جدید دانش نے غالب تہذیب کی جارحیت کو اخلاقی اور فکری جواز دینے کے لیے ایک فریب کاری یہ اختیار کی ہے کہ ’’فرد “ اور ’’حق “ کے ایک خاص تصور کو آفاقی تصورات کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔ مقدمہ یہ ہے کہ فرد، اجتماع سے مقدم ہے اور اس کے کچھ ’’حقوق’’ ہیں جو فرد کی حیثیت سے اس کو معاشرے سے پہلے حاصل ہیں۔ چنانچہ معاشرہ اور اجتماع پابند ہے کہ ’’فرد “ کے ان ’’حقوق “ کو لازمی طور پر تسلیم کرے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
یہ فلسفہ تاریخی اور منطقی، دونوں اعتبار سے بے بنیاد ہے۔ تاریخی اعتبار سے تو واضح ہے کہ تاریخ کا کوئی ایسا مرحلہ ہمارے علم یا تخیل کی رسائی میں نہیں جب انسان الگ الگ، افراد کے طور پر رہ رہے ہوں اور ہمیں معلوم ہو کہ اس وقت ان کو فلاں اور فلاں ’’حقوق “ حاصل تھے۔ پھر اس کے بعد وہ مل جل کر رہنے لگے جس سے اجتماع وجود میں آیا۔ یوں اجتماع چونکہ فرد سے موخر تھا، اس لیے اجتماع سے پہلے ہی فرد اور اس کے حقوق کا کوئی تصور تاریخی طور پر پایا جاتا تھا۔
منطقی طور پر اس لیے کہ ’’فرد’’ یا ’’حق “ کی کوئی تعریف یا تصور ہی اجتماع سے الگ کر کے اور اس کا حوالہ دیے بغیر ممکن نہیں۔ کسی انسان کو فرد کہنا تبھی بامعنی ہے جب وہ دوسرے افراد کے تقابل میں ہو۔ فرض کریں، مختلف انسان دور دراز فاصلوں پر بالکل الگ الگ رہ رہے ہوں اور ان کا آپس میں کسی قسم کا کوئی تعلق یا رابطہ نہ ہو تو ایسی صورت میں ان میں سے ہر ایک کو ’’فرد “ کے طور پر متصور کرنا لایعنی بات ہوگی۔ فرد وہی ہوتا ہے جو دوسرے افراد کے ساتھ تعلق میں ہو اور امور زندگی میں ان کے ساتھ شریک ہو۔
یہی صورت حال ’’حق “ کی ہے۔ ایک دوسرے سے مکمل انقطاع میں رہنے والے انسانوں کے لیے ’’حق “ کا تصور ہی قابل تشکیل نہیں۔ ایک انسان جو اکیلا کسی جنگل میں رہ رہا ہے اور اس پر کسی قسم کی کوئی قدغن یا ذمہ داری نہیں ہے، آپ ذرا اس کے حوالے سے ’’حق “ کے تصور کو ذہن میں لانے کی کوشش کریں۔ یہ بے معنی بات ہوگی۔ ’’حق “ تبھی قابل تصور ہے جب ایک سے زیادہ انسان باہمی تعلق میں آئیں اور ایک دوسرے کی نسبت سے کسی ذمہ داری یا قدغن کا تعین کرنے کی ضرورت محسوس کریں۔
ان دونوں پیمانوں پر فرد یا حق کا کوئی تصور، اجتماع سے الگ کر کے یا اس سے پہلے قائم کرنا ممکن نہیں۔ چنانچہ یہ کہنا کہ یہاں فرد کا یا حق کا کوئی آفاقی تصور پایا جاتا ہے جس کو تسلیم کرنا، فلسفیانہ سطح پر، ہر انسانی اجتماع پر لازم قرار دیا جا سکتا ہے، ایک لایعنی بات ہے۔ فرد اور حق کے تصورات اجتماع کے وضع کردہ ہیں اور اجتماع کی ضرورتوں اور ترجیحات کے لحاظ سے ہی ان کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ میں ہر اجتماع اپنے تمدنی وتاریخی احوال کے لحاظ سے یہ طے کرتا رہا ہے کہ معاشرے کا اپنے افراد کے ساتھ کیا تعلق ہے اور کون سے حقوق ہیں جو معاشرہ، افراد کے لیے تسلیم کرتا ہے۔ یہ حقوق اجتماع کے ’’وضع کردہ“ اور اس کے ’’دیے ہوئے“ ہوتے ہیں، اجتماع ان کو خود سے پہلے موجود متصور کر کے ان کی پابندی قبول نہیں کرتا۔
موجودہ غالب تہذیب میں بھی ’’فرد “ اور ’’حق “ کا تصور تاریخ کے ایک خاص مرحلے پر ایک خاص سماجی سیاق میں وضع کیا گیا ہے جبکہ پوری انسانی تاریخ اور دنیا کے دوسرے معاشرے اس تصور سے ناواقف رہے ہیں۔ البتہ اس میں فریب کاری یہ کی گئی ہے کہ مغربی اجتماع نے فرد اور اس کے حقوق کا جو تصور خود وضع کیا ہے، اس کو دنیا کے باقی اجتماعوں پر مسلط کرنے کے لیے یہ فلسفہ گھڑ لیا گیا ہے کہ یہ کوئی آفاقی تصور ہے جس کی پابندی کسی خاص اجتماع یا تہذیب پر نہیں، بلکہ تمام انسانی معاشروں پر لازم ہے۔
--------------------
امریکا میں ٹرانس جینڈرز کے "حقوق" کے حوالے سے گزشتہ کچھ عرصے سے ایک قانونی، سیاسی اور سماجی بحث جاری ہے۔ یہ اس سوال کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لیے مددگار ہے۔
ایک معاشرے میں کسی فرد کا "حق" کیا ہے اور یہ کیسے طے ہوتا ہے؟ یہ عرض کیا گیا کہ اس کا تعین معاشرہ ہی کرتا ہے اور معاشرہ مجموعی طور پر جن اقدار اور اخلاقی تصورات کو تسلیم کرتا ہے، انھی کے تحت فرد کے حقوق کا بھی تعین کرتا ہے۔ معاشرے میں ایک یا دوسرے مجموعہ اقدار کے مابین کشمکش بھی ہو سکتی ہے اور اسی کے نتیجے میں معاشروں میں تبدیلی آتی رہتی ہے، لیکن کوئی بھی نئی قدر اسی وقت حقوق یا فرائض کی بنیاد بن سکتی ہے جب اسے معاشرے میں ایک عمومی قبولیت حاصل ہو جائے۔
مروج یا غالب اقدار میں تبدیلی کو قابل قبول بنانے کے لیے فکری وسائل عموما" معاشرے میں موجود مختلف روایتوں سے ہی اخذ کیے جاتے ہیں اور انھی کی ایک نئی تشکیل کی گنجائش یا ضرورت واضح کرتے ہوئے تبدیلی کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس پیچیدہ عمل سے صرف نظر کرتے ہوئے محض اس بنیاد پر فرد کے حقوق تسلیم نہیں کیے جاتے کہ وہ اصل ہے اور معاشرہ بس اس کے فائدے کے تحفظ کے لیے قائم ہوا ہے۔ یہ قطعی طور پر لایعنی بات ہے۔
اس بحث سے سیکولر ریاست کی غیر جانب داری کے مفروضے کی سادگی بھی نمایاں ہوتی ہے۔ اس پر اب کئی پہلوؤں سے بحثیں موجود ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ بالفعل ریاست کلی طور پر غیر جانب دار ہو ہی نہیں سکتی۔ ایک سطح پر اسے لازما" کسی ایک یا دوسری تہذیبی قدر کو اختیار کرنا اور سیاسی طاقت سے اس کو نافذ کرنا ہوتا ہے، چاہے وہ بہت سے شہریوں کے مذہبی واخلاقی تصورات کے خلاف ہو۔
ٹرانس جینڈرز کے قضیے میں، امریکی انتظامیہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جو افراد اپنی جنس تبدیل کرنا چاہیں، یہ ان کا غیر مشروط حق ہے، اس لیے امریکی اسپتالوں میں وہ بے شمار ڈاکٹر جو مسیحی اقدار پر یقین رکھتے ہیں اور تبدیلی جنس کا آپریشن کرنا ان کے مذہبی عقیدے کے خلاف ہے، وہ اپنے عقیدے کو ایک طرف رکھتے ہوئے آپریشن کرنے کے پابند ہیں، کیونکہ وہ ٹرانس جینڈرز کے ایک "حق" کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں اور اس پر انھیں ملازمت سے ہاتھ بھی دھونے پڑ سکتے ہیں۔ تاہم امریکی سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو مذہبی آزادی کے اصول کے خلاف قرار دیتے ہوئے اسے کالعدم قرار دیا اور یوں مسیحی اقدار کو ماننے والوں کے مذہبی حق کا تحفظ کیا۔
اب دیکھ لیجیے، یہاں نہ تو فرد کے حق کا تعین اور اس کی تنفیذ معاشرے میں موجود اور مسلم معیارات سے ماورا ہو کر ممکن ہے اور نہ ریاست اس معاملے میں کوئی ایسی نیوٹرل پوزیشن لے سکتی ہے جو سب کے سب شہریوں کے لیے قابل قبول ہو۔ ٹرانس جینڈرز کے نزدیک ڈاکٹرز کو پابند ہونا چاہیے کہ وہ ان کا آپریشن کریں چاہے یہ ان کے ذاتی عقیدے کو خلاف ہو، جبکہ مسیحی اقدار کے ماننے والوں کے نزدیک ان کا مذہبی عقیدہ ان کے لیے مقدم ہونا چاہیے اور انھیں اس کے خلاف کسی کام پر ریاست مجبور نہیں کر سکتی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف بائیڈن انتظامیہ نے اپیل نہ کرنے کا فیصلہ کر کے کم سے کم اس مرحلے پر اس موقف کو تسلیم کر لیا ہے۔
اس مثال سے ان دونوں مفروضوں یعنی فرد کے ازخود کوئی معیار ہونے اور ریاست کے، کلی طور پر غیر جانب دار ہونے کی سادگی کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔