پچھلے کچھ عرصہ سے مولانا زاہد الراشدی صاحب کی تحریروں میں تین حوالے بار بار آ رہے ہیں۔ ایک دمشق پر تاتاریوں کے حملے کے دوران میں امام ابن تیمیہ کا کردار، دوسرے الجزائر کی جنگِ آزادی، اور تیسرے جہادِ افغانستان۔ چنانچہ یہ مناسب ہے کہ درجِ بالا تینوں معاملات کا تاریخی و نظریاتی جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ ہمارے آج کے حالات میں ان سے کیا کیا سبق ملتے ہیں۔
یہ ۶۹۴ھ کی بات ہے۔ ایران و عراق پر قازان نامی ایک تاتاری حکمران تھا۔ اسی سال اس نے اسلام قبول کر لیا۔ اس وقت شام سلطانِ مصر کے تحت تھا اور وہ اسے اپنے نائب منتظمِ قلعہ کے ذریعے سے کنٹرول کرتا تھا۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اس وقت شام کے دارالحکومت دمشق میں تھے۔ ۶۹۹ھ میں یہ اطلاعات آئیں کہ قازان شام پر حملہ کرنے کے لیے آ رہا ہے۔ اگرچہ اس وقت تمام تاتاری مسلمان ہو چکے تھے، تاہم ان کی دہشت انگیزی اور سفاکی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ ربیع الاول ۶۹۹ھ میں دمشق سے باہر تاتاری افواج اور سلطانِ مصر کی افواج میں مقابلہ ہوا۔ اس میں سلطانِ مصر کی افواج نے شکست کھائی۔ تاتاری فوجیں شہر میں داخل نہ ہوئیں اور شہر میں بدستور سلطانِ مصر کا نائب موجود رہا۔ البتہ، شہر میں بہت انتشار پھیل گیا اور ہر دم یہ خطرہ رہنے لگا کہ تاتاری افواج آگے بڑھ کر کہیں دمشق میں قتل و غارت کا بازار نہ گرم کر دیں۔ اس موقع پر امام ابن تیمیہؒ نے آگے بڑھ کر سیاسی کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ایک وفد کی صورت میں تاتاریوں کے بادشاہ قازان سے ملاقات کے لیے گئے اور اس کی طرف سے اہلِ دمشق کے لیے پروانۂ امن لے آئے۔ اس کے نتیجے میں دمشق پر تاتاریوں کا پراَمن قبضہ ہو گیا۔ صرف قلعہ سلطانِ مصر کی وفادار افواج کے پاس رہا۔ اس دوران میں امن و امان کے قیام کے لیے امام صاحب تاتاری حکمرانوں سے مسلسل رابطے میں رہے۔
پانچ مہینے کے بعد یعنی رجب ۶۹۹ء میں معلوم ہوا کہ تازہ دم مصری افواج شام کی طرف آ رہی ہیں۔ اگلے ہی دن تاتاریوں نے دمشق خالی کر کے شام سے واپسی اختیار کر لی۔ چونکہ شہر میں اب بھی طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا، اس لیے امام ابن تیمیہؒ نے مصری نائب السلطنت جمال الدین کا پورا پورا ساتھ دیا اور حکومتی اختیار بحال کرنے میں اس کی بھرپور مدد کی۔ چار مہینے بعد دوبارہ اطلاع ملی کہ تاتاری ایک دفعہ پھر حملہ کے لیے پر تول رہے ہیں، چنانچہ اس موقع پر امام صاحب نے نہ صرف نائب السلطنت کو بھرپور تعاون کی پیشکش کی، بلکہ جب انہیں یہ تاثر ملا کہ شاید سلطانِ مصر مقابلہ نہ کرے تو وہ خود مصر گئے اور سلطانِ مصر کو تاتاریوں کے مقابلہ پر آمادہ کیا، چنانچہ تاتاریوں کو حملے کا حوصلہ نہ ہوا۔
رجب ۷۰۲ھ میں ایک دفعہ پھر اطلاع ملی کہ تاتاری حملے کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ اس موقع پر یہ تردد پیدا ہوا کہ تاتاری بھی تو، بہرحال مسلمان ہیں، اس لیے ان کے ساتھ جنگ کی فقہی حیثیت کیا ہے۔ اس موقع پر امام ابن تیمیہؒ نے فتوٰی دیا کہ چونکہ تاتاری جارح اور ظالم ہیں اور وہ ایک پراَمن مسلمان ملک کو تکلیف دینے کے درپے ہیں، اس لیے ان کا مقابلہ پوری قوت کے ساتھ کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ تاتاریوں اور سلطانِ مصر کی افواج میں جنگ ہوئی جس میں سلطانِ مصر کو کامیابی ملی اور یوں ملکِ شام پر سلطانِ مصر کا قبضہ مستحکم ہو گیا۔
درجِ بالا پورے واقعے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امام ابن تیمیہؒ نے پہلے سے موجود مسلمان حکومت کی پوری پشت پناہی کی اور بوقتِ ضرورت مسلمانوں کو تکلیف سے بچانے کے لیے مسلمان دشمن طاقت سے کامیاب مذاکرات بھی کیے۔
اس کے بعد ہم الجزائر کی تحریکِ آزادی اور جنگِ آزادی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ الجزائر پر فرانس نے ۱۸۳۰ء میں حملہ کیا، اس وقت الجزائر عثمانی ترکوں کے تحت تھا۔ تاہم، عمومی طوائف الملوکی تھی اور ملک مختلف ریاستوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔ سید محی الدین الحسنی کی سربراہی میں مختلف ریاستوں نے فرانسیسی حملے کے خلاف مزاحمت کی۔ سید محی الدین کے بعد ان کے بیٹے عبد القادر حاکم مقرر ہوئے۔ حکومتِ فرانس نے دو مرتبہ عبد القادر سے صلح کی اور دونوں دفعہ بدعہدی کی۔ آخرِکار فرانس نے کئی چھوٹے حکمرانوں کو لالچ دے کر خرید لیا اور ۱۸۴۷ء میں امیر کو ہتھیار ڈال دینے پڑے۔ اس کے بعد یہ ملک تقریباً سو سال تک فرانس کے زیرقبضہ رہا۔
۱۹۵۴ء میں محاذ حریتِ وطنی (FLN) کے نام سے ایک تنظیم بنائی گئی۔ یہ الجزائر کے باشندوں کی واحد تنظیم تھی۔ ۱۹۵۸ء میں قاہرہ میں الجزائر کی حکومت قائم کی گئی جس کے صدر فرحت عباس مقرر ہوئے۔ اس آزاد حکومت نے الجزائر کے ان تمام علاقوں کا نظم و نسق سنبھال لیا جہاں فرانسیسی افواج کی گرفت کمزور تھی۔ اسی حکومت اور واحد تنظیم ’’محاذ حریت وطنی‘‘ کے زیرانتظام مسلح جنگ آزادی شروع ہوئی۔ جب فرانس کو اندازہ ہوا کہ اس کے لیے الجزائر کے لوگوں کو دبانا ممکن نہیں ہے تو صدر ڈیگال نے آزاد حکومت کے ساتھ بات چیت شروع کر دی، اس کے نتیجے میں ایک سمجھوتے کے تحت ۳ جولائی ۱۹۶۲ء کو الجزائر پوری طرح آزاد ہو گیا۔
اس جنگِ آزادی کی کامیابی میں جن عوامل نے فیصلہ کن کردار ادا کیا، ان میں تمام مقامی باشندوں کا ایک ہی تنظیم کے جھنڈے تلے جمع ہونا، متفقہ آزاد حکومت کا قیام، اس کے تحت آزاد علاقوں کا انتظام و انصرام، اور اسی حکومت کے تحت جہادِ آزادی کا انتظام شامل ہیں۔ اس جدوجہدِ آزادی کے فورًا بعد ایک منظم حکومت نے زمامِ اقتدار سنبھال لی۔
اب ہم افغانستان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ جن تنظیموں نے روسی جارح افواج کے خلاف مزاحمت کی، ان میں سب سے پہلی تنظیم ’’جمعیتِ اسلامی‘‘ تھی جو ۱۹۷۲ء میں بنی تھی۔ اس کے صدر برہان الدین ربانی اور سیکرٹری جنرل گلبدین حکمت یار تھے۔ ۱۹۷۹ء میں اس پارٹی میں پھوٹ پڑی اور گلبدین حکمت یار نے اپنی پارٹی ’’حزبِ اسلامی‘‘ کے نام سے بنا لی۔ اس کے بعد اس پارٹی میں بھی پھوٹ پڑی اور مولوی یونس خالص نے اپنا دھڑا علیحدہ کر لیا۔ اس کے بعد عبد الرب سیاف سعودی عرب سے آئے، ان تینوں تنظیموں کا ایک ڈھیلا ڈھالا اتحاد بنایا اور پھر اسی اتحاد کی بنا پر ’’اتحادِ اسلامی‘‘ کے نام سے اپنی پارٹی بنا ڈالی۔ اس کے بعد روایت پسندوں نے پہلے صبغۃ اللہ مجددی کی قیادت میں ’’دی افغانستان نیشنل لبریشن فرنٹ‘‘ بنائی اور محمد نبی محمدی نے ’’حرکتِ انقلابِ اسلامی‘‘ بنائی۔ اس کے بعد شاہ پرستوں نے پیر گیلانی کی قیادت میں ’’محاذِ ملی اسلامی‘‘ کے نام سے تنظیم قائم کی۔
اس مختصر تاریخ سے یہ امر بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ اصل پارٹی ایک تھی اور پھر یہی پارٹی انڈے بچے دیتی رہی اور ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی رہی۔ یہ تقسیم صرف اندرونی عوامل کا نتیجہ تھی یا اس میں بیرونی قوتوں نے فیصلہ کن کردار ادا کیا، یہ بحث ہمارے موضوع سے خارج ہے۔ ان کے علاوہ اہلِ تشیع کی بھی دو تنظیمیں (واضح رہے کہ ایک نہیں، بلکہ دو) وجود میں آ گئیں۔ تمام تنظیموں کو پاکستان کے توسط سے بیرونی امداد ملتی رہی۔ اور ان میں سے ہر تنظیم نے افغانستان کے اندر مختلف علاقوں پر اپنا اثر قائم کر لیا۔ حتٰی کہ فروری ۱۹۸۹ء میں دس حکومتیں بیک وقت قائم ہوئیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب ایک تنظیم کے پاس مالی وسائل بھی ہوں، اسلحہ بھی ہو اور ایک علاقہ بھی ہو تو وہ اپنی ریاست قائم کرنے سے نہیں ہچکچاتی۔ چنانچہ سات سنی اور دو شیعہ تنظیموں کے اپنے اپنے زیرِ اثر علاقے تھے، اور کابل پر پہلے نجیب اللہ اور پھر دوستم کی علیحدہ حکومت تھی۔ ان آٹھ برسوں میں مسلسل خانہ جنگی رہی، اس لیے یہ وقت افغانیوں پر بہت بھاری گزرا۔
اس خانہ جنگی کے ردِعمل کے طور پر اکتوبر ۱۹۹۴ء میں ’’طالبان تحریک‘‘ شروع ہوئی۔ پاکستان نے بھی اپنا پورا زور اس کی حمایت میں ڈال دیا۔ اگلے دو برسوں میں طالبان نے بیشتر علاقے فتح کر لیے۔ ستمبر ۱۹۹۶ء میں کابل بھی فتح ہو گیا۔ اس کے بعد اگلے ڈیڑھ سال میں انہوں نے بیشتر شمالی علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ فی الوقت طالبان ۹۰ فیصد علاقے پر قابض ہیں۔ پچھلے پانچ برس سے ان کی جنگ شمالی اتحاد کے احمد شاہ مسعود سے جاری ہے، جس کا کوئی نتیجہ فی الحال برآمد نہیں ہو رہا۔
درج بالا مختصر تجزیے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صرف وہی جنگِ آزادی حقیقی معنوں میں کامیاب ہو سکتی ہے جو ایک ہی تنظیم اور ایک ہی قائد کے تحت ہو۔ یہ لازم تھا کہ جمعیتِ اسلامی نہ ٹوٹتی، یا اس کو نہ توڑا جاتا۔ یہ بھی ضروری تھا کہ ۱۹۷۹ء ہی سے افغانستان کی ایک متفقہ جلاوطن حکومت قائم کر دی جاتی۔ یہی حکومت جہاد کو کنٹرول کرتی اور اسی حکومت کو بیرونی امداد ملتی۔ اگر ایسا ہوتا تو روسی افواج کے نکلتے ہی ۱۹۸۹ء میں پراَمن انتقالِ اقتدار ہو جاتا اور افغان عوام کو شدید ترین مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
طالبان تحریک کی کامیابی میں جن عوامل نے فیصلہ کن کردار ادا کیا، ان میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے باقی تمام تنظیموں کی حمایت سے دست کشی اور طالبان تحریک کی مکمل حمایت، طالبان کا ایک ہی قائد کے جھنڈے تلے کامل اتحاد، اور افغان عوام کی طویل خانہ جنگی سے بے زاری شامل ہیں۔