قانون کی پابندی کا انتظام ایک جماعت کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے اور وہ حکومت کرنے والی جماعت ہی ہو سکتی ہے۔ قانون کا انتظام کرنے والی جماعت کا فرض ہے کہ وہ امانت دار ہو اور اپنا فرض ادا کرنے والی ہو۔ صحیح طور پر قانون کی پابندی کرنے والی جماعت کا سب سے پہلا کام یہ ہو گا کہ وہ قانون کی تعلیم عام لوگوں کو اسی طرح دینا شروع کرے جیسے باپ اپنی اولاد کو پڑھاتا ہے۔
پھر قانون کی مخالفت کرنے والوں کو سزا دینا بھی انہی لوگوں کے ہاتھ میں ہو گا۔ وہ مخالف جماعتیں یا تو اس پارٹی کے اندر شامل ہوں گی یا باہر۔ جو اندر ہوں گی انہیں قانون توڑنے کی سزا دینے کا نام تعزیر ہے اور جو باہر ہوں گی ان سے جنگ لڑنی پڑے گی۔ تعزیر اور جنگ دونوں میں جتنی قوت استعمال کرنے کی ضرورت ہے اتنی ہی استعمال کرنی چاہیئے۔
یہ قانون چلانے والی پارٹی عام لوگوں سے فقط قانون کی پابندی کرائے گی، اور ان کی طرح خود بھی اس قانون کی پابندی کرے گی۔ وہ ان سے اپنی خواہشوں کی پیروی نہیں کرائے گی کیونکہ یہ ظلم ہے۔ قانون کی صحیح پابندی کے لیے زبان میں اصطلاحی لفظ تکلیف بولا جاتا ہے۔ (ترجمہ حجۃ البالغۃ تمہید باب ۶)
جو امت قرآن کریم کا پروگرام نہیں اپنائے گی وہ کبھی کامیاب نہیں ہو گی۔ مسلمان قرآن کی عالمی تنظیمی دعوت کا پروگرام لے کر اٹھے تھے اور پھر اپنی اس تنظیمی دعوت میں کامیاب ہو گئے، اور صرف پچاس سال کی مدت یعنی واقعہ صفین کی تحکیم تک ہوا۔ اب جو کوئی امت تنظیمی دعوت لے کر اٹھے گی تو وہ کبھی بھی کامیاب نہ ہو گی جب تک وہ قرآن کے پروگرام کو نہ اپنائے گی۔ (الہام الرحمٰن)