث میں ہمیں مظلوم کا ساتھ دینا چاہیے۔کم از کم اگر ہم ان کی عملی مدد نہیں کرتے تو مزاحمت کے راستے میں ان کی آہ کو بند نہیں کرنا چاہیے اور انھیں جائز راستہ دکھانا چاہیے۔

ہم یہ کہیں کہ تشدد گوارا ہے تو نہیں، اس کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم تشدد یا خروج کو یا ان بم دھماکوں کو صحیح سمجھتے ہیں، لیکن جو کچھ ان کے ساتھ ہوا ہے، یہ اس کی justification ہے۔ آج وہ اس انتہا پر اس لیے پہنچے ہیں کہ پورے ملک کے لوگوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ سرحد میں جو ظلم وہلاکت اور بربریت مسلط ہوئی ہے، اس میں اگر ملک کے لوگ ان کا ساتھ دیتے تو شاید وہ اس حد تک نہ پہنچتے۔ میں ان کے ساتھ ہمدردانہ رویہ رکھتا ہوں اور اگر حالیہ دھماکے وغیرہ ان کا اقدام ہے تو بہرحال یہ اسلامی اقدام نہیں ہے۔ اگر وہ کر رہے ہیں تو ٹھیک نہیں کر رہے کیونکہ اسلام تشدد کو پسند نہیں کرتا۔ اسلام جوابی مزاحمت کے جائز راستے ہمیں بتاتا ہے۔ اس طرح کی عمومی ہلاکت کا راستہ نہیں دکھاتا۔

محمد عمار خان ناصر

میں نے آج کی نشست کے لیے جو باقاعدہ تفصیلی مضمون لکھا ہے، اس میں القاعدہ کے راہنما شیخ ایمن الظواہری کی کتاب ’’الصبح والقندیل‘‘ کا ناقدانہ جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے اپنا موقف پیش کیا اور اس پر دلائل کی وضاحت کی ہے کہ پاکستان کا جو دستور ہے، اس کے بارے میں عام طور پر مذہبی حلقوں میںیہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ اسلامی دستور ہے، کیونکہ اس میں اسلامی شقیں موجود ہیں اور شریعت کی بالا دستی کی بات کی گئی ہے اور اسی کی وجہ سے اب تک لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے۔ اس تصور کو انھوں نے اس میں چیلنج کیا ہے۔ میں نے ان کے استدلال کا جو جائزہ لیا ہے، اسے یہاں مکمل بیان کرنا ممکن نہیں، اس لیے ظواہری کے استدلال کے بنیادی مقدمات کی وضاحت کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔ 

یہاں میں یہ تنقیح کرنا چاہوں گا کہ ظواہری کا جو استدلال ہے، وہ بعض دوسرے استدلالات سے مختلف ہے جن میں سے بعض اس مجلس میں بھی پیش کیے گئے۔ مثلاً ابھی حسن مدنی صاحب نے یہ بات کی کہ اب تک پاکستان میں جو کچھ بھی کیا گیا ہے اسلامائزیشن کے حوالے سے، وہ کافی نہیں ہے۔ اس میں بہت سے نقائص ہیں، بہت سے خلا ہیں اور یہ کہ دستور ہمیں اس بات کی پوری ضمانت نہیں دیتا شریعت کی بالا دستی عملاً قائم ہو۔ یہ ایک تنقید ہے اور یہ ظواہری کی تنقید سے مختلف ہے۔ ظاہر ہے کہ اس پر بات کسی اور انداز سے ہوگی۔ ایک دوسری تنقید ہے جس پر برادرم زاہد صدیق صاحب نے گفتگو کی۔ وہ یہ ہے کہ اگرچہ بہت سی اسلامی دفعات دستور میں شامل ہیں اور اس طرح کی مزید دفعات بھی شامل کی جا سکتی ہیں، لیکن سرمایہ دارانہ نظام ایسا ہے اور وہ کچھ ایسے بنیادی مفروضات کو مان کر چلتاہے کہ ہم کسی بھی ملک کے دستور میں چاہے اس طرح کی کتنی ہی ضمانتیں شامل کر لیں، عملاً وہ نتیجہ خیز ہو ہی نہیں سکتیں۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ استدلال کا ایک دوسرا پہلو ہے۔ 

ظواہری کی تنقید ان دونوں سے مختلف ہے۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ دستور میں دی گئی ضمانتیں ناکافی ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ آپ جو چاہیں دستور میں لکھ لیں، عملاً سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکتے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا جو دستور ہے، اس میں صریحاً کچھ ایسی شقیں موجود ہیں جو اس کو کفر تک لے جاتی ہیں۔ یہ ان کی بنیادی تنقید ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے آٹھ دفعات ہیں جن کی باقاعدہ نشاندہی کی ہے کہ یہ دفعات کفر کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس کے ساتھ ایک فقہی نکتہ بھی انھوں نے اس میں شامل کیا ہے کہ یہ چیزیں خلاف شریعت ہیں اور جب کسی خلاف شریعت چیز کو آپ باقاعدہ قانون کا درجہ دے دیں تو وہ کفر بن جاتا ہے۔ ان کا ایک استدلال تو یہ ہے۔ ایک اور استدلال انھو ں نے یہ پیش کیا ہے جو اس حلقہ فکر کا عام استدلال ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے قانون سازی کا حق تسلیم کرنا یہ کفر ہے اور یہ اللہ کے اختیارات میں شرک ہے۔ پھر وہ جمہوریت کو اس کے ساتھ اس طرح relate کرتے ہیں کہ دیکھیں یہ ٹھیک ہے کہ دستور میں شریعت کی بالادستی کی بات کی گئی ہے، لیکن جمہوری نظام میں ہر قانون اپنے نفاذ میں اس بات کا محتاج ہے کہ پہلے اس کو پارلیمنٹ منظور کرے۔ اس کا مطلب سے کہ شریعت خود اتھارٹی کے طور پر نہیں مانی جا رہی، وہ بنیادی طور پر عوام کی حاکمیت اور اس کے نمائندوں کی منظوری کے تصور کے تحت لائی گئی ہے۔ وہ منظوری دیں گے تو شریعت نافذ ہو گی، وگرنہ نہیں ہو گی۔ یہ اصل میں شریعت کو با لا دست ماننے کی بات نہیں ہے۔ یہ تو آپ کی مرضی ہے کہ آج آپ نے منظور کر لیا، کل آپ اس کو رد بھی کر سکتے ہیں۔ 

اس کو انھوں نے ایک خاص نکتے کے تحت بیان کیا ہے کہ دستور پاکستان میں ایک دفعہ ہے جس کی رو سے پارلیمنٹ کو یہ اختیار ہے کہ وہ کسی بھی دفعہ کو منسوخ کر سکتی ہے اگر اس کے پاس دو تہائی اکثریت ہے۔ اس دفعہ کو ظواہری نے خاص طور پر highlight کیا ہے کہ اس میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی، کوئی قید نہیں لگائی گئی کہ اس اختیار کا استعمال شریعت کی بالادستی کے خلاف نہیں کیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دستور پارلیمنٹ کو یہ حق دیتا ہے کہ آج اگر اس نے دستو رمیں یہ لکھ دیا ہے کہ ہم شریعت کی پابندی کریں گے تو کل اس کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ دو تہائی اکثریت سے اس کو ختم کر دے۔ یہ ظواہری کے دو بنیادی استدلالات ہیں کہ اصل میں دستور جو ہے، وہ شریعت کو اس جگہ سے اتھارٹی نہیں مان رہا جس جگہ سے ایک مسلمان کوماننا چاہیے۔ وہ اس کو عوام کی حاکمیت کے تصور کے تحت لا رہا ہے۔

اس کے علاوہ انھوں نے کچھ مزید دفعات کی بھی نشان دہی کی ہے جو اس دستور میں شامل ہیں اور وہ ظواہری کے بقول شریعت کے قانون کے خلاف ہیں۔ مثلاً یہ کہ دستور میں بعض افراد مثلاًصدر کو جب تک وہ صدر ہے اور گورنر اور وزراے اعلیٰ کو اور بعض اداروں کو محاسبے سے بالاتر قرار دیا گیا ہے۔ ظواہری کہتے ہیں کہ بعض افراد کو شریعت اور قانون سے بالاتر قرار دینا یہ شریعت کے خلاف ہے۔ اسی طرح انھوں نے نشان دہی کی ہے کہ دستور کی رو سے صدر کو کسی بھی جرم میں سزاے موت معاف کرنے کا جو اختیار دیا گیا ہے، یہ بھی شریعت کے خلاف ہے۔ قاضی کے لیے عادل ہونے کی شرط نہیں ہے اور مسلمان ہونے کی شرط بھی نہیں ہے۔ صرف شرعی عدالت کے جج کے لیے مسلمان ہونے کی شرط ہے۔ تو یہ ہر قسم کے افراد کو قاضی مقرر کرنے کی جو شق ہے، یہ شریعت کے خلاف ہے۔ مزید یہ کہ سربراہ ریاست کے لیے مرد ہونے کی شرط عائد نہیں کی گئی۔ 

اس کے ساتھ ساتھ دو تین تکنیکی نکتے بھی انھوں نے اٹھائے ہیں۔ دستور کی ایک دفعہ میں کہا گیا ہے کہ جب تک قانونی طور پر کسی جرم کو جرم نہ قرار دیا گیا ہو، اس سے پہلے اگر کسی نے جرم کا ارتکاب کیا تو اس کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ اس کو ظواہری ا س بات پر محمول کرتے ہیں کہ جرم کو جرم ماننے میں آپ شریعت کو اتھارٹی نہیں مانتے۔ اگر ایک چیز شریعت میں جرم ہے، لیکن آپ کے قانون نے اس کو جرم قرار نہیں دیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ شریعت کو بالادست نہیں مانتے بلکہ اپنے قانون کو بالادست مانتے ہیں۔ دستور کی رو سے ایک جرم پر دو مرتبہ کسی کو سزا دینے کی ممانعت ہے اور یہ بالکل مطلق ہے، جبکہ شریعت اس اطلاق کو نہیں مانتی۔ ایک چیز ظواہری نے یہ بیان کی ہے کہ دستور یہ کہتا ہے کہ سود کو ختم کیا جائے گا جیسے ہی ممکن ہوگا۔ ظواہری کہتے ہیں کہ یہ صرف ایک وعدہ ہے جس پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ پھر ا نھوں نے ایک مثال دی ہے کہ اگر ایک آدمی یہ کہتا ہے کہ میں مسلمان ہو جاؤں گا تو محض وعدے پراسے مسلمان نہیں کہا جا سکتا۔ اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ میں نماز پڑھوں گا، لیکن نماز نہیں پڑھتا تو محض کہہ دینے سے وہ نمازی نہیں ہو جائے گا۔ ظواہری نے اسی پر سود سے متعلق دستوری شق کو بھی قیاس کیا ہے۔

ظواہری نے اپنی کتاب میں دستور کو الگ ڈسکس کیا ہے اور یہاں کے حکمران طبقے پر الگ بات کی ہے۔ حکمران طبقے کے کفر کا پہلو انھوں نے ولاء اور براء کے تصور کے حوالے سے واضح کیا ہے۔ یعنی امریکہ نے ایک صلیبی جنگ چھیڑی ہے اور وہ مسلمانوں پر حملہ آور ہے۔ یہاں کا جو حکمران طبقہ ہے، وہ امریکہ کا ساتھ دے رہا ہے اور اس کی معاونت کر رہا ہے تو یہ بھی اصل میں کفر اور ارتداد کی جگہ پر پہنچ چکا ہے۔ ان سارے استدلالات کے ساتھ ظواہری نے خاص طور پر پاکستان کے مذہبی طبقے کو مخاطب کیا ہے کہ آپ حضرات غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ ظواہری کہتے ہیں کہ پاکستان کے علما کا تجزیہ یہ ہے کہ پاکستان کا دستور اور یہاں حکومت چلانے کے لیے جو نظام بنایا گیا ہے، وہ بنیادی طور پر ٹھیک ہے اور خرابی جو ہے، وہ ارباب اقتدار کے رویے میں ہے کہ وہ دستور کی پابندی نہیں کرتے اور اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے یہ لوگ مطمئن ہیں کہ اگر ارباب اختیار کا رویہ ٹھیک ہو جائے یا اچھے لوگ اقتدار میں آ جائیں تو معاملات درست ہو سکتے ہیں۔ ظواہری نے ا س کو چیلنج کیا ہے اوربتایا ہے کہ اصل میں آپ کے دستور میں اور آپ کا جو پورا نظام ہے، اسی میں بنیادی خرابیاں ہیں جس کی وجہ سے آپ اس نظام کے اندر کبھی اسلام نافذ نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے آپ کو جہاد کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا جس سے آپ اس پورے نظام کو جڑ سے اکھاڑ دیں اور اس کی جگہ متبادل نظام لے آئیں جس میں شریعت کو غیر مشروط بالادستی حاصل ہو۔

یہ ظواہری کے بنیادی استدلال کا خلاصہ ہے۔ میں نے اپنی تنقید میں بنیادی نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ اصل میں ہماری شریعت کا جو بنیادی امتیاز ہے، وہ یہ ہے کہ غلطیوں اور انحرافات پر حکم لگاتے ہوئے ان کی صحیح درجہ بندی کی جائے کہ کس غلطی کا درجہ کیا ہے اور اس غلطی کو آپ نے کس کیٹگری میں رکھنا ہے۔ یہ ہماری شریعت اور فقہ کا امتیاز ہے۔ اسی لیے فقہا نے حکومت اور باغیوں، دونوں کے حوالے سے اس کوبیان کیا ہے۔ انھوں نے یہ بات بھی بیان کی ہے کہ جب عام لوگ اور علما حکمرانوں کی پالیسیوں کی اور ان کے طرز عمل کی شرعی حیثیت متعین کریں تو اس میں بھی اس اصول کو ملحوظ رکھیں کہ اگر اسلام کی نسبت قائم ہے تو ان کے غلط کردار یا غلط پالیسیوں اور ناروا طرز عمل کی وجہ سے آپ انھیں کفار کا درجہ نہیں دیں گے۔ دوسری طرف فقہا نے یہ بھی بیان کیاہے کہ ایک عادل اور راست رَو اسلامی ریاست کے جو باغی ہیں، اگرچہ انھوں نے ایک عادل حکمران کے خلاف بغاوت کی ہو، لیکن اگر ان کے پاس کوئی تاویل ہے اور وہ کسی وجہ سے غلط فہمی میں مبتلا ہو کر ایسا کر رہے ہیں تو آپ کو ان کی تکفیر بھی نہیں کرنی۔ آپ نے ان کو صحیح جگہ سے treatکرنا ہے کہ وہ مسلمان ہیں، غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ آپ نے پہلے ان سے مذاکرات کرنے ہیں، ان کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرنی ہے۔ اگر نہیںآتے تو پھر آپ نے ان کی قوت توڑنی ہے، بے جا قتل وغارت نہیں کرنی۔

میرا خیال ہے کہ یہ جو ہمارے ہاں ہر طبقے میں عدم توازن آ گیا ہے کہ آپ نے مخالف فریق کی غلط پالیسیوں اور غلط طرز عمل پر بات کرنی ہے تو آپ ابتدا ہی کفر کے فتوے سے کریں، اس پر غور کی ضرورت ہے۔ اس وقت بحیثیت مجموعی جو رویہ خروج کرنے والوں کے بارے میں پایا جاتا ہے، اس میں بھی یہی عدم توازن پایا جاتا ہے اور بہت سے طبقے ہیں جو سرے سے ان کے ساتھ گفتگو کو ہی خارج از امکان سمجھتے ہیں۔ ان کے خلاف کفر کا فتویٰ شاید نہیں دیتے، لیکن ان کو treat اسی جگہ سے کرتے یں۔ یہی رویہ دوسری طرف بھی ہے کہ حکمرانوں پراگر تنقید کرنی ہے یا اختلاف کرنا ہے یا ان کی ناروا پالیسیوں کی نشان دہی کرنی ہے تو کفر کا لفظ پہلے بولیں اور اگلی بات بعد میں کریں۔ یہ میری تنقید کا بنیادی نکتہ ہے۔ اس کے بعد میں نے ظواہری کے استدلالات کا بھی ایک ایک کر کے جائزہ لیا ہے اور اس کا تجزیہ کیا ہے کہ جن امور کی انھوں نے نشان دہی کی ہے، ان کو کفر قرار دینے میں شریعت اور فقہ اسلامی کے کون کون سے اصول مانع ہیں۔ اگر ان کو ملحوظ رکھا جائے تو اس جگہ سے بات نہیں کی جائے گی جہاں سے ظواہری کر رہے ہیں۔ واللہ اعلم

خورشید احمد ندیم

بہت سی باتیں ہو گئیں۔ ان کو دہرانے سے گریز کرتے ہوئے میرا خیال ہے کہ تین بنیادی سوالات ہیں جو اگر فکری طور پر زیر بحث آئیں گے تو شاید یہ بحث آگے بڑھے گی، ورنہ ہر مسئلے کے بارے میں ایک سے زیادہ آرا موجود ہیں۔ خود ہم نے یہاں دیکھا کہ جس مسئلے کو بھی ہم define کرنا چاہتے ہیں، خود ہماری روایت کے اندر، فقہا اور علما کے اندر اس پر ایک سے زیادہ آرا موجود ہیں۔ اب یہ اختلاف تو کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس کو manage کیسے کیا جائے؟ اس وقت سوال یہ نہیں ہے کہ کون سی رائے صائب ہے اور کون سی غلط، بلکہ سوال یہ ہے کہ معاشر ے کے اندر، ریاست کی سطح پر وہ کون سی رائے ہے جس کو ہم قبول کریں۔ میرے نزدیک تین سوالات ہیں جن پر اگر ہم غور کریں گے تو شاید کچھ آگے بڑھ سکیں۔

پہلا سوال یہ ہے کہ جس کو آپ نظم اجتماعی کہتے ہیں، اس کے قیام کی علت کیا ہے؟ یہ بنیادی سوال ہے جو اس بحث میں زیر بحث نہیں آ رہا۔ بالعموم یہاں یہ بات کی گئی کہ اقامت دین شاید وہ علت ہے جس کی بنیاد پر نظم اجتماعی قائم ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس سوال پر غور ہونا چاہیے کہ اصل علت ایک پرامن معاشرے کو وجود بخشنا ہے اور یہ نظم اجتماعی کی ذمہ داریوں میں شامل ہے کہ وہ شریعت بھی نافذ کرے گی اور باقی کام بھی کرے گی۔ ’الجماعۃ‘ جس کوآپ کہتے ہیں، اس کے قیام کی علت کیا ہے؟ ایک ہے نظم اجتماعی کی ذمہ داریاں اور ایک ہے کہ وہ کیوں وجود پذیر ہوتی ہے۔ جب ہم اس کے قیام کی بات کرتے ہیں تو لوگوں کو پرامن معاشرہ اور پرامن طرز زندگی فراہم کرنا اس کی علت ہے یا شریعت کا نفاذ اور اللہ کے احکامات کا نفاذ اس کی علت ہے؟ میرا خیال ہے کہ یہاں اہل علم میں اس سوال پر غور ہونا چاہیے۔

دوسرا سوال جو اہم ہے، وہ یہ ہے کہ کیا کافر اور غیر مسلم ایک ہی چیز کا نام ہے؟ جب ہم کسی شخص کے بارے میں یہ طے کرتے ہیں کہ وہ دائرۂ اسلام سے باہر کھڑا ہے تو ہم اس کے کفر کا فیصلہ کرتے ہیں یا اسلام سے باہر ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں؟ اسلام کے معلوم ڈھانچے سے باہر کھڑا ہونا کیا کفر ہے؟ آپ کے علم میں ہے کہ کفر کو جب ہم ایمان کے مقابلے میں رکھتے ہیں تو ایمان ایک قلبی معاملے کا نام ہے۔ جب قلب تک رسائی نہیں ہے تو تکفیر کیسے ہوگی؟ آپ کی رسائی تو ظاہر تک ہے۔ آپ کسی کے طرز عمل کو دیکھ رہے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ نماز نہیں پڑھتا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ وہ ضروریات دین میں سے کسی چیز کا انکار کر رہا ہے تو آپ کہتے ہیں کہ اس بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ وہ مسلمان نہیں رہا۔ اسلام کے مقابلے میں غیر مسلم ہے۔ یعنی آپ یوں کہیے کہ کافر اور مسلمان کا فرق ہے جو مسلم اور غیر مسلم کی تقسیم کر رہا ہے۔ ایک ہے ایمان وکفر کا فرق جو مسلمان اور کافر کی تقسیم کر رہا ہے۔ توکیا یہ دونوں مترادف ہیں یا کافر ہونا اور غیر مسلم ہونا دو مختلف چیزیں ہیں؟ اور اگر یہ دو مختلف چیزیں ہیں تو کیا دونوں کے احکامات ایک ہوں گے؟ یہ سوال بھی اس ساری بحث کے اندر بڑا اہم ہے۔

تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ کسی فرد یا گروہ کے متعلق یہ حکم لگانا کہ وہ دائرۂ اسلام سے باہر ہو گیا ہے، یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ فرد کی یا علما کی کسی مجلس کی یا نظم اجتماعی کی؟ یہ بھی اہم سوال ہے کیونکہ اگر اس کے بارے میں ہم طے نہیں کر پائیں گے تو شاید اس بحث کو آگے نہ بڑھا سکیں۔ علما کے کسی ادارے کو اگر آپ یہ اختیار دیں گے تو اس ادارے کی حیثیت متعین کریں کہ کون اس ادارے کو بنائے گا؟ کیا ریاست بنائے گی؟ اگر ریاست بنائے گی تو پھر ہم یہ حق نظم اجتماعی کو دے رہے ہیں۔ اگر ریاست نہیں بنائے گی اور علما کے مختلف فورمز اپنے طو رپر کسی چیز کا تعین کرتے ہیں تو آپ اس سلسلے کو کہاں جا کر روکیں گے؟ اس کی کیا صورت ہو جائے گی؟ مثلاً ابھی ذکر ہوا اہل تشیع کی تکفیر کا۔ بہت جید لوگوں نے فتویٰ دیا اور سیکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے اس پر دستخط کیے۔ مولانا منظور نعمانی جیسی شخصیت نے اس کو مرتب کیا اور مولانا علی میاں جیسی جلیل القدر شخصیت کی ان کو تائید حاصل رہی۔ تو اس کی نوعیت کیا ہے؟ کیا وہ علما کا ایسا نمائندہ فورم قرار پائے گا اور جو اس سے انحراف کرے گا، اس کی کیا نوعیت ہوگی؟ مولانا یوسف لدھیانوی صاحب کی معروف کتاب ہے ’’اختلاف امت اور صراط مستقیم‘‘، اس میں وہ کہتے ہیں کہ جو آدمی مطلقاً حیات النبی کا انکار کرے گا، وہ بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ تو جب علما کے کسی فورم کو آپ حق دیں گے تکفیر کا تو یہ تکفیر کا سلسلہ کہاں پر رکے گا کہ کون مسلمان ہے اور کون غیر مسلم ہے؟ 

پھر اس میں بڑا مسئلہ تاویل کا ہے۔ تاویل کاحق آپ کس کو کتنا دیتے ہیں اور کتنا اس کو قبول کرتے ہیں؟ مثلاً دین میں توحید سے بڑی کوئی چیز نہیں۔ ہمارے ہاں جو بریلوی نقطہ نظر ہے عمومی طور پر، اس پرآپ غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ توحید سے اس کا کوئی تعلق نہیں بنتا۔ وہ توحید جو ہم قرآن سے سیکھتے ہیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھتے ہیں۔ یعنی ایک perception یہ ہے،لہٰذا اس کی بنیاد پر جو توحید کو نہیں مانتا، تکفیر کا سب سے زیادہ مستحق تو وہی ہوگا، لیکن آپ اس کو تاویل کاحق دیتے ہیں کہ وہ توحید کو مانتے ہیں، لیکن اس کی ایسی تاویل کرتے ہیں جو آپ کی تاویل سے مختلف ہے۔ سوائے ایک قلیل گروہ کے، میرے علم میں نہیں ہے کوئی بریلوی حضرات کی تکفیر کرتا ہو۔ سب ان کو مسلمانوں کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اہل تشیع کو بھی سمجھتے ہیں اور اسی بنیاد پرسمجھتے ہیں کہ آپ ان کو تاویل کا حق دیتے ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ جب توحید جیسے بنیادی مسئلے میں آپ تاویل کا حق دیتے ہیں تو دیگر مسائل میں کیوں نہیں دیتے؟ اور کیا وہ مسائل توحید سے زیادہ اہم ہو گئے کہ ان کی تاویل پر آپ لوگوں کی تکفیر کرتے ہیں، حتیٰ کہ لوگوں کو واجب القتل قرار دے کر ان کو قتل بھی کر دیتے ہیں؟ کیا توحید سے زیادہ sensitive issue بھی کوئی ہے؟ تاویل کی کیا limits ہیں اور تاویل کہاں تک مانی جائے گی اور اگر تاویل کا حق امر مسلم ہے تو اس کا اطلاق کہاں تک ہوگا؟

آخری سوال یہ ہے کہ جب کوئی عالم یا گروہ کسی کے بارے میں یہ رائے رکھتا ہے کہ وہ دائرۂ اسلام سے باہر ہے تو اس کے بعد جو سماجی رویہ وجود میں آتا ہے، وہ کیا ہے؟ یہ بڑا اہم سوال ہے کہ کیا آپ کے یہ رائے دینے کے بعد کہ کوئی گروہ یا نقطہ نظر ایسا ہے، اس کے جینے کا حق بھی ختم ہو جاتا ہے اور کیا مسلمان معاشرے کے اندر اس کا وجود بھی تسلیم نہیں کیا جائے گا؟ اسی سے وابستہ سوال یہ ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ فلاں شخص غیر مسلم ہے اور وہ اصرار کرتا ہے کہ نہیں، میں تو اسلام پر ہوں، اسلام ہی کو دین مانتا ہوں تو فیصلہ کیسے ہوگا؟ جیسے مثلاً قادیانیوں کے بارے میں جب آپ نے یہ فتویٰ دیا تو آپ نے یہ حق نظم اجتماعی کو دیا۔ نظم اجتماعی نے ایک فیصلہ سنا دیا اور وہ نافذ ہو گیا۔ اب یہ بحث آگے چلتی ہے اہل تشیع کے بارے میں اور دوسرے لوگوں کے بارے میں۔ آپ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ تو یہ جو صورت حال پیدا ہوئی ہے، اس میں قول فیصل کس کا ہے اور آپ کس کو یہ اختیار دیتے ہیں؟ اور جب آپ کوئی رائے قائم کرتے ہیں تو اس کے بعد جو سماجی رویے وجود میں آتے ہیں اور دین کے اعتبار سے آپ سماجی رویوں کی تشکیل کرتے ہیں تو پھر لوگوں کو کیا sugget کرتے ہیں؟

میرے نزدیک یہ چار پانچ عملی سوالات ہیں جو چیزوں کو سمجھنے کے لیے بہت ضروری ہیں۔ ہمارا موضوع پاکستان کا دستور ہے اور مجھے پتہ ہے کہ میں نے ابھی اس پر براہ راست نہیں کی۔ پاکستان کے دستور کی حیثیت جو ابھی انھوں نے یہاں بیان کی تھی کہ اگر مسلمان مل کر یہ طے کر لیں، ایک social contract کرلیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کی برتری کو چیلنج نہیں کریں گے اور اس کے بعد وہ اپنے فہم کے لحاظ سے ایک تعبیر دین اختیار کرتے ہیں، ان کی پارلیمنٹ اس تعبیر دین کو اختیار کر لیتی ہے تو اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جیسے اقبال پارلیمنٹ کو عصر حاضر میں اجماع کا متبادل قرار دیتے ہیں۔ پارلیمنٹ آج ایک تعبیر دین کو اختیار کرتی ہے تو کل کسی اور کو۔ اگر یہ حق آپ پارلیمنٹ کو دیتے ہیں تو پھر آپ کا دستو رمسلمان ہو گیا اور پھر اس سے جو انحراف کرے گا، وہ خروج کرے گا، پھر وہ اس کے خلاف بغاوت کرے گا۔ آپ نے آرٹیکل ۶ رکھ دیا کہ اس کو پھر سزائے موت بھی دیں گے۔ 

تو کیا نظم اجتماعی اگر ایک social contract پر اتفاق کر لیتا ہے اور اس میں اللہ اور اس کے رسول کی حاکمیت کو وہ چیلنج نہیں کرتا تو اس کی حیثیت اصول میں اور بنیادی طور پر کیا ہے؟ اگر تو وہ پرویز صاحب کی اصطلاح میں مرکز ملت کے قائم مقام ہے تو کیامرکز ملت ہونے کی جو حیثیت ہے، اگر میں یہ کہوں کہ اولی الامر کوئی سوشل کنٹریکٹ بنا لیتے ہیں تو اس کا مصداق جو ہے، اس کو آپ کیا حیثیت دیتے ہیں؟ اور آرٹیکل ۶ کے تحت جو اس سے فرار اختیار کرتا ہے، جو اس سے گریز کرتا ہے، اس کی آپ جان لیتے ہیں، اس کوآپ پرانی terminology میں خروج قرار دیتے ہیں۔ اگر تو آپ نظم اجتماعی کے بنائے ہوئے دستور کو یہ حق دے رہے ہیں اور عوام، پارلیمان کو حق دے رہے ہیں کہ وہ طے کرے کہ کون کافر ہے اور کون خروج کا مرتکب ہو رہا ہے تو پھر اس سے جو گریز ہے، اس سے جو انحراف ہے، وہ عصری تعبیر کے مطابق خروج کے دائرے میں آتا ہے۔ 

یہ بنیادی سوالات ہیں جو بہت اہم ہیں اور اس سوال کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں کہ خود دین کے بارے میں آپ کی تعبیر کیا ہے۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی نے یہ بات لکھی ہے کہ دین کا مطلب اسٹیٹ ہے۔ یہ انھوں نے ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ میں لکھا ہوا ہے۔ تو اسٹیٹ اگر دین ہے تو یہ خود بڑا بنیادی سوال ہے کہ کیا آپ اس کو مانتے ہیں کہ اسٹیٹ دین ہے؟ اور اگر اسٹیٹ دین ہے تو پھر بغاوت کی جو ساری debate ہے اور خروج کی جو ساری debate ہے، وہ اسٹیٹ کے ارد گرد گھومے گی۔ تو میرا خیال ہے کہ یہ بنیادی سوالات ہیں۔ اصل چیز رویوں کی تشکیل ہے۔ غلط یا صحیح کا فیصلہ شاید نہیں ہے، کیونکہ وہ ہم نہیں کر سکتے۔ کبھی ہوا بھی نہیں ہے اس امت کی تاریخ میں۔ ایک سے زیادہ آرا ہر مسئلے میں موجود رہی ہیں اور ابھی ہمارے زاہدصدیق صاحب نے جو سارا thesis پیش کیا، جو بنیادی نصوص انھوں نے پیش کی، ان نصوص کی بھی انھوں نے تفہیم پیش کی ہے۔ علما یہ کہتے ہیں، فقہا یہ کہتے ہیں، فلاں یہ کہتا ہے۔ تو یہ تفہیم کا جو دائرہ ہے، یہ ظاہر ہے کہ ایک عہد تک تو محدود نہیں ہے، یہ بعد میں بھی پھیلے گا۔ اس لیے میرے نزدیک اصل چیز شاید حق وباطل کا فیصلہ کرنا نہیں ہے۔ فصل نزاع ہے کہ اس ایشو کو آپ اپنے دور میں نظم اجتماعی کے تحت کیسے حل کریں گے۔ اور وہ آپ نہیں کر پائیں گے اگر میرے خیال میں آپ یہ چند بنیادی سوالات ہیں جن کو آپ پیش نظر نہیں رکھیں گے۔ 

ڈاکٹر خالد مسعود

بہت شکریہ۔ اس میں ایک آخری سوال کا اضافہ کر لیں کہ کیا فقہا کی آرا اور قرآن وسنت کی جو تعبیرات ہیں، ان کو بھی قرآن وسنت کا درجہ حاصل ہے؟ میرا خیال ہے، یہ بنیادی سوالات کا حصہ ہے۔ اقتدار اعلیٰ اللہ کا اقتدار اعلیٰ ہے یا عوام کا اقتدار اعلیٰ ہے جس کو ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں تضاد کے طریقے سے پاکستان میں پیش کیے جاتے رہے۔ Objectives Resolution میں اس مسئلے کو حل کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے کہ کسی طرح دونوں کو متناسب اور متوازن کیا جائے، لیکن اس کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ چونکہ اس میں واضح طو رپر شریعت کی بالادستی سامنے نہیںآئی، اس لیے بعض لوگوں کے نزدیک یہ اب بھی اسلامی نقطہ نظر نہیں، بلکہ کفریہ نقطہ نظر ہے۔ اور تیسرا نقطہ نظر یہ بھی آیا کہ اگرچہ اس میں بہت سے اسلامی امور اور اسلامی شقیں شامل ہو گئی ہیں، لیکن چونکہ اس کا نفاذ نہیں ہو رہا، اس لیے نفاذ کی ضرورت ہے۔ نفاذ کرنے والے کم از کم قومی ریاست کو اور اس ڈھانچے کو، آئین کو مانتے ہیں، لیکن ایک طبقہ ایسا ہے جو سرے سے ان بنیادی چیزوں کو نہیں مانتا او رمیرا مطالعہ چونکہ بہت کم ہے، کم از کم میری نظر سے نہیں گزرا کہ انھوں نے اس کا متبادل کیا رکھا ہے کہ جب جمہوریت بھی کفر، پارلیمنٹ بھی کفر، یہ سارا آئین کا سلسلہ بھی کفر ہے تو پھر ہمارے پاس دوسرا لائحہ عمل ہے؟ تو اس میں ایک تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی بھی شخص جو قرآن مجید کی کسی ایک آیت سے استدلال کرے یا کسی ایک حدیث سے استدلال کرے، کیا اس کی جو تعبیر ہے، اس کی جو تفہیم ہے، اس کو ہم قرآن مجید سمجھ لیں؟ اس کو فائنل سمجھ لیں یا اس پر بحث کی گنجائش رہتی ہے؟

چونکہ نقطہ نظر عام طو رپر عوام کا بھی یہی ہوتا ہے کہ کسی نے چار پانچ آیتیں یکے بعد دیگرے کسی مسئلے پر پڑھ دیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید سے استدلال ہو گیا۔ یہ بات سامنے نہیں رہتی کہ اس پر دوسرے لوگ دوسرا نقطہ نظر بھی پیش کریں گے۔ تو جو سوالات خورشید ندیم صاحب نے سامنے رکھے ہیں، اگر ان کو ہم لے لیں تو اس میں ساری بحث کا خلاصہ بھی بنتا ہے اور وہ ایک طرح سے ہمارے آئندہ غور وفکر کے لیے بھی راہ ہموار کرتے ہیں۔ میں چاہوں گا کہ اگر آپ اس سے اختلاف بھی کرتے ہیں تو ان سوالات کی طرف توجہ دیں اور ان کا جواب دیں۔ پھر جب ایک ایک نکتے پر ہم بات کر رہے ہوتے ہیں تو اس میں وضاحت کے لیے ہم دوسرے سوالات بھی شامل کر سکتے ہیں۔ 

پہلا سوال جو انھوں نے یہ اٹھایا ہے، وہ یہ ہے کہ اسلام کے حوالے سے نظم اجتماعی کی بنیاد کیا ہے؟ اس کا مقصد کیا ہے؟ کیا بنیادی طور پر ہم ایک وسیع نقطہ نظر کو لے سکتے ہیں کہ جس میں ایک پر امن معاشرہ قائم کرنا ہو جس میں عدل ہو، ظلم نہ ہو، یا پھر یہ ہے کہ سیدھا سادا شریعت کا نفاذ؟ پہلے اس سوال کو لے لیتے ہیں۔

زاہد صدیق مغل

اس سوال پر جب ہم غور وفکر کرتے ہیں کہ کیا نظم اجتماعی کی بنیاد شریعت ہے یا امن وغیرہ تو جیسا کہ خورشید صاحب نے اپنی ایک preference کا اظہار کیا کہ لگتا ایسے ہے کہ جیسے یہ امن کا قیام ہے اور شریعت اس میں بعد میں شامل ہوتی ہے۔ تو بنیادی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ جس طرح ہمارے ہاں بہت ساری termsکو ہم نے نیوٹرل سمجھ کر قبول کر لیا ہے، ان میں سے ایک تصور امن بھی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تصور امن گویا کسی نیوٹرل چیز کا نام ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔ امن کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ امن کا مطلب ہوتا ہے کسی ایک مخصوص تصور عدل کو معاشرے پر نافذ کرنا۔ تھوڑی سی تفصیل میں جانا چاہوں گا۔ امن کا مطلب یہ ہوتا ہے، حقوق اور فرائض کی جو تقسیم ہے سوسائٹی میں، وہ کس بنیاد پر ہو رہی ہے؟ امن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک نظام فرد کو جن حقوق کا مکلف گردانتا ہے، اس کو باہم طو رپر وہ حقوق میسر ہوتے چلے جائیں۔ چونکہ حقوق اور فرائض کی تعیین اور تفسیر میں اختلافات پائے جاتے ہیں، لہٰذا امن کے متعلق بھی تصورات مختلف ہیں۔ مثلاً مارکسسٹ تصور کے اندر پرائیویٹ پراپرٹی کی جگہ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تو ظلم ہے، جبکہ لبرل ازم کے اندر امن کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو پرائیویٹ پراپرٹی کا بھی حق حاصل ہو۔ تو امن کیا ہے، یہ بذات خود ایک relative چیز ہے جو ڈیفائن ہوتی ہے کسی میٹا فزکس سے۔ جب ہم اسلامی نقطہ نظر سے امن کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد ہوتا ہے شریعت، اور کوئی چیز نہیں ہے۔ 

ہم سمجھتے ہیں کہ امن کوئی نیوٹرل تصور ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس اصول کی بالادستی کی بنیاد پر امن قائم ہوگا؟ موجودہ contextکے اندر ہم لبرل ازم کے اندر اس کو confuse کر دیتے ہیں۔ لبرل ازم کے اندر امن کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ یہ اصول مان لیں کہ انفرادی زندگی کے اندر فرد جو کرنا چاہے، کرے۔ اپنی زندگی کے اندر خیر اور شر کا جو تصور اختیار کرنا چاہے، کرے۔ یہ ان کا بنیادی تصور امن ہے کہ اگر یہ حق باہمی طور پر ہر شخص کو مل رہا ہے تو یہ امن ہے۔ اب ظاہر بات ہے کہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

ڈاکٹر خالد مسعود

یہاں تک تو وضاحت ہو گئی۔ ذرا آگے بتائیے کہ شریعت سے مراد کیا ہے؟

زاہد صدیق مغل

شریعت سے مراد ہے کہ وہ حقوق جو قرآن وسنت میں بیان ہوئے ہیں اور اجماع امت کی صورت میں ہم تک منتقل ہوئے ہیں۔ یعنی جو دین کے بنیادی ماخذات کے اندر موجود ہیں۔

ڈاکٹر خالد مسعود

اس کا تعین کون کرے گا؟ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟

زاہد صدیق مغل

اس کا فیصلہ وہی لوگ کریں گے جو ظاہر ہے کہ علماء کرام ہیں، جو دین کی تشریح کر سکتے ہیں۔

ڈاکٹر حسن مدنی

میں یہ سمجھتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم معاشرے میں آئے تومعاشرے میں امن پہلے بھی موجود تھا۔ ہمارے دنیا میں آنے کا مقصد اللہ کی بندگی ہے اور اللہ کی بندگی صرف عبادات میں نہیں ہے، بلکہ پورے معاشرتی اجتماعی نظام حیات میں ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ معتزلہ کا تصور ہے کہ انسان اپنے تئیں امن کا ایک خود ساختہ ماڈل بنا سکتا ہے۔ ہمیں شریعت کی ضرورت ہے اور انسان کی فطرت میں وہ اہلیت نہیں ہے کہ انسان اللہ کی راہ نمائی سے بالاتر ہو کر ازخود ایک امن کاماڈل بنا لے۔ اور آخری بات یہ ہے کہ دنیا کے جو اس وقت کے حالات ہیں، وہ یہ بتا رہے ہیں کہ ۱۹۹۰ء کے موقع پر دنیا میں امن قائم ہو گیا۔ دنیا میں مفادات جو ہیں، وہ آخر کار ہمیں لے جاتے ہیں مفادات کی طرف اورہر انسان کی فطرت قرآن کریم میں ہے: بغیا بینہم۔ انسان دوسروں پر سرکشی کرتے ہیں، اس لیے امن کا تصور محض ایک مجرد چیز نہیں ہے اور شریعت کے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ مفادات کی جنگ ہے اور ہمیں اللہ کی بندگی کا حکم ہے۔ اس لیے مسلمان ہونے کے ناتے امن کا تصور ایک ہی ہے اور وہ شریعت ہے اور شریعت نے عدل اور انصاف عملاً دکھایا ہے، خلافت راشدہ نے دکھایا تھا۔ آج کا نظام امن دینے سے عاری ہے۔ سعودی عرب میں امن قائم ہے، افغانستان میں بھی کچھ عرصے تک قائم ہوا۔ طالبان نے دو سالوں میں ایک جنگی خطے میں امن قائم کر کے دکھایا، جبکہ مجھے واشنگٹن جانے کا موقع ملا تو واشنگٹن میں ایک تہائی شہر آج بھی امن سے عاری ہے۔ میں وائٹ ہاؤس کے سامنے گھوم رہا تھا۔ انھوں نے کہا کہ وہاں نہ جائیے۔ آج بھی واشنگٹن کے ایک تہائی علاقے پر ،جو دنیا کا دار الخلافہ ہے، وہاں اس وقت امن قائم نہیں ہے۔ شکاگو کے علاقے میں قائم نہیں ہے۔ تو انسانوں کا بنایا ہوا نظام امن دے نہیں سکتا۔ دے ہی اللہ کا نظام سکتا ہے۔

ڈاکٹر خالد مسعود

سوال یہ ہے کہ شریعت کا تعین کیسے ہوگا اور کون کرے گا؟

ڈاکٹر حسن مدنی

اس کے متعلق عرض کرتا ہوں کہ علما کا شریعت کا تعین کرنا، یہ تھیوکریسی ہے۔ ہم کسی انسان کو یہ حق نہیں دیتے۔ حاکمیت صرف اللہ کو حاصل ہے۔ دراصل یہ ایک اہلیت ہے اور یہ اہلیت جس شخص میں موجود ہے، وہ اہلیت کا استعمال کرے گا۔ ہمارا مقصد اللہ کی بندگی ہے اور ہم کتاب وسنت کے پیروکار ہیں۔ علما کا کام صرف نشان دہی کرنا ہے۔ علما کو عصمت حاصل نہیں ہے، شریعت کو عصمت حاصل ہے۔ تو اہلیت کو پیدا کرنا اور اہلیت کے مطابق شریعت کی تشریح کرنا علما کا کام ہے۔ اب یہ کیسے ہوگا؟ جن دن علما، ایسے اہل علم جو کتاب وسنت کے مطابق بات کرنے والے ہیں، جس دن ان کو موقع مل گیا تو امت مسلمہ اس مخمصے سے نکل جائے گی جیسے سعودی عرب کے اندر نکلی کہ وہاں پر علما بھی مل گئے، سیاست بھی مل گئی اور مسئلہ حل ہو گیا۔ آج سیاسی اقتدار ان لوگوں کو ملا ہوا ہے جو علم کے خود حامل نہیں تھے۔ اب علم ان کے لیے غیب ہے۔ تو عملاً یہ ایک سیاسی، ایک واقعاتی، ایک قومی مسئلہ ہے۔ جس دن یہ مسئلہ حل ہو گیا، ہم اس مخمصے سے نکل جائیں گے۔

ڈاکٹر خالد مسعود

سعودی عرب کے قیام سے پہلے شریعت کیا ہے، کیسے نافذ ہوگی، ان کے پاس ماڈل موجود تھا۔ امارت اسلامیہ افغانستان میں وہ ماڈل موجود نہیں تھا۔ پاکستان میں ہمارے پاس وہ ماڈل موجود نہیں ہے۔ اگر ہے تو مختلف ہے، اس مسئلے کو کیسے حل کریں گے؟

ڈاکٹر حسن مدنی

جب علما اس معاملے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر محسوس کریں گے اور علما میں اس کی محنت ہوگی تو اس کی عملی شکل بھی واضح ہوگی۔ علما میں وہ اہلیت بھی نہیں ہے اور وہ نکھار بھی نہیں ہے اور ہمیں اس نکھار کی کوشش کرنی ہے اور سیکھنا ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جس طرح دنیا دار طبقہ، لبرل طبقہ سیکولر ہے، علما بھی سیکولر ہیں۔ سیکولر عالم وہ ہے جو اجتماعیات کے میدان میں دین کے نظام کو نہیں جانتا۔ اسے اسلام کے نظام عدل کا پتہ نہیں ہے، اسلام کے نظام سیاست کا علم نہیں ہے تو یہ سیکولر ازم ہے، عالمی نظام کو ماننا ہے۔ تو علما کو یہ سیکھنا ہوگا۔ علما ان تمام نظاموں کو سیکھیں گے تو اسلام کا جو سوشل سسٹم ہے، اس کے تمام عناصر کو سیکھیں گے ۔

ڈاکٹر خالد مسعود

اس سے تو میری مایوسی میں اضافہ ہوتاہے کہ علما نے ابھی تک نہیں کیا اور جب انھیں موقع ملے گا تو کریں گے۔

ڈاکٹر حسن مدنی

جزوی طور پر ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، لیکن اسے بہتر ہونا چاہیے۔ یہ ریاست کا فرض ہے۔ ریاست کو سکھانا چاہیے اس کو۔

محمد عمار خان ناصر

میں یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ یہ ایک خالصتاً فلسفیانہ بحث کہ آپ کسی ’قدر‘ کو کیسے ڈیفائن کریں گے۔ میں صرف اشارہ کروں گا کہ ایک بحث ہمارے قدیم علم کلام میں پائی جاتی ہے حسن وقبح والی جس کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ معتزلہ نے ایک بات کہی تھی جسے عام طور پر اہل سنت کے متکلمین نے قبول نہیں کیا۔ لیکن ہمارے ہاں شریعت کی تفہیم میں اور شریعت کیسے بنتی ہے، اس میں ایک بڑی بنیادی بحث شاہ ولی اللہ نے بھی کی ہوئی ہے اور وہ ہمارے روایتی علم کلام سے بہت مختلف ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ شاید انھوں نے معتزلہ ہی کے تصور کو آگے بڑھایا ہے۔ جب ہم یہ بات کر رہے ہیں کہ اسلام کے ہاں معاشرتی قدروں کا تعین کیسے ہوتا ہے تو اس میں ان کی بحث بھی سامنے رہنی چاہیے۔ مثلاً یہ جو بات ہے کہ امن ایک ایسی چیز ہے جو بالکل مجرد ہے اور ہر آدمی کا اپنا ایک تصور امن ہے، میرا خیال ہے اس میں تھوڑا سا مبالغہ ہے۔ امن کا بنیادی تصور میرے خیال میں سب انسانوں کے درمیان مشترک ہے۔ ہاں، کس صورت میں کوئی آدمی امن کا مستحق ہے یا نہیں، اس کے اطلاقات میں اور بعض مخصوص صورتوں میں بحث ہو سکتی ہے۔ یہ ایک سادہ بات ہے کہ ایک آدمی کو معاشرے میں جان کا تحفظ ہونا چاہیے۔ یہ ایک انسانیت کا مشترک تصور ہے۔ ہاں، جب وہ کوئی جرم کرے، اس پر اس کو سزا ملنی چاہیے۔ یہ بھی ایک مشترک تصور ہے۔ البتہ اس پر اختلاف ہو سکتا ہے کہ ایک چیز ایک مذہب میں یا ایک تہذیب میں جرم ہے اور دوسری تہذیب میں جرم نہیں ہے۔ میرے خیال میں جو چیزیں مشترک ہیں، ان کو مشترک مان کر یہاں بات کی جائے کہ اسلام امن دیتا ہے، جان کا تحفظ دیتا ہے، دنیا کے سارے معاشرے دیتے ہیں، جرم کامواخذہ سب مانتے ہیں۔ جرم کیا چیز ہے اور کیا نہیں ہے، یہاں آ کر اسلام اختلاف کرتا ہے۔ مغرب ہو سکتا ہے کہ ایک شراب پینے والے کو امن دے کہ یہ قابل مواخذہ نہیں ہے، لیکن اسلام اس پر مواخذہ کرے گا۔

ڈاکٹر رشید احمد — (پشاور یونیورسٹی)

سوال بہت اہم ہے۔ ہمارے ہاں ایک تصور ہے مقاصد شریعت کا جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شریعت کے مقاصد پانچ ہیں اور وہ پانچوں کے پانچوں امن ہیں۔ تحفظ دین، تحفظ نسل، تحفظ جان، تحفظ عقل اور تحفظ حسب ونسب۔ تحفظ کا مطلب امن ہی ہے تو امن کا قیام شریعت کا ہی مقصد ہے۔

مولانا مفتی محمد زاہد

میرا خیال ہے کہ اگر ہم اس بحث میں جائیں گے کہ نظم اجتماعی کا کیا مقصد ہے تو وہ پورا جو اسلام کا ایک تصور ریاست ہے، اس بحث میں داخل ہو جائیں گے اور میں نہیں سمجھتا کہ اتنے مختصر وقت میں ہم اس کو کسی نتیجے تک پہنچا سکتے ہیں۔ البتہ ایک آدھ بات میں عرض کروں گا کہ ریاست کے مقاصد کیا ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے تناظر میں، قرارداد مقاصد کے اندر پاکستان کے لبرل طبقوں نے اور مذہبی طبقات نے چند نکات پر اتفاق کر لیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود لازم نہیں ہے کہ ہر ایک اس سے اتفاق ہی کرے، اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن جب تک ہمارا دستوری ڈھانچہ قرارداد مقاصد کے اس دائر ے کے اندر ہے، اس سے سو اختلاف ہم کریں، کم از کم اس کی تکفیر کرنا، اسے کفر یہ کہنا، اس میں ہمیں احتیاط کرنی چاہیے ، کیونکہ اس میں بڑے بڑے علما رہے ہیں اور ا س میں علما کا ایک نقطہ نظر ہے۔ جس مسئلے میں علما کا اور دین کی تعبیر کا اختلاف آ جائے، وہاں آپ اپنے دلائل دے سکتے ہیں، لیکن دوسرے نقطہ نظر کو کفر نہیں کہہ سکتے۔ اس میں، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں احتیاط کرنی چاہیے۔ اب جو بے احتیاطی ہو رہی ہے ، وہ یہ ہے، جیسا کہ عمار صاحب نے ایمن الظواہری کے حوالے سے نقل کیا کہ وہ چیز جس کو پاکستان کے جید علما طے کر چکے ہیں، ا س کو ایک سرجن اٹھ کر کفر کہہ دے۔ ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ علما سب کچھ طے کریں گے اور دوسری طرف ہم نے پورا تصور جہاد سعودی عرب کے ایک انجینئر اور مصر کے ایک سرجن کے حوالے کیا ہوا ہے اور جو وہ کہہ دیں، ہم اندھے مقلد ہیں۔ دوسری طرف ہم کہتے ہیں کہ نہیں، علما کی بات مانی جانی چاہیے۔ علما کی کون سنتا ہے؟ سارا معاملہ تو ہم نے ان کے حوالے کر دیا۔ یہ ہمارے اپنے رویوں کے اندر تضاد ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے اندر یہ چیز آ گئی ہے کہ جو ذرا زیادہ زور سے بولتا ہو اور اس کا گلا زیادہ طاقت ور ہو اور وہ جہاد کا نعرہ لگا دے تو وہاں کسی استدلال کی، کسی دلیل کی ضرورت باقی رہتی نہیں۔ 

ڈاکٹر خالد مسعود

علما کے مرتب کردہ ۲۲ نکات کی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے جدید سیاسی نظم کو جو پہلے نہیں تھا، اس کو تسلیم کرتے ہوئے بات کی۔ اس میں ریاست کو مانا، پارلیمنٹ کو مانا، آئین کو مانا، قانون سازی کو مانا۔ یہ ریاست کے سارے جدید تصورات تھے، جبکہ جو ہمارا جو انارکسٹ سوشلسٹ گروپ ہے، وہ ریاست کو، قانون کو بنیادی طور پر نہیں مانتا۔ دوسری طرف جو القاعدہ کے کچھ لوگ اور عام طور پر جو اقدامی جہاد کے قائل ہیں، وہ بھی قومی ریاست کے تصورکو، پارلیمنٹ کو سرے سے نہیں مانتے۔ اس لیے بنیادی اختلاف وہاں پر موجود ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کا کہنا یہ ہے کہ شریعت کے نفاذ سے دار الاسلام ہو جائے گا، اسلامی سلطنت بن جائے گی جو کہ وہ ابن تیمیہ سے لے رہے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے میرے نزدیک کہ اگر ایسا ہے تو اس گروہ کو ابھی سے کوشش شروع کر دینی چاہیے کہ اگر موقع ملے گا تو ہمارے پاس یہ لوگ ہیں جو شریعت کو جانتے ہیں اور نافذ کریں گے۔ جب یہ بات کی گئی تو تمام لوگوں کا جواب یہ تھا کہ مدرسوں سے ایسے لوگ تیار ہو رہے ہیں۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ مدرسے سے جو فارغ التحصیل ہے، کیا اس میں فوراً یہ صلاحیت ہے کہ وہ قانون ساز بھی بنے، مفتی بھی بنے، قاضی بھی بنے، اور حکومت بھی چلائے؟ کیا اس طرح کی کوئی ٹریننگ دی جاتی ہے؟ اس کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔

یہاں سے مایوسی شروع ہوتی ہے کہ ایک طرف تو آپ کہتے ہیں کہ نفاذ شریعت، نظم اجتماعی کا مقصد ہے۔ دوسری طرف اس کی تیاری نہیں ہے اور یہ سمجھنا کہ جب موقع ملے گا تو ہم تیار ہو جائیں گے، یہ بڑی خطرناک بات ہے۔ 

مولانا مفتی محمد زاہد

ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تیاری ہوتی ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نہیں ہوتی۔ میرا خیال یہ ہے کہ اگر ایسا ماحول بن جائے تو تیار تو ہو سکتے ہیں، لیکن فی الحال نہیں ہے اور نہ ہی ان چیزوں سے، جیسا کہ مدنی صاحب نے فرمایا، ہمارے علما واقف ہوتے ہیں۔ اجتماعی پہلو جو ہیں اسلامی نظام کے اور ہمارے حالات میں وہ کیسے نافذ ہوگا، نقطہ نظر جو بھی ہو اس کی تنفیذ کا، لیکن کوئی واضح ذہن موجود نہیں، حتیٰ کہ بالکل انتہا پسندانہ ذہن جو ہے، وہ بھی کلیئر نہیں ہوتا۔ کوئی واضح ذہن ہمارے مدارس کے فضلا کے اندر موجود نہیں ہوتا۔

خورشید احمد ندیم

ہم ابھی پہلے سوال پر بات کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ جو گفتگو دوستوں نے کی، اس پہلے سوال کا جواب نہیں آیا کہ نظم اجتماعی کے قیام کی علت کیا ہے اور نصوص اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ جو گفتگو یہاں ہوئی، وہ یہ ہے کہ قیام امن جو ہے، وہ شریعت ہی سے ممکن ہے۔ قیام امن، اقامت دین سے ممکن ہے۔ شریعت ہی امن دیتی ہے، اس کے علاوہ کوئی شکل ممکن نہیں ہے۔ 

زاہد صدیق مغل

شریعت ہی امن کا نام ہے۔ شریعت کے علاوہ امن کی کوئی تعریف ممکن ہی نہیں ہے۔ شریعت کے علاوہ جو کچھ ہے، وہ ظلم ہے۔

ڈاکٹر حسن مدنی

جس طرح ہم نماز پڑھنے کے پابند ہیں، اسی طرح اللہ کے نظام کو نافذ کرنے کے پابند ہیں۔ یہ دین ایک کامل دین ہے۔ اگر صرف امن مقصود ہوتا تو امن مکہ مکرمہ میں قائم تھا۔ نبی کریم نے یہ سارا معاملہ کیوں شروع کیا؟ امن مقصود ہوتا تو لکم دینکم ولی دین سے امن ہو گیا تھا۔ 

ڈاکٹر خالد مسعود

یہاں آپ تاریخی سوالات پیدا کر رہے ہیں۔ رسول اللہ نے بھی جنگوں میں حصہ لیا۔ پورا جزیرۂ نماے عرب جنگوں میں مبتلا تھا۔ اس کے لیے عربی زبان میں’حرب‘کی اصطلاح ہے اور اسلام نے حرب کی جگہ ’جہاد‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اہل عرب جنگوں میں مبتلا تھے، پھنسے ہوئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی انھوں نے چین نہیں لینے دیا۔ تیرہ سال جو مکے کے تھے، وہ ظلم اور جبر کے تھے۔ یہ کہنا کہ امن تھا، صحیح نہیں۔ امن تو تھا ہی نہیں اس نظام میں۔

خورشید احمد ندیم

میں ذرا تھوڑا سا اپنی بات کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔ سعود ی عرب کی یہاں بات ہوئی۔ ابھی ہم نے جو پاکستان کی حکومت کے خلاف بڑا مقدمہ قائم کیا ہے اور تکفیر کی ساری بحث اسی تناظر میں ہو رہی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ طاغوت کی سرپرستی میں زندگی گزارتے ہیں اور ایک جو کفریہ نظام ہے، طاغوت کی جو نمائندہ قو ت ہے امریکہ، اس کے وہ اتحادی ہیں، لہٰذا اس بنیاد پر جو بنیادی مقدمہ کھڑا ہو رہا ہے، وہ ان کے خلاف کھڑاہو رہا ہے۔ کیا اس پہلو سے سعودی عرب کے حکمرانوں میں اور پاکستان کے حکمرانوں میں کوئی فرق ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو دونوں پر الگ الگ احکامات کا اطلاق کیسے ہو رہا ہے؟ یہ بات میرے نزدیک بڑی اہم ہے۔ فرق کہاں پر ہے؟ ابھی حسن مدنی صاحب نے فرمایا کہ ان کے شخصی کردار میں جو فسق وفجور ہے، وہ اتنا زیر بحث نہیں ہے کیونکہ وہ نظم اجتماعی میں شریعت کے تقاضوں کا لحاظ رکھ رہے ہوتے ہیں، اس لیے وہ قابل قبول ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ جو بات ہے کہ آپ طاغوت کی اطاعت میں اپنی ساری خارجہ پالیسی بنائیں ، کیا جو ان کی شرعی ذمہ داریاں ہیں نظم اجتماعی کے ضمن میں، کیا اس دائرے کی چیز نہیں ہے اور اگر ہے تو پھر یہ اطلاقات مختلف کیوں ہیں؟ یہ بنیادی سوال ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس پر ضرور گفتگو ہونی چاہیے۔

ڈاکٹر حسن مدنی

جہاں تک سعودی عرب کے ضمن میں بات ہے، ہم اس کے مدافع نہیں ہیں۔ صرف ایک نظریاتی تعلق ہے، جیسے ہمارا امارت اسلامیہ افغانستان سے مسلمان ہونے کے ناتے سے تعلق ہے۔ بہرحال میرا مشاہدہ اور مطالعہ یہ ہے کہ سعودی عرب میں امریکہ کی جارحیت اور خلیج کی جنگ ہوئی اور اس کے بعد القاعدہ کا سارا سلسلہ شروع ہوا، لیکن سعودی عرب نے وہاں پر اس جارحیت کو محدود کیا۔ امریکی افواج کو bases سے باہر نہیں نکلنے دیا۔ انھوں نے manage کیا اس بات کو اور میں وہاں گیا تو میرے علم میں آیا کہ ۲۰۰۳ء میں وہاں سے تمام افواج جا کر قطر میں بیس بنا چکی ہیں۔ آخر کار القاعدہ کا جو مقدمہ ہے یا اسامہ بن لادن کا جو مقدمہ ہے، وہ سعودیہ کے حق میں غلط ثابت ہوا اور پاکستان کے حق میں درست ثابت ہوا۔ ایک تو بنیاد یہ ہے۔ طاغوت کا ساتھ دینے کی غلطی ان کے ہاں بھی موجود ہے اور بنیادی غلطی ہماری سیاسی کمزوری ہے۔ اسلام ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا اور اس کام میں سعودیہ پاکستان سے زیادہ گناہ گار ہے کہ اس نے اپنے اوپر عائد ہونے والے دفاع کے فرائض پورے نہیں کیے۔ لیکن سعودی عرب نے پھر بھی اس غلطی کو manageکر لیا اور پاکستان میں ہم نے جس ہلاکت کا سامنا کیا، وہ سعودیہ نے نہیں کیا۔ 

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ تحکیم بما انز ل اللہ کا جونکتہ ہے، اس میں سعودی عرب پاکستان سے بہت آگے ہے۔ سعودی عرب کا سیاسی نظام غلط ہوگا، لیکن اگر سکون اور اطمینان وہاں موجود ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ وہاں پر فیصلے آج بھی کون کرتا ہے؟ وہاں پر قاضی بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مدرسے کا فارغ التحصیل ہو۔ مدرسے سے مراد مدینہ یونیورسٹی کی جو کلیۃ الشریعہ ہے، اگر اس کا گریجویٹ ہوگا یعنی دوسرے لفظوں میں پکا مولوی ہوگا تو وہ آدمی قاضی بن سکتا ہے کتاب وسنت کی بنا پر۔ دستو ربھی ان کے ہاں جو موجود ہے، کوئی Penal Code نہیں ہے۔ تو دوسری ترجیح یہ ہے۔

عملی ترجیح یہ ہے کہ ان کے ہاں طاغوت کے ساتھ دوستی کا جو فساد تھا، وہ بہت زیادہ پھیلا نہیں اور آخرکار انھوں نے اس سے گلوخلاصی حاصل کر لی اور سعودی عرب کے لوگ پاکستان کی بہ نسبت زیادہ دانا ثابت ہوئے اور ہمارے ہاں ہلاکت آج بھی موجود ہے۔ اسامہ بن لادن کا مقدمہ وہاں غلط ثابت ہوا، لیکن طالبان کا مقدمہ پاکستان میں درست ثابت ہوا۔ 

ڈاکٹر خالد مسعود

امریکہ کا جو قریب ترین اتحادی ہے، پاکستان سے بھی زیادہ، وہ سعودی عرب ہے۔ 

ڈاکٹر حسن مدنی

اس میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ امریکہ جو ہے، اسی نے سعودی عرب کی تشکیل کی ہے۔ اس کے تمام نظامات امریکہ نے بنائے ہیں اور حتیٰ کہ وہاں پر جو پورا تمدنی انقلاب ہے، وہ پورا سعودی حکومت کے ساتھ مل کر انھوں نے برپا کیا ہے۔ عالمی سیاست میں ان کا جو کردار ہے، وہ غلط ہوگا۔ یا اس کی ایک ہمدردانہ توجیہ یہ کی جا سکتی ہے کہ آپ سعودیہ میں اتریں تو آپ کو لگتا ہے کہ آپ دنیا سے کٹ کر ایک علیحدہ خطے میں آ گئے ہیں اور وہاں اسلام کسی نہ کسی درجے میں موجود ہے۔ صرف حجاز مقدس میں نہیں، سارے سعودیہ میں ہے۔ سعودی عرب بہت وسیع ہے۔ ریاض وہاں سے بارہ گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ وہاں بھی اسلام موجود ہے۔ تو سعودی عرب نے اگر یہ کام کیا ہے تو میں ہمدردانہ طور پر یہ توجیہ کرتا ہوں کہ دنیا کے اس وقت ایک بڑے طاقت ور ملک کے ساتھ مفاہمت کر کے انھوں نے تحفظ حاصل کیا ہوا ہے، ورنہ سعودی عرب اس وقت دنیا سے ایک علیحدہ جزیرہ قائم کر کے دین کو قائم کر ہی نہیں سکتا۔ تو یہ اس کی ایک مناسب توجیہ ہے اور یہ اس کی ضرورت بھی ہے اور حکمت عملی بھی ہے۔ انھوں نے امریکہ سے فائدہ اٹھایا ہے کہ اپنے آپ کو تحفظ دیا ہے۔ بہرحال اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سعودی عرب کا تمدن کا پورا ماڈل امریکہ کا ماڈل ہے۔ 

خورشید احمد ندیم

ایک ہی جملہ بس میں کہنا چاہوں گا کہ یہ جو ہمدردانہ توجیہ ہم سعودی حکمرانوں کے لیے کرتے ہیں، کیا اس کا اطلاق ہم پاکستان کے حکمرانوں پر بھی کر سکتے ہیں؟

ڈاکٹر حسن مدنی

یہ نتائج پر منحصر ہے۔ وہاں ملت اسلامیہ کو یا اسلام اور قرآن کو جو نتائج مل رہے ہیں، اگر وہ ملیں تو غور ہو سکتا ہے۔ میں افغانستان میں کبھی گیا نہیں، لیکن ہمیں یہاں کیا مناسبت ہے؟ اسلام کے تعلق کی مناسبت ہے۔ اگر نتائج میں آپ کو سعودی عرب میں جا کر کچھ اسلام نظر آتا ہے تو ہمدردی ہونی چاہیے۔ کوئی بندہ وہاں دس سال رہتا ہے ، وہ نمازی بن جاتا ہے۔ یہ ان کی خوبی ہے۔ یہاں جو نظام مدارس میں چل رہا ہے، وہاں وہ یونیورسٹیوں میں چل رہا ہے۔ یہ ہمدردی ہم رکھتے ہیں،ورنہ کوئی تعلق اس کے علاوہ نہیں ہے۔

مولانا مفتی محمد زاہد

بات ہو رہی تھی امن کی کہ نظم اجتماعی قائم کرنے کی جو علت یا مقصد ہے، وہ امن ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ اگر ہم نے یہ بحث کرنی ہی ہے، اگرچہ یہ بہت طویل بحث ہے، جلدی ختم ہونے والی نہیں ہے تو امن کے ساتھ دو قدریں اور ہیں۔ ان کو ملا کر اگر بات کی جائے تو شاید سمجھنے میں آسانی ہو۔ ایک قدر ہے عدل۔ یہ ضروری ہے، ورنہ ایک پھنے خاں قسم کا آدمی بھی محلے میں ایک قسم کا امن قائم کر سکتا ہے۔ ایک ڈاکو بھی امن قائم کر سکتا ہے۔ اکیلا امن نہیں، امن وہ جو عدل کے ساتھ ہو۔ تیسری جو قدر ہے، وہ میں نہیں سمجھتا کہ وہ مغربی قدر ہے۔ وہ اسلامی قدر ہے، اگرچہ بعض کو شاید وہ عجیب سی لگے۔ وہ ہے آزادی۔ کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے: وقد ولدتہم امہاتہم احرارا۔ آزادی بھی ایک بنیادی قدر ہے۔ یہ تینوں قدریں ضروری ہیں۔ وہ امن جو عدل اور آزادی کے ساتھ ہو، وہ معتبر ہے۔ سعودی عرب میں امن ہوگا، لیکن وہاں آزادی نہیں ہے۔ یہاں ہم حکومت کی پالیسیوں پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ وہاں جس وقت جزیرۂ عرب میں امریکی فوجیں موجود تھیں، اب یہ کہہ رہے ہیں کہ نکل گئی ہیں، لیکن جب موجودتھیں، اس وقت بھی حرمین شریفین کے کسی امام کو یہ جرات نہیں تھی کہ وہ خطبے میں لوگوں کو یہ حدیث سنا سکے۔ یہ کہا گیا کہ القاعدہ کا مقدمہ پاکستان میں صحیح ثابت ہوا۔ صحیح ثابت نہیں ہوا۔ یہاں بولنے کی آزادی ہے، وہاں بولنے کی آزادی نہیں ہے۔ یہاں بھی اگر حکومت وہی انداز اختیار کرتی، اسی طریقے سے زبانیں بند کر دیتی تو یہاں پر بھی القاعدہ کا مقدمہ غلط ہوتا۔ پاکستان کے علاوہ کہیں بھی وہ مقدمہ صحیح نہیں ہے۔ جہاں جہاں حکومتوں نے جکڑ کر رکھا ہوا، وہاں وہاں القاعدہ کا مقدمہ غلط ہے اور جہاں کچھ بولنے کی آزادی ہے، وہاں القاعدہ کا مقدمہ ٹھیک ہے۔ وہ امن جس کے ساتھ عدل نہ ہو، جس کے ساتھ آزادی نہ ہو، ایسا امن جو ہے، وہ ریاست کے مقاصد میں شامل نہیں ہو سکتا۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

میرا خیال ہے کہ اس بحث میں بعض چیزوں کو ہم بہت سادہ انداز سے لے رہے ہیں، لیکن یہ چیزیں اتنی سادہ نہیں ہیں۔ اس میں بہت گہری باتیں ہیں اور ظاہر ہے کچھ باتیں ایسی ہیں جو ہم عام محفلوں میں کر بھی نہیں سکتے۔ 

خورشید ندیم صاحب نے جو سوالات اٹھائے ہیں، یہ الگ سے ایک سیمینار کا تقاضا کرتے ہیں کہ ان پر باقاعدہ مقالے لکھے جائیں اور ان پر بحث کی جائے۔ بہت علمی جوابات ان کے مطلوب ہیں اور عام انداز میں سرسری طور پر ہم ان کا جواب نہیں دے سکتے۔ اب بہت سی باتیں علما کے درمیان زیر بحث رہی ہیں اور مدتوں زیر بحث رہی ہیں۔ مثلاً کیا مقصد اعلیٰ قیامِ حکومت الٰہیہ ہے یا دینی طبقات کا کام انذا ر ہے؟ آیا معاشرے کی اسلامیت ضروری ہے یا لازماً حکومت میں الٰہی نظام یا شریعت کا قیام ضروری ہے؟ اب شریعت کا نظام جو ہے، وہ ایک ایسے ملک میں تو قائم ہو سکتا ہے جہاں اکثریت مسلمانوں کی ہو۔ جہاں اکثریت مسلمانوں کی نہیں ہے، وہاں پر دینی طبقات کی کیا ذمہ داری ہے؟ 

دوسری بات یہ ہے کہ سعودی عرب یا طالبان کی جو حکومت ہے، ان کو ایک اسلامی نظام مملکت کا نمائندہ representative قرار دینا میرے خیال میں اس پر بڑی بحث کی گنجائش ہے، اس لیے کہ اگرہم طالبان کے نظام حکومت کو خالصتاً اسلامی نظام کا نمائندہ قرار دے دیں تو پھر جب ان کی حکومت ختم ہوئی اور کافروں نے ختم کی تو اس کے بعد پھر لوگوں میں سب سے زیادہ منافع حجاموں اور نائیوں نے کیوں کمایا؟ اس لیے کہ وہ انداز جو تھا، جو طریقہ نفاذ کا تھا، شاید وہ اسلام کی روح کے مطابق نہیں تھا۔ جب نفاذ کا طریقہ اسلامی روح کے مطابق نہ ہو تو پھر اس کا رد عمل یہی ہونا تھا جو ہوا جو کہ ایک افسوس ناک بات ہے۔ کسی مسلمان کو اس بات پر خوشی نہیں ہو سکتی کہ لوگ قطار در قطار حجام کے انتظار میں بیٹھے ہوں۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں تھی، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ کہیں نہ کہیں مسئلہ موجود تھا۔

دوسری بات یہ کہ اگر صرف قضا کے نظام کو ہم اسلام قرار دیں تو میں آپ کو بتاؤں کہ تاریخی طور پر جب سے افغانستان قائم ہوا ہے، ۱۷۵۷ء میں احمد شاہ ابدالی بابا نے جب جرمنی کے ذریعے افغانستان قائم کیا تو نظام قضا کا ہی تھا حتیٰ کہ ظاہر شاہ کے دور حکومت میں بھی ظاہر شاہ امیر تھا، اپنے آپ کو امیر المومنین کہلواتا تھا اور اس کا قاضی القضاۃ تھا اور ہر ضلع میں ان کے قاضی تھے اور حنفی فقہ کے مطابق افغانستان میں فیصلے ہوتے تھے۔ 

تیسری بات یہ ہے کہ ہمارے لیے ترکی کے اسلام پسندوں کی حکمت عملی میں راہ نمائی کا بڑا سامان ہے۔ ۱۹۲۴ء کے بعد وہاں جو صورت حال تھی، اس میں یہ بھی بڑی کامیابی ہے کہ کم از کم اسکارف کی اجازت پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بھی مل گئی ہے۔ اب اگر آپ طالبان کی نظر سے ترکی کا نظام دیکھیں تو کہیں گے یہ کافرانہ نظام ہے۔ لیکن ترکی کی صورت حال میں آپ اس کو ایک بڑی کامیابی قرار دے سکتے ہیں۔ اسی طریقے سے اب مثلاً مصر میں یا تیونس میں یا باقی جگہوں پر جو تبدیلیاں آ رہی ہیں، اب آپ اخوان کا نقطہ نظر اس وقت دیکھیں اور آج سے دس سال پہلے دیکھیں۔ آج اخوان کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم ترکی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ تیونس کی اسلامی جماعت کہہ رہی ہے کہ ہم ترکی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ ساری باتیں ہمیں بتا رہی ہیں کہ جب تک مسئلوں کا حل ہم تلاش نہیں کریں گے ،بہت سے سوالوں کا جواب ہمارے لیے تشنہ ہوگا۔

زاہد صدیق مغل

یہ جو امن کے حوالے سے گفتگو ہو رہی تھی، اس پر میں ایک دو چیزوں کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا۔ ایک تو قرآن مجید کی آیت ہے جو بالکل واضح ہے۔ الذین ان مکناہم فی الارض اقاموا الصلوۃ وآتوا الزکوۃ وامروا بالمعروف ونہوا عن المنکر۔ یہ آیت یہ واضح کر رہی ہے کہ اگر اجتماعی طو رپر مسلمانوں کو کوئی موقع ملے گا تو وہ کیا کریں گے۔ دوسری بات، اگر امن اسلام سے ماورا کوئی قدر ہوتی تو اس کا موقع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں ملا جیسا کہ سیرت طیبہ میں واقعہ ہے کہ وہ سارے عرب کے جو سردار تھے، وہ حضور کے پاس آئے اور انھوں نے کہا کہ بادشاہت چاہیے تو بادشاہ بن جاؤ۔ رسول اللہ کے پاس بڑا اچھا موقع تھا کہ کہتے کہ چلو ٹھیک ہے، میں بادشاہ بن جاتا ہوں، امن قائم کر لیتے ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیش کش ٹھکرا دی۔ تو بنیادی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ جب میں یہ کہتا ہوں کہ اسلام ہی امن ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ امن کو اسلام سے ماورا ڈیفائن کرنے کا کوئی پیراڈائم موجود ہی نہیں ہے۔ اس کو آپ یوں سمجھیں کہ اسلام میں امن صرف یہ نہیں ہے کہ جان اور مال اور عزت محفوظ ہو۔ مثال کے طور پر میں اسلامی معاشرے میں خود کو اس چیز سے بھی محفوظ سمجھوں کہ جو حدود اللہ کی پامالی کرنے کی طرف راغب کرنے والی جو چیزیں ہیں، خود کو، اپنی اولاد کو ان سب سے محفوظ پاؤں کہ زنا کی طرف کسی بھی طریقے سے ان کو ترغیب نہ دی جائے۔ تو وہ تمام جو شریعت کے احکامات ہیں، ان کی خلاف ورزی کرنے کے ماحول سے میں خود کو محفوظ پاؤں، یہ بھی تصور امن میں داخل ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ امن سے مراد ہے شریعت۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز موجود نہیں ہے۔

ڈاکٹر حسن مدنی

میں سب سے پہلے شکر گزار ہوں جناب صدر کا کہ آپ کی علم دوست شخصیت نے ما شاء اللہ اتنا مخلصانہ اور ہمدردانہ ماحول پیدا کیا اور ساتھ جناب عامر رانا صاحب کا کہ انھوں نے ان تمام لوگوں کو جمع کیا اور ایک مناسب ماحول میں گفتگو ہو رہی ہے۔ جو ہمارا اصل موضوع ہے، کیا اس وقت شمسی ایئر بیس سے ڈرون حملے جن لوگوں پر ہوئے ہیں، کیا ان لوگوں کو مزاحمت کا یا چیخ پکار کا یا کچھ کہنے کا حق ہم دیتے ہیں یا نہیں دیتے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر وہ چیخ پکار کریں گے تو وہ دہشت گردی ہے۔ یہ تو بات درست نہیں کہ وہ باضابطہ تکفیر وخروج کے نام پر پورا نظام کھڑا کر دیں، فدائی حملے شروع کر دیں۔ یہ تو ظلم ہے، لیکن ہم پر بھی کیا کوئی فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ زیادتی جس کو پورے اہل پاکستان زیادتی مان چکے ہیں کہ یہ ہمارے حکمرانوں کی زیادتی تھی اور ہم نے دس سال ایک نادانی کی ہے، اس کے خلاف آواز اٹھائیں؟ دس سال نادانی کے بعد آج ہمیں اصل مخالفوں کا پتہ چلا ہے۔ تو میں صرف یہ سوال اس فورم کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ جن بے گناہوں پر قتل وہلاکت مسلط کی گئی، کیا ان کا بھی کوئی حق موجود ہے آہ وبکا کا ، کچھ بولنے کا اور ہمارا بھی کچھ فرض بنتا ہے یا نہیں ان کی کچھ تائید کرنے کا؟

ڈاکٹر خالد مسعود

دیکھیے۔ اس میں دو چیزیں ہیں۔ ایک تو آپ کی بات اس مفروضے پر مبنی ہے کہ گویا پاکستانیوں نے اس پر کوئی احتجاج نہیں کیا، پاکستان کے کسی طبقے نے احتجاج نہیں کیا۔ یہ بات درست نہیں کہ احتجاج نہیں ہوا۔احتجاج مسلسل ہوتا رہا ہے۔ اور یہ بھی غلط فہمی دور ہو جانی چاہیے کہ ڈرون حملوں کوکسی بھی لبرل طبقے نے پاکستان میں اور کسی حکومتی طبقے نے کبھی اس کی حمایت نہیں کی۔ دوسرے، کچھ عرصہ قبل میں انٹرنیشنل لاء کے ایک سیمینار میں شریک تھا۔ وہاں لوگ کہہ رہے تھے کہ آپ کی نظر میں سب سے زیادہ امریکی حکومت کا کون سا اقدام ہے جس سے پاکستانیوں کو نفرت ہو رہی ہے؟ میں نے کہا کہ ڈرون حملے۔ یہ ان کے لیے بڑے تعجب کی بات تھی۔ آپ اس کو سمجھیں کہ امریکیوں کے نزدیک وہ ڈرون حملوں کے ذریعے پاکستان کی مدد کر رہے ہیں۔ جو پاکستان نہیں کر سکتا، وہ اس کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ سارا کچھ پاکستان کے جو بھی ذمہ دار ہیں، ان سب کی رضامندی کے ساتھ ہوا ہے اور تحریری معاہدوں کی بنیاد پر ہوا ہے۔ 

ڈاکٹر حسن مدنی

لیکن کیا ہم نے اپنا فرض ادا کیا جب ہمارے اہل وطن پر ظلم ہو رہا تھا؟ میں تو اپنے ذاتی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ اگر چند کلمات لکھے تو بہت چھوٹافرض تھا، کیونکہ ان کا کوئی گناہ نہیں تھا۔ اہل پاکستان ہونے کے ناتے وہی نظریہ، اسلام کی محبت کا تو ہم بھی رکھتے ہیں۔ 

ڈاکٹر خالد مسعود 

لیکن دوسری طرف یہ ہے کہ جن لوگوں کوخود کش حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور جن پر یہاں تباہی مسلط کی گئی، مسجدوں میں خود کش حملوں میں نشانہ بنایا گیا، ان کی بھی بات اسی طرح اسی زور وشور سے ہونی چاہیے کہ جو بھی اس طرح کے کام ہوئے، چاہے وہ شریعت کے نفاذ کے نام پر کیے گئے، وہ غلط تھے۔ 

ڈاکٹر حسن مدنی

معذرت کے ساتھ، بس آخری بات یہ عرض کروں گا کہ میرے خیال میں پاکستان میں اللہ کا بڑا شکر ہے کہ پچھلے چھے ماہ سے امن ہے اور امن وامان کی صورت حال اللہ کرے ہمیشہ قائم رہے۔ ہمارا وطن ایسے ہی رہے۔ تو جب بھی دہشت گردی ہوگی، جب بھی ڈرون حملے گریں گے تو مصنوعی طور پر دہشت گردی کھڑی ہو جائے گی، ورنہ میں نہیں سمجھتا۔ ہمارے ملک میں pre-planned دہشت گردی ہوتی ہے، باہر کے ایجنٹ ہوتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ ۲۰۰۰ء سے پہلے بھی طالبان موجود تھے، سرحد پورا موجود تھا۔ وہاں یہ بد امنی اور تکفیر نہیں تھی۔ آج بھی جیسے ہی یہ معاملے کو ختم کر دیں گے تو بد امنی کم از کم سکون میں بدل جائے گی۔ اس وقت وہ صورت حال تو نہیں ہے جو۲۰۰۹ء میں تھی۔ ہمیں اس چیز کو اس کے اصل تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ یہ شروع کہاں سے ہوئی؟ اس تناظر کو نظر انداز کر کے صرف آج کے غلط اقدام کرنے والوں کو بر ابھلا کہہ دینا میں سمجھتا ہوں کہ آدھا سچ ہے۔ 

مولانا مفتی محمد زاہد

انھوں نے تصویر کے دونوں رخ پیش کیے اور بہرحال جن پر یہ حملے ہو رہے ہیں، ہم ڈرون کا لفظ بول رہے ہیں، جبکہ کسی بھی طریقے سے حملہ ہو، وہ برا ہے۔ ہم اس طریقے سے یہ لفظ دہراتے ہیں کہ اگر وہ کسی اور طریقے سے حملہ کریں تو شاید وہ ٹھیک ہوگا۔ میں جو بات کہنا چاہتا ہوں، اس پر بھی توجہ دینی چاہیے کیونکہ اپنی صفوں کو ٹھیک کرنا، یہ زیادہ اہم ہے۔ وہ لوگ جو ہم سے پوچھتے ہیں کہ داتا دربار پر کون سے ڈرون حملے ہوئے؟ ہم جب کہتے ہیں کہ اسباب پر غور کرو تو داتا دربار سے کون سے ڈرون اڑے تھے؟ میں سمجھتا ہوں کہ یہ محض ایک justification ہے، ہم اوپر اوپر سے بات کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنی صفوں کے اندر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ان کے ساتھیوں میں بھی، میرے ساتھیوں میں بھی، ان کے شاگردوں میں بھی، میرے شاگردوں میں بھی جو میرے سامنے بیٹھ کر پڑھتے ہیں، ہمیں اعتراف کر لینا چاہیے کہ یہ عنصر موجود ہے اور کم سے کم اپنے ماحول کے اندر اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ٹھیک ہے جب ہم امریکہ سے بات کریں تو اس وقت ڈرون حملوں کی بات کریں، لیکن جب ہم اپنے ماحول میں ہوں تو ہمارے اپنے ماحول کے اندر جو تصورات کی غلطیاں ہیں، ان کا ہمیں نہ صرف اعتراف کرنا چاہیے، بلکہ ان کو اچھے طریقے سے سمجھانا چاہیے۔امریکہ جوکچھ کر رہا ہے، اس کو اسلام نہیں کہا جاتا۔ لیکن یہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کو اسلام کہا جا رہا ہے۔ ایک عالم دین کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ جس چیز کو اسلام کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے، اس کے بارے میں یہ فیصلہ کرے کہ وہ واقعتا اسلام ہے یا نہیں۔ 

ڈاکٹر حسن مدنی

آپ کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے عرض کروں گا کہ ملا عمر نے تین سال پہلے کہا کہ جنھیں جہاد کا شوق ہے اور جو مزاحمت کرنا چاہتے ہیں، وہ سب کے سب افغانستان میں آ جائیں۔ پاکستان کے طالبان کی یہاں کے علما نے کبھی تائید نہیں کی۔ جس نے داتا دربار پر یا کسی بھی جگہ پر حملہ کیا، اس نے انتہائی ظلم کیا۔ شریعت میں ا س کا کوئی جواز نہیں تھا۔ جس طرح آپ نے فرمایا ہے کہ ہمارے درمیان دشمن کے لوگ بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ لوگ جنھوں نے لوگوں کے گھر تباہ کیے ہیں، ان میں غیر مختون بھی ملے ہیں۔ جب ہم ہمدردی سے دیکھتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب ایجنٹوں کا کردار ہے اور اگر طالبان نے یہ کام کیا تو غلط کیا، ورنہ ملا عمر جو طالبان کے قائد ہیں، ان کا یہ موقف نہیں اور پاکستان کے کسی عالم نے اس ایجنڈے کی تائید نہیں کی۔ جس نے کیا، اس نے غلط کیا اور ایجنٹوں کا کردار بھی اس میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ڈاکٹر خالد مسعود

میں جس پوائنٹ کی طرف آپ کو لانا چاہ رہا ہوں، وہ یہ ہے کہ ہم اس بات کا خیال رکھیں کہ ہم دین کے نام پر استعمال تو نہیں ہو رہے؟

اختتامی کلمات: عامر رانا — (ڈائریکٹر PIPS)

اس وقت ملکی سلامتی اور امن وامان کے حوالے سے جو مسائل ہمیں درپیش ہیں، ان میں تکفیر اور خروج ایک اہم مسئلہ ہے۔ پورا مسئلہ بہت complex ہے جیسا کہ قبلہ ایاز صاحب نے بھی کہا۔ بہت سے لوگوں نے کہا کہ مسئلہ بنیادی طورپر سیاسی ہے اور اس کا جو cover ہے، وہ مذہب ہے۔ میں چونکہ سیاسیات کا اور اسٹریٹجک اسٹڈیز کا طالب علم ہوں، سب سے بڑا پرابلم کسی بھی فریم ورک کو ڈویلپ کرنے میں تب آتا ہے جب ideological tendencies اس میں fall کرتی ہیں۔ میرا تو یہ میدان نہیں ہے اور یہ کوئی PIPS کا intiative بھی نہیں تھا کہ تکفیر اور خروج پر ہم اس بحث کا آغاز کریں۔ اس کا پس منظر بہت سے لوگوں کو یہاں معلوم ہے کہ علما کی تجویز تھی۔ جب ہم نے کہا کہ پرامن اور متوازن معاشرے کے قیام میں علما کیا کردار ادا کر سکتے ہیں تو علما کی طرف سے تجویز پیش کی گئی کہ ہمیں تین سطحوں پر کام کرنا چاہیے۔ اس میں ایک کام علمی وفکری سطح کا تھا۔ 

جہاں تک ڈرون حملوں کی بات ہے تو سب سے پہلے پاکستان میں ان حملوں کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کے لیے جو انٹرنیشنل ایکسپرٹ بلائے گئے تھے، وہ PIPS نے ہی بلائے تھے اور یہی ادارہ تھا کہ جب سوات میں Collateral damage ہوا، وہ ملٹری کی طرف سے زیادہ سویلین مارے گئے تھے، طالبان کی طرف سے بھی مارے گئے تھے تو اس ایشو کو بھی اسی چھوٹے سے ادار ے نے ہائی لائٹ کیا تھا۔ تو جو بھی اکیڈمک ہو اپنے ڈسپلن کا تو اسے اپنے ڈسپلن کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ہمارا ادارہ بھی اس کا خیال رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ 

تین مذاکرے ہم نے کر لیے اور ہر مذاکرے کے بعد تشنگی بڑھتی جا رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم اس سلسلے کو یہاں روک دیں۔ آج آپ نے شروع میں یہ بات کی کہ ہمیں اور بھی کئی مسائل کا اور چیلنجز کا سامنا ہے جن کا براہ راست تعلق ہماری معاشرت کے ساتھ ہے۔ یہ جو موضوع ہے ، بے شک اس کا تعلق ہماری قومی سلامتی کے ساتھ اور ہماری ریاست کے ساتھ، ہمارے region کے ساتھ بہت سارے معاملات سے جڑا ہوا ہے۔ اگر ہم ان چیلنجز سے جن کا آپ نے ذکر کیا، اگر ان سے بات شروع کریں تو شاید آہستہ آہستہ پیش رفت ہو اور ہم تکفیر اور خروج جیسے گنجلک مسائل کی طرف پیش قدمی کر سکیں، ان کے لیے راہ ہموار کرسکیں۔ 

بہرحال تینوں محفلیں بڑی بھرپور ہوئیں۔ آج کی نشست میں آمد کے لیے آپ تمام معزز علماء کرام اور دانش وروں کی آمد کا بہت بہت شکریہ۔ ہم آپ کے انتہائی مشکور ہیں کہ آپ کی آمد کی وجہ سے بہت سے پہلو جو پچھلی دو محفلوں میں سامنے نہیںآئے تھے، وہ بھی سامنے آئے اور میرا خیال ہے کہ یہ بحث انفرادی سطح پر اور اجتماعی سطح پر اب چلتی رہے گی۔ آپ کی آمد کابہت بہت شکریہ!

اسلام اور سیاست

(مارچ ۲۰۱۲ء)

مارچ ۲۰۱۲ء

جلد ۲۳ ۔ شمارہ ۳

ابتدائیہ ’’جہاد۔کلاسیکی وعصری تناظر میں‘‘
محمد عمار خان ناصر

اسلام کا تصور جہاد ۔ چند توضیحات
مولانا محمد یحیی نعمانی

جہاد ۔ ایک مطالعہ
محمد عمار خان ناصر

’’پر امن طریق کار‘‘ بمقابلہ ’’پر تشدد طریق کار‘‘
محمد رشید

حکمرانوں کی تکفیر اور خروج کی بحث
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (پہلی مجلس مذاکرہ)
ادارہ

معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (دوسری مجلس مذاکرہ)
ادارہ

معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (تیسری مجلس مذاکرہ)
ادارہ

پاکستان ایک غیر اسلامی ریاست ہے
الشیخ ایمن الظواہری

عصر حاضر میں خروج کا جواز اور شبہات کا جائزہ
محمد زاہد صدیق مغل

غلط نظام میں شرکت کی بنا پر تکفیر کا مسئلہ ۔ خطے کے موجودہ حالات کے تناظر میں
مولانا مفتی محمد زاہد

تکفیر اور خروج : دستورِ پاکستان کے تناظر میں
محمد مشتاق احمد

کیا دستور پاکستان ایک ’کفریہ‘ دستور ہے؟ ایمن الظواہری کے موقف کا تنقیدی جائزہ
محمد عمار خان ناصر

پروفیسر مشتاق احمد کا مکتوب گرامی
محمد مشتاق احمد

خروج ۔ کلاسیکل اور معاصر موقف کا تجزیہ، فکر اقبال کے تناظر میں
محمد عمار خان ناصر

تعارف و تبصرہ
ادارہ

تلاش

Flag Counter