مسلم تہذیب کی تشکیل وتعمیر میں دینی نقطہ نظر سے تین چیزوں کا کردار رہا ہے اور ان تینوں کی اپنی الگ اہمیت ہے۔ ان میں سے کسی بھی چیز کو دوسری کا متبادل نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تین چیزیں یہ ہیں:
۱۔ شریعت
۲۔ سیاست شرعیہ
۳۔ فقہ
ہماری بحثوں میں سارا ارتکاز شریعت اور فقہ پر رہتا ہے، سیاست شرعیہ ایک مستقل موضوع کے طور پر زیرغور نہیں آتی۔ اس کو فقہ کا حصہ سمجھنا یا اس کے اندر ضم کر دینا غلط ہے، اس لیے کہ یہ اپنے اصول اور حدود اور دائرہ کار کے لحاظ سے فقہ سے بہت مختلف ہے۔ فقہ بنیادی طور پر جزئی سوالات میں شرعی حکم اجتہاداً طے کرنے کا عمل ہے جو فقیہ کا وظیفہ ہے۔ فقیہ ایسے سوال یا صورت حال سے متعلق اپنی رائے دیتا ہے جو اس کے سامنے رکھی جائے اور اس کی بنیادی ذمہ داری مسئول عنہ امر کا حکم یعنی جواز یا عدم جواز بیان کرنا یا جزئی سطح پر کوئی متبادل صورت وغیرہ تجویز کر دینا ہے۔ معاشرے، اجتماع اور تہذیب کو درپیش بڑے سوالات کو موضوع بنانا یا پبلک پالیسی تشکیل دینا بنیادی طور پر فقیہ کا اختیار یا ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ ’’سیاست شرعیہ“ کا دائرہ ہے جس میں ذمہ داری اور اختیار کا تعلق ارباب حل وعقد سے ہے اور فکری وسائل فراہم کرنے کا کام معاشرے میں موجود اہل علم ودانش کے تمام طبقات سے متعلق ہے۔
ہماری تاریخ میں کئی مواقع پر فقہاء یا مذہبی علماء بھی سیاست شرعیہ کے دائرے میں مددگار کی حیثیت سے اولو الامر کی راہ نمائی اور معاونت کرتے رہے ہیں۔ اس علم کی مستقل حیثیت اور اس کے الگ حدود وضوابط پر بھی ہماری روایت میں گفتگو موجود ہے۔ فقہاء میں سے الجوینیؒ، عز الدین بن عبد السلامؒ، ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ جیسے اہل علم نے اس کے مختلف پہلووں پر کلام کیا ہے اور اس کے کئی مباحث اس لٹریچر میں بھی ملتے ہیں جسے ’’نصیحۃ الملوک“ یا انگریزی میں Mirrors for Princes کا عنوان دیا جاتا ہے۔ (جس کی مثال مغربی سیاسی لٹریچر میں میکیاولی کی ’’دی پرنس“ ہے)۔ خصوصاً ابن قیم نے ’’اعلام الموقعین“ میں اس کی اہمیت بہت عمدگی سے واضح کی ہے۔
فقہ اور سیاست شرعیہ کے فرق اور امتیاز کو ملحوظ نہ رکھنے یا ان کو گڈمڈ کر دینے کا ایک اثر یہ ہے کہ خلفائے راشدین کے بہت سے فیصلوں اور اقدامات کی تفہیم اور توجیہ میں ہمارے اہل علم کو بہت مشکل پیش آتی ہے، اس لیے کہ وہ انھیں ’’فقہ “ کے پیراڈائم میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ وہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ’’سیاست شرعیہ“ سے تعلق رکھتے ہیں اور فقہی حدود وقیود کے لحاظ سے ان کی توجیہ ہو ہی نہیں سکتی۔ علامہ انور شاہ کشمیریؒ جیسے بالغ نظر عالم نے اسی وجہ سے یہ قرار دیا کہ ’’منصب الخلفاء فوق الاجتھاد ودون التشریع“، یعنی خلفائے راشدین کا منصب اجتہاد سے اوپر اور تشریع سے کم تر ہے۔ شاہ صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جس طرح کے اقدامات خلفائے راشدین نے کیے، وہ ایک عام فقیہ نہیں کر سکتا، کیونکہ وہ نوعیت کے لحاظ سے تشریع سے مناسبت رکھتے ہیں، تاہم تشریع چونکہ رسول اللہ پر ختم ہو چکی ہے، اس لیے ’’دون التشریع“ ایک منصب ماننا پڑے گا جس پر خلفائے راشدین کو فائز قرار دیا جا سکے۔
شاہ صاحب کی یہ بات تعبیر کے لحاظ سے ذرا منفرد ہے، تاہم خلفائے راشدین کے فیصلوں کی نوعیت سے متعلق یہ فقہاء کے عمومی رجحان کے مطابق ہے جو یہ ہے کہ خلفائے راشدین کے اس طرح کے فیصلوں کو، خصوصاً جب ان کے ساتھ دیگر صحابہ کا اتفاق اور تائید بھی شامل ہو جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک پیشگی تصویب حاصل ہے۔ اس توجیہ کا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح کے اجتہادات کی آزادی صرف خلفاء تک محدود رہتی ہے، بعد کے فقہاء تک اس کی توسیع نہیں کی جا سکتی۔
ایسے فیصلوں کی مثالیں معروف ہیں۔ البتہ ایک ذرا کم بیان ہونے والی مثال یہ ہے کہ سیدنا عمر نے مقام ابراہیم (وہ پتھر جس پر حضرت ابراہیم نے کھڑے ہو کر کعبہ کی تعمیر کی) کو، جو پہلے کعبہ کی دیوار کے ساتھ متصل تھا، وہاں سے ہٹا کر کچھ فاصلے پر نصب کر دیا۔ اب اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ فیصلہ اجتہاد کے ان حدود سے کافی باہر ہے جس کی پابندی بعد کی فقہی روایت میں عموماً کی گئی ہے اور کسی بھی عام فقیہ یا مجتہد کے لیے اپنی اجتہادی رائے سے یہ فیصلہ کرنا بہت ہی مشکل ہوگا۔ ابن کثیر کو بھی اس کا احساس ہے، چنانچہ وہ اس کی شرعی توجیہ اس حدیث کی روشنی میں کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ’’میرے بعد ابوبکر اور عمر کی اقتدا کرنا۔“ (تفسیر ابن کثیر)
اس توجیہ میں کئی مشکلات ہیں۔ مثلاً ایک تو اس کے نتیجے میں یہ ماننا لازم آتا ہے کہ تشریع بنیادی طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل نہیں ہوئی تھی، بلکہ اس کے کچھ جزوی پہلو آپ کے بعد خلفائے راشدین کے ہاتھوں پایہ تکمیل کو پہنچے۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا ادراک تھا، اسی لیے آپ نے پہلے سے یہ ہدایت فرما دی کہ ابوبکر اور عمر یا خلفائے راشدین جو بھی فیصلے کریں، ان کی پابندی کی جائے۔ اس سے ایک قانونی انداز کا حل تو نکل آتا ہے اور اس نوعیت کے اجتہاد کا دائرہ عموماً کھلا رکھنے کا بھی سد باب ہو جاتا ہے، لیکن اصولی اور نظری طور پر ایک کافی مشکل سوال پیدا ہو جاتا ہے۔
اسی طرح ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر کچھ تشریعی فیصلوں کا اختیار خلفائے راشدین کو تفویض کیا گیا تھا تو کیا یہ اتنا ہی مطلق اختیار تھا جیسے پیغمبر کا تھا؟ ظاہر ہے، یہ بات کوئی بھی نہیں مانتا۔ مثلاً سیدنا عمر اگر اپنے اجتہاد سے حجر اسود کی جگہ تبدیل کر کے اسے کسی دوسرے کونے میں نصب کرنا چاہتے تو کیا ان کو یہ اختیار حاصل تھا؟ بظاہر یہ کہنا مشکل ہے۔ لیکن اگر مقام ابراہیم کی صورت میں ایک شعیرے کی جگہ تبدیل کی جا سکتی تھی تو حجر اسود بھی تو ایک شعیرہ ہے، اس کی جگہ کیوں تبدیل نہیں کی جا سکتی تھی؟ اسی طرح سیدنا عمر تراویح کو ایک باقاعدہ جماعت کی صورت دے سکتے تھے، لیکن کیا ان کو یہ اختیار بھی تھا کہ وہ کسی دوسری نفل نماز کو بھی اسی طرح اجتماعی صورت میں رائج کر دیں؟ بظاہر نہیں۔ حضرت عثمان نے جمعے کے لیے ایک اذان کا اضافہ فرمایا تو کیا ان کو یا کسی بھی دوسرے خلیفہ کو یہ اختیار بھی تھا کہ وہ باقی تمام نمازوں کے لیے بھی اسی طرح دو دو اذانیں مقرر کر دیں؟ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فیصلے کسی مطلق تشریعی اختیار کے تحت نہیں تھے، بلکہ تشریع کے تابع اور کچھ خاص اصولوں کے پابند تھے۔
ان وجوہ سے ہمارا رجحان یہ ہے کہ خلفاء کے ایسے فیصلوں کی توجیہ ’’پیشگی تصویب“ کے اصول کے بجائے سیاست شرعیہ کے زاویے سے ہونی چاہیے اور ان کو بطور نظائر سامنے رکھتے ہوئے ان سے اصول اخذ کیے جانے چاہییں کہ امت کے دینی ودنیوی مصالح کی تکمیل کے لیے کیسے اور کس نوعیت کے اقدامات ارباب حل وعقد کو کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ضرورت خلفاء کے دور تک محدود نہیں، بلکہ ہمیشہ باقی رہے گی، بلکہ نبوت ختم ہو جانے کے بعد دراصل سب سے زیادہ اہمیت اسی کی ہے۔ ہمارے تناظر میں فکری سطح پر ایک تو ہم نے ’’فقہ “ کو ’’سیاست شرعیہ“ کے دائرے میں دخیل کر لیا ہے جس سے جنم لینے والی پیچیدگیوں کی کوئی انتہا نہیں اور عملی سطح پر ’’مذہبی سیاست“ اور سیاست شرعیہ میں التباس کر کے اہل حل وعقد اور سماج کے دوسرے دانش مند طبقات کو تشکیل معاشرہ کے عمل سے بے دخل کرنے کا انتظام کیا ہوا ہے۔ سیاست شرعیہ کی مستقل اہمیت اور اس کے اصل حدود وضوابط کی فکر وعمل کی سطح پر بحالی اس وقت مسلم معاشروں اور اسلامی تہذیب کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔