قادیانی مکر و فریب کے تاروپود

سوالات: حسن محمود عودہ

جوابات: جمیلہ تھامس

ترجمہ: حافظ محمد عمار خان ناصر

(قادیانی امت کے سربراہ مرزا طاہر احمد کے سابق دست راست فلسطینی دانش ور حسن محمود عوده کے قبول اسلام کی تفصیل ”الشریعہ“ کے ایک گزشتہ شمارہ میں شائع کی جا چکی ہے۔ ذیل میں ایک امریکی نومسلم خاتون محترمہ جمیلہ تھامس اور حسن محمود عودہ کی گفتگو کا ترجمہ شائع کیا جا رہا ہے۔ محترمہ جمیلہ تھامس نے قبول اسلام کا اعلان کیا تو قادیانی جماعت نے انہیں اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ موصوفہ کو جناب حسن محمود عودہ کے ترکِ قادیانیت کا کسی ذریعہ سے علم ہو چکا تھا، اس لیے انہوں نے ان سے براہ راست ملاقات کر کے حالات معلوم کرنا زیادہ مناسب سمجھا اور اس پس منظر میں مندرجہ ذیل گفتگو ہوئی، جو ان کے قادیانیت کی گمراہی سے بچاؤ اور اصل اسلام پر استقامت کا ذریعہ بن گئی۔ جناب حسن محمود عوده ان دنوں ”التقویٰ“ کے نام سے ایک ماہنامہ جریدہ کے ذریعہ قادیانیت زدہ عرب نوجوانوں کو اصل اسلام کی طرف رجوع کی دعوت دینے کی مہم میں مصروف ہیں اور محترمہ جمیلہ تھامس کے ساتھ ان کا درج ذیل انٹرویو بھی ”التقویٰ“ کے شعبان 1411ھ کے شمارہ سے ان کے شکریہ کے ساتھ ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ (مدیر معاون)


جمیلہ تھامس: حسن بھائی ! اچھا ہو گا اگر آپ اپنی ذات اور مرزائیت سے تائب ہونے کے اسباب کے بارے میں کچھ بتائیں۔

حسن عودة: میری پیدائش حیفہ (فلسطین) میں 1955ء میں قادیانی ماں باپ کے گھر ہوئی۔ بدقسمتی سے میرے آباؤ اجداد، مرزا غلام احمد کی حقیقت کے بارے میں کچھ جانے بغیر ۱۹۲۸ء میں قادیانیت کو قبول کر بیٹھے جو کہ ہمارے ملک میں ہندو مبلغین کے ذریعے سے پہنچی تھی۔ انہیں یہ بتایا گیا کہ یہ اسلام کی اصلاح کے لیے آسمانی دعوت ہے اور مرزا غلام احمد کی صورت میں مسیح موعود اور مہدی موعود ظاہر ہو گئے ہیں۔

میرا بھی یہی عقیدہ تھا کہ قادیانیت ہی صحیح اسلام اور قادیانی ہی سچے مسلمان ہیں اور دوسرے لوگ کافر، دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ ہم مرزائیت کے بارے میں صرف مرزائی علماء کی تحریرات پڑھا کرتے تھے۔ چنانچہ میرا یہ نظریہ پختہ ہوگیا کہ قادیانی ہونے کی حیثیت سے میں ہی برحق ہوں اور جو لوگ مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی معہود پر ایمان نہیں لاتے وہ باطل پر ہیں۔ میں نے مرزائیت کے بارے میں مرزائی لٹریچر ہی پڑھا تھا۔ مسلمانوں نے مرزائیت اور مرزاغلام احمد کے بارے میں جو کچھ تحریر کیا ہے وہ میرے علم میں نہیں تھا۔

مرزائیت کے اندرونی ماحول اور مرزائیوں کے آپس کے تعلقات کے بارے میں بات لمبی ہو جائے گی، مجھے اس بارے میں وسیع تجربہ حاصل ہے۔ مختصراً یہی کہہ سکتا ہوں کہ مرزائی ایسے پر گھٹن ماحول میں رہتے ہیں جہاں کسی فرد پر دوسروں کے اخلاق و اطوار مخفی نہیں ہیں۔ میں اپنے آپ کو کسی عیب سے پاک نہیں سمجھتا اور مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی قادیانی یہ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا کہ قادیانی جماعت نے کسی بھی جگہ پر ایک اچھی جماعت ہونے کی مثال پیش کی ہے۔ چنانچہ مرزائیت کے ماحول کا فساد خود بہت سے مرزائیوں سے مخفی نہیں ہے۔

ثانوی تعلیم مکمل کرنے کے بعد یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے میں سوید چلا گیا جہاں خلیفہ ثالث مرزا ناصر سے 1976ء اور پھر 1978ء میں دو مرتبہ میری ملاقات ہوئی۔ اس وقت ”خلیفہ“ کے ساتھ ملاقات میرے لیے ایک اہم اور خاص واقعہ تھا۔ خلیفہ کے مقربین میں جگہ حاصل کرنے کے لیے میں نے سوید کو خیر باد کہا اور قادیان چلا آیا جو کہ مرزائیت کا پہلا ہیڈ کوارٹر اور اس کے بانی مرزا غلام احمد کی جائے پیدائش ہے۔ 1979ء میں میں نے قادیانی مبشر بننے کے لیے قادیان میں تعلیم کا آغاز کیا، خلیفہ اور دوسرے ذمہ دار لوگ میرا خاص خیال رکھتے تھے، کیونکہ میں قیام پاکستان کے بعد پہلا اور مرزائیت کے آغاز کے بعد دوسرا یا تیسرا عرب طالب علم تھا جو قادیان میں قادیانیت کی تعلیم حاصل رہا تھا۔ میں مرزا غلام احمد کی عربی تصنیفات کے مطالعہ کے علاوہ اس کی اردو تصانیف کو سمجھنے کے لیے اردو زبان بھی سیکھتا تھا۔

قادیان میں میرا قیام تقریباً سات ماہ رہا۔ چھ ماہ ”بیت الضیافۃ“ میں اور ایک ماہ ”غرفۃ الرياضۃ“ میں۔ یہ وہی کمرہ ہے جہاں مرزا نے، اپنے دعوے کے مطابق، اپنے نصف برس سے زائد مدت مسلسل روزے رکھنے کے دوران میں تمام انبیاء سے ملاقات کی۔ مجھے کہا گیا کہ مرزا کا گھر جو شعائر اللہ میں سے ہے، اس میں قیام سے بڑی برکتیں ملیں گی۔ مرزا کا گھر بیت الذكر، بيت الفكر، بيت الدعا اور مسجد مبارک وغیرہ نام کے کمروں پر مشتمل ہے۔ ”بیت“ سے مراد ایک الگ الگ کمرہ ہے۔ ”بیت الدعا“ ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جو مرزا نے دعا کے لیے خاص کیا تھا۔ ”بیت الفکر“ ایک دوسرا کمرہ ہے جس کو اس نے فکر یعنی تالیف و تصنیف کے لیے خاص کیا تھا۔ ”بیت الذکر“ کو وہ ذکر کے لیے استعمال کیا کرتا تھا، اس کا نام ”مسجد مبارک“ بھی ہے۔ اس کے دروازہ پر لکھا ہے: ”من دخلہ کان امنا“ اور کمرے کی اندرونی طرف دیوار پر لکھا ہے ”بشارة تلقاها النبیون“ (وہ بشارت جو نبیوں کو ملی) مسجد کے ساتھ ہی ایک کمرہ ہے جس کا نام ”اٰیۃ الحبر الاحمر“ ہے۔ ایک اور کمرہ کا نام ”حقیقۃ الوحی“ ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی کمرے ہیں۔

قادیان میں اپنی تعلیم کی یہ مختصر مدت گزارنے کے بعد میں حیفہ واپس چلا گیا تاکہ قادیانی مبلغین کی مدد کروں۔ پھر ایک سال کے بعد مجھے ایک مرزائی لڑکی سے شادی کرنے اور دوسری مرتبہ سالانہ جلسہ میں، جو مرزا کی وصیت کے مطابق ہر سال منعقد ہوتا ہے، شرکت کرنے کے لیے دوبارہ قادیان جانا تھا۔ پھر حیفہ واپس آنے کے بعد ۱۹۸۴ء میں مجھے مرزائی خدام کا اور میری اہلیہ کو ”لجنۃ اماء الله“ کا سربراہ بنا دیا گیا۔ ۱۹۸۵ء میں خلیفہ رابع مرزا طاہر نے مجھے مرزائی مبشر مقرر کیا اور لندن میں خلافت کے نئے مرکز میں بلا لیا۔

۱۹۸۶ء کے شروع میں میرے لندن پہنچنے کے فوراً بعد خلیفہ نے پہلی دفعہ اپنی جماعت میں عربی سیکشن کی بنیاد رکھی اور مجھے اس کا ڈائریکٹر مقرر کیا۔ ۱۹۸۸ء میں خلیفہ نے مجھے اپنی تقاریر و خطبات کو عربی میں ترجمہ کرنے کے لیے منتخب کیا اور عربی زبان میں ایک ماہنامہ مجلہ شائع کرنے کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی۔

ان ذمہ داریوں کے علاوہ میں تبلیغی اور تدریسی کاموں میں بھی مشغول رہا، مثلاً برطانیہ آنے والے مبلغین کو لیکچرز دینا، برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کو دعوتِ مرزائیت دینے کے لیے تبلیغی مجالس منعقد کرنا۔ ان مجالس میں میں نے مسلمان علماء اور طلباء سے مرزا غلام احمد کے دعاوی کی سچائی کے بارے میں بحث و مباحثہ کیا، جس سے میرے ذہن میں ایسے سوالات پیدا ہوئے جن کی وجہ سے مجھے مرزا غلام احمد کی شخصیت و دعوت کے بارے اپنے مطالعہ کی طرف رجوع کرنا پڑا۔ یہ میرے ترکِ مرزائیت کے اسباب میں سے ایک تھا۔

ایک اور سبب میرا شخصی تجربہ اور مرزائی نظم و ضبط کا مشاہدہ تھا۔ خلیفہ اور داعیین پر مشتمل اس نظام کے مشاہدہ سے مجھے یقین ہوگیا کہ مرزائیت حق سے بہت دور ایک گمراہ تحریک ہے۔ ادارے میں میرے عملی تجربہ کے اضافہ کے ساتھ ساتھ مرزائی عقائد اور نظام کے بارے میں میرے شکوک و شبہات بھی بڑھتے گئے۔

جون ۱۹۸۸ء میں مخالفینِ مرزائیت کے نام مرزا طاہر کی ”دعوت مباہلہ“ بھی قابل ذکر ہے۔ اس وقت سے میں منتظر تھا کہ مرزائیت کی حقانیت پر کوئی آسمانی نشانی اور معجزہ ظاہر ہو۔ حتیٰ کہ خلیفہ نے پہلی نشانی کے ظہور کا اعلان کیا، یعنی صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق شہید کر دیے گئے۔ صدر پاکستان نے اگرچہ دعوت مباہلہ کو قبول کیا نہ اس پر کوئی توجہ ہی دی، لیکن پھر بھی مرزائی ان کی شہادت کو آسمانی نشانی سمجھتے تھے۔ جبکہ جن مسلم علماء نے دعوت مباہلہ کو قبول کیا تھا اور انسانیت پر مرزائیت کی گمراہی کو آشکارا کیا تھا وہ صحیح سالم زندگی بسر کر رہے تھے۔ مرزائیوں کے اس طرز عمل پر مجھے حیرت ہوئی اور اس حیرت میں اضافہ تب ہوا جب خلیفہ طاہر نے اس ”آسمانی نشانی“ کے ظہور پر خوشی کے اظہار کے طور پر ٹل فورڈ، جہاں میں مقیم تھا، مرزائیوں میں تقسیم کرنے کے لیے مٹھائی بھیجی۔

اس وقت سے میں اس دعوت مباہلہ کے اصل مقصد کے بارے میں متلاشی ہوا کہ آیا یہ حقیقتاً مباہلہ ہے یا محض ڈھونگ؟ خدا سے دعا مانگی کہ ”اللہم ارنا الحق حقاً و ارزقنا اتباعہ وأرنا الباطل باطلاً و ارزقنا اجتنابہ“

میں 10 جون کے اعلان مباہلہ اور اس کے وقت کی تعیین کے پس پردہ اسباب پر غور کرتا رہا۔ مرزا طاہر احمد نے اعلان مباہلہ سے قریباً ایک سال قبل اعلان کیا تھا کہ اس نے پیرس میں ایک خواب دیکھی ہے جس میں کہ کہا گیا ہے کہ “FRIDAY the 10th” (دس تاریخ کو پڑنے والا جمعہ کا دن) چنانچہ مرزائی 10 تاریخ کو پڑنے والے ہر جمعہ کے دن کسی خاص اور اہم واقعہ کے رونما ہونے کے منتظر رہتے تاآنکہ خلیفہ نے 10 جون ۱۹۸۸ء بروز جمعۃ المبارک اس انگریزی خواب کو پورا کرنے کے لیے دعوت مباہلہ دی۔ یہ میرے غور و فکر کا ایک پہلو تھا۔

دوسرے پہلو سے میں نے دنیا میں مرزائیت کے اندرون خانہ نظر ڈالی۔ ۱۹۸۹ ء میں جو مرزائیت کی تاسیس کی صدی پورا کرنے کا سال تھا، میں نے دیکھا کہ ادارہ اپنی سو سالہ کاوشوں کے نتائج کی پردہ پوشی کے لیے نئے اعلانات میں مشغول ہو رہا ہے، جس سے مجھے مرزائیت کے دھو کہ، گمراہی اور خلق خدا کے لیے ضلالت ہونے میں شک بھی نہ رہا۔ خلیفہ اور ادارہ کی خاص کوشش یہی تھی کہ وہ ہر متعلق و غیر متعلق کے سامنے اپنی سو سالہ کامیابیوں کو ظاہر کریں۔ اس صورت حال میں حقیقت کو سمجھ لینا مشکل نہ رہا اور پھر میں جماعت مرزائیہ کے اندرونی و بیرونی احوال سے بخوبی واقف بھی تھا۔ اب میں نے مرزائیت کو ایک نئے نقطہ نگاہ سے دیکھا۔ میں نے مرزا کے قبل ازاں تسلیم شده دعادی کو پرکھا اور اس کے بارے میں علماءِ اسلام کی تحریرات کا مطالعہ کیا۔ چنانچہ مجھ پر چند ایسے امور واضح ہوئے جن سے میں پہلے واقف نہیں تھا یا یوں سمجھیں کہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ مرزائیت سے میرے ذہنی و قلبی بعد کا آغاز اسی وقت میں ہو گیا تھا۔ جن اشکالات سے میرا واسطہ پڑا ان میں سے چند یہ ہیں:

1۔ سچا مرزائی بننے کے لیے اپنی آمدنی کا ۲۵ء ۶ فیصد جماعت کو ادا کرنا لازمی ہے۔


2۔ ”مقبرة الجنۃ“ میں جگہ حاصل کرنے کے لیے آمدنی کا کم از کم دس فی صد ادا کرنا ضروری ہے۔

3۔ مرزا کا ساٹھ سال سے متجاوز عمر میں ایک 17 سالہ نوجوان لڑکی سے نکاح پر اصرار کرنا اور یہ کہنا کہ ”یہ اللہ کا حکم اور ارادہ ہے“ اور پھر جب لڑکی نے اس کو ٹھکرا دیا اور نکاح نہ ہوسکا تو مرزائی یہ عذر کرنے لگے کہ اس پیشین گوئی کا نصف حصہ اس صورت میں اور اس صورت میں پورا ہو گیا ہے۔

4۔ اس جماعت کی بنیاد پڑے ایک صدی گزر گئی، لیکن اس کا اندرونی ماحول فساد اور خرابی کی نذر ہوتا جا رہا ہے۔ مجھے پختہ یقین ہو گیا کہ یہ جماعت جب اپنی اصلاح پر قادر نہیں ہے تو اہل عالم کی اصلاح کیسے کرے گی۔


5۔ 99 فی صد مرزائی اسلام سے مرتد ہوئے ہیں۔ مرزا اپنے دعوائے مسیحیت و مہدویت کے باوصف غیر مسلموں کو تو اسلام میں داخل نہ کر سکا، البتہ مسلمانوں میں سے ہی اپنی ملت تیار کر لی۔


یہ اشکالات مشتے نمونہ از خروارے کا مصداق ہیں۔ بہرحال میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ طیبہ کے ساتھ مرزا کی سیرت کا موازنہ کیا تو مجھے شب و روز کا فرق نظر آیا۔ میں نے ترکِ مرزائیت اور قبولِ اسلام کا عزم صمیم کر لیا۔ جون ۱۹۸۹ء میں میں نے اپنے والدین اور اقرباء سے مل کر انہیں اپنے قبولِ اسلام کی خوشخبری سنائی۔ 17 جولائی ۱۹۸۹ء کو میں نے اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ ”مرکز الاحمدیۃ“ میں اپنے مکان کو چھوڑ کر ایک دوسرے مکان میں سکونت اختیار کی۔ میں نے پہلا کام یہ کیا کہ قریبی مسجد میں 21 جولائی ۱۹۸۹ء کے خطبہ جمعہ کے بعد مرزائیت سے برأت اور قبولِ اسلام کا اعلان کیا۔ اس کے بعد میں چند دوستوں سے ملا اور انہیں مرزائیت کے بارے اپنے تجربات اور مطالعہ سے آگاہ کیا۔

خدا کا شکر ہے کہ میری اہلیہ، بیٹے، بعض رشتہ دار اور دوست بھی مرزائیت کو ترک کر کے اسلام قبول کر چکے ہیں۔ سوید میں محترم احمد محمود رئیس قادیانی جماعت نے، حیفہ میں میرے بھائی صالح عودہ نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ اور مراکش اور الجزائر کے دیگر حضرات نے بھی ترک مرزائیت کر کے اسلام قبول کر لیا ہے، فالحمد لله رب العالمين، اللهم زد وبارك۔

جمیلہ تھامس: خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہم سب کو مسلمان بنایا۔ آپ تو جانتے ہیں کہ مرزائی جماعت کے عقائد مسلمانوں سے جدا ہیں، مثلاً یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی والدہ مکرمہ حضرت مریم علیہا الصلوات والتسلیمات کے ساتھ ہجرت کر کے کشمیر چلے آئے تھے اور وہاں ایک سو بیس سال کی عمر میں وفات پاگئے اور ان کی قبر بھی وہیں ہے اور یہ کہ ان کا مثیل مرزا غلام احمد ہے اور اس کا لقب بھی مسیح موعود ہے۔ تو کیا ایسے عقائد بھی آپ کے ترکِ مرزائیت کا سبب بنے؟

حسن بن محمود عودة: ایسے نفسِ عقائد تو اگرچہ سببِ ترک نہیں بنے، البتہ مرزا کی حقیقت جاننے میں مددگار ثابت ہوئے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ قبولِ اسلام (ظاہراً) کسی سبب پر موقوف نہیں، بلکہ قانون خداوندی ہے:”فمن يرد الله ان يهدیہ يشرح صدرہ للاسلام“ البتہ كسى آدمی کے لیے اکتشافِ حقیقت کو آسان بنا دینا بھی ہدایت ہی ہے۔ مجھ پر اللہ کی یہ رحمت ہوئی کہ اس نے مرزا کی حقیقت کے بارے میں علم کو میرے لیے آسان کر دیا۔ مرزا جس کو میں نبی اور صاحبِ وحی رسول سمجھتا تھا، اس کی ہر بات میرے لیے حق تھی، جن کے انکار کی میرے لیے کوئی گنجائش نہ تھی۔ میں نے سرے سے اس کے ایسے دعاوی کی جانچ ہی نہ کی، مثلاً یہ کہ عیسیٰ علیہ الصلوات و التسلیمات سری نگر کشمیر کے علاقہ میں مدفون ہیں یا یہ کہ اللہ نے اسے خطاب کیا ہے کہ ”اسمع ولدی انت منی منزلۃ توحیدی و تفریدی“ ایک مخلص قادیانی یا جس کی ذہنی تربیت مرزائی طریق کار کے مطابق ہوئی ہو وہ مرزا غلام لعین کو اگر آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ الف صلوات سے افضل نہیں تو کم از کم اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کمتر سمجھنے کو تیار نہیں ہے، و العیاذ باللہ

مرزا غلام احمد اپنی کتاب ”خطبہ الہاميہ“ میں لکھتا ہے:

”ہمارے نبی کی روحانیت الف خامس میں اپنی مجمل صفات کے ساتھ طلوع ہوئی۔ اس وقت اس کی ترقی کی انتہا نہ ہوئی تھی، پھر کامل ہوئی اور یہ روحانیت الف سادس کے آخر میں یعنی اس وقت ظاہر ہوئی ہے تاکہ اپنے کمالِ ظہور کو پہنچے اور اپنے نور کے غلبہ سے ہمکنار ہو۔ پس میں ہی وہ نور مظہر اور نور معہود ہوں۔ ایمان لاؤ اور کافروں میں سے نہ ہو اور جان لو کہ ہمارے نبی جیسے الف خامس میں مبعوث ہوئے تھے اسی طرح الف سادس کے آخر میں مسیح موعود کی صورت میں مبعوث ہوئے ہیں، بلکہ حق تو یہ ہے کہ آپ کی روحانیت الف سادس کے آخر، یعنی ان ایام میں، پہلے سالوں سے زیادہ قوی اور کامل ہے۔ “

مرزا غلام احمد نے جان لیا تھا کہ وہ اپنے زمانہ کے عام فقراء اور اہلِ ثروت سے کیسے پیسے بٹور سکتا ہے۔ ایک ایسے زمانے اور ملک میں جہاں جہالت کا دور دورہ تھا، اس نے اسلام اور رسولِ اسلام کی مدح کے نام پر پیسے بٹورنے شروع کیے، لیکن اس میدان میں وہ تنہا نہ تھا۔ اس نے اپنے لیے ایک خاص بلند مرتبہ پسند کر لیا اور بزعم خویش ایک عام داعی دین سے آہستہ آہستہ مجدد، مہدی، مسیح، آدم اور ما فوق کی طرف ترقی کرتا چلا گیا۔ اس کے خوش حال اور مخلص پیروکار اسے خادمِ اسلام سمجھتے ہوئے اس کا دفاع کرتے رہے۔ وہ اس کے دعوائے مسیحیت، مہدویت، رسالت آخر الزماں، مثل محمد اور بروز جمیع انبیاء میں چھپے ہوئے زہر سے غافل اور جاہل ہیں۔ بالاختصار مرزا نے دینِ اسلام کی مدح و توصیف کے ذریعہ سے اپنے پیروکاروں پر اپنے دعادی کے زہر قاتل کو اسلام کے لبادے میں چھپانے کی کوشش کی۔ وہ جانتا تھا کہ عام مسلمانوں کو لوٹنا بجز اس ذریعہ کے ممکن نہیں ہے۔

یہ مرزائیوں کی بدقسمتی ہے کہ وہ مرزا کے اسلام کی مدح میں چند اشعار اور اس کی مزعومہ وحی الٰہی (مثلاً “I love you”،  ”انت منى وأنا منك “، ”انت من ماءنا“، ” انت منى بمنزلہ عرشی“ وغیرھا) کے بدلے میں اس کی نبوت، مسیحیت اور مہدویت پر ایقان کر بیٹھے، جبکہ بفضل اللہ مسلمانوں کی اکثریت نے اس کے مذکورہ دعاوی کو قبول نہیں کیا ہے۔ مرزا کا ایک شعر حضورؐ کی مدح میں یوں ہے:

؎ يا عین فیض الله والعرفان                          یسعى اليك الخلق كالظماٰن

(ترجمہ) اے اللہ تعالیٰ کے فیض و عرفان کے چشمے! مخلوق آپ کی طرف پیاسے کی طرح دوڑی چلی آتی ہے۔

لیکن اس کے ساتھ مسلمانوں نے اس کے ان اشعار کو قبول نہیں کیا ہے جو اس نے اپنی طرح میں کہے ہیں، مثلاً

”انى من الله العزيز الاكبر“

بہت سے مرزائیوں نے اسلام، رسول اللہؐ اور صحابہ کرامؓ کی مدح میں لکھا ہے، مگر مسلمانوں نے صرف حق کو قبول کیا اور باطل کی تردید کی ہے۔

جمیلہ تھامس: مرزائیوں کو آپ کی کیا نصیحت ہے؟

حسن عودة: میں نے مرزائیت کو اس کے مخصوص منہج کی وجہ سے یا اس سبب سے ترک نہیں کیا ہے کہ اس جماعت میں عموماً گھٹیا قسم کے لوگ کام کرتے ہیں بلکہ ان میں اچھے آدمی بھی ہیں، لیکن افسوس یہ ہے کر یہ مرزا غلام احمد سے دھو کہ کھا گئے۔ میری اہم نصیحت ان کو یہ ہے کہ وہ مرزائیت اور مرزا کے بارے میں مسلمانوں کی کتابوں کا مطالعہ کریں اور خدا سے ہدایت طلب کریں، ”انہ هو الھادى وهو السميع المجیب“ مرزائی بھائی جان لیں کہ خلیفہ کے حکم کی اطاعت میں مسلمان کی ہر قسم کی تحریرات کو نظرانداز کرنے سے ان کے لیے حقیقت کو معلوم کرنا آسان نہیں ہوگا۔

جمیلہ تھامس: آخری سوال، مرزائی تاحال اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں، کیا انہیں یہ حق حاصل ہے؟

حسن عودة: صرف یہی نہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں، بلکہ وہ صرف اپنے آپ کو برحق اور باقی سب کے سب کو، جن میں مرزا غلام کے منکرین بھی ہیں، باطل پر سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اسلام سے ہٹ کر اپنا ایک علیحدہ جماعتی تشخص بنایا ہے، جس کو ”احمدیت“ یا بقول بعض ”اسلام صحیح“ کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق مرزائی کا مسلمان کے پیچھے نماز پڑھنا گناہ، مرزائی عورت کا مسلمان سے نکاح معصیت اور مسلمان کی نماز جنازہ پڑھنا منکرات میں سے ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں، بلکہ وہ مسلمان کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔ جو مسلمان مرزا غلام احمد کی اتباع نہیں کرتا وہ ان کے نزدیک ”غیر احمدی“ یا دوسرے لفظوں میں کافر ہے، کیونکہ وہ مرزا پر جو نبی ہے ایمان نہیں لاتا۔

مرزا اور مرزائیت کی حقیقت کو سمجھتے ہی متعدد اسلامی تحریکات نے مرزائیوں کے بارے میں ”غیر مسلم“ ہونے کے فتوے صادر کیے۔ مرزائیت کے مستقبل پر ان فتووں کا بڑا اثر پڑا ہے، کیونکہ عالِم اسلام اور دنیا پر مرزائیت کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے ان فتووں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کی وجہ سے مرزائیت کی ترقی رک گئی ہے اور مرزائی دعوت و تبلیغ سے ہٹ کر اپنے مسلمان ہونے کے دفاع کی کوششوں میں لگ گئے ہیں۔ اگر وہ مرزا غلام احمد کو چھوڑ کر صرف اسلام پر راضی ہوتے تو انہیں اس حق کے دفاع کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔

جمیلہ تھامس: بہت بہت شکریہ، خدا آپ کو جزائے خیر دے۔


نقد و نظر

()

جناب وزیر اعظم! زخموں پر نمک پاشی نہ کیجئے!
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

کتب حدیث کی انواع
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حصولِ علم کے لیے ضروری آداب
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

قادیانی مکر و فریب کے تاروپود
حسن محمود عودہ

ذاتِ لازوال
ظہور الدین بٹ

توکل کا مفہوم اور اس کے تقاضے
الاستاذ السید سابق

انسانی بدن کے اعضا اور ان کے منافع
حکیم محمد عمران مغل

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

انسان کی ایک امتیازی خصوصیت
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

علماء اور سیاستداں
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

مدرسہ نصرۃ العلوم کے فارغ التحصیل طالب علم کا اعزاز و امتیاز
ادارہ

تلاش

Flag Counter