پشاور کے سید وقار حسین صاحب نے ایک خط میں منیر احمد چغتائی صاحب آف کراچی کے اس مراسلہ کی طرف توجہ دلائی ہے جو جاوید احمد غامدی صاحب کے بعض افکار کے بارے میں میرے مضامین کے حوالہ سے گزشتہ دنوں روزنامہ اوصاف میں شائع ہوا ہے۔ یہ مراسلہ میری نظر سے گزر چکا ہے اور میں نے اپنے ذہن میں رکھ لیا تھا کہ اس کی بعض باتوں پر کسی کالم میں تبصرہ کر دوں گا۔ مگر وقار حسین کے توجہ دلانے پر اپنی ترتیب میں رد و بدل کر کے اس مراسلہ کے بارے میں ابھی کچھ عرض کر رہا ہوں۔
چغتائی صاحب کے مراسلہ کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ غامدی صاحب میدان سے بھاگ گئے ہیں، اور اس کے بعد دوسری قابل توجہ بات انہوں نے یہ کہی ہے کہ غامدی صاحب جہاد کے بارے میں قادیانیوں کے موقف کے موید ہیں۔ مجھے چغتائی صاحب کی ان دونوں باتوں سے اتفاق نہیں ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ میں نے اس گفتگو کا آغاز غامدی صاحب کو میدان سے بھگانے کے لیے نہیں کیا تھا اور نہ انہیں بھاگنے کی کوئی ضرورت ہے۔ یہ خالص مناظرانہ اسلوب کی باتیں ہیں جو نہ میرے مزاج کا حصہ ہیں اور نہ ہی غامدی صاحب اس اسلوب کے دانشور ہیں۔ میں نے ان کے بعض افکار پر برادرانہ انداز میں افہام و تفہیم کے جذبہ کے تحت اظہار خیال کیا تھا جس کے جواب میں ان کے دو شاگردوں خورشید احمد ندیم اور معز امجد نے طبع آزمائی کی مگر ان کے جوابات سے مجھے اطمینان حاصل نہیں ہوا جس کا اظہار میں نے بے تکلفی کے ساتھ بعد کے مضامین میں کر دیا۔ اب دونوں طرف کے مضامین اہل علم کے سامنے ہیں اور وہ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کس کے موقف اور دلائل میں کتنا وزن ہے۔ اس میں ہار جیت یا میدان میں ٹھہرنے اور بھاگنے کا کوئی سوال نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح کا نتیجہ اخذ کرنا اس قسم کے علمی مباحث سے مناسبت رکھتا ہے۔
جہاں تک غامدی صاحب کو جہاد کے بارے میں قادیانیوں کے موقف کا موید ظاہر کرنا ہے، یہ سراسر زیادتی ہے۔ اس لیے کہ ان کا موقف قطعاً وہ نہیں ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی نے پیش کیا ہے۔ مرزا قادیانی نے جہاد کے سرے سے منسوخ ہونے کا اعلان کیا تھا بلکہ اس کی جھوٹی نبوت کا ڈھونگ ہی جہاد کی منسوخی کے پرچار کے لیے رچایا گیا تھا۔ جبکہ غامدی صاحب جہاد کی فرضیت اور اہمیت کو پوری طرح تسلیم کرتے ہیں، البتہ جہاد کے اعلان کی مجاز اتھارٹی کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں اور اس بارے میں ان کی رائے امت کے جمہور اہل علم سے مختلف ہے جس پر ہم تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کر چکے ہیں۔
اپنے سابقہ مضامین میں عرض کر چکا ہوں کہ میں غامدی صاحب کو حضرت مولانا حمید الدین فراہیؒ کے علمی مکتب فکر کا نمائندہ سمجھتا ہوں۔ اور مولانا فراہیؒ کے بارے میں میری رائے وہی ہے جو حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کی ہے، البتہ امت کے جمہور اہل علم کے علی الرغم ان کے تفردات کو میں قبول نہیں کرتا۔ اور غامدی صاحب سے میں نے یہی عرض کیا ہے کہ علمی تفردات کو اس انداز سے پیش کرنا کہ وہ امت کے اجتماعی علمی دھارے سے الگ کسی نئے مکتب فکر کا عنوان نظر آنے لگیں، امت میں فکری انتشار کا باعث بنتا ہے۔ اور اگر اس پر اصرار کیا جائے تو اسے عالمی فکری استعمار کی ان کوششوں سے الگ کر کے دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے جو ملت اسلامیہ کو ذہنی انتشار اور فکری انارکی سے دوچار کرنے کے لیے ایک عرصہ سے جاری ہیں۔
اپنی بات کی مزید وضاحت کے لیے عرض کرنا چاہوں گا کہ کچھ عرصہ قبل ایک صاحب علم دوست نے مجھ سے سوال کیا کہ علمی تفردات میں مولانا ابوالکلام آزادؒ اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ بھی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے پیچھے نہیں ہیں۔ لیکن اس کی وجہ کیا ہے کہ ان کے تفردات علماء کے حلقہ میں اس شدت کے ساتھ موضوع بحث نہیں بنے جس شدت کے ساتھ مولانا مودودیؒ کے افکار کو نشانہ بنایا گیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا سندھیؒ اور مولانا ابوالکلام آزادؒ کے علمی تفردات پر ان کے شاگردوں اور معتقدین نے دفاع اور ہر حال میں انہیں صحیح ثابت کرنے کی وہ روش اختیار نہیں کی جو خود مولانا مودودیؒ اور ان کے رفقاء نے ان کی تحریروں پر علماء کی طرف سے کیے جانے والے اعتراضات پر اپنا لی تھی۔ چنانچہ اس روش کے نتیجہ میں وہ جمہور علماء کے مد مقابل ایک فریق کی حیثیت اختیار کرتے چلے گئے اور بحث و مباحثہ کا بازار گرم ہوگیا۔
اس حوالہ سے قریبی زمانہ میں سب سے بہتر طرز عمل اور اسوہ میرے نزدیک حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا ہے جنہیں جب بھی ان کی کسی رائے کے غلط ہونے کے بارے میں دلیل کے ساتھ بتایا گیا تو انہوں نے اس سے رجوع میں کبھی کوئی عار محسوس نہیں کی۔ بلکہ ایک روایت کے مطابق آخر عمر میں انہوں نے علماء کے ایک گروپ کے ذمہ لگا دیا تھا کہ وہ ان کی تصانیف کا مطالعہ کر کے ایسی باتوں کی نشاندہی کریں جو ان کے نزدیک سلف صالحینؒ اور جمہور اہل علم کے موقف سے مطابقت نہ رکھتی ہوں تاکہ وہ ان پر نظر ثانی کر سکیں۔
یہ بات عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ’’اصول پرستی‘‘ کی کچھ حدود ہیں اور اصول قائم کرتے وقت ان کے عملی اطلاق کا بھی لحاظ رکھنا پڑتا ہے ورنہ مسائل سلجھنے کی بجائے مزید الجھاؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح اصول کی درجہ بندی بھی ہے۔ وہ اصول جو قرآن و سنت میں قطعیت اور صراحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں وہ تو قطعی ہیں اور ان کی پابندی سے کوئی بھی شخصیت مستثنیٰ نہیں ہے۔ مگر جو اصول اہل علم نے استنباط اور استدلال کے ذریعہ خود وضع کیے ہیں ان کو قطعیت کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ اس لیے کسی بھی شخصیت یا حلقہ کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنے وضع کردہ اصولوں کو پوری امت کے لیے حتمی قرار دے کر امت کے تمام طبقات کو ان پر پرکھنا شروع کر دے۔ البتہ ان میں سے جس اصول کو امت میں اجماع کا درجہ حاصل ہو جائے یا کم از کم جمہور علماء اس سے اتفاق کا اظہار کر دیں تو اس کی بات مستثنیٰ ہے۔