افکارِ جدیدیت کے تحت نیچر اور انسانی زندگی کے ہر ہر پہلو کو بالکل نئے انداز میں سوچا اور پھر عمل میں لایا گیا ہے، اور اس طرح سامنے آنے والی سوچ اور عمل کا ماقبل جدیدیت کی اوضاعِ فکر اور زندگی سے قریب یا دور کا کوئی تعلق یا نسبت نہیں ہے۔ جدیدیت کے ذیل اور ضمن میں آنے والی تبدیلیوں کا بہت بڑا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا اب کسی بھی معنی میں بدیہی نہیں رہی۔ دنیا کی تمام نئی تشکیلات جدیدیت کے نظری وسائل سے تخلیق کی گئی ہیں اور ان تک عقلی رسائی کے بغیر قابلِ فہم نہیں ہیں۔ عین یہی امر مسلم شعور کے لیے حیرت انگیز اور ناقابل فہم ہے، اور ماقبل جدیدیت دنیا کی طرح مسلم شعور جدیدیت کے پیدا کردہ ”مظاہر“ کو بدیہی سمجھ کر ہر طرح کی ججمنٹ دیتا چلا آیا ہے۔ فطرت اور دنیا میں جدیدیت کے پیدا کردہ مظاہر نظری وسائل کے بغیر قطعی ناقابل رسائی اور ناقابل فہم ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جدیدیت کے پیدا کردہ سسٹم کی گرفت سے آزاد نیچر اور دنیا کے مظاہر اب بھی بدیہی ہیں، یعنی بدیہی نیچر اور دنیا اب مکمل طور پر marginalize ہو چکی ہے اور غیر اہم ہے۔ مسلم نظری شعور کی موت جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا کے بدیہی ہونے پر اصرار سے واقع ہوئی ہے اور مسلم شعور جدید دنیا تک کوئی علمی رسائی نہیں رکھتا۔
انسان کو مکمل طور پر redefine کرنے کے لیے جدیدیت کے افکار کا ایک بڑا حصہ وجودی افکار کے زیر عنوان ترتیب پایا ہے، اور دنیا کو بدلنے کے لیے جدیدیت نے تہذیبی افکار کے زیر عنوان نئی تشکیلات مکمل کی ہیں، جبکہ مادی فطرت پر کنٹرول کے لیے سائنسی علم کی تشکیل کی گئی ہے۔ فکر کے یہ تینوں دھارے باہم پیوست ہیں لیکن جانکاری اور تفہیم کی خاطر ان کو الگ الگ زیربحث لانے کی ضرورت ہے۔ جدیدیت کے وجودی افکار سے پیدا ہونے والے سوالات اور مسائل سے مسلم ذہن کسی حد تک شناسائی پیدا کر لیتا ہے اور الوہی ہدایت کی براہ راست رہنمائی میں ان سے بہت حد تک نبردآزما ہونے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے، مثلاً انسان کیا ہے؟ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا؟ انسانی زندگی کی معنویت کیا ہے اور کیا وہ موت سے مر جائے گا یا زندگی کسی اور سطحِ وجود پر جاری رہے گی؟ اخلاقیات اور عقیدے کے بارے میں جدید سوالات کا تعلق بھی اسی زمرے سے ہے۔ ہم عصر مسلم شعور جدید معرضِ علمی میں ان سوالات کا سامنا کرنے کے وسائل پیدا نہیں کر سکا، لیکن دینی ہدایت سے جڑا رہنے کی وجہ سے وہ جدیدیت کے پیدا کردہ ان سوالات کو کند کرنے اور اپنے ایمان کو بچانے میں بہت حد تک کامیاب ہو جاتا ہے۔
جدیدیت کے پیدا کردہ سائنسی اور تہذیبی افکار نے نیچر اور دنیا کو مکمل بدل دیا ہے، اور ان سے پیدا ہونے والے عمل نے مسلم شعور اور عمل کو روند ڈالا ہے۔ ان سائنسی اور تہذیبی افکار کا دائرہ نیچر، معیشت، سیاست، کلچر اور تعلیم و علم کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ جدید معیشت سائنسی علم اور ٹکنالوجی کے بغیر ناقابل تصور ہے، اور جدید ریاست، طاقت کی ایک ایسی نئی تشکیل ہے جس کو سمجھنے میں مسلم شعور ابھی تک مکمل ناکامی سے دوچار ہے۔ تہذیبِ مغرب اپنے تمام تر پہلوؤں میں اور اپنے ہر انسانی اور تہذیبی مظہر میں دنیا ہی کی ایک نئی تشکیل ہے، جو positive ہے، مادی ہے اور کنکریٹ اور مجرد دونوں جہتوں کو محیط ہے۔ سائنسی علم اور ٹکنالوجی سے پیدا ہونے والا معاشی عمل تہذیب مغرب کی مادی اساس اور اس کی طاقت اور خوشحالی کا سرچشمہ ہے۔ جدید ریاست اس معاشی عمل کے ہم قدم رہتے ہوئے سائنسی علم اور ٹکنالوجی میں پیشرفت کو کنٹرول کرتی ہے۔ آزادی اور حریت کا سیاسی تصور ساورنٹی کے سیاسی تصور میں ڈھل کر جدید ریاست کا قوام وجود بن جاتا ہے۔
یہ سوال بیک آن ہے کہ ایمانیات میں جڑیں رکھنے والا علم کیا اور کیسا ہو گا اور جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا کے بارے میں اس کا موقف کیا ہو گا؟ لیکن کوئی بھی تہذیب جو علم اور عمل سامنے لاتی ہے تاریخ اسے محفوظ رکھتی ہے۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو مسلم ذہن گزشتہ دو سو برس میں جدیدیت اور مغرب کے سامنے علم اور عمل میں کوئی بھی تہذیبی وسائل سامنے نہیں لا سکا۔ اس کی بڑی وجہ یہ رہی ہے کہ تاریخی مؤثرات کے زیرِ اثر فکر اور عمل کی جہت سے جدیدیت مسلم شعور میں اپنی تنصیب مکمل کر چکی ہے اور وہ خودآگاہ جہات سے محروم ہو کر جدیدیت کا آلۂ کار بن چکا ہے۔ اسی باعث مسلم شعور شریعت کو بھی سیکولر قانون پر محمول کرتا ہے اور انہیں وجودی طور پر ایک ہی سمجھتا ہے، اور ترکِ شریعت کی تزویرات میں جان کی بازی لگائے ہوئے ہے۔ گزشتہ دو سو سال میں سب سے بڑا تشبیہی تحول عقیدے اور شریعت کے بارے میں تصورات میں واقع ہوا ہے، اور ایسے علمی مباحث اب عام ہیں جو عقیدے اور شریعت کو جدید مادی علوم کی سطح پر لے آئے ہیں۔ اس عرصے میں پیدا ہونے والی ”فکر اسلامی“ ایک طرف عقیدے اور جدید علم میں ضروری امتیازات کو باقی نہیں رکھ سکی، تو دوسری طرف شریعت اور سیکولر قانون کو ایک ہی سطح وجود پر دیکھتی آئی ہے۔ جدید ”فکر اسلامی“ عقیدے کو جدید علم اور شریعت کو جدید ریاست کی تحویل میں دینے کا منصوبہ رکھتی ہے، اور بہت حد تک اس میں کامیاب ہو چکی ہے۔ مسلم شعور بھیڑیے کو میمنا سمجھ کر طاقت کے جدید معاشی اور سیاسی اوضاع سے تعاملات کا عادی ہو چکا ہے۔
سیکولر قانون اور شریعت
افکارِ جدیدیت نے اس امر کو فکر میں ممکن اور عمل میں واقعہ بنا دیا ہے کہ نیچر اور دنیا کی طرف کوئی روحانی، مابعدالطبیعیاتی، وہمی، اسطوری اور تقدیسی چیز منسوب نہ کی جا سکے، اور نیچر اور دنیا کی disenchantment مکمل ہو جائے۔ اس میں یہ شامل ہے کہ انسانی شعور اور عمل کی ہر اس اساس کو بھی کھرچ دیا جائے جو ایسی کسی حقیقت کی یاد دلا سکے جس کا تعلق غیب سے ہو۔ اس طرح جدیدیت، نیچر اور دنیا کو مطلق تشبیہ اور مادی وجود کا شبستان بنانے میں کامیابی حاصل کر چکی ہے۔
جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا میں یہ کوئی خبر نہیں ہے کہ جدید قانون مکمل طور پر positive ہے اور مادی ہے، اور بنیاد اور غایت کی جہت سے اس کا کوئی تعلق کسی بھی قسم کی اخلاقیات یا روحانیات یا کسی قدر سے قابلِ تصور بھی نہیں ہے۔ یہ نری طاقت کی مادی تشکیل پر اگنے والے خار کی طرح ہے۔ جدید قانون کا عدل اور حق سے بھی دور کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ دوم، یہ کہ جدید قانون آلاتی ہے، اور مکمل مادی وجودیات کی حامل جدید ریاست کے تابع ہے کیونکہ یہ عین اسی جدید ریاست کی سیاسی طاقت اور ساورنٹی کا عملی مظہر ہے، یعنی جدید قانون will of the political/politically sovereign ہے۔ اور یہاں سیاسی طور پر ساورن ہونے سے جدید ریاست مراد ہے جس کے ذریعے سے ”قوم“ کی ساورنٹی کا تحقق ہوتا ہے۔ سیکولر قانون اپنی وجودیات اور حرکیات میں طاقت کی ایسی جدید تشکیلات کے بغیر قابل تصور نہیں ہے جو مکمل طور پر مادی اور تشبیہی ہوں۔ شریعت کے برعکس، سیکولر قانون کوئی autonomy اور تکثیریت نہیں رکھتا۔ سیکولر قانون اپنے ہونے اور کرنے میں جدید ریاست پر منحصر ہے، یعنی سیکولر قانون اپنا وجود اور حرکت دونوں جدید ریاست سے اخذ کرتا ہے، اور جدید ریاست سے باہر، الگ اور ماورا کسی معنویت کا حامل نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں سیکولر قانون اپنی علمیات (epistemology) اور وجودیات (ontology) میں جدید ریاست سے باہر کوئی آثار رکھتا ہے اور نہ پیدا کر سکتا ہے۔ اور جدید ریاست the political کی تشکیل ہے، اور خود جدید ریاست کی معنویت the political کی معنویت میں حصر رکھتی ہے جیسا کہ کارل شمٹ کا موقف ہے۔ اور the political کا ہر ہر تصور مکمل تشبیہی، مادی اور ثنوی ہے۔ یہاں اس امر کی یاد دہانی کرانا ضروری ہے کہ جدیدیت کا ظاہر کردہ فرد کی autonomy یا خود مختاری کا تصور اجتماع یا سیاست کے حوالے سے ساورنٹی بن جاتا ہے۔ یعنی فرد کی اخلاقی آٹونومی کا تصور ترفع پا کر ساورنٹی کے سیاسی تصور میں ظاہر ہوتا ہے۔ جدید انسان اپنی آٹونومی کو جدید ریاست کی ساورنٹی پر قربان کر کے اپنے شہری ہونے کا تحقق کرتا ہے۔ یعنی فرد کی آزادی کا تصور ”فنا فی الریاست“ میں اپنا منتہائی تحقق حاصل کرتا ہے کیونکہ جدید ’شہری‘ کا خدا یہی جدید ریاست ہے۔
ہمارے ہاں جدید ریاست کے سیاسی طور پر ساورن ہونے کا de jure تو انکار کیا گیا لیکن de facto اس کے ساورن ہونے سے مکمل طور پر آنکھیں موند لی گئیں۔ جدید ریاست کے de jure ساورن ہونے سے انکار کے باوجود یہ عملاً اور فعلاً یعنی de facto ساورن ہی رہتی ہے کیونکہ ساورنٹی جدید ریاست کی وجودیات میں داخل ہے اور یہاں de jure اور de facto کی تشقیق ممکن نہیں۔ ایسے علمی چٹکلے صرف اسی صورت ممکن ہیں جب جدید ریاست علماً اور وجوداً نامعلوم ہو۔ ہمارے ہاں ساورنٹی کے جدید سیاسی تصور کو درست علمی بنیادوں پر زیربحث ہی نہیں لایا جا سکا۔ ہمارے سیاسی علما کا خیال تھا کہ ساورنٹی ٹوپی کی طرح کی کوئی چیز ہے جو جدید ریاست نے پہنی ہوئی ہے اور اسے اتار کر جدید ریاست کو اپنے پسندیدہ رنگ کی کوئی دوسری ٹوپی پہنائی جا سکتی ہے۔ علم اور وجود سے مکمل بےخبری ہو تو ایسی خوش فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ جدید ریاست ایک وجودی مظہر ہے اور ساورنٹی اس کے وجود میں لوہے میں صلابت کی طرح داخل ہے یعنی ساورنٹی جدید ریاست میں اس طرح شامل ہے جس پانی میں تری۔ جیسے کہ میں عرض کرتا چلا آیا ہوں کہ نام نہاد فکر اسلامی ترک شریعت کی تزویرات ہیں اور ہماری سیاسی فکر پورے دین کو جدید ریاست کی تحویل میں دے کر اسے مکمل طور پر سیکولر بنانے کا داعیہ رکھتی ہے۔ فکر اسلامی اصلاً جدیدیت ہی کا مظہر ہے اور اس کا دینی عقیدے اور شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
جدید قانون کے مکمل طور پر positive ہونے کی وجہ سے اس قانون کا کسی بھی انسانی یا مذہبی قدر سے کوئی تعلق بنیاد ہی سے نہیں ہوتا، اور نہ ارادتاً قائم ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس میں اہم تر بات یہ ہے کہ سیکولر قانون قدر ہے اور نہ ہو سکتا ہے اور نہ کسی قدر کے حصول کا ذریعہ ہے۔ شریعت اقدارِ حق کا مجموعہ ہے اور انسان سے امتثال امر کے علاوہ اس کا کوئی دوسرا مطالبہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ سیکولر قانون یا وہ شریعت جو جدید ریاست میں قانونی جبڑوں کے طور پر نصب کی گئی ہو، عدل اجتماعی کی شرعی قدر کے حصول کا ذریعہ کیونکر بن سکتی ہے؟ اور جدید ریاست اور سیکولر قانون کی عملداری میں مکارم الاخلاق پر مبنی معاشرت کیونکر قائم ہو سکتی ہے کیونکہ یہ کسی بھی قدر کے وجود ہی کو قبول نہیں کرتے؟
قانون یا جدید قانون یا ریاستی قانون یا سیکولر قانون اور شریعت کی وجودیات نہ صرف مختلف ہے بلکہ متضاد ہے۔ متداول فکر اسلامی میں ان دونوں کی وجودیات ایک ہے۔ اس کا بنیادی سبب جدیدیت اور اس کی پیدا کردہ فکر و عمل کا تقریباً مکمل فقدان فہم ہے۔ شریعت کسی بھی صورت میں will of the political / politically sovereign نہیں ہے، کیونکہ اپنے ارضی ظہور میں یہ will of God ہے، یعنی امر الہی ہے، ساورن ہے اور خودمختار ہے۔ اگر شریعت ساورن نہیں ہے تو انسان سے اطاعت اور امتثال امر کا مطالبہ ہی بے معنی ہے۔ اگر خدا قادر مطلق ہے جو ہمارے اعتقاد میں یقیناً ہے تو صرف اسی کا امر اور فعل ہی ساورن ہو سکتا ہے۔ کوئی وجودِ شہودی یا مخلوقی یا ابداعی ساورنٹی سے متصف نہیں ہو سکتا۔ جدید ریاست کی ساورنٹی کا تصور سیاسی ہے، اعتقادی نہیں ہے، اور کسی سیاسی تصور کو خدا کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا ورنہ تشبیہ وارد ہو گی اور یہ شرکیہ تصور عقیدے کی جڑ کاٹ دے گا۔
شریعت کے حوالے سے دو اہم ترین پہلوؤں کو ہم نے ہمیشہ نظرانداز کیے رکھا ہے۔ یہ امر ہمارے ایمان کا جزو ہے کہ حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام خاتم النبییین ہیں، اور رحمت للعالمین ہیں۔ شریعت کی ساورن نگہداری میں عقیدۂ ختم نبوت پر نقب نہیں لگائی جا سکتی، اور یہ نقب اس وقت لگی جب فقہاء پر مشتمل قضا کا محکمہ ختم ہو گیا تھا اور علما کو فکر اسلامی کا ہوکا لگ گیا تھا جو دراصل ترکِ شریعت کی تزویرات ہیں۔ فکر اسلامی کی فضا میں ختم نبوت کی حفاظت ممکن ہی نہیں ہو سکتی۔ اور وہ کذاب ”مفکرین اسلام“ ہی میں سے تھا جس نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی رحمۃٌ للعالمینی انسانی تجربے کا عملاً اس وقت حصہ بن سکتی ہے جب شریعت ایک ساورن کے طور پر قائم ہو، اور معاشرے کے اجتماعی عمل کا سرچشمہ بھی ہو اور قیام عدل کی اساس ہو۔
جدید ریاست اور ساورنٹی
ساورنٹی نیشنلزم یا قومیت پرستی سے پیدا ہونے والا ایک سیاسی تصور ہے، مکمل طور پر تشبیہی ہے، اور اپنی تجسیم و تشکیل جدید ریاست کی صورت میں کرتا ہے۔ یہ تصور جدید ریاست کا قوامِ وجود ہے، یعنی ساورنٹی کے بغیر جدید ریاست کا وجود ہی قائم نہیں ہو سکتا۔ جدید ریاست کی ساورنٹی کوئی صوابدیدی چیز نہیں ہے کہ اس سے ہٹائی جا سکے یا داخل کی جا سکے۔ حاکمیت اعلیٰ کے طور پر ساورنٹی کوئی روحانی تصور نہیں ہے، قطعی سیاسی تصور ہے۔ حاکمیت اعلیٰ کے سیاسی تصور کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا ورنہ تشبیہ لازم آئے گی اور ارتکاب شرک وارد ہو گا۔ وہ تصورات جو موجودات، مخلوقات یا ابداعی موجودات مثلاً مشین، سسٹم وغیرہ میں وجوداً شامل ہیں وہ ہرگز اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیے جا سکتے کیونکہ شرک اور ارتکاب شرک کے یہی معنی ہیں۔ جدید ریاست ایک وجود ہے اور ایک نہایت طاقتور مؤثر کے طور پر نہ صرف تاریخ میں شامل ہے بلکہ ہم عصر تاریخ اور معاشرے کو تہہ و بالا کرنے میں بنیادی کردار جدید ریاست ہی کا رہا ہے۔ اس کی واقعیتِ وجود کا عدمِ قبول حالت انکار کو جنم دیتا ہے۔ یعنی جدید ریاست ایک ساورن وجود کے طور پر طاقتور تاریخی مؤثرات کا سرچشمہ ہے، اور سیکولر معاشروں کے اجتماعی ارادے کی سب سے بڑی ایجنسی ہے۔ جیسے دریا پانی کے بغیر نہیں ہوتا، اسی طرح جدید ریاست ساورنٹی کے بغیر تصوراً یا واقعتاً موجود نہیں ہو سکتی ہے، اور جب موجود ہو گی ساورن ہو گی۔ جس طرح کوے کا کالا ہونا علمی صوابدید پر منحصر نہیں ہوتا اسی طرح ریاست کا سیاسی طور پر ساورن ہونا علم میں صوابدیدی نہیں ہے۔ ہمارے سیاسی علما نے جدید ریاست کے ساورن ہونے کو رد کر دیا، اور ساورنٹی کے مکمل مادی اور سیاسی تصور کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیا، اور اپنے زعم میں مسئلے کا حل نکال لیا۔ لیکن اس سے پانچ مسئلے پیدا ہوئے۔ ایک یہ کہ ساورنٹی کے سیاسی تصور کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے سے مسلم عقیدے کی جڑ کٹ گئی اور ارتکابِ شرک لازم آیا۔ سیاسی تصورات اور انتظامی اختیارات کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا شرک ہے کیونکہ وہ تشبیہی ہیں۔ دوسرے یہ کہ ایمان اور عمل کے بنیادی امتیازات منہدم ہو گئے۔ تیسرے یہ کہ علم اور وجود کی باہمی نسبتوں کو جائز اور ثقہ بنیادوں پر قائم کرنا ممکن نہ رہا۔ اگر ہم علم کا آغاز ہی اس بات سے کریں کہ جدید ریاست ساورن نہیں ہوتی یعنی کوا کالا نہیں ہوتا تو امکان علم ہی کا خاتمہ ہو جاتا ہے، اور انسانی ذہن حالت انکار میں چلا جاتا ہے اور خارج از ذہن وجود سے علمی تعرض ممکن نہیں رہتا۔ چوتھے یہ کہ تاریخ اور اس کے طاقتور مؤثرات کی درست علمی تفہیم اور بذریعہ شریعت ان کے تدارک کے امکان کا خاتمہ ہو گیا۔ پانچویں یہ کہ شریعت کو مکمل طور پر جدید ریاست کی تحویل میں دینے اور پورے دین کو سیکولر بنا کر اس کے خاتمے کا راستہ ہموار ہو گیا۔
شریعت اور ساورنٹی
جدید سیاسی افکار میں یہ امر ایک مسلمے کے طور پر داخل ہے کہ جدید ریاست ساورنٹی کی حامل ہے، یعنی جدید ریاست ماورائے انسان ایک وجود ہے اور ساورن ہے۔ جدیدیت کے افکار میں عقلِ انسانی خودمختار و خود مکتفی ہے، اور عقل میں یہ صفت اس کے حامل وجود یعنی جدید انسان سے داخل ہوئی ہے۔ آزادی اور حریت کا تنویری تصور ایجنسی کے طور فرد کی آٹونومی میں ظاہر ہوا ہے اور بنیادی طور پر اخلاقی ہے۔ اجتماعی سطح پر انسانی آزادی کا تصور ایجنسی کے طور پر جدید ریاست کی ساورنٹی میں ظاہر ہوا ہے اور جو بنیادی طور پر سیاسی ہے۔ جدیدیت کی پیدا کردہ مطلق تشبیہ اور شبستان تاریخ میں اس نے ایک وجود کو ساورنٹی سے متصف قرار دیا ہے۔ مطلق تشبیہ میں ساورنٹی کا حامل وجود خدا ہی کا ایک تصور ہے اور عین یہی وہ نکتہ ہے جس کی وجہ سے ہیگل نے جدید ریاست کو زمین پر خدا کی خوش خرامی قرار دیا ہے۔ جدید ریاست خدا کی replacement صرف اسی وقت ہو سکتی ہے جب یہ ساورن بھی ہو، اور اس کی یہ صفت اس کے وجود سے منفک نہ ہو سکتی ہو۔
سوال یہ ہے کہ کیا ”دنیا“ میں کوئی ”چیز“ ساورن ہو سکتی ہے؟ دنیا اور اس میں ہر چیز مخلوق ہے اس لیے اعتقاداً اور عملاً (یعنی سیاسی طور پر) مخلوقات کے ساورن ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ غیب سے انقطاعِ مطلق اور مطلق تشبیہ کے حالات میں ہی جدید ریاست کو ساورن قرار دیا گیا ہے۔ ساورن وجود ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ self-referential ہو، اسے کسی منطق یا علم سے جواز کی حاجت نہ ہو، وہ کسی پر منحصر نہ ہو اور دوسرا ہر وجود اس پر منحصر ہو۔ جدید ریاست کے ساورن ہونے میں یہ سارے معنی داخل ہیں۔ یہاں اس امر پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے کہ جدید ریاست بطور وجود واقعتاً اور عملاً ساورن ہے، یعنی ساورنٹی اب کوئی فکر نہیں رہی بلکہ اجتماعی عمل کی ایک خاص تشکیل میں فعال تاریخی واقعہ بن چکی ہے، اور فرد معاشرے اور تاریخ کے بہاؤ میں ایک طاقتور اور فیصلہ کن عامل کے طور پر شامل ہے۔ ساورنٹی کی حامل جدید ریاست اب ایک طاقتور ترین مؤثر کے طور پر روزمرہ کا واقعہ اور تجربہ ہے۔
اس صورت حال میں ساورنٹی کے بارے میں اپنے عقیدے کے بیان یا اس کے فکری رد سے نہ صرف یہ کہ کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ عقیدے اور فکر کے باقی رہنے کا امکان بھی ختم ہو جاتا ہے۔ ہمیں اس کے بالمقابل ساورنٹی کا دینی اور قابل عمل حل دینا ہوتا ہے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ معجزہ اور شریعت دونوں ساورن ہیں، اور بالترتیب نیچر اور دنیا میں امر الہی کا ظہور ہیں۔ لہٰذا امر الہی کی حیثیت سے شریعت تاریخ اور معاشرے میں سیاسی طور پر ساورن ہے، اور صرف وہی ساورن ہو سکتی ہے کیونکہ صرف قادر مطلق کا فعل اور امر ہی ساورن ہو سکتا ہے اور کوئی مخلوق اپنے وجود اور عمل میں ساورن نہیں ہو سکتی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ہم عصر سیاسی افکار میں جدید ریاست ایک وجود کے طور پر ساورن ہے اور ہمارا ماننا ہے کہ اقدارِ حق ساورن ہیں کیونکہ ہر الوہی قدر autonomous اور ساورن ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ساورن ہونا یہاں ہرگز زیربحث نہیں ہے کیونکہ وہ اعتقادی ہے، سیاسی نہیں ہے۔ یہاں ساورنٹی بطور سیاسی تصور زیربحث ہے۔ قدر کا ساورن ہونا، اور وجود کا ساورن ہونا دو قطعی متضاد اور مختلف باتیں ہیں۔ اگر قدر ساورن ہے تو اس کا مطالبہ ہر وجود کو اپنے تابع لانا ہے، اور وجود کے ساورن ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ اقدار کا خالق ہے اور کسی ایسی قدر ہی کو قبول نہیں کر سکتا جو اس پر وارد ہوتی ہو ورنہ اس کا ساورن ہونا بےمعنی ہو گا۔ جدید ریاست ایک ساورن وجود ہونے کی حیثیت ہی سے انسانوں سے کافۃً کا تقاضا کرتی ہے، جبکہ شریعت بطور اقدار حق کافۃً کا مطالبہ رکھتی ہے۔ شریعت اور جدید ریاست کا باہمی تعلق صرف اسی تناظر میں بامعنی طور پر زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔
جدید سیاسی مباحث میں ساورنٹی کے تصور کو مرکزیت حاصل ہے، اس لیے اس پر دوٹوک بات کرنا ضروری ہے۔ ساورنٹی کا اسلامی تصور شرعی اور فقہی (juridical) ہے جبکہ افکارِ جدیدیت میں یہ مکمل طور سیاسی (polititcal) ہے۔ ساورنٹی کے اسلامی تصور کا تحقق بھی فقہی (juridical) ہے سیاسی نہیں ہے، اور یہ تحقق صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب فقہا پر مشتمل محکمۂ قضا قائم ہو اور جو جدید ریاست اور سرمائے کی قائم کردہ حرکیات سے مکمل طور پر آزاد ہو اور ان پر حکم ہو۔ ہمارے سیاسی ملاؤں کا یہ موقف چلا آتا ہے کہ شریعت اور پورے دین کو جدید ریاست کی تحویل میں دے دیا جائے اور جدید ریاست کے پیدا کردہ سیاسی جبر اور سرمایہ داری نظام کے معاشی تاراج کو شرعی جواز بھی فراہم کر دیا جائے۔
شریعت کا بنیادی ترین مطالبہ یہ ہے کہ فرد، معاشرہ اور اجتماع اس کی عملداری میں آ جائیں، اور یہ مطالبہ صرف اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جبکہ شریعت ساورن ہو، جو کہ یہ ہے۔ شریعت ریاست اور سرمائے کے نظام کو بھی اپنی تحویل میں لانے کا مطالبہ رکھتی ہے جبکہ ہماری مذہبی جماعتیں شریعت کو جدید ریاست کی تحویل میں دینے کی جدوجہد میں مصروف رہی ہیں اور اس طرح شریعت کی ساورن اور خودمختار حیثیت کو ختم کر کے اسے ریاست کا آلہ کار بنانے کا داعیہ اور مطالبہ رکھتی ہیں جو سراسر شریعت کے منافی ہے۔ گزشتہ دو سو سالہ نام نہاد فکرِ اسلامی کا یہ بنیادی موقف ہے۔ یعنی بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا شریعت جدید ریاست کی تحویل میں ہو گی یا جدید ریاست شریعت کی تحویل میں لائی جائے گی؟ جو لوگ شریعت کو سیکولر قانون کی طرح کی کوئی چیز سمجھتے ہیں وہ شریعت کو بھی ریاست کی تحویل میں دینے کی جدوجہد کرتے آئے ہیں۔ شریعت اس دنیا میں امر الہی کے طور پر ساورن ہے۔ موجودہ مشکل کا واحد حل یہ ہے شریعت کو جدید ریاست کی تحویل سے آزاد کر کے علی منہاج خلافت محکمہ قضا کا قیام عمل میں لایا جائے کیونکہ شریعت قانون کی طرح نافذ نہیں ہوتی، بلکہ شریعت ایسے قیام کو مستلزم ہے کہ فرد، معاشرہ اور سرمائے اور طاقت کا سسٹم اس کی عملداری میں آ جائے۔
خلافت، خلیفہ اور ساورنٹی
ملت اسلامیہ کا سب سے بڑا سیاسی تصور اور سیاسی ادارہ خلافت ہے اور اسے پوری مسلم تاریخ میں شرعی تائید حاصل رہی ہے۔ اس لیے یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ خلافت (اور امارت) کوئی سیاسی تصور نہیں ہے بلکہ عین شرعی تصور ہے۔ خلافت اور خلیفہ کی اصطلاحات سے ساورنٹی کا تصور نہ صرف خارج ہے بلکہ خلافت اور ساورنٹی باہم متضاد ہیں۔ نیابت ساورنٹی کی ضد ہے۔ نیابت عبدیت ہی کی ایک جہت ہے جبکہ جدید ریاست اپنے میکانکی وجود کو ساورنٹی سے متصف کر کے خدا کی replacement بن جاتی ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا۔ جدیدیت ماورائے انسان ایک وجود کو قائم کر کے اس کو ساورنٹی سے متصف قرار دیتی ہے، اور یہ وجود حسی اور بدیہی طور پر قابل فہم اور قابل رسائی نہیں ہے۔ اس وجود کی غیرجسمی تشکیلات صرف اور صرف نظری طور پر قابل رسائی اور قابل فہم ہیں جبکہ اس کے جسمی اور مادی مظاہر روزمرہ کا انسانی تجربہ ہیں۔ ہماری دینی روایت میں خلیفہ ساورن نہیں ہے، اور نہ خلافت ساورن ہے بلکہ امر الہی کے طور پر شریعت ساورن ہے۔
جدید پیداواری عمل اور جدید ریاست
جدیدیت کے دو بنیادی تہذیبی تصورات ہیں: آزادی اور ترقی۔ اور ترقی کی تہذیبی تشکیل میں پیداواری عمل کو مرکزیت حاصل ہے جبکہ آزادی اور حریت کے تصورات سیاسی اداروں، خاص طور پر جدید ریاست کے ذریعے بروئے کار لائے گئے ہیں۔ ہم عصر دنیا میں سائنسی علم کی بنیاد پر قائم ہونے والا پیداواری عمل ترقی، خوشحالی اور طاقت کا واحد سرچشمہ ہے۔ جدید دنیا میں خوشحالی اور طاقت کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ فراہم نہیں ہے۔ ہمارے ہاں گزشتہ دو سو سال میں فروغ پانے والے علوم سے پیداواری عمل کا موضوع خارج ہے۔ علی گڑھ نے بھی استعماری جدیدیت کے کلچر کو اخذ کیا اور تعلیم میں ریس گری کو فروغ دے کر ایک پوری غلامانہ تہذیب کی تشکیل کی۔ انیسویں صدی کی ساٹھ کی دہائی ہی میں جاپان کا جدیدیت سے ٹاکرا (encounter) ہوا، اور وہ میجی انقلاب کے ذریعے آقائے سرسید کے انتقال تک جاپان دنیا کے طاقتور ملکوں میں شامل ہو چکا تھا۔ ہم ابھی تک یہ بھی نہیں جان پائے کہ سائنسی علم کی بنیاد پر قائم ہونے والا صنعتی پیداواری عمل قوموں کی طاقت و قوت کا واحد مدار ہے۔ ہمارے علوم اس بابت بھی کوئی گفتگو نہیں کرتے کہ پیداواری عمل کے قیام کے لیے کون سے سماجی، ثقافتی اور سیاسی حالات ضروری ہوتے ہیں۔ صنعتی پیداواری عمل سائنسی علم، مشینی عمل اور مہارتوں (انسانی عمل) کی یکتائی سے اس وقت قائم ہوتا ہے جب سیاسی اور تعلیمی کلچر اس کا مؤید ہو۔
مغربی علوم میں پیداواری عمل ایک مستقل موضوع ہے اور ہر پہلو سے اس کا جائزہ لیا گیا ہے۔ سائنسی، فنی اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے پیداواری عمل براہِ راست جدید ریاست کی نگہداری میں فروغ پاتا ہے اور قومی سیکورٹی سے براہ راست متعلق ہونے کی وجہ سے اپنے ترقی یافتہ ترین پہلوؤں میں اسے صیغۂ راز میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن زیادہ تر پہلوؤں میں یہ پوری انسانیت کی مشترکہ میراث ہے، اور ہر معاشرہ اسے اپنی خوشحالی اور طاقت کے لیے بروئے کار لا سکتا ہے۔ پیداواری عمل کی جو بھی تعریفات متعین کی جائیں اور اس کے اثرات و نتائج کا جائزہ جس بھی پہلو سے لیا جائے، ایک بات اپنی جگہ مستقل ہے کہ یہ خوشحالی اور طاقت کا واحد سرچشمہ ہے۔ مذہب، کلچر، اقدار یا نظریے کی آڑ میں اس سے دستبردار ہونا مسلم معاشروں کے لیے ازحد مہلک ثابت ہوا ہے۔ تفہیم مغرب یا تفہیم جدیدیت کے نئے مکاتب فکر بھی صنعتی پیداواری عمل کو مسلم معاشروں کے لیے ازحد مضر خیال کرتے ہیں اور فکری طور پر اس کے خلاف صف آرا ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ پیداواری عمل کے انسانی اور سماجی مطالعات سے اس کے وہ پہلو بھی ثابت ہو چکے ہیں جو ایک مسلمان کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔ ان کو دیکھنا اور ان کا شرعی حل تجویز کرنا ضروری ہے۔
یہ امر حیرت انگیز ہے کہ گزشتہ دو سو سالہ فکرِ اسلامی میں سائنسی پیداواری عمل سرچشمۂ طاقت و خوشحالی کے طور پر خارج ہے۔ جدید ریاست کے حوالے سے بھی بہت خلط مبحث ہے۔ سیاسی اسلام اس کا والہ و شیدا ہے جبکہ فکری تجدد جدید ریاست اور مذہب میں کسی بھی قسم کی نسبتوں کے منکر ہیں۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ جدید تاریخ کے طاقتور ترین مؤثر یعنی جدید ریاست کو دین سے اس طرح منقطع کر دیا جائے۔ یہ کہنا کہ جدید ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں اصلاً مذہب ہی کا انکار ہے۔
لیکن اتنا عرض کرنا ضروری ہے کہ جدید ریاست ایک میکانکی اور ٹکنالوجیائی وجود ہے۔ یہ ماورائے انسان ایک entity یا وجود ہے جو ساورنٹی کا حامل ہے کیونکہ اگر یہ وجود نہ ہو تو ساورنٹی سے متصف کیونکر ہو سکتا ہے؟ ہمارے ہاں مذہبی اہل علم نے جدید ریاست کے ساورن ہونے سے انکار کرتے ہوئے اس کا نام نہاد حل یہ کہہ کے نکالا کہ جدید ریاست ساورن نہیں ہے بلکہ ”حاکمیت اعلیٰ“ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور اس طرح ایک جدید سیاسی تصور اور ایمانی تصور میں ایسا خلط مبحث پیدا کیا گیا جس سے نکلنے کا کوئی راستہ ابھی تک سجھائی نہیں دیتا، اور اس نے ہمارے دینی تصورِ الٰہ کو اساسی سطح پر تبدیل کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو سیاسی حاکم اعلیٰ ماننا شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کا درست جواب یہ ہے کہ امر الہی کے طور پر شریعت ساورن ہے۔
سیکولر قانون اور شریعت کی جدید ریاست سے نسبتیں قطعی مختلف اور متضاد ہیں جس کو سمجھنے میں ہمارے اہل علم فاش غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ قانون جدید ریاست کا سب سے بڑا اور مؤثر ترین آلہ ہے، اور جو مسلمان شریعت سے ادنیٰ واقفیت بھی رکھتا ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اسے ریاست کا آلہ (instrument) کسی صورت نہیں بنایا جا سکتا۔ ہماری مذہبی جماعتیں شریعت کو سیکولر قانون پر محمول کر کے ”نفاذِ قوانین اسلامی“ کی جدوجہد میں مصروف چلی آتی ہیں، اور وہ شریعت کو سسٹم اور ریاست کی میکانکی اوضاع کا آلہ بنا دینا چاہتی ہیں تاکہ جدید ریاست کے نہادِ جبر کو شرعی جواز بھی دیا جا سکے۔ یہ موقف ترک شریعت اور قطعی انسان دشمن ہے۔
ایک بہت بڑا مسئلہ یہ کھڑا ہو گیا ہے کہ جدیدیت اور تہذیب مغرب کی نادرست تفہیمات نے مسلمانوں میں بالعموم ایک ایسی منتقمانہ داخلیت (revengful subjectivity) پیدا کر دی ہے جس کی وجہ سے ہر قسم کا تاریخی معروض ان کے مدرکات سے خارج ہو گیا ہے۔ اسی بنا پر وہ جدیدیت کے پیدا کردہ سب سے بڑے دو مظاہر یعنی ریاست اور سرمایہ داری نظام کو قطعی غیر اسلامی قرار دے کر ان کے خلاف نبردآزما ہیں حالانکہ جدید عہد میں یہی دو مظاہر طاقت اور قوت کا سرچشمہ ہیں۔ اسلام مکمل ہدایت ہے تو ہمیں ان کا بھی کوئی شرعی حل سامنے لانا چاہیے، اور یہ حل ان دونوں کی درست علمی تفہیم سے مشروط ہے۔
پیداواری عمل اور شریعت
جدید پیداواری عمل غیرمعمولی طور پر نتیجہ خیز ہے اور اقوام کی خوشحالی اور طاقت کا ذریعہ ہے۔ جدید دنیا نے جو معاشی ترقی کی ہے اور ٹکنالوجی جس طرح روزمرہ زندگی کا جزو اعظم بن گئی ہے اس کے پیچھے جدید صنعتی پیداواری عمل کام کر رہا ہے۔ اس سے دستکش ہونے کا جو مطلب ہے وہ مسلمان معاشروں کی نکبت تامہ کے طور پر ظاہر ہے۔ جدید پیداواری نظام مالیاتی نظام کی اساس ہے۔ سود مالیاتی نظام کا مسئلہ ہے جسے شریعت ختم کرنے کا مطالبہ رکھتی ہے۔ لیکن خود پیداواری نظام میں ایسے مسائل ہیں جو شریعت کی روشنی میں حل ہونے چاہئیں۔ تفصیل کا موقع نہیں، مختصراً عرض ہے کہ:
(۱) پیداواری عمل اپنی شدت کی وجہ سے انسانی رشتوں کی ایک نئی تقویم پیدا کرتا ہے جس سے خاندانی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اس میں بنیادی عامل منافع ہے جو کارکن کی قیمت پر حاصل ہوتا ہے۔
(۲) سرمایہ داری نظام کی عدمِ مساوات کی نہاد پیداواری نظام میں ہے، اور یہ عدم مساوات جدید ریاست کی سرمایہ داری نظام سے ہمگامی کے بغیر ممکن نہیں۔
(۳) پیداواری نظام میں انسان ایک فیکٹر کے طور پر شامل ہوتا ہے اور بیگانگیت کا شکار ہو کر dehumanize ہو جاتا ہے۔
پیداواری نظام توقیت کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا اور اسی پہلو سے شریعت کی مداخلت ضروری ہے کہ صنعتی نظام میں کارکن سے چھ گھنٹے سے زیادہ کام نہ لیا جائے اور اس کی تنخواہ ایک فرد کے بجائے ایک کنبے کی کفالت کے لیے مکتفی ہو۔
جدید ریاست اور شریعت
جدید ریاست کے اجزا کے تحت بننے والے قوانین کے تین بڑے دائرے ہیں: (۱) سسٹم، مشین اور سیاسی ٹکنالوجیوں کے بارے میں قانون سازی؛ (۲) انسان اور اس کے اعمال و افعال کے بارے میں قانون سازی؛ (۳) سسٹم/مشین اور انسانی تعامل کے محل پر قانون سازی۔
سب سے پہلے آخری نکتے کی تفصیل ضروری ہے۔ انسان اور مشین کے تعامل کا اساسی ترین محل صنعتی پیداواری عمل ہے۔ صنعتی پیداواری عمل جدید دنیا میں معاشی خوشحالی اور سیاسی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ اسلامی اعتبار سے صنعتی پیداواری عمل کے حاصلات پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا۔ یاد رہے کہ صنعتی پیداواری عمل کا ایک ناقابل منفک جز انسان نہیں بلکہ انسان بطور resource ہے۔ مکمل طور پر مادی میکانیات پر مشتمل صنعتی پیداواری عمل خود میں متضمن انسان کے احوال اور حالات کو بہت بنیادی سطح پر تبدیل کر دیتا ہے۔ مارکس کا یہ مشاہدہ قطعی درست ہے کہ پیداواری عمل ایسے نئے انسانی رشتوں کی بنا ڈالتا ہے جو اس کے نفسی احوال اور معاشرتی حالات کو بدل دیتے ہیں۔ یعنی صنعتی پیداواری عمل انسانی وجودیات کے ساتھ ساتھ اس کی سماجی حرکیات کو بھی تبدیل کر دیتا ہے۔ سود ظلم اور اللہ اور اسکے رسول علیہ الصلوۃ و السلام کے خلاف اعلان جنگ ہے، لیکن وہ مالیاتی نظام کا مسئلہ ہے جو پیداواری نظام کی اوپری تہہ ہے۔ صنعتی پیداواری عمل تو انسان سے اس کی انسانیت ہی چھین لیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ شریعت اس کا کیا حل تجویز کرتی ہے؟ لیکن حل تو اس وقت تجویز کیا جا سکتا ہے جب مسلم ذہن صنعتی پیداواری عمل اور ذات انسانی پر مرتب ہونے والے اس کے وجودی نتائج سے کم از کم باخبر تو ہو۔