مولانا زاہد الراشدی کی خدمت میں

معز امجد

پچھلے دنوں مولانا زاہد الراشدی صاحب کا ایک مضمون ”غامدی صاحب کے ارشادات پر ایک نظر‘‘ تین قسطوں میں روزنامہ ”اوصاف‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں مولانا محترم نے استاذِ گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی کی بعض آرا پر اظہارِ خیال فرمایا ہے۔ مذکورہ مضمون میں مولانا محترم کے ارشادات سے اگرچہ ہمیں اتفاق نہیں ہے، تاہم ان کی یہ تحریر علمی اختلافات کے بیان اور مخالف نقطہء نظر کی علمی آرا پر تنقید کے حوالے سے ایک بہترین تحریر ہے۔ مولانا محترم نے اپنی بات کو جس سلیقے سے بیان فرمایا اور ہمارے نقطہء نظر پر جس علمی اندازسے تنقید کی ہے، وہ یقیناًموجودہ دور کے علما اور مفتیوں کے لیے ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے۔ مولانا محترم کے اندازِ بیان اور ان کی تنقید کے اسلوب سے جہاں ہمارے دل میں ان کے احترام میں اضافہ ہوا ہے، وہیں اس سے ہمیں اپنی بات کی وضاحت اور مولانا محترم کے فرمودات کا جائزہ لینے کا حوصلہ بھی ملا ہے۔ اس مضمون میں ہم مولانا محترم کے اٹھائے ہوئے نکات کا بالترتیب جائزہ لیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے ہماری دعا ہے کہ وہ صحیح بات کی طرف ہماری رہنمائی فرمائے اور غلط باتوں کے شر سے ہم سب کو محفوظ رکھے۔

علماے دین اور سیاست

سب سے پہلی بات، جس پر مولانا محترم نے تنقید کی ہے، وہ علماے دین کے کام کے حوالے سے استاذِ گرامی کی رائے ہے۔ مولانا محترم کے اپنے الفاظ میں، وہ اس طرح سے ہے:

’’علماے کرام خود سیاسی فریق بننے کی بجائے، حکمرانوں اور سیاست دانوں کی اصلاح کریں تو بہتر ہو گا، مولوی کو سیاست دان بنانے کے بجائے، سیاست دان کو مولوی بنانے کی کوشش کی جائے۔‘‘

مولانا محترم استاذِ گرامی کی اس رائے کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے کہ علماے کرام خود سیاسی فریق بننے کی بجائے، حکمرانوں اور سیاست دانوں کی اصلاح کریں، تو اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ یہ موقع ومحل اور حالات کی مناسبت کی بات ہے اور دونوں طرف اہلِ علم اور اہلِ دین کا اسوہ موجود ہے۔ امت میں اکابر اہلِ علم کا ایک بہت بڑا طبقہ ہے جس نے حکمرانوں کے خلاف سیاسی فریق بننے کی بجائے ان کی اصلاح اور رہنمائی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ لیکن ایسے اہلِ علم بھی امت میں رہے ہیں، جنھوں نے اصلاح کے دوسرے طریقوں کو کامیاب نہ ہوتا دیکھ کرخود فریق بننے کا راستہ اختیار کیا ہے ... اس لیے اگر کسی دور میں علماے کرام یہ سمجھیں کہ خود فریق بنے بغیر معاملات کی درستی کا امکان کم ہے تو اس کا راستہ بھی موجود ہے اور اس کی مطلقاً نفی کر دینا دین کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔‘‘

ہمیں مولانا محترم کی محولہ عبارت سے بہت حد تک اتفاق ہے۔ علماے دین کا سیاسی اکھاڑوں میں اترنے کا مسئلہ، جیسا کہ استاذِ گرامی کے رپورٹ کیے گئے بیان سے بھی واضح ہے، حرمت و حلت کا مسئلہ نہیں ہے۔ استاذِ گرامی کا نقطہء نظر یہ نہیں ہے کہ علما کا سیاست کے میدان میں اترنا حرام ہے، اس کے برعکس، ان کی رائے یہ ہے کہ سیاست کے میدان میں اترنے کے بجائے، یہ ’بہتر ہوگا‘ کہ علماسیاست دانوں کی اصلاح کریں۔ ظاہر ہے کہ مسئلہ بہتر اور کہتر تدبیر کا ہے، نہ کہ حلال و حرام یا مطلقاً نفی کا۔

یہاں ہم البتہ، یہ بات ضرور واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ قرآنِ مجید میں علماے دین کی جو ذمہ داری بیان ہوئی ہے، وہ اپنی قوم میں آخرت کی منادی کرنا اور اس کے بارے میں اپنی قوم کو انذار کرنا ہے۔ چنانچہ، اپنے کام کے حوالے سے وہ جو رائے بھی قائم کریں اور جس میدان میں اترنے کا بھی وہ فیصلہ کریں، انھیں یہ بات کسی حال میں فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں وہ سب سے پہلے اسی ذمہ داری کے حوالے سے مسؤل ٹھیریں گے جو کتابِ عزیز نے ان پر عائد کی ہے۔ اس وجہ سے انھیں اپنی زندگی اور اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ کرتے ہوئے یہ ضرور سوچ لینا چاہیے کہ کہیں ان کا یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کی عائد کردہ ذمہ داری کو ادا کرنے میں رکاوٹ تو نہیں بن جائے گا۔

ہم یہاں اتنی بات کا اضافہ ضروری سمجھتے ہیں کہ علماے کرام پر قرآنِ مجید نے اصلاحِ احوال کی نہیں، بلکہ اصلاحِ احوال کی جدوجہد کرنے کی ذمہ داری عائد کی ہے۔ مولانا محترم اگر غور فرمائیں، تو ان دونوں باتوں میں بہت فرق ہے۔ پہلی صورت میں منزلِ مقصود اصلاحِ احوال، جبکہ دوسری صورت میں اصلاح کی جدوجہد ہی راستہ اور اس راستے کا سفر ہی اصل منزل ہے۔ چنانچہ، ہمارے نزدیک، معاملات کی درستی کے امکانات خواہ بظاہر ناپید ہی کیوں نہ ہوں، علماے دین کا کام کامیابی کے امکانات کا جائزہ لینا نہیں، بلکہ اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آنے تک اس کی ڈالی ہوئی ذمہ داری کو بہتر سے بہتر طریقے پر ادا کرتے چلے جانا ہے۔ اس معاملے میں قرآنِ مجید نے ان لوگوں کا بطورِ مثال، خاص طور پر ذکر کیا ہے، جو یہود کی ایک بستی میں آخرت کی منادی کرتے تھے۔ یہ یہود کی اخلاقی پستی کا وہ دور تھا کہ اصلاح کی اس جدوجہد کی کامیابی کا سرے سے کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا۔ چنانچہ، جب بستی والوں نے ان مصلحین سے یہ پوچھا کہ ناامیدی کی اس تاریکی میں وہ یہ کام آخر کس لیے کر تے چلے جا رہے ہیں، تو انھوں نے جواب دیا:

مَعْذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمْ۔ (الاعراف ۷: ۱۶۴)

’’اس لیے کہ تمھارے رب کے حضور یہ ہمارے لیے عذر بن سکے(کہ ہم نے اپنے کام میں کوئی کمی نہیں کی)۔‘‘

قرآنِ مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت و انذار کے معاملے میں انبیاے کرام کا اسوہ بھی یہی رہا ہے۔ حالات کی نامساعدت اور کامیابی کی امید کے فقدان کو انھوں نے اپنے لیے کبھی رکاوٹ نہیں سمجھا۔ وہ اللہ کی طرف سے فیصلہ آنے تک اسی کام پر لگے رہے جس کا پروردگارِ عالم نے انھیں حکم دیا تھا۔ اس میدانِ عمل کا اسوۂ حسنہ یہی ہے۔ اس کی راہ پر چل نکلنا ہی منزل اور اس راہ میں اٹھایا ہوا ہر قدم ہی اصل کامیابی ہے۔

زکوٰۃ اور ٹیکس

اخبار کے بیان کے مطابق، استاذِگرامی نے کہا ہے:

’’زکوٰۃ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ٹیکسیشن کو ممنوع قرار دے کر حکمرانوں سے ظلم کا ہتھیار چھین لیا ہے۔‘‘

مولانا محترم اس بیان کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’... لیکن کیا کسی ضرورت کے موقع پر (زکوٰۃ کے علاوہ) اور کوئی ٹیکس لگانے کی شرعاً ممانعت ہے؟ اس میں ہمیں اشکال ہے۔ اگر غامدی صاحب محترم اللہ تعالیٰ کی طرف سے زکوٰۃ کے بعد کسی اور ٹیکسیشن کی ممانعت پر کوئی دلیل پیش فرما دیں، تو ان کی مہربانی ہو گی اور اس باب میں ہماری معلومات میں اضافہ ہو جائے گا۔‘‘

استاذِ گرامی اپنی بہت سی تحریروں میں اپنی رائے کی بنیاد واضح کر چکے ہیں۔ اپنے مضمون ’قانونِ معیشت‘ میں وہ لکھتے ہیں:

فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلوٰۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَھُمْ۔ (التوبۃ ۹: ۵)

’’پھر اگر وہ توبہ کر لیں، نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔‘‘

سورۂ توبہ میں یہ آیت مشرکینِ عرب کے سامنے ان شرائط کی وضاحت کے لیے آئی ہے جنھیں پورا کر دینے کے بعد وہ مسلمانوں کی حیثیت سے اسلامی ریاست کے شہری بن سکتے ہیں۔ اس میں ’فخلوا سبیلہم‘ (ان کی راہ چھوڑ دو) کے الفاظ اگر غور کیجیے تو پوری صراحت کے ساتھ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ آیت میں بیان کی گئی شرائط پوری کرنے کے بعد جو لوگ بھی اسلامی ریاست کی شہریت اختیار کریں، اس ریاست کا نظام جس طرح ان کی جان، آبرو اور عقل و رائے کے خلاف کوئی تعدی نہیں کر سکتا، اسی طرح ان کی املاک، جائدادوں اور اموال کے خلاف بھی کسی تعدی کا حق اس کو حاصل نہیں ہے۔ وہ اگر اسلام کے ماننے والے ہیں، نماز پر قائم ہیں اور زکوٰۃ دینے کے لیے تیار ہیں تو عالم کے پروردگار کا حکم یہی ہے کہ اس کے بعد ان کی راہ چھوڑ دی جائے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمانِ واجب الاذعان کی رو سے ایک مٹھی بھر گندم، ایک بالشت زمین، ایک پیسا، ایک حبہ بھی کوئی ریاست اگر چاہے تو ان کے اموال میں سے زکوٰۃ لے لینے کے بعد بالجبر ان سے نہیں لے سکتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت میں فرمایا ہے:

امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدوا ان لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ ویقیموا الصلوٰۃ ویؤتوا الزکوٰۃ فاذا فعلوا عصموا منی وماء ہم واموالہم الا بحقہا وحسابہم علی اللہ۔ (مسلم، کتاب الایمان)

’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروںیہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ وہ یہ شرائط پوری کر لیں تو ان کی جانیں اور ان کے اموال مجھ سے محفوظ ہو جائیں گے، الا یہ کہ وہ ان سے متعلق کسی حق کے تحت اس سے محروم کر دیے جائیں۔ رہا ان کا حساب تو وہ اللہ کے ذمے ہے۔‘‘

یہی بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر نہایت بلیغ اسلوب میں اس طرح بیان فرمائی ہے:

ان دماء کم واموالکم حرام علیکم لحرمۃ یومکم ھذا فی شھرکم ھذا فی بلدکم ھذا۔ (مسلم، کتاب الحج)

’’بے شک، تمھارے خون اور تمھارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں،(۱)  جس طرح تمھارا یہ دن (یوم النحر) تمھارے اس مہینے (ذوالحجہ) اور تمھارے اس شہر (ام القری مکہ) میں۔‘‘

اس سے واضح ہے کہ اس آیت کی رو سے اسلامی ریاست زکوٰۃ کے علاوہ جس کی شرح اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کی وساطت سے مختلف اموال میں مقرر کر دی ہے، اپنے مسلمان شہریوں پر کسی نوعیت کا کوئی ٹیکس بھی عائد نہیں کر سکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

اذا ادیت زکوٰۃ مالک فقد قضیت ما علیک۔ (ترمذی، کتاب الزکوٰۃ)

’’جب تم اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرتے ہو، تو وہ ذمہ داری پوری کر دیتے ہو جو (ریاست کی طرف سے) تم پر عائد ہوتی ہے۔‘‘

اسی طرح آپ نے فرمایا ہے:

لیس فی المال حق سوی الزکوٰۃ۔ (ابنِ ماجہ، کتاب الزکوٰۃ)

’’لوگوں کے مال میں زکوٰۃ کے سوا (حکومت کا) کوئی حق قائم نہیں ہوتا۔‘‘

اربابِ اقتدار اگر اپنی قوت کے بل بوتے پر اس حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو یہ ایک بد ترین معصیت ہے جس کا ارتکاب کوئی ریاست اپنے شہریوں کے خلاف کر سکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

لا یدخل الجنۃ صاحب مکس۔ (ابو داؤد، کتاب الخراج والامارۃ والفء)

’’کوئی ٹیکس وصول کرنے والا جنت میں داخل نہ ہو گا۔‘‘

اسلام کا یہی حکم ہے جس کے ذریعے سے وہ نہ صرف یہ کہ عوام اور حکومت کے مابین مالی معاملات سے متعلق ہر کشمکش کا خاتمہ کرتا، بلکہ حکومتوں کے لیے اپنی چادر سے باہر پاؤں پھیلا کر قومی معیشت میں عدمِ توازن پیدا کردینے کا ہر امکان بھی ہمیشہ کے لیے ختم کر دیتا ہے۔

تاہم اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ مال سے متعلق اللہ پروردگارِ عالم کے مطالبات بھی اس پر ختم ہو جاتے ہیں۔ قرآن میں تصریح ہے کہ اس معاملے میں اصل مطالبہ انفاق کا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح یہ فرمایا ہے کہ مال میں زکوٰۃ ادا کر دینے کے بعد حکومت کا کوئی حق باقی نہیں رہتا، اسی طرح یہ بھی فرمایا ہے:

ان فی المال حقاً سوی الزکوٰۃ۔ (ترمذی، کتاب الزکوٰۃ)

’’بے شک، مال میں زکوٰۃ کے بعد بھی (اللہ کا) ایک حق قائم رہتا ہے۔‘‘

(ماہنامہ ”اشراق“، اکتوبر ۱۹۹۸، ص۲۹۔ ۳۲)

امید ہے کہ دیے گئے اقتباس سے مولانا محترم پر استاذِ گرامی کا استدلال پوری طرح سے واضح ہو جائے گا۔ مولانا محترم سے ہماری گزارش ہے کہ وہ اس استدلال میں اگر کوئی خامی دیکھیں، تو ہمیں اس سے ضرور آگاہ فرمائیں۔

جہاد اور مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی

اخبار کے بیان کے مطابق، استاذِ محترم نے کہا ہے:

’’جہاد تبھی جہاد ہوتا ہے، جب مسلمانوں کی حکومت اس کا اعلان کرے۔ مختلف مذہبی گروہوں اور جتھوں کے جہاد کو جہاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘

مولانا محترم، استاذِگرامی کی بات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’... جہاد کی مختلف عملی صورتیں اور درجات ہیں اور ہر ایک کا حکم الگ الگ ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کسی ملک یا قوم کے خلاف جہاد کا اعلان اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ایک اسلامی یا کم از کم مسلمان حکومت اس کا اعلان کرے، لیکن جب کسی مسلم آبادی پر کفار کی یلغار ہو جائے اور کفار کے غلبے کی وجہ سے مسلمان حکومت کا وجود ختم ہو جائے یا وہ بالکل بے بس دکھائی دینے لگے، تو غاصب اور حملہ آور حکومت کے خلاف جہاد کے اعلان کے لیے پہلے حکومت کا قیام ضروری نہیں ہو گا اور نہ ہی عملاً ایسا ممکن ہوتا ہے کیونکہ اگر ایسے مرحلہ میں مسلمانوں کی اپنی حکومت کا قیام قابلِ عمل ہو تو کافروں کی یلغار اور تسلط ہی بے مقصد ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ صورت پیدا ہی اس وقت ہوتی ہے جب مسلمانوں کی حکومت کفار کے غلبہ اور تسلط کی وجہ سے ختم ہو جائے، بے بس ہو جائے یا اسی کافر حکومت کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر رہ جائے۔

سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں کیا کیا جائے گا؟ اگر جاوید غامدی صاحب محترم کا فلسفہ تسلیم کر لیا جائے تو یہ ضروری ہو گا کہ مسلمان پہلے اپنی حکومت قائم کریں اور اس کے بعد اس حکومت کے اعلان پر جہاد شروع کیا جائے۔ لیکن پھر یہ سوال اٹھ کھڑا ہو گا کہ جب مسلمانوں نے اپنی حکومت بحال کر لی ہے تو اب جہاد کے اعلان کی ضرورت ہی کیا باقی رہ گئی ہے؟ کیونکہ جہاد کا مقصد تو کافروں کا تسلط ختم کر کے مسلمانوں کا اقتدار بحال کرنا ہے اور جب وہ کام جہاد کے بغیر ہی ہو گیا ہے تو جہاد کے اعلان کا کون سا جواز باقی رہ جاتا ہے؟‘‘

مولانا محترم کی یہ بات کہ کسی قوم یا ملک کے خلاف جہاد تو بہرحال مسلمان حکومت ہی کی طرف سے ہو سکتا ہے، ہمارے لیے باعثِ صد مسرت ہے۔ ہم اسے بھی غنیمت سمجھتے ہیں کہ موحودہ حالات میں مولانا نے اس حد تک تو تسلیم کیا کہ کسی ملک وقوم کے خلاف جہاد مسلمان حکومت ہی کر سکتی ہے۔ چنانچہ اب ہمارے اور مولانا کے درمیان اختلاف صرف اسی مسئلے میں ہے کہ اگر کبھی مسلمانوں پر کوئی بیرونی قوت اس طرح سے تسلط حاصل کر لے کہ مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی اس کے آگے بالکل بے بس ہو جائے تو اس صورت میں عام مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ یہ واضح رہے کہ ایسے حالات میں مولانا ہی کی بات سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ بیرونی طاقت کے خلاف اگر مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی اپنی سلطنت کے دفاع کا انتظام کرنے کو آمادہ ہو تو اس صورت میں بھی مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی ہی کی طرف سے کی جانے والی جدوجہد ہی اس بات کی مستحق ہو گی کہ اسے جہاد قرار دیا جائے۔ مزید برآں ایسے حالات میں نظمِ اجتماعی سے ہٹ کر، جتھہ بندی کی صورت میں کی جانے والی ہر جدوجہد، غلط قرار پائے گی۔ اگرچہ ہمیں یقین ہے کہ مولانا کو ہماری اس بات سے اتفاق ہو گا، تاہم پھر بھی ہم یہ چاہیں گے کہ مولانا ہمارے اس خیال کی تصدیق یا تردید ضرور فرما دیں، تاکہ اس معاملے میں قارئین کے ذہن میں بھی کوئی شک باقی نہ رہے۔ چنانچہ ہمارے فہم کی حد تک، اب ہمارے اور مولانا کے درمیان اختلاف صرف اس صورت سے متعلق ہے جب مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی، کسی بھی وجہ سے، بیرونی طاقت کے تسلط کے خلاف جدوجہد کرنے سے قاصر ہو۔ مولانا کے نزدیک اس صورت میں مسلمانوں کو ہر حال میں اپنی سلطنت کے دفاع کی جدوجہد کرنی چاہیے، خواہ یہ جدوجہد غیر منظم جتھہ بندی ہی کی صورت میں کیوں نہ ہو۔ مزید یہ کہ اس ضمن میں جو منظم یا غیر منظم جدوجہد بھی مسلمانوں کی طرف سے کی جائے گی، وہ مولانا محترم کے نزدیک ’جہاد ‘ہی قرار پائے گی۔

مولانا محترم نے اپنی بات کی وضاحت میں فلسطین، برِ صغیر پاک وہند، افغانستان اور الجزائرکی کامیاب جدوجہدِ آزادی اور دمشق کے عوام میں تاتاریوں کے خلاف کامیابی کے ساتھ جہاد کی روح پھونکنے کے معاملے میں ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ کی کوششوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ ہم اپنا نقطہء نظر بیان کرنے سے پہلے، تین باتوں کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں: اول یہ کہ مولانا محترم نے جتنے واقعات کا حوالہ دیا ہے، ان سب کی مولانا محترم کی رائے سے مختلف توجیہ نہ صرف یہ کہ کی جا سکتی بلکہ کی گئی ہے۔ دوم یہ کہ کسی جدوجہد کی اپنے مقصد کے حصول میں کامیابی، اس جدوجہد کے شریعتِ اسلامی کے مطابق ہونے کی دلیل نہیں ہوتی اور نہ کسی جدوجہد کی اپنے مقصد کے حصول میں ناکامی اس کے خلافِ شریعت ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔ اور سوم یہ کہ عام انسانوں کی بات بے شک مختلف ہو گی، مگر مولانا محترم جیسے اہلِ علم سے ہماری توقع یہی ہے کہ وہ اہلِ علم کے عمل سے شریعت اخذ کرنے کے بجائے، شریعت کی روشنی میں اس عمل کا جائزہ لیں۔ اگر شریعتِ اسلامی کے بنیادی ماخذوں، یعنی قرآن و سنت، میں اس عمل کی بنیاد موجود ہے تو اسے شریعت کے مطابق اور اگر ایسی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے تو بغیر کسی تردد کے اسے شریعت سے ہٹا ہوا قرار دیں۔ ’جہاد‘ یا ’قتال‘ شریعتِ اسلامی کی اصطلاحات ہیں۔ ان اصطلاحات کی تعریف یا ان کے بارے میں تفصیلی قانون سازی کا ماخذ اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبروں کا اسوہ اور ان کی جاری کردہ سنت ہی ہو سکتی ہے۔ فلسطینی مسلمانوں کی جدوجہد ہو یا برِ صغیر پاک و ہند، افغانستان، الجزائریا دمشق کے مسلمانوں کی، یہ جدوجہد جہاد و قتال کی تعریف اور قانون سازی کا ماخذ نہیں، بلکہ خود اس بات کی محتاج ہے کہ شریعت کے بنیادی ماخذوں کی روشنی میں اس کی صحت یا عدمِ صحت کا فیصلہ کیا جائے۔ مولانا یقیناًاس بات سے اتفاق کریں گے کہ شریعتِ اسلامی مسلمانوں کے عمل سے نہیں، بلکہ مسلمانوں کا عمل شریعتِ اسلامی سے ماخوذ ہوناچاہیے۔ وہ یقیناًاس بات کو تسلیم کریں گے کہ شریعتِ اسلامی کے فہم کی اہمیت اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے ہر قسم کے جذبات و تعصبات سے بالا ہو کر پوری دیانت داری کے ساتھ پہلے سمجھ لیا جائے اور پھر پورے جذبے کے ساتھ اس پر عمل کیا جائے۔ جذبات و تعصبات سے الگ ہو کر غور کرنے کے لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے بات کو اصولی سطح پر سمجھ لیا جائے۔ اس کے بعد بھی اگر ضروری محسوس ہو تو فلسطین، برصغیر پاک و ہند، افغانستان، الجزائر اور دمشق کے مسلمانوں کی جدوجہد کو شریعت سے مستنبط اصولی رہنمائی کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔

اس وضاحت کے بعد، اب آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ اللہ کی کتاب قرآنِ مجید اور اس کے پیغمبروں کا اسوہ اور ان کی جاری کردہ سنت زیرِ غور مسئلے میں ہمیں کیا رہنمائی دیتے ہیں:

سب سے پہلی صورت جو ہمارے اور مولانا محترم کے درمیان متفق علیہ ہے، یہ ہے کہ کسی قوم و ملک کے خلاف جارحانہ اقدام اسی صورت میں ’جہاد‘ کہلانے کا مستحق ہو گا، جب یہ مسلمانوں کی کسی حکومت کی طرف سے ہو گا۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں بھی منظم حکومت کی طرف سے ہونا، اس اقدام کے جواز کی شرائط میں سے ایک شرط ہی ہے۔ بات یوں نہیں ہے کہ مسلمانوں کی منظم حکومت کی طرف سے کیا گیا ہر اقدام ’جہاد‘ ہی ہوتا ہے، بلکہ یوں ہے کہ ’جہاد‘ صرف مسلمانوں کی منظم حکومت ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔

دوسری صورت، جس کا اگرچہ مولانا محترم نے اپنی تحریر میں ذکر تو نہیں کیا، تاہم ان کی باتوں سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ اس میں بھی ہمارے اور ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، وہ یہ ہے کہ جب کسی مسلمان ریاست کے خلاف جارحانہ اقدام کیا جائے اور اس کا نظمِ اجتماعی اپنا دفاع کرنے کے لیے تیار ہو اور اس مقصد کے لیے جارح قوم کے خلاف میدانِ جنگ میں اترے، تو اس صورت میں بھی مسلمانوں کی منظم حکومت ہی کی طرف سے کیا گیا اقدام ’جہاد‘ کہلانے کا مستحق ہو گا۔ اس صورت میں تمام مسلمانوں کے لیے لازم ہو گا کہ وہ اپنے نظمِ اجتماعی ہی کے تحت منظم طریقے سے اپنے ملک و قوم کا دفاع کریں اور اس سے الگ ہو کر کسی خلفشار کا باعث نہ بنیں۔ یہ صورت، اگر غور کیجیے، تو پہلی صورت ہی کی ایک فرع ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ معاملہ خواہ قوم کے دفاع کا ہویا کسی جائز مقصد سے کسی دوسری قوم کے خلاف جارحانہ اقدام کا، دونوں ہی صورتوں میں یہ چونکہ مسلمانوں کی اجتماعیت سے متعلق ہے، لہٰذا اس کے انتظام کی ذمہ داری اصلاً ان کی اجتماعیت ہی پر ہے۔ اس طرح کے موقعوں پر عام مسلمانوں کو دین و شریعت کی ہدایت یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنے ملک و قوم کی خدمت کے لیے پیش کر دیں، اپنے حکمرانوں (اولوالامر) کی اطاعت کریں اور ہر حال میں اپنے نظمِ اجتماعی (الجماعۃ) کے ساتھ منسلک رہیں۔ ان کا نظمِ اجتماعی انھیں جس محاذ پر فائز کرے، وہ وہیں سینہ سپر ہوں، ان کا نظمِ اجتماعی جب انھیں پیش قدمی کا حکم دے تو اسی موقع پر وہ پیش قدمی کریں اور اگر کبھی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ان کا اجتماعی نظم انھیں دشمن کے آگے ہتھیار ڈال دینے کا حکم دے، تو وہ اپنے ملک و قوم ہی کی اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے، اس ذلت کو بھی برداشت کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔

منظم اجتماعی دفاع و اقدام کی ان دو واضح صورتوں کے علاوہ اندرونی یا بیرونی قوتوں کے جبر و استبداد کی بہت سی دوسری صورتیں بھی ہو سکتی ہیں۔ ہمارے اور مولانا محترم کے درمیان اختلاف اصلاً انھی دوسری صورتوں سے متعلق ہے۔ مولانا محترم کے نزدیک، اوپر دی ہوئی دونوں صورتوں کو چھوڑ کر، جبر و استبداد کی باقی صورتوں میں مسلمانوں کو گروہوں، جتھوں اور ٹولوں کی صورت میں اپنا دفاع اور آزادی کی جدوجہد کرنی چاہیے اور اس صورتِ حال میں یہی جدوجہد ’جہاد‘ قرار پائے گی۔ ہمارے نزدیک، مولانا محترم کی یہ رائے صحیح نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک، ایسی صورتِ حال میں بھی دین و شریعت کی ہدایت وہی ہے، جو پہلی دو صورتوں میں ہمارے اور مولانا محترم کے درمیان متفق علیہ ہے۔ شاید یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ دین و شریعت کی رو سے جہاد و قتال کی غیر منظم جدوجہد، بالعموم، جن ہمہ گیر اخلاقی و اجتماعی خرابیوں کو جنم دیتی ہے، شریعتِ اسلامی انھیں کسی بڑی سے بڑی منفعت کے عوض بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ قرآنِ مجید اور انبیاے کرام کی معلوم تاریخ سے یہ بات بالکل واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جبر و استبداد کی قوتوں کے خلاف، خواہ یہ قوتیں اندرونی ہوں یا بیرونی، اسی صورت میں تلوار اٹھانے کا حکم اور اس کی اجازت دی، جب مسلمان اپنی ایک خودمختار ریاست قائم کر چکے تھے۔ اس سے پہلے کسی صورت میں بھی انبیاے کرام کو کسی جابرانہ تسلط کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

جابرانہ تسلط میں حالات کی رعایت سے جو صورتیں پیدا ہوتی ہیں، وہ درجِ ذیل ہیں:

۱۔ جہاں محکوم قوم کو اپنے مذہب و عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی حاصل ہو۔

۲۔ جہاں محکوم قوم کو اپنے مذہب و عقیدے پر عمل کرنے کی اجازت حاصل نہ ہو۔

پہلی صورت میں جابرانہ تسلط سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کرنا ہر محکوم قوم کا حق تو بے شک ہے، مگر یہ دین کا تقاضا نہیں ہے۔ چنانچہ اسی اصول پر حضرتِ مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کی بعثت کے موقع پر اگرچہ بنی اسرائیل رومی سلطنت کے محکوم ہو چکے تھے، تاہم اللہ کے اس پیغمبر نے انھیں نہ کبھی رومی تسلط کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے کا مشورہ دیا اور نہ خود ہی ایسی کسی جدوجہد کی بنا ڈالی۔ ظاہر ہے کہ اگر ایسے حالات میں آزادی کی جدوجہد کو دین میں مطلوب و مقصود کی حیثیت حاصل ہوتی، تو حضرتِ مسیح جیسے اولو العزم پیغمبر سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ دین کے اس مطلوب و مقصود سے گریز کی راہ اختیار کرتے۔ اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایسی صورتِ حال میں آزادی کی جدوجہد دین و شریعت کا تقاضا نہیں ہے۔ اس بات سے بہرحال اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ ایسی صورتِ حال میں بھی آزادی کی جدوجہد ہر قوم کا فطری حق ہے۔ وہ یقیناًیہ حق رکھتی ہے کہ اس جابرانہ تسلط سے چھٹکارا پانے کی جدوجہد کرے۔ مگر چونکہ یہ جدوجہد دین کا تقاضا نہیں ہے، اس وجہ سے یہ ضروری ہے کہ اسے نہ صرف پرامن بنیادوں ہی پر استوار کیا جائے، بلکہ اس بات کا بھی پوری طرح سے اہتمام کیا جائے کہ مسلمانوں کے کسی اقدام کی وجہ سے کسی مسلم یا غیر مسلم کا خون نہ بہنے پائے۔ اس جدوجہد میں مسلمانوں کے رہنماؤں کو یہ بات بہرحال فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دین و شریعت میں جان و مال کی حرمت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ انھیں ہر حال میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان کے کسی اقدام کے نتیجے میں جان و مال کی یہ حرمت اگر ناحق پامال ہوئی، تو اس بات کا شدید اندیشہ ہے کہ وہ اپنے اس اقدام کے لیے اللہ کے حضور میں مسؤل قرار پا جائیں۔ جان و مال کی یہ حرمت اگر کسی فرد یا قوم کے معاملے میں ختم ہو سکتی ہے تو شریعت ہی کی دی ہوئی رہنمائی میں ختم ہو سکتی ہے۔ چنانچہ، ظاہر ہے کہ جبر و تسلط کی اس پہلی صورت میں اگر آزادی کی جدوجہد دین و شریعت کا تقاضا نہیں ہے تو پھر اس کے لیے کیے گئے کسی جارحانہ اقدام کو نہ ’جہاد‘ قرار دیا جا سکتا اور نہ اس راہ میں لی گئی کسی جان کو جائز ہی ٹھیرایا جا سکتا ہے۔

دوسری صورت وہ ہے کہ جب کسی دوسری قوم پر جابرانہ تسلط ایسی صورت اختیار کر لے کہ محکوم قوم کے باشندوں کو اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اجازت حاصل نہ ہو۔ اس صورت میں محکوم قوم کے امکانات کے لحاظ سے دو ضمنی صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں:

۱۔ جہاں محکوم قوم کے لیے جابرانہ تسلط کے علاقے سے ہجرت کر جانے کی راہ موجود ہو۔

۲۔ جہاں محکوم قوم کے لیے ہجرت کی راہ مسدود ہو۔

اگر مذہبی جبر اور استبداد کے دور میں لوگوں کے لیے اپنے علاقے سے ہجرت کر جانے اور کسی دوسرے علاقے میں اپنے دین پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزارنے کی راہ کھلی ہو، تو اس صورت میں دین کا حکم یہ ہے کہ لوگ اللہ کے دین پر آزادی کے ساتھ عمل کرنے کی خاطر، اپنے ملک اور اپنی قوم کو اللہ کے لیے چھوڑ دیں۔ قرآنِ مجید کے مطابق ایسے حالات میں ہجرت نہ کرنا اور اس کے نتیجے میں اپنے آپ کو مذہبی جبر اور استبداد کا نشانہ بنے رہنے دینا جہنم میں لے جانے کا باعث بن سکتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَآءِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ قَالُوْ فِیْمَ کُنْتُمْ، قَالُوْا کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ قَالُوْآ اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَا جِرُوْا فِیْھَا فَاُولٰٓءِکَ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَسَآءَ تْ مَصِیْرًا۔ (النساء ۴: ۹۷)

’’بے شک، جن لوگوں کو فرشتے اس حال میں موت دیں گے کہ وہ (ظلم و جبر کے باوجود یہیں بیٹھے) اپنی جانوں پر ظلم ڈھا رہے ہوں گے، تو وہ ان سے پوچھیں گے: ’تم کہاں پڑے رہے؟‘ وہ کہیں گے: ’ہم اپنی زمین میں کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں رکھتے تھے‘۔ فرشتے ان سے پوچھیں گے: ’کیا اللہ کی زمین اتنی وسیع نہ تھی کی تم اس میں (کہیں اور) ہجرت کر جاتے؟‘ چنانچہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے۔‘‘

ہجرت کی یہی صورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی زندگیوں میں پیش آئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ ہجرت مصر سے صحراے سینا کی طرف تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت نے یثرب کو مدینۃ النبی بننے کا شرف بخشا۔ یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اس ہجرت سے پہلے نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جاں نثار ساتھیوں کو جبر وا ستبداد کے خلاف کسی جہاد کے لیے منظم کیا اور نہ حضرت موسیٰ ہی نے اس طرح کی کسی جہادی کارروائی کی روح اپنی قوم میں پھونکی۔ اللہ تعالیٰ کے ان جلیل القدر پیغمبروں کا اسوہ یہی ہے کہ ظلم و استبداد کی بدترین تاریکیوں میں بھی انھوں نے فدائین کے جتھے، گروہ اور ٹولے تشکیل دینے کے بجائے، صبر واستقامت سے دار الہجرت کے میسر آنے کا انتظار کیا اور اس وقت تک ظلم و جبر کے خاتمے کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی جب تک اللہ کی زمین پر انھیں ایک خود مختار ریاست کا اقتدار نہیں مل گیا۔

اس کے برعکس، اگر ایسے حالات میں دارالہجرت میسر نہ ہو یا کسی اور وجہ سے ہجرت کرنے کی راہیں مسدود ہوں، تو اس صورت میں بھی قرآنِ مجید میں دو امکانات بیان ہوئے ہیں: اولاًیہ کہ ان حالات میں ظلم و استبداد کا نشانہ بنے ہوئے یہ لوگ کسی منظم اسلامی ریاست کو اپنی مدد کے لیے پکاریں۔ ایسے حالات میں قرآنِ مجید نے اس اسلامی ریاست کو، جسے لوگ مدد کے لیے پکاریں، یہ حکم دیا ہے کہ اگر اس کے لیے اس جابرانہ اور استبدادی حکومت کے خلاف ان مسلمانوں کی مدد کرنی ممکن ہو تو پھر اس پر لازم ہے کہ وہ یہ مدد کرے، الا یہ کہ جس قوم کے خلاف اسے مدد کرنے کے لیے پکارا جا رہا ہے، اس کے اور مسلمانوں کی اس ریاست کے مابین جنگ بندی کا معاہدہ موجود ہو۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یُہَاجِرُوْا مَا لَکُمْ مِّنْ وَّلَایَتِہِمْ مِّنْ شَیْ ءٍ حَتّٰی یُھَاجِرُوْا وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ اِلاَّ عَلٰی قوَمٍْ م بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَھُمْ مِّیْثَاقٌ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۔ (الانفال ۸: ۷۲)

’’وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں، مگر جنھوں نے ہجرت نہیں کی، تم پر ان کی اس وقت تک کسی قسم کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے جب تک وہ ہجرت کر کے تمھارے پاس نہ آ جائیں۔ البتہ، وہ اگر تمھیں دین کے نام پر مدد کے لیے پکاریں، تو تم پر ان کی مدد کرنے کی ذمہ داری ہے، الا یہ کہ جس قوم کے خلاف وہ تمھیں مدد کے لیے پکاریں، اس کے اور تمھارے درمیان کوئی معاہدہ موجود ہو۔ اور یاد رکھو، جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘

پھر ایک اور مقام پر وقت کی اسلامی ریاست کو ان مجبور مسلمانوں کی مدد پر ابھارتے ہوئے فرمایا:

وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیّاً وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا۔ (النساء ۴: ۷۵)

’’اور تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے جنگ نہیں کرتے جو دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار، ہمیں اس ظالم باشندوں کی بستی سے نکال اور ہمارے لیے اپنے پاس سے ہمدرد پیدا کر اور ہمارے لیے اپنے پاس سے مددگار کھڑے کر۔‘‘

ثانیاً یہ کہ ظلم و استبداد کے ان حالات میں ان کے لیے مسلمانوں کی کسی منظم ریاست سے مدد طلب کرنے یا کسی ریاست کے ان کی مدد کو آنے کا امکان موجود نہ ہو۔ ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ لوگ صبر و استقامت کے ساتھ ان حالات کو برداشت کریں، یہاں تک کہ آں سوے افلاک سے ان کی آزمایش کے خاتمے کا فیصلہ صادر ہو جائے۔ قرآنِ مجید میں حضرت شعیب علیہ الصلاۃ والسلام کی سرگزشت بیان کرتے ہوئے ان کے حوالے سے فرمایا ہے:

وَاِنْ کَانَ طَآءِفَۃٌ مِّنْکُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِیْٓ اُرْسِلْتُ بِہٖ وَطَآءِفَۃٌ لَّمْ یُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰہُ بَیْنَنَا وَ ھُوَ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ۔ (الاعراف ۷: ۸۷)

’’اور اگر تم میں سے ایک گروہ اس بات پر ایمان لے آئے جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا ہے اور ایک گروہ اسے ماننے سے انکار کرے، تو (ایمان لانے والوں کو چاہیے کہ) وہ صبر کریں، یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ فرما دے۔ اور یقیناً اللہ بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے۔‘‘

مولانا حمید الدین فراہی اسی صورتِ حال کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’... اپنے ملک کے اندر بغیر ہجرت کے جہاد جائز نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سرگزشت اور ہجرت سے متعلق دوسری آیات سے یہی حقیقت واضح ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاد اگر صاحبِ جمیعت اور صاحبِ اقتدار امیر کی طرف سے نہ ہو تو وہ محض شورش و بد امنی اور فتنہ و فساد ہے۔‘‘ (مجموعہء تفاسیرِ فراہی، ص۵۶)

قرآنِ مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاے کرام کے حوالے سے، ظلم و استبداد کی مذکورہ صورتیں اور ان صورتوں کا مقابلہ کرنے میں اللہ کے ان جلیل القدر پیغمبروں کا اسوہ بیان ہوا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ مولانا محترم پیغمبروں کے اس اسوہ سے جہاد و قتال کے احکام کا استنباط کرنے کے بجائے، مسلمان قوموں کی تحریک ہاے آزادی ہی سے جہاد کی مختلف صورتیں اور ان کے احکام اخذ کرنے پر کیوں مصر ہیں۔ ہم البتہ یہاں اس بات کی طرف اشارہ ضروری سمجھتے ہیں کہ دنیا میں جب کبھی غیر مقتدر گروہوں کی طرف سے تلوار اٹھائی گئی ہے، تو اس اقدام نے آزادی کی تحریک کو کوئی فائدہ پہنچایا ہو یا نہ پہنچایا ہو، ظلم و جبر کی قوتوں کو بے گناہ شہریوں، عورتوں اور بچوں پر ظلم و جبر کے مزید پہاڑ گرانے کا جواز ضرور فراہم کیا ہے۔ لوگ خواہ اس قسم کی قتل و غارت کو جبر و استبداد کی بڑھتی ہوئی لہریں قرار دے کر اپنے دلوں کو کتنی ہی تسلی دیتے رہیں، ہمیں یہ بات بہرحال فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دین و شریعت سے اعراض کر کے، اپنی بے تدبیری اور بے حکمتی کے ساتھ امن و امان کی فضا خراب کر کے ظلم و جبر کو اخلاقی جواز فراہم کرنا، کسی حال میں بھی ظلم و جبر کا ساتھ دینے سے کم نہیں ہے۔

فتووں پر پابندی

اخبار کے بیان کے مطابق، استاذِگرامی نے کہا ہے:

’’فتووں کا بعض اوقات انتہائی غلط استعمال کیاجاتا ہے۔ اس لیے فتویٰ بازی کو اسلام کی روشنی میں ریاستی قوانین کے تابع بنانا چاہیے اور مولویوں اور فتووں کے خلاف بنگلہ دیش میں (عدالت کا) فیصلہ صدی کا بہترین فیصلہ ہے۔‘‘

مولانا محترم استاذِ گرامی کی اس رائے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’جہاں تک اس شکایت کا تعلق ہے کہ ہمارے ہاں بعض فتووں کا انتہائی غلط استعمال ہوتا ہے ہمیں اس سے اتفاق ہے۔ ان فتووں کے نتیجے میں جو خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں، وہ بھی ہمارے سامنے ہیں اور ان خرابیوں کی اصلاح کے لیے غیر سرکاری سطح پر کوئی قابلِ عمل فارمولا سامنے آتا ہے تو ہمیں اس سے بھی اختلاف نہیں ہو گا۔ مگر کسی چیز کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے سرے سے اس کے وجود کو ختم کر دینے کی تجویز ہماری سمجھ سے بالاتر ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ چونکہ ہماری عدالتوں میں رشوت اور سفارش اس قدر عام ہو گئی ہے کہ اکثر فیصلے غلط ہونے لگے ہیں اور عدالتی نظام پر عوام کا اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے اس لیے ان عدالتوں میں بیٹھنے والے ججوں سے فیصلے دینے کا اختیار ہی واپس لے لیا جائے۔ یہ بات نظری طور پر تو کسی بحث و مباحثے کا خوب صورت عنوان بن سکتی ہے، مگر عملی میدان میں اسے بروے کار لانا کس طرح ممکن ہے؟...

اور ”فتویٰ“ تو کہتے ہی کسی مسئلے پر غیر سرکاری ”رائے“ کو ہیں کیونکہ کسی مسئلہ پر حکومت کا کوئی انتظامی افسر جو فیصلہ دے گا، وہ ”حکم“ کہلائے گااور عدالت فیصلہ صادر کرے گی تو اسے ”قضا“ کہا جائے گا اور ان دونوں سے ہٹ کر اگر کوئی صاحبِ علم کسی مسئلے کے بارے میں شرعی طور پر حتمی رائے دے گاتو وہ ”فتویٰ“ کہلائے گا۔ امت کا تعامل شروع سے اسی پر چلا آ رہا ہے کہ حکام حکم دیتے ہیں، قاضی حضرات عدالتی فیصلے دیتے ہیں اور علماے کرام فتوی صادر کرتے ہیں۔‘‘

ہم مولانا محترم کو یقین دلاتے ہیں کہ استاذِگرامی کی مذکورہ رائے بھی اسی قسم کے فتووں سے متعلق ہے، جسے مولانا محترم نے بھی ’فتووں کا انتہائی غلط استعمال‘ قرار دیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مولانا محترم کسی نامعلوم وجہ سے اس ’انتہائی غلط استعمال‘ کی روک تھام کے لیے بھی کسی ’غیر سرکاری‘ فارمولے ہی کے قائل ہیں. جبکہ ہمارے استاذ کے نزدیک فتووں کا یہ ’انتہائی غلط استعمال‘ بالعموم، جن مزید ’انتہائی غلط‘ نتائج و عواقب کا باعث بنتا اور بن سکتا ہے، اس کے پیشِ نظراس کی روک تھام کے لیے سرکاری سطح پرسخت قانون سازی کرنا ضروری ہو گیا ہے۔

ہم یہاں یہ ضروری محسوس کرتے ہیں کہ قارئین پر صحیح اور غلط قسم کے فتووں کا فرق واضح کر دیں۔ اس کے بعد قارئین خود یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ موجودہ دور کے علما میں فتووں کا صحیح اور ’انتہائی غلط‘ استعمال کس تناسب سے ہوتا ہے۔

اس میں شبہ نہیں کہ علماے کرام کی سب سے بڑی اور اہم ترین ذمہ داری، عوام و خواص کے سامنے دینِ متین کی شرح و وضاحت کرنا اور مختلف صورتوں اور احوال کے لیے دین و شریعت کا فیصلہ ان کے سامنے بیان کرنا ہے۔ مثال کے طور پر، یہ علما ہی کا کام ہے کہ وہ نکاح و طلاق کے بارے میں شریعت کے احکام کی وضاحت کریں، یہ انھی کا مقام ہے کہ وہ قتل و سرقہ، قذف و زنا اور ارتداد وغیرہ کے حوالے سے شریعت کے احکام بیان کریں۔ اس میں شبہ نہیں کہ کتاب و سنت کی روشنی میں اس طرح کے تمام احکام کی شرح و وضاحت کا کام علما ہی کو زیب دیتا ہے اور وہی اس کے کرنے کے اہل ہیں۔ علما کے اس کام پر پابندی لگانا تو درکنار، اس کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنا بھی بالکل ممنوع قرار پانا چاہیے۔ تاہم، ریاستی سطح پر قانون سازی اور اس قانون سازی کے مطابق مقدمات کے فیصلے کرنے کا معاملہ محض مختلف علما کے رائے دے دینے ہی سے پورا نہیں ہو جاتا۔ اس کے آگے بھی کچھ اہم مراحل ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں، سب سے پہلے ملک کی پارلیمان کو مختلف علما کی رائے سامنے رکھتے اور ان کے پیش کردہ دلائل کا جائزہ لیتے ہوئے، ملکی سطح پر قانون سازی کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے، ملکی سطح پر قانون سازی کرتے ہوئے تمام مکاتبِ فکر اور علما کی رائے کو سامنے تو رکھا جا سکتا ہے، مگر ان سب کی رائے کو مانا نہیں جاسکتا۔ رائے بہرحال وہی نافذالعمل ہوگی اور ملکی اور ریاستی قانون کا حصہ بنے گی، جو پارلیمان کے نمائندوں کے نزدیک زیادہ صائب اور قابلِ عمل سمجھی جائے گی۔ قانون سازی کے اس عمل کے بعد بھی علما کا یہ حق تو بے شک برقرار رہتا ہے کہ وہ قانون و اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے، اپنی بات کو مزید واضح کرنے، اس کے حق میں مزید دلائل فراہم کرنے اور پارلیمان کے نمائندوں کو اس پر قائل کرنے کی جدوجہد جاری رکھیں۔ لیکن ریاست کا نظم یہ تقاضا بہرحال کرتا ہے کہ اس میں جس رائے کے مطابق بھی قانون سازی کر دی گئی ہو، اس میں بسنے والے تمام لوگ عوام خواص اور علما اس قانون کا پوری طرح سے احترام کریں اور اس کے خلاف انارکی اور قانون شکنی کی فضا پیدا کرنے کی ہرگز کوشش نہ کریں۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ پارلیمان کے اختیار کردہ قانون کے مطابق عدالتوں میں پیش ہونے والے مقدمات کے فیصلے کرنے کا ہے۔ یہ مرحلہ، دراصل، قانون کے اطلاق کا مرحلہ ہے۔ اس میں عدالت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ فریقین کی رائے سن کر، ملکی پارلیمان کی قانون سازی کی روشنی میں حق و انصاف پر مبنی فیصلہ صادر کرے۔

جن فتووں کو ہم ’انتہائی غلط‘ سمجھتے اور مسلمانوں کی اجتماعیت کو جن کے شر و فساد سے بچانے کے لیے قانون سازی کو نہ صرف جائز بلکہ بعض صورتوں میں ضروری سمجھتے ہیں، ان کا تعلق دراصل قانون سازی اور اس کے بعد کے مراحل سے ہے۔

چنانچہ، مثال کے طور پر، یہ بے شک علماے دین کا کام ہے کہ وہ دین و شریعت کے اپنے اپنے فہم کے مطابق لوگوں کو یہ بتائیں کہ طلاق دینے کا صحیح طریقہ کیا ہے، اور اس میں غلطی کی صورت میں کون کون سے احکام مترتب ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی علما ہی کا کام ہے کہ وہ لوگوں کو یہ سمجھائیں کہ ان کے فہم کے مطابق کن کن صورتوں میں طلاق واقع ہو جاتی اور کن کن صورتوں میں اس کے وقوع کے خلاف فیصلہ دیا جا سکتا ہے۔ تاہم ریاستی سطح پر طلاق کے بارے میں قانون سازی، ہما شما کی رائے پر نہیں بلکہ پارلیمان کے نمائندوں کی اکثریت کے کسی ایک رائے کے قائل ہو جانے پر منحصر ہو گی۔ پارلیمان میں طے پا جانے والی یہ رائے بعض علما کی رائے کے خلاف تو ہو سکتی ہے، مگر ریاست میں واجب الاطاعت قانون کی حیثیت سے اسی کو نافذ کیا جائے گا اور، علما سمیت، تمام لوگوں پر اس کی پابندی کرنی لازم ہو گی۔ مزید برآں، یہ فیصلہ کہ زید یا بکر کے کسی خاص اقدام سے اس کی طلاق واقع ہو گئی یا اس کا نکاح فسخ ہو گیا ہے، ایک عدالتی فیصلہ ہے، جس کا دین کی شرح و وضاحت اور علماے کرام کے دائرہء کار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر یہ فیصلے بھی علماے کرام ہی کو کرنے ہیں، تو پھر مولانا محترم ہی ہمیں سمجھا دیں کہ عدالتوں کے قیام اور ان میں مقدمات کو لانے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے۔

اسی طرح، یہ علماے دین ہی کا کام ہے کہ وہ اپنے نقطہء نظر کے مطابق ارتداد کی صورتوں اور ان کی مجوزہ سزاؤں کو پارلیمان سے منوانے کی کوشش کریں۔ تاہم یہ ان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی رائے کے خلاف، پارلیمان کے نمائندوں کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیں۔ مزید برآں، کسی خاص شخص کو مرتد قرار دینا بھی، چونکہ قانون کے اطلاق ہی کا مسئلہ ہے، اس لیے یہ بھی علما کے نہیں بلکہ عدالت کے دائرے کی بات ہے، جو اسے مقدمے کے گواہوں کے بیانات، ان پر جرح اور ملزم کو صفائی کا پورا پورا موقع دے دینے کے بعد انصاف کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہی کرنا چاہیے۔ یہی معاملہ کسی فرد یا گروہ کو کافر یا واجب القتل قرار دینے اور اس سے ملتے جلتے معاملات کا ہے۔ چنانچہ، فتووں کے ’انتہائی غلط استعمال‘ ہی کی ایک مثال بنگلہ دیشی عدالت کا فیصلہ صادر ہونے کے بعد اگلے ہی روز سامنے آئی، جب بنگلہ دیشی علما کے ایک گروہ نے فیصلہ کرنے والے جج کو ’مرتد‘ اور، ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں، واجب القتل قرار دے دیا۔ مولانا محترم ہی ہمیں یہ بتائیں کہ اگر اس قسم کے فتوے کو سن کر کوئی مذہبی انتہا پسند فیصلہ کرنے والے جج کو، صفائی کا موقع دیے یا اس کی بات کو سمجھے بغیراپنے طور پر خدا نخواستہ، قتل کر دے تو کیا ریاست کو ایسے انتہا پسندوں کے ساتھ ساتھ فتووں کا یہ ’انتہائی غلط استعمال‘ کرنے والے علما کو کوئی سزا نہیں دینی چاہیے؟ مولانا محترم کا جواب یقیناًنفی ہی میں ہو گا، کیونکہ اس معاملے میں ان کا ’فتویٰ‘ تو یہی ہے کہ فتووں کے اس ’انتہائی غلط استعمال‘ کی روک تھام کے لیے بھی اگر کوئی اقدام ہونا چاہیے، تو وہ ’غیر سرکاری سطح‘ ہی پر ہونا چاہیے۔

مولانا کی مذکورہ رائے کے برعکس، ہمارے نزدیک، فتووں کے اس طرح کے ’انتہائی غلط استعمال‘ کی روک تھام کے لیے ’سرکاری سطح پر‘ مناسب قانون سازی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔

اس ضمن میں علما صحابہ کا اسوہ ہمارے سامنے ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات معلوم ہے کہ انھیں تقسیمِ میراث کے معاملے میں عول و رد کے قانون سے اتفاق نہیں تھا۔ تاہم ان کا یہ اختلاف ہمیشہ جائز حدود کے اندر ہی رہا۔ وہ اپنے اس اختلاف کا ذکر اپنے شاگردوں میں تو کرتے تھے اور بے شک یہ ان کا فطری حق بھی تھا، مگر انھوں نے نہ اپنے اس اختلاف کی وجہ سے قانون سازی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی، نہ اس کی بنیاد پر حکومت کے خلاف پراپگینڈہ کیا اور نہ ریاست میں تقسیمِ وراثت کے معاملے میں اپنے فتوے جاری کیے۔

علماے کرام کے فتوے بھی جب تک ان اخلاقی اور قانونی حدود کے اندر رہیں، اس وقت تک وہ یقیناًخیر و برکت ہی کا باعث بنیں گے۔ مگر ان حدود سے باہرپارلیمان اور عدالتوں کے کام میں مداخلت کرنے والے فتووں پر پابندی نہ صرف مسلمانوں کی اجتماعی مصلحت کے لیے ضروری ہے، بلکہ منظم اجتماعی زندگی کی تشکیل کے لیے ناگزیر محسوس ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ صحیح باتوں کے لیے دلوں میں جگہ پیدا فرمائے اور غلط باتوں کے شر سے ہم سب کو دنیا اور آخرت میں محفوظ و مامون رکھے۔

نقد و نظر

(مئی و جون ۲۰۰۱ء)

مئی و جون ۲۰۰۱ء

جلد ۱۲ ۔ شمارہ ۵ و ۶

اہلِ علم سے ایک گزارش
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حدیثِ رسولؐ پڑھنے اور پڑھانے کے آداب
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

قرآنِ کریم اور عربی زبان
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

دینی مدارس اور موجودہ حکومت
ڈاکٹر محمد امجد تھانوی

غامدی صاحب کے ارشادات پر ایک نظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

توضیحات
خورشید احمد ندیم

غامدی صاحب اور خبرِ واحد
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علماء اور سیاست
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا زاہد الراشدی کی خدمت میں
معز امجد

علماء کے سیاسی کردار پر جناب غامدی کا موقف
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مجھے ان باتوں سے اتفاق نہیں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا زاہد الراشدی کے فرمودات کا جائزہ
معز امجد

امام ابن تیمیہ، الجزائر کی جنگِ آزادی، اور جہادِ افغانستان
ڈاکٹر محمد فاروق خان

معز امجد اور ڈاکٹر محمد فاروق کے جواب میں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان شریعت کونسل کی مجلسِ شورٰی کے فیصلے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تعارف و تبصرہ
ادارہ

مسلمہ شخصیتوں کی آراء
مولانا محمد تقی امینی

تلاش

Flag Counter