غیر مسلکی تسلط کے خلاف جہاد
ماہنامہ ’’اشراق‘‘ مارچ ۲۰۰۱ء میں استاذِ گرامی کی بعض آرا سے متعلق مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ العالی کے فرمودات اور ان کے حوالے سے ہماری معروضات شائع ہوئی ہیں۔ مولانا محترم نے استاذِ گرامی کی جن آرا پر اظہارِ خیال فرمایا ہے ان میں سے ایک جہاد کے متعلق ہمارے استاذ کی رائے ہے۔ یہ بات مولانا محترم کے فرمودات ہی سے واضح ہو گئی ہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان اس معاملے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ’’کسی قوم یا ملک کے خلاف جہاد تو بہرحال مسلمان حکومت ہی کی طرف سے ہو سکتا ہے۔‘‘ اپنی معروضات میں ہم نے مولانا محترم کے ساتھ اپنے اختلاف کو واضح کرتے ہوئے لکھا تھا:
’’اب ہمارے اور مولانا کے درمیان اختلاف صرف اسی مسئلے میں ہے کہ اگر کبھی مسلمانوں پر کوئی بیرونی قوت اس طرح سے تسلط حاصل کر لے کہ مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی اس کے آگے بالکل بے بس ہو جائے تو اس صورت میں عام مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ یہ واضح رہے کہ ایسے حالات میں مولانا ہی کی بات سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ بیرونی طاقت کے خلاف اگر مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی اپنی سلطنت کے دفاع کا انتظام کرنے کو آمادہ ہو تو اس صورت میں بھی مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی ہی کی طرف سے کی جانے والی جدوجہد ہی اس بات کی مستحق ہو گی کہ اسے جہاد قرار دیا جائے۔ مزید برآں ایسے حالات میں نظمِ اجتماعی سے ہٹ کر، جتھہ بندی کی صورت میں کی جانے والی ہر جدوجہد، غلط قرار پائے گی۔ اگرچہ ہمیں یقین ہے کہ مولانا کو ہماری اس بات سے اتفاق ہو گا، تاہم پھر بھی ہم یہ چاہیں گے کہ مولانا ہمارے اس خیال کی تصدیق یا تردید ضرور فرما دیں، تاکہ اس معاملے میں قارئین کے ذہن میں بھی کوئی شک باقی نہ رہے۔ چنانچہ ہمارے فہم کی حد تک، اب ہمارے اور مولانا کے درمیان اختلاف صرف اس صورت سے متعلق ہے جب مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی، کسی بھی وجہ سے، بیرونی طاقت کے تسلط کے خلاف جدوجہد کرنے سے قاصر ہو۔ مولانا کے نزدیک اس صورت میں مسلمانوں کو ہر حال میں اپنی سلطنت کے دفاع کی جدوجہد کرنی چاہیے، خواہ یہ جدوجہد غیر منظم جتھہ بندی ہی کی صورت میں کیوں نہ ہو۔ مزید یہ کہ اس ضمن میں جو منظم یا غیر منظم جدوجہد بھی مسلمانوں کی طرف سے کی جائے گی، وہ مولانا محترم کے نزدیک ’جہاد ‘ہی قرار پائے گی۔‘‘
ہم نے مولانا محترم کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے یہ عرض کیا تھا:
’’دین و شریعت کی رو سے جہاد و قتال کی غیر منظم جدوجہد، بالعموم، جن ہمہ گیر اخلاقی و اجتماعی خرابیوں کو جنم دیتی ہے، شریعتِ اسلامی انہیں کسی بڑی سے بڑی منفعت کے عوض بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ قرآنِ مجید اور انبیاے کرام کی معلوم تاریخ سے یہ بات بالکل واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جبر و استبداد کی قوتوں کے خلاف، خواہ یہ قوتیں اندرونی ہوں یا بیرونی، اسی صورت میں تلوار اٹھانے کا حکم اور اس کی اجازت دی، جب مسلمان اپنی ایک خودمختار ریاست قائم کر چکے تھے۔ اس سے پہلے کسی صورت میں بھی انبیاے کرام کو کسی جابرانہ تسلط کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی۔‘‘
اس کے بعد ہم نے جابرانہ تسلط کی مختلف صورتیں اور ان کے بارے میں دین و شریعت کا حکم اور اللہ کے اولوالعزم پیغمبروں کا اسوہ بیان کیا تھا۔ ہماری اس بحث کا خلاصہ اس طرح سے ہے:
۱۔ ایسا جابرانہ تسلط، جہاں محکوم قوم کو اپنے اختیار کردہ مذہب و عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہو۔
اس صورت میں جابرانہ تسلط سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کرنا ہر محکوم قوم کا حق تو بے شک ہے لیکن یہ دین کا تقاضا نہیں ہے۔ حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اسوہ سے یہی رہنمائی ملتی ہے۔
۲۔ ایسا جابرانہ تسلط، جہاں محکوم کو اپنے اختیار کردہ مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی حاصل نہ ہو۔
اس صورت میں اگر محکوم قوم کے لیے جابرانہ تسلط کے علاقے سے ہجرت کر جانے کا موقع موجود ہو تو اس کے لیے دین و شریعت کا حکم یہی ہے کہ اپنے ایمان کی سلامتی کی خاطر وہ اپنے ملک و قوم کو خیرباد کہہ دیں۔ حضرت موسٰی اور نبی اکرم کے اسوہ سے یہ رہنمائی ملتی ہے۔ اس کے برعکس، محکوم قوم کے لیے اگر ہجرت کی راہ مسدود ہو تو ان حالات میں درج ذیل دو امکانات قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں:
اولاً، محکوم قوم اپنی مدد کے لیے کسی منظم اسلامی ریاست سے مدد طلب کرے۔ قرآن مجید کے مطابق، اگر اس اسلامی ریاست کے لیے ظلم و جبر کا نشانہ بنے بغیر ان مسلمانوں کی مدد کرنی ممکن ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کی مدد کرے، الّا یہ کہ جس قوم کے خلاف اسے مدد کے لیے پکارا جا رہا ہے اس کے اور مسلمانوں کی اس ریاست کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ موجود ہو۔ (انفال ۸ : ۷۲ ، نسا ۴ : ۷۵)
ثانیاً، محکوم قوم کے لیے کسی منظم ریاست سے استمداد یا کسی منظم ریاست کے لیے اس محکوم قوم کی مدد کرنے کی راہ مسدود ہو۔ اس صورت میں محکوم قوم کے لیے اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں کا اسوہ یہی ہے کہ وہ اللہ کا فیصلہ آنے تک حالات پر صبر کریں۔ (اعراف ۷ : ۸۷)
روزنامہ ’’اوصاف‘‘ کی ۱۵ اور ۱۶ مارچ کی اشاعت میں مولانا محترم نے ہمارے استدلال کا محاکمہ کیا ہے۔ ہم مولانا محترم کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے اس طالب علم کی بات کو قابل اعتنا سمجھا اور اس میں غلطی واضح کرنے کے لیے اپنی مصروفیات سے وقت نکالا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اگر مولانا کی توجہ اسی طرح سے ہمیں نصیب رہی تو ان شاء اللہ صحیح بات پوری طرح سے نکھر کر سامنے آ جائے گی۔
اپنے پہلے مضمون میں مولانا محترم نے اپنے استدلال کی بنا فلسطین، برصغیر پاک و ہند، افغانستان اور الجزائر کی جدوجہدِ آزادی اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی ان کوششوں پر رکھی تھی جو انہوں نے تاتاریوں کے خلاف اہلِ دمشق میں جہاد کی روح پھونکنے کے لیے کیں۔ اس حوالے سے ہم نے لکھا تھا:
’’عام انسانوں کی بات بے شک مختلف ہو گی، مگر مولانا محترم جیسے اہلِ علم سے ہماری توقع یہی ہے کہ وہ اہلِ علم کے عمل سے شریعت اخذ کرنے کے بجائے، شریعت کی روشنی میں اس عمل کا جائزہ لیں۔ اگر شریعتِ اسلامی کے بنیادی ماخذوں، یعنی قرآن و سنت، میں اس عمل کی بنیاد موجود ہے تو اسے شریعت کے مطابق اور اگر ایسی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے تو بغیر کسی تردد کے اسے شریعت سے ہٹا ہوا قرار دیں۔‘‘
مولانا محترم اس بات کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’میرے نزدیک ہمارے درمیان نقطۂ نظر کے اختلاف کا نکتہ اور اصل موڑ یہی ہے۔ یہ اگر واضح ہو جائے تو باقی معاملات کا سمجھنا زیادہ مشکل نہیں رہے گا۔‘‘ (روزنامہ اوصاف ، ۱۵ مارچ ۲۰۰۱ء)
اس ضمن میں اپنے نقطۂ نظر کا خلاصہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
- ’’قرآن و سنت کے بیان کردہ قطعی اور صریح اصولوں کو ہر چیز پر فوقیت اور بالاتری حاصل ہے۔
- جو اصول اہلِ علم نے قرآن و سنت کی روشنی میں خود مستنبط کیے ہیں ان میں اصل مدار شخصیات پر ہے اور شخصیات کی باہمی ترجیحات ان کے وضع کردہ اصولوں میں بھی کارفرما ہوں گی۔
- ظنی اور استنباطی اصولوں اور سوسائٹی میں ان کے اطلاق و تطبیق کی عملی مشکلات، دونوں کو سامنے رکھ کر احکام و ضوابط طے کیے جائیں گے۔
- بعد میں پیش آنے والی ضروریات کے لیے وضع کیے جانے والے اصولوں کا مؤثر بہ ماضی اطلاق ضروری نہیں ہو گا، اور نہ ہی ماضی کے معاملات کا ان کی روشنی میں فیصلہ کیا جائے گا۔
- صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا دور چونکہ ان سب استنباطات، استدلالات اور اجتہادات سے مقدم ہے اور وہ چشمۂ نبوت سے براہِ راست فیضیاب ہوتے ہیں، اس لیے قرآن و سنت کے مفہوم و مصداق کے تعین اور بعد میں آنے والے اصولوں کے تعارض و تضاد کے حل کے لیے ان کا تعامل حتمی حجت ہے۔‘‘ (روزنامہ اوصاف، ۱۶ مارچ ۲۰۰۱ء)
مولانا محترم نے اگرچہ اسی نکتے کو ہمارے مابین نقطۂ نظر کے اختلاف کا ‘بنیادی موڑ‘ قرار دیا ہے، تاہم انہوں نے چونکہ اپنے مضمون میں، اس کے ساتھ ساتھ ہمارے استدلال پر تبصرہ اور اپنی رائے کے حق میں استدلال بھی پیش فرمایا ہے، اس وجہ سے فی الحال ہم اس نکتے سے تعرض نہیں کریں گے۔ مولانا محترم فی الواقع، اگر مذکورہ بنیاد ہی پر زیربحث رائے کو اختیار کیے ہوئے ہیں تو پھر انہیں قرآن و سنت سے ہمارے استدلال پر نہ کوئی تبصرہ کرنے کی ضرورت ہے اور نہ اپنی رائے کے حق میں کوئی دلیل پیش کرنے کی۔ اس صورت میں تو انہیں قرآن مجید اور اللہ کے پیغمبروں کی زندگیوں سے ہمارے حوالوں کے جواب میں اور اپنی رائے کی دلیل کے طور پر ’شخصیات‘ کی پیروی کی تلقین کا درس دیتے رہنے پر ہی اکتفا کرنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا کرتے، تو ہم یقیناً ’شخصیات‘ کی آرا، ان کے استنباط اور استدلال کے بارے میں مولانا محترم کے فرمودات کا تفصیلی جائزہ قارئین کے سامنے پیش کر دیتے، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس وجہ سے، فی الحال خواہ مخواہ کی طوالت اور غیر متعلق مباحث میں الجھنے کے بجائے، ہم مولانا کے ان فرمودات کا جائزہ پیش کر رہے ہیں جو مسئلہ زیر بحث سے براہِ راست تعلق رکھتے ہیں۔
مولانا محترم ہمارے پیش کردہ نکات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’انہوں نے جواب میں فرمایا ہے کہ قرآن کریم نے ان کے بقول مسلمانوں کی آبادی پر کافروں کے تسلط کی صورت میں دو ہی راستے بتائے ہیں۔ پہلا راستہ یہ کہ اگر ہجرت کا راستہ اور مقام موجود ہو تو وہ وہاں سے ہجرت کر جائیں۔ اور دوسرا یہ کہ اگر ہجرت قابل عمل نہ ہو تو صبر و شکر کر کے بیٹھے رہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے حالات کی تبدیلی کا انتظار کریں۔ انہوں نے اس سلسلہ میں سورۃ النساء، سورۃ الانفال اور سورۃ الاعراف کی بعض آیات کریمہ کا حوالہ بھی دیا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ وہ مسئلہ کی نوعیت ہی کو سرے سے نہیں سمجھ سکے۔ کیونکہ ان آیات کریمہ میں ان مسلمانوں کے لیے احکام بیان کیے گئے ہیں جو کافروں کی سوسائٹی میں مسلمان ہوگئے ہیں اور ان کے زیر اثر رہ رہے ہیں۔ ان کے لیے حکم یہ ہے کہ اگر وہ وہاں سے ہجرت کر سکتے ہیں تو نکل جائیں ورنہ صبر و حوصلہ کے کے ساتھ حالات کی تبدیلی کا انتظار کریں۔ جبکہ ہم جس صورت پر بحث کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی پر باہر سے آکر کافروں نے تسلط جما لیا ہے اور مسلمان اکثریت پر کافر اقلیت کا جبر و اقتدار قائم ہوگیا ہے اس صورت میں محترم غامدی اور ان کے تلامذہ ہی مسلم اکثریت کو یہ مشورہ دے سکتے ہیں کہ وہ اپنا علاقہ کافر غالبین کے حوالہ کر کے وہاں سے چلے جائیں یا ان کے جبر و ظلم کو خاموشی کے ساتھ برداشت کرتے جائیں۔‘‘ (روزنامہ اوصاف، ۱۶ مارچ ۲۰۰۱)
سب سے پہلے تو ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ جسے مولانا محترم نے ’’دو ہی راستے‘‘ قرار دیا ہے، وہ درحقیقت دو نہیں، بلکہ دو سے زیادہ راستے ہیں۔ یہاں ان راستوں کے ذکر کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ زیرنظر مضمون کے آغاز میں ہم اپنی بات کا خلاصہ کرتے ہوئے ان راستوں کا ذکر کر چکے ہیں، وہاں ان پر نظر ڈال لیجیے۔
دوسری بات یہ کہ مولانا محترم کی اس توضیح سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ اگر کسی غیر مسلم آبادی میں کچھ لوگ مسلمان ہو جائیں تو ان پر ان صورتوں کا اطلاق ہو گا جو ہم نے اپنے مضمون میں تفصیل کے ساتھ بیان کی ہیں۔ اب ہمارے اور مولانا کے درمیان اختلاف صرف اس صورت سے متعلق باقی رہ گیا ہے جب کسی بیرونی قوت کی طرف سے مسلمانوں پر یلغار کی گئی ہو اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی حکومت بالکل مفلوج یا ناپید ہو کر رہ جائے۔ ہم یہ بات، البتہ بالکل نہیں سمجھ پائے کہ جبر و استبداد خواہ اپنی غیر مسلم حکومت کی طرف سے ہو یا مسلمانوں کے علاقے پر حملہ آور ہو کر اس پر قبضہ کر لینے والی حکومت کی طرف سے، دونوں صورتوں میں، دینی لحاظ سے وہ کون سا فرق واقع ہوتا ہے جس کے باعث ان دونوں صورتوں کے دینی احکام میں تفاوت ہو گا۔ معاملہ اگر دینی جبر و استبداد اور ظلم و عدوان ہی کے خلاف لڑنے کا ہے تو وہ تو دونوں صورتوں میں یکساں طور پر پایا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، معاملہ اگر قومی و ملی حمیت کا ہے تو پھر اس صورتحال میں اور قبطیوں کے آل یعقوب (بنی اسرائیل) کو من حیث القوم اپنا غلام بنا لینے کی صورت میں وہ کون سا فرق ہے جس کے باعث حضرت موسٰی علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی قوم کو قبطیوں کے خلاف جہاد کی نعمتِ عظمٰی کا درس نہیں دیا؟
تیسری بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے پچھلے مضمون میں صرف سورہ نساء، سورہ اعراف، اور سورہ انفال کی آیتوں ہی کا حوالہ نہیں دیا تھا، بلکہ اللہ تعالیٰ کے بعض پیغمبروں کی سیرت سے بھی استدلال کیا تھا۔ ان پیغمبروں میں سے ایک حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام بھی تھے۔ قارئین پر یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کی بعثت کے وقت فلسطین پر رومیوں کا جابرانہ تسلط قائم تھا۔ یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ بنی اسرائیل کے لیے رومی ایک غاصب قوم ہی تھے جنہوں نے باہر سے حملہ آور ہو کر ان کی آزادی چھین لی اور انہیں من حیث القوم اپنا مطیع و فرماں بردار بنا لیا تھا۔ اس صورت حال میں حضرت مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کی بعثت ہوئی تھی۔ مگر یہ کتنی عجیب بات ہے کہ انہوں نے کسی ایک موقع پر بھی اپنی قوم میں ’جہاد‘ کی روح پھونکنے کی کوشش نہیں کی۔ یہاں قارئین کے ذہن میں یہ بات آ سکتی ہے کہ بنی اسرائیل چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کی رسالت پر ایمان ہی نہیں لائے، اس وجہ سے آپ کو رومی غاصبوں کے خلاف جہاد و قتال کی روح پھونکنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ ہمارے نزدیک، بات صرف یہی نہیں ہے کہ حضرت مسیح نے بنی اسرائیل کو اپنے غاصب حکمرانوں کے خلاف جہاد و قتال کا درس نہیں دیا، بلکہ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جب ان سے کھلے کھلے الفاظ میں ان حکمرانوں اور ان کی طرف سے بنی اسرائیل پر خراج عائد کرنے کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو آپ نے اس موقع پر بھی ایسی کوئی بات نہیں فرمائی جس میں ان غاصبوں کے خلاف تلوار اٹھانے یا ان کے خلاف بغاوت کرنے کی ترغیب پائی جاتی ہو۔ متی کی انجیل میں یہ واقعہ اس طرح سے نقل ہوا ہے:
’’اس وقت فریسیوں نے جا کر مشورہ کیا کہ اسے (یعنی مسیح علیہ السلام کو) کیونکر باتوں میں پھنسائیں۔ پس انہوں نے اپنے شاگردوں کو ہیرودیوں (یعنی حکمران کے لوگوں) کے ساتھ اس کے پاس بھیجا اور انہوں نے کہا کہ اے استاد ہم جانتے ہیں کہ تو سچا ہے اور سچائی سے خدا کی راہ کی تعلیم دیتا ہے اور کسی کی پروا نہیں کرتا کیونکہ تو کسی آدمی کا طرف دار نہیں۔ پس ہمیں بتا تو کیا سمجھتا ہے کہ قیصر کو جزیہ دینا روا ہے یا نہیں؟ یسوع نے ان کی شرارت جان کر کہا اے ریاکارو، مجھے کیوں آزماتے ہو؟ جزیہ کا سکہ مجھے دکھاؤ۔ وہ ایک دینار اس کے پاس لائے۔ اس نے ان سے کہا یہ صورت اور نام کس کا ہے؟ انہوں نے اس سے کہا قیصر کا۔ اس پر اس نے ان سے کہا پس جو قیصر کا ہے، قیصر کو اور جو خدا کا ہے، خدا کو ادا کرو۔‘‘ (متی باب ۲۲ ، ۱۵ ۔ ۲۲)
حضرت مسیح علیہ السلام کے جواب پر غور کیجیے تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ اس جواب کی اصل روح یہ ہے کہ جب حکومت قیصر کی قائم ہے اور جب سکہ اسی کے نام کا چلتا ہے تو پھر خراج بھی اسی کو ادا کرنا ہو گا۔ ظاہر ہے کہ غاصب قوم کے خلاف تلوار اٹھانا اگر ’جہاد‘ ہوتا تو حضرت مسیح علیہ السلام، کم از کم اسی موقع پر اللہ کے دین کا یہ تقاضا ضرور بیان فرما دیتے۔
ہمیں مولانا کی اس بات سے پوری طرح اتفاق ہے کہ نساء، اعراف اور انفال کی وہ آیتیں جن کا ہم نے اپنے مضمون میں حوالہ دیا ہے، ان کا تعلق اصلاً اسی صورت حال سے ہے جب کافروں کی کسی بستی میں کچھ لوگ اسلام قبول کر لیں اور اس کے نتیجے میں انہیں حکمرانوں کی طرف سے جبر و استبداد کا نشانہ بنایا جا رہا ہو اور ان پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جا رہے ہوں۔ مگر ہمارے نزدیک، یہ صورت حال دینی و اخلاقی لحاظ سے اس سے کچھ مختلف نہیں ہے کہ جہاں کوئی غیر مسلم قوم کسی مسلمان بستی پر قابض ہو گئی اور اس کو اپنے مظالم کا نشانہ بنا رہی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے مضمون میں ان آیات کو بنائے استدلال بنایا ہے۔ مزید یہ کہ حضرت موسٰی اور حضرت مسیح علیہما السلام کے حالات و واقعات سے بھی غیر قوم کے استیلا کے حوالے سے دین و شریعت کے جو احکام مستنبط ہوتے ہیں وہ ہماری محولہ آیات کے عین مطابق ہیں۔
اس کے بعد مولانا محترم فرماتے ہیں:
’’ہمیں تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس سے برعکس رہنمائی ملتی ہے۔
یمن کا علاقہ جناب نبی اکرمؐ کے دور میں مسلم مملکت میں شامل ہوگیا تھا اور شہر بن باذانؓ کو رسول اللہؐ نے اپنی طرف سے وہاں کا گورنر مقرر کر دیا تھا۔ ان کے علاوہ یمن کے مختلف علاقوں میں حضرت علیؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ، اور دوسرے عمال کا تقرر کیا تھا۔ مگر اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کر کے صنعا پر چڑھائی کی اور شہر بن باذانؓ کو قتل کر کے یمن کے دارالحکومت پر قبضہ کر لیا۔ مقتول گورنر کی بیوی کو زبردست اپنے حرم میں داخل کیا، یمن کے مختلف علاقوں سے جناب نبی اکرمؐ کے مقرر کردہ عاملوں کو نکال دیا، اور اس طرح یمن کا صوبہ اسلامی حکومت سے نکل کر کافروں کے قبضے میں چلا گیا۔ اس پر تین حضرات حضرت فیروز دیلمیؓ، حضرت قیس بن مکشوحؓ، اور حضرت دادویہؓ نے باہمی مشورہ کر کے گوریلا طرز جنگ پر شبخون مارنے کا پروگرام بنایا۔ مقتول مسلمان گورنر شہر بن باذانؓ کی بیوی سے جو اسود عنسی نے زبردستی اپنے حرم میں داخل کر رکھی تھی، ان تینوں حضرات نے رابطہ کر کے ساز باز کی جس کے تحت اس نے رات کو اسود عنسی کو بہت زیادہ شراب پلا دی، ان حضرات نے محل کی دیوار میں نقب لگا کر اندر داخل ہونے کا راستہ نکالا اور رات کی تاریکی میں اسود عنسی اور اس کے پہرہ داروں کو قتل کر کے اس کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ یہ گوریلا کاروائی تھی اور مسلح کاروائی تھی۔ اس میں معز امجد صاحب کو یقیناً کچھ اخلاقی خرابیاں نظر آرہی ہوں گی اور بلا ضرورت قتل و غارت بھی دکھائی دیتی ہوگی۔ لیکن عملاً یہ سب کچھ ہوا جس کے نتیجہ میں یمن پر مسلمانوں کا اقتدار دوبارہ بحال ہوا ۔ اور جناب نبی اکرمؐ کو جب ان کے وصال سے صرف دو روز قبل وحی کے ذریعہ اس کارروائی کی خبر ملی تو آپؐ نے اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے صحابہ کرامؓ کو یہ خوشخبری سنائی فاز فیروز کہ فیروز اپنے مشن میں کامیاب ہوگیا ہے۔ اس کے بعد حضرت فیروز دیلمیؓ جب اس کامیابی کی خبر لے کر یمن سے مدینہ منورہ پہنچے تو جناب نبی اکرمؐ کا انتقال ہو چکا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی رپورٹ خلیفۂ اول حضرت صدیق اکبرؓ کو پیش کی اور انہوں نے اس پر اطمینان اور مسرت کا اظہار فرمایا۔ اس لیے محترم معز امجد صاحب سے عرض ہے کہ جن آیات کریمہ سے انہوں نے استدلال کیا ہے ان کا مصداق یہ نہیں ہے بلکہ اس کی عملی شکل وہی یمن والی ہے کہ جب کسی مسلمان ملک پر کافروں کا تسلط قائم ہو تو مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس تسلط سے نجات حاصل کرنے کے لیے جو صورت بھی اس وقت کے حالات کی روشنی میں اختیار کر سکیں اس سے گریز نہ کریں۔ اور وہ کافر و ظالم قوت کے جابرانہ تسلط کے خلاف مزاحمت کی جو صورت بھی اختیار کریں گے وہ حضرت فیروز دیلمیؓ کی اس گوریلا کاروائی اور شبخون کی طرح جہاد ہی کہلائے گی۔ (روزنامہ اوصاف، ۱۶ مارچ ۲۰۰۲)
یہ اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ واقعہ بعینہ اسی طرح سے ہوا جیسا کہ مولانا محترم نے بیان فرمایا ہے، تب بھی یہ جابر و غاصب قوم کے خلاف گروہ بندی اور جتھا بندی کر کے ’جہاد‘ کرنے کا واقعہ نہیں، بلکہ ایک غاصب حکمران کے قتل کا واقعہ ہے۔ گروہ بندی اور جتھابندی کر کے جہاد کرنا اور کسی (اچھے یا برے) حکمران کے قتل کی سازش کرنا دو بالکل الگ معاملات ہیں۔ ایک صورت ان ہمہ گیر اخلاقی خرابیوں کا باعث بنتی ہے جن کی طرف ہم نے اپنے پچھلے مضمون میں اشارہ کیا تھا، جبکہ دوسری صورت میں وہ مسائل پیدا ہی نہیں ہوتے۔ معاملہ یوں نہیں ہوا کہ ان تین مذکورہ لوگوں نے صنعاء اور یمن کے مسلمانوں کو غاصب قوم کے خلاف منظم کرنے کی جدوجہد کی ہو، بلکہ جیسا کہ مولانا محترم نے بیان فرمایا، معاملہ تو یوں ہے کہ ان تینوں حضرات نے غاصب حکمران کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ قتل کے کسی منصوبے کا آخر جہاد سے کیا تعلق ہے؟
مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ اس طرح سے رونما ہوا ہی نہیں جیسا کہ مولانا نے بیان فرمایا ہے۔ مثال کے طور پر، ’’اصابہ‘‘ کے مطابق:
بعث النبی الی جشیش و الی دادویہ والی فیروز الدیلمی یامرھم بمحاربۃ الاسود العنسی (ج ۱ ص ۵۳۵)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جشیش، دادویہ اور فیروز دیلمی کو ایک پیغام بھیجا جس میں آپ نے انہیں اسود عنسی کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیا۔‘‘
تاریخ کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ساری کارروائی ایک صوبے میں بغاوت کا قلع قمع کرنے کے لیے ایک منظم ریاست ہی کی طرف سے کی گئی تھی، اس صورت میں یہی کہا جائے گا کہ اسلامی حکومت نے اپنے تین ایجنٹوں کے ذریعے سے ایک صوبے میں رونما ہونے والی بغاوت کا خاتمہ کرایا۔
ابن کثیر رحمہ اللہ نے یہ واقعہ بڑی تفصیل سے نقل کیا ہے، ان کے بیان کے چند اہم نکات حسبِ ذیل ہیں:
- اسود عنسی نے نبوت کا دعوٰی کر کے اپنے سات سو ساتھیوں کے ساتھ مسلمانوں کی ریاست کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔ سب سے پہلے اس نے نجران پر قبضہ کیا اس کے بعد صنعاء کا قصد کیا اور وہاں کے عامل شہر بن باذام کو قتل کر کے اس پر بھی اپنی حکومت قائم کر لی۔ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ جو اس وقت یمن ہی میں تھے، وہاں سے نکل گئے۔ راستے میں وہ ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ سے ملے اور وہ دونوں حضرموت کی طرف چلے گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمال طاہر تک پسپا ہو گئے اور ان میں سے عمر بن حرام اور خالد بن سعید بن عاص مدینہ لوٹ آئے۔
- اسود عنسی کی حکومت پوری طرح سے مستحکم ہو گئی۔ اس وقت اس کی فوج میں سات سو گھڑسوار شامل تھے۔ اس کی فوج کے امرا کے نام یہ ہیں: قیس بن عبد یغوث (یہ قیس بن مکشوح ہی ہیں)، معاویہ بن قیس، یزید بن محرم بن حصن حارثی اور یزید بن افکل ازدی۔
- اسود کی حکومت کے زور پکڑنے کے ساتھ بڑی تعداد میں لوگ مرتد ہونے لگے۔ ان مرتدین میں، بظاہر مسلمان عمال بھی شامل تھے۔
- اس نے قیس بن عبد یغوث کو اپنا امیر الجند اور فیروز دیلمی اور دادویہ کو ابنا کے معاملے کا ذمہ دار بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے شہر بن باذام کی بیوہ سے، جس کا نام زاذ تھا اور جو فیروز دیلمی کی چچازاد تھی، شادی کر لی۔ زاذ حسین و جمیل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مومن و صالح عورت تھی۔
- جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسود عنسی کی بغاوت کی خبر ملی تو آپؐ نے وبر بن یحنس دیلمی کے ذریعے سے ان مسلمانوں کو اسود عنسی کے خلاف جنگ کرنے اور اس پر حملہ کرنے کا حکم دیا جو وہاں موجود تھے۔
- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی تعمیل کے لیے پوری طرح سے کمربستہ ہو گئے۔ سکون کے لوگ جو معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے سسرالی رشتے دار تھے، ان کے ساتھ شامل ہو گئے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم ان تمام عمال اور مسلمانوں تک پہنچا دیا جن تک پہنچنا ان کے لیے ممکن تھا۔
- مسلمانوں کے اجتماع نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یہ کام قیس بن عبد یغوث کے ذریعے سے کرایا جائے کیونکہ اسے اسود عنسی پر بہت غصہ تھا اور وہ اسے حقیر جانتا اور اس کے قتل کا ارادہ رکھتا تھا۔ یہی معاملہ فیروز دیلمی اور دادویہ کا بھی تھا۔
- چنانچہ جب وبر بن یحنس نے قیس کو اس اسکیم کی خبر دی تو اس کے لیے یہ ایسا ہی تھا گویا اسے آسمان سے ایک موقع مل گیا ہو اور اس طرح انہوں نے اسود عنسی کے قتل کی اسکیم بنائی۔ اس کے بعد قیس نے دادویہ اور فیروز دیلمی کو اپنی اس اسکیم میں شامل کیا۔ بالآخر، ان تینوں حضرات نے اسود عنسی کی بیوی کے ساتھ مل کر اسود کے قتل کے منصوبہ کو روبہ عمل کیا۔
ان نکات سے جو باتیں بالکل واضح طور پر سامنے آ جاتی ہیں، وہ یہ ہیں:
- اسود عنسی کے خلاف اس کے محکوم و مظلوم عوام نے کوئی کارروائی نہیں کی، بلکہ وہ بے چارے تو اس کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر مرتد ہونا شروع ہو گئے تھے۔
- یہ پوری کارروائی اصلاً مسلمانوں کی منظم ریاست ہی کی طرف سے اپنے ایک صوبے میں ہونے والی بغاوت کے قلع قمع کے لیے کی گئی تھی۔
- اس کارروائی کا عملی ظہور اسود عنسی کے اپنے گروہ میں پھوٹ پڑنے اور اس کے اپنے ہی عمال کی طرف سے اس کے قتل کا کامیاب منصوبہ بنانے کی صورت میں ہوا۔
اب قارئین خود ہی اس بات کا فیصلہ فرمائیں کہ اس کارروائی سے مولانا محترم نے جو استدلال کیا وہ صحیح ہے یا غلط۔
زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکس کا جواز
جہاد کے علاوہ مولانا محترم نے ہمارے استاذ کی اس رائے پر بھی اظہار خیال فرمایا تھا کہ
’’زکوٰۃ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ٹیکسیشن کو ممنوع قرار دے کر حکمرانوں سے ظلم کا ہتھیار چھین لیا ہے۔‘‘
مولانا محترم نے اپنے مضمون میں اس رائے کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا:
’’لیکن کیا کسی ضرورت کے موقع پر (زکوٰۃ کے علاوہ) اور کوئی ٹیکس لگانے کی شرعاً ممانعت ہے؟ اس میں ہمیں اشکال ہے۔ اگر غامدی صاحب محترم اللہ تعالیٰ کی طرف سے زکوٰۃ کے بعد کسی اور ٹیکسیشن کی ممانعت پر کوئی دلیل پیش فرما دیں تو ان کی مہربانی ہو گی اور اس باب میں ہماری معلومات میں اضافہ ہو جائے گا۔‘‘
اس کے جواب میں ہم نے اپنی معروضات میں اپنے استاذ کی رائے، انہی کے الفاظ میں، مولانا کی خدمت میں پیش کر دی تھی۔
روزنامہ ’’اوصاف‘‘ کی ۱۷ مارچ کی اشاعت میں مولانا محترم نے استاذ گرامی کی اس رائے پر اظہار خیال فرمایا ہے۔ وہ، اب تک کے تبادلۂ خیالات کا خلاصہ اور استاذ گرامی کے استدلال پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’زکوٰۃ کے بارے میں جناب جاوید غامدی نے فرمایا تھا کہ اسلامی مملکت میں اجتماعی معیشت کے نظام کو چلانے کے لیے زکوٰۃ ہی کا نظام کافی ہے اس کے علاوہ اسلام نے حکومت کو اور کوئی ٹیکس لگانے کی اجازت نہیں دی۔ اس پر میں نے عرض کیا تھا کہ یہ درست ہے کہ اگر زکوٰۃ اور دیگر شرعی واجبات کا نظام صحیح طور پر قائم ہو جائے تو معاشرہ کی اجتماعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اور کوئی ٹیکس لگانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ اور یہ بھی درست ہے کہ ٹیکسوں کا مروجہ نظام سراسر ظالمانہ ہے جس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی وقت قومی ضروریات زکوٰۃ اور بیت المال کی دیگر شرعی مدات سے پوری نہ ہوں تو کیا حکومت وقتی ضرورت کے لیے کوئی اور ٹیکس جائز حد تک لگانے کی مجاز ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں ممانعت کی کوئی دلیل ہمارے سامنے نہیں ہے۔ اگر کوئی دلیل غامدی صاحب کے پاس موجود ہو تو وہ رہنمائی فرمائیں۔
اس کے جواب میں معز امجد صاحب نے قرآن کریم کی بعض آیات اور جناب نبی اکرمؐ کے بعض ارشادات سے استدلال کیا ہے مگر یہ استدلال ان کے موقف کی تائید نہیں کرتا۔ مثلاً انہوں نے سورۃ التوبہ کی آیت ۵ کا حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر وہ توبہ کرلیں، نماز کا اہتمام کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں تو ’فخلوا سبیلہم‘ ان کی راہ چھوڑ دو۔ یہاں ان کی راہ چھوڑ دو سے انہوں نے استدلال کیا ہے کہ ان سے اور کوئی مالی تقاضہ کرنا درست نہیں ہوگا۔ مگر اس کی وضاحت میں مسلم شریف کی جو روایت انہوں نے پیش کی ہے اس میں جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک لڑنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور میری رسالت کی شہادت دے دیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ اور جب وہ ایسا کریں تو ان کی جانیں اور ان کے اموال مجھ سے محفوظ ہو جائیں گے۔ یہاں اموال کے محفوظ ہو جانے کا مفہوم معز امجد صاحب نے یہ بیان کیا ہے کہ ان سے مزید کوئی مالی تقاضہ نہیں ہو سکے گا۔ اگر ان کے بیان کردہ مفہوم کو صحیح سمجھ لیا جائے تو بھی اس روایت میں ’الا بحقھا‘ کی استثناء موجود ہے جو خود انہوں نے بھی نقل کی ہے۔ جس سے یہ بات متعین ہو جاتی ہے کہ اسلام کے حقوق کے حوالہ سے زکوٰۃ کے علاوہ بھی مال کا تقاضہ مسلمانوں سے کیا جا سکتا ہے۔‘‘ (اوصاف ، ۱۷ مارچ ۲۰۰۱ء)
مولانا محترم کی اس بات کا خلاصہ یہ ہے کہ روایت کے آخر میں ’’الا بحقھا‘‘ کے الفاظ نے وہ استثنا پیدا کر دیا ہے جس کی بنیاد پر اب حکومت روایت میں مذکور مطالبات کے پورا کر دینے کے باوجود بھی اپنے مسلمان شہریوں پر مزید ذمہ داریاں عائد کر سکتی ہے۔ مولانا محترم کی اس بات کا جائزہ لینے سے پہلے ہم یہ چاہتے ہیں کہ قارئین کے سامنے سورہ توبہ کی محولہ آیت کا موقع و محل اور اس میں پایا جانے والا زور پوری طرح سے واضح کر دیں اور پھر اس آیت کے حکم کی روشنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی مذکورہ روایت کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ اس سے وہ بات کس حد تک نکلتی ہے جو مولانا محترم نے اس سے نکالی ہے۔
سورہ توبہ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے اتمامِ حجت کے بعد، جزیرہ نماے عرب سے مشرکین کے خاتمے کا حکم نازل ہوا ہے۔ اسی حکم میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات واضح فرما دی گئی کہ اب ان مشرکین کو زندگی کی مہلت صرف اسی صورت میں حاصل رہے گی کہ اگر وہ اپنے شرک سے توبہ کر کے اسلام کے دائرے میں داخل ہو جائیں۔ سورہ کی آیت ۵ میں ان مشرکین کی جان بخشی کی شرائط بیان ہوئی ہیں۔ ان میں اسلام کے خلاف عقائد سے توبہ کرنے، نماز کا اہتمام کرنے اور ریاست کے بیت المال کو زکوٰۃ ادا کرنے کی شرائط شامل ہیں۔ اس کے بعد مسلمان ریاست کو یہ حکم دیا ہے کہ ان لوگوں کی طرف سے اگر یہ تقاضے پورے کر دیے جائیں، تو پھر ان کی راہ چھوڑ دو۔ بالفاظِ دیگر اس آیت میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اتمامِ حجت کے بعد اب اس سرزمین پر آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا حق صرف انہی کا ہے جو اس پیغمبر پر ایمان لے آئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس آیت نے یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ وہ کون کون سے مطالبات ہیں جو ایک شخص کو مومن و مسلم سمجھنے کے لیے ریاست ان سے کر سکتی ہے۔ ہمارے نزدیک ’فخلوا سبیلھم‘ کا پورا زور سمجھنے کے لیے یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اس آیت میں مسلمان ریاست کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو مسلمانوں کے حقوق دینے کے لیے ان سے کون کون سے مطالبات کر سکتی ہے۔ اس صورت میں مولانا محترم ہی ہمیں سمجھائیں کہ ’فخلوا سبیلھم‘ کے معنی اس کے سوا اور کیا ہو سکتے ہیں کہ مذکورہ مطالبات کو پورا کر دینے کے بعد، ان کے اوپر اور کوئی ذمہ داری نہ ڈالو، ان پر مزید کوئی بوجھ نہ ڈالو اور انہیں وہ تمام حقوق دینے کے لیے جو ایک اسلامی ریاست کے شہری کی حیثیت سے انہیں حاصل ہونے چاہئیں، ان سے مزید کوئی تقاضا نہ کرو۔ اس حکم کی موجودگی میں نہ صرف یہ کہ ایک اسلامی ریاست کے لیے اپنے مسلمان شہریوں پر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور ٹیکس عائد کرنے کا اختیار ختم ہو جاتا ہے، بلکہ قانونی و اخلاقی منکرات سے اجتناب کو چھوڑ کر، ان پر کسی بھی قسم کی کوئی مزید قانونی ذمہ داری عائد کرنے کی راہ بھی مسدود ہو جاتی ہے۔
آیت کا یہ مفہوم بالکل واضح ہے۔ مولانا محترم کے نزدیک، مذکورہ آیت کے اگر وہ معنی نہیں ہیں جو ہم نے بیان کیے ہیں تو ہماری گزارش ہے کہ وہ مہربانی فرما کر آیت کے الفاظ اور اس کے سیاق و سباق کی روشنی میں ہماری غلطی ہم پر واضح فرما دیں۔
اس آیت کی روشنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی مذکورہ روایت کو اگر دیکھا جائے تو ظاہر ہے کہ اس کے وہ معنی کسی طرح بھی نہیں ہو سکتے جو مولانا محترم نے بیان فرمائے ہیں۔ اس صورت میں روایت میں جو بات بیان ہوئی ہے، وہ قرآنِ مجید کے خلاف قرار پائے گی اور اس وجہ سے، اس روایت کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نسبت کے بارے میں شبہ پیدا ہو جائے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ تو کسی طرح بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآنِ مجید کے واضح حکم کے خلاف کوئی بات ارشاد فرمائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ روایت میں ’الا بحقھا‘ کے الفاظ میں جو استثنا بیان ہوا ہے، اس کے وہ معنی ہی نہیں ہیں جو مولانا محترم نے بیان فرمائے ہیں۔ ’الا بحقھا‘ کے معنی اگر وہ ہیں جو مولانا محترم نے بیان فرمائے ہیں تو اس سے نہ صرف یہ روایت قرآن مجید کے واضح حکم کے خلاف قرار پاتی ہے، بلکہ خود اس روایت میں بھی جو بات بیان ہوئی ہے، وہ بھی بالکل بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس پوری روایت پر ایک مرتبہ پھر سے نظر ڈال لیجیے۔ اس روایت کے مطابق، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
امرت ان اقاتل الناس حتی یشھدوا ان لا الٰہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ ویقیموا الصلٰوۃ ویؤتوا الزکوٰۃ فاذا فعلوا عصموا منی دمائھم واموالھم الا بحقھا وحسابھم علی اللہ۔ (مسلم، کتاب الایمان)
’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ وہ یہ شرائط پوری کر دیں تو ان کی جانیں اور ان کے اموال مجھ سے محفوظ ہو جائیں گے، الا یہ کہ وہ ان سے متعلق کسی حق کے تحت اس سے محروم کر دیے جائیں۔ رہا ان کا حساب تو وہ اللہ کے ذمے ہے۔‘‘
غور کیجئے ’الا بحقھا‘ کے معنی فی الواقع وہی ہوں جو مولانا محترم بیان فرما رہے ہیں تو اس کے نتیجے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی جان و مال کو جو اپنی امان دی ہے، وہ بالکل ہی بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔ اس صورت میں پوری بات کچھ یوں ہو جائے گی کہ ’’لوگوں کی جان و مال کی حرمت اس وقت تک کے لیے ختم ہو گئی ہے، جب تک وہ اللہ کی وحدانیت اور میری رسالت کا اقرار نہ کر لیں اور نماز کا اہتمام اور زکوٰۃ ادا نہ کریں۔ جب وہ ایسا کریں گے تو پھر ان کے جان و مال مجھ سے مامون ہو جائیں گے، الا یہ کہ ان پر کوئی خراج عائد کروں (یا کسی مقصد سے ان کی جان لینے کا فیصلہ کروں)۔‘‘
ظاہر ہے کہ ’الا بحقھا‘ کے استثنا کے اگر یہ معنی ہیں، جیسا کہ مولانا محترم نے بیان فرمایا ہے تو اس کے نتیجے میں لوگوں کی جان و مال کو ایمان لانے، نماز و زکوٰۃ ادا کرنے کے باوجود بھی کوئی امان حاصل نہیں ہوتی۔ یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ عربیت کی رو سے ’الا بحقھا‘ میں جو استثنا بیان ہوا ہے، اس میں صرف مال کی حرمت کا استثنا نہیں، بلکہ جان کی حرمت کا استثنا بھی شامل ہے۔ چنانچہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح شریعت ہی کا کوئی حق قائم ہوئے بغیر ریاست اپنے کسی شہری کی جان نہیں لے سکتی، بالکل اسی طرح شریعت ہی کا کوئی حق قائم ہوئے بغیر، وہ اپنے کسی شہری کے مال کی حرمت کو بھی پامال نہیں کر سکتی۔ یہی وہ بات ہے جو زیرغور روایت میں بیان ہوئی ہے۔ ’الا بحقھا‘ کے معنی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ’’سوائے اس صورت میں کہ (شریعت ہی کے) کسی حق کے تحت وہ ان (یعنی جان و مال) سے محروم کر دیے جائیں‘‘۔
ابو طیب ’’عون المعبود‘‘ میں لکھتے ہیں:
الا بحقھا ای الدماء والاموال، الباء بمعنی عن۔ یعنی ھی معصومۃ الا عن حق اللہ۔ (باب علی ما یقاتل المشرکون، ج ۷ ص ۲۱۶)
’’’الابحقھا‘ سے مراد جان اور مال پر حق کا قائم ہونا ہے۔ یہاں ’باء‘ ، ’عن‘ کے معنی میں ہے۔ یعنی یہ دونوں مامون ہیں سوائے اس کے کہ ان پر اللہ ہی کا (بیان کردہ) کوئی حق قائم ہو جائے۔‘‘
عبد الرحمٰن مبارک پوری رحمہ اللہ ’’سنن ترمذی‘‘ کی شرح ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ
’’اسلام میں داخل ہو جانے اور نماز کے قائم اور زکوٰۃ ادا کر دینے کے بعد لوگوں کا خون بہانا اور ان کے اموال کو کسی بھی سبب سے مباح کرنا ناجائز ہے، سوائے اس کے اسلام ہی کا کوئی حق ان کے جان و مال پر قائم ہو جائے۔ مثال کے طور پر، قصاص کے قانون کے تحت کسی کی جان لینا یا کسی سے غصب شدہ مال واپس لینا۔‘‘
یہی بات مناوی رحمہ اللہ نے ’’فیض القدیر‘‘ میں بھی لکھی ہے:
اسی طرح ابو الفرج حنبلی اپنی کتاب ’’جامع العلوم والحکم‘‘ میں ’الابحقھا‘ کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ومن حقھا الا متناع عن الصلاۃ والزکاۃ بعد الدخول فی الاسلام کما فھمہ الصحابۃ رضی اللہ عنھم۔ (ج ۱ ص ۸۵)
’’اور وہ حقوق جو ان پر قائم ہوتے ہیں، ان میں اسلام لانے کے بعد نماز اور زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار ہے، جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے فہم سے واضح ہے۔‘‘
اس ساری تفصیل سے یہ بات پوری طرح سے واضح ہو جاتی ہے ’الابحقھا‘ کے وہ معنی کسی طرح بھی نہیں لیے جا سکتے جو مولانا محترم بیان فرما رہے ہیں۔
اس کے بعد مولانا محترم لکھتے ہیں:
’’پھر انہوں نے ابن ماجہ کی یہ روایت پیش کی ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مال میں زکوٰۃ کے سوا کوئی حق عائد نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی ترمذی کے حوالے سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی نقل کر دیا ہے کہ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق موجود ہے۔ اس لیے میرے خیال میں یہ آیات اور روایات غامدی صاحب کے موقف کے بجائے ہمارے موقف کی تائید کرتی ہیں کہ ضرورت پڑنے پر زکوٰۃ کے علاوہ مزید ٹیکس بھی اسلامی حکومت کی طرف سے عائد کیا جا سکتا ہے۔‘‘ (اوصاف، ۱۷ مارچ ۲۰۰۱ء)
مولانا محترم کی یہ بات پڑھ کر ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے ہماری معروضات کو اپنی توجہ کے لائق نہیں سمجھا۔ ہم نے اپنے مضمون میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی یہ دو بظاہر متناقض فرمان ہی نقل نہیں کیے، بلکہ ان کے باہمی تناقض کو حل کرنے کے لیے ان کا الگ الگ محل بھی واضح کیا ہے۔ یہ تو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ان روایتوں کو ہم نے جس محل میں سمجھا ہے، وہ ہو سکتا ہے کہ مولانا محترم کی نظر میں درست نہ ہو، لیکن معاملہ اگر فی الواقع یہی ہے تو پھر مولانا سے ہماری گزارش ہے کہ وہ، کم از کم ان دونوں روایتوں کا صحیح محل ہی واضح فرما دیں جس سے ان کے باہمی تناقض کو حل کرنے کی کوئی راہ کھل جائے۔ اس وضاحت کے بغیر، مولانا محترم اگر محض یہ کہہ کر آگے بڑھ جانا چاہتے ہیں کہ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مال میں زکوٰۃ کے سوا کوئی حق عائد نہیں ہے، لیکن ساتھ ہی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل ہے کہ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق موجود ہے‘‘۔ تو پھر یقیناً قارئین کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ کیا مولانا محترم اس بات کے قائل ہیں کہ مختلف موقعوں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہم متناقض تعلیمات ارشاد فرماتے تھے، ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ان دونوں ارشادات کے محل بالکل الگ الگ ہیں۔ ایک میں آپ نے حکومت کے حوالے سے یہ فرمایا ہے کہ مسلمانوں کے اموال میں زکوٰۃ کے بعد حکومت کا کوئی اور حق قائم نہیں ہوتا، جبکہ دوسری روایت میں آپؐ نے قرابت مندوں، غرباء، مساکین اور معاشرے کے اہل حاجت کے حوالے سے یہ فرمایا ہے کہ زکوٰۃ ادا کر دینے کے بعد بھی مسلمانوں کے اموال میں ان لوگوں کی مالی امداد کرنے کا حق قائم ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر، حکومت تو اگرچہ زکوٰۃ کے علاوہ مسلمانوں سے جبری طور پر کچھ وصول کرنے کا حق نہیں رکھتی، تاہم مسلمانوں پر اجتماعی و انفرادی ضروریات کے لیے خرچ کرنے کی ذمہ داری اس کے بعد بھی قائم ہوتی ہے۔ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’فتح الباری‘‘ میں اس سے ملتی جلتی بات اس طرح سے واضح کی ہے:
وفیہ ان فی المال حقا سوی الزکاۃ واجاب العلماء عنہ بجوابین: احدھما ان ھذا الوعید کان قبل فرض الزکاۃ و یؤیدہ ما سیاتی من حدیث بن عمر فی الکنز ولکن یعکر علیہ ان فرض الزکاۃ متقدم علی اسلام ابی ھریرۃ کما تقدم تقریرہ۔ ثانی الاجوبۃ ان المراد بالحق القدر الزائد علی الواجب ولا عقاب یترکہ وانما ذکر استطرادا لما ذکر حقھا بین الکمال فیہ وان کان لہ اصل یزول الذم یفعلہ وھو الزکاۃ۔ (ج ۳ ص ۲۶۹)
’’اور اس میں یہ بھی ہے کہ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق قائم ہوتا ہے۔ علما نے اس (باہمی تناقض) کے دو طرح سے جواب دیے ہیں: ایک یہ کہ یہ بات زکوٰۃ کی فرضیت سے پہلے فرمائی گئی ہو گی۔ کنز کے بارے میں ابن عمر کی روایت جس کا ہم آگے چل کر ذکر کریں گے، اس توجیہ کی تائید کرتی ہے، مگر اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ زکوٰۃ کی فرضیت حضرت ابوہریرہ کے اسلام لانے سے پہلے ہو چکی تھی، جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس میں ’حق‘ سے مراد وہ اضافی مقدار ہے جو زکوٰۃ واجب کے ادا کر دینے کے بعد دی جائے جس کے نہ ادا کرنے پر کوئی مواخذہ نہ ہو۔ اس کا ذکر اس معاملے میں درجۂ کمال کی تعلیم کے حوالے سے کیا گیا ہے، اگرچہ وہ ادائیگی جس کے بعد حقِ واجب مکمل طور پر پورا ہو جاتا ہے، وہ زکوٰۃ ہی ہے۔‘‘
جیسا کہ ہم واضح کر چکے ہیں، اس ’اضافی حق‘ کی مثال وہ خرچ ہے جو کوئی شخص کسی اجتماعی یا انفرادی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کرتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگیوں میں، غزوات کے موقعوں پر ان کا خرچ اسی مد میں آئے گا۔ یہ معلوم ہے کہ ریاستِ مدینہ میں مسلمانوں سے زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور ٹیکس وصول نہیں کیا جاتا تھا۔ چنانچہ جب کسی اجتماعی ضرورت کے لیے پیسا جمع کرنے کی ضرورت پیش آتی تو اس مقصد کے لیے ریاست کی طرف سے اپیل کی جاتی تھی جس پر مسلمان دل کھول کر اپنی جمع پونجی لٹا دیتے تھے۔ اس سے یہ بات بھی بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ریاستِ مدینہ کو بارہا ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا جب اس کے لیے زکوٰۃ کے پیسے سے اپنی ضرورتیں پوری کرنی مشکل ہو گئیں، مگر ایسے حالات میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست کے مسلمان شہریوں پر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا، بلکہ اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے مسلمانوں سے اپنی مقدور بھر اعانت کرنے کی اپیل کی۔ یہ واقعات خود اس بات کی دلیل ہیں کہ ’’اگر کسی وقت قومی ضروریات زکوٰۃ اور بیت المال کی دیگر شرعی مدات سے پوری نہ ہوں‘‘، جیسا کہ مولانا نے یہ سوال اٹھایا ہے، تب بھی ریاست اپنے مسلمان شہریوں پر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس عائد کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ اس صورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ہمیں یہی رہنمائی ملتی ہے کہ ریاست اپنے مسلمان شہریوں سے مالی اعانت کی اپیل کرے۔ اس طرح کی کسی قومی ایمرجنسی میں ریاستی اپیل کے جواب میں قرآن مجید مسلمانوں کو ’العفو‘ یعنی ان کے پاس اپنی ضروریات سے بڑھ کر جو کچھ ہو، وہ سب خرچ کر دینے کی ہدایت کرتا ہے۔
اس کے بعد مولانا محترم نے مولانا مناظر احسن گیلانی اور مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی رحمہما اللہ کے حوالے سے امت کے بعض جلیل القدر بزرگوں کی یہ رائے نقل کی ہے کہ:
’’اجتماعی ضروریات مثلاً نہر کھودنے، دفاعی تیاریوں، فوج کی تنخواہ، اور قید کی رہائی وغیرہ کے لیے مزید ٹیکس لگائے جا سکتے ہیں۔ البتہ، ہنرمندوں اور کاروباری لوگوں پر ان کے ہنر یا کاروبار کے حوالے سے جو ٹیکس لگائے جاتے ہیں وہ ظالمانہ ہیں اور شریعت میں ان کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘‘ (اوصاف، ۱۷ مارچ ۲۰۰۱ء)
اوپر قرآن مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ دین کے ان اصل ماخذوں سے مسلمان شہریوں پر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور ٹیکس عائد کرنے کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔ ظاہر ہے کہ قرآن مجید کی آیات اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کے بعد کسی شخص کی بات یہ حیثیت نہیں رکھتی کہ اسے ان آیات و ارشادات سے نکلنے والے حکم پر ترجیح دی جائے۔ اس وجہ سے مولانا محترم سے ہماری گزارش ہے کہ وہ سب سے پہلے تو ہمارے استدلال کی کمزوری ہم پر واضح فرمائیں۔ ظاہر ہے کہ قرآن مجید کی مذکورہ آیت اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے محولہ ارشادات سے مسلمانوں پر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس عائد کرنے کی حرمت اگر ثابت نہیں ہوتی تو مولانا کو ٹیکس کے جواز کا استدلال کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اگر دین و شریعت میں واضح طور پر ٹیکس عائد کرنے کے خلاف کوئی حکم موجود نہیں ہے تو اس کے نتیجے میں، آپ سے آپ زکوٰۃ کے علاوہ مزید ٹیکس لگانا جائز قرار پائے گا۔ مولانا محترم کو اس کے جواز کے لیے کسی استدلال کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس وجہ سے مولانا محترم سے ہماری گزارش ہے کہ وہ لوگوں کی آرا کا حوالہ دینے کے بجائے، ہمارے استدلال کی غلطی واضح فرما دیں، اس کے نتیجے میں ان کی رائے آپ سے آپ صائب قرار پا جائے گی۔
مولانا محترم مزید لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ اصولی طور پر قومی ضروریات کے لیے زکوٰۃ کے علاوہ اسلامی حکومت جائز حد تک اور ٹیکس بھی لگا سکتی ہے اور اس کی کوئی واضح شرعی ممانعت موجود نہیں ہے۔‘‘ (اوصاف، ۱۶ مارچ ۲۰۰۱ء)
ہمارے نزدیک وہ ’’جائز حد‘‘ جس تک حکومت کو اپنے مسلمان شہریوں سے ٹیکس لینے کا حق حاصل ہے، وہ زکوٰۃ ہی ہے۔ مولانا محترم کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اگر، فی الواقع حکومت کے پاس اپنے مسلمان شہریوں پر زکوٰۃ کے علاوہ بھی کوئی ٹیکس عائد کرنے کا اختیار موجود ہوتا تو پھر اموال، مواشی اور پیداوار وغیرہ پر زکوٰۃ کی زیادہ سے زیادہ شروح متعین کرنے کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ مختلف صورتوں پر زکوٰۃ کی زیادہ سے زیادہ شروح کی تعیین کرنے کا اس کے سوا اور کیا مقصد ہو سکتا ہے کہ حکمرانوں کے ہاتھوں، ٹیکس کے ذریعے سے ہونے والے لوگوں کے استحصال کے خلاف پیش بندی کر دی جائے۔ ظاہر ہے کہ اگر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور ٹیکس عائد کرنے کی گنجائش موجود ہوتی تو پھر زکوٰۃ کی زیادہ سے زیادہ شروح متعین کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ آخر زکوٰۃ کی متعین شروح میں اضافہ کرنے یا کوئی نیا ٹیکس عائد کرنے میں وہ کون سا فرق ہے جس کے باعث ایک جائز اور ایک ناجائز ٹھہرتا ہے؟ چنانچہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی اسی حکمت کو واضح کرتے ہوئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ بن انس رضی اللہ عنہ کو مختلف صورتوں پر عائد ہونے والی زکوٰۃ کی شروح واضح کرتے ہوئے یہ ہدایت بھیجی تھی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ھذا فریضۃ الصدقۃ التی فرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی المسلمین والتی امر اللہ بھا رسولہ فمن سئلھا من المسلمین علی وجھھا فلیعطھا و من سئل فوقھا فلا یعط۔ (بخاری، رقم ۱۳۶۲)
’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، صدقات کے معاملے میں یہ وہ فریضہ ہے جسے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر لازم ٹھہرایا اور جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو دیا۔ چنانچہ مسلمانوں سے جب اس کے مطابق مانگا جائے تو انہیں چاہیے کہ وہ اسے ادا کر دیں اور جب ان سے اس سے زیادہ مانگا جائے تو پھر وہ نہ دیں۔‘‘
اسی طرح جب انہوں نے مانعینِ زکوٰۃ کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تو لوگوں کے معارضہ پر یہ حقیقت پوری قطعیت کے ساتھ اس طرح واضح فرمائی:
قال اللہ تعالیٰ، فان تابوا واقاموا الصلوٰۃ واتوا الزکوٰۃ فخلوا سبیلھم، واللہ، ولا اسئل فوقھن ولا اقصر دونھن۔ (احکام القرآن للجصاص ، ج ۲ ص ۸۲)
’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس کے بعد اگر وہ توبہ کر لیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دینے لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو، (اس لیے) خدا کی قسم، میں ان شرطوں پر کسی اضافے کا مطالبہ کروں گا اور نہ ان میں کوئی کمی برداشت کروں گا۔‘‘
اسی طرح، حضرت عمر بن عبد العزیز کو جب ان کے بعض عمال نے یہ لکھا کہ لوگوں کے مسلمان ہونے سے چونکہ حکومت کی وصولی میں کمی ہو جاتی ہے اس وجہ سے لوگوں سے مسلمان ہونے کے بعد بھی جزیہ وصول کیا جاتا رہے۔ تو انہوں نے ’’جائز حد‘‘ ہی تک صحیح، مسلمانوں پر کوئی اضافی ٹیکس عائد کرنے سے انکار کرتے ہوئے لکھا:
ان اللہ بعث محمدا صلی اللہ علیہ وسلم داعیا ولم یبعثہ جابیا فاذا اتاک کتابی ھذا فارفع الجزیۃ عمن اسلم من اھل الذمۃ۔ (احکام القرآن للجصاص ج ۴ ص ۲۹۶)
’’اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خیر کی طرف پکارنے والا بنا کر بھیجا تھا، لوگوں سے ٹیکس وصول کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا تھا۔ چنانچہ اس خط کے پہنچتے ہی، اسلام قبول کرنے والوں پر سے جزیہ ختم کر دو۔‘‘
شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں زکوٰۃ کی شرحیں متعین کرنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ثم مست الحاجۃ الی تعیین مقادیر الزکاۃ اذ لو لا التقدیر لفرط المفرط ولاعتدی العتدی۔ ویجب ان تکون غیر یسیرۃ لا یجدون بہ بالا ولا تنجع من بخلھم ولا ثقیلۃ یعسر علیھم اداؤھا۔ (جز ۲ ص ۳۹)
’’پھر ضرورت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ مختلف صورتوں کے لیے زکوٰۃ کی مقدار متعین کر دی جائے۔ اگر یہ تعیین نہ کی جاتی تو زیادتی کرنے والوں کی زیادتی کی راہ کھلی رہتی۔ یہ ضروری تھا کہ یہ مقدار نہ اتنی کم ہو کہ لوگ اسے کوئی اہمیت نہ دیں اور نہ اتنی زیادہ ہو کہ اس کی ادائیگی لوگوں کے لیے بہت مشکل ہو جائے۔‘‘
زکوٰۃ کی متعین شرحیں ہی وہ ’’جائز حد‘‘ ہے جس تک ایک اسلامی ریاست اپنے مسلمان شہریوں سے وصولی کر سکتی ہے۔ اس سے بڑھ کر ٹیکس لینا ’’ناجائز‘‘ حدود میں داخل ہونا ہی ہے۔ بہرحال، مولانا محترم اگر اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طے کردہ حدود سے آگے بھی ’’جائز‘‘ و ’’ناجائز‘‘ کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہے تو پھر وہی مہربانی فرما کر یہ واضح فرما دیں کہ اس معاملے میں جائز و ناجائز کا فیصلہ کون کرے گا؟
علما کے فتوے
جہاں تک فتووں کے بارے میں ہمارے اور مولانا محترم کے درمیان اختلاف کا تعلق ہے، اس میں ہمیں افسوس ہے کہ قارئین کو اصطلاحات کی بھول بھلیاں میں الجھا کر خلطِ مبحث پیدا کیا جا رہا ہے۔ ہم نے اپنی پچھلی بحث ہی میں یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ کس قسم کے فتوے ہیں جنہیں ناجائز قرار پانا چاہیے۔ اس کے جواب میں مولانا محترم نے ’فتوٰی‘، ’امر‘ اور ’قضا‘ کی اصطلاحات کی تفصیل کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ ان میں سے کس کی کیا حیثیت ہے۔
ہم نے اپنے پچھلے مضمون میں یہ واضح کیا ہے کہ جس ’فتوٰی‘ پر ہمیں اعتراض ہے وہ دراصل ’فتوٰی‘ کے نام پر ’قضا‘ کے معاملات ہیں۔ مولانا محترم سے ہماری گزارش ہے کہ وہ ’فتوٰی‘، ’امر‘ اور ’قضا‘ کا فرق سمجھانے کے بجائے لوگوں کو یہ بتائیں کہ ہم نے اپنی مثالوں میں جن ’فتووں‘ کو حدود سے متجاوز قرار دیا ہے، وہ انہیں کس بنیاد پر جائز قرار دیتے ہیں۔ وہ اگر اس نکتے کو واضح فرمائیں گے تو ہم ان کے فرمودات پر غور کر کے اپنے معروضات پیش کر دیں گے۔ مولانا کی موجودہ غیر متعلق بحث کے بارے میں ہمیں، فی الحال کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔