چند علمی مسائل کی وضاحت

محمد عمار خان ناصر

’’الشریعہ‘‘ کے جولائی اور اگست ۲۰۰۱ء کے شماروں میں شائع ہونے والی میری تحریروں کے حوالے سے جدِ مکرم استاذِ گرامی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم نے بعض امور کی طرف توجہ دلائی اور ان کی وضاحت کی ہدایت کی ہے۔ میں استاذِ گرامی کا ممنون ہوں کہ انہوں نے اپنی پیرانہ سالی، علالت اور ضعف کے باوجود ازراہِ شفقت ایک طالب علم کی آرا پر تنقیدی نظر ڈالنے کی زحمت فرمائی اور اپنی علمی رہنمائی سے بعض آرا پر ازسرِنو غور و فکر اور بعض کی اصلاح کا موقع فراہم کیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کو صحت و عافیت اور تندرستی سے نوازے اور ان کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر سلامت رکھے، آمین۔

ان امور کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:

(۱) ’’الشریعہ‘‘ کے جولائی ۲۰۰۱ء کے شمارے میں ’’اسلام میں عبادت‘‘ کے عنوان سے میری ایک تحریر شائع ہوئی ہے جس میں، میں نے عرض کیا ہے کہ اگرچہ نماز کا بنیادی ڈھانچہ دین میں متعین کر دیا گیا ہے، تاہم اس کے بعض اعمال ایسے ہیں جن کا کرنا یا نہ کرنا لوگوں کے انفرادی ذوق پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں جن امور کا میں نے تذکرہ کیا، ان میں رفع الیدین، وضع الیدین، آمین بالجہر اور فاتحہ خلف الامام جیسے مسائل بھی شامل ہیں جو صدیوں سے اہلِ علم کے مابین مختلف فیہ چلے آ رہے ہیں۔ استاذِ گرامی کا ارشاد ہے کہ اہلِ علم کے نزدیک یہ مسائل ذوقی نہیں بلکہ علمی اور تحقیقی ہیں اور ہر فریق اپنے دلائل کی بنیاد پر جس رائے کو درست سمجھتا ہے اس پر عمل کرتا ہے۔ 

مجھے اس سے اتفاق ہے کہ امرِ واقعہ یہی ہے۔ میری مذکورہ رائے محض مخالف روایات کی توجیہ کی ایک کوشش ہے ورنہ خود میرا اطمینان اور عمل ان مسائل میں احناف کے مسلک پر ہے۔(۱)

(۲) ’’الشریعہ‘‘ کے اگست ۲۰۰۱ء کے شمارے میں ’’غیر منصوص مسائل کا حل‘‘ کے زیرعنوان میرا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں فقہِ اسلامی کے اصولوں کی روشنی میں بعض جدید پیش آمدہ مسائل کا حل پیش کیا گیا ہے۔ استاذِ گرامی نے اس ضمن میں جن محلِ اشکال امور کی نشان دہی کی ہے، ان کی تفصیل سے پہلے اس بات کی وضاحت مناسب سمجھتا ہوں کہ مذکورہ تحریر میں اختیار کی جانے والی آرا کسی قسم کے ادعا کے بغیر محض طالب علمانہ آرا ہیں۔ ان سے غرض نہ یہ ہے اور نہ ہو سکتی ہے کہ قارئین ان میں سے کسی رائے کو اپنے معتمد اہلِ علم کی رائے کے خلاف پائیں تو اسے چھوڑ کر میری رائے پر عمل کریں۔ حاشا و کلّا۔

مذکورہ مضمون کے آغاز میں، میں نے صراحتاً‌ عرض کیا تھا کہ:

’’فقہی و علمی مسائل میں، جیسا کہ میں نے عرض کیا، اہلِ علم کے مابین اختلافِ رائے کا واقع ہو جانا ایک بالکل فطری امر ہے۔ چنانچہ تمام علمی آرا کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے میں نے ان آرا کو ترجیح دی ہے جو میرے ناقص فہم کے مطابق، ازروئے اصول و قواعد، اقرب الی الصواب ہیں۔‘‘

میں نے اپنے امکان کی حد تک غور و فکر کے بعد اس جذبے کے ساتھ بعض آرا قائم کیں کہ اگر کسی بھی وقت ان میں فہم و استدلال کی غلطی واضح ہو جائے تو کسی تامل کے بغیر ان سے رجوع کر لیا جائے۔ چنانچہ استاذِ گرامی کی نشان دہی پر سرِدست جن مسائل کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں ان کی تفصیل عرض کر رہا ہوں:

۱۔ جڑواں بہنوں کے نکاح کے ضمن میں، میں نے لکھا تھا:

’’اگر دو عورتیں اس طرح پیدا ہوئی ہوں کہ ان کے اعضا ایک دوسرے کے ساتھ ناقابلِ انفصال طریقے پر جڑے ہوئے ہوں تو ان کے نکاح کا کیا حکم ہے؟ عقلاً‌ اس میں تین احتمال ہیں: یا تو وہ دونوں مجرّد رہیں، یا دونوں کا نکاح دو الگ الگ مردوں سے کر دیا جائے، اور یا دونوں کو ایک ہی مرد کے نکاح میں دے دیا جائے۔ ان میں سے تیسری صورت میں پہلی دو صورتوں کی بہ نسبت کم قباحت اور ضرر پایا جاتا ہے، اس لیے ہمارے نزدیک اسی کو اختیار کیا جائے گا۔‘‘ (ص ۲۵)

میں نے یہ رائے ’’یختار اھون الشرین‘‘ (کم ضرر والا راستہ اختیار کیا جائے) کے اصول پر قائم کی تھی لیکن دوبارہ غور کرنے کے بعد دیانت داری سے یہ سمجھتا ہوں کہ اس مسئلے میں کم ضرر والی صورت تیسری نہیں بلکہ پہلی ہے یعنی یہ کہ دونوں بہنیں مجرّد رہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمع بین الاختین کی حرمت قرآن مجید کی نص سے ثابت ہے اور ایسی حرمت میں استثنا صرف ایسے عذر کی صورت میں ماننی چاہیے جو کثیر الوقوع ہو، جبکہ مذکورہ صورت نادر الوقوع بلکہ قریب قریب عدیم الوقوع ہے۔ اس لیے ایسی نادر صورت کے لیے منصوص حرمت میں استثنا پیدا کرنا درست نہیں ہے۔

۲۔ میں نے سر پر لگائی جانے والی جھلی، مصنوعی دانت اور ناخن پالش کے ساتھ وضو اور غسل کو درست قرار دیا ہے (ص ۲۲) جبکہ اہلِ علم کی رائے بالعموم اس کے برعکس ہے۔ میں نے جواز کی رائے اس اصول پر اختیار کی کہ شریعت کے مامورات میں حتی الامکان آسانی اور سہولت کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ ان چیزوں کو وضو اور غسل سے مانع قرار دینے والے علما کی رائے زیادہ مبنی بر احتیاط ہے۔

۳۔ ٹرین اور ہوائی جہاز میں نماز کے حوالے سے میں نے لکھا تھا کہ اگر قیام کرنے اور قبلہ رخ ہونے کا التزام کرنے میں دِقت ہو تو یہ شرائط ساقط ہو جائیں گی اور بیٹھ کر کسی بھی جانب منہ کر کے نماز پڑھنا جائز ہو گا (ص ۲۴)۔ لیکن استاذِ گرامی فرماتے ہیں کہ قیام اور استقبالِ قبلہ کے حکم میں فرق ہے۔ ایسی صورت میں نماز کے لیے کھڑا ہونا مشکل ہو تو آدمی بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے لیکن قبلہ رخ ہونے کا التزام بہرحال کرنا ہو گا۔ مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ نے لکھا ہے کہ اگر نماز پڑھتے ہوئے ریل گاڑی پھر گئی اور قبلہ دوسری طرف ہو گیا تو نماز ہی میں گھوم جائے اور قبلہ کی طرف رخ کر لے (بہشتی زیور ج ۲ ص ۵۰)۔

۴۔ بعض مسائل میں پوری تفصیل بیان نہ ہونے کی وجہ سے، فی الواقع، ابہام پیدا ہوا۔ یہ مسائل حسبِ ذیل ہیں:

میں نے لکھا تھا کہ چونکہ حکومتِ سعودیہ کی طرف سے حاجیوں کو مخصوص دنوں کا ویزا جاری کیا جاتا ہے اور ان کی واپسی کی تاریخ کئی دن پہلے مقرر ہو چکی ہوتی ہے، اس لیے فقہا نے اجازت دی ہے کہ اگر ایامِ حج میں عورت کو حیض آجائے تو وہ ناپاکی کی حالت میں ہی طوافِ زیارت کر سکتی ہے۔ البتہ یہ واضح نہیں کر سکا کہ یہ اجازت فقہا کے نزدیک مشروط ہے یعنی اس صورت میں عورت کو کفارے کے طور پر قربانی بھی ادا کرنی پڑے گی (ارشاد الساری، ملا علی قاریؒ ص ۲۳۵)

اسی طرح میں نے عرض کیا تھا کہ اگر کوئی عورت کسی مکتب میں معلّمہ یا طالبہ ہو اور اس کے حیض کے ایام آجائیں تو چونکہ زیادہ دن چھٹی کرنے سے تعلیمی سرگرمیوں میں حرج واقع ہوتا ہے لہٰذا اس کے لیے حالتِ حیض میں قرآن کریم پڑھنا جائز ہو گا۔ فقہا اس میں مزید یہ شرط عائد کرتے ہیں کہ وہ پوری آیت بیک دفعہ پڑھنے کے بجائے ایک ایک کلمہ کی الگ الگ ادائیگی کرے (عالمگیری ج ۱ ص ۲۴)۔

۵۔ اسلامی فقہ کے قواعد کے تحت میں نے ’’الاصل فی الاشیاء الاباحۃ‘‘ (اشیا میں اصل اباحت ہے) کے قاعدہ کا بھی تذکرہ کیا اور اس کے تحت متعدد احکام کا استنباط کیا ہے۔ استاذِ گرامی نے اس مسئلے پر اپنی کتابوں ’’راہِ سنت‘‘ اور ’’بابِ جنت‘‘ میں مفصل بحث کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ قاعدہ اہلِ علم کے نزدیک مسلّم نہیں۔ اس پوری بحث کے مطالعے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ استاذِ گرامی نے یہ بحث اصلاً‌ اہلِ بدعت کے استدلال کے تناظر میں کی ہے جو اس قاعدے کا سہارا لے کر بدعات کا دروازہ چوپٹ کھول دینا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ عبادات کے دائرے میں ’’الاصل الاباحۃ‘‘ کا نہیں بلکہ ’’کل محدثۃ ضلالۃ‘‘ کا اصول جاری ہوتا ہے، اس لیے اس تناظر میں ’’الاصل الاباحۃ‘‘ کے قاعدہ کی تردید بالکل درست ہے۔

البتہ اجتہادی امور کے دائرے میں اہلِ علم کے ایک گروہ نے استنباطِ احکام کے حوالے سے اس قاعدے کو معتبر تسلیم کیا ہے(۲)۔ امام رازیؒ نے قائلین و مانعین کے موقف میں یوں تطبیق دی ہے کہ:

ان الاصل فی المنافع الاذن و فی المضار المنع۔

’’جن امور میں منفعت ہو اُن میں اصل اباحت، اور جن میں ضرر ہو اُن میں اصل منع ہے(۲)۔

میں نے اپنی بحث میں جن امور پر اس قاعدے کا اطلاق کیا ہے وہ اسی نوعیت کے ہیں اور ان میں منفعت و مصلحت کا واضح طور پر موجود ہے۔

آخر میں، میں ایک مرتبہ پھر اس گزارش کا اعادہ کروں گا کہ میری تمام آرا کو ایک طالب علم کی آرا کی حیثیت سے دیکھا جائے۔ علمی دنیا میں فہم و استنباط کا اختلاف سب سے بڑی حقیقت ہے اور اس کے بغیر، غالباً‌، نفسِ علم کا تصور بھی مشکل ہے۔ اگر کوئی صاحبِ علم میرے استدلال کی کسی بھی کمزوری پر مجھے متنبہ کریں گے تو میں ان کا تہہِ دل سے شکرگزار ہوں گا اور، غلطی واضح ہو جانے پر‘‘ مجھے اپنی کسی بھی رائے سے رجوع کرنے میں، ان شاء اللہ، ہرگز کوئی تامل نہیں ہو گا۔ اللہم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ۔


حواشی

(۱) ائمہ احناف کے نزدیک سری و جہری دونوں طرح کی نمازوں میں امام کے پیچھے قراءت جائز نہیں ہے، تاہم متاخرین میں سے مولانا عبد الحئی لکھنویؒ، مولانا سید انور شاہ صاحب کشمیریؒ، اور مولانا ظفر احمد صاحب عثمانیؒ کے نزدیک سری نمازوں میں قراءت خلف الامام جائز ہے۔

(۲) الاشباہ والنظائر لابن نجیم ۱ ص ۹۷ و ۹۸۔ الاشباہ والنظائر للسیوطی ج ۱ ص ۶۰ ۔ الموسوعۃ الفقہیہ، وزارۃ الاوقاف والشؤون الاسلامیۃ الکویت ج ۱ ص ۱۳۰

(۲) ارشاد الفحول للشوکانی ج ۱ص ۳۷۴

نقد و نظر

(ستمبر ۲۰۰۱ء)

تلاش

Flag Counter