امریکہ، اسلام اور دہشت گردی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’الشریعہ‘‘ کے گزشتہ شمارہ میں اسلام آباد میں متعین امریکہ کے سفیر محترم جناب ولیم بی مائیلم کے ایک خطاب کا متن قارئین نے ملاحظہ کر لیا ہو گا جو انہوں نے گزشتہ دسمبر کے اوائل میں لاہور میں ارشاد فرمایا ہے، اور اس میں انہوں نے عام طور پر پائے جانے والے اس ذہن اور تاثر کو غلط قرار دینے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ اور عالمِ اسلام اس وقت ایک دوسرے کے حریف کے طور پر آمنے سامنے کھڑے ہیں، اور امریکی فلسفہ اور اسلام کے درمیان کشمکش دن میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تصور غلط بلکہ خطرناک ہے اور ان کے خیال میں اس تصور کی بیخ کنی کرنا اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ضروری ہے۔ اور اسی مقصد کے لیے انہوں نے اپنے نقطہ نظر سے معروضی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ باور کرانے کی سعی فرمائی ہے کہ امریکہ اسلام کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ہے، جو بقول ان کے ایسے لوگوں کا پسندیدہ ہتھیار بن گئی ہے جنہیں عوامی اور اخلاقی حمایت حاصل نہیں ہوتی اور جو اپنی بات منوانے کے لیے سیاسی جدوجہد نہیں کر سکتے اور نہ ہی ان کے نظریات رائے عامہ کے لیے کشش رکھتے ہیں۔

جناب ولیم بی مائیلم کا کہنا ہے کہ امریکہ روادار، جمہوری اور جامع معاشروں کی حمایت کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اختلاف رائے کو مکالمہ اور ڈائیلاگ کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جائے اور اپنی بات منوانے کے لیے تشدد کا راستہ نہ اختیار کیا جائے۔ ان کا ارشاد ہے کہ امریکہ خود اپنے معاشرے میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو سموئے ہوئے ہے اس لیے اس کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ مخاصمت رکھتا ہے۔

ہم انتہائی ادب و احترام کے ساتھ یہ عرض کر رہے ہیں کہ محترم ولیم بی مائیلم کا یہ موقف حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا، اور تاریخی پس منظر اور معروضی حقائق کا آئینہ دار ہونے کی بجائے صرف ان خواہشات کی عکاسی کرتا ہے جو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے حکمرانوں اور پالیسی ساز دانشوروں نے عالم اسلام اور مسلمانوں کے حوالہ سے یکطرفہ طور پر اپنے دلوں میں سجا رکھی ہیں۔ اور وہ یہ چاہ رہے ہیں کہ دنیا کے سوا ارب سے زائد مسلمان اپنے عقائد، کلچر، روایات اور مذہبی احکام و قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس ایجنڈے کو آنکھیں بند کر کے قبول کر لیں جو امریکہ کی قیادت میں مغرب نے ان کے لیے طے کر لیا ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ عالم اسلام میں دینی بیداری کی تحریکات کو فروغ حاصل ہو رہا ہے اور اسلام کے ساتھ مسلمانوں کی شعوری وابستگی میں مسلسل اضافے کے ساتھ ساتھ مغرب کے معاندانہ اور متعصب رویہ کا ادراک بتدریج بڑھ رہا ہے، جس کی وجہ سے مسلم ممالک میں مغرب نواز حکمران طبقات اور اداروں کے لیے مغرب کے ایجنڈے پر آزادانہ طور پر عمل کرنا دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ اور اسی بات نے مسلمانوں کے بارے میں مغربی دانشوروں کی ذہنی الجھن کو جھنجھلاہٹ میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔

ہم جناب ولیم بی مائیلم کی طرح نظریات اور فلسفوں کی باریکیوں میں پڑنے کی بجائے معروضی حالات اور واقعات کے حوالہ سے اپنے موقف کے حق میں چند شواہد پیش کرنا چاہتے ہیں، مگر زیادہ تفصیلات میں جائے بغیر چند اصولی گزارشات پر اکتفا کریں گے تاکہ سفیر موصوف کے اس ارشاد کا حقائق کی بنیاد پر جائزہ لے کر تصویر کے اصل رخ سے قارئین کو متعارف کرایا جا سکے۔ ہم دو حوالوں سے اپنی گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں:

  1. ایک یہ کہ اس وقت عالم اسلام اور مسلم ممالک سے امریکہ کے تقاضے اور مطالبات کیا ہیں اور مسلمانوں کے معتقدات اور مسلمہ اسلامی تعلیمات کے پس منظر میں ان تقاضوں اور مطالبات کی نوعیت و حیثیت کیا ہے؟
  2. اور دوسرا یہ کہ ان تقاضوں اور مطالبات کے حوالہ سے مختلف ملکوں کے ساتھ امریکہ کے طرز عمل میں یکسانیت کا معیار کیا ہے؟ اور کسی جگہ اس یکسانیت کا فقدان نظر آتا ہے تو وہاں بادی النظر میں اس کے اسباب کیا ہیں؟

جناب ولیم بی مائیلم نے تو صرف یہ کہہ کر بات نمٹانے کی کوشش کی ہے کہ امریکہ جامع، روادار اور جمہوری معاشروں کا حامی ہے۔ اور یہ کہہ کر انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی تعلیمات اور ان کی نمائندگی کرنے والی بعض اسلامی تحریکات اسلامی معاشرہ کے لیے جامع، روادار اور جمہوری تصور کو قبول نہیں کر رہیں، جس کی وجہ سے تضاد اور کشمکش کی فضا نظر آ رہی ہے۔ مگر وہ اس تفصیل میں نہیں گئے کہ جامع، روادار اور جمہوری معاشرہ سے ان کی مراد کیا ہے؟ اس لیے اس تفصیل کو جاننے کے لیے ہمیں امریکہ کی دیگر ذمہ دار شخصیات سے رجوع کرنا پڑ رہا ہے کہ جب کوئی امریکی راہنما کسی معاشرہ سے جمہوری، روادار اور جامع ہونے کا تقاضا کرتا ہے تو اس کے ذہن میں اس کا عملی خاکہ کیا ہوتا ہے؟ چنانچہ دو ذمہ دار امریکی عہدیداروں کے حالیہ خطابات اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی کرتے ہیں: ایک امریکہ کے نائب وزیر خارجہ کارل انڈر فرتھ ہیں جنہوں نے گزشتہ دنوں ہاورڈ یونیورسٹی واشنگٹن ڈی سی میں ’’امریکی اور جنوبی ایشیا نئی صدی میں‘‘ کے عنوان سے اس مسئلہ پر وضاحت کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ اور دوسرے امریکہ کے شعبہ عالمی امور میں ایشیا پیسفک سب کمیٹی کے چیئرمین ڈوگ بیرٹر ہیں جنہوں نے واشنگٹن ڈی سی کے ولسن سنٹر میں منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں اسی مسئلہ پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔

مسٹر کارل انڈر فرتھ نے جنوبی ایشیا کے لیے امریکہ کے چار نکاتی ایجنڈے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

  • ’’امریکہ اس خطے میں جمہوریت کا فروغ چاہتا ہے۔
  • اس کی معاشی ترقی کا خواہشمند ہے۔
  • اس خطہ کے عوام کی معاشرتی بہبود کے لیے کوشاں ہے، اور
  • عالمی رو (گلوبل مین اسٹریم) میں اس کی بھرپور شمولیت کے حق میں ہے۔‘‘

جبکہ معاشی ترقی کے حوالہ سے مسٹر ڈوگ بیرٹر امریکی عزائم کا ہدف ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ:

’’امریکہ کو اس امر پر توجہ کرنی چاہیے اور اپنے وسائل کو بڑھانا چاہیے تاکہ اس ریجن میں ہمارے تجارتی مفادات کو بڑھایا جا سکے اور اس علاقے میں امریکی اثر و رسوخ قائم رہے۔‘‘

جس کا مطلب واضح ہے کہ جنوبی ایشیا میں امریکہ کی معاشی پالیسیوں کا اصل مقصد اس خطہ کے عوام کی معاشی ترقی نہیں بلکہ اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ اور اپنے تجارتی مفادات کو بڑھانا ہے۔ اور ہمارا خیال ہے کہ ایجنڈے کی باقی شقوں کے حوالہ سے بھی امریکی پالیسیوں کا ہدف اس سے مختلف نہیں ہے۔ اور یہ صرف جنوبی ایشیا کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ دنیا کے ہر حصے کے لیے امریکی پالیسیوں اور تقاضوں کا اصل ہدف اور ٹارگٹ صرف اس کے اپنے مفادات ہوتے ہیں، اور اپنے مفادات و اغراض کے علاوہ اسے اور کسی بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ورنہ حالات کا تناظر اس طرح دکھائی نہ دے کہ پاکستان میں تو ایک جمہوری حکومت کی برطرفی امریکہ کے لیے تکلیف کا باعث ہو اور کارل انڈر فرتھ صاف طور پر یہ کہیں کہ:

’’اکتوبر میں پاکستان میں ہونے والے فوجی اقدام سے پورے جنوبی ایشیا کو دھچکہ لگا ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ یہ محض عارضی ہو گا، جس طرح جنرل نے کنٹرول حاصل کیا ہے ہم اس کی تائید نہیں کر سکتے، اور ہم نے ان سے اور ان کی منتخب کی ہوئی نئی انتظامیہ سے بغیر لگی لپٹی اس کا اظہار کیا ہے۔‘‘

مگر پاکستان کے پڑوس میں خلیج عرب کے ممالک بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں عوام کے سرے سے رائے دہی کے حق سے محروم رہنے پر امریکہ کو کوئی تشویش نہ ہو۔ اور اس کی ساری جمہوریت پسندی ایک طرف لگی لپٹی تیل کے چشموں کے پاس مدہوش پڑی رہے۔

جناب ولیم بی مائیلم کا یہ کہنا بھی مغالطہ نوازی کی انتہا ہے کہ وہ جسے دہشت گردی قرار دے رہے ہیں، یعنی اپنی بات منوانے کے لیے جبر و تشدد کا سہارا لینا، وہ صرف انہی گروہوں کا پسندیدہ ہتھیار ہے جو عوامی اور اخلاقی حمایت سے محروم ہوتے ہیں اور جن کے پروگرام میں رائے عامہ کے لیے کوئی کشش نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ الجزائر کی مثال اس سلسلہ میں ہمارے سامنے ہے کہ وہاں کی اسلامی جماعتوں نے اپنا نقطہ نظر عوام کے سامنے پیش کیا، ان کی ذہن سازی کی، ان کی حمایت حاصل کی اور وہاں کے عوام کی بھارتی اکثریت نے انہیں ۱۹۹۲ء کے عام انتخابات میں اپنی نمائندگی کے لیے منتخب کر لیا۔ اس وقت وہاں کسی طرف سے تشدد کا کوئی شائبہ موجود نہیں تھا، لیکن عوام کی اس رائے کو فوجی قوت کے زور پر ٹھکرا دیا گیا جس کے نتیجے میں وہاں تشدد کی لہر اٹھی اور امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک نے عوامی فیصلے اور جمہوری عمل کے خلاف فوجی آمریت کو سپورٹ کیا۔

اس لیے یہ کہنا کہ امریکہ کو جمہوری معاشرہ سے دلچسپی ہے، قطعی طور پر غلط ہے۔ امریکہ کو صرف اپنے مفادات سے غرض ہے۔ وہ اگر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں عوام کو سرے سے رائے کا حق نہ دینے، اور الجزائر میں عوامی رائے کو فوجی طاقت کے زور پر ٹھکرانے سے پورے ہوتے ہوں تو امریکہ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اور اگر پاکستان میں وہ مفادات ایک جمہوری حکومت کے ذریعے حاصل ہو رہے ہوں تو اس جمہوری حکومت کے خلاف فوجی جنرل کا اقدام امریکہ کے لیے ناقابل قبول ہو جاتا ہے۔

اسی طرح معاشرتی بہبود کا پہلو لے لیجئے جسے مسٹر کارل انڈر فرتھ نے جنوبی ایشیا کے لیے امریکی ایجنڈے کا اہم حصہ قرار دیا ہے، مگر اس کی تشریح امریکی رہنماؤں کے نزدیک خود کارل انڈر فرتھ کے بقول یہ ہے کہ:

’’حقوق انسانی کے لیے عالمی ڈیکلیریشن کے مطابق تعلیم، خواتین کے حقوق، اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔‘‘

اور مسٹر ڈوگ بیرٹر اس کی تشریح کرتے ہیں کہ:

’’امریکی کمٹمنٹ کو ذہن نشین رکھتے ہوئے ہمیں باہمی، علاقائی اور کثیر القومی اپروچز استعمال کرنی چاہئیں تاکہ ہم اس خطہ میں ان اصولوں کو فروغ دے سکیں۔‘‘

امریکہ اور اس کے رفقاء اس حوالہ سے مسلمانوں کا یہ حق تسلیم نہیں کرتے کہ وہ انسانی حقوق، تعلیم، صحت اور دیگر مسائل میں اپنے مذہبی عقائد و احکام کی ترجیحات کا لحاظ رکھ سکیں، بلکہ وہ ان سے سیکولرازم اور حقوق انسانی کے عالمی ڈیکلیریشن کے ساتھ اسی کمٹمنٹ کی پابندی کرانا چاہتے ہیں جو امریکہ نے کر رکھی ہے، اور وہ اس کمٹمنٹ کا ساری دنیا کو پابند بنانے کے درپے ہیں، حالانکہ امریکی دانشور اچھی طرح اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ:

  • سیکولرازم کا یہ تصور کہ دینی احکام کا ریاستی نظام اور قومی معاملات سے سرے سے کوئی تعلق نہ ہو ، اسلام اور مسلمانوں کے لیے قطعی طور پر قابل قبول نہیں ہے۔
  • حقوق انسانی کے عالمگیر چارٹر کی متعدد دفعات مسلمانوں کے مسلمہ عقائد اور اسلامی احکام و قوانین سے متصادم ہیں۔
  • حقوق انسانی کا یہ چارٹر نصف صدی قبل جب ترتیب دیا گیا تھا، بیشتر مسلم ممالک ابھی آزاد نہیں ہوئے تھے اور مسلمان مجموعی طور پر اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ اس چارٹر میں اپنا نقطہ نظر شامل کرا سکتے، اس لیے یہ چارٹر یکطرفہ اور جانبدارانہ ہے۔

لیکن اس کے باوجود امریکہ اس چارٹر کو پورے عالم اسلام پر مسلط کرنے پر تلا ہوا ہے اور اس کو حتمی معیار قرار دے کر اس کے خلاف اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کے عقائد و نظریات اور روایات و اقدار کو کلیتاً مسترد کر رہا ہے۔ اور پھر اسے اس بات پر بھی اصرار ہے کہ اس کی اس مہم کو اسلام کے خلاف نہ سمجھا جائے اور امریکہ کو اسلام کا مخالف قرار نہ دیا جائے۔

جناب ولیم بی مائیلم نے جامع، روادار اور جمہوری معاشرہ کی بات کی ہے اور وہ مسلم ممالک سے تقاضہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنے اندرونی دائروں میں ان تینوں اصولوں کی پابندی کریں۔ لیکن عالمی دائرے میں، جسے مسٹر کارل انڈر فرتھ نے ’’گلوبل مین اسٹریم‘‘ سے تعبیر کیا ہے، یہی تین اصول امریکی رہنماؤں کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔ اور وہ نہ صرف مسلم ممالک بلکہ چین اور دیگر کئی ممالک کا بھی یہ حق تسلیم نہیں کرتے کہ وہ اپنے عوام کی رائے کا احترام کریں اور اپنی قوم کے عقائد و روایات اور کلچر و تمدن کو ترجیح دیں۔ گویا ان ملکوں کے عوام کی رائے امریکی لیڈروں کے نزدیک ’’رائے عامہ‘‘ نہیں کہلاتی اور امریکی فلسفہ کے نزدیک رائے عامہ کا اطلاق صرف اس پر ہوتا ہے جس سے مغرب کے کلچر اور فلسفہ کو تقویت حاصل ہوتی ہو اور مذہبی اقدار کی بجائے مذہب بیزار رجحانات کو فروغ ملتا ہو۔ ورنہ امریکہ اور یورپ کے ممالک کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ محض اپنی سیاسی، سائنسی اور معاشی بالادستی کے زور پر ایشیا اور افریقہ کے ممالک کو ان کے عوام کی رائے، مذہب اور مرضی کے علی الرغم مغربی فکر و فلسفہ کو قبول کرنے پر مجبور کریں؟

اس لیے ریاستہائے متحدہ امریکہ کے سفیر محترم سے عرض ہے کہ حالات کا رخ بالکل واضح ہے کہ امریکہ صرف اپنے مفادات کے حصول اور اپنےفکر و فلسفہ اور کلچر کے فروغ کے لیے سرگرم عمل ہے، اسے نہ جمہوری روایات اور رائے عامہ سے کوئی غرض ہے، نہ دوسری قوموں کے مذہبی تشخص کا کوئی پاس ہے اور نہ ہی ان کے کلچر اور ثقافت کی بقا سے کوئی دلچسپی ہے، حتٰی کہ اس کی جمہوریت پسندی، اس کے مفادات اور خودغرضی کی اس حد تک اسیر اور پابند ہے کہ کراچی میں اس کا فلسفہ و معیار اور ہوتا ہے اور اس سے صرف دو گھنٹے کی فضائی مسافت پر دوبئی میں اس کے نظریات اور افکار بالکل تبدیل ہو جاتے ہیں۔

لہٰذا اس نوعیت کے معروضی حقائق کی روشنی میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ امریکہ خود کو واحد سپر پاور سمجھتے ہوئے ’’گلوبل مین اسٹریم‘‘ کی قیادت اور کنٹرول سنبھالنے کے لیے بے چین ہے، اور چونکہ اس کے راستہ میں نظریاتی اور ثقافتی طور پر اسلام ایک مضبوط اور ناقابل تسخیر رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے اس لیے وہ اسلام کو اپنا حریف سمجھتے ہوئے اسلامی تصورات کو دبانے، اسلامی بیداری کی تحریکات کو کچلنے، اور مغربی ہٹ دھرمی اور ظلم و نا انصافی کے خلاف ردعمل کے طور پر ابھرنے والی قوتوں پر ’’دہشت گردی‘‘ کا لیبل چسپاں کر کے ان کی کردارکشی کی مہم میں مصروف ہے۔

آخر میں کچھ بات ’’دہشت گردی‘‘ کے حوالہ سے بھی ہو جائے کہ آخر امریکہ کے نزدیک اس کی تعریف کیا ہے؟ افغانستان کے حوالہ سے دیکھ لیں کہ وہی عمل افغان مجاہدین روس کے خلاف کریں تو امریکہ کے نزدیک یہ ان کا جہادِ آزادی ہے۔ اور اسی لہجے میں وہ امریکی مداخلت کو قبول کرنے سے انکار کریں تو وہ دہشت گردی قرار پائے۔ امریکی سفیر یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ طالبان نے اسامہ بن لادن کو پناہ دے رکھی ہے اس لیے وہ دہشت گرد ہیں، اس لیے کہ اسامہ بن لادن کو امریکہ نے دہشت گرد قرار دیا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ’’دہشت گردی‘‘ کا کوئی معروف اصول اور قانون بھی ہے یا امریکہ ہی دنیا کا واحد معیار ہے کہ جسے امریکی حکومت دہشت گرد کہہ دے اس پر وحی آسمانی کی طرح ایمان لانا پوری نسل انسانی کے ذمہ فرض ہو جاتا ہے؟

جناب ولیم بی مائیلم سے بڑے ادب کے ساتھ ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اگر بالفرض کسی وقت کوئی بڑی قوت امریکہ کی کسی ریاست میں اپنی فوجیں اتار کر اس کے تمام وسائل پر قبضہ کر لے، اور امریکہ میں ایسی حکومت ہو جو وہاں کے عوام کو ووٹ اور رائے کا حق دینے سے صاف انکار کر رہی ہو، اور اس شخصی آمریت اور قابض فوجی قوت کے درمیان گٹھ جوڑ کے خلاف آواز اٹھانے اور اپنی بات کہنے کا کوئی فورم موجود نہ رہا ہو، ایسے حالات میں اگر کوئی باغیرت امریکی شہری ’’اسامہ بن لادن‘‘ کی طرح تنگ آ کر غیر ملکی افواج کے تسلط سے اپنے وطن کو نجات دلانے کے لیے ہتھیار اٹھا لے تو کیا سفیر محترم اسے بھی دہشت گرد قرار دے دیں گے؟ اور آئندہ کیا، امریکہ تو ماضی میں اس مرحلہ سے گزر چکا ہے کہ برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف امریکی قوم نے اسی طرح ہتھیار بکف ہو کر آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ اور جناب ولیم بی مائیلم شاید یہ یاد دلانے کی ضرورت نہ ہو کہ امریکہ جس طرح آزادی کی بات کر رہا ہے خود اس کی اپنی آزادی کے پیچھے اسامہ بن لادن طرز کے کئی ’’دہشت گرد‘‘ تاریخ کے جھروکوں سے جھانک رہے ہیں۔ اور صرف برطانوی استعمار کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا عمل نہیں بلکہ افغانستان میں طالبان اور شمالی اتحاد کی باہمی جنگ کی طرح بلکہ اس سے کہیں خوفناک خانہ جنگی بھی امریکی آزادی کی بنیادوں میں صاف دکھائی دے رہی ہے۔

لہٰذا اپنے لیے الگ اور دوسروں کے لیے الگ معیار قائم نہ کیجئے، اور جن مراحل سے خود گزر کر اس مقام پر پہنچے ہیں، دوسری قوموں کو ان مراحل سے گزرتے ہوئے ان پر پھبتیاں کس کر اور انہیں طعن و طنز کا نشانہ بنا کر خود اپنے ماضی کی نفی نہ کیجئے کہ یہ زندہ اور انصاف پسند قوموں اور افراد کا شیوہ نہیں ہوتا۔ ہم نے صرف دو حوالوں سے مختصر گفتگو کی ہے:

  1. ایک یہ کہ امریکہ کی موجودہ مہم جوئی واضح طور پر اسلام اور اسلامی فلسفہ و تہذیب کے خلاف ہے۔
  2. اور دوسرا یہ کہ جس جمہوریت اور انسانی حقوق کا پرچم امریکہ نے اٹھا رکھا ہے اس کے بارے میں امریکہ نے مختلف علاقوں اور ملکوں کے لیے الگ الگ معیار قائم کر رکھا ہے۔

اس لیے جناب ولیم بی مائیلم کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ امریکہ اسلام کا مخالف نہیں ہے اور ان کا یہ ارشاد بھی حقائق کے یکسر منافی ہے کہ امریکہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم عمل ہے۔ بلکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ امریکہ انتہائی خودغرضی کے ساتھ صرف اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہا ہے اور اس کے مفادات کی راہ میں اسلام، جمہوریت یا انسانی حقوق میں سے جو فلسفہ بھی رکاوٹ بنتا ہے وہ اسے روند کر آگے بڑھنے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرتا۔

نقد و نظر

(مارچ ۲۰۰۰ء)

مارچ ۲۰۰۰ء

جلد ۱۱ ۔ شمارہ ۳

تلاش

Flag Counter